2024 March 29
صحیح بخاری میں پیغمبر (ص) پر پہلی دفعہ وحی نازل ہونے کی کیفیت کا بیان
مندرجات: ١٩٥٢ تاریخ اشاعت: ١٧ May ٢٠٢١ - ١٦:١٣ مشاہدات: 13464
وھابی فتنہ » پبلک
صحیح بخاری میں پیغمبر (ص) پر پہلی دفعہ وحی نازل ہونے کی کیفیت کا بیان

 

صحیح بخاری میں پہلی دفعہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہونے کی کیفیت کو جناب عائشہ سے کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے ۔    
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ

أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَي رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَي أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَي خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّي جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّي بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّي بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ} فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَي خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّي ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَي نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَي نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّي أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّي ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً قَدْ تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَكْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَي فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَي فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَي مُوسَي يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ۔۔۔

 

صحيح بخاري ۔۔  بَدْءِ الْوَحْيِ حدیث نمبر: 3

جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو، ، میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے دبایا  کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے دبا دیا  کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو دبا دیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔

پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ  کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ  خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ  کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ  نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ علیہا السلام کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ  کی اہلیہ محترمہ خدیجہ علیہا السلام نے آپ  کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ علیہا السلام آپ  کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی ۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔آپ  نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔  کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔


   

 


آئیں  اس روایت کے بارے میں قرآن اور عقل کے آئینے میں تحقیق کرتے ہیں :

1-جیساکہ اس روایت کو جناب عايشه نے حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کے طور پر نقل نہیں کیا ہے ۔ لہذا یہ ان کی ذاتی راے اور ذاتی اجتھاد ہے ،کیونکہ وہ بغیر واسطے کے خود سے اس روایت کو نقل نہیں کرسکتی اور جیساکہ جس وقت وحی نازل ہوئی اس وقت جناب عائشہ پیدا ہی نہیں ہوئی تھی ۔.
2-
 اس روایت کے مطابق وحي کا فرشته تین مرتبہ پیغمبر کو اللہ کا کلام پڑھنے کا حکم دیتا ہے ۔ آُپ بھی یہ جواب میں فرماتے ہیں :  میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔لیکن پھر بھی اللہ کا فرشتہ انہیں اتنا دبادیتا ہے کہ آپ کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ اب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جواب{ میں نہیں پڑھ سکتا} کے بعد کیوں دوسری اور تیسری مرتبہ دیایا اور آپ کو ایک قسم کی سزا دی گئی؟ آپ کو کیوں ایسے کام کو انجام دینے کا حکم دیا اور کیوں آپ کو دبایا جبکہ آپ جانتے ہی نہیں تھے ؟ اگر دبانے کے ذریعےسے انہیں پڑھنا اور لکھنا، سکھانا مقصود تھا تو اس طرح سخت طور پر دبانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہ تو ایک معجزے سے حل بھی ہو سکتا تھا اور اگر معجزے کے بغیر اور عادی طور پر انہیں سکھانا مقصود تھا تو یہ تو صرف پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے ،دبانے سے حاصل نہیں ہوتا ۔

جیساکہ قرآن محید نے وحی کے واقعے کو بہت ہی آسان طریقے سے بیان کیا ہے اور جس طرح سے بخاری میں دبانے اور سزا دینے کی باتیں نقل ہوئی ہیں جبکہ قرآن میں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔

 

فَأَوْحى‏ إِلى‏ عَبْدِهِ ما أَوْحى{‏ النجم :  10}

 

  پھر اللہ نے اپنے بندے پر جو وحی بھیجنا تھی وہ وحی بھیجی

  قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَي إِلَيَّ...  { فصلت : آیت ۶ }

 ۔کہدیجئے: میں بھی تم جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی ہوتی ہے ۔

 اس روایت کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وحی کے وقت انتہائی خوف زدہ تھے اور آپ کا جسم کانپ رہا تھا ۔ جبکہ یہ قرآن کی آیات کے خلاف ہے ۔ قرآن نے وحی کے وقت اللہ کے پیغمبروں کو خوفزدہ نہ ہونے کا کہا ہے ۔

:يَا مُوسَي  لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْ سَلُونَ اے موسی! ڈریے نہیں، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے ۔

اس روایت کے مطابق جناب خدیجہ اور وہ مسیجی شخص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دلداری دئے رہے تھے اور انہیں پریشانی اور ٹین شن سے نجات دئے رہے تھے۔۔ اب کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو چیز اللہ اور اللہ کے فرشتے کی طرف سے نازل  شدہ چیز میں شکوک و شبھات کا شکار ہوئے تھے اور جناب خدیجہ اور نوفل کے کہنے سے انہیں اطمنان حاصل ہوئی ؟جبکہ اس طرح کہنا بھی قرآن کے خلاف ہے ؛

  وَكَذَالِكَ نُرِ ي إِبْرَ اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ.{سورہ انعام : ۷۵}

اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

 

 اب کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام جناب ابرھیم سے کم درجے کا تھا کہ آُپ اس طرح شک و شبھہہ میں پڑھ گئے؟   

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر، اللہ کے حضور میں ایک ایسی فکر اور فھم کا مالک ہوتا ہے جی جس کی رو سےشک اور شبھے سے آپ پاک  اور  منزہ ہوتا ہے ۔ اب کیا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے  اس قانون سے مستثنا ہیں ، یہاں تک کہ آپ سرگرداں ہوں اور آپ خوف و ھراس کی حالت میں ہو؟

 

5- اس روایت سے ایسا لگتا ہے کہ نبوت کے بارے میں جناب خدیجہ اور نوفل کو  آپ سے زیادہ یقین اور اطمنان تھا اور یہ دونوں باعث ہوئے کہ آپ کو بھی اپنی نبوت پر یقین حاصل ہو اور ان کے کہنے سے آپ کو آرام اور سکون ملا ۔ اب یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیسے انہیں آپ سے زیادہ آپ کی نبوت کا علم تھا ۔جبکہ قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے :  

  وَ إِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَقَهُمْ وَ مِنك وَ مِن نُّوحٍ وَ إِبْرَهِيمَ وَ مُوسي وَ عِيسي ابْنِ مَرْيمَ وَ أَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَقاً غَلِيظاً ۔

اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسی بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔

عقل اور آیات کی رو سے اس روایت پر اور بھی بہت سے اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن ہم اختصار کی خاطر انہیں پر اکتفاء کرتے ہیں اور مکتب سقیفہ کے پیروکاروں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آئیں ان سوالوں کا جواب دیں۔

 



چٹیں: پیغمبر


Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات