2024 March 19
کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟؟
مندرجات: ١٨٤٨ تاریخ اشاعت: ٠٢ February ٢٠٢١ - ١٧:٢٨ مشاہدات: 5781
یاداشتیں » پبلک
قرآن مجید میں تحریف
کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟؟

اعتراض :  شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ  قرآن مجید کے اندر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی شأن اور فضیلت میں نازل شدہ  آیات کو  اصحاب پیغمبر ﷺ نے حذف  کردیا ہے۔

وہابی اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کچھ  ایسی روایات پیش کرتے ہیں جو شیعوں  کی کچھ  روائی  کتب میں نقل ہوئی ہیں اور اسی طرح  ’’ فصل الخطاب ‘‘ نامی کتاب کو اپنی دستاویز بناتے ہیں اور  یہاں تک کہ   اس کتاب کی  اشاعت کو بہانہ بنا کر  بھی اس اعتراض کو بڑے کرّو فر کے ساتھ  دہراتے و تکرار کرتے  ہیں ۔

اس اعتراض کے جواب  کے لئے چند نکات  قابل ذکر ہیں :

پہلا نکتہ :  کسی مذہب کے عقائد کو اس مذہب کی  عقائدی کتابوں میں تلاش کرنا چاہیئے  نہ کہ اس کی حدیثی و روائی کتابوں میں ۔ چونکہ  ہر مذہب کے عقائد   آیات ، احادیث  متواترہ  اور عقلی دلائل کے ایک مجموعہ سے مأخوذ ہوتے ہیں  اور انہیں اس مذہب کی عقائدی کتابوں میں ضبط و محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ اس بیان کی روشنی میں اگر شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہوں تو  یہ عقیدہ ان کی عقائدی کتابوں میں تحریر ہونا چاہیئے   درحالیکہ کسی بھی شیعہ عقائدی کتاب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ  بیان نہیں ہوا ہے  اس لحاظ سے اس عقیدہ کی شیعوں کی طرف نسبت  دینا   محض ایک  تہمت اور افتراء ہے ۔

 شیعوں کی سب سے قدیمی اعتقادی کتاب  ’’ اعتقادات الامامیۃ ‘‘ ۔ (مؤلف شیخ صدوق ؒ  متوفی ۳۸۱ ہجری )۔  میں آیا ہے : ’’ اعتقادنا ان القرآن الذی انزل الله علی نبیه محمد (ص) هو ما بین الدفتین و هو ما بأیدی الناس لیس بأکثر من ذلک و من نسب الینا انه اکثر من ذلک فهو کاذب‘‘  ۔ ([1]) ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ  وہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل  کیا وہ یہی  دو جلدوں  کے درمیان موجود  قرآن ہے  ،  وہ یہی قرآن ہے جو اس وقت لوگوں کے پاس ہے  اور اس سے زیادہ نہیں  اور جو کوئی بھی ہماری طرف اس کے علاوہ کوئی اور نسبت دے وہ جھوٹا ہے ۔

شیخ صدوق  کے بعد سے آج تک  ہمیں کسی ایسے شیعہ عالم اور دانشور کا پتہ نہیں  ملتا ہے کہ جس نے مذکورہ بالا  عبارت  کے علاوہ اپنی کتاب میں  اس سلسلہ میں کچھ اور کہا ہو۔ سبھی کا یہ عقیدہ ہے کہ حقیقی و اصلی قرآن یہی موجودہ قرآن ہے جو لوگوں کے پاس ہے نہ اس میں کوئی کمی واقع  ہوئی  ہے اور نہ کوئی زیادتی ۔

دوسرا نکتہ : کسی مذہب کی حدیثی کتابوں میں روایات کا وجود یہ دلیل نہیں ہوتا کہ   اس مکتب و مذہب کے پیروکار  اسی عقیدہ کے حامل ہیں جو حدیث سے سمجھ میں آتا ہے  ۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔ عقیدہ  کو عقیدہ  کی کتابوں  میں جستجو کرنا  چاہیئے  نہ کہ روائی کتابوں میں ۔ اگر یہ مبنی اور اصول  بنا لیا جائے کہ  روایات کی کتابوں  میں موجود چند احادیث کے سبب  ۔ کہ جو بظاہر تحریف کی حکایت کرتی ہیں ۔ کسی عقیدہ کو اس مذہب کے پیروی کرنے والوں کی طرف نسبت دیدیا جائے تو پھر  قرآن مجید میں تحریف کے عقیدے کی نسبت   ۔ بشمول وہابیوں کے ۔ تمام مسلمانوں  کی  طرف دی جاسکتی  ہے کیونکہ ان کے یہاں احادیث کی بہترین کتب میں بہت سی ایسی روایات   موجود ہیں جو قرآن مجید میں تحریف کی تصریح کرتی ہیں ۔ البتہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے والے  کبھی اپنے کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ صرف چند روایات کی بنا پر دیگر مسلمانوں پر  تحریف کی تہمت  لگائیں ۔

چنانچہ اہل سنت کے یہاں  کتب روائی اور تفاسیر میں عائشہ سے نقل ہوا ہے   کہ انہوں نے سورہ احزاب کے متعلق کہا ہے کہ سورہ احزاب ۲۰۰ آیات پر  مشتمل  تھا  لیکن قرآن مجید کی  جمع آوری کے وقت  موجودہ مقدار سے زیادہ آیات ہاتھ نہیں آئیں  ۔([2]) اور کچھ روایات کے مطابق سورہ احزاب  سورہ بقرہ جتنا بڑا بلکہ اس سے بھی طولانی تھا  کہ جس میں سے اب  صرف ۷۳ آیات باقی بچیں ہیں ۔([3])

اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ  کیا  اس طرح کی  روایات ،کہ جوان  کتابوں  میں وارد ہوئی ہیں جنہیں خود  وہابی قبول کرتے ہیں ، کو بنیاد بنا کر تحریف قرآن کی نسبت ان کی طرف دینا صحیح  ہے ؟ !

صحیح مسلم و بخاری میں ابن عباس سے  یہ روایت نقل ہوئی ہے : ’’ خطب عمر بعد مرجعه من آخر حجة حجها ، قال فیها : ان الله بعث محمدا ً (ص) بالحق و أنزل علیه الکتاب فکان ممّا أنزل الله آیة الرجم فقرأنا و عقلناها و عیناها ‘‘۔([4]) عمر  نے اپنے آخری حج سے لوٹنے کے بعد کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا  اور ان پر کتاب نازل فرمائی  اور آپ پر جو آیات نازل کی ان میں سے ایک ’’ آیہ رجم ‘‘ تھی  کہ ہم نے  اسے پڑھا  ، سیکھا  اور اسے حفظ کیا تھا ۔

اب بتائیے کہ کیا محض اس طرح کی ضعیف روایات کے نقل کرنے کے سبب تمام مسلمانوں  پر تحریف قرآن کی تہمت و الزام لگایا جاسکتا ہے ؟ !

تیسرا نکتہ : شیعہ کتب میں موجود وہ روایات جنہیں وہابی اپنے مدعیٰ کی دلیل کے طور پرلاتے ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ان میں  سے پہلی قسم   ان  روایات کی ہیں جو  ضعیف اور بغیر سند کی ہیں کہ جن کی  کوئی علمی قدر و قیمت نہیں ہے ۔

چنانچہ علامہ مجلسی ایسی روایات کے حوالہ سے لکھتے ہیں :  قرآن مجید کی تحریف کے متعلق نقل ہوکر آنے والی روایات سب کی سب خبر واحد ہیں کہ اور علمی اور عملی طور پر ان کی  کوئی اہمیت  نہیں ہے  بلکہ شیخ نجاشی کی طرف سے ان کے روایتوں کے نقل کرنے والے تمام لوگ تضعیف کئے جاچکے ہیں ۔([5])

دوسری قسم ان روایات کی ہے   کہ جو معتبر اور قابل وثوق ہیں  لیکن ان روایات سے مراد تفسیری بیان  ہے  کہ جس کا  قرآن مجید کے الفاظ میں تحریف سے کوئی واسطہ  نہیں  ہے ۔

مثال کے طور پر  کافی میں ایک روایت نقل ہوئی ہے : ’’ الست بربکم و انّ محمداً  رسولی وانّ علیاً امیرالمومنین ‘‘ ۔([6]) لہذا یہی روایت اور اس جیسی روایات اتفاقاً  اہل سنت کی کتابوں  میں بہت زیادہ مقدار و تعداد میں نقل ہوکر آئی ہیں وہ سب کی سب تفسیری بیان پر مشتمل ہے   الفاظ قرآن کی کمی اور  زیادتی پر نہیں ، یا دوسرے الفاظ میں ایسے بیان کیا جائے کہ  امام معصوم نے آیت مذکورہ  کی تفسیر کرتے ہوئے مذکورہ بالا الفاظ کا اضافہ کیا ہے نہ کہ حضرت نے نص قرآن اور الفاظ قرآن کی تبین کی ہو ۔

اس طرح کی چیزیں  ایسا نہیں ہیں کہ صرف شیعہ کتب میں ہی موجود ہوں بلکہ  اس جیسی  بہت سی روایات خود وہابیوں کی مقبول نظر کتب میں بھی کثرت کے ساتھ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں  جن میں سے ہم کچھ کی طرف ذیل میں اشارہ کررہے ہیں :

ایک روایت میں عائشہ سے نقل ہوا ہے :’’  کنا نقرأ علی عهد رسول الله : ( یا أیها الرسول بلغ ما أنزل الیک من ربّک ۔ فی علی۔ و ان لم تفعل فما بلغت رسالته ‘‘۔([7])  ظاہر سی بات ہے کہ یہ جملہ ’’ فی علی ‘‘ تفسیر کے طور پر بیان ہوا ہے  الفاظ قرآن کی قرات کے طور نہیں ۔

تو کیا اس طرح کی روایت کے سبب  وہابیوں پر تحریف قرآن کے عقیدہ کا الزام لگانا صحیح  ہوگا ؟ !

صحیح مسلم مین عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے اس آیت  کی اس طرح  قرات کی ہے : ’’  حافظوا علی الصلوات  و الصلاة الوسطی ۔۔۔۔۔۔ و صلاة العصر ‘‘ ۔ ([8]) واضح سی بات ہے کہ ( و صلاة العصر)   تفسیر کے طور پر بیان ہوا ہے نہ کہ جزء  آیت  ہونے کے طور پر ۔

ان نمونوں کو چھوڑتے ہوئے ہم رخ کرتے ہیں دوسری قسم کی روایات کی طرف  کہ جو قرآن مجید کی معنوی تحریف سے متعلق ہیں؛ اور اس کی سب سے بڑی شاہد یہ روایت ہے : امام محمد باقر  علیہ السلام   نے سعد الخیر کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا : ’’ و کان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده فهم یروونه ولا یرعونه ‘‘  ۔([9]) بعض مواقع پر لوگ قرآن مجید سے اس لئے بے اعتنا ہوجاتے ہیں کہ  انہوں نے  اس کے  حروف  و الفاظ کو تو حفظ کررکھا ہے  لیکن انہوں نے اس کی حدود میں تحریف کردی ہے پس وہ قرآن کو تو پڑھتے ہیں  لیکن اس کے حدود کی رعایت نہیں کرتے   ۔

ظاہر سی بات ہے کہ اس روایت میں امام علیہ السلام  کی تحریف سے مراد ، معنوی تحریف ہے    اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا  چونکہ  تمام کی تمام تفاسیر بالرأی   تحریف معنوی کے دائرے میں آتی ہیں ۔

چوتھا نکتہ :  محدث نوری کی کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘    کبھی بھی  شیعوں کے عقیدے کوبیان کرنے والی کتاب نہیں تھی اور نہ ہے۔ چونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ کتاب خود شیعوں کے نزدیک  لائق اعتبار اور اہمیت نہیں  سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ  ایک روائی اور حدیثی کتاب ہے اعتقادی کتاب نہیں ہے  اور اہم بات یہ کہ یہ کتاب ابھی ماضی قریب میں ہی تحریر کی گئی ہے  کہ جس کے مؤلف ۔ میرزا حسین نوری ۔ نے سن ۱۳۲۰ ہجری میں رحلت کی   تو بھلا یہ کتاب کیسے اس مذہب کے عقیدے  کی عکاس ہوسکتی ہے جس کا سابقہ ۱۴۰۰ برس قدیمی ہو ؟ !

اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ کتاب  تیرہویں صدی کے اوائل میں صرف اور صرف  ایک مرتبہ نجف اشرف سے شائع ہوئی ہے  اور جیسی ہی یہ کتاب شائع ہوئی  حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بزرگ علماء کی طرف سے بشدت اس کی تردید کی گئی اور اسی وقت علماء کے حکم سے یہ کتاب اکھٹا کروا لی گئی  اور اس کے بعد  سے اب تک یہ کتاب کبھی  شائع نہیں  ہوئی اور نہ ہی  کسی کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع ہے ۔

نیز اس کتاب کی اشاعت کے آغاز سے ہی آج تک خود بہت سے شیعہ علماء اور دانشوروں نے   دسیوں کتابیں اور مقالات اس  کی تردید  میں لکھے  ہیں   جن میں مشہور تردید کرنے والوں کے  اسماء  یہ ہیں :

ا ۔ شیعوں کے عظیم فقیہ   جناب محمود بن ابی القاسم  کہ جو معرّب تہرانی کے نام سے مشہور تھے( متوفی ۱۳۱۳ ہجری ) نے اس کی رد میں  ’’ کشف الارتیاب فی عدم تحریف کتاب رب الارباب ‘‘ نامی کتاب تحریر کی ۔

۲ ۔ مرحوم علامہ سید محمد حسین شہرستانی ( متوفی  ۱۳۱۵ ہجری )  نے ’’ حفظ الکتاب الشریف عن شبھۃ القول بالتحریف ‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس کی تردید کی ۔

۳۔ علامہ شیخ محمد جواد بلاغی ( متوفی ۱۳۵۲ ہجری )  نے اپنی گرانقدر تألیف ’’ تفسیر آلاء الرحمان ‘‘ کہ جس کا ایک بڑا حصہ  کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘ کے تردید سے مخصوص کیا گیا ہے ۔

۴ ۔ علامہ سید ابو القاسم الخوئی ( متوفی ۱۴۱۱ ہجری ) نے اپنی کتاب ’’ البیان ‘‘  کی ایک مکمل فصل کو  ’’ فصل الخطاب ‘‘  کے رد سے مخصوص کیا ہے  اور اس کتاب میں موجود روایات پر   نہایت علمی اور تحقیقی انداز میں تبصرہ  کیا ہے ۔

۵ ۔علامہ محمد ہادی معرفت نے اپنی کتاب ’’ صیانۃ القرآن من التحریف ‘‘ میں بنحو احسن ’’ فصل الخطاب ‘‘  کا جواب دیا ہے۔

عالم تشیع  کی  ان مایہ ناز اور برجستہ شخصیات کے علاوہ بھی دسیوں دیگر لوگوں نے اس کتاب پر رد لکھے ہیں اور پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق شیعوں  کا  وہ عقیدہ نہیں ہے جو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے ۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود حاجی نوری  ۔ کتاب فصل الخطاب کے مؤلف ۔  نے اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد جب چاروں طرف سے ان پر تنقید ہونے لگی تو  انہوں نے ایک رسالہ تحریر کیا  اور اس رسالے میں یہ اعلان و اظہار کیا کہ اس کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘ سے میری مراد  قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنا نہیں تھا     بلکہ میری عبارتوں کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔([10])

 آیت اللہ العظمیٰ سبحانی   کے بیان کے مطابق ؛ امام خمینیؒ فرمایا کرتے تھے :  محدث نوری بڑے صالح اور نیک  و مذہبی انسان تھے لیکن انہیں عجیب و غریب اور ضعیف روایات کے اکھٹا کرنے کا بڑا شوق تھا  ایسی روایات کہ جنہیں عقل بشر قبول نہیں کرتی تھیں ۔([11])

کیا این تمام تنقیدوں  کے  باوجود  اس کتاب  کو  شیعہ عقیدہ کے  پرچم  دار  کی حیثیت سے دیکھنا صحیح  ہے ؟ !

اگر  صرف ایک  کتاب کی تألیف  پوری شیعت کے عقیدے کی دلیل بن سکتی ہے  تو پھر  تحریف کے عقیدے کو خود وہابیوں کی طرف نسبت دینا بھی  درست ہوگا چونکہ  مسلمان علماء کے درمیان بہت سے ایسے بھی ہیں  کہ جنہوں نے ایسی کتابیں تحریر و تألیف کی ہیں  جیسا کہ ’’ ابن الخطیب مصری ‘‘ نے خود اہل سنت کی کتابوں سے قرآن مجید کی تحریف سے متعلق روایات کو  اپنی کتاب ’’ الفرقان فی تحریف القرآن ‘‘ میں جمع کیا ہے ۔([12])

البتہ جامعہ الازہر کے علماء نے ابتداء ہی سے اس کتاب کی مخالفت کی ہے اور اسے غلط بتلایا ہے ۔

  الازہر کی شریعت فیکلٹی کے استاد محمد محمد مدنی   رقمطراز ہیں : ’’  میں اس شخص سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن ناقص ہے ‘‘ ۔ پھر اس کے بعد وہ آگے لکھتے  ہیں  کہ   ایک مصری شخص  ’’ محمد محمد عبد اللطیف ‘‘ نے  ’’ الفرقان ‘‘ نامی کتاب لکھی ہے جس میں اس نے  اہل سنت کی کتابوں سے تحریف قرآن کے متعلق جھوٹی اور جعلی روایات جمع کی ہیں  تو کیا صرف ایک شخص کے ایسی کتاب لکھنے سے  ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سارے سارے اہل سنت  تحریف قرآن کا عقیدہ رکھتےہیں ؟ ! ۔([13])

پانچواں نکتہ :  وہابیوں کی طرف سے شیعوں پر یہ تہمت و الزام لگانے میں آخر اتنا اصرار کیوں ہوتا ہے ؟ انہیں یہ تہمت و الزام لگا کرآخر  کیا حاصل ہوگا ؟ !

 شیعوں پر اس تہمت ( تحریف قرآن ) اور دیگر تہمتوں    کے واسطے سیٹرلائیٹ چینلز، ویب سائیٹس  اور انٹر نیٹ پرمنفی پرپیگنڈوں  کے علاوہ   ہر دن وہابیوں کی طرف سے  بہت سی کتابیں ، مقالات اور تھیسیز لکھ کر انہیں  مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے پوری دنیا میں شائع کیا جارہا ہے  جس سے   اسلام  کے خلاف کسی  سازش کی بو آتی ہے  لہذا کافی ہے کہ وہابیوں کی طرف سے شیعوں کے خلاف  لکھ کر شائع ہونے والی ان سینکڑوں کتابوں میں سے کچھ اہم  کتابوں کا  اجمالی خاکہ ذہن نشین کرلیا جائے :

۱ ۔ السنۃ و الشیعۃ ؛ تألیف  محمد رشید رضا ، صاحب تفسیر  و مجلہ المنار ۔

۲ ۔ الصراع بین الاسلام و  الوثنیۃ  ؛ تألیف عبد اللہ علی القصیمی ۔

۳ ۔ فجر الاسلام ، ضحی الاسلام  و ظہر الاسلام ؛ تألیف احمد امین مصری ۔

۴ ۔ الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی ؛ تألیف محمد ثابت مصری ۔

۵ ۔ الشیعۃ و القرآن ؛ تألیف  احسان الہی ظہیر ۔

۶ ۔ الشیعۃ الاثنا عشریۃ  و تحریف القرآن ؛ تألیف محمد عبد الرحمٰن  سیف ۔

۷ ۔ اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ ؛ تألیف ڈاکٹر  فقاری ۔

۸ ۔ موقف الرافضۃ من القرآن الکریم ؛ تألیف مامادواکار امبیری ۔

۹ ۔ الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ ؛ تألیف  موسی جار اللہ بن فاطمہ الترکستانی ۔

۱۰ ۔ الشیعۃ الامامیۃ الانثا عشریۃ فی میزان الاسلام ؛ تألیف  ربیع بن محمد سعودی  ،  وغیرہ وغیرہ  ۔

یہ ساری  کتابیں عام طور پر  جاہلانہ طرز  پر لکھی گئی ہیں   کہ جن میں  کسی  معتبر و موثق  کتاب کا حوالہ دینے کی زحمت نہیں کی گئی اور ان  مؤلفین   نے شیعوں پر الزام تراشی اور تہمت لگانے میں اتنی زیادتی کا مظاہرہ کیا ہے کہ   ہر ایک عقلمند آدمی ان کا مطالعہ کرکے  تعجب و حیرت میں ڈوب جاتا  ہے  ۔ اور  انہوں نے شیعوں پر ان   بے جا  تہمتوں کا  وہ پلندہ باندھا ہے کہ جسے دیکھ کر ہمارے لئے  یہ یقین کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ انہوں صحیح ڈھنگ سے ہماری کسی ایک کتاب کا بھی مطالعہ نہیں کیا ہے۔

  دوسرے یہ کہ ان بے جا تہمتوں اور الزام تراشیوں کا فائدہ ۔ خاص طور پر تحریف قرآن کے سلسلہ سے  ۔ دشمنان اسلام کو فائدہ ہوا ہے اور ہورہا ہے اس طرح کہ  اس طرح کی چیزوں  میں یہودیوں اور موساد کے جاسوسوں  کی چال کو محسوس کیا جاسکتاہے ۔ چنانچہ دشمنان اسلام  وہابیوں کے ذریعہ ایسا فتنہ برپا کرکے درجہ ذیل مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں :

۱۔  قرآن مجید کی حجیت کو سلب کرنا اور  اسلام کی سب سے محکم سند کی حقانیت کو کمزور بنانا ۔ ظاہر سی بات ہے ایسے الزامات و تہمتوں کو  دہرانے  اور تکرار کرنے سے سے یہ نتیجہ لیا جاتا ہے  کہ امت اسلامی  کا ایک بڑا طبقہ قرآن مجید میں تحریف کا قائل ہے ۔ یہ ظلم  اس سے پہلے کہ شیعوں سے انتقام  کا سبب بنے  خود قرآن مجید کے حق میں ظلم عظیم ہے ۔ لہذا وہانی ناخواستہ طور پر   اسلام کے اس محکم ستون ( قرآن مجید ) کو متزلزل کرنے میں لگے ہوئے ہیں  !

۲ ۔ قرآن مجید  کی نسبت مسلمانوں  کے  ایمان کا کمزور ہوجانا ۔ وہابی اپنے ان فتنوں کے ذریعہ  اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کی نسبت مسلمانوں کے فکری و اعتقادی مبانی  میں شک و شبہ ایجاد کررہے ہیں ۔

۳ ۔  مسلمانوں کے اتحاد کے راز سے پردہ اٹھانا ۔  وہابی اپنے ان بے جا و فضول کاموں کے سبب  یہود و مغربی سامراج کے خلاف مسلمانوں کے قوی محاذ  کی تشکیل میں رکاوٹیں  ایجاد کررہے ہیں ۔

۴ ۔ مسلمانوں کی متحد  صفوں میں شگاف  ڈال کر دشمنوں کے سامنے ایک ایسی تصویر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ گویا مسلمان فکری و اعتقادی حوالہ سے  لرزہ بر اندام ہوچکے  ہیں ۔

۵ ۔خود مسلمانوں کی طاقت کہ جو دشمن کے خلاف استعمال ہونا چاہیئے تھی اسے انہوں نے ایک دوسرے پر تہمتیں لگانے اور اپنا دفاع کرنے میں لگا رکھا ہے  جبکہ وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اسلام کے دشمن ہمارے خلاف کیا کیا  سازشیں کرنے میں مشغول  ہیں ۔

۶ ۔وہابی اپنے ان فضول کاموں کے سبب  قرآن مجید کی نسبت ایسی متزلزل تصویر پیش کرکے غیر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کہ جو  دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتی ہے اس کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں  ۔

وہابی نے ،  چاہے دانستہ طور پر یا با دل نخواستہ ،  شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دے کر اپنے ان وسیع  پروپیگنڈوں کے ذریعہ سامراج و صہیونیت کے مذکوہ مقاصد  کی تکمیل کی ہے اور  اور کررہے ہیں ! کیا اب وہ وقت نہیں آ پہونچا ہے  کہ   وہابی عقل کے ناخن لیں اور یہ سوچیں کہ انہوں نے کافی عرصہ یہود  و مجوس کی  خدمت کرلی ہے اب ذرا اپنے بارے  میں بھی کچھ سوچیں   اور قرآن مجید پر مزید ظلم کرنے سے دست بردار ہوجائیں ؟ !

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے : ’’ وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم ‘‘ ۔([14]) (اے مسلمانو!) بہت سے اہل کتاب اپنے ذاتی حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد تمہیں پھر کافر بنا دیں۔

نتیجہ :

قرآن مجید میں  ہر گز ہرگز تحریف واقع  نہیں ہوئی ہے ۔ اور کوئی شیعہ بھی قرآن مجید میں تحریف کا قائل نہیں ہے ۔ قرآن مجید  میں تحریف  کا اعتراض  اس سے پہلے کہ شیعوں کو صدمہ پہونچائے  اس کا نقصان اور صدمہ خود  قرآن مجید کو  پہونچ رہا ہے ۔ اس سازش کے پیچھے  عالمی صہیونیت   کی دسیسہ کاری نظر آتی ہے   چونکہ یہ (یہودی )وہی لوگ کہ ۔ قرآنی آیا ت کی روشنی میں  ۔ جنہوں  نے اپنی مقدس کتاب پر رحم نہ کیا  اور اس میں تحریف کر ڈالی ۔ اب وہ وقت آ پہونچا ہے کہ وہابی اپنی آنکھوں کو کھولیں  اور یہودیوں کی سیاست  کے نفاذ کے لئے اتنے ہاتھ پاؤں مارنا چھوڑ دیں  ۔

مطالعہ کے لئے مزید کتب :

صیانۃ القرآن  عن التحریف ؛ محمد ہادی معرفت ۔     

       تدوین القرآن ؛ شیخ علی کورانی ۔

تحریف ناپذیری قرآن ؛ ڈاکٹر نجار زادگان ۔                    

   شیعہ جواب دیتے ہیں  ؛ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ۔  

محرر : استاد رستمی نژاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔ اعجاز حیدر ۔۔ سید میثم زیدی



[1] ۔ اعتقادات الامامیۃ ، ص ۸۴ ۔

[2] ۔ الدر المنثور ، ج۵ ، ص ۱۸۰ ؛ الجامع لاحکام القرآن ، ج۱۴ ، ص ۱۱۳ ۔ ’’ عن عائشة قالت : کانت سورة الاحزاب تقرأ فی زمان النبی (ص) مأتی آیة فلمّا کتب عثمان المصاحف لم یقدر منها الّا علی ما هو الآن‘‘۔

[3] ۔ مسند احمد ، ج۵ ، ص ۱۳۲ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج۳ ، ص ۴۷۳ ؛ الدر المنثور ، ج۵ ، ص ۱۷۹ ؛ روح المعانی ، ج۲۱ ، ص ۱۴۲ ۔ ’’ قال زرّ، قال : قال لی ابی بن کعب : کیف تقرأ سورة الاحزاب أو کم تعدها ؟ قلت : ثلاثاً و سبعین أیة ! فقال أبی : قد رأیتها و انها لتعادل سورة البقرة أو اکثر من سورة البقرة و لقد قرأنا فیها : الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموها البتة نکالاً من الله ، والله عزیز حکیم ، فرفع منها ما رفع‘‘ ۔

[4]۔ صحیح البخاری ، ج۸ ، ص ۲۶ ؛ صحیح مسلم ، ج۵ ، ص ۱۱۶ ۔

[5] ۔ رجال کشی ، ص ۲۸۷ ؛ رجال علامہ الحلی، ص ۲۴۲ ؛ بحار الانوار ، ج۹ ، ص ۱۹۳ ۔

[6] ۔ الکافی ، ج۱ ، ص ۴۱۲ ۔

[7] ۔ رجوع کیجئے : تفسیر القرآن المعظم، ج۴ ، ص ۱۱۷۲ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن ، ج۴ ، ص ۹۲ ؛ اسباب نزول القرآن ، ص ۲۰۴ ؛ الدر المنثور ، ج۲ ، ص ۱۱۲ ۔

[8] ۔ صحیح مسلم ، ج۲ ، ص ۲۹۸ ۔

[9] ۔ الکافی ، ج۸ ، ص ۵۳ ۔

[10] ۔ الذریعۃ ، ج۱۶ ، ص ۲۳۱ ۔

[11] ۔ راہنمای حقیقت ، ص ۲۹۵ ۔

[12] ۔ شیعہ پاسخ می دہد ، مکارم شیرازی ، ص ۲۲ ۔

[13] ۔ مجلۃ رسالۃ الاسلام ، شمارہ ۴۴ ، ص ۳۸۲ ۔

[14] ۔ سورہ بقرہ : آیت ۱۰۹ ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی