2024 March 28
کیا شیعہ اپنے اماموں کی بندگی کرتے ہیں؟؟
مندرجات: ١٨٥٢ تاریخ اشاعت: ٠٢ February ٢٠٢١ - ١٨:٣٩ مشاہدات: 2287
یاداشتیں » پبلک
خدا کی بندگی کے بدلے اماموں کی بندگی
کیا شیعہ اپنے اماموں کی بندگی کرتے ہیں؟؟

اعتراض:  شیعہ خود کو خدا کا بندہ سمجھنے کےبجائے اماموں کا بندہ سمجھتے ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ ان کے خالق ہیں لہذا عبد الحسین، عبد الحسن اور عبد علی و۔۔۔ نام رکھتے ہیں۔ وہ اس قسم کے ناموں کی وجہ شرک در خالقیت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ خالقیت صرف خدا کے لائق ہے  کل کائنات منجملہ تمام انسان خدا کے مخلوق ہیں۔

تحلیل اور جائزہ:

 اس اعتراض کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ: ائمہؑ کے بارے میں شیعوں کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہے۔وہ ائمہ کو خالق نہیں مانتے بلکہ اللہ کے مخلص بندے مانتے ہیں۔ وہابیوں نے بھی اس نام گذاری کے علاوہ کسی اور قسم کی دلیل پیش نہیں کیا ۔

اعتراض کرنے والے کے ذہن میں یہ خیال شاید یہاں سے وجود میں آیا ہوگا کہ  اگر کسی نے اپنا  نام عبد الحسین یا عبد علی رکھا ہے تووہ شخص ان کی ربوبیت کا بھی عقیدہ رکھتا ہوگا۔ جبکہ لفظ عبد کے لیے کم سے کم تین معنی بیان ہوئے ہیں:

1-     عبد  سے مراد مخلوق اور مملوک ہے اور اس کے مقابل میں رب اور خالق ہے۔

 اگر یہ معنی مراد ہوں تو  عبد مملوک اور مخلوق کا معنی دیتا ہے اور صرف خدا کے نام کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے  لہذا کہا جاتا ہے:" عبداللہ"

جیسا کہ قرآن میں حضرت عیسی کی زبانی بیان ہوا ہے: قال انّی عبداللہ، کہا میں خدا کا بندہ ہوں۔[1]

یہ معنی صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کے سوا  باقی سب عبد اور مملوک ہیں۔ لہذا قرآن فرماتا ہے:  إِلاَّ آتِي الرَّحْمنِ عَبْدا، وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔

2-    عبد یعنی غلام، یہ معنی باب "عبید" اور "ایماء" سے متعلق ہے کہ ماضی میں جنگی اسیر کچھ شرطوں کے تحت غلام محسوب ہوتے تھے۔

عبد اس معنی میں اپنے مالک پر اضافہ کیا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے: وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُم ، اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموںاور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکا ح کر دو،[2]

جیسا کہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اس آیت میں" عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُم " کا جملہ آیا ہے اس میں عبادکم غیر اللہ پر اضافہ ہوا ہے۔

3-    عبد یعنی مطیع اور فرمانبردار، یہ معنی لغت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے۔[3]

اب ان تین معنوں میں سے عبد الحسین اور عبد علی کے مناسب جو معنی ہے وہ تیسرا معنی ہے لہذا عبد الحسین کا مطلب یعنی حسین کا فرمانبردار اور مطیع۔

بے شک پیغمبرﷺ اورمفترض الطاعۃ امام کی  اطاعت خدا کے حکم سے واجب ہے اور کوئی بھی مسلمان اس کام کی وجہ سے مذمت کے مستحق نہیں۔

قرآن فرماتا ہے: وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّه، ۔اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے۔[4]

نیز فرمایا: أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔[5]

قرآن چاہتا ہے کہ رسول اکرمﷺ اور اولی الامر"مُطَاع" ہوں اور دوسرے مسلمان ان کی اطاعت کریں اب اگر کوئی خود کو عبد الرسول، مطیع رسول کے معنی میں استعمال کرے تو مشکل کہاں ہے؟

لہذا عبداللہ اور عبدالرسول کا آپس میں کوئی ٹکراو نہیں ہے کیونکہ ایک عبودیت کے پہلے معنی کے مطابق ہے دوسرا عبد کے تیسرے معنی کے مطابق ہے۔ وہابیت نے ان معنوں کو آپس میں ملا دیا ہے۔

 نتیجہ:

 

 

عبد الحسین اور عبد علی جیسے نام رکھنا عبودیت اور بندگی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اطاعت اور پیروی کا معنی دیتا ہے۔ لہذا اس قسم کے نام غیر خدا کی ربوبیت کے عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔لیکن اس قسم کے اعتراضات ایک ایسے گروہ کے بےجا  وسوسوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں جنہوں نے شرک اور توحید کے دائرے کو محدود   کر کے ہر چھوٹی  بات کو شرک محسوب کرتے ہیں۔

 تحریر کرنے والا :  استاد رستمی نژاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مترجم ۔۔ اعجاز حیدر



[1] ۔مریم/30

[2] ۔نور/ 32

[3] ۔مفردات الفاظ القرآن ص542، کتاب العین ج 2ص48، لسان العرب ج 3 ص270

[4] ۔نساء/ 64

[5] ۔ مائدہ/ 59

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی