ابن تیمیہ اور اھل سنت کے معروف عالم مباركپوري کے شبھات مبارکپوری کے اعتراضات اور ادعاوں کے جوابات : پہلا جواب : شیعہ راوی کے بغیر صحیح سند حدیث ۔ دوسرا جواب : جعفر بن سليمان کی حدیث کی صحت تیسرا جواب : اجلح كندي کی روایت بھی معتبرة ہے ۔ ابن تیمیہ کی طرف سے اس حدیث کو نہ ماننے پر البانی کا تعجب : حدیث کے مضمون کی بحث : لفظ «ولي» کا معنی : لفظ « ولي » اور اهل سنت کے خلفاء کے ہاں اس کا استعمال نتیجہ اور خلاصہ مذکورہ حدیث کی سند کے بارے میں ابن تیمیہ کی تنقید اور اھل سنت کے دوسرے علماء کی تائید۔ |
شبھہ کی وضاحت : «هو ولي كل مؤمن بعدي» والی روایت ان روایتوں میں سے ہے کہ جو امیر المومنین عليه السلام کی امامت کو ثابت کرتی ہے اور یہ صحیح سند اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے ۔ مذکورہ حدیث کے بارے بعض نے شبھات اٹھائے ہیں ، ہم اس مقالے میں اس سلسلے میں بیان شدہ شبھات اور اعتراضات کے جواب دیں گے : ابن تيميه نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے : قوله « هو ولي كل مؤمن بعدي » كذب علي رسول الله صلي الله عليه و سلم . یہ حدیث : « علی میرے بعد ھر مومن کے ولی اور سرپرست ہیں » رسول الله صلي الله عليه و سلم . کی طرف ایک جھوٹی نسبت ہے . ابن تيمية ، أحمد بن عبد الحليم الحراني ، ، متوفاي 728، منهاج السنة النبوية ، ج 7 ص 391، دار النشر : مؤسسة قرطبة - 1406 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم اھل سنت کےمعروف عالم مباركپوري (متوفاي1353هـ) نے بھی اسی سلسلے میں لکھا ہے : 1- « وهو ولي كل مؤمن من بعدي » كذا في بعض النسخ بزيادة «مِن» و وقع في بعضها « بعدي » بحذف « من » وكذا وقع في رواية أحمد في مسنده 2- و قد استدل به الشيعة علي أن عليا رضي الله عنه ، كان خليفة بعد رسول الله من غير فصل و استدلالهم به عن هذا باطل فإن مداره عن صحة زيادة لفظ «بعدي» وكونها صحيحة محفوظة قابلة للاحتجاج. 3- و الأمر ليس كذلك فإنها : قد تفرد بها جعفر بن سليمان و هو شيعي بل هو غال في التشيع . . . وقال بن حبان في كتاب الثقات حدثنا الحسن بن سفيان حدثنا إسحاق بن أبي كامل حدثنا جرير بن يزيد بن هارون بين يدي أبيه قال بعثني أبي إلي جعفر فقلت بلغنا أنك تسب أبا بكر وعمر قال أما السب فلا ولكن البغض ما شئت فإذا هو رافضي الحمار انتهي . . . قال في التقريب: جعفر بن سليمان الضبعي أبو سليمان البصري صدوق زاهد لكنه كان يتشيع انتهي وكذا في الميزان و غيره . 1- « وهو ولي كل مؤمن من بعدي » والی یہ حدیث بعض نسخوں میں « مِن » کے ساتھ ہے ،بعض میں صرف «بعدي» ہے لفظ «من» نہیں ہے ، جیساکہ مسند احمد حنبل میں یہ اسی طرح نقل ہوئی ہے ۔ 2۔ شیعہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ بلافصل ہیں، لیکن یہ استدلال باطل ہے کیونکہ اس استدلال کے صحیح ہونے کے لئے دو بنیادی چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔ الف : لفظ «بعدي» کا اس حدیث میں ہونا. ب : یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی قابل استدلال اور صحیح ہو ۔ 3- جبکہ ایسا نہیں ہے حدیث میں یہ دو چیزیں موجود نہیں کیونکہ یہ حدیث صرف جعفر بن سليمان کے توسط سے نقل ہوئی ہے اور بھی شیعہ ہے۔ بلکہ یہ غالی شیعوں میں سے ہے(قابل توجہ بات یہ ہے کہ غالی شیعہ ، رافضی ،رافضیت میں غلو ،یہ ایسے اصطلاحات ہیں کہ جو اھل سنت کے علماء شیعوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں )، ابن حبان نے كتاب "الثقات" میں اس کے بارے میں لکھا ہے : حسن بن سفيان اور اسحاق بن أبي كامل نے جرير بن يزيد بن هارون سے نقل کیا ہے : میرے والد نے مجھے جعفر بن سليمان کے پاس بیھجا ، میں نے ان سے کہا : ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ أبو بكر اور عمر کو گالی دیتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : گالی تو نہیں دیتا ہوں لیکن دشمنی جتنی چاہئے ۔۔(ابن حبان کہتا ہے ) پس وہ گدھا رافضی ہے . . . ابن حجر نے " تقريب التهذيب میں اسی کے بارے میں لکھا ہے: جعفر بن سليمان ضُبعي أبو سليمان بصري ، انتہائی سچا اور پرہیزگار انسان ہے لیکن وہ شیعہ ہے ، ذهبي نے " ميزان الاعتدلال " میں اور دوسروں نے اس کے بارے میں یہی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ 4- و ظاهر أن قوله «بعدي» في هذا الحديث مما يقوي به معتقدا الشيعة وقد تقرر في مقره أن المبتدع إذا روي شيئا يقوي به بدعته فهو مردود قال الشيخ عبد الحق الدهلوي في مقدمته : والمختار أنه إن كان داعيا إلي بدعته ومروجا له رد وإن لم يكن كذلك قبل إلا أن يروي شيئا يقوي به بدعته فهو مردود قطعا انتهي . 4- واضح ہے کہ لفظ « بعدي » کا رسول خدا (ص) کے کلام میں ہونا شیعہ عقیدے کی تقويت کا باعث ہے (علي عليه السلام کا خلیفہ بلافصل ہونا ) اور یہ قانون اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی بدعت گذار (جیساکہ اس میں شیعہ، جعفر بن سليمان) ، کوئی حدیث پيامبر (ص) سے نقل کرئے اور یہ اس کی بدعت کی تقویت کا موجب ہو تو اس کی روایت مردود شمار ہوگی جیساکہ شيخ عبد الحق دهلوي نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے : میری راے یہ ہے کہ راوی اگر اھل بدعت ہو اور اپنی بدعت کی ترویج بھی کرتا ہو تو وہ مردود ہے اگر ایسا نہیں تو وہ مقبول ہے۔ لیکن اگر وہ ایسی روایت نقل کرئے جس سے اس کی بدعت کی تقویت ہوتی ہو تو یقینا وہ مردود ہے . 5- فإن قلت : لم يتفرد بزيادة قوله «بعدي» جعفر بن سليمان بل تابعه عليها أجلح الكندي فروي الإمام أحمد في مسنده هذا الحديث من طريق أجلح الكندي عن عبد الله بن بريدة عن أبيه بريدة قال بعث رسول الله بعثين إلي اليمن علي أحدهما علي بن أبي طالب و علي الاخر خالد بن الوليد الحديث وفي آخره « لا تقع في علي فإنه مني وأنا منه و هو وليكم بعدي و إنه مني وأنا منه وهو وليكم بعدي » . قلت : أجلح الكندي هذا أيضا شيعي قال في التقريب : أجلح بن عبد الله بن حجية يكني أبا حجية الكندي يقال اسمه يحيي صدوق شيعي انتهي وكذا في الميزان و غيره . 5- اگر یہ اشکال کرئے کہ لفظ «بعدي» کے ساتھ والی روایت کو جعفر بن سليمان نے صرف نقل نہیں کیا ہے بلكه أجلح كندي نے بھی اس کو نقل کیا ہے جیساکہ احمد بن حنبل کی سند میں اجلع کندی نے عبد اللہ بن بریدہ سے، اس نے اپنے والد بريده سے نقل کیا ہے : رسول خدا (ص) نے دو گروہ کو يمن کی طرف روانہ کیا ، علي بن أبي طالب (عليه السلام ) کو ایک گروہ کا کمانڈر اور خالد بن وليد کو دوسرے کا کمانڈر قرار دیا، اسی حدیث میں آگے چل کر نقل کیا ہے : رسول خدا (ص) نے فرمایا : « علی بن ابی طالب کو برا بلا مت کہو کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ،وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں » . (اس اشکال کے جواب میں ) ہم کہتے ہیں : یہ أجلح كندي بھی شیعہ ہے ، ابن حجر نے " تقريب التهذيب " میں اس کے بارے میں کہا ہے : أجلح بن عبد الله بن حجية کہ جس کا کنیہ أبو حجيه كندي ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا نام يحيي ہے ،یہ انتہائی سچا انسان اور شیعہ ہے اور " ميزان الاعتدلال " میں ذھبی نے اور دوسروں نے بھی ان کے بارے میں یہی تعبیر استعمال کی ہیں۔ 6- و الظاهر أن زيادة «بعدي» في هذا الحديث من وهم هذين الشيعيين و يؤيده أن الإمام أحمد روي في مسنده هذا الحديث من عدة طرق ليست في واحدة منها هذه الزيادة : فمنها ما رواه من طريق الفضل بن دكين حدثنا بن أبي عيينة عن الحسن عن سعيد بن جبير عن بن عباس عن بريدة قال غزوت مع علي اليمن فرأيت منه جفوة الحديث وفي آخره فقال يا بريدة ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم قلت بلي يا رسول الله قال :« من كنت مولاه فعلي مولاه » . ومنها ما رواه من طريق أبي معاوية حدثنا الأعمش عن سعيد بن عبيدة عن بن بريدة عن أبيه قال بعثنا رسول الله في سرية الحديث وفي آخره من كنت وليه فعلي وليه ومنها ما رواه من طريق وكيع حدثنا الأعمش عن سعد بن عبيدة عن بن بريدة عن أبيه أنه مر علي مجلس وهم يتناولون من علي الحديث وفي آخره من كنت وليه فعلي وليه فظهر بهذا كله أن زيادة لفظ «بعدي» في هذا الحديث ليست بمحفوظة بل هي مردودة فاستدلال الشيعة بها علي أن عليا رضي الله عنه كان خليفة بعد رسول الله من غير فصل باطل جدا هذا ما عندي والله تعالي أعلم . . . 6- واضح ہے کہ اس حدیث میں لفظ «بعدي» کا اضافہ کرنا انہیں دو شیعوں ( جعفر بن سليمان و اجلح كندي) کے توھم کا نتیجہ ہے اور ہماری بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ احمد بن حنبل نے اس حدیث کو کئی سند اور طریق سے نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی (لفظ «بعدي») نہیں ہے . انہی میں سے ایک یہ ہے : احمد نے فضل بن دكين سے ، انہوں نے ابن أبو عيينة سے ، انہوں نے سعيد بن جبير سے ،انہوں نے ابن عباس سے ،انہوں نے بريده سے نقل کیا ہے : ہم علي عليه السلام ، کے ساتھ جنگ يمن میں شریک تھے ۔ ان سے ایسا کام دیکھا کہ جو مجھے پسند نہیں آیا... یہاں تک کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : اے بريده ! کیا میں مومنوں پر ان کے نفسوں سے زیادہ اولی نہیں ہوں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ؛ رسول خدا (ص) نےفرمایا: « میں جس کا مولا ہوں علی اس کا مولا ہیں » انہیں میں سے ایک یہ حدیث ہے کہ احمد نے أبو معاوية کے واسطے سے اور ابن بریدہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے : رسول خدا (ص) نے ہمیں جنگ کے لئے روانہ فرمایا ...آپ نے فرمایا : « جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہیں » . انہیں میں سے ایک حدیث ،احمد نے وكيع اور الأعمش سے ، سعد بن عبيدة سے ، ابن بريدة نے اپنے والد سے نقل کیا ہے : ... اس کے آخر میں ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا : « جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولی ہیں » . ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حدیث میں لفظ «بعدي» صحیح نہیں ہے ۔ لہذا شیعوں کو اس حدیث سے علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ۔ یہ میری علمی بضاعت کے مطابق ہے اگے اللہ بہتر جانتا ہے ۔ فإن قلت : لم يتفرد جعفر بن سليمان بقوله « هو ولي كل مؤمن بعدي » بل وقع هذا اللفظ في حديث بريدة عند أحمد في مسنده ففي آخره « لا تقع في علي فإنه مني وأنا منه وهو وليكم بعدي وإنه مني وأنا منه وهو وليكم بعدي » قلت : تفرد بهذا اللفظ في حديث بريدة ، أجلح الكندي و هو أيضا شيعي . اگر یہ کہے کہ حديث « هو ولي كل مؤمن بعدي » کو صرف جعفربن سليمان نےنقل نہیں کیا ہے بلکہ یہ بريده (صحابي) کی حدیث میں بھی ہے اور " مسند احمد میں نقل ہے اور اس کے آخر میں ہے : « علی کو برا بلا مت کہوں ،کیونکہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں» (جواب ) ہم کہتے ہیں : اس حدیث کو اس لفظ کے ساتھ صرف اجلح كندي نے نقل کیا ہے اور وہ شیعہ ہے . المباركفوري ، محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم أبو العلا ، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ، ج 10 ص 146 و 147 ، متوفاي 1353 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت مبارکپوری کی باتوں کا خلاصہ : جیساکہ بیان ہوا ، اس کی طولانی گفتگو صرف ایک مطلب کو بیان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث لفظ « بعدي » کے ساتھ صحیح سند اھل سنت کی کتابوں میں نقل نہیں ہوئی ہے۔ دو دلیل اس کےلئے اس نے ذکر کیا ہے ؛ 1- یہ حدیث اھل سنت کی کتابوں میں دو سند رکھتی ہے اگرچہ اس روایت کے تمام راوی سچے ہیں ،لیکن دونوں سندوں میں دو شیعہ راوی ہیں (ایک میں جعفر بن سليمان دوسری میں أجلح بن عبد الله كندي). 2- یہ حدیث شیعہ عقیدے کی تقویت کا باعث ہے لہذا قابل قبول نہیں ہے . پھر اپنی بات کی دلیل کے لئے کہتا ہے کہ احمد بن حنبل نے اس کو مختلف سند اور طریق سے نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی لفظ بعدی موجود نہیں ہے . مبارکپوری کے ادعاوں کا جواب : ہم ابتدا میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کی یہ حدیث گوناگوں طریقے سے اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے، ذیل میں ہم اس کے چند نمونے نقل کرتے ہیں: 1- « عليٌ ولي كل مؤمن بعدي » علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار ، اسم المؤلف: أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي الوفاة: 235 ، ج 6 ص 372 ، دار النشر : مكتبة الرشد - الرياض - 1409 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : كمال يوسف الحوت 2- « هو ولي كل مؤمن من بعدي » وہ {علی} میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں۔ مسند أحمد بن حنبل ، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني الوفاة: 241 ، ج 4 ص 437، دار النشر : مؤسسة قرطبة - مصر 3- « انت ولي كل مؤمن بعدي » یا علی آپ میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ الطيالسي ، سليمان بن داود أبو داود الفارسي البصري ، مسند أبي داود الطيالسي ، متوفاي 204،ج 1 ص 360 ح 2752، دار النشر : دار المعرفة - بيروت 4- « أنت ولي كل مؤمن بعدي و مؤمنة » أحمد بن حنبل الشيباني ، متوفاي 241هـ ، فضائل الصحابة ج 2 ص 684 ح1168، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1403 - 1983 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. وصي الله محمد عباس 5- « أنت وليي في كل مؤمن بعدي » أحمد بن حنبل الشيباني ، ، متوفاي 241هـ ، مسند أحمد بن حنبل ، ج 1ص330 ، دار النشر: مؤسسة قرطبة - مصر 6- « فانه وليكم بعدي » الإصابة في تمييز الصحابة ، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852 هـ، ج 6ص 623، دار النشر : دار الجيل - بيروت - 1412 - 1992 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : علي محمد البجاوي 7- « ان علياً وليكم بعدي » البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، ج 7 ص 346، دار النشر : مكتبة المعارف - بيروت 8- « هذا وليكم بعدي » السنن الكبري ، اسم المؤلف: أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي الوفاة: 303 هـ ، ج 5 ص 133، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1411 - 1991 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د.عبد الغفار سليمان البنداري , سيد كسروي حسن 10- «أنك ولي المؤمنين من بعدي» تاريخ بغداد ، اسم المؤلف: أحمد بن علي أبو بكر الخطيب البغدادي الوفاة: 463 ، ج 4 ص 338، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 11- «أنت وليي في كل مُؤْمِنٍ بعدي» مسند أحمد بن حنبل ، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني الوفاة: 241 ، ج 1 ص 330، دار النشر : مؤسسة قرطبة - مصر 12- « إنه لا ينبغي أن أذهب إلا وأنت خليفتي في كل مؤمن من بعدي » السنة ، اسم المؤلف: عمرو بن أبي عاصم الضحاك الشيباني الوفاة: 287 ، ج 2 ص 565 ، دار النشر : المكتب الإسلامي - بيروت - 1400 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمد ناصر الدين الألباني 13- « فهو أولي الناس بكم بعدي » المعجم الكبير ، اسم المؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني الوفاة: 360هـ ، ج 22 ص 135، دار النشر : مكتبة الزهراء - الموصل - 1404 - 1983 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : حمدي بن عبدالمجيد السلفي قابل توجہ بات {اسی آخری تعبیر کو ایک جداگانہ مقالے میں تحقیق کی ہے https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=41 } پہلا جواب : شیعہ راوی کے بغیر صحیح سند حدیث ۔ مبارکپوری نے کہا ہے : قد تفرد بها جعفر بن سليمان ، یعنی اس حدیث کو صرف جعفر بن سليمان نے نقل کیا ہے . اس کے اس ادعا کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ : ان لوگوں کے ادعا کے برخلاف ،اھل سنت کے منابع میں یہ حدیث ان دو راویوں کے بغیر بھی نقل ہوئی ہے ۔ یہ حدیث صرف جعفر بن سليمان اور اجلح كندي میں منحصر نہیں ہے ۔ بلكه یہ صحیح اور معتبر سند کے ساتھ ،ان دو شیعہ راویوں کے بغیر بھی اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے ،جیساکہ البانی نے بھی اسی نکتے کی طرح اشارہ کیا ہے : ... علي أن الحديث قد جاء مفرقا من طرق أخري ليس فيها شيعي ... … اس کے علاوہ یہ حدیث گوناگوں طرق سے شیعہ راوی کے بغیر نقل ہوئی ہے ۔ الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 اب ہم اس حدیث کو اھل سنت کے پہلے درجے کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں ؛ طيالسي (متوفاي204هـ) : طیالسی اهل سنت کے برگزیدہ اور قديمي ترين محدثين میں سے ہیں ، انہوں نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے : حدثنا يونس قال حدثنا أبو داود قال حدثنا أبو عوانة عن أبي بلج عن عمرو بن ميمون عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لعلي : «أنت ولي كل مؤمن بعدي» . . . . ابن عباس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علي (ع) سے فرمایا : « تم میرے بعد مومنین کے ولی ہیں » . الطيالسي ،: سليمان بن داود أبو داود الفارسي البصري ، مسند أبي داود الطيالسي ، متوفاي 204،ج 1 ص 360 ح 2752، دار النشر : دار المعرفة - بيروت . احمد بن حنبل(متوفاي241هـ) : اسی طرح احمد بن حنبل ــ حنبلیوں کے امام ــ نے اس حدیث کو اپنی دو کتاب ،مسند اور فضائل الصحابة ، میں نقل کیا ہے : حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا يحيي بن حَمَّادٍ ثنا أبو عَوَانَةَ ثنا أبو بَلْجٍ ثنا عَمْرُو بن مَيْمُونٍ قال إني لَجَالِسٌ إلي بن عَبَّاسٍ إذا أَتَاهُ تِسْعَةُ رَهْطٍ فَقَالُوا يا أَبَا عَبَّاسٍ أما ان تَقُومَ مَعَنَا واما أَنْ تخلونا هَؤُلاَءِ قال فقال بن عَبَّاسٍ : بَلْ أَقُومُ مَعَكُمْ قال وهو يَوْمَئِذٍ صَحِيحٌ قبل أَنْ يَعْمَي قال فابتدؤا فَتَحَدَّثُوا فَلاَ ندري ما قالوا قال: فَجَاءَ يَنْفُضُ ثَوْبَهُ وَ يَقُولُ أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا في رَجُلٍ له عَشْرٌ وَقَعُوا في رَجُلٍ قال له النبي صلي الله عليه وسلم . . . فقال له أَمَا تَرْضَي أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ من مُوسَي الا أَنَّكَ لَسْتَ بنبي ، انه لاَ ينبغي أَنْ أَذْهَبَ الا وَأَنْتَ خليفتي قال : وقال له رسول اللَّهِ : « أنت وليي في كل مُؤْمِنٍ بعدي » . أحمد بن حنبل الشيباني ، ، متوفاي 241هـ ، مسند أحمد بن حنبل ، ج 1ص330 ، دار النشر: مؤسسة قرطبة - مصر. . . . عمرو بن ميمون (بن عباس کے شاگرد ) کہتا ہے : (کچھ لوگوں کے ساتھ ) ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،ایک گروہ ان کے پاس آیا : اور ابن عباس سے کہا : یا آپ ہمارے پاس آئے ،یا ہم آپ کے پاس لیکن تنھائی میں ہو کوئی اور ساتھ نہ ہو ، عمرو بن ميمون کہتا ہے : ابن عباس نے کہا : میں تمہارے پاس آتا ہوں ، ابن عباس اس وقت نابینا نہیں ہوا تھا ، اس گروہ والوں سے کہا : جو کہنا چاہتے ہو کہنا شروع کرو ؛ عمرو بن ميمون کہتا ہے : مجھے نہیں معلوم ان لوگوں نے کیا کہا ، لیکن ابن عباس اپنے لباس کو جھاڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے واپس آیا : اف و تف (یہ دو جملے بیزاری کا اظہار کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں) ، یہ لوگ ایسے کو برا بلا کہہ رہے ہیں کہ جس میں دس امتیاز موجود ہیں ، ایسے کو برا بلا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:. . . . « کیا آپ اس پر راضی نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو جناب ھارون کو موسی سے تھی ،صرف یہ کہ میرے بعد آپ پیغمبر نہیں ،آپ میرا جانشین ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں : رسول خدا (ص) نے حضرت علي (ع) سے فرمایا : « آپ میرے بعد تمام مومین پر میرا ولی اور جانشین ہیں۔ یہ حدیث کتاب " فضائل الصحابة" میں کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے : حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قثنا يحيي بن حماد قثنا أبو عوانة قثنا أبو بلج قثا عمرو بن ميمون قال اني لجالس إلي بن عباس إذ أتاه تسعة رهط قالوا : يا أبا عباس اما ان تقوم معنا و اما ان تخلو بنا عن هؤلاء قال فقال بن عباس : بل انا اقوم معكم قال : و هو يومئذ صحيح قبل ان يعمي قال : فابتدأوا فتحدثوا فلا ندري ما قالوا قال فجاء ينفض ثوبه و يقول اف و تف وقعوا في رجل له عشر . . . فقال له اما ترضي ان تكون مني بمنزلة هارون من موسي الا انك ليس نبي انه لا ينبغي ان اذهب الا و أنت خليفتي قال : و قال له رسول الله صلي الله عليه و سلم : « أنت ولي كل مؤمن بعدي ومؤمنة » . یہ اسی حدیث کے مشابہ ہے ، صرف اس حدیث کے آخری حصے معمولی فرق ہے ۔ وہ یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے علي (ع) سے فرمایا : « آپ میرے بعد مومن اور مومنہ سب کے ولی ہیں » . أحمد بن حنبل الشيباني ، متوفاي 241هـ ، فضائل الصحابة ج 2 ص 682 ح1168، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1403 - 1983 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. وصي الله محمد عباس حدیث اور حدیث کو نقل کرنے والے راویوں کی باتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد اب ہم اس حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں اھل سنت کے علماء کے اقوال کی تحقیق کرتے ہیں : حاكم نيشابوري کی تصحيح: حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ؛ أخبرنا أبو بكر أحمد بن جعفر بن حمدان القطيعي ببغداد من أصل كتابه ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا يحيي بن حماد ثنا أبو عوانة ثنا أبو بلج ثنا عمرو بن ميمون قال إني لجالس عند بن عباس إذ أتاه تسعة رهط . . . فقال له : « أما ترضي أن تكون مني بمنزلة هارون من موسي إلا أنه ليس بعدي نبي إنه لا ينبغي أن أذهب إلا وأنت خليفتي » قال بن عباس : وقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم : « أنت ولي كل مؤمن بعدي ومؤمنة » . . . . هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه بهذه السياقة . یہ حدیث صحیح ہے لیکن امام بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ الحاكم النيسابوري ، محمد بن عبدالله ، المستدرك علي الصحيحين ، ج 3 ص143ح4652، ( متوفاي 405هـ) ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1411هـ - 1990م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : مصطفي عبد القادر عطا تصحيح ذهبي : ذهبي کہ جو اھل سنت کے رجال شناس ہیں ، انہوں نے المستدرك الحاكم کے حاشیے میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی تائید کی ہے : تعليق الذهبي قي التلخيص : صحيح . المستدرك بتعليق الذهبي ، ج 3 ص 143ح4652 ، كتاب معرفة الصحابة ، (قسم ) ذكر إسلام أمير المؤمنين علي رضي الله تعالي عنه . تصحيح ألباني : ألباني نے بھی حاكم اور ذهبي کی نظر کو نقل کرنے کے بعد ، اس حدیث کی سند کے بارے میں اپنی راے کو بیان کیا ہے : . . . و أما قوله : « و هو ولي كل مؤمن بعدي » فقد جاء من حديث ابن عباس فقال الطيالسي ( 2752 ) : حدثنا أبو عوانة عن أبي بلج عن عمرو بن ميمون عنه " أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لعلي : « أنت ولي كل مؤمن بعدي » و أخرجه أحمد ( 1 / 330 - 331 ) و من طريقه الحاكم ( 3 / 132 - 133 ) و قال : صحيح الإسناد و وافقه الذهبي و هو كما قالا . رسول خدا (ص) کی یہ حدیث : » و هو ولي كل مؤمن بعدي » ابن عباس کے طریق سے نقل ہوئی ہے اور طيالسي نے اس کو اس طرح نقل کیا ہے : ہمارے لئے أبو عوانة نے أبو بلج سے ،اس نے عمرو بن ميمون سے ، اس نے ابن عباس نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے علي سے فرمایا : « أنت ولي كل مؤمن بعدي ».اس حديث کو احمد بن حنبل نے مسند(ج1ص330 الي 331 ) میں نقل کیا ہے اور اسی سند کو حاكم نيشابوري نے مستدرک (ج3ص132الي 133) میں نقل کیا ہے اور اس کو صحيح السند قرار دیا ہے " اور ذهبي نے بھی حاكم کی راے کو قبول کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے : یہ حدیث جس طرح ان دونوں نے کہا ہے ،صحیح سند ہے ۔ الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 ایک نکتہ : مبارک پور نے دو ادعا اور کیا تھا : و الظاهر أن زيادة «بعدي» في هذا الحديث من وهم هذين الشيعيين و يؤيده أن الإمام أحمد روي في مسنده هذا الحديث من عدة طرق ليست في واحدة منها هذه الزيادة ... ظاہر یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کے کلام میں لفظ « بعدي » کا اضافہ انہیں دو شیعوں کے توھم کا نتیجہ ہے اور اس کی تائید امام احمد کی مسند میں موجود متعدد طرق اور اسناد سے ہوتی ہیں، ان میں سے کسی میں بھی لفظ بعدی نہیں ہے ۔ یہ حدیث کہ جو اھل سنت کے مختلف منابع سے ،اھل سنت کے علماء کی تصریحات کے ساتھ نقل ہوئی لہذا اس اعتبار سے اب ان دو راویوں کی طرف اس قسم کی غلطی اور اشتباہ کی نسبت صحیح نہیں ،کیونکہ یہ حدیث ان دو راویوں کے بغیر بھی صحیح سند طریقے سے نقل ہوئی ہے اور مبارک پوری کی طرف سے اپنی بات کی تائید کے لئے احمد بن حنبل کی مسند کے نقلوں کو تائید کے طور پر ذکر کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جیساکہ بیان ہوا کہ احمد بن حنبل نے اپنی مسند اور فضائل صحابہ میں اس کو لفظ من بعدی کے ساتھ نقل کیا ہے . اس حدیث کے دوسرے منابع : اھل سنت کے بہت سے بزرگوں نے اس حدیث کو اپنے کتابوں میں نقل کیا ہے ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں : ابوبكرآجري (متوفاي360هـ) الآجري ، أبي بكر محمد بن الحسين ، الشريعة ، ج 4 ص 2021 ، 1488، دار النشر : دار الوطن - الرياض / السعودية - 1420 هـ - 1999 م ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي طبراني (متوفاي360هـ) الطبراني ، سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم ، المعجم الكبير ، ج 12، ص 97ح12593، دار النشر : مكتبة الزهراء - الموصل - 1404 - 1983 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : حمدي بن عبدالمجيد السلفي ابن عبد البر(متوفاي 463هـ) ابن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، ج 3 ص 1091، دار النشر : دار الجيل - بيروت - 1412 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : علي محمد البجاوي ابن عساكر(متوفاي571هـ) ابن عساكر ، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي ، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل ، ج 42 ص 199، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1995 ، تحقيق : محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري تلمساني(متوفاي 644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة ، اسم المؤلف: محمد بن أبي بكر الانصاري التلمساني المعروف بالبري (المتوفي : 644هـ) ، ج 1 ص 292 صفدي)متوفاي764هـ) الصفدي ، صلاح الدين خليل بن أيبك الصفدي ، الوافي بالوفيات ، ج 21، ص 178، دار النشر : دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م ، تحقيق : أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفي ابن كثير(متوفاي774هـ) بن كثير ، إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، البداية والنهاية ، ج 7 ص 339 و ص 346، دار النشر : مكتبة المعارف - بيروت . ابن حجر عسقلاني(متوفاي852هـ) ابن حجر ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، الإصابة في تمييز الصحابة ، ج 4ص 567 ، دار النشر : دار الجيل - بيروت - 1412 - 1992 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : علي محمد البجاوي عبد القادربغدادي(متوفاي1093هـ) عبد القادر بن عمر البغدادي ، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب ، ج 6 ص 68، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1998م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمد نبيل طريفي/اميل بديع اليعقوب واضح سی بات ہے کہ یہ صحيح سند ہے اور اس میں لفط « بعدي » بھی ہے ،لہذا اس سے ابن تيميه اور اس کی پیروی کرنے والا مباركفوري رسوا ہوجاتے ہیں کیونکہ ان دونوں نے حقیقت کو چھپانے اور اپنی اپنی ذھنیت کے مطابق اس کو بیان کرنے کی کوشش کی ۔ ایک اھم سوال : اب یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اس حد تک معتبر روایت کو معتبر کتابوں میں نہیں دیکھی یا یہ لوگ دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے ... الله اعلم . دوسرا جواب : جعفر بن سليمان کی حدیث کی صحت جعفر بن سليمان کی نقل کردہ حدیث وہی حدیث ہے جو کو مباركپوري نے رد کیا ۔ لیکن ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں: یہ حدیث اھل سنت کی بہت سی کتابوں میں رسول خدا (ص) سے نقل ہوئی ہے ،ہم انہیں میں سے ایک قدیمی ترین کتاب کے الفاظ کو بیان کرتے ہیں اور اھل سنت کے علماء کی راے کو اس سلسلے میں نقل کرتے ہیں : المصنف ابن ابي شيبه(متوفاي235هـ) : ابن ابي شيبه کہ جو اھل سنت کے قدمي ترين محدثين میں سے ہیں اور بخاری کے مشايخ میں ان کا شمار ہوتا ہے ،ان کی كتاب المصنف بھی اھل سنت کی قدیمی ترين حدیثی کتاب ہے ، مذکورہ روایت اس كتاب میں اس طرح نقل ہوئی ہے : حدثنا عفان قال ثنا جعفر بن سليمان قال حدثني يزيد الرشك عن مطرف عن عمران بن حصين قال : بعث رسول الله صلي الله عليه وسلم سرية و استعمل عليهم عليا فصنع علي شيئا أنكروه فتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم أن يعلموه وكانوا إذا قدموا من سفر بدأوا برسول الله صلي الله عليه وسلم فسلموا عليه ونظروا إليه ثم ينصرفون إلي رحالهم قال فلما قدمت السرية سلموا علي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقام أحد الأربعة فقال يا رسول الله ألم تر أن عليا صنع كذا وكذا فأقبل إليه رسول الله يعرف الغضب في وجهه فقال : « ما تريدون من علي ؟ ما تريدون من علي ؟ علي مني وأنا من علي وعلي ولي كل مؤمن بعدي » . . . . (صحابي) عمران بن حصين نقل کرتے ہیں : رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا اور علي بن أبي طالب عليه السلام کو اس لشکر کا کمانڈر قرار دیا ،کچھ غنائم ان کے ہاتھ آئے ، امير المؤمنين عليه السلام نے غنائم کے سلسلے میں جو کام انجام دیا ،اس پر چار صحابہ نے ایک دوسرے سے یہ طے کیا کہ جب پیغمبر (ص) کے پاس پہنچے تو انہیں حضرت علي عليه السلام کے اس کام کے بارے میں آگاہ کریں گے ، (اس وقت رسم یہ تھا کہ جب مسلمان سفر سے واپس آتے تو ) پہلے رسول خدا صلي الله عليه وآله و سلم کی خدمت میں پہنچتے ، ان سے ملاقات کے بعد اپنے گھر والوں سے ملنے جاتے ،یہ لوگ جب مدینہ پہنچے تو رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو سلام کیا ،پھر ان چار لوگوں نے کہنا شروع کیا : یا رسول اللہ آپ کو معلوم ہے علی نے ایسا ایسا کیا ؟ ، رسول خدا (ص) رسول اللہ صلی کو غصہ آیا اور آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر تھے فرمایا : « علی کے بارے میں کیا چاہتے ہو ،علی کے بارے میں کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ،علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » ابن أبي شيبة الكوفي ، أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، متوفاي 235هـ ، ج 6 ص 372 ، ح2121 3، دار النشر : مكتبة الرشد - الرياض - 1409 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : كمال يوسف الحوت . اھل سنت کے بزرگ علماء کی نظر : اب ہم اھل سنت کے بزرگ علماء کی نظر یہاں پیش کرتے ہیں : ابن حجر عسقلاني : انہوں نے جعفر بن سليمان کی حدیث کے بارے میں لکھا ہے : و أخرج الترمذي بإسناد قوي عن عمران بن حصين في قصة قال فيها قال رسول الله صلي الله عليه و سلم : « ما تريدون من علي ؟ إن عليا مني و أنا من علي و هو ولي كل مؤمن بعدي » . اس حدیث کو ترمذی نے قوي سند کے ساتھ عمران بن حصين سے ایک واقعے کے ضمن میں نقل ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : « علی سے کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » . ابن حجر ، أحمد بن علي بن حجر العسقلاني الشافعي ، الإصابة في تمييز الصحابة ، متوفاي 852 ، ج 4 ص 569 ، دار النشر : دار الجيل - بيروت - 1412 - 1992 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : علي محمد البجاوي ذهبي کہ جو اھل سنت کا مشہور رجال شناس ہے : انہوں نے جعفر کی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : . . . أخرجه أحمد في المسند و الترمذي و حسنه والنسائي . اس حدیث کو احمد نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے ،نسائی نے بھی اس کو نقل کیا ہے ۔ الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام ، متوفاي 748هـ ، ج 3ص 630 ، دار النشر : دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمري ــ الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ، سير أعلام النبلاء ، ج 8 ص 197، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413 ، الطبعة : التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي عبد القادر بغدادي(متوفاي1093هـ) : انہوں نے بھی جعفر بن سليمان کی اس روایت کے بارے میں لکھا ہے: وأخرج الترمذي بإسنادٍ قويٍّ عن عمران بن حصين في قصةٍ قال فيها : قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : « ما يريدون من علي ؟ إن علياً مني وأنا من علي وهو ولي كل مؤمن بعدي » . اس حدیث کو ترمذی نے قوي سند کے ساتھ عمران بن حصين سے، خدا صلي الله عليه و آله وسلم سے ایک واقعے کے ضمن میں نقل کیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : « علی سے کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » عبد القادر بن عمر البغدادي ، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب ، ج 6 ص 69، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1998م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمد نبيل طريفي/اميل بديع اليعقوب سيوطي (متوفاي911هـ) : انہوں نے بھی اسی روایت کو ابن جریر کی تصحیح کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ؛ عَنْ عمرانَ بن حُصين قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ سَرِيَّةً وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَغَنِمُوا . . . فَقَالَ : « مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيَ ؟ عَلِيٌّ مِني وَأَنَا مِنْ عَلِيَ ، وَعَلِيٌّ وَلِيُّ كُل مُؤْمِنٍ بَعْدِي » . (ش و ابن جرير و صحَّحَهُ ) . . . . . . (صحابي) عمران بن حصين نقل کرتے ہیں : رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ایک لشکر روانہ کیا اور علي بن أبي طالب عليه السلام کو اس لشکر کا کمانڈر قرار دیا ،کچھ غنائم ان کے ہاتھ آیا ، امير المؤمنين عليه السلام نے غنائم کے سلسلے میں جو کام انجام دیا تو اصحاب رسول خدا (ص) میں چار نفر نے ایک دوسرے سے یہ طے کیا کہ جب پیغمبر (ص) کے پاس پہنچے علي عليه السلام کے اس کام کے بارے میں انہیں آگاہ کریں گے ، (اس وقت رسم یہ تھا کہ جب مسلمان سفر سے واپس آتے تو ) پہلے رسول خدا صلي الله عليه وآله و سلم کی خدمت میں پہنچتے ، ان سے ملاقات کے بعد اپنے گھر والوں سے ملنے جاتے ،یہ لوگوں نے جب مدینہ پہنچے تو رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو سلام کیا ،پھر ان چار لوگوں نے کہنا شروع کیا : یا رسول اللہ آپ کو معلوم ہے علی نے ایسا ایسا کیا ؟ ، رسول خدا (ص) رسول اللہ صلی کو غصہ آیا اور آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر تھے فرمایا : « علی کے بارے میں کیا چاہتے ہو ،علی کے بارے میں کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ،علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » (اس حديث کو ابن ابي شيبه اور ابن جرير نے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے اس کو صحیح کہا ہے) . السيوطي ، عبد الرحمن الحافظ ، جامع الاحاديث ( الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير) ، ج 16 ص 256 ح7866 وج 21ص 72. متقي هندي(متوفاي 975هـ) انہوں نے بھی اس حدیث کو ابن جریر سے نقل کیا ہے ۔ . . . فقال : ما تريدون من علي ؟ علي مني وأنا من علي وعلي ولي كل مؤمن بعدي . (ش وابن جرير وصححه ) . رسول خدا (ص) رسول اللہ صلی نے فرمایا : « علی سے کیا چاہتے ہو ؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ،علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » اس حديث کو ابن ابي شيبه اور ابن جرير نے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے اس کو صحیح کہا ہے) . المتقي الهندي ، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين الهندي ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ، ج 13 ص 62، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1419هـ-1998م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمود عمر الدمياطي دوسری جگہ پر اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اور اپنی نظر بھی دیتے ہیں ؛ . . . علي مني وأنا من علي ، وعلي ولي كل مؤمن بعدي . (ش عن عمران بن حصين ؛ صحيح ) . رسول خدا (ص) رسول اللہ صلی نے فرمایا : « علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ،علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں » (اس حديث کو ابن ابي شيبه نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے) . المتقي الهندي ، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين الهندي ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ، ج 11 ص 279، ح 32941 ، ج 13 ص 62 دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1419هـ-1998م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمود عمر الدمياطي . دوسرے منابع : اھل سنت کے جن دوسرے مشھور علماء نے اس روایت کو نقل کیا ہے ہم یہاں ان میں سے بعض کے نام ذکر کرتے ہیں : طيالسي(متوفاي204هـ) الطيالسي ، سليمان بن داود أبو داود الفارسي البصري الطيالسي ، مسند أبي داود الطيالسي ، ج 1 ص 111، دار النشر : دار المعرفة - بيروت احمدبن حنبل(متوفاي241هـ) احمدبن حنبل الشيباني ، مسند أحمد ، ج 4 ص 437 ، دار النشر : مؤسسة قرطبة - مصر أحمد بن حنبل الشيباني ، فضائل الصحابة ، ج 2 ص 605و ج 2 ص 620و ج 2 ص 649، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1403 - 1983 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. وصي الله محمد عباس ابوبكر شيباني(متوفاي287هـ) أبو بكر الشيباني ، أحمد بن عمرو بن الضحاك ، الآحاد والمثاني ، ج 4ص 278، ار النشر : دار الراية - الرياض - 1411 - 1991 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. باسم فيصل أحمد الجوابرة نسايي(متوفاي303هـ) النسائي ، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي ، السنن الكبري ، ج 5 ص 132، ذكر قول النبي صلي الله عليه وسلم «علي ولي كل مؤمن بعدي» ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1411 - 1991 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د.عبد الغفار سليمان البنداري , سيد كسروي حسن . ابويعلي موصلي(متوفاي307هـ) ابويعلي ، أحمد بن علي بن المثني أبو يعلي الموصلي التميمي ، مسند أبي يعلي ، ج 1ص 293، دار النشر : دار المأمون للتراث - دمشق - 1404 - 1984 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : حسين سليم أسد . روياني(متوفاي307هـ) الروياني ، محمد بن هارون الروياني أبو بكر ، مسند الروياني ، ج 1 ص 125، دار النشر : مؤسسة قرطبة - القاهرة - 1416 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : أيمن علي أبو يماني ابن حبان(متوفاي 354هـ) ابن حبان ، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي ، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان ، ج 15 ص 373، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1414 - 1993 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : شعيب الأرنؤوط طبراني(متوفاي360هـ) الطبراني ، سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني ، المعجم الكبير ، ج 18 ص 128، دار النشر : مكتبة الزهراء - الموصل - 1404 - 1983 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : حمدي بن عبدالمجيد السلفي . و ... جعفر بن سليمان کا اھل سنت کی کتابوں میں مقام : دوسرے جواب کے آخری حصے میں مناسب یہ ہے کہ اھل سنت کی کتابوں میں جعفر بن سلیمان کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں بحث کیجائے : 1- یہ صحیح صحيح مسلم کے راویوں میں سے ہے ۔ یہ اھل سنت کے نذدیک قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتاب یعنی صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے،لہذا ان کی تضعیف کا معنی صحیح مسلم کی روایات کی تضعیف ہے ۔ ألباني نے جعفر اور ان کی اسی مذکورہ روایت کے بارے میں لکھتا ہے : . . . و هو ثقة من رجال مسلم و كذلك سائر رجاله و لذلك قال الحاكم : صحيح علي شرط مسلم وأقره الذهبي . جعفر بن سليمان قابل اعتماد اور مسلم کے راویوں میں سے ہے۔ اور روایت کے باقی راوی بھی ثقہ ہیں ، اسی لئے حاكم نيشابوري نے اس حدیث کی سند کے بارے میں کہا ہے : "یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ذھبی نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے ۔ الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 ذھبی اس کے بارے میں لکھتا ہے : ... توفي جعفر بن سليمان في سنة ثمان وسبعين ومئة ، أحتج به مسلم . جعفر بن سليمان 178 هـ ، کو فوت ہوا اور مسلم نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے . الذهبي ، محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي ، متوفاي 748، سير أعلام النبلاء ، ج 8 ص 197، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413 ، الطبعة : التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي مسلم نے اپنی الصحیح میں اس سے ۱۳ روایتیں نقل کی ہے انہیں میں سے ایک یہ ہے : حدثنا يحيي بن يحيي أخبرنا جَعْفَرُ بن سُلَيْمَانَ عن أبي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عن عبد اللَّهِ بن الصَّامِتِ عن أبي ذَرٍّ قال قال لي رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم : «يا أَبَا ذَرٍّ أنه سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ صَلَّيْتَ لِوَقْتِهَا كانت لك نَافِلَةً وَإِلَّا كُنْتَ قد أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ» . مسلم ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري ، متوفاي 261هـ ، صحيح مسلم ، ج 1 ص 448ح 648، دار النشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي . اب جعفر بن سلیمان ایک تو صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے یہی اس کی وثاقت کے لئے کافی ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی اھل سنت کے علماء نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے : 2- ذهبي نے ان کے بارے میں الامام کا لفظ استمعال کیا ہے الامام أبو سليمان الضبعي البصري . كان ينزل في بني ضبيعة فنسب إليهم . الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام ، متوفاي 748هـ ، ج 11 ص 68، دار النشر : دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمري 3- يحيي بن معين نے ان کو ثقہ کہا ہے : وروي محمد بن عثمان العبسي عن يحيي بن معين قال : . . . وكان عندنا ثقة و روي عباس عن يحيي بن معين : ثقة . الذهبي ، محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي ، أعلام النبلاء ، متوفاي 748هـ ، ج 8 ص 197، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413 ، الطبعة : التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي 4- وہ رافضی نہیں ہے مباركپوري نے انہیں غالي شیعہ اور رافضي کہا ہے اور ابن حبان سے نقل کیا ہے کہ یہ ابوبکر اور عمر کو گالی دیتا تھا : ... جعفر بن سليمان و هو شيعي بل هو غال في التشيع . . . وقال ابن حبان في كتاب الثقات ... فإذا هو رافضي الحمار انتهي اس ادعا کے جواب میں ہم اھل سنت کے ہی دو بزرگ علماء کی راے کو یہاں نقل کرتے ہیں ۔ الف : ذهبي (متوفاي748هـ) مشھور رجال شناس ،ذھبی اس ادعا کو رد کرتے ہوئے لکھتا ہے : . . . وقد قيل لجعفر بن سليمان : تشتم أبا بكر وعمر ؟ قال : لا ، و لكن بغضاً يا لك و في صحة هذه عنه نظر ، فإنه لم يكن رافضياً ، حاشاه وقال زكريا الساجي : قوله بغضاً يا لك إنما عني به جارين له ، كان قد تأذي بهما اسمهما أبو بكر و عمر . . . جعفر بن سليمان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا أبو بكر اور عمر جو گالی دیتے ہو ؟ اس نے کہا : لیکن جتنا چاہئے ان سے دشمنی کرتا ہوں . ( ذهبي کہتا ہے : ) اس والی بات کو صحیح کہنا مشکل ہے کیونکہ وہ ھرگز رافضی نہیں تھا ۔زكريا ساجي نے کہا ہے : اس جملے " جتنا چاہئے میں ان کا دشمن ہوں " سے ان کا مقصد اس کے دو ھمسایہ والے تھے ایک کا نام ابوبکر تھا ایک کا عمر تھا اور یہ دونوں انہیں تکلیف پہنچاتے تھے . الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام ، متوفاي 748هـ ، ج 11 ص 68 ، دار النشر : دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمري ... ويروي أن جعفرا كان يترفض فقيل له أتسب أبا بكر وعمر قال لا و لكن بغضا يا لك ، فهذا غير صحيح عنه . یہ نقل ہوا ہے کہ جعفر رافضي تھا اور اس سے یہ سوال ہوا کہ : کیا تم عمر اور ابوبکر کو گالی دیتے ہو تو اس نے کہا ،نہیں "لیکن جتنا چاہئے ان سے دشمنی کرتا ہوں " (ذهبي کہتا ہے :) جعفر کے بارے میں یہ بات صحیح نہیں ہے . سير أعلام النبلاء ، اسم المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله متوفاي 748 ، ج 8 ص 197، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413 ، الطبعة : التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ب : محمد ناصر الدين ألباني : ألباني نے بھی اس کے رافضی ہونے کے نظریے کو رد کیا ہے : إنه قال في ثقاته ( 6 / 140 ) : " كان يبغض الشيخين " . و هذا ، و إن كنت في شك من ثبوته عنه ، فإن مما لا ريب فيه أنه شيعي لإجماعهم علي ذلك و لا يلزم من التشيع بغض الشيخين رضي الله عنهما و إنما مجرد التفضيل و الإسناد الذي ذكره ابن حبان برواية تصريحه ببغضهما ، فيه جرير بن يزيد بن هارون و لم أجد له ترجمة و لا وقفت علي إسناد آخر بذلك إليه و مع ذلك فقد قال ابن حبان عقب ذاك التصريح : " و كان جعفر بن سليمان من الثقات المتقنين في الروايات غير أنه كان ينتحل الميل إلي أهل البيت . ابن حبان نے کتاب " الثقات (ج 6ص140) میں یہ کہا ہے : " وہ شیخین سے بغض رکھتا تھا " اس نسبت کے بارے میں مجھے شک ہے ، لیکن اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ شیعہ تھا کیونکہ بزرگ علماء کا اس پر اجماع ہے ، ( کیونکہ اولا : ) کسی کے شیعہ ہونے سے ، شيخين سے بغض رکھنا لازم نہیں آتا۔ و شیعہ (اهل سنت کی اصطلاح میں ) حضرت علی کو ابوبكر اور عمر سے افضل سمجھتے ہیں . ثانياً : جس سند میں اس کی طرح بغض شیخین کی نسبت دی ہے اس میں جرير بن يزيد بن هارون بھی ہے کہ جو مجهول الهوية ہے ( لہذا اس کی طرف اس نسبت کی سند ضعیف ہے ) اور مجھے بھی اس سلسلے میں کوئی اور سند نہیں ملی۔ ثالثاً : خود ابن حبان اسی مطلب کے بیان میں لکھتا ہے : جعفر بن سليمان ثقہ راویوں میں ہے اور قوی اور متقن روایات کے راوی ہے ۔ صرف یہ ہے کہ یہ اھل بیت علیہم السلام کی طرف مائل تھا . الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 5- اهل بدعت کی حديث بھی مقبول ہے ۔ جیساکہ بیان ہوا کہ مباركپوري اهل بيت عليهم السلام کے پیروکاروں کے ساتھ گستاخی کرتا ہے اور انہیں اھل بدعت کہتا ہے : وقد تقرر في مقره أن المبتدع إذا روي شيئا يقوي به بدعته فهو مردود قال الشيخ عبد الحق الدهلوي في مقدمته و المختار أنه إن كان داعيا إلي بدعته و مروجا له رد وإن لم يكن كذلك قبل إلا أن يروي شيئا يقوي به بدعته فهو مردود قطعا انتهي . یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر بدعت گذار (شیعہ کو بدعت گزار کہا ہے اور یہاں بھی مقصود یہی راوی ،جعفر ہے ) ، پيامبر (ص) سے ایسی روایت نقل کرئے جو اس کی بدعت کی تقویت کا باعث ہو (اور روایت بھی اھل سنت کے لئے نقل کرئے ) تو اس کی یہ والی حدیث قابل قبول نہیں پے جیساکہ شيخ عبد الحق دهلوي نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے : میری راے یہ ہے کہ راوی اگر اھل بدعت ہو اور اس سے اس کی بدعت کو تقویت ملتی ہو تو اس کی روایت مردود ہے اگر ایسا نہ ہو تو اس کی روایت مقبول ہے ،لیکن اگر وہ ایسی حدیث نقل کرئے کہ جو اس کی بدعت کی تقویت کا باعث ہو تو یہ یقینا مردود ہے ۔ ہم اس کی اس بڑے ادعا اور بلند پروازی کے جواب میں عصر حاضر کے ہی اھل سنت کے عالم البانی کے جواب پر ہی اکتفاء کرتے ہیں : ألباني ـ ـ جس کو اھل سنت والے بخاری عصر بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے اس ادعا اور ایسی احادیث کے بارے میں کہتا ہے کہ جس کو اھل سنت کی نگاہ میں کسی بدعتی نے نقل کیا ہو : و كان جعفر بن سليمان من الثقات المتقنين في الروايات غير أنه كان ينتحل الميل إلي أهل البيت و لم يكن بداعية إلي مذهبه و ليس بين أهل الحديث من أئمتنا خلاف أن الصدوق المتقن إذا كان فيه بدعة و لم يكن يدعو إليها ، أن الاحتجاج بأخباره جائز . جعفر بن سليمان قابل اعتماد اور قوی روایات کے راوی ہے ۔ یہ ہے کہ اھل بیت کی طرف مائل تھا لیکن وہ اپنے مذھب کی طرف دعوت نہیں دیتا تھا ۔اور ہمارے اھل حدیث کے اماموں کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی قابل اعتماد اور سچا ہو اور وہ اھل بدعت بھی ہو لیکن اپنے بدعت کی طرف دعوت نہیں دیتا ہو تو اس کی صحیح سند احادیث کو لینے میں کوئی حرج ہی نہیں ہے ۔ الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 تیسرا جواب : اجلح كندي کی روایت بھی معتبرة ہے ۔ مباركپوري نے اجلح کی روایت کو بھی رد کیا ہے جبکہ اھل سنت کے علماء نے اس روایت کو بھی حسن اور معتبر حدیث کہا ہے اور اجلح کو بھی جمهور اهل سنت نے قابل اعتماد جانا ہے ۔ 1- ألباني کی تصريح: انہوں نے اجلع کی نقل کردہ حدیث کو جعفربن سليمان کی نقل کردہ حدیث کے صحیح ہونے پر شاہد کے طور پر پیش کیا ہے اور اپنی راے کو واضح طور پر نقل کیا ہے: و للحديث شاهد يرويه أجلح الكندي عن عبد الله بن بريدة عن أبيه بريدة قال : بعث رسول الله صلي الله عليه وسلم بعثين إلي اليمن ، علي أحدهما علي بن أبي طالب . . . فذكر القصة بنحو ما تقدم ، و في آخره : « لا تقع في علي ،فإنه مني و أنا منه و هو وليكم بعدي و إنه مني و أنا منه و هو وليكم بعدي » أخرجه أحمد (5/356) قلت : و إسناده حسن . ِحعفربن سليمان کی حدیث کے لئے شاھد بھی ہے اور وہ أجلح كندي نے عبد الله بن بريده سے ، اس نے اپنے والا بریدہ سے ، اور اس نے رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے دو گروه کو روانہ کیا ،ایک کا کمانڈر علي بن أبي طالب عليه السلام تھا ، یہ یمن کی طرف چلے گئے اور ... بريده نے واقعے کو اسی طرح بیان کیا ہے جس کا ذکر پہلے ہوگیا ، وہ کہتا یے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا : « علی کے بارے میں بدگوئی نہ کرئے ،کیونکہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تم لوگوں کو ولی ہیں ». اس حديث کو احمد بن حنبل (5/356) نے نقل کیا ہے . اور میں کہتا ہوں : اس حدیث کی سند حسن ہے . الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 2- حافظ عراقي کی تصريح: وہ ابن تیمیہ سے کئی سال پہلے اور مبارکپوری سے کئی صدیاں پہلے جیتا تھا ، انہوں نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : خرج أحمد من طريق الأجلح الكندي عن ابن بريدة عن أبيه قال : بعث رسول الله صلي الله عليه و سلم بعثين إلي اليمن علي أحدهما علي والآخر خالد فقال : إذا التقيتما فعلي علي الناس وإن افترقتما فكل منكم علي حده فظهر المسلمون فسبوا فاصطفي علي امرأة من السبي لنفسه فكتب خالد إلي النبي صلي الله عليه و سلم بذلك فلما أتيته دفعت الكتاب فقرئ عليه فرأيت الغضب في وجهه فقلت : يا رسول الله هذا مكان العائذ بك فقال : « لا تقع في علي فإنه مني وأنا منه وهو وليكم بعدي » . قال جدنا للأم ، الزين العراقي : الأجلح الكندي وثقه الجمهور و باقيهم رجاله رجال الصحيح . أحمد نے أجلح كندي کے طریق سے ابن بریدہ سے نقل کیا ہے اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم نے دو لشکر یمن کی طرف روانہ کیا ،ایک کا کمانڈرعلی ابن ابی طالب مقرر ہوا اور ایک کا خالد کو کمانڈر بنایا اور یہ دستور دیا کہ جب بھی یہ دونوں اکھٹے ہو تو پھر حضرت علی علیہ السلام سب کے کمانڈر ہوں گے ۔ اور یہ دونوں جدا ہوں تو ھر ایک پر اپنا کمانڈر کمانڈری کرئے گا ۔یہ لشکر جنگ میں کامیاب ہوا اور دشمن کو اسیر بنایا ۔ حضرت علی نے بھی ان میں سے ایک کنیز کو اپنے لئے انتخاب کیا ،خالد بن وليد نے اس سلسلے میں ایک خط رسول خدا صلي الله عليه و آله وسلم کو لکھا (اور وہ مجھے دیا تاکہ میں اس کو پہنچائے ) ، اور حب ہم رسول اللہ (ص) کے پاس پہنچے اور جب خط انہوں نے دیکھا تو غصہ کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے اور جب یہ حالت دیکھی تو میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔۔۔۔ آپ نے فرمایا : : « علی کو برا بلا مت کہوں ،وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے۔ وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں ». (مناوي کا کہنا ہے :) میرے نانا زين عراقي نے کہا ہے : أجلح كندي (کہ جو اس حدیث کی سند میں ہے ) کو ، جمهور علما نے ثقہ جانا ہے اور اس حدیث کے باقی راوی بھی ثقہ ہے . المناوي ، عبد الرؤوف المناوي ، متوفاي 1031هـ ، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 4 ص 357، دار النشر : المكتبة التجارية الكبري - مصر - 1356هـ ، الطبعة : الأولي . زين عراقي کون ہے ؟ یہ عبد الرحيم بن حسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر متوفاي (806 هـ) ہیں اور ابن حجر عسقلاني کہ جو اھل سنت کے معروف رجال شناس اور متعصب عالم ہے۔ اهل سنت کے منابع میں اس کو امام ، علامه ، حافظ كبير ، حافظ عصر وغیرہ کہا ہے ۔ هيثمي کہ جو اهل سنت کے بزرگ عالم ہیں اور بہت عرصہ تک اس کی خدمت میں رہا اور آخر میں اسی کا داماد بھی بنا اور بہت سی کتابیں بھی تالیف کی . نمونےکے طور پر سیوطی اس کے بارے میں لکھتا ہے : الحافظ الإمام الكبير الشهير أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين ابن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم العراقي حافظ العصر. . . و تقدم في فن الحديث بحيث كان شيوخ عصره يبالغون في الثناء عليه بالمعرفة كالسبكي و العلائي و العز بن جماعة و العماد بن كثير و غيرهم ونقل عنه الشيخ جمال الدين الإسنوي في المهمات و وصفه بحافظ العصر . . . وہ حافظ ، مشہور اور بڑا امام ، أبو الفضل ، زين الدين ، عبد الرحيم بن الحسين ابن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم العراقي ، اپنے عصر کے حافظ تھے . . . فن حدیث میں بہت ماھر تھا یہاں تک کہ اس کے زمانے کے بزرگ علماء مثلا سبكي و علائي ، عز بن جماعة ، عماد بن كثير و غيره نے ان کی بہت تعریف کی ۔ شيخ جمال الدين إسنوي نے ان سے مختلف موضوعات میں روايات نقل کیا اور انہیں اپنے زمانے کے حافظ کہا ہے .. السيوطي ، عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي ، متوفاي 911هـ ، طبقات الحفاظ ، ج 1 ص 543 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1403 ، الطبعة : الأولي ابن فهد مكي نے اس کے بارے میں لکھا ہے : عبد الرحيم بن الحسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم الكردي الرازياني ثم المصري الشافعي الإمام الأوحد العلامة الحجة الحبر الناقد عمدة الأنام حافظ الإسلام فريد دهره ووحيد عصره من فاق بالحفظ والإتقان في زمانه وشهد له بالتفرد في فنه أئمة عصره . . . وقال الحافظ تقي الدين بن رافع وهو بمكة في سنة ثلاث وستين وقد مر به الشيخ عبد الرحيم : ما في القاهرة محدث إلا هذا والقاضي عز الدين بن جماعة فلما بلغه وفاة القاضي عز الدين وهو بدمشق قال : مابقي الآن بالقاهرة محدث إلا الشيخ زين الدين العراقي . . . أبو الحسن الهيثمي . . . فلما كان قبيل الخمسين صحب الحافظ أبا الفضل العراقي و لازمه أشد ملازمة إلي أن بلغ حمامه فخدمه وانتفع به وصاهره علي ابنته . عبد الرحيم بن حسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم كردي رازياني مصري شافعي ،آپ امام ، بے مثال ، علامه ، حجت ، دانشمند ، ناقد ۔۔۔۔۔ ، حافظ اسلام ، اپنے دور کے منفرد اور بے مثال ، ایسا انسان جو حفظ اور اتقان میں ایسے مقام پر پہنچے تھے کہ ان کے دور کے بزرگوں نے ان کی منفرد حیثیت اور فن حدیث میں اس کی بزرگی کا اعتراف کیا ہے ... وحافظ تقي الدين بن رافع ــ 763 هـ مكه میں تھا اور حافظ عراقي نے اس سے تعلیم حاصل کی انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے : قاهره میں ان کے علاوہ کوئی اور محدث نہیں ہے ۔ جب قاضي عز الدين کی فوتگی کی خبر قاضي عز الدين بن جماعة کو دی گئی تو انہوں نے کہا : اب قاھرہ میں شيخ زين الدين عراقي کے علاوہ کوئی محدث باقی نہیں رہا ۔ أبو الحسن هيثمي ... جب تقریبا ۵۰ سال کا ہوا تو حافظ أبوالفضل عراقي کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان کی خدمت کرتا اور ان سے بہرہ مند ہوتا تھا اور آخر میں اس کا داماد بھی بن گیا . ابن فهد ، تقي الدين محمد بن محمد بن فهد الهاشمي المكي ، متوفاي 871 ، لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ ، ج 1 ص 220الي 239، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت اب ہم یہاں اجلع کے شیعہ ہونے کی بات کی تحقیق کرتے ہیں حديث صحیح ہونے کا معیار : مباركپوري ، نے اگرچہ اجلح كندي کے سچا ہونے کو قبول کیا ہے لیکن اس کے شیعہ ہونے کو بہانہ بنا کر (نه رافضي ہونے کو ) ، اس کی حدیث کو رد کیا ہے اور لکھا ہے : أجلح الكندي هذا أيضا شيعي قال في التقريب : أجلح بن عبد الله بن حجية يكني أبا حجية الكندي يقال اسمه يحيي صدوق شيعي وكذا في الميزان و غيره. أجلح كندي بھی شیعہ ہے ، ابن حجر نے كتاب تقريب التهذيب (میں ان کے بارے میں کہا ہے ) کہتے ہیں : أجلح بن عبد الله ،جن کا کنیہ أبو حجيه كندي ہے ۔کہتے ہیں کہ اس کا نام يحيي ہے ، بہت ہی سچا شیعہ ہے ۔۔۔۔ یہاں بھی مبارکپوری کو جواب دینے کے لئے البانی کے الفاظ کو پیش کرتے ہیں ؛ فإن قال قائل : راوي هذا الشاهد شيعة و كذلك في سند المشهود له شيعي آخر و هو جعفر بن سليمان ، أفلا يعتبر ذلك طعنا في الحديث و علة فيه ؟ ! اگر کوئی کہے : آپ نے اس روایت{کندی والی } کو جعفر بن سليمان کی روایت کی صحت پر شاہد کے طور پرلایا ہے ، لیکن اس کے راوی بھی شيعه ، اب کیا اس کا شیعہ ہونا حدیث میں عیب اور نقص کا سبب ہے ؟! جواب : فأقول : كلاّ ، لأن العبرة في رواية الحديث إنما هو الصدق و الحفظ و أما المذهب فهو بينه و بين ربه فهو حسيبه و لذلك نجد صاحبي " الصحيحين " و غيرهما قد أخرجوا لكثير من الثقات المخالفين كالخوارج و الشيعة و غيرهم . جواب میں کہتا ہوں : هرگز یہ اس کے لئے عیب نہیں ، کیونکہ حدیث قبول کرنے کا معیار راوی کا سچا ہونا اور روایت نقل کرنے میں دقت سے کام لینا ہے ۔اس کا مذھب اس کے اور اللہ کے درمیان کا مسئلہ ہے ( یہ راوی سے مربوط نہیں ہے ) ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، صحيح بخاري اور صحیح مسلم اور دوسروں نے بہت سے ایسے ثقہ راویوں سے روایت نقل کی ہے کہ جن کا مذھب اھل سنت کے مذھب سے الگ ، جیسے خوارج ، شيعه وغیرہ . الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 اس حدیث کو نہ ماننے اور اس کو جعلی قرار دینے پر البانی کا تعجب : ألباني ، نے اس حدیث کے بارے میں اپنے بیانات کے آخر میں اس روایت کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور ابن تیمیہ کی طرف سے اس روایت کو جعلی قرار دینے پر اظہار تعجب کرتے ہوئے لکھتا : فمن العجيب حقا أن يتجرأ شيخ الإسلام ابن تيمية علي إنكار هذا الحديث و تكذيبه في " منهاج السنة " (4/104) كما فعل بالحديث المتقدم هناك . . . فلا أدري بعد ذلك وجه تكذيبه للحديث إلا التسرع و المبالغة في الرد علي الشيعة ، غفر الله لنا و له . واقعا تعجب کی بات ہے ، شيخ الاسلام ابن تيميه نے منهاج السنة (ج4 ص104)میں اس حدیث کو جعلی قرار دینے اور اس کا انکار کرنے کے لئے زیادہ روئی اور جلد بازی سے کام لیا ہے جیساکہ اس سے پہلے والی حدیث کے بارے میں یہی کام کیا ... مجھے تو اس حدیث کی تکذیب کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی سوای اس کے کہ ابن تیمیہ نے جلد بازی اور شیعوں کو رد کرنے میں زیادہ روی سے کام لے کر ایسا کیا ہے ،اللہ اسے بخش دئے ۔ الالباني ، محمد ناصر الدين ، السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص222 نتيجه نهايي: اس بحث سے جو بہترین نتیجہ ہاتھ آیا وہ یہ ہے اس حدیث کو جھوٹی حدیث کہنے اور اس کے رسول خدا (ص) کی حدیث ہونے کا انکار کرنے کی کوئی وجہ اور صورت نہیں ہے سوای اس کے کوئی انسان تعصب کی زنجیروں میں جگڑا ہوا ہو ۔ حدیث کے مضمون کی بحث : اب تک ہم نے اس حدیث کے سلسلے میں جو بحثیں کی ان میں ہم نے اصل حدیث کے انکار اور اس کی تکذیب کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے شبھات اور اعتراضات کے جواب دیے ۔اور اس سلسلے میں موجود شبھات کو دور کیا ۔ اب اس سلسلے میں جو بحث باقی ہے وہ اس بحث کے مضمون کی بحث ہے ،اگرچہ یہاں بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مضمون بلکل واضح ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ اس کے مضمون اور پیغام کے سلسلے میں بھی شبھات بیان کر کے اس کے مفھوم اور مضمون کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لہذا مناسب ہے اس سلسلے میں ایک مفصل تحقیقی مقالہ تیار کیا جائے ، انشاء اللہ یہ کام بھی ہورہا ہے لیکن ہم یہاں اس شبھہ کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں : لفظ «ولي» کا معنی : بعض اھل سنت کے قدیمی علماء کے مطابق جو لفظ واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جانشینی کو بیان اور ثابت کرتا ہے وہ لفظ «وليكم بعدي » ہے ۔ جیساکہ اهل سنت کے خلفاء میں سے بعض اپنے کو رسول اللہ (ص) کے جانشین کے طور پر تعارف کرانے اور اسی طرح اپنے کسی گورنر کو تعیین کرنے کے لئے لفظ «ولي» کا استعمال کرتے تھے ۔ ابن سعد متوفاي230هـ کہ جو اهل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہے،انہوں نے ایک جعلی شیعہ اور سنی کے درمیان مناظرہ نقل کیا ہے اور سنی کی طرف سے کہتا ہے : وہ لفظ جو واضح اور روشن انداز میں کسی کے رسول اللہ ص کے بعد اس کے جانشین ہونے کو بیان کرتا ہے وہ « وليكم من بعدي » کا لفظ ہے، اگر پیغمبر (ص) حضرت علی ع کو جانشین بنانے چاہتے تو فرماتے : « علي وليكم من بعدي » جبکہ انہوں نے لفظ « مولي» کا استعمال کیا ہے : ... فقال له الرافضي : ألم يقل رسول الله عليه السلام لعلي « من كنت مولاه فعلي مولاه » فقال أما والله أن لو يعني بذلك الإمرة والسلطان لأفصح لهم بذلك كما أفصح لهم بالصلاة والزكاة وصيام رمضان وحج البيت و لقال لهم : أيها الناس هذا وليكم من بعدي . ... رافضی نے سني عالم سے کہا : کیا رسول خدا (ص) نے حضرت علي (ع) کے بارے میں نہیں فرما : « من كنت مولاه فعلي مولاه » سنی عالم نے جواب میں کہا : اللہ کی قسم اگر رسول خدا (ص) کا مقصد امیر اور حاکم ہونا ہوتا تو آپ اس سے بھی فصیح اور واضح انداز میں فرماتے ، جس طرح آپ نے نماز ،زکات اور رمضان کے روزے اور اللہ کے گھر کی زیارت وغیرہ کے بارے میں فصیح اور واضح انداز میں فرمایا ،یہاں بھی لوگوں سے کہتے : أيها الناس هذا وليكم من بعدي . ابن سعد ، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري ، الطبقات الكبري ، ج 5 ص 319 ، دار النشر : دار صادر - بيروت لیکن جب شیعہ بزرگ علماء نے لفظ ولی کو ان کی اپنی کتابوں سے صحیح سند ان کے لئے پیش کیا تو پھر اس لفظ « ولي »کو بھی فصیح اور واضح لفظ ماننے سے انکار کیا اور یہی مسئلہ لفظ« أولي بكم بعدي » اور «خليفتي من بعدي » و ... کے ساتھ بھی پیش آیا . 1 : لفظ « ولي » اور اهل سنت کے خلفاء کے ہاں اس کا استعمال : مسلم بن حجاج نيشابوري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے ، جب اميرالمؤمنين (ع) اور عباس ارث کا مطالبہ کرنے خلیفہ دوم کے پاس آیے تو خلیفہ دوم نے کہا : ... فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا . رسول خدا (صلي الله عليه وآله وسلم) کی وفات کے بعد ابوبكر نے کہا : میں رسول خدا کا ولی ہوں ، تم دونوں نے آئے اور ، اے عباس تم ! اپنے بتیجے کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا اور اے علی ! تم فاطمہ بنت پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا ابوبکر نے کہا : رسول خدا نے فرمایا ہے : ہم کوئی چیز ارث کے طور پر چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چیز ارث کے طور پر چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگی ۔ تم دونوں نے اس کو جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا ۔،جبکہ اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچا ، دیندار اور حق کے پیرو تھا ۔۔ ابوبكر کی موت کے بعد میں نے کہا : ، میں پیغمبر اور ابوبکر کے ولی اور جانشین ہوا ہوں ،لیکن پھر تم دونوں نے مجھے جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اورخائن سمجھا۔۔۔۔۔ . مسلم ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ) ، صحيح مسلم ، ج 3 ص 1378 ، ح 1757 ، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت . اس صحیح روایت میں ، خلیفہ دوم واضح انداز میں کہہ رہا ہے ابوبکر اپنے کو « ولي » اور رسول اللہ (ص) کا جانشین اور خلیفہ سمجھتا تھا ؛ لیکن امير المؤمنين عليه السلام اور عباس نے اس ادعا کی تكذيب کی اور انہیں جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا... ،جناب عمر نے بھی اپنے آپ کو رسول خدا (ص) کے ولی اور جانشین کہا لیکن جس طرح ابوبکر کے ادعا کو امیر المومنین اور عباس نے رد کیا ، عمر کو بھی جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا قرار دیا . ۲. ابوبكر : میں تم لوگوں کے « ولي » ہوا ہوں ۔ أبو بكر جب خلیفہ بنا تو اصحاب کے لئے ایک خطبہ دیا اور لفظ «ولي» کا استعمال کیا اور اپنے آپ کو «ولي امر مسلمين» قرار دیا . بلاذري نے انساب الأشراف میں ، ابن قتيبه دينوري نے عيون الأخبار میں ، طبري اور ابن كثير نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں اور اھل سنت کے دوسرے بزرگوں نے ابوبکر کے اس پہلے خطبے کو اس طرح نقل کیا ہے: لما ولي أبو بكر رضي الله تعالي عنه، خطب الناس فحمد الله وأثني عليه ثم قال: أما بعد أيها الناس فقد وليتُكم ولستُ بخيركم . جب ابوبكر نے خلافت سنبھالی تو لوگوں کو ایک خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد کہا : اے لوگو ! میں تم لوگوں کا ولی بنا ہوں لیکن تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں۔ أنساب الأشراف ، ج 1 ص 254 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ) الوفاة: 279 ، دار النشر عيون الأخبار ، ج 1 ص 34 ، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفي : 276هـ) الوفاة: 276 تاريخ الطبري ، ج 2 ص 237 ـ 238 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت . یہ خطبہ صحیح سند نقل ہوا ہے . ابن كثير دمشقي سلفي ، نے اس خطبے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : وهذا إسناد صحيح . اس کی سند صحیح ہے ۔ البداية والنهاية ، ج 6 ص 301 ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، دار النشر : مكتبة المعارف - بيروت . اس واقعے اور خطبے کو مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 1 . سنن بيهقي سنن البيهقي الكبري ، اسم المؤلف: أحمد بن الحسين بن علي بن موسي أبو بكر البيهقي الوفاة: 458 ، ج 6ص 353، دار النشر : مكتبة دار الباز - مكة المكرمة - 1414 - 1994 ، تحقيق : محمد عبد القادر عطا 2 . الثقات الثقات ، اسم المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي الوفاة: 354 ، ج 2 ص 157 ، دار النشر : دار الفكر - 1395 - 1975 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : السيد شرف الدين أحمد 3 . الحاوي الكبير الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني ، اسم المؤلف: علي بن محمد بن حبيب الماوردي البصري الشافعي الوفاة: 450 ، ج 14 ص 100، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان - 1419 هـ -1999 م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود 4 . الكامل في التاريخ الكامل في التاريخ ، اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني الوفاة: 630هـ ، ج 2 ص 194، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ ، الطبعة : ط2 ، تحقيق : عبد الله القاضي 5 . الرياض النضرة الرياض النضرة في مناقب العشرة ، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الله بن محمد الطبري أبو جعفر الوفاة: 694 ، ج 2 ص 213، دار النشر : دار الغرب الإسلامي - بيروت - 1996 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عيسي عبد الله محمد مانع الحميري 6 . نهاية الأرب نهاية الأرب في فنون الأدب ، اسم المؤلف: شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب النويري الوفاة: 733هـ ، ج 19 ص 25، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1424هـ - 2004م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : مفيد قمحية وجماعة 7 . تحفة الترك تحفة الترك فيما يجب أن يعمل في الملك ، اسم المؤلف: إبراهيم بن علي بن أحمد بن عبد الواحد ابن عبد المنعم الطرسوسي، نجم الدين (المتوفي : 758هـ) ج 1 ص 4 8 . تخريج الأحاديث والآثار الواقعة تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في تفسير الكشاف للزمخشري ، اسم المؤلف: جمال الدين عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي الوفاة: 762هـ ، ج 2 ص 406 ، دار النشر : دار ابن خزيمة - الرياض - 1414هـ ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الله بن عبد الرحمن السعد 9 . السيرة النبوية السيرة النبوية لابن كثير ، اسم المؤلف: أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي (المتوفي : 774هـ) ، ج 4 ص 493 10 . المستطرف المستطرف في كل فن مستظرف مجلدين ، اسم المؤلف: شهاب الدين محمد بن أحمد أبي الفتح الأبشيهي الوفاة: 850هـ ، ج 2 ص 190، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1406هـ 1986م ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : مفيد محمد قميحة محمد بن سعد نے طبقات میں ، سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں ، ابن حجر هيثمي نے الصواعق میں اور دوسرے بہت سے اھل سنت کے علماء نے ابوبکر کا ایک اور خطبہ بھی نقل کیا ہے ؛ جب خلیفہ ،خلیفہ بنا تو لوگوں سے خطاب میں کہا : مجھے تم لوگوں کے ولی بنایا ہے جبکہ میں اس کو پسند نہیں کرتا ۔ لما بويع أبو بكر قام خطيبا فلا والله ما خطب خطبته أحد بعد فحمد الله وأثني عليه ثم قال أما بعد فإني وليت هذا الأمر و أنا له كاره ووالله لوددت أن بعضكم كفانيه الطبقات الكبري ، ج 3 ص 212 ، اسم المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري الوفاة: 230 ، دار النشر : دار صادر - بيروت . تاريخ الخلفاء ، ج 1 ص 71 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : مطبعة السعادة - مصر - 1371هـ - 1952م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : محمد محي الدين عبد الحميد . الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ج 1 ص 37 ، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط . 3 . ابوبكر نے عمر کو لوگوں کا « ولي » بنایا۔ خليفه اول نے جب یہ احساس کیا ہے اب زندگی آخری مرحلے میں ہے تو خلیفہ دوم کو اپنے بعد لوگوں کا ولی بنایا اس انتخاب میں واضح طور پر «ولي» کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں صحابہ کو یہ اعلان کر دیا کہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی عمر ہے: ابن حبان بستي نےاس سلسلے میں لکھا ہے : ... ثم رفع أبو بكر يديه فقال اللهم وليته بغير أمر نبيك ولم أرد بذلك إلا صلاحهم وخفت عليهم الفتنة فعملت فيهم بما أنت أعلم به وقد حضر من أمري ما قد حضر فاجتهدت لهم الرأي فوليت عليهم خيرهم لهم وأقواهم عليهم وأحرصهم علي رشدهم ولم أرد محاماة عمر... .... پھر ابوبكر نے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا : اے اللہ میں نے عمر کو آپ کے نبی کے حکم کے بغیر ولی بنایا ہے اور میں نے یہ کام صرف لوگوں کی بہتری اور فتنوں سے ڈرنے کی وجہ سے کیا ہے ۔ میں نے ایسا کام انجام دیا ہے کہ آپ مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔میری موت کا وقت آپہنچا ہے ۔ لہذا لوگوں کی مصلحت کی خاطر ایسا اقدام کیا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے بہتر ،سب سے قوی اور لوگوں کی ہدایت کے لئے سب سے زیادہ حریص شخص کو ان کے لئے ولی قرار دیا ہوں اور عمر کو محروم کرنا نہیں چاہتا ۔۔۔ الثقات ، ج 2 ص 192 ـ 193 ، اسم المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي الوفاة: 354 ، دار النشر : دار الفكر - 1395 - 1975 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : السيد شرف الدين أحمد . 4 . ابوبكر نے فوجی کمانڈروں سے خطاب میں کہا : عمر تم لوگوں کے« ولي » ہے ۔ ابن اثير جزري لکھتا ہے: خليفه اول نے عمر کو اپنا جانشین بنانے کے بعد لشکر کے کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے لکھا : وكتَبَ إِلي أُمرَاءِ الأجنَادِ : وَلَّيْتُ عليكم عمرَ ... : میں نے عمر کو تم لوگوں کا ولی بنایا ہے ... معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول ، ج 4 ص 109 ، اسم المؤلف: المبارك بن محمد ابن الأثير الجزري الوفاة: 544 ، دار النشر : ان دو روایتوں میں « خليفه » اور « ولي » کے استعمال سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں لوگ ان دونوں لفظوں سے ایک ہی معنی مراد لیتے تھے ۔ 5 . صحابه نے ابوبكر سے خطاب میں کہا : عُمر کو کیوں « وليّ » قرار دیا ؟ نہ صرف خلیفہ اول نے عمر کو خلیفہ انتخاب کرنے کے لئے «وليّ» کے لفظ کا استعمال کیا ؛ بلکہ اصحاب نے بھی ابوبکر پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں دو لفظوں «وَلِيَ» اور «خَلَّفَ» کا ایک ساتھ استعمال کیا : ابن أبي شيبه لکھتے ہیں : عن وكيع ، وابن إدريس ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن زبيد بن الحرث ، أن أبا بكر حين حضره الموت أرسل إلي عمر يستخلفه فقال الناس : تستخلف علينا فظاً غليظاً ، ولو قد ولينا كان أفظ وأغلظ ، فما تقول لربك إذا لقيته وقد استخلفت علينا عمر . المصنف ، ابن أبي شيبة ، ج8 ، ص574 ، با تحقيق سعيد محمد اللحام ، ط دار الفكر ، بيروت و تاريخ المدينة المنوّرة ، ابن شبة النميري ، ج2 ، ص671 ، با تحقيق فهيم محمد شلتوت ، ط دار الفكر ، بيروت و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج30 ، ص 413 و كنز العمال ، متقي هندي ، ج5 ، ص678. زيد بن حارث سے نقل ہوا ہے : جب ابوبکر نے حالت احتضار کے وقت کسی کو عمر کو بلانے بھیجا تاکہ انہیں اپنا جاشنین بنائے ۔لوگوں نے کہا : آپ ایسے کو جانشین بنارہے ہو جو بداخلاق اور سخت مزاج ہے اور اگر اسے حکومت ملے اور ہمارے اوپر وہ مسلط ہوجائے وہ اور تو زیادہ سخت مزاج ہوگا اور لوگوں پر سخی کرئے گا، اگر اللہ سے ملاقات کرو تو اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ آپ نے عمر جیسا بد اخلاق اور سخت مزاج کو ہم پر مسلط کیا ہے اور اس کو خلیفہ بنایا ہے ؟ ابن تيميه حراني ، کہ جو حقیقت میں وھاہی فرقے کی فکری بنیاد ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے ۔ لما استخلفه أبو بكر كره خلافته طائفة حتي قال طلحة ماذا تقول لربك إذا وليت علينا فظا غليظا . منهاج السنة ، ج7 ، ص 461 . جب ابوبكر نے عمر کو جانشینی کے لئے انتخاب کیا تو بعض اصحاب اس انتخاب پر ناراض ہوئے ،انہیں میں سے طلحہ نے کہا : جب اللہ سے ملاقات کرو گے اور تم سے سوال ہوگا تو کیا جواب دو گے، جبکہ تم نے ایک بداخلاق اور شقی القلب انسان کو ہم پر مسلط کیا ہے ۔؟ . ان دو روایتوں میں بھی «استخلفه» اور «وليت» استعمال ہوا ہے اور ایک ہی معنی کا ارادہ ہوا ہے ۔ . ابن تیمیہ ایک اور جگے پر لکھتا ہے : وقد تكلموا مع الصديق في ولاية عمر وقالوا ماذا تقول لربك وقد وليت علينا فظا غليظا . اصحاب نے ابوبکر سے عمر کی جانشینی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا : کیوں ایک سخت مزاج اور بداخلاق شخص کو ہمارے ہمارے اوپر مسلط کیا ؟ اس پر کل اللہ کو کیا جواب دو گے ؟ منهاج السنة ، ج6 ، ص155 ، الناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة الأولي ، 1406، تحقيق : د. محمد رشاد سالم عدد الأجزاء : 8 . 6 . عمر : نے کہا میں تم لوگوں کے « وليّ » ہوں: خلیفہ دوم نے بھی خلیفہ بننے کے بعد اپنی خلافت کے دوران خطبہ دیا اور اپنے کو «وليّ» اور «وليّ امر مسلمين» کہا . بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے : المدائني في إسناده ، قال : خطب عمر بن الخطاب رضي الله عنه حين ولي فحمد الله وأثني عليه وصلي علي نبيه ثم قال : إني قد وليت عليكم ، ولولا رجائي أن أكون خيركم لكم ، وأقواكم عليكم ، وأشدكم اضطلاعاً بما ينوب من مهم أمركم ، ما توليت ذلك منكم ... عمر جب خلیفہ بنا تو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء اور رسول اللہ ص پر درود کے بعد کہا : میں تم لوگوں کے ولی بنا ہوں اگر میں مجھے اپنا تم لوگوں سے بہتر اور تو لوگوں سے زیادہ قوی ہونے کی امید نہ ہوتا تو میں تم لوگوں کا ولی نہ بنتا ۔ أنساب الأشراف ، ج 3 ص 412 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ) طبري نے بھی عمر کی طرف سے اپنی تقریر میں خود کو ولی بتانے کی بات کو نقل کیا ہے : وقفل عمر من الشام إلي المدينة في ذي الحجة وخطب حين أراد القفول فحمد الله وأثني عليه وقال ألا إني قد وليت عليكم وقضيت الذي علي في الذي ولأني الله من أمركم إن شاء الله قسطنا بينكم . عمر جب شام سے واپس پلٹا تو مدینے میں تقریر کی اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد کہا: میں تم لوگوں کا ولی بنا ہوں اور میں نے جو میری ذمہ داری ہے اس کو انجام دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاريخ الطبري ، ج 2 ص 490 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت . اسی طرح طبری نے ہی نقل کیا ہے : ذكر بعض خطبه رضي الله تعالي عنه ... عن عروة بن الزبير أن عمر رضي الله تعالي عنه خطب فحمد الله وأثني عليه بما هو أهله ثم ذكر الناس بالله عز وجل واليوم الآخر ثم قال يا أيها الناس إني قد وليت عليكم ولولا رجاء أن أكون خيركم لكم وأقواكم عليكم وأشدكم استضلاعا بما ينوب من مهم أموركم ما توليت ذلك منكم عمر نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد لوگوں سے کہا : اے لوگو! میں تم لوگوں کا ولی بنا ہوں اگر میں تم لوگوں سے بہترین اور قوی ترین اور زندگی کے امور میں تم لوگوں سے زیادہ سختی کرنے والا نہ ہوتا تو اس ذمہ داری کو قبول نہیں کرتا . تاريخ الطبري ، ج 2 ص 572 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت . ابن كثير دمشقي نے بھی نقل کیا ہے : فلما اراد القفول إلي المدينة في ذي الحجة منها خطب الناس فحمد الله واثني عليه ثم قال الا اني قد وليت عليكم وقضيت الذي علي في الذي ولاني الله من امركم ان شاء الله عمر نے ذی الحجۃ کے مہینے میں شام کی طرف جانے کا ارادہ کیا لہذا اپنی تقریر میں کہا : میں تم لوگوں کے ولی بنا اور جو میری ذمہ داری تھی اس کو انجام دیا ۔ البداية والنهاية ، ج 7 ص 79 ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، دار النشر : مكتبة المعارف - بيروت . 7 . عمر کا اپنے دوستوں کے چلے جانے پر افسوس : جس وقت عمر چاقو سے زخمی ہوا اور یہ احساس کرنے لگا کہ اب مرنے والا ہے لہذا اپنے ان دوستوں کو یاد کرنے لگاجنہوں نے خلافت کو بنی ھاشم سے چھینے میں ان کی مدد کی تھی اور ان کے ساتھ اپنا جو عہد و پیمان تھا اس پر وفادار رہا لیکن وہ لوگ ان سے پہلے چلے گئے تھے ،اب خلیفہ دوم ان کے نام لے کر انہیں یاد کرتے ہوئے کہتا تھا : اگر یہ زندہ ہوتے تو اس کو اپنے بعد جانشین اور «ولي امر مسلمين» بناتا ۔ ابن قتيبه دينوري مي نويسد : فلما أحس بالموت قال لابنه اذهب إلي عائشة وأقرئها مني السلام واستأذنها أن أقبر في بيتها مع رسول الله ومع أبي بكر فأتاها عبد الله بن عمر فأعلمها فقالت نعم وكرامة ثم قالت يا بني أبلغ عمر سلامي وقل له لا تدع أمة محمد بلا راع استخلف عليهم ولا تدعهم بعدك هملا فإني أخشي عليهم الفتنة فأتي عبد الله فأعلمه فقال ومن تأمرني أن أستخلف لو أدركت أبا عبيدة بن الجراح باقيا استخلفته و وليته فإذا قدمت علي ربي فسألني وقال لي من وليت علي أمة محمد ؟ قلت أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول لكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح ولو أدركت معاذ بن جبل استخلفته فإذا قدمت علي ربي فسألني من وليت علي أمة محمد؟ قلت : أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول إن معاذ بن جبل يأتي بين يدي العلماء يوم القيامة ولو أدركت خالد بن الوليد ، لوليته فإذا قدمت علي ربي فسألني من وليت علي أمة محمد ؟ قلت أي ربي سمعت عبدك ونبيك يقول خالد بن الوليد سيف من سيوف الله سله علي المشركين ... . الإمامة والسياسة ، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة الدينوري الوفاة: 276هـ. ، ج 1 ص 25 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م. ، تحقيق : خليل المنصور . ابن خلدون نے بھی اپنے مشہور مقدمہ میں لکھا ہے : لو كان سالم مولي حذيفة حيا لوليته . اگر حذيفة کا غلام سالم زندہ ہوتا تو اس کو ولی اور جانشین بناتا۔ مقدمة ابن خلدون ، ج 1 ص 194 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن خلدون الحضرمي الوفاة: 808 ، دار النشر : دار القلم - بيروت - 1984 ، الطبعة : الخامسة . 8. عمر بن خطاب کا حضرت علي عليه السلام کو خلافت کے بارے میں ہدایت: ابن حجر عسقلاني نے صحيح بخاري کی شرح میں عمر کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری شورا کو منتقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ خلیفہ دوم نے شورا کے ممبروں کی نصیحت کی اور یوں کہا : يا علي لعل هؤلاء القوم يعلمون لك حقك وقرابتك من رسول الله صلي الله عليه وسلم وصهرك وما اتاك الله من الفقه والعلم فان وليت هذا الأمر فاتق الله فيه ثم دعا عثمان فقال يا عثمان فذكر له نحو ذلك ووقع في رواية إسرائيل عن أبي إسحاق في قصة عثمان فان ولوك هذا الأمر فاتق الله فيه ولا تحملن بني أبي معيط علي رقاب الناس ... اے علي ! شاید یہ قوم آپ کے حق کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کی قرابتداری کو اور ان کے داماد ہونے اور اللہ نے جو آپ کو علم اور علمی مقام عطاء کیا ہے ،ان کو یہ قوم جان لے ۔ لہذا اگر ان لوگوں کے ولی بن جائے تو تقوی اختیار کرنا ۔ اس کے بعد عثمان سے بھی گفتگو میں کہا : اگر لوگوں نے تمہیں ولی بنایا تو تقوی اختیار کرنا اور بني أبي معيط کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کرنا ) فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 7 ص 68 ، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852 ، دار النشر : دار المعرفة - بيروت ، تحقيق : محب الدين الخطيب . أنساب الأشراف ، ج 2 ص 259 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيي بن جابر البلاذري (المتوفي : 279هـ) . 9 . عمر نے ابوموسي کو لوگوں کا « ولي » قرار دیا : لفظ «ولي» سے امامت ،سرپرستی اور حکومت کا معنی ارادہ کرنا اور اسی معنی میں اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ رائج تھا ، یہاں تک کہ خطوط اور حکومتی دستورات اوردوسرے علاقوں میں کسی گورنر وغیرہ کے تعیین اور انتخاب میں اسی لفظ کو استعمال کیا جاتا تھا ۔جیساکہ ابن كثير دمشقي نے خلیفہ دوم کی طرف سے أبو موسي اشعري کو بصرہ کے حاکم بنانے کے لئے جو خط لکھا،اس میں اس طرح نقل ہو ہے ۔ وكتب إلي اهل البصرة اني قد وليت عليكم أبا موسي لياخذ من قويكم لضعيفكم وليقاتل بكم عدوكم وليدفع عن دينكم ... . عمر نے اهل بصره کے لئے لکھا : بتحقیق میں نے ابوموسی اشعری کو تم لوگوں کا ولی اور حاکم بنایا ہے ... البداية والنهاية ، ج 7 ص 82 ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774 ، دار النشر : مكتبة المعارف - بيروت . 10 . معاويه نے بھی بصره والوں سے خطاب میں کہا: میں نے عبيدالله کو تم لوگوں کا « وليّ » بنایا ہے : طبري اور ابن جوزي نے نقل کیا ہے ،کہ معاوية جب عبيد الله بن زياد کو بصرہ کا گورنر بنارہا تھا تو کہا : … ثم قال قد وليت عليكم ابن أخي عبيد الله بن زياد ... بتحقیق میں نے اپنے بھائی کے بیٹے ، عبيدالله بن زياد کو تم لوگوں کا وليّ قرار دیا ہے . تاريخ الطبري ، ج 3 ص 245 ، اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ، ج 5 ص 278 ـ 279 ، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علي بن محمد بن الجوزي أبو الفرج الوفاة: 597 ، دار النشر : دار صادر - بيروت - 1358 ، الطبعة : الأول 11. عبد الملك مروان نے قریش سے گلہ کیا : لفظ «وليّ» اسلامی تاریخ میں ایک رائج کلمہ رہا ہے اور لوگ خلفاء کی پیروی میں اس لفظ کا استعمال کرتے اور ہر حاکم اپنے آپ کو «ولي امر المسلمین» کہتا تھا۔ أحمد زكي صفوت نے جمهرة خطب العرب میں نقل کیا ہے كه عبد الملك بن مروان نے اپنے دور خلافت میں قریش سے خطاب میں اس طرف گلہ، شگوہ کیا : فيا معشر قريش وليكم عمر بن الخطاب فكان فظا غليظا مضيقا عليكم فسمعتم له وأطعتم ثم وليكم عثمان فكان سهلا فعدوتم عليه فقتلتموه اے قريش والو ! (جب ) عمر بن خطاب تم لوگوں کا ولی بنا وہ بہت ہی سخت مزاج تھا اور تم لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا۔ تم لوگوں نے اس کی سنی اور اس کی اطاعت کی ، پھر عثمان تم لوگوں کے وليّ بنا ۔اس نے سختی نہیں کی لیکن تم لوگوں نے اس سے دشمنی کی اور اسے قتل کردیا ۔ جمهرة خطب العرب ، ج 2 ص 196 ، اسم المؤلف: أحمد زكي صفوت الوفاة: بلا ، دار النشر : المكتبة العلمية - بيروت . مروج الذهب ، ج 1 ص 401 ، اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن الحسين بن علي المسعودي (المتوفي : 346هـ) . المحكم والمحيط الأعظم ، ج 1 ص 514 ، اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن إسماعيل بن سيده المرسي الوفاة: 458هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 2000م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الحميد هنداوي لسان العرب ، ج 8 ص 166 ، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري الوفاة: 711 ، دار النشر : دار صادر - بيروت ، الطبعة : الأولي نتیجہ اور خلاصہ وهو( عليّ عليه السلام) وليّ كلّ مؤمن بعدي، « علی میرے بعد مومنوں کے ولی ہیں » والی حدیث کی صحت کے سلسلے میں ہماری سابقہ بحثوں سے ،اس حدیث کی سند کے بارے میں متعصب اور عقلمندی سے کام نہ لینے والوں کے ادعا اور شبھات ختم ہوجاتے ہیں ۔ لہذا ان کے لئے حقیقت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں ہے ۔ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے تعصب کے پردوں کو ہٹانے اور دل کو کینہ توزی سے پاک و صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم اس مقالے کے آخر میں طالبان حق کے آگے ایک سوال رکھتے ہیں اور فیصلہ اور صحیح راہ کا انتخاب خود ان پر چھوڑتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ لفظ « وليّ » کا استعمال خلفاء اور مكتب خلفا کے کلچر میں رائج رہا اور اس سے واضح انداز میں جانشین ، حاکم ، نائب اور لوگوں کے رھبری کا معنی لیتے رہے اور یہ لفظ ان معانی پر دلالت کرتا رہا ،لیکن ان سب کے باوجود جب مکتب اھل بیت والوں کی باری آتی ہے تو کیوں اس لفظ کے معنی کو خراب کرنے اور غیر علمی اندار میں اس کے حقیقی اور واقعی معنی کو تبدیل کرنے کی کوشش کیجاتی ہے؟ کیوں جب مولا علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ یہ لفظ آتا ہے تو پھر کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے ، ان کے دماغ اور قلم لرزنے لگتے ہیں اور اس مسئلے میں تاریخی حقائق کو چھپانے اور اس واضح لفظ کو اس کے واضح معنی سے ہٹا کر کوئی اور معنی لینے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا آپ اس کی وجہ جانتے ہیں ؟ آگر جانتے ہیں تو ہمیں بھی بتائیں کہ کیوں بعض اس حدیث کی سند اور معنی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے اس کی سند اور مضمون کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته |