حضرت علي(علیه السلام)،کی موجودگی میں حضرت فاطمه زهرا (سلام الله علیها) کیوں دروازے پر گئیں؟ |
شبهه کی وضاحت : ہم کیسے اس بات کو قبول کرسکتے ہیں کہ حضرت علي (علیه السلام) کے گھر پر ہوتے ہوئے ان کی زوجہ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا دروازہ کھولنے گئیں ہوں ؟ حضرت علی علیہ السلام خود ہی دروازہ کھولنے کیوں نہیں گئے ؟ شبہہ کا تجزیہ اور تحلیل : پہلی بات: جو چیز روایات سے ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا دروازے کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں جب آپ نے عمر اور ان کے ساتھیوں کو آتے دیکھا تو دروازہ بند کردیا۔ مرحوم عياشي نے اپنی تفسیر میں ، شيخ مفيد نے الإختصاص میں اور دوسروں... نے لکھا ہے : قال: قال عمر قوموا بنا إليه فقام أبو بكر وعمر وعثمان وخالد بن الوليد و المغيرة بن شعبة وأبو عبيدة بن الجراح وسالم مولي أبي حذيفة وقنفذ وقمت معهم فلما انتهينا إلي الباب فرأتهم فاطمة صلوات الله عليها أغلقت الباب في وجوههم وهي لا تشك أن لا يدخل عليها إلا باذنها، فضرب عمر الباب برجله فكسره، وكان من سعف، ثم دخلوا فأخرجوا عليا ( عليه السلام ) ملببا.... عمر نے کہا : اٹھیں اور {حضرت علی ع }کے پاس چلیں ، ابوبكر، عمر، عثمان، خالد بن وليد، مغيرة بن شعبة، ابوعبيد جراح، ابوحذيفة کا غلام سالم، قنفذ اور میں خود {راوی } عمر کے ساتھ چلیں؟؟؟۔ این قطعہ کمی نیازبہ بازسای دارد۔ ہم حضرت فاطمہ (س)، کے گھر کے دروازے پر پہنچے ،جب حضرت فاطمہ(س)، نے ہمیں آتے دیکھا تو دروازہ بند کر دیا اور انہیں اس میں شک نہیں تھا کہ یہ لوگ اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوں گے عمر نے گھر کے دروزے کو جو خرما کی شاخوں سے بنا ہوا تھا ،ٹھوکر مارا اور لوگ گھر میں داخل ہوگئےاور حضرت علی ع کو باندھ کر باہر لائے۔ السمرقندي المعروف بالعياشي، أبي النضر محمد بن مسعود بن عياش السلمي (متوفاي320هـ)، تفسير العياشي، ج2، ص67، تحقيق: تحقيق وتصحيح وتعليق: السيد هاشم الرسولي المحلاتي، ناشر: المكتبة العلمية الإسلامية - طهران. الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413هـ) الاختصاص ص 186، تحقيق: علي أكبر الغفاري، السيد محمود الزرندي، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م. المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 28، ص 227، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء -بيروت- لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403- 1983 م.
ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّي انْتَهَي إِلَي بَابِ عَلِيٍّ وَفَاطِمَةُ عليهما السلام قَاعِدَةٌ خَلْفَ الْبَابِ قَدْ عَصَبَتْ رَأْسَهَا وَنَحَلَ جِسْمُهَا فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَأَقْبَلَ عُمَرُ حَتَّي ضَرَبَ الْبَابَ ثُمَّ نَادَي يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ [افْتَحِ الْبَابَ ] فَقَالَتْ فَاطِمَةُ يَا عُمَرُ مَا لَنَا وَلَكَ لَا تَدَعُنَا وَمَا نَحْنُ فِيهِ قَالَ افْتَحِي الْبَابَ وَإِلَّا أَحْرَقْنَاهُ عَلَيْكُمْ فَقَالَتْ يَا عُمَرُ أَمَا تَتَّقِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَدْخُلُ عَلَي بَيْتِي وَتَهْجُمُ عَلَي دَارِي فَأَبَي أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ دَعَا عُمَرُ بِالنَّارِ فَأَضْرَمَهَا فِي الْبَابِ فَأَحْرَقَ الْبَابَ. عمر جب آیا اور گھر کے پاس پہنچا ، اس وقت جناب فاطمہ (س) دروازے کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنے سر کو باندھ رکھا تھا آپ اپنے بابا کی جدائی کے غم کی وجہ سے بدن کمزور اورنحیف ہوچکی تھی۔ عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے! دروازہ کھولو۔حضرت فاطمه(س) نے جواب دیا : اے عمر! تمہیں ہم سے کیا کام ہے ؟ ہم جس مصیبت میں ہیں اسی میں ہی رہنے دو ۔ عمر نے کہا :دروازہ کھولو ورنہ میں اسے آگ لگادوں گا ۔جناب فاطمہ (س) نے جواب دیا ؛ اے عمر کیا تم اس چیز پر اللہ سے نہیں ڈرتے ہو کہ تم میرے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوجاوگے اور ہم پر حملہ کروگے ۔ عمر نے واپس جانے سے انکار کیا اور آگ منگوائی اور گھر کے دوازے کو آگ لگادی ۔ الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ) كتاب سليم بن قيس، ص 864، تحقيق محمد باقر الأنصاري، ناشر: انتشارات هادي ـ قم ، الطبعة الأولي، 1405هـ. دوسری بات: حضرت صديقه کو یقین تھا کہ یہ لوگ اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوں گے ؛ کیونکہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہونے کےبارے میں قرآن کا واضح حکم بھی ہے: يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتًا غَيرْ بُيُوتِكُمْ حَتيَ تَسْتَأْنِسُواْ وَتُسَلِّمُواْ عَليَ أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيرْ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ. فَإِن لَّمْ تجَدُواْ فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتيَ يُؤْذَنَ لَكمُ ْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُواْ فَارْجِعُواْ هُوَ أَزْكيَ لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيم . النور / 27 و 28. ایمان والو خبردار اپنے گھروں کے علاوہ کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا جب تک کہ صاحبِ خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کرلو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے کہ شاید تم اس سے نصیحت حاصل کرسکو پھر اگر گھر میں کوئی نہ ملے تو اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جانا کہ یہی تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ امر ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ جناب فاطمہ (س) کا گھر انبیاء کے گھروں سے زیادہ بافضیلت گھر تھا : انبیاء کے گھر کا ایک خاص احترام ہے،بغیر اجازت کے کوئی ان کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا جیساکہ قرآن مجید میں ہے ؛ يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاتَدْخُلُواْ بُيُوتَ النَّبِيِ ّ إِلا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ. الأحزاب /53. اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے . اس میں شک نہیں کہ حضرت صديقه طاهره(س) کا گھر پیغمبر (ص) کے گھر کی طرح ہے جیساکہ اہل سنت کی متعدد تفاسیر میں اس آیت کے ذیل میں ذکر ہوا ہے : فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ و يُسَبِّحُ لَهُ و فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ. النور/36. یہ چراغ ان گھروں میں ہے جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے کہ ان گھروں میں صبح و شام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں سيوطي اور دوسروں نے ابوبکر سے پیغمبر صلي الله عليه وآله وسلم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت علی(ع) کا گھر انبیاء (ع) کے گھروں سے بافضیلت ترین گھر شمار ہوتا ہے؟؟؟: وأخرج ابن مردويه عن أنس بن مالك وبريدة قال: قرأ رسول الله صلي الله عليه وسلم هذه الآية ) في بيوت أذن الله أن ترفع ( فقام اليه رجل فقال: أي بيوت هذه يا رسول الله قال: بيوت الأنبياء. فقام اليه أبو بكر فقال: يا رسول الله هذا البيت منها ـ البيت علي وفاطمة ـ قال: نعم من أفاضلها. جب رسول خدا (ص) نے اس آيت کی تلاوت کی تو کسی نے پوچھا : یہ کونسا گھر ہے؟ آپ نے فرمایا : انبیاء کے گھر . ابوبكر نے پوچھا : کیا علی(ع) اور فاطمہ (س) کے گھر بھی انہی گھروں میں سے ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں یہ ان سب سے بافضیلت گھر ہے ۔ السيوطي، عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين (متوفاي911هـ)، الدر المنثور، ج 6، ص 203، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1993 م؛ الثعلبي النيسابوري أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفاي427هـ) الكشف والبيان، (متوفاي 427 هـ - 1035م)، ج 7، ص 107، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ-2002م؛ الثعالبي، عبد الرحمن بن محمد بن مخلوف (متوفاي875هـ)، الجواهر الحسان في تفسير القرآن، ج 7، ص 107، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت. الآلوسي البغدادي، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 18، ص 174، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت. اس کے علاوہ حضرت زهرا (سلام الله عليها) کے مقام اور رسول اكرم صلي الله عليه وآله کے احترام وغیرہ کی وجہ سے لوگوں کو شرم آنی چاہئے تھی اور ان کے گھر پر حملہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا جیساکہ انہیں میں سے بعض، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی آواز اور فریاد سن کر پشیمان ہوئے اور واپس چلے گئے {اور ابوبکر خود بھی مرتے وقت اسی واقعہ کو یاد کر کے پشیمانی کا اظہار کرتا تھا } قام عمر فمشي ومعه جماعة حتي أتوا باب فاطمة فدقوا الباب، فلما سمعت أصواتهم نادت بأعلي صوتها باكية: يا رسول الله ما ذا لقينا بعد أبي من ابن الخطاب وابن أبي قحافة! فلما سمع القوم صوتها وبكاءها انصرفوا باكين، فكادت قلوبهم تتصدع وأكبادهم تنفطر، وبقي عمر معه قوم. عمر بعض لوگوں کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف آیا اور آکر دروازہ کھٹکھایا ، حضرت فاطمہ(س) نے ہجوم لانے والوں کا شور و شرابہ سن کر بلند آواز سے گریہ کیا اور فریاد بلند کی ، یا رسول للہ ص آپ کے بعد خطاب کے بیٹے اور ابوقحافہ کے بیٹے کے سبب ہم پر کیا کیا مصیبتیں آئیں ۔بعض لوگ ان کی فریاد اور گریہ کی وجہ سےروتے ہوئے واپس چلے گئے لیکن عمر بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ وہاں ٹھہر گیا۔ الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 16، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م، با تحقيق شيري، ج1، ص37، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24. لہذا جناب فاطمہ(س) نے ہجوم لانے والوں کو دیکھ کر دروازے کو بند کر دیا اور آپ دروازے کے قریب کھڑی تھیں اور یہ سمجھ رہی تھی کہ ان کی موجود گی میں کوئی ان کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوں گے۔لہذا یہ ہجوم لانے والوں کی بے شرمی اور جسارت کا نتیجہ تھا، ان لوگوں نے جناب فاطمہ (س) کے گھر کی حرمت کا خیال نہیں رکھا۔ بقول سلمان فارسی { كرديد و نكرديد و ندانستيد كه چه كرديد.} {کیا نہیں کیا اور تم لوگوں کو معلوم نہیں ہوا کہ تم لوگوں نے کیا کیا} یہاں پر اگر یہ دیکھا جائے کہ اس سلسلے میں پيامبر اكرم صلي الله عليه وآله وسلم کا طریقہ کار کیا تھا ، تو یہی اس قسم کے شبہہ اٹھانے والوں کے لئے بہترین جواب بھی ہے۔ جیساکہ شیعہ اور سنی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ازواج کو یہ اجازت دیتے تھے کہ وہ گھر کا دروازہ کھولے چاہے آنے والا محرم ہو یا نہ محرم ؛ شیعہ سنی کتابوں میں اس سلسلے میں بہت سے نمونے ذکر ہوئے ہیں ذیل میں ان کچھ نمونے پیش کئے جاتے ہیں : .الف: امّ سلمه علي (عليه السلام) کے لئے دروازہ کھولتی تھی : عن علقمة عن عبد الله قال خرج رسول الله ( صلي الله عليه وسلم ) من بيت زينب بنت جحش وأتي بيت أم سلمة فكان يومها من رسول الله ( صلي الله عليه وسلم ) فلم يلبث أن جاء علي فدق الباب دقا خفيفا فانتبه النبي ( صلي الله عليه وسلم ) للدق وأنكرته أم سلمة فقال رسول الله ( صلي الله عليه وسلم ) قومي فافتحي له۔ رسول خدا (ص) ، زينب بنت جحش کے گھر سے نکلے اور امّ سلمه کے گھر میں داخل ہوئے؛ کیونکہ اس دن ان کے گھر میں آنے کی باری تھی،کچھ دیر بعد حضرت علي(ص) نے آہستہ سے دقّ الباب کیا، رسول خدا (ص) بیدار ہوئے ، امّ سلمه نے جواب نہیں دیا ، پیغمبر (ص) نے فرمایا: اٹھو اور دروازہ کھولو.... ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 470، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995 الرافعي القزويني، عبد الكريم بن محمد (متوفاي623 هـ)، التدوين في أخبار قزوين، ج 1، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت تحقيق: عزيز الله العطاري، 1987م. ب: عائشه کا رسول خدا (ص) کے حکم سے حضرت علي (ع) کے لئے دروازہ کھولنا وعن جعفر بن محمد الصادق عليه السلام عن أبيه عن آبائه عن علي عليه السلام قال: كنت أنا ورسول الله صلي الله عليه وآله في المسجد بعد أن صلي الفجر، ثم نهض ونهضت معه، وكان رسول الله صلي الله عليه وآله إذا أراد أن يتجه إلي موضع أعلمني بذلك، وكان إذا أبطأ في ذلك الموضع صرت إليه لأعرف خبره، لأنه لا يتصابر قلبي علي فراقه ساعة واحدة فقال لي: أنا متجه إلي بيت عائشة، فمضي صلي الله عليه وآله ومضيت إلي بيت فاطمة الزهراء عليها السلام فلم أزل مع الحسن والحسين فأنا وهي مسروران بهما، ثم إني نهضت وسرت إلي باب عائشة، فطرقت الباب فقالت: من هذا؟ فقلت لها: أنا علي فقالت: إن النبي راقد، فانصرفت، ثم قلت: النبي راقد وعائشة في الدار، فرجعت وطرقت الباب فقالت لي عائشة: من هذا؟ فقلت لها: أنا علي فقالت: إن النبي صلي الله عليه وآله علي حاجة فانثنيتمستحييا من دق الباب، ووجدت في صدري ما لا أستطيع عليه صبرا، فرجعت مسرعا فدققت الباب دقا عنيفا، فقالت لي عائشة: من هذا؟ فقلت: أنا علي فسمعت رسول الله صلي الله عليه وآله يقول: يا عائشة افتحي له الباب، ففتحت ودخلت.... حضرت علی (ع) بیان کرتے ہیں؛ صبح کی نماز رسول خدا (ص) کے ساتھ پڑھی، ان کے ساتھ مسجد سے باہر نکلا۔ عادت یہ تھی کہ آپ کو اگر کہیں جانا ہو تو مجھے خبر دیتے اور اگر دیر سے تشریف لائے تو میں خبر کے لئے جاتا ، تاکہ پتہ چلے آپ کہاں ہیں کیونکہ ان سے زیادہ جدا رہنا میرے لئے قابل برداشت نہیں تھا، ایک دن آنحضرت نے مجھ سے فرمایا: میں عائشہ کے گھر جارہا ہوں۔میں بھی جناب فاطمہ(س) کے گھر آیا۔ حسین تشریف فرما تھے اور فاطمہ(س) ان کے ساتھ بہت خوش تھیں۔ میں عائشہ کے گھر کی طرف چلا اور دستک دی۔ عائشہ نے اندر سے کہا : کون ؟ میں نے کہا: میں علی ہوں۔ جواب دیا: ابھی رسول اللہ (ص) آرام فرمارہے ہیں۔ میں واپس آیا اور بعد میں دوبارہ جاکر دستک دی ۔ عائشہ نے کہا : کون ؟ میں نے کہا : میں علی ہوں۔ کہا : پیغمبر (ص) مصروف ہیں ، میرا دل تنگ ہوا ۔بعد میں پھر گیا اور دستک دی۔ عائشہ نے کہا : کون ؟ میں نے کہا: میں علی ہوں۔ میں نے رسول اللہ ص کی آوز سنی آپ فرمارہے تھے : عائشہ دروازہ کھولو۔ دروازہ کھلا میں اندر داخل ہوا۔ الطبرسي، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب (متوفاي 548هـ)، الاحتجاج، ج1، ص 292 و 293، تحقيق: تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر: دار النعمان للطباعة والنشر - النجف الأشرف، 1386 - 1966 م. المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 38 ص 348، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983 م. جو کچھ نقل ہوا وہ اس سلسلے کے چند نمونے تھے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر (ص) کی ازواج بھی نامحرم کے لئے دروازہ کھولنے دروازے پر آتی تھیں۔ لہذا شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے نامحرم کے لئے دروازہ کھولنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔ عايشه اور عمر، ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے تھے : اہل سنت کی کتابوں میں موجود صحیح السند روایات کے مطابق رسول خدا (ص) عمر اور عائشہ کو ایک ہی دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے حتی یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ایک برتن میں ساتھ کھانا کھاتے تھے اور عمر کے ہاتھ عائشہ کے ہاتھ کے ساتھ لگ جاتا تھا ۔ جیساکہ ابن ابی شیبہ نے المصنف میں اور بخاری نے ادب المفرد میں ، ابن أبي حاتم، اور ابن كثير نے اپنی تفسيروں میں ... نقل کیا ہے : عن مجاهد قال مر عمر برسول الله صلي الله عليه وسلم وهو وعائشة وهما يأكلان حيسا فدعاه فوضع يده مع أيديهما فأصابت يده يد عائشة فقال أوه لو أطاع في هذه ووصواحبها ما رأتهن أعين. رسول خدا (ص) عائشه کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھے ،عمر گھر میں داخل ہوا ۔رسول اللہ (ص) نے عمر کو بھی کھانے کی دعوت دی ، عمر نے برتن سے کھانا کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا اور اس دوران عمر کے ہاتھ عائشہ کے ہاتھ سے ٹکراتا تھا،عمر نے کہا : اوه! اگر ازواج کے حجاب کے مسئلے میں میری بات مانتے تو کوئی بھی نگاہ ان پر نہ پڑتی۔ إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 358، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ؛ إبي أبي حاتم الرازي، عبد الرحمن بن محمد بن إدريس، تفسير ابن أبي حاتم، ج 10، ص 3148، تحقيق: أسعد محمد الطيب، ناشر: المكتبة العصرية - صيدا؛ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، الأدب المفرد، ج 1، ص 362، تحقيق: محمد فؤاد عبدالباقي، ناشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1409هـ - 1989م؛ المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 29، ص 138، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م؛ القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 3، ص 506، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ؛ العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 8، ص 531، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت. هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : رواه الطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح غير موسي بن أبي كثير وهو ثقة. طبراني نے اوسط میں اس روایت کو نقل کیا ہے ۔اس کے تمام راوی بخاری کے راوی ہیں ،سوای موسي بن كثير کے اور وہ بھی ثقہ ہے . الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 7، ص 93، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ. و سيوطي نے اس سلسلے میں لکھا ہے : وأخرج الطبراني بسند صحيح عن عائشة قالت كنت آكل مع النبي صلي الله عليه وسلم في قعب فمر عمر فدعاه فأكل فأصابت أصبعه أصبعي فقال أوه لو أطاع فيكن ما رأتكن عين. طبراني نے معتبر سند کے ساتھ عائشه سے نقل کیا ہے : میں رسول خدا (ص) کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھا رہی تھی اتنے میں عمر آیا رسول اللہ (ص) نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی ۔ کھانا کھاتے وقت اس کی انگلی میری انگلی سے لگی ۔عمر نے کہا : اوہ اگر آپ ازواج کے بارے میں میری بات مانتے تو کوئی بھی آنکھ آپ لوگوں کو نہ دیکھتی ۔ السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، لباب النقول في أسباب النزول، ج 1، ص 178، ناشر: دار إحياء العلوم - بيروت. لہذا حب نامحرم کے ساتھ دسترخوان پر ایک ہی برتن میں کھانا کھانا رسول اللہ (ص) کی ازواج کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو رسول اللہ (ص) کی بیٹی کا دروازہ کھولنے کیلئے جانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوناچاہئے ۔ نتيجه: پہلی بات: صديقه شهيده، دروازے کے پیچھے نہیں گئیں تھیں ؛ بلكه آپ دروازے کے آگے کھڑی تھیں عمر اور عمر کے ساتھیوں کو دیکھ کر اندر چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا لہذا حضرت زهرا سلام الله عليها دروازے کے پیچھے نہیں گئی تھیں کہ جسے یہ لوگ اعتراض کا ذریعہ بنالیں۔ دوسری بات: اگر یہ صحیح بھی ہو کہ حضرت زہرا س دروازے کے پیچھے تھیں تو یہی مسئلہ رسول اللہ (ص) کے ساتھ بھی پیش آیا ،آپ نے اپنی زوجہ کو دروزہ کھولنے کا حکم دیا۔ لہذا اس میں شرعی اعتبار سے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ التماس دعا شبھات کا جواب دینے والی ٹیم تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عج)
|
|