2024 March 28
ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکروں کے عجیب اور مزاحیہ ڈرامہ بازی ؛
مندرجات: ١٩١٥ تاریخ اشاعت: ٠٤ April ٢٠٢١ - ٠٠:٥٥ مشاہدات: 2930
مضامین و مقالات » پبلک
ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکروں کے عجیب اور مزاحیہ ڈرامہ بازی ؛

ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکروں کے عجیب اور مزاحیہ ڈرامہ بازی ؛

«ابن تیمیه» کہ جو وہابیوں کے لیڈر اور امام ہے اور اس کو یہ لوگ «شیخ الاسلام» کہتے ہیں ، آپ لوگ ان کے اس امام کا حشر دیکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ یہ کیسا امام اور شیخ السلام ہے ؟

خاص کر ابن تیمیہ شیعوں کی طرف بے بنیاد جھوٹی نسبت دیتے ہوئے لکھتا ہے ۔

ومن حماقاتهم أَيْضًا أَنَّهُمْ يَجْعَلُونَ لِلْمُنْتَظِرِ عِدَّةَ مَشَاهِدَ يَنْتَظِرُونَهُ فيها، كالسرداب الذي بسامرا الذي يزعمون أنه غائب فيه.

شیعوں کے بیوقوفانہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں نے امام مھدی علیہ السلام  کے لئے کچھ جگہے معین کی ہوئی ہیں اور وہاں پر یہ لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں ،جیساکہ سامرا کے سرداب کے بارے میں یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ امام مھدی علیہ السلام اس کے اندر غائب ہوگئے ہیں.

اس سے بھی عجیب ابن تیمیہ کا ادعا یہ ہے :

وقد يُقِيمُونَ هُنَاكَ دَابَّةً إِمَّا بَغْلَةً وَإِمَّا فَرَسًا، وَإِمَّا غَيْرَ ذَلِكَ لِيَرْكَبَهَا إِذَا خَرَجَ، وَيُقِيمُونَ هُنَاكَ إِمَّا فِي طَرَفَيِ النَّهَارِ وَإِمَّا فِي أوقات أخرى مَنْ يُنَادِي عَلَيْهِ بِالْخُرُوجِ يَا مَوْلَانَا اخْرُجْ۔۔

 شیعہ وہاں رہتے ہیں اور سواری کے لئے خچر یا گھوڑا وغیرہ تیار کر کے وہاں رکھتے ہیں۔تاکہ امام مھدی علیہ السلام جب وہاں سے نکلے تو اس پر سوار ہوسکے ۔ لوگ صبح سے شام تک وہاں یہ آوازیں یہ لگاتے ہیں کہ اے مولا! نکل آئیں ،اے مولی! نکل آئیں۔

اسی سے بھی ایک عجیب بات اور ادعا

وَيُشْهِرُونَ السِّلَاحَ وَلَا أَحَدَ هُنَاكَ يُقَاتِلُهُمْ،

شیعہ وہاں اسلحہ نیام سے نکال کر گھماتے اور پھراتے رہتے ہیں، جبکہ وہاں ان سے لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

وَفِيهِمْ من يقوم في أوقات دَائِمًا لَا يُصَلِّي، خَشْيَةَ أَنْ يَخْرُجَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَشْتَغِلَ بِهَا عَنْ خُرُوجِهِ، وَخِدْمَتِهِ،

جو سامرا میں ہوتے ہیں وہ لوگ نماز وقت پر نہیں پڑھتے ، اس خوف سے کہ کہیں نماز کے وقت امام وہاں سے نہ نکلے اور انہیں امام کی خدمت کا موقع نہ ملے، وہ لوگ مغرب کے نذدیک جلدی جلدی ،خضوع و خشوع کے بغیر نماز پڑھ لیتے ۔

منهاج السنة النبوية، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم؛ ج1 ص44

ابن تیمیہ کے ہم فکر لوگوں نے بھی یہی کام کیا ہے اور واضح انداز میں یہی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے۔جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ؛

  :  «محمد بن عبدالوهاب» وھابیوں کے امام اور پیشوا «محمد بن عبدالوهاب» بھی اس کام میں ابن تیمیہ سے کم نہیں ہے۔ اس کی کتاب «رساله فی رد علی الرافضه»  ج 1، ص33 میں بھی یہی جھوٹی نسبتیں شیعوں کی طرف دی ہے  جیساکہ وہ اس سلسلے میں کہتا ہے: شیعہ اس خوف سے کہ کہیں امام مھدی علیہ السلام کے قافلے سے رہ نہ جائے وہ نماز کو جماعت کے بغیر پڑھتے ہیں، نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے ہیں اور وہ بھی تاخیر کے ساتھ جلدی جلدی ،خضوع و خشوع کے بغیر پڑھتے ہیں ۔

  2  : ابن خلدون :  ابن خلدون نے  « مقدمہ ابن خلدون»  ج1، ص199 میں کم و پیش یہی باتیں کی ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے بھی غلط کر گیا ہے وہ لکھتا ہے :

«دخل في سرداب بدارهم في الحلة»

حضرت مهدی حله میں اپنے گھر کے سرداب میں داخل ہوگئے.

جبکہ واضح سی بات ہے کہ آپ کا گھر سامرا میں تھا اور سرداب بھی سامرا والا سرداب ہی مراد ہے ۔

مقدمة ابن خلدون، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن خلدون الحضرمي، دار النشر: دار القلم - بيروت - 1984، الطبعة: الخامسة؛ ص199

 3 : «ابن حجر هیثمی» اس سلسلے میں کہتا ہے :

«الامام المنتظر و هو صاحب السرداب عندهم.»

امام مھدی منتظر ،سے مراد ان کے نذدیک وہی صاحب السرادب امام ہیں {یعنی جو سرداب میں زندگی گزارتے ہیں } ۔

الصواعق المحرقة، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي، دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط؛ ج2، ص 482

4 : سویدی: سویدی اهل سنت کے ہی بڑے مورخ ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

«تزعم شیعه انه غاب فی السرداب بسرمن راء و الحرص علیه»

شیعہ یہ خیال کرتے ہیں کہ امام مھدی سامرا کے سرداب میں غائب ہوا ہے اور لوگ وہاں ان کی محافظت مامور ہیں  ۔

5ابن اثیر : وترتجي بظهوره من سرداب في سامراء، فإِن ذاك ما لا حقيقة له، ولا عين ولا أثر ۔۔۔۔۔

رافضی لوگ دعویٰ کرتے ہیں اور سامراء کے ایک سرداب  سے اس کے ظہورکا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں، نہ ہی اس کے بارے میں کوئی روایت  موجود ہے۔

النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:49/1

دوسری جگہ لکھتا ہے  :۔  فيخرج المهدي، ويكون ظهوره من بلاد المشرق، لا من سرداب سامرا، كما يزعمه جهلة الرافضة من أنه موجوده فيه الآن، وهم ينتظرون خروجه آخر الزمان، فإن هذا نوع من الهذيان، وقسط كبير من الخذلان، وهوس شديد من الشيطان، إذ لا دليل عليه ذلك ولا برهان، لا من كتاب ولا سنة ولا من معقول صحيح ولا استحسان[1]۔
’’
امام مہدی نکلیں گے۔ ان کا ظہور مشرق کے علاقے سے ہو گا، نہ  سامراء کے مورچے سے، جاہل رافضیوں کاخیال ہے کہ وہ امام مہدی اس سرداب  میں اب بھی موجود ہیں اور وہ آخری زمانے میں ان کے خروج کے منتظر ہیں۔ یہ ایک قسم کی بے وقوفی، بہت بڑی رسوائی اور شیطان کی پیروی کا نتیجہ  ہے کیونکہ اس بات پر کوئی دلیل و برہان نہیں، نہ قرآن سے، نہ سنت رسول سے، نہ عقل سے اور نہ  استحسان و قیاس سے۔

   6    ہل سنت کے مشہور تاریخ نگار  ، ابن کثیر    :  

   وليس هذا بالمنتظر الذى يتوهم الرافضة وجوده ثم ظهوره من سرداب سَامرّاء ۔۔۔[2].
’’
  امام مہدی سے مراد وہ امام منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگوں کا خیال ہے  .. کہ آپ سامرا کے سرداب میں ہیں اور وہی سے ظہور فرمائیں گے ۔

    7     : ابن قیم    نے   پنی کتاب ’’ المنار.‘‘ میں   لکھا  ہے     :
واما الرافضة الامامية فلهم قول رابع وهو: أن المهدي هو محمد بن الحسن العسكري المنتظر, من ولد الحسين بن علي ۔۔۔۔ دخل سرداب سامراء طفلاً صغيرًا من أكثر من خمسمائة سنة، فلم تره بعد ذلك عين، ولم يُحس فيه بخبر ولا أثر، وهم ينتظرونه كل يوم ويقفون بالخيل على باب السرداب، ويصيحون به أن يخرج إليهم، اخرج يا مولانا! اخرج يا مولانا! ثم يرجعون بالخيبة والحرمان‘‘

امام مھدی کے بارے میں  چوتھا نظریہ  امامی رافضیوں ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ حسین بن علی ؑکی نسل سے ہے۔۔۔وہ چھوٹا سا بچہ تھا جب وہ سامراء کے مورچے میں داخل ہوا تھا۔ یہ پانچ سو سال (ابن قیم کے   اپنے دور کے حساب سے  ) پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ امامی شیعہ ہر روز سرداب کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل، اے ہمارے مولا تو نکل۔ پھر وہ ناکامی و نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔

اس قسم کی بے بنیاد باتوں کے جواب :

حقیقت یہ ہے  کہ یہ باتیں لطیفہ ہی ہیں !! وہ بھی ۲۱ صدی کا کیا عجیب لطیفہ !!

یہ وھابی اور سلفی مکتب فکر والوں کے سب سے بڑے نظریہ پرداز اور مفکر اور اس کے حامیوں  کا حشر ہے۔

یقینا اھل سنت میں سے جو لوگ شیعوں کے ساتھ کسی شھر یا دھات اور گاوں وغیرہ میں زندگی گزارتے ہیں وہ یقینا ابن تیمیہ کے اس ادعا پر ہنسیں گے ۔

اب جو سنی حضرات پاکستان، ایران ، سعودی عرب ،بحرین وغیرہ میں شیعوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ان لوگوں نے خود ہی یا ان کے آباء و اجداد سے ایسی بات سنی ہے کہ شیعہ ایسا کرتے ہیں ،سرداب کے باہر خچر اور گھوڑا لیے انتظار میں رہتے ہیں اور اپنے امام کو  آواز دیتے رہتے ہیں اور اسی انتظار کی حالت میں نماز بھی وقت پر نہیں پڑھتے ؟

   کیا یہ باتیں ایک مزاق اور لطیفہ نہیں ہیں ؟ اور وہ بھی ایسے بندے سے جس کو لوگ شیخ الاسلام کہتے ہیں کیا ایسے بندے کو شیخ الاسلام کہنا شرم  کی بات نہیں ہے ؟

اگر شیعہ ایسے فکر والوں سے مقابلہ کرنا چاہئے تو کسی شبھہہ یا علمی گفتگو کے پیچھے جاننے کی ضرورت نہیں،  ابن تیمیہ وغیرہ کی اس طرح کی جھوٹی نسبتوں کو برملا کریں تو کافی ہے ۔شیعوں کے بارے میں ابن تیمیہ کی باتیں ۹۰ سے  ۹۵ فیصد ایسے ہی ہیں وہ بغیر کسی دلیل کے جھوٹی نسبت دیتا ہے ،لہذا اس سے یہ پوچھنا ہوگا کہ ،یہ باتیں کہاں سے لی ہیں؟ کس کتاب میں ایسی بات نقل ہوئی ہے ؟  کس مدرک اور سند کی وجہ سے شیعوں کی طرف یہ نسبتیں دی ہیں ؟  اگر بغیر کسی مدرک اور سند کے الزام تراشبی اور جھوٹی نسبتوں کا سلسلہ ہی جاری رکھنا ہے تو دوسرے بھی ایسا کام کرسکتے ہیں ۔

شیعہ تاریخ گواہ ہے کہ پوری شیعہ تاریخ میں کبھی بھی شیعہ سرداب سے امام مھدی علیہ سلام کے ظہور کے منتظر نہیں رہے ہیں اور یہ ہمارا چیلینچ ہے کہ کہ کوئی شیعہ بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھتے ، ایسا کوئی بھی کام  شیعہ انجام نہیں دیتے اور اس کی وجہ سے نماز کو تاخیر کے ساتھ نہیں پڑھتے ۔

  "سرداب کا یہ افسانه" شیعہ مخالفین کی ذھنی تخلیق ہے ، کسی شیعہ کتاب میں ایسی بات ذکر نہیں ہے ،«ابن خلکان» متوفی 681 هجری ہے اب یہ دکھائے کہ کس شیعہ کتاب میں انہیں «صاحب السرداب» کہا ہو؟ لہذا یہ سب کے سب اھل سنت کے علماء کی ذھنی تخلیق ہے  اور تحقیق اور ذمہ داری سے کام نہ لینے اور انصاف کی پڑی سے گرنے کا نتیجہ ہے ۔

سوال : شیعہ علماء نے اس  «سرداب» کے بارے میں کیا کہا ہے ؟

جواب : خلاصہ کلام یہ ہے :

 علامه امینی، کہ جو  شیعه تاریخ میں سب سے زیادہ شیعہ مذھب سے دفاع کرنے والے عظیم شخصیتوں میں سے ہیں ،آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

«وفرية السرداب أشنع»

{یہ جو سرداب کی جھوٹی داستان کی نسبت شیعوں کی طرف دی  ہے} یہ نسبت انتہائی گھٹا اور پست درجہ کی نسبت ہے ۔

الغدیر، الشیخ الأمینی، ج3، ص 308

آپ ایک وھابی سے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ هزار سالہ دور میں جو نسبتیں شیعوں کی طرف دی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ پست اور گھٹیا قسم کی نسبت یہی سرداب والی نسبت ہے ،شیعوں کا ھر گز ایسا عقیدہ نہیں رہا ہے کہ امام مھدی علیہ السلام سرداب میں ہوں اور وہی سے آپ ظہور فرمائیں گے ۔  

علامه امینی اسی سلسلے میں فرماتے ہیں : کاش یہ لوگ کم از کم سرداب کے اس واقعے کو ایک ہی طرح بیان کرتے ؛

اب دیکھیں  «ابن بطوطه» نے اپنے سفر نامے میں کہا ہے یہ سرداب حلہ میں ہے ،ابن خلدون نے بھی یہی کہا ہے ، قرمانی نے اخبار الدول میں بغداد میں ہونے کا ادعا کیا ہے اور دوسرا آکر کر کہتا ہے کہ سامرا میں ہے !!

 شيخ باقر الشريف القرشى کہ جو نجف کے بزرگ شیعه علماء میں سے ہیں ؛آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

«ہم سامرا میں موجود اس جگہ کو ایک مقدس مکان سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہ ہے؛ کیونکہ یہ سرداب ہمارے تین اماموں کی عبادت اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے  امام  محمد تقی هادی علیہ السلام ، امام حسن عسکری علیہ السلام ، اور امام مھدی ولی عصر اروحنا فداه، امام مھدی علیہ السلام بھی پانچ سال اسی میں تشریف فرماتھے »

حياة الإمام المهدي (ع)؛ باقر شریف قریشی، ص 116

شیخ باقر قرشی نے «محدث نوری»  کی کتاب" کشف الاسرار " سے نقل کیا ہے :

«كلما راجعنا و تفحصنا لم نجد لما ذكروه أثرا»

ہم نے جتنی تحقیق کی اور اس سلسلے میں شیعہ کتابوں کی چھانٹی لگائی ،ہمیں کہیں بھی ایسی چیز اس سلسلے میں نہیں ملی۔{کسی شیعہ عالم نے یہ نہیں کہا ہے کہ  امام مھدی علیہ السلام اس سرداب میں ہوں اور اسی سے ہی ظہور فرمائیں گے۔}

حياة الإمام المهدي (ع)؛ باقر شریف قریشی، ص 119

 علامه صدرالدین بھی اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

«ما نسبه الینا کثیر من خواص اهل السنة فلا اعرف له مدرکا و لم نجد له مستنداً»

یہ جو شیعوں کی طرف اھل سنت کے علماء نے  نسبت دی ہے اور یہ کہا ہے کہ شیعہ نظریہ کے مطابق امام مھدی اس سرداب میں ہیں اور اسی سرداب سے امام  نکلیں گے او شیعہ اس سرداب سے امام  کے نکلنے کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ ہم نے ایسی کوئی چیز  کسی شیعہ کتاب میں نہیں دیکھی ۔

حياة الإمام المهدي (ع)؛ باقر شریف قریشی، ص 119

اسی طرح مرحوم اربلی صاحب نے  کتاب «کشف الغمه» ،ج3، ص283 میں لکھا ہے :

«إنه موجود يحل و يرتحل، و يطوف في الأرض»

شیعہ نظریے کے مطابق امام مھدی علیہ السلام لوگوں کے درمیان زندگی گزارہے ہیں ،حج کے لئے تشریف لاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حياة الإمام المهدي (ع)؛ باقر شریف قریشی، ص 119

   غار کی داستان بھی سن لیں  : 

جیساکہ بیان ہوا ؛ ابن تیمیہ نے بغیر کسی مدرک اور سند کے ایسی جھوٹی نسبتیں  شیعوں کی طرف دی ہے اور  دوسرے بھی اندھی تقلید اور لکیر کے فقیر بن کر انہیں نسبتوں کا تکرار کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

اس سلسلے میں خاص کر اردو زبان، شیعہ مخالف لوگ تو اپنے بزرگوں سے بھی کچھ آگے نکلے ہیں ۔ یہ لوگ  امام مھدی علیہ السلام  کے بارے میں توھین آمیز انداز میں کہتے ہیں کہ شیعوں کے باوریں امام غار میں ہے ۔۔۔ عجیب بات ہے ۔۔ ان کے بزرگ تو سرداب { یعنی تہ خانہ } کہتے آئے اور گزر گئے  اور جیساکہ بیان ہوا اس داستان کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ اب ان کے نقل اتارنے والے کہتے ہیں : شیعوں کے امام غار میں ہیں جبکہ کہیں پر غار کا لفظ نہیں آیا ہے ۔۔۔ لہذا یہ لوگ جھوٹی نسبت دینے میں اپنے بزرگوں سے بھی کچھ آگے نکل گئے ہیں

۔ خلاصہ کلام : کسی شیعہ عالم نے امام مھدی علیہ السلام کا سرداب یا غار میں زندگی گزارنے اور اس سے  باہر نکلنے اور ظہور کرنے کا نظریہ بیان نہیں کیا ہے ،کسی بھی شیعہ دور میں شیعوں کا ایسا عقیدہ نہیں رہا ہے ۔۔لہذا یہ شیعہ دشمنی میں بعض جاہلوں کی جھوٹی باتیں اور نسبتیں ہیں ۔۔

اللہ خیر کرئے اور اس امت محمدی کو تعصب اور جھالت سے نجات دئے۔

آمین یا رب العالمین۔

 



[1] ۔ النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:55/1

[2] ۔ تفسير ابن كثير : 504/3، تحت سورة المائدہ : 12]





Share
1 | عطاء اللّه علی حیدری | | ٢٢:١٥ - ٢٦ August ٢٠٢١ |
ماشاءالله قبلہ مولا سلامت رکھے آپکی کاوشیں مولا اپنی بارگاہ میں قبول فرماۓ

جواب:
 سلام علیکم۔۔
 
شکریہ محترم
 
ابن تیمیہ کو بہت سے لوگ شیخ السلام اور علیہ الرحمہ کہتے ہیں ۔۔۔ جبکہ اصحاب کی شان اور فضیلت بیان کرنے والوں اور اپنے آپ کو اصحاب کے جیالے کہنے والوں کے ادعا پر ایک سوالہ نشان ہے ۔
اگر اصحاب کے ساتھ مخلص ہیں اور سارے اصحاب سے دفاع کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں ابن تیمیہ جیسے گستاخوں سے اظہار برائت کرنی چاہئے ۔
 
 اس کو اہل سنت کے بعض علما نے خاص کر امیر المومنین علیہ السلام پر تنقید اور زبان درازی کی وجہ سے ناصبی تک کہا ہے۔
 
جیساکہ ہم نے اسی مقالے میں ابن تیمیہ کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کے چند نمونے ذکر کیے ہیں ۔
 
اب شیعوں  پر اصحاب کی شان میں  گستاخی کرنے کا الزام اور اس پر فتوے لگانے والوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اصحاب کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی