اہل بیت ؑ اور خلفاء کے درمیان تعلقات ۔
ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے شیعہ اور اہل سنت الگ الگ موقف رکھتے ہیں ۔اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ حضورپاکﷺ کے حقیقی جانشین ائمہ اہل بیت ؑ ہی ہیں اور آنحضرت ﷺ کے بعد ان کی پیروی سب پر واجب ہے ۔ اسی اعتقاد کی وجہ سے ان کی کتابیں ائمہ اہل بیتؑ کے توسط سے نقل شدہ اسلامی تعلیمات سے لبریز ہیں اور شیعوں کے ہاں اپنے اس عقیدے پر ٹھوس دلیلیں موجود ہیں ۔
لیکن اہل سنت کے فرقے ائمہ اہل بیت ؑ کی جانشینی کا عقیدہ نہیں رکھتے ، انہیں رسول اللہ ﷺ کا جانشین نہیں مانتے ۔اسی لئے ان کی معتبر کتابیں ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات سے تقریبا خالی ہیں، ان میں آٹے میں نمک کے برابر بھی ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات موجود نہیں ہیں ۔
بعض شیعہ مخالفین ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے اپنی مذہبی تاریخ کو چھپانے کے لئے دوسروں پر الزام تراشی کے ہتھیار کا سہارا لیتے ہیں اور اہل بیت ؑ کے پیروکاروں اور ان کے علمی وارثوں کی منطق اور استدلال کو سننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اپنے مریدوں اور ہم مسلک عوام کو یہ تصور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ہی اہل بیت ؑ کے پیروکار اور ان کو ماننے والے ہیں اور شیعہ اہل بیت ؑکے دشمن اور دھوکہ باز لوگ ہیں اور اس بات پر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ خلفاء اور ائمہ اہل بیت ؑکے درمیان اچھے تعلقات تھے اور ائمہ ؑ میں سے خاص کر امام علی ؑ خلفاء کی خلافت کو مانتے اور انہیں خلافت کا مستحق سمجھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ۔لہذا خلفاء کی طرف سے اہل بیتؑ میں سے خاص کر جناب زہراء ؑ پر ظلم اور ایک دوسرے سے ناراضگی کی باتیں شیعوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں اور شیعہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اہل بیت ؑ کے نام سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ شیعوں کی باتیں صحیح ہوں تو امام علیؑ نے بیعت لینے آپ کے گھر پر حملہ کرنے والوں سے کیوں مقابلہ نہیں کیا اور اپنی بیوی سے دفاع کرنے کے لئے تلوار ہاتھ میں کیوں نہیں لیا جبکہ آپ شیر خدا اور سب سے زیادہ شجاع اور غیرت مند انسان تھے۔
مخالفین اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کچھ تاریخی واقعات اور مطالب کے ذریعے تاریخی حقائق سے نا آشنا لوگوں کے مذہبی احساسات کو شیعوں کے خلاف ابھارتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈال کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی خدمت میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔
ہم اس تحریر میں اس سلسلے کے شیعہ مخالفین کی بعض کوششوں کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔انشاء اللہ ۔
الف : اہل بیت ؑ اور خلفا کے آپس میں رشتہ داریاں ۔
جناب ام کلثوم سے خلیفہ دوم کی شادی :۔
خلیفہ دوم کا جناب ام کلثوم دختر امام علیؑ سے شادی کے مسئلے کو بہانا بنا کر بعض شیعہ مخالفین خلیفہ دوم کو امام علی ؑ کا داماد کہہ کر شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ خلفاء اور اہل بیتؑ کو ایک دوسرے کا دشمن کہتے ہیں جبکہ یہ آپس میں ایک دوسرے کو رشتہ دیتے اور رشتہ لیتے تھے ۔ہم اس تحریر میں اس رشتے کی تاریخی حقیقت ہونے یا نہ ہونے سے بحث کے بجاے
[1] اس رشتے کے بہانے تاریخی حقائق کو جھٹلانے کے سلسلے میں کیے جانے والے مغالطوں کی حقیقت سے بحث کرنے کی کوشش کرینگے ۔{ انشاء اللہ }
کچھ معروضات :۔
1: اس ازدواج کے سلسلے میں موجود مطالب کے درمیان اختلاف اور تناقض کی وجہ سے اہل علم حضرات کے درمیان یہ ایک معرکہ آرا مسئلہ ہے، بعض نے اس مسئلہ کو مسترد کیا ہے۔ بعض نے اصل ازدواج کو قبول کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ اس ازدواج کے وقت ام کلثوم بچی تھیں، اور زفاف سے پہلے خلیفہ قتل ہوا اور بعض نے اس شادی کے نتیجے میں ان کی اولاد کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔
2:. صرف کسی معتبر کتاب میں کسی بات کے ذکر ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا منطوق اور مقصود واقع کے مطابق ہو ۔ کیونکہ اگر ایسا ہے تو شیعہ ہر اختلافی مسئلے میں{ چاہے نماز میں ہاتھ کھولنے کا مسئلہ ہو یا وضو، متعہ ۔۔ جیسے مسائل } مخالفین کی کتابوں سے اپنے حق میں روایات پیش کرسکتے ہیں۔{ دیکھیں جعفر سبحانی صاحب کی کتاب الاعتصام اور الانصاف }
3:. اگر ثابت ہو بھی جائے کہ یہ شادی واقع ہوئی تھی تو اس سے دو خاندان کے درمیان اچھے ارتباط کو ثابت نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ کسی حاکم کی اپنی پسند کی شادی کو دوسری طرف والوں کی پسند نہیں کہا جاسکتا ۔شادی کی علت ، وجوہات اور اس سلسلے میں پیش آنے والی گفتگو اور واقعات کو دیکھنے کے بعد ہی اس قسم کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
جیساکہ رسول اللہ ﷺنے ابو سفیان کی بیٹی اور معاویہ کی بہن سے شادی کی جبکہ اس وقت یہ دونوں جنگ بدر ، جنگ احد اور خندق میں رسول اللہ ﷺ کے مقابل فوج کی کمانڈری کر رہے تھے اور اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بعض دوسرے کافروں کی بیٹیوں اور بہنوں سے شادی کی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ رسول اللہﷺ اور ان کی زوجہ کے رشتہ داروں میں اچھے تعلقات تھے ۔جیساکہ قرآن مجید میں جناب لوط ؑکے حوالے سے بھی موجود ہے کہ آپ نے فساد سے بچنے اور مہمانوں کے سامنے اپنی عزت بچانے کے لئے فاسد لوگوں کو اپنی بیٹیوں سے شادی کرنے کا کہا [2].
تاریخ میں بہت سے نمونے اپنے نظریاتی مخالف اور حتی دشمن سے رشتہ کرنے کے سلسلے میں موجود ہیں ۔مثلا اشعث بن قیس کا حضرت امیر ؑ کے ساتھ منافقانہ رویہ مسلمات تاریخ میں سے ہے ۔لیکن اس کی پیش کش پر اس کی بیٹی جعدہ کا رشتہ امام حسن ؑ سے طے ہوا اور بعد میں اشعث کی یہی بیٹی سبط اکبر جناب امام حسن مجتبیؑ کی شہادت کا سبب بنی ۔
لہذا اگر شادی خود بخود اچھے تعلقات کی نشانی ہوتی تو داعش کی طرف سے عراق اور سوریہ میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جہاد نکاح وغیرہ کے عنوان سے کیے سارے کھیل اور عصمت دری لڑکیوں کی ماں باپ اور بہن بھائیوں کا داعش سے اچھے تعلقات کی دلیل بن جاےگی۔
4:۔ اگر ثابت ہوجائے کہ خلیفہ اور علی بن ابی طالب ؑکی بیٹی ام کلثوم کے درمیان یہ رشتہ ہوا تھا تو یہ خلیفہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں ایک کم سن لڑکی سے شادی کرے ۔اس فرض کی بنیاد پر{کہ یہ رشتہ ہوگیا تھا } اگر اس واقعے کے سلسلے میں نقل ہونے والے مطالب کامطالعہ کرے تو نتیجہ الٹ نکلتا ہے اور اس داستان کی آڑ میں مخالفین جن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ انہیں حاصل نہیں کرسکتے ۔
تحلیل اور تفصیلی جواب :۔
یقینا اس رشتے کے طے پانے کے ذریعے سے ان دو خاندانوں کے درمیان اچھے تعلقات اور ایک دوسرے سے محبت اور الفت کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل سوالوں کا مثبت جواب بھی ضروری ہے۔
سوال :۔ کیا اہل بیت ؑ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی دلچسپی تھی ؟ کیا یہ رشتہ ان کی مرضی اور پسند کے مطابق تھا ؟
اگر ان سوالوں کا جواب مثبت نہ ہو اور اس کے باجود یہ رشتہ ہو بھی گیا ہو تو اس سے ان دو خاندانوں کے درمیان اچھے تعلقات ،ہمدلی اور الفت و محبت کے ہونے کا نتیجہ نکالنا مغالطے سے کام لینا ہے ۔کیونکہ دلچسپی اور پسند کے بغیر طے پانے والا رشتہ نہ صرف اچھے تعلقات کی دلیل نہیں بلکہ یہ رشتہ مانگنے اور لے جانے والے کی طرف سے اپنا روز چلانے رشتہ والوں پر اپنی مرضی کو مسلط کرنا اور رشتہ والوں سے کسی قیمتی چیز کو چھینا ہے اور اس سلسلے میں رشتہ والوں کی کسی وجہ سے خاموشی یا کسی مجبوری میں دل نخواستہ رضایت دینے کو ان کی پسند اور اس رشتے میں دلچسپی سے تفسیر کرنا حقائق سے کھیلنا اور راضی ہونے اور کسی وجہ سے رضایت دینے میں فرق نہ کرسکنے کا نتیجہ ہے ۔
لہذا آئیں مندرجہ بالا سوالوں کا جواب ڈھوڈنے کے لئے مندرجہ ذیل سوالوں کا جواب تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں ؛
1: کیا رسول اللہﷺ اس رشتے کو پسند فرماتے ؟
2: کیا جناب فاطمہ ؑ زندہ ہوتیں تو اس رشتے پر راضی ہوتیں؟
3: کیا علی ابن ابی طالبؑ اس پر راضی تھے {اس وضاحت کے ساتھ کہ رضایت دینا اور ہے راضی ہونا اور ہے }
4: کیا آپ کی صاحب زادی جناب ام کلثوم اس رشتے پر راضی تھی ؟ کیا حسنین شریفین اس پر راضی تھے ؟
اگر ہم تاریخی حقائق پر نظر کریں تو ان میں سے کسی سوال کا جواب بھی مثبت نہیں ہے ۔
جیساکہ جناب رسول اللہﷺ کا جواب واضح ہے، کیونکہ جب جناب خلیفہ اول اور دوم جناب ام کلثوم کی ماں جناب فاطمہ زہراؑ کا رشتہ لینے آئے تو آنحضرت ؐ نے انہیں یہ چھوٹی ہے کہہ کر جواب دیا : «إِنَّهَا صَغِيرَةٌ»، فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا مِنْهُ[3]۔
حدیث کی شرح کرنے والوں نے لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جناب فاطمہ ؑ نابالغ ہیں اور ابھی ان کی شادی کی عمر نہیں ہے ۔ بلکہ پیغمبر اکرم ﷺ کا مقصد یہ تھا تم دونوں کی عمر زیادہ ہے اور فاطمہ ؑ کا رشتہ تم دونوں سے مناسب نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں دنوں میں حضرت علیؑ رشتہ لینے آئے تو آپ ؐنے اس پر رضایت دی اور جناب فاطمہ ؑ کی شادی حضرت علی ؑ سے کردی ۔
لہذا جب رسول اللہﷺ اپنی بیٹی کے بارے یہ جواب دے رہے ہیں تو اسی بیٹی سے اپنی نواسی کے بارے میں جو اس واقعے کے پانچ ، چھے سال بعد دنیا میں آئی ہو اور وہی شخص نواسی کا رشتہ لینے آئے تو رسول اللہﷺ یقینا اور سختی سے انکار کرتے ۔
اس سلسلے میں دوسری شخصیت حضرت علیؑ ہیں ، ان کا جواب بھی وہی ہے جو رسول اللہﷺ کا ہے ۔جیساکہ نقل بھی یہی ہوا ہے کہ آپ نے خلیفہ کے جواب میں وہی فرمایا جو رسول اللہﷺ نے خلیفہ اول اور دوم کو جواب میں فرمایا تھا :إِنَّها صَغِيرَةٌ[4].
اس کے علاوہ اہل سنت کے منابع میں آیا ہے کہ جب امام علی ؑنے فرمایا: إنها صبية فام کلثوم چھوٹی بچی ہے"تو خلیفہ نے کہا: إنك والله ما بك ذلك ولكن قد علمنا ما بك[5]. " خدا کی قسم یہ تمھارا بہانہ ہے اور میں خود جانتا ہوں کہ تجھے کیا تکلیف ہے۔
بعض نقلوں کے مطابق امام علی ؑؑ نے فرمایا: میں نے اسے اپنے بھائی جعفر کے فرزندوں( میں سے ایک) کے لئے رکھا ہے ۔لیکن خلیفہ نے انہیں ٹوک کر کہا :اے علی ان کی شادی مجھ سے کر دو [6]۔
لہذا امام علی ؑ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ نہ ہو ۔لیکن جناب خلیفہ کے بار بار اصرار[7] پر ہو بھی گیا ہو اور کسی وجہ سے حضرت نے رضایت دے بھی دی ہو تو اس سے کا مطلب یہ ہے کہ یہ رشتہ انہیں پسند تو نہیں تھا لیکن حاکم کے اصرار پر آپ نے رضایت دے دی ۔ لیکن یہ ان کے آپس کے اچھے تعلقات کی دلیل نہیں بن سکتی ہے ۔
اس سلسلے میں تیسری شخصیت جناب فاطمہ زہراءؑ ہیں ، یہاں بھی اولا ؛ اگر آپ ؑزندہ ہوتیں تو آپ ؑ کا جواب بھی مذکورہ دو شخصیتوں کے جواب سے مختلف نہ ہوتا ۔کیونکہ آپ ؑ کے بابا نے آپ ؑ کے لئے جس رشتے کو مناسب نہیں سمجھا تو کیسے آپ اسی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینا مناسب سمجھتیں ؟ ثانیا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپ ؑ اپنی بیٹی کا رشتہ اسے دینے پر راضی ہوں جن سے آپ سخت ناراض تھیں اور آخری وقت تک انہیں اپنے حق کا غاصب سمجھ کر ان سے قطع تعلق کی اور ان سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا ،یہاں تک کہ اپنے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینے ، حتی اپنی قبر تک مخفی رکھنے وصیت کر کے دنیا سے چلی گئی [8] ، خاص کر جناب خلیفہ دوم نے تو رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مخالفین سے بیعت لینے کے سلسلے میں جناب فاطمہؑ کے گھر کو آگ لگانے کی دہمکی دی اور جب ہجوم لانے والوں کو روکنے کی خاطر جناب فاطمہؑ دروازے پر آئیں تو جواب ملا کہ اگر لوگ یہاں سے بیعت کرنے نہ نکلے تو اس گھر میں فاطمہ ؑ اور حسنین ؑبھی ہو ں پھر بھی اس گھر کو آگ لگا دیں گے[9] ۔ اسی لئے خلیفہ اول بعد میں اس بات پر اظہار ندامت کرتے تھے : فَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ كَشَفْتُ بَيْتَ فَاطِمَةَ وَتَرَكْتُهُ، وَأَنْ أَغْلِقَ عَلَيَّ الْحَرْبَ[10]۔ یعنی ای کاش میں در فاطمہ کا پاس رکھتا{ بیعت لینے زور سے ان کے گھر میں داخل ہونے کا حکم نہ دیتا }۔
لہذا جناب فاطمہ ؑ غم و اندوہ اورغضب ناک حالت میں دنیا سے اپنے بابا رسول اللہﷺ کے حضور شکایت لے کر گئیں اور اگر جناب ام کلثوم سے شادی کے ذریعے رسول اللہ ﷺ سے رشتہ قائم کرنے کی فکر میں ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب فاطمہؑ رسول اللہ ﷺ اور دوسروں کے درمیان اس رشتے کے برقراری کا سبب ہیں ، انہیں نکال کر رسول اللہﷺ سے رشتہ قائم کرنے کی بات ہی بے معنی ہے ۔
اسی طرح جناب حسنین شریفین ؑ کا جواب اور رد عمل بھی واضح ہے ۔یقینا اپنی چھوٹی بہن کا رشتہ ایک بوڑھے آدمی سے کرنے پر وہ راضی نہیں تھے ۔
اس سلسلے میں خود جناب ام کلثوم کا رد و عمل اور موقف بھی واضح ہے کیونکہ کونسی لڑکی جو ابھی حد بلوغ تک بھی نہ پہنچی ہو [11] وہ یہ گوارا کرے کہ اس کا رشتہ ایک بوڑھے آدمی سے ہو ؟
جیساکہ اس سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ جب خلیفہ نے آپ کی پنڈلی پر ہاتھ رکھ کر پنڈلی نکالی تو ام کلثوم خلیفہ سے یوں مخاطب ہوئی : أَتَفْعَلُ هَذَا، لَوْلا أَنَّكَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَكَسَرْتُ أَنْفَكَ. یہ کیا کر رہے ہو؟ اگر تم مومنین کے امیر نہ ہوتے تو میں تمہاری ناک توڑ دیتی اور اپنے باپ علی ابن ابی طالب ؑسے اس سلسلے میں یوں اظہار نظر کیا : بَعَثْتَنِي إِلَى شَيْخِ سُوءٍ[12].بابا آپ نے مجھے ایک برے بوڑھے کے پاس بھیجیں ہیں۔بعض تعبیروں میں ہے، أرسلتني إلى شيخ مجنون[13]،آپ نے مجھے ایک پاگل بوڑے کے پاس بھیجیں ہیں۔
اب یہ رشتہ ہو بھی گیا ہو تو کیا ان حقائق کو دیکھنے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ رشتہ خلیفہ اور خاندان پیامبر کے اچھے تعلقات اور ان کے آپس میں محبت اور اتحاد کی دلیل ہے اور یہ رشتہ خاندان پیامبر کی مرضی اور پسند کا رشتہ تھا ؟
جیساکہ باقی اماموں اور ان کی نسل سے کسی نے اس وصلت پر فخر نہیں کیا ہے اور اس پر خوشی کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔بلکہ جو مطالب اس سلسلے میں ان سے نقل ہوئے ہیں وہ برعکس ہیں ۔
لہذا اگر درایت اور عقل سے کام لیتے تو کبھی بھی خلیفہ کے طرفدار خلیفہ کی فضلیت اور مدحت میں اس واقعے کو ذکر نہ کرتے کیونکہ اس کے صحیح ہونے کی صورت میں اس کا نتیجہ الٹ نکلتا ہے ۔
کیونکہ جب رسول اللہﷺ نے جناب خلیفہ اول اور دوم کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ چھوٹی ہے جیساکہ بیان ہوا کہ آنحضرت ؐ کا مقصد ان کی عمر کے حساب سے آپس میں مناسب نہ ہونا تھا ،اب جب رسول اللہﷺ کا جواب یہ تھا تو رسول اللہﷺ کی سنت کی پیروی کا تقاضا یہ تھا کہ جناب خلیفہ رسول اللہﷺ کی اسی بیٹی سے آپؐ کی نابالغ نواسی کا رشتہ لینے نہ آتے اور اگر شرعی اعتبار سے یہ رشتہ جائز بھی ہو پھر بھی کم از کم اخلاقی اعتبار سے احترام فرمان رسول اللہﷺ میں ایسا نہ کرتا۔
جیساکہ بیان ہوا کہ خاندان پیامبر کی طرف سے اس رشتے پر راضی ہونے اور اس رشتے کو دل و جان سے قبول کرنے پر کوئی شاہد نہیں ہے بلکہ برعکس خاندان پیامبر کے راضی نہ ہونے اور ان کی پسند کا رشتہ نہ ہونے پر شواہد موجود ہیں ۔اب اس کے باوجود یہ رشتہ ہو گیا ہو تو اس سے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کی مرضی کے خلاف ہوا ہے اور یہ خاندان نبوت پر اپنا زور چلانا اور ان کی پسند کے خلاف ان پر کسی چیز کو مسلط کرنا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کے توسط سے نقل شدہ روایات میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے [14]۔ لیکن شیعہ مخالفین اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے شیعہ کتب میں اس رشتے کے سلسلے میں موجود بعض باتوں کو لیتے ہیں لیکن اس کی نوعیت اور اس کی علت کے سلسلے میں بیان شدہ باتوں کو نظر اندا ز کرتے ہیں .
ایک اعتراض اور جواب :۔
اس سلسلے میں بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر یہ اہل بیت ؑ کی مرضی کے خلاف ہو ا ہو اور اگر یہ بات درست ہو کہ جناب فاطمہؑ خلفاء سے ناراض ہوکر دنیا سے گئیں ہیں اور خلفاء نے ان کے گھر پر داوا بول دیا ہواور ان کے حق کو غصب کیا ہو تو علی ابن ابی طالب ؑ کی شجاعت اور غیرت کہاں گئی؟
جواب : یہ ایک الگ ٹاپک ہے کیونکہ اس رشتے کے سلسلے میں اہل بیت ؑ کی طرف سے دلچسپی نہ ہونا اور اس رشتے کا اہل بیتؑ کی مرضی کے خلاف ہونا قابل انکار نہیں ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جناب فاطمہ زہراء ؑ کے گھر پر ہجوم اور آپ ؑ کا خلفاء سے قطع تعلق اور ناراضگی کی حالت میں دنیا سے جانا بھی ایسے تاریخی حقائق ہیں کہ جن کا انکار ممکن نہیں ۔ اسی لئے اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے شبہات اور اشکالات سے مذکورہ تاریخی حقائق کو چھٹلایا نہیں جاسکتا۔ شبہہ کی وجہ سے اصل حقیقت کا انکار کرنا اور شبہہ کو بنیاد بنا کر مسلمات سے چشم پوشی طالبان حق اور اہل علم کا شیوہ نہیں ہے۔
حضرت علی ؑ کے اس سلسلے میں کردار اور طرز عمل کو سمجھنے کے لئے اس وقت کے حالات کا صحیح ادراک رکھنا ضروری ہے جس وقت یہ واقعات رونما ہوئے ۔اس طرح امام ؑ کی سیرت اور شخصیت سے آشنا ئی کے بغیر امام ؑ کے طرز عمل کو سمجھنا ممکن نہیں ہے. اگر ان دو مطالب کے بارے صحیح ادراک حاصل ہو تو مذکورہ دو واقعات کو سمجھنا بھی آسان ہوگا ۔
امام ؑ رسول خداﷺ کی وفات کے بعد مسند خلافت سے محرومی اور دوسرے تلخ واقعات کے مقابلے میں مسلحانہ اقدام نہ کرنے اور اپنی شجاعت کے جوہر نہ دکھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :خدا کی قسم! اگر مسلمانوں کےدرمیان تفرقہ، کفر کے پلٹ آنےاور اسلام کے نابود ہونے کا خوف نہ ہوتا تو ان لوگوں کےساتھ کسی اور طریقہ سےپیش آتا [15]۔
میں نےدیکھا کہ جوحالت پیش آئی اس پر صبرکرنا مسلمانوں کی اتحاد کو ختم کرنےاور مسلمانوں کے خون گرانے سےبہتر ہے ،کیونکہ لوگ تازہ مسلمان تھے دین بھی نومولود بچہ کی طرح تھا کہ ابھی مستحکم نہیں ہوا تھا۔ معمولی سستی اسے نابود کردیتی[16]۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت داخلی اور خارجی دشمنوں نے اسلام کی بنیاد کو اکھاڑنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا ۔ ایسے حالات میں امام ؑ کی طرف سے مسلحانہ اقدام داخلی طورپر مسلمانوں کا دست بگریبان ہونا ، مسلمانوں کے صفحوں میں پھوٹ پڑھنا اور داخلی محاذ پر ایک دوسرے کو کچلنے کے مترادف تھا۔ امامؑ صبر و حوصلہ، اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردی اور محبت ، آپکی دور اندیشی اور بصیرت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرئے اور داخلی اور خارجی دشمنوں کی طرف سے اسلام کو جڑھ سے اکھاڑنے کے منصوبے کو ناکام بنائے۔
امام مکتب وحی کے پروردہ اور رسول پاکﷺ کے سب سے ممتاز شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت تھے۔ آپ اسلام کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کئے ہوئے تھے ۔ آپ جیسی شخصیت کبھی بھی اپنے او پر کئے گئے ظلم و نا انصافی کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو در پیش مشکلات اور خطرات کے آگے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتی ۔ اپنی زندگی کے اعلی و ارفع ہدف { یعنی دین } کو سیاسی رقابتوں کا نذر کر کے اسلام اور مسلمانوں کی بربادی کا تماشا دیکھنا آپ جیسی شخصیات کا شیوہ نہیں ہے ۔ ایسی شخصیات حتی اعلی و ارفع ہدف کو بچانے کے لئے اپنے رقیب کی مدد سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
لہذا جو لوگ اس وقت کے حالات اور امام کی شخصیت سے آگاہی نہیں رکھتے اور غصے کی حالت میں در پیش مسائل میں جذباتی اور احساساتی طریقے سے پیش آنے کو شجاعت اور غیرت مندی سے تعبیر کرتے ہیں، یقینا ایسی سوچ رکھنے والے امام کے طرز عمل کی تفسیر سے عاجز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہم مذہبی شخصیات بھی ان باتوں کے تجزیہ اور تحلیل سے عاجز نظر آتے ہیں ۔ حتی شیعہ مخالف بڑے بڑے علماء شیعوں کے موقف کی رد میں امام علی ؑ کے مسالت آمیز طرز زندگی کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے طرز فکر اور شخصیت کے آئینے میں امام کے کاموں کو دیکھتے ہیں ، امام کی فکر اور شخصیت کے آئینے میں ان چیزوں پر نظر نہیں ڈالتے۔
اگر حقیقت بینی سے کام لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ اس دور میں امام علیؑ کا مسالمت آمیز طرز عمل اسلام کی حفاظت اور دفاع کے لئے اٹھی ہوئی آپ کی تلوار اور جنگوں میں تلواروں سے کھائے ہوئے زخموں سے کہیں زیادہ بھاری اور اہم تھا ۔کیونکہ آپ کے ہی بقول اس راہ میں صبر و تحمل سے کام لینا اور مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنا آنکھوں میں کانٹے اور حلق میں ہڈی اور جوانوں کو بوڑھا کرنے کے مانند تھا[17]۔
یہاں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام نے گرچہ حالات کے مطابق کوئی مسلحانہ اقدام نہیں کیا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ آپ مکمل طور پر خاموش رہے ہوں اور اپنے موقف کا اظہار نہ کیا ہو اور امام کا موقف خلفاء اور لوگوں سے مخفی رہا ہو۔ آپ ؑ نے شروع میں واضح اور شدید انداز میں اپنی مخالفت اور موقف کا اظہار فرمایا اور بعد بھی جب بھی حالات سازگار ہوئے حالات کے مطابق حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہیں ۔ اس سلسلے میں خلیفہ دوم کا اعتراف[18] اور خلیفہ دوم کے قتل کے بعد خلیفہ انتخاب کرنے والے شوریٰ کے سامنے خلیفہ اول اور دوم کی سیرت اور روش پر عمل سے انکار صاحبان بصیرت کے لئے امام کا خلفاء کے بارے موقف اور تعلقات کی نوعیت جاننے کے لئے کافی ہے ۔
مخالفین سے دو سوال :
پہلا سوال :۔ ہم گذشتہ کی مطالب کی روشنی میں اس قسم کی شبہات کے شکار لوگوں سے سوال کرتے ہیں؛ کیا ان حالات میں امام علیؑ کی طرف سے شجاعت اور عزت کے نام پر تلوار نیام سے نکالنا اور اس راہ میں شہید ہوجانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر تھا یا صبر و تحمل سے کام لینا ؟ دوسری لفظوں میں، اگر ایک بہت بڑے دینی رہبر کے ساتھ ایسا مسئلہ پیش آئے کہ وہ غیرت اور شجاعت دیکھانے یا صبر تحمل میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو اور ساتھ ہی صبر و تحمل سے کام لینے سے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت وابستہ ہو تو ایسے حالات میں اس رہبر سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ؟ کیا ایسے حالات میں شجاعت اور غیرت کےنام پر اپنے کو خطرے میں ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل جبران مشکلات سے دوچار کرنے والے کو شجاع اور غیرت مند کہا جاسکتا ہے، کیا ایسے رہبر کی مدح و سرائی کی جاسکتی ہے؟
دوسرا سوال : ۔ ہم اس قسم کے اعتراض کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ کیا آپ لوگوں کی کتابوں میں نہیں ہے کہ حاکم چاہے ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو اس کے خلاف قیام جائز نہیں ہے اور اگر اس سلسلے میں آپ لوگوں کی کتابوں میں موجود روایتیں صحیح ہوں [19] تو کیا امام علی ؑ کی خاموشی کو انہیں روایات کے ذریعے سے توجیہ نہیں کی جاسکتی اور اگر یہ روایتیں غلط ہو تو آپ لوگوں نے کس بنا پر یہ عقیدہ بنا رکھے ہیں کہ حاکم کے خلاف قیام جائز نہیں ہے چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو[20] ؟
ب : بعض دوسرے مخالطے اور ان کا جواب :۔
گذشتہ بیان سے بہت سے دوسرے مغالطوں کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔
الف: ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی ؑ خلفاء کو مشورہ دیتے اور خلفاء ان سے مشورہ لیتے۔ لہذا نہ صرف ان کے آپس میں کوئی جگڑا نہیں تھا بلکہ یہ ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ امیر المومنین ؑ مسلمانوں کو درپیش مسائل میں خلفاء کو مشورہ دیتے تھے یا کہیں پر یہ دیکھتے کہ نادانی کی وجہ سے کسی پر ظلم ہو رہا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف حکم صادر کیا جارہا ہے تو آپ فورا حاضر ہوکر اس مشکل کو حل کرتے ۔لیکن یہ در حقیقت اسلام اور مسلمانوں سے آپ کی ہمدردی اور دین کے خلاف ہونے والے امور کا روک تھام کرنا تھا ۔ جیساکہ اس سلسلے میں پیش آنے والے واقعات اسی بات پر دلیل ہے کہ جب بھی اسلام اور مسلمانوں کو آپ کی حمایت کی ضرورت پیش آئی آپ فورا آگے بڑھ کر ان کی مدد کی ۔اب بعض اسلام اور مسلمانوں سے آپ کے اس اخلاص کو خلفاء کی حمایت اور ان کی تایید سے تعبیر کرے تو یہ امیر المومنین ؑ کی شخصیت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
ب : ۔ اسی سلسلے میں بعض دوسری شادیوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں مثلا ؛ ام فروہ بنت قاسم ابن محمد ابن ابوبکر سے امام باقر ؑ کی شادی یا اسی طرح جناب خلیفہ اول کی بیوہ اسماء بنت عمیس سے امام علی ؑ کی شادی اور اس کے نتیجے میں جناب ابوبکر کے فرزند محمد کا امام علی ؑ کے گھر میں تربیت اور پرورش پانا ۔
اس قسم کے رشتوں سے بھی خلفاء اور خاندان نبوت کے درمیان اچھے تعلقات ، ہمدردی اور اتحاد و یکجہتی کا دعوا کیا جاتا ہے ۔لیکن یہاں بھی سابقہ مطالب کی روشنی میں جواب واضح ہے ۔ خاص کر جناب فاطمہ زہراء ؑ اور امیر المومنینؑ کا خلفاء کے بارے رویے اور ان کا ایک دوسرے کے بارے عقیدے کی وضاحت ہوچکی اور یہ بیان ہوا کہ شادی خود بخود اچھے تعلقات کی نشانی نہیں ہے۔جیساکہ بیان ہوا رسول اللہﷺ نے ابوسفیان کی بیٹی اور معاویہ کی بہن سے شادی کی۔ لیکن یہ شادی ابوسفیان کی بیٹی کی ذاتی خصوصیت ، ان کا ایمان اور رسول اللہﷺ سے ان کے لگاو کی وجہ سے تھی ۔ یہاں ایسا نتیجہ نکالنا انتہاہی غیر علمی اور غیر منطقی ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کا ابوسفیان اور معاویہ سے اچھے تعلقات اور محبت و ہمدلی کی دلیل ہے ۔
جیساکہ جناب اسماء بن عمیس سے امیر المومنین ؑ کی شادی اور محمد بن ابوبکر کا امیر المومنین ؑ کے گھر میں پرورش کے سلسلے میں بھی بات یہی ہے ۔محمد بن ابوبکر کا ان کی ماں کے ساتھ ان کے گھر آنا اور محمد کی پرورش ان کے گھر میں ہونا خود حضرت علی ؑ کا بعثت سے رسول اللہﷺ کے گھر میں لانے کی طرح نہیں تھا ۔بلکہ یہ ایک ماں کے ساتھ اس کے دوسرے شوہر سے چھوٹے بچوں کا نئے شوہر کے گھر آنا ہی تھا ۔ کیونکہ امیر المومنین ؑ نے اسماء سے شادی جناب ابوبکر کی وجہ سے نہیں کی تھی بلکہ خود جناب اسماء کی وجہ سے کی تھی کیونکہ یہ ان کے بھائی کی بیوہ بھی تھی ۔لیکن حضرت امیر ؑ کے حسن معاشرت اور تربیت کے نتیجے میں محمد بن ابوبکر آپ کے گرویدہ اور آپ کے سچے حامیوں میں سے ہوگیا۔ ان کے درمیان استاد و شاگرد کا رشتہ قائم تھا ۔اسی لئے محمد کا اہل بیت ؐ کے ساتھ رابطہ ذاتی نوعیت کا تھا یہ خلیفہ کے فرزند ہونے کی وجہ سے نہیں تھا ۔ اسی ذاتی تعلق کی وجہ سے اس نے ہمیشہ امیر المومنین ؑ کا ساتھ دیا اور آپ کے مد مقابل والوں سے برسر پیکار ہوا ۔ انہیں میں سے ایک جنگ جمل میں اپنی بہن جناب عایشہ کے مقابلے میں کھڑا ہونا تھا ۔اسی وجہ سے امیر المومنین ؑ کو ان پر اعتماد تھا اور انہیں مصر کا حاکم بنایا لیکن معاویہ کے حکم پر اس کے سپاہیوں نے مصر میں انہیں امام کی حمایت اور خلیفہ سوم کے خلاف قیام کے جرم میں انتہائی بیدردی کے ساتھ شہید کیا ۔لہذا اب ان کی نسل سے کسی امام کا رشتہ ہوا ہو تو یہ محمد اور اس رشتے کی ذاتی خصوصیت کی وجہ سے تھا ،جناب ابوبکر سے رشتے کی وجہ سے نہیں تھا ۔
شیعہ مخالفین کی عجیب منطق ہے ، جناب ابوبکر کے بیٹے کی پوتی سے کسی امام کے رشتے کو جناب ابوبکر کے خاندان سے تعلق اور خلیفے سے محبت کی نشانی قرار تو دیتے ہیں لیکن محمد بن ابوبکر کا خلیفہ سوم کے خلاف قیام یا معاویہ کے حکم سے محمد کے قتل کو ان دو خاندانوں کے درمیان کینہ اور دشمنی کی نشانی قرار نہیں دیتے۔
ج:۔
بعض لوگ اهل بیت ؑکے گھرانے میں سے بعض کا خلفاء سے ہمنام ہونے کو بہانا بنا کر شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ تو ایک دوسرے کی محبت میں اپنے بچوں کا نام خلفاء کے نام پر رکھتے تھے۔ لیکن شیعہ ان کے آپس میں دشمنی اور کینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں بعض معروضات :
1 : .گزشتہ اعتراض کے جواب میں بیان شدہ مطالب اس شبہہے کا بھی جواب ہے ۔
2: صرف ہمنام ہونا دو شخصیتوں کے آپس میں اچھے تعلقات اور محبت کی دلیل نہیں ہے ۔ ورنہ اصحاب اور ان کی اولاد میں سے بہت سے کافروں کے ہمنام تھے ۔
3: یہ نام دوسرے ناموں کی طرح اس دور کے مشہور ناموں میں سے تھا اسی لیے اصحاب میں سے 20 سے زیادہ کے نام عمر تھے اسی طرح عثمان اور ابوبکر بھی اس زمان کے مشہور ناموں میں سے تھے[21]. یہ نام کافروں کے نام بھی تھے ۔لہذا ایسا نہیں تھا کہ اصحاب کے دور میں صرف ابوبکر جناب خلیفہ اول ، عمر صرف خلیفہ دوم اور عثمان صرف خلیفہ سوم کے ساتھ مختص ہو اور بعد والوں نے انہیں کی محبت میں یہ نام رکھنا شروع کیا ہو۔
4: شیعہ دشمنی میں سب سے زیادہ زبان درازی کرنے والا ابن تیمیہ بھی شیعوں پر کیے اس قسم کے اعتراض کے رد میں کہتا ہے: اس وقت تو رسم یہ نہیں تھا کوئی نام اگر اپنے دشمن کا بھی ہو کہ اس نام کو مٹایا جائے[22] ۔
5: اگر حضرت علی مرتضی ؑ کا اپنے بیٹوں کا نام خلفاء کا ہمنام رکھنا ان سے محبت کی نشانی ہے.تو خلفاء کے اپنے بیٹوں کا نام علی ،فاطمہ ، حسن و حسین نہیں ہے ؟
6 : شیعوں پر اعتراض ہوتا ہے کہ شیعہ کیوں اماموں کی اتباع میں اپنے بچوں کا نام خلفاء کا ہمنام نہیں رکھتے ؟ یہاں بھی جواب واضح ہے کہ پہلے زمانے کی طرح اب ایسا نہیں ہے کہ نام صرف مشہور ناموں میں سے ہونےکی وجہ سے رکھا جاے. آج لوگ اپنے بچوں کا نام اپنے کسی مذہبی شخصیت کے نام کو زندہ کرنے کے لئے رکھتےہیں اور کیونکہ ہم اہل بیتؑ کی پیروی میں خلفاء کو نہیں مانتے لہذا ان کے نام اپنے بچوں کے لئے انتخاب نہیں کرتے ۔
خلفاء کی اولاد کا اس سلسلے میں کردار :
ائمہ اہل بیت ؑ کسی سے دشمنی اور کینے کی حالت میں نہیں رہنا چاہتے ۔ سب کے ساتھ مسالمت آمیز طرز زندگی گزارنے کو دشمنی اور کنیہ پر مبنی طرز زندگی پر ترجیح دیتے تھے ۔ لیکن خلفاء کی نسل میں اگر اس سلسلے میں بحث کیجائے تو معاملہ یہاں پر برعکس ہے ۔
مثلا خلیفہ اول کی نسل سے جناب عایشہ کو لیا جائے تو آپ تو ہمیشہ جناب امیر ؑ سے نزاع اور کینے کی حالت میں رہتی [23]۔ یہاں تک کہ جنگ جمل میں امام کے خلاف لشکر کی قیادت کی اور ہزاروں مسلمان اس کے نتیجے میں قتل ہوئے ، اب یہاں پر چاہے یہ جنگ دھوکہ یا اجتہاد کا نتیجہ ہو یا اس کی اور کوئی وجہ ہو لیکن جناب عایشہ یہ تو جانتی تھی کہ مقابل میں کون ہے کس کی مخالفت میں لشکر کی قیادت کر رہی ہے ۔
اہل سنت کی کتابوں میں یہاں تک جناب عایشہ کا امیر المومنین ؑ کے ساتھ منفی رویے کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب جناب امیر المومنین ؑ کی شہادت کی خبر انہیں ملی تو خوشی کا اظہار کیا اور سجدہ شکر ادا کیا [24]۔
خلیفہ دوم کی نسل کے کردار کے حوالے سے بھی قابل توجہ بات یہ ہے کہ سارے بڑے بڑے اصحاب مخصوصا بدری اور بیعت رضوان میں شریک اصحاب نے خلیفہ سوم کے بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ لیکن خلیفہ دوم کے سب سے بڑے فرزند عبد اللہ بن عمر نے گرچہ اپنی بہن ام المومنین حفصہ کو جنگ جمل میں امیر المومنین ؑکے خلاف جنگ میں شرکت سے منع کیا لیکن آپ ؑ کی مخالفت میں آپ کی بیعت سے انکار کیا اور بدری اور بیعت رضوان میں شریک اصحاب کی رای کا احترام نہیں کیا ۔
جناب عثمان کے بیٹے تو جنگ جمل اور جنگ صفین میں امیر المومنین ؑ کے خلاف پیش پیش رہے اور اپنے باپ جناب عثمان کے خون کا انتقام لینے کے بہانے ان دوجنگوں میں امیر المومنینؑ اور ان جنگوں میں شریک حسنین شریفین ؑ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ۔
عجیب و غریب منطق :
شیعہ مخالفین جناب خلیفہ کی دوسری نسل میں ان کی پوتی سے کسی اماموں کی شادی کو ان دو خاندانوں کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل بنا کر پیش تو کرتے ہیں لیکن جناب عایشہ کا امیر المومنین ؑ کے ساتھ منفی رویے کو ان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کشف کرنے کی علامت نہیں سمجھتے ۔ ان حقائق کے باوجود کسی امام کا اپنی بیٹی کا نام عایشہ رکھنا جناب ام المومنین کی محبت اور ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کی کوشش قرار دیتے ہیں ۔
ائمہؑ کی اولاد میں سے بعض کا خلفاء کا ہمنام ہونے کو ان کے آپس میں اچھے تعلقات کی دلیل بنا کر تو پیش کرتے ہیں لیکن یہ بتانے سے عاجز ہیں کہ خلفاء کی اولاد اور نسل میں سے کتنے اہل بیت ؑ کے ہمنام تھے اور کتنوں کا نام علی ، فاطمہ ، حسن و حسین تھا ؟ یہ لوگ اس سوال کے جواب دینے سے عاجز ہیں کہ اگر خلفاء کی پہلی اور بعد کی نسلوں میں اہل بیت کا کوئی ہمنام نہ ہو تو کیا اس سے ان کا اہل بیت ؑ کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہونے کا نتیجہ نکالا جاسکتا ہے ؟
ناکام کوشش :
امام علی ؑ اور ان کی پیروی میں اہل بیت ؑ اور ان کے پیرو کاروں کی مسالمت آمیز طرز زندگی کو بہانا بنا کر شیعوں پر ہونے والے اعتراضات کا مختصر جواب ذکر ہوا۔لیکن یہاں اس سلسلے میں ایک اور نکتے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ خلفاء لوگوں کو یہ تصور نہیں چاہتے تھے کہ اہل بیتؑ خلفاء کے مخالف تھے، اہل بیت ؑ ان کی خلافت کو نہیں ماننتے اور یہ آپس میں ایک دوسرے کے رقیب تھے ۔کیونکہ اہل بیتؑ کے مقام اور ان کی مزلت کو سامنے رکھے تو ایسا تصور دینا خلفاء کی خلافت اور شخصیت کے لئے ایک چلینچ کی حیثیت رکھتا تھا۔ لوگ کا انہیں اہل بیت ؐ کے رقیب اور مخالف تصور کرنا ان کی خلافت کا زیر سوال جانا اور ان کی شخصیت پر ایک داغ تھا۔ ان کے ساتھ شدت پسندانہ رفتار رسول اللہﷺ کی وصیت اور اہل بیت ؑکی شان و مزلت کے خلاف تھا۔
لہذا خلفاء نے شروع میں اہل بیت ؑ کے ساتھ اپنے کیے رفتار اور غلطی کا جبران کرنے، انہیں راضی کرنے اور یہ تصور دینے کی کوشش کی کہ اہل بیتؑ کا ان کے ساتھ تعلق اچھا تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ خلفاء کے طرفداروں نے بھی پوری تاریخ میں یہی کوشش کی اور بہت سے حقائق سے آنکھیں بند کرتے ہوئے بعض واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ گویا سب کچھ گزشتہ دور میں قرآن و سنت کے مطابق ہوا اور اہل بیتؑ اور ان کے ہم عصر حاکموں کے درمیان مکمل ہماہنگی اور اتحاد و ہمدلی تھی اور اہل بیت ؑ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی اور بدرفتاری نہیں ہوئی۔
اسی سلسلے کی ہی کڑی ہے کہ حتی امیر المومنین ؑ سے جنگ کرنے اور انہیں برا بلا کہنے والوں کو بھی ان کا بھائی اور ایک دوسرے کا ہمدرد و حامی کہا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ کہ فرزند رسول ؐ کے قاتلوں اور رسول زادیوں کو اسیر بنا کر بازاروں اور درباروں میں پھرانے والوں سے دفاع کے لئے ان سارے مظالم کو اہل بیت ؑ ہی کے حامیوں کے گلے ڈالنے کی کوشش کیجاتی ہے ۔ یزیدی اور یزیدیوں کے بجائے اہل بیت ؑ کے شیعوں کو ہی امام حسین ؑ کا قاتل اور آل رسول ؑ پر ظلم و ستم ڈالنے والے بتائے جاتے ہیں ۔گویا قاتلوں کے ورثاء مقتول کے خون کا وارث اور وکیل بن کر اہل بیت ؑ کی حمایت اور ان سے محبت کے جرم میں اہل بیت ؑ کے دشمنوں کے ظلم کی چکی میں پسنے والوں کو اہل بیت ؑ کے دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ خود اہل بیت ؑ اور ان کے حامیوں پر ظلم کی نئی داستان رقم کرنا ہے ۔
حرف آخر:
اس میں شک نہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ سب سے زیادہ مکتب وحی سے بہرہ مند ہوئیں ۔ان میں سے ہر نسل نے بعد کی نسل تک دین کو تعلیم اور تربیت کے ذریعے منتقل کرنے اور دینی تعلیمات کی حفاظت کا بندوبست کیا ۔لہذا ائمہ اہل بیت ؑ مستقیم یا غیر مستقیم مکتب وحی کے ہی شاگرد ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب رسول اللہﷺ آخری حج سے واپس ہورہے تھے تو غدیر خم نامی جگہ پر سب کو جمع کر کے یہ خبر دی کہ مجھے اللہ کی جانب طلب کیا گیا ہے میں عنقریب تمہارے درمیان نہیں ہوں گا ،پھر آپ ؐ نے فرمایا:
«كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ ... كِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا؟ فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ اللهَ مَوْلَاي، وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ[25]»
لوگو!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں .. وہ دو اللہ کی کتاب اور میری عترت اہل بیت ہیں .دیکھتا ہوں تم لوگ کیسے میری وصیت کا پاس رکھو گے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرئے۔ اللہ میرا مولا اور سرپرست ہے اور میں مئومنین کا سرپرست ہوں ۔
اس کے بعد حضرت علی ؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس کا میں مولا (پیشوا اور سرپرست )ہوں علی اس کا مولا (پیشوا اور سرپرست )ہیں، اے اللہ تو اس سے محبت کرے جو ان سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی کرے جو ان سے دشمنی کرتا ہے ۔
یہ حدیث اس طرح بھی نقل ہوئی ہے :
« إِنِّى تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى ۔۔۔ كِتَابُ اللَّهِ ۔۔۔ وَعِتْرَتِى أَهْلُ بَيْتِى[26]»
میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ ے جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھے (ان کی پیروی کرے ) تو میرے بعد گمراہ نہ ہوں گے اور وہ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت عترت ہیں ۔
اس حدیث کے بعض نقلوں میں یہ جملہ بھی ہے : فَلَا تَقْدُمُوهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تَقْصُرُوا عَنْهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ[27]۔
لہذا ان سے آگے نکلنے کی کوشش نه کرے ورنه تم لوگ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان سے پیچھے رہے تو بھی ہلاگ ہونگے۔ انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے امیر المومنین ؑ کے بارے میں فرمایا: «أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ[28]»
یعنی میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں ، جو علم(علوم وحیانی اور سنت نبوی) حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہے کہ وہ دروازے سے آئے( رسول اللہﷺ کے بعدعلی ابن ابی طالب ؑ اور ان کے علوم کے وارثوں کے پاس جائے)۔
اس فرمان کا پیغام یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سارے وحیانی علوم کے محافظ اور وارث علی ابن ابی طالبؑ ہیں۔لہذا کوئی اور اسلامی تعلیمات کے وارث اور محافظ ہو یا نہ ہو امام علی ؑ ضرور آپؐ کے علوم کے وارث ہیں، اسی طرح کسی اور نے حضور ﷺ کے علوم کے حقیقی وارث امام علی ؑ سے علوم حاصل کیے ہو یا نہ کیے ہو لیکن ان کے فرزند امام حسن ؑ اور امام حسینؑ نے ضرور ان سے علم حاصل کیا ہے اور یہی بات امام سجادؑ اور باقی ائمہ ؑکے بارے میں درست ہے کہ دوسرے دینی تعلیمات اور وحیانی علوم میں حضور ﷺ کےحقیقی وارث ہو یا نہ ہو ائمہ اہل بیت ؑ ضرور دینی علوم کے وارث اور محافظ ہیں ۔
بنابریں رسول اللہﷺ کے بعد اسلامی تعلمات حاصل کرنے کے لئے امت کی ذمہ داری ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف رجوع کرنا ہے اور اہل بیتؑ کا دروازہ اور راستہ ضمانت شدہ ہے. ان سے روگردانی کرنا رسول اللہﷺ کے توسط سے بیان شدہ وحیانی علوم کو اس کے اصلی راستے اور سرچشمے سے حاصل کرنے کے بجائے کسی اور راستے سے حاصل کرنا ہے.
لیکن رسول اللہﷺ کی طرف سے اس قسم کے واضح فرامین کے باوجود شیعہ مخالفین کی معتبر اور اہم ترین کتابیں ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات سے تقریبا خالی ہیں اور آٹے میں نمک کے برابر بھی ان میں اسلامی تعلیمات ائمہ اہل بیت ؑ کے توسط سے نقل نہیں ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ آٹا ان کی طرف سے ہو نمک دوسری طرف سے ہو ۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری جو شیعہ مخالفین کی معتبر ترین کتاب ہے ۔اس میں موجود روایات کی کل تعداد سات ہزار سے زیادہ ہیں ۔ اس میں پیغمبر ؐکے سب سے ممتاز شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت اور ان کے علوم کا دروازہ یعنی حضرت علیؑ سے رسول پاکﷺ کی’’29‘‘ احادیث نقل ہوئی ہیں[29] ، مکتب وحی کے پرورش یافتہ جناب فاطمہ ؑ سے چار ، امام حسن مجتبیؑ سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں ہے، امام حسین ؑسے صرف ایک روایت نقل ہے[30]. اسی طرح امام سجاد ؑسے تین اور امام باقر ؑ سے چار روایات اس میں نقل ہے لیکن امام صادقؑ، امام کاظمؑ سمیت باقی ائمہ ؑ سے منقول کوئی روایت بھی بخاری میں نہیں ہے [31] اور یہی حال صحیح مسلم کا بھی ہے [32] ۔
جبکہ برعکس شیعوں کی معتبر کتابیں ائمہ اہل بیت ؑ کے توسط سے نقل شدہ اسلامی تعلیمات سے لبریز ہیں ۔ مثلا نهجالبلاغه جوکہ امام علیؑ کے کلمات کا مجموعہ ہے صرف اس میں 239 خطبے، 79 خطوط اور 480 مختصر کلمات موجود ہیں۔ اسی طرح شیعوں کی چار معتبر کتابوں میں سے صرف اصول کافی میں ۱۶۰۰۰ احادیث اہل بیت ؐسے نقل ہوئی ہیں۔
اس حقیقت کے باجود بعض شیعہ مخالفین یہ دعوا کرتے ہیں کہ ہم ہی اہل بیت ؑ کے پیروکار ہیں لیکن یہ لوگ اس دعوے کا عملی ثبوت اپنی معتبر کتابوں سے دینے سے عاجز ہیں کیونکہ پیروی ان کی تعلیمات اور سیرت پر عمل کرنے کا نام ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ان کی تعلیمات اور سیرت پیروکاروں کے پاس موجود ہوں۔عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ مخالفین کے اپنے پاس تو ائمہ اہل بیت ؑکی تعلیمات موجود نہیں ہے لیکن دوسری طرف شیعوں کے پاس موجود اہل بیت ؑ کے علمی آثار کو منگھڑت باتیں قرار دے کر ان سے بھی امت کو محروم کرنے کی چکر میں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ مخالفین کی اہم ترین کتابوں کا اہل بیتؑ کی تعلیمات سے خالی ہونا ان کی سابقہ مذہبی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے اور یہ اس بات پر روشن دلیل ہے کہ ان کی مذہبی تاریخ اہل بیتؑ کی تعلیمات سے روگردانی پر استوار ہے [33] اور یہ ہر دور میں حاکموں کی طرف سے ائمہ اہل بیت ؑ کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے اور سلوک کا نتیجہ ہے ۔لہذا مخالفین کی معتبر کتابیں خلفاء اور ان کی حمایت کرنے والے علماء اور محدثین کا اہل بیت ؑ سے رفتار کی نوعیت بتانے کے لئے بہترین شاہد ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ مخالفین میں سے کچھ ہوشیار اور چالاک لوگ اپنی اس مذہبی تاریخ کو چھپانے کے لئے شیعوں پر الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصحاب دینی تعلیمات کو بعد کی نسلوں تک پہنچانے کا وسیلہ اور ایک پل کی مانند ہیں ، شیعہ اصحاب سے دشمنی کے ذریعے اس پل کو خراب کرنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں ۔
جبکہ شیعہ کسی سے دشمنی میں یا کسی کے دھوکے میں آکر اندھی تقلید کا طوق گردن میں ڈالے اپنے عقیدے سے دفاع نہیں کرتے بلکہ شیعہ دلیل اور منطق کے ساتھ اپنے عقیدے کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں اور ائمہ اہل بیتؑ کی دینی پیشوائی اور ان کی پیروی کو اسلامی تعلیمات تک رسائی کا سب سے مطمئن اور مستحکم طریقہ سمجھتے ہیں اور جو بھی ان کے مقابلے میں ہو انہیں حق پر نہیں سمجھتے ۔ شیعہ اصحاب میں سے کسی سے دشمنی یا کسی تعصب کی وجہ سے اس قسم کی بحثوں میں نہیں پڑتے ، شیعوں کی یہ کوشش حقیقت میں ائمہ اہل بیت ؑ کی دینی پیشوائی سے دفاع اور دینی تعلیمات کو اس کے اصلی وارثوں سے حاصل کرنے کے لئے ہے اور لوگوں کو یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی دینی پیشوا ، جن کی اتباع اور پیروی آج بھی سب پر واجب ہے وہ ائمہ اہل بیتؑ ہیں۔ شیعہ مخالفیں اس کو فورا اصحاب کی شان میں گستاخی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور شیعوں کے استدلال کے مقابلے میں اصحاب کی تقدس کی آڑ میں شیعوں پر اصحاب سے دشمنی کا الزم لگا کر شیعوں کے منطق اور دلائل کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بات مسلم ہے کہ شیعہ رسول پاک ﷺ کے ان اصحاب کی عظمتوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں قربانی دی اور آخری دم تک اپنے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہے اور قرآن و سنت کے دستورات سے سرپیچی نہیں کی۔
اصحاب کے بارے میں ائمہ اہل بیتؑ کی دعاوں میں یہ جملہ موجود ہے : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وَ عَلَى أَصْحَابِهِ الْمُنْتَجَبِينَ الْمُوفِينَ بِعَهْدِهِ وَ عَلَى أَزْوَاجِهِ الْمُطَهَّرَاتِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ[34]۔
اے اللہ! محمد و ان کے پاکیزہ خاندان پر درود و سلام ہو اوران کے برگزیدہ اصحاب پر بھی درود و سلام ہو جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی پاسداری کی اور ان کے پاکیزہ ازواج اور مومنین کے ماوں پر درود و سلام ہو۔
ہم نے اس تحریر میں خلفاء اور اہل بیت ؑ کے آپس کے تعلقات سے متعلق اعتراضات اور شبہات کا مختصر جواب دینے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں موجود بہت سے تاریخی حوالوں سے اختصار کی چشم پوشی کی ہیں ۔ کیونکہ مذہبی تعصب سے کام لینے والوں کے لئے دس جلد کتاب بھی لکھ دی جائے پھر بھی کافی نہیں ہے جبکہ صاحبان عقل و فکر اور طالبان حق کے لئے اشارہ کافی ہے ۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں :
رضيت بالله ربا و بمحمد نبيا و بالإسلام دينا و بالقرآن كتابا و بالكعبة قبلة و بعلي وليا و إماما و بالحسن و الحسين و الأئمة صلوات الله عليهم اللهم إني رضيت بهم أئمة فارضني لهم إنك على كل شيء قدير [35]۔
اے اللہ :میں اس بات پر راضی و خوشنود ہوں :اللہ میرا رب ہے ،اسلام میرا دین ہے ، قرآن میری کتاب ہے، محمدﷺمیرے نبی ہیں ،کعبہ میرا قبلہ ہے، علیؑ میرے ولی اور امام ہیں ، اے اللہ! میں حسن ؑو حسینؑ اور دوسرے ائمہ ؑ کی امامت پر راضی ہوں ، آپ بھی اس وجہ سے مجھ سے راضی رہنا ،بے شک آپ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ آمین یا رب العالمین ۔
امید ہے مخالف حضرات مندرجہ ذیل آیات قرآنی کے پیغام کو مدنظر رکھ کر ہماری اس تحریر کا مطالعہ کریں گے ۔
فَبَشِّرْ عِبادِ. الَّذينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولئِكَ الَّذينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ (زمر، 17/18)
لہذا پیغمبر آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے ،جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں.
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ وَ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما تَعْمَلُونَ ( مائدہ / 8)
ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
’’والسلام علی من اتبع الهدی‘‘
وما توفیقی الا بالله و هو نعم المولی و نعم النصیر۔
تحریر ۔۔۔۔ غ م ۔ ملکوتی
[1][1] ۔ اس شادی کی نفی میں لکھی کتابوں میں سے بعض ؛ نکاح امیر المومنین ابنتہ من عمر {سید مرتضی علم الھدی ٰ}کشف البصر عن زواج ام کلثوم من عمر، تایف {سید محمد علی } افھام الاعداء و الخصم فی نفی عقد ام کلثوم {سید ناصر حسین لکھنونی}
[2] ۔ قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتىِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِين.{الحجر :71}
[3] . فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (2/ 614) السنن الكبرى للنسائي ،کتاب نکاح، باب : تَزَوُّجِ الْمَرْأَةِ مِثْلَهَا مِنَ الرِّجَالِ فِي السِّنِّ سنن النسائي - بأحكام الألباني (6/ 62) /فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني (ج 1ص: 47)
[4] . الاستيعاب في معرفة الأصحاب (4/ 1954) أسد الغابة ط العلمية (7/ 377) ،المنتظم (4/ 237) تاريخ دمشق (19/ 483)
[5] . الطبقات الكبرى (8/ 464)
[6] . الإصابة في تمييز الصحابة (8/ 294):/ الطبقات الكبرى لابن سعد (8/ 463): تاريخ مدينة دمشق (19/ 486):
[7] ۔ يا أبا الحسن ! ما يحملني على كثرة ترددي إليك إلا حديث..... / الألباني ، السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 (5/ 35)
[8] صحيح البخارى.کتاب المغازی، باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ،ح 4240/صحيح مسلم - الجهاد والسيرباب قَوْلِ النَّبِىِّ ؐ« لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ »ح : 4679
[9]۔ إِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ يُحْرَقَ عَليْهِمُ الْبَيتُ./ المصنف، كِتَابُ الْمَغَازِي . مَا جَاءَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، وَسِيرتِهِ فِي الرِّدّةِ ج 7، ص 432، ح 38200 .
إن أبا بكر بعث عمر بن الخطاب إِلى علي ومن معه ليخرجهم من بيت فاطمة رضي الله عنها، ..وقالت: إِلى أين يا ابن الخطاب؟ أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم - المختصر في أخبار البشر، أخبار أبي بكر الصديق وخلافته. (1/ 157):
فقالت فاطمة: يا ابن الْخَطَّابِ، أَتُرَاكَ مُحَرِّقًا عَلَيَّ بَابِي؟ قَالَ: نَعَمْ، أنساب الأشراف للبلاذري (1/ 586)
وَاللَّهِ لأَحْرِقَنَّ عَلَيْكُمْ أَوْ لَتَخْرُجُنَّ إِلَى الْبَيْعَةِ تاريخ الطبري (3/ 202):
[10] ۔ المعجم الكبير للطبراني (1/ 62): الأحاديث المختارة (1/ 89) تاريخ دمشق لابن عساكر (30/ 418):تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /118] تاريخ الطبري (3/ 430): العقد الفريد (5/ 21): الأموال لابن زنجويه (1/ 304)
[11]. وهي جارية لم تبلغ./ الطبقات الكبرى (8/ 463) وَهِيَ صَبِيَّةٌ صَغِيرَةٌ ۔ الشريعة للآجري (5/ 2228)
[12] . الاستيعاب في معرفة الأصحاب (4/ 1955):أسد الغابة ط العلمية (7/ 377):المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (4/ 237)
[13] . سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي (1/ 532)
[15] ۔ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة ج۱ ص ۲۰۷
[18]۔صحيح مسلم ،کتاب الجهاد والسير،باب حُكْمِ الْفَىْءِ.ح. 4676 /سنن البيهقي الكبرى۔كتاب قسم الفيء والغنيمة،باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔ ح ۔ 13104۔
[19] ۔ اس سلسلے کے دو نمونے ملاحظہ کریں ۔
الف : سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا فَمَا تَأْمُرُنَا فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ وَقَالَ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ.
ب : قَالَ {رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ} يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ قَالَ تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ..
صحيح مسلم کتاب الامارۃ، باب : في طاعة الأمراء وإن منعوا الحقوق 13 (3/ 1474)
[20] ۔ ، والحق أنه يجب طاعة أولي الأمر مطلقاً وإن جاروا وظلموا أوخذوا أموالنا وجلدوا ظهورنا / منهج الشيخ محمد رشيد رضا في العقيدة (ص: 795
فهذه نصوص العلماء صريحة في تحريم الخروج على الحاكم الظالم أو الفاسق ْ/ المباحث العقدية المتعلقة بالكبائر ومرتكبها في الدنيا (ص: 114):
[21] . ، اسد الغابہ و الاصابہ وغیرہ میں رجوع کرسکتا ہے ۔
[23] ۔ هُوَ عَلِيٌّ وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهُ نَفْسًا. / مصنف عبد الرزاق الصنعاني (5/ 429) مسند أحمد بن حنبل (6/ 228).
ولكنها لا تقدر أن تذكره بخير. /إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (2/ 37)
.[24] امیر المومنین ؑکی شہادت کی خبر سن کر ایک شعر خوش کہہ کر خوشی کا اظہار کیا ؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ {قتل علي}عَائِشَةَ فَقَالَتْ: فَأَلْقَتْ عَصَاهَا وَاسْتَقَرَّتْ بِهَا النَّوَى ... كَمَا قَرَّ عَيْنًا بِالإِيَابِ الْمُسَافِرُ./ الطبقات الكبرى (3/ 40):الكامل في التاريخ (3/ 259) تاريخ الطبري (5/ 150)
لما أن جاء عائشة قتل علي عليه السلام سجدت./مقاتل الطالبيين مقاتل الطالبيين (6/ 13):
[25] . المعجم الكبير للطبراني (5/ 166): السنن الكبرى للنسائي . كِتَابُ الْمَنَاقِبِ . فَضَائِلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ (7/ 310).
یه حدیث « الثقلین» مختلف سندوں اور نقلوں کے ساتھ ۳۰ کے قریب صحابہ سے نقل هوئی ہے اور دوسری ہجری سے تیرویں ہجری تک اہل سنت کے ۳۱۴ سے زیاده علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ہے. نفحات الازهار ،ج1 ص: 211 -496 / اس کی سند کے اعتبار سے اہل سنت کے ایک بڑے عالم البانی نے نسبتا جامع تحقیق کی ہے اور اس کی بہت سے سندوں کے صحیح ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ ملاحظہ کریں/السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 (4/ 249)
[26] . سنن الترمذى (6/ 133): أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ/ بَابُ مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
[27] ۔ المعجم الكبير للطبراني (5/ 166): الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة (2/ 653)
[28] . المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 138): المعجم الكبير للطبراني (11/ 65) /حدیث «مدينة العلم» دس صحابی سے نقل ہوئی ہے اور اہل سنت کے۲۵۰ سے زیادہ علماء نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے / نفحات الازهار ج10 ص -۴۲ .
[29]- ابنجوزی، تلقیح فهوم اهل الاثر، ص287
[30]۔ مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.
[31]- صحیحین پر ایک نظر ، ص133 مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.
[32]- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸
[33]۔آنحضرت ؐ کے اس ممتاز شاگرد سے نقل ہونے والی روایات کی تعداد دیکھیں اور ان کی مخالفت میں کھڑے ہونے والوں سے نقل شدہ روایات کی تعداد دیکھیں ۔
صحیح بخاری میں امام علی ُسے تو 29روایتیں نقل ہیں ، جبکہ اسی امام بخاری نے جناب عایشه سے 228، عبدالله بن عمر سے 300 ---صحیح مسلم میں جناب عایشه سے ۲۴۳ روایتیں وعبدالله بن عمر سے ۴00 روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
[34] ۔ صحیفہ سجادیہ کی چوتھی دعا۔
[35]۔ من لا يحضره الفقيه ؛ ج1 ؛ ص327 /، تهذيب الأحكام ، ج2، ص: 109اصول الكافي ج2، ص: 525 [معمولی اختلاف کے ساتھ]
منابع کی فہرست ۔۔۔۔
1. ابن أبي شيبة.عبد الله بن محمد . المُصَنَّف.دار القبلة.بی تا ،
2. إبن أبيالحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1998م۔
3. ابن بابويه، محمد بن على، من لا يحضره الفقيه - قم، چاپ: دوم، 1413 ق.
4. إبن حجر الهيثمي، أحمد بن محمد، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال ، مؤسسة الرسالة، بيروت ، 1997م
5. ابن سعد محمد : الطبقات الكبرى : دار صادر – بيروت الطبعة : 1 - 1968 م
6. ابن عساكر علي بن الحسن (المتوفى: 571هـ)تاريخ دمشق .الناشر: دار الفكر. 1995 م
7. إبن هبة الله علي بن الحسن(المتوفى: 571 هـ).تاريخ مدينة دمشق:دار الفكر. 1995
8. أبو الحسن علي بن أبي الكرم. (المتوفى: 630هـ) أسد الغابة في معرفة الصحابة. دار الكتب العلمية .الطبعة: الأولى .سنة النشر: 1415هـ - 1994 م.
9. أبو الحسن علي بن أبي الكرم. الكامل في التاريخ. دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ،
10. أبو الفداء عماد الدين إسماعيل(المتوفى: 732هـ): المختصر في أخبار البشر.المطبعة الحسينية المصرية.الطبعة: الأولى
11. أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي: السنن الكبرى. مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آباد.الطبعة : الأولى ـ 1344 هـ
12. أبو بكر عبد الرزاق الصنعاني. (المتوفى: 211هـ) المصنف. المكتب الإسلامي.بيروت الطبعة: الثانية، 1403.
13. أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى : 241هـ) مسند أحمد بن حنبل: عالم الكتب.بيروت الطبعة : الأولى ، 1419هـ ـ 1998 م.
14. أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل. فضائل الصحابة .مؤسسة الرسالة – بيروت.الطبعة: الأولى، 1403 – 1983.
15. أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري. (المتوفى: 405هـ) المستدرك على الصحيحين.دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، 1411 - 1990
16. أبو عمر يوسف بن عبد الله (المتوفى: 463هـ)الاستيعاب في معرفة الأصحاب دار الجيل، بيروت .الطبعة: الأولى، 1412 هـ - 1992 م
17. أبو عمر، شهاب الدين أحمد بن محمد(المتوفى: 328هـ)العقد الفريد : دار الكتب العلمية – بيروت.الطبعة: الأولى، 1404 هـ
18. أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (المتوفى: 430هـ) فضائل الخلفاء.دار البخاري ، المدينة المنورة. الطبعة: الأولى،1997 م
19. الألباني: محمد ناصر الدين.السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9
20. امام على بن ابى طالب «ع» ، نهج البلاغه، ، انتشارات دار الهجره، قم ،بی تا
21. الآجُرِّيُّ محمد بن الحسين (المتوفى: 360هـ)الشريعة : دار الوطن - الرياض / السعودية الطبعة: الثانية، 1420 هـ - 1999 م
22. بابن زنجويه حميد بن مخلد (المتوفى: 251هـ)الأموال لابن زنجويه :مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الإسلامية، السعودية الطبعة: الأولى، 1406 هـ - 1986 م
23. البخاري محمد بن إسماعيل صحيح البخاري : دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت .الطبعة الثالثة. 1987
24. البَلَاذُري أحمد بن يحيى (المتوفى: 279هـ)أنساب الأشراف : دار الفكر – بيروت .الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م
25. تامر محمد محمود متولي. منهج الشيخ محمد رشيد رضا في العقيدة .دار ماجد عسيري .الطبعة الأولى 1425هـ-2004م.
26. الجوزي عبد الرحمن بن علي (المتوفى: 597هـ)المنتظم في تاريخ الأمم والملوك الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت .الطبعة: الأولى، 1412 هـ - 1992 م
27. الذهبي شمس الدين محمد بن أحمد. تاريخ الإسلام :دار الكتاب العربي.: لبنان/ بيروت.1407هـ - 1987م.
28. سعود بن عبد العزيز. المباحث العقدية المتعلقة بالكبائر ومرتكبها في الدنيا .الجامعة الاسلامية بالمدينة المنورة. الطبعة: السنة السادسة والثلاثون - العدد (123) 1424هـ/2004م
29. الطبراني سليمان بن أحمد(المتوفى: 360هـ) المعجم الكبير. مكتبة ابن تيمية – القاهرة.الطبعة: الثانية.
30. الطبري محمد بن جرير (المتوفى: 310هـ) تاريخ الطبري .دار التراث – بيروت.الطبعة: الثانية - 1387 هـ
31. عبد الملك بن حسين. (المتوفى: 1111هـ) سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، 1419 هـ - 1998 م
32. علامه امينى عبد الحسین (م 1349 ش) الغدير، مركز الغدير، قم، 1416 ھ
33. على بن الحسين، امام چهارم عليه السلام، الصحيفة السجادية - قم، چاپ: اول، 1376ش.
34. فصلنامه علمی، علوم حدیث ،شماره۴۷ ، انتشارات دارالحديث، ، قم ١۳۸۷ .
35. كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) - تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.
36. المقدسي محمد بن عبد الواحد (المتوفى: 643هـ)الأحاديث المختارة .الناشر: دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت لبنان. الطبعة: الثالثة، 1420 هـ - 2000 م.
37. ميلانى، سيد علي، خلاصه عبقات الانوار ، نفحات الازهار،مهر، قم،1414 ق
38. النسائي أحمد بن شعيب (المتوفى: 303هـ) السنن الكبرى مؤسسة الرسالة – بيروت.لطبعة: الأولى، 2001 م
39. النيسابوري مسلم بن الحجاج صحيح مسلم. دار إحياء التراث العربي – بيروت.
نجمی، محمد صادق ، سیری در صحیحین ، دفتر انتشارات ،١۳۸۳ش