شہادت مظلومانہ حضرت سکینہ بنت الحسین (س)
ایک بار مجھے گود میں لے لو بابا
جوڑ کر ننھے سے ہاتھوں سے سکینہ نے کہا
وا حسیناؑ کا ہوا شور حرم میں برپا
ہو کر رخصت جو چلے گھر سے شاہِ کرب و بلا
کہہ کہ یہ دوڑی سکینہؑ کہ ٹہر جاؤ ذرا
ایک بار اور مجھے گود میں لے لو باباؑ
بیٹیاں اپنے باپ سے محبت کو سننا اور محسوس کرنا چاہتی ہیں، بیٹیاں باپ کی محبت کو چاہتی ہیں ، اس محبت کی کمی کو ماں پورا نہیں کر سکتی۔ ماں بچی کو تحفظ دیتی ہے ، باپ ان کو خود اعتمادی دیتا ہے۔ باپ اور بیٹی میں محبت کا ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ دن میں چند گھنٹے ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ جب بیٹیاں اپنے باپ کی غیر موجودگی کو محسوس کرتی ہیں، باپ اپنی بیٹیوں کیلئے ایک تناور درخت کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے میں وہ پرورش پاتی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کو بھی اپنی اولاد خصوصاً اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ سکینہ سلام اللہ علیہا سے ایسی ہی محبت تھی، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
واقعہ کربلا میں جہاںخانوادہ امام حسین علیہ السلام کے ہر فرد نے امام عالیمقام کی قیادت میں اس جہاد میں حصہ لیا ، وہاں خواتین اور بچے، بچیوں نے بھی امام حسین (ع) کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ سکینہ کی سرکردگی میں میدان کربلا میں موجود طفلان نے جس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
جب امام حسین (ع) جہاد کے لیے کربلا جا رہے تھے تو آپ ذوالجناح کے سموں سے لپٹ گئیں۔ امام حسین (ع) نے سبب پوچھا تو عرض کیا:
میں آپ کے روئے مبارک پر ایک نظر ڈال کر اپنے سفر الم ناک کے لیے اس چہرے کے تصور کو زاد راہ بنانا چاہتی ہوں، تا کہ اس صابر چہرے کا تصور میرے لیے مصیبت انگیز سفر میں سرمایۂ تسکین بن سکے۔
حضرت سید الشہد اء امام حسین علیہ السلام کی سب سے لاڈلی بیٹی حضرت سکینہ، آپ واقعہ کربلا کی عینی شاہد ہیں اور آپ کو خاندان عصمت کے ساتھ اسیری کی حالت میں کوفہ اور شام لے جایا گیا اور بعد ازاں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ماہ صفر المظفر کو زندان شام میں شہید ہو گئیں۔ حضرت سکینہ کا اصلی نام آمنہ یا امیمہ تھا اور سکینہ کے لقب سے مشہور ہے، والدہ گرامی کا نام رباب بنت امرء القیس ہے۔ علوی خاندان کی یہ خاتون والد گرامی حضرت امام حسین علیہ السلام اور والدہ معظمہ حضرت رباب کی آغوش میں پروان چڑھی۔
کربلا کا ذکر ہو اور بی بی سکینہ کا ذکر نہ ہو، یہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشورا کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو عباس پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے ۔
عصرِ عاشورا سے پہلے جنابِ عباس (ع) کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہو گئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی ہانی لائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار (ع) کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔ مقتل میں لکھا ہے کہ جب 11 محرم 61 ہجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر کے بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قید خانہ بن گیا۔
سکینہ بنت الحسین (س) واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد گرامی کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئی۔ آپ نے اپنے باپ سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔
آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائے گئے الزامات قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔
حالاتِ زندگی:
سکینہ بنت امام حسین ، رباب بنت امرؤ القیس سے تھی۔ (1) آپ کا نام آمنہ، امینہ اور امیمہ ذکر ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ سکون، آرامی اور وقار کی مالک تھیں، اس لیے ماں نے انہیں سکینہ کا لقب دیا تھا۔[2]
تاریخی کتابوں میں آپ کی تاریخ ولادت معین نہیں ہے لیکن انہیں اپنی بہن فاطمہ سے چھوٹی ہونے کا کہا گیا ہے۔[3]
حضرت امام حسین (ع) سکینہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے بعض مآخذ میں ان کی اس محبت کی عکاسی کرتے ہوئے منقول ہے کہ امام (ع) نے حضرت سکینہ کی محبت میں درج ذیل اشعار کہے ہیں:
لعمرک انّنی لاُحبّ داراً تکون بها سکینه و الرّباب
أحبّهما و أبذل جلّ مالی و لیس لعاتب عندی عتاب
ترجمہ:
تمہاری جان کی قسم ! میں اس گھر کو زیادہ چاہتا ہوں جسمیں سکینہ اور رباب ہوں، ان دونوں کو چاہتا ہوں اور اپنے مال کو اس راستے پر خرچ کرتا ہوں اور کوئی اس میں میری سرزنش نہیں کر سکتا۔]5]
کربلا میں موجودگی:
مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، حضرت امام حسین (ع) میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں، آپ نے ان سے صبر کرنے کا کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کیے اور یہ اشعار پڑھے:
سیطول بعدی یا سکینة فاعلمی منک البکاء اذا الحمام دهانی
لا تحرقی قلبی بدمعک حسرة مادام منی الروح فی جثمانی
فاذا قتلت فانت اولی بالذی تبکینه یا خیرة النسوان
ترجمہ:
اے سکینہ ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہو گا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے، اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسوؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء ! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لیے صحیح ہے۔]18]
اسیری کے ایام:
واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلام سہل ابن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ:
جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچے تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی، اس نے اپنا سکینہ بنت الحسین کے نام سے تعارف کرایا اور مجھے کہا کہ کسی طرح سے خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تا کہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور چلے جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کر دیا۔[19]
بعض منابع میں سکینہ سے دمشق ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرم (ص) بعض دیگر انبیاء کے ہمراہ اور فاطمہ زہرا (س) کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسین (ع) کا خونی قمیص ہاتھ میں لیے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔]20]
سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات:
حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق بچی شمار کیا جاتا تھا۔[21]
فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسین (ع) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا:
وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے ۔[22]
سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں انکے والد گرامی امام حسین (ع) سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔[25] اور عبید اللہ ابن ابی ارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل ابن ابی خالد اور سکینہ دختر قاضی ابی ذر نے آپ سے روایت کو نقل کیا ہے۔ [26]
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قالب میں اور امام حسین (ع) کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:
لا تعذلیه فهم قاطع طرقه فغینه بدموع ذرف غدفه
ان الحسین غداة الطف یرشقه ریب المنون فما ان یخطی الحدقه
بکف شر عبادالله کلهم نسل البغایا و جیش المرق الفسقه
یا امة السوء هاتوا ما احتجاجکم غذا و جلکم بالسیف قد صفقه
ترجمہ:
جو راستے سے بھٹک گیا ہے، اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسین کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجاد کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بد ترین لوگ، حرامزادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بد ترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اسے قتل کیا ہے۔ [27]
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسین (س) کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسب دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔
ابو الفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر ابن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔[30]
اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسوب کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں چلا گیا۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر ابن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے کہ جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علماء بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔[31]
یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔ [32]
اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد ابن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر ابن ابی ربیعہ سے ملاقتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد ابن مصعب زبیری کے تھے۔
اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہیں وہ بھی حقیقت میں مصعب ابن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ ابن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں کہ جو عمر ابن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔ [ 33]
آپکے بارے میں تالیفات:
آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں اور مستقل کتاب کی شکل میں عربی زیان میں «سکینہ بنت الامام الحسین (ع) بقلم علی محمد علی دخیل، انتشارات موسسہ اہلالبیت (ع) سے بیروت لبنان سے چھپی اور اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔
حوالہ جات:
اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج 4، ص 192
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 94
ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج 2، ص 397
ابن جوزی، المنتظم، ج 7، ص 175
اصفہانی، الاغانی، ج 16، ص 360
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 464
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 86
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 11 ص 520
اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 94
بلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 195
اصفہانی، الاغانی، ج 16، ص 366
مفید، الارشاد، ص 465
ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، ص 201
ابن حزم، جمہرة انساب العرب، ص 105
مغربی، شرح الاخبار، ج 3، ص 180
محلاتی، ریاحین الشریعة، ج 4، ص 255
قمی، تاریخ قم، ص 196
ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 8، ص 347
زرکلی، الاعلام، ج 3، ص 106
حلو، عقیلہ قریش آمنہ بنت الحسین الملقبہ بسکینہ، ص 145 مجلسی، بحار الانوار، ج 42، ص 92
قمی، منتہی الامال، ج 1، ص 231
ابن اثیر، الکامل، ج 5، ص 113
بلاذری، انساب الاشراف ج 2، ص 47
خوارزمی، مقتل الحسین علیہ السلام، ص 60
مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 145
صدوق، الامالی، ص 166
بحرانی، العوالم الامام الحسین، ص 395
زرکلی، الاعلام، ج 3، ص 106
ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج 2، ص 394
صفدی، الوافی بالوفیات، ص 182
امین، اعیان الشیعہ، ج 11، ص 257
المقرم، مقتل الحسین علیہ السلام، ص 349
صفدی، الوافی بالوفیات، ج 15، ص 183
ابن حبان، الثقات، ج 4، ص 352
طبرانی، المعجم الکبیر، ج 3، ص 132
ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ص 206
ابن جوزی، المنتظم، ج 7، ص 178
ابو الفرج اصفہانی، الاغانی،1 صص281.282.
اہل بیت فی مصر، ص 216
جناب سکینہ (س) کی زندان شام میں شہادت تاقیامت یزیدیت کے منہ پر طمانچہ:
جناب سکینہ (س) اے کوفیو ! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ (ص) نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا کہ جسکے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اسکی پاک عزت کے ساتھ کیا ؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے کہ جسے خداوند نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟
یزید لعین کا ظلم صرف کربلا میں جاری نہیں رہا بلکہ سن 61 ہجری سے سن 64 ہجری تک یذید ملعون نے وہ ظلم کیے کہ منجنیق سے خانہ کعبہ و مسجد نبوی بر پتھر برسا کر حرمت کعبہ کو پامال کیا اور واقعہ کربلا کے بعد محمد (ص) و آل محمد (ص) کے گھرانے اہلبیت (ع) اطہار کے خواتین و بچوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسیر بنا کر شام و کوفہ کے زندانوں اور بازاروں میں پھرا کر قید کر دیا گیا۔
ان اذیتوں سے درجنوں کمسن بچے شہید ہوئے جن میں سے ایک امام حسین (ع) کی چار سالہ کمسن بی بی سکینہ (س) کی شہادت بھی تیرہ صفر کے دن زندان شام میں ہوئی۔ حق کی راہ میں ہر سن و عمر کے افراد حتی کہ کمسن بچوں و بچیوں تک نے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ایک طرف میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے چھ ماہ کے شیر خوار فرزند علی اصغر (ع) نے یزیدی فوج کا تیر ہنستے ہوئے سہہ کر وقت کے امام اور امیر المومنین علیہ السلام، سید الشہداء نواسئہ رسول (ص) کی اطاعت کا حق ادا کیا تو دوسری طرف امام حسین (ع) کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین (ع) نے دمشق و کوفہ کے بازاروں و زندانوں اور درباروں میں حق کی خاطر قربانیاں دے کر آخر کار تیرہ صفر المظفر یا بعض روایات کے مطابق 10 یا 11 صفر المظفر 62 ہجری میں زندان دمشق کے خرابے میں جام شہادت نوش کیا۔
بی بی سکینہ بنت حسین (ع) امام علی (ع) کی پوتی اور امام حسین (ع) کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسین (ع) جو تاریخ میں سیدہ سکینہ (ع) کے نام سے معروف ہیں اور جن کا سن مبارک صرف 4 برس کا تھا، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد (ص) کو شہید کیا تو صرف انکی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد (ع) کی مخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو دس محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کوفہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللہ ان اہل بیت اطہار نے خلیفۃ المسلمین یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔
شاید یزید کو معلوم نہ تھا کہ خاندان رسالت اور عصمت و طہارت کی خواتین و بچے ہوں یا پھر ان کے گھر کی کنیز فضہ ہی کیوں نہ ہوں، یہ سب مفسر قرآن ہیں۔ رسول خدا (ص) اور علی (ع) کی تربیت کی وجہ سے اپنے خطبات کے ذریعے بازاروں و درباروں میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں اور ایسا ہوا بھی، علی (ع) کی بیٹی زینب سلام اللہ و بی بی ام کلثوم اور امام حسین (ع) کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین (ع) نے اپنے کردار و خطبات کے ذریعے یزید اور یزیدیت کو تاقیامت لعنت کا حقدار کر کے باطل کی علامت قرار دیا۔ اس کا ذکر حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی یوں کیا ہے کہ:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب
بی بی سکینہ بنت حسین (ع) نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ (ع) کی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے۔ اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے، اس خطبے کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا گناہ عظیم سرزد ہوا ہے۔ حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے:
حمد ہے خداوند کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ، عرش کے وزن سے لے کر زمین تک میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں، اس پر بھروسہ کرتی ہوں ، گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد (ص) اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ (ص) کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی وصیت کی لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اور آپ (ع) کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ (ع) کو شہید کر دیا جیسے کل انہی کے بیٹے (حسین(ع) کو شہید کیا گیا۔
اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا (ع) کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا کہ جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔
اے اللہ ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔
اے اللہ ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تو نے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔
اے کوفیو ! اے مکر و فریب اور دھوکہ دینے والو ! اللہ نے ہم اہل بیت (ع) کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں،
اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد (ص) کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا، تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا، تم نے ہمیں قتل کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے، تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے۔
تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بے شک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔
تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے، اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جہنم) ہے ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہو گئے تمہارے جگر غلیظ ہو گئے، اللہ نے تمہارے دلوں ، کان، آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔
اے کوفیو ! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا کہ جسکے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا ؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے۔ تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی، اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا۔
نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنے اس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی:
1- سیدہ سکینہ نے اپنے دادا امیر المومنین (ع) کی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ (ع) کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے، یہاں تک کہ وہ خداوند کے گھر میں شہید کر دئیے گئے۔ امیر المومنین (ع) وہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات و فضائل و مناقت سے آپ (ع) کو مخصوص کر دیا۔
2- سیدہ سکینہ (ع) نے اہل بیت (ع) کے مصائب کا ذکر فرمایا، ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں، ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد (ع) کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد (ع) نے مصائب و آلام برداشت کیے۔
3- اہل بیت (ع) پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم افراد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی نوید بھی سنائی لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے۔
اے طاہرین کی بیٹی ! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں، حتی کہ اس مجمع میں موجود بعض افراد نے یزید ملعون اور اس کی افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔ کربلا اور معرکہ حق و باطل آج بھی ہمارے ارد گرد جاری ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا اسکی نشاندہی کی ہے:
لب فرات پہ اب بھی جنگ جاری ہے
کوئی حسین کے لشکر میں آئے حر کی طرح
حیات الامام الحسین (ع) ج 3، ص 230
سیرت سیدہ زینب الکبری (ع)
تاریخ الحسین (ع)
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں محرم کے ساتھ ساتھ صفر کے مہینے میں بھی عزاداری و مجالس اور چہلم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ معرکہ حق و باطل کربلا کی ایک اہم اہمیت یہ ہے کہ اس واقعے میں بچوں، خواتین و بزرگوں حتی کہ اس وقت تک زندہ رہنے والے بعض اصحاب رسول خدا (ص) جیسے بزرگ صحابی حضرت حبیب ابن مظاہر تک نے شرکت کر کے حق و حسینت کے لیے قربانیاں دیں۔
یہ بات حدیث و تاریخ کی متفقہ کتب میں ملتی ہے کہ حضرت محمد (ص) نے اپنی زندگی ہی میں واقعہ کربلا کے پیش ہونے اور بنی امیہ و ملوکیت کے ڈکٹیٹر یزید لعین کی طرف سے امام حسین (ع) کی شہادت کا اشارہ کیا تھا۔ حضور اکرم (ص) نے اپنی زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ (س) کو خاک کربلا دے کر فرمایا تھا کہ سن 61 ہجری میں دس محرم کے دن یہ خاک سرخ رنگ میں تبدیل ہو گی اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کربلا میں میرا نواسہ سید الشہدا حضرت امام حسین (ع) تین دن کا بھوکا و پیاسا شہید کیا جائیگا۔
تاریخ کی کتب میں زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ کے حوالے سے درج ہے کہ عاشورا دس محرم سن 61 ہجری کو وہ مٹی سرخ رنگ خون میں تبدیل ہوئی تھی۔ اسی طرح حضور اکرم (ص) نے اپنے ایک مشہور صحابی حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری سے فرمایا تھا کہ:
اے جابر ابن عبد اللہ انصاری تم میرے نواسے امام حسین کے دور تک زندہ رہو گے اور شہادت حسین و شہدائے کربلا کے بعد کربلا میں امام حسین کی زیارت سے فیض یاب ہو گے۔ (تاریخ کے کتب کے مطابق شہادت امام حسین و واقعہ کربلا کے بعد حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری نے پہلی دفعہ امام حسین کی زیارت کر کے زیارت امام حسین کی سنت کا احیاء کیا) نہ صرف امام حسین کی زیارت بلکہ تم امام حسین کے نواسے اور میرے پانچویں جانشین امام محمد باقر ابن امام زین العابدین علیہ سلام کے زمانے تک زندہ رہو گے اور ان سے ملاقات ہو گی، انہیں میرا یعنی حضور اکرم (ص) کا سلام پہنچانا۔ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ ایک دن مدینہ کے محلہ بنی ہاشم اہلبیت اطہار علیہ السلام کے قریب حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری اپنی زندگی کے آخری ایام میں جا رہے تھے کہ انہیں حضور اکرم (ص) کا فرمان یاد آ گیا۔ حضرت جابر نے قریب ہی کھڑے بچوں سے پوچھا کہ تم میں سے محمد باقر ابن امام زین العابدین علیہ سلام کون ہے۔ اس پر محمد باقر ابن امام زین العابدین علیہ السلام جو اس وقت بچپن کے ایام میں تھے ، نے آ کر لبیک و سلام کہا۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری نے امام محمد باقر علیہ سلام کا رو رو کر بوسہ لے کر فرمان رسول خدا (ص) دہرایا۔ اس واقعے کے چند دن بعد ہی حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری کا انتقال ہو گیا۔ تاہم تاریخ کی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ رسول اللہ (ص) کی شہادت کے بعد حتی کہ یزید لعین کے دور میں بعض صحابہ و تابعین نے نہ صرف محمد و آل محمد علیہ السلام کی اتباع سے انکار کیا بلکہ اہلبیتؑ کو اتنے مصائب و مظالم کا شکار کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حالانکہ حدیث رسول (ص) جسے حدیث ثقلین بھی کہا جاتا ہے جو صحیح مسلم سمیت صحائے ستہ کی اکثر کتب میں ان الفاظ کی صورت میں موجود ہے کہ، میں (رسول ص) تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں کتاب اللہ اور اپنی عترت اہل بیت علیہ السلام چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر میرے بعد تم نے ان کی اطاعت و اتباع کیا تو تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر روز قیامت میرے ساتھ مل جائیں گےـ
اسکے علاوہ یہ مشہور حدیث نبوی کہ یہ میرے دو بیٹے حسن و حسین (ع) امام ہیں چاہے صلح کریں یا جنگ اور ان کے والد و میرے بھائی حضرت امام علی علیہ سلام ان دونوں سے افضل ہیں۔
حضور اکرم (ص) نے تو یہاں تک حق و باطل کو واضح کیا تھا کہ میرے صحابی حضرت عمار ابن یاسر باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہو جائیں گے اور حضرت عمار ابن یاسر کو بنی امیہ کے دہشت گرد ٹولے نے حضرت علی (ع) کے دور خلافت میں اس جرم پر بے دردی سے شہید کر دیا کہ حضرت عمار ابن یاسر بنی امیہ کی طرف سے کھلم کھلا امیر المومنین و خلیفتہ المسلمین حضرت علی (ع) کی شان میں کئی ہزار منبروں سے نماز جمعہ کے خطبات میں لعن طعن کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور بنی امیہ کی مسلط کردہ جنگوں امیر المومنین و خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیتے تھے۔ اتنی واضح حدیث رسول خدا (ص) کے باوجود بنی امیہ کے ڈکٹیٹر یزید لعین کے دور تک بعض تابعین نے اہل بیت علیہم السلام و امام حسین علیہ سلام کا ساتھ دینے کی بجائے اسلام و سنت رسول کو پامال کرنے والے یذید لعین کا ساتھ دیا حتی کہ یزید ملعوں نے تو حد کرتے ہوئے منبر رسول کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے بندر و کتوں تک کو منبر رسول پر شراب کے نشے میں دھت ہو کر یہاں تک ناپاک جسارت کی کہ نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ پیغام بلکہ یہ بنی ہاشم و محمد و آل محمد نے حکومت حاصل کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا ہے۔ نقل کفر کفر نہ باشد نعوذ باللہ یہ تھا خلافت کو ملوکیت میں بدلنے والے یزید لعین و بنی امیہ کی اسلام دشمنی۔ یہی وجہ ہے کہ سید الشہدا (ع) نے قیام کا فیصلہ کرتے ہوئے امت کو یزید و بنی امیہ کے خلاف میدان عمل میں آنے کے لیے فرمایا تھا کہ:
جب یزید جیسا شخص امت مسلمہ کا خلیفہ ہو تو اسلام پر فاتحہ پڑھنا چاہیے۔
اور میدان کربلا میں یزیدی فوج کے تیس ہزار افراد جن میں بعض اصحاب و تابعین تک شامل تھے، پر ایک بار پھر اتمام حجت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
اے آل ابو سفیان کے پیروکارو نہ تمارے پاس دین ہے اور نہ تم آخرت پر ایمان رکھتے ہو کم از کم دنیا میں تو مردانگی کا مظاہرہ کرو۔
امام حسین (ع) کا کربلا میں یہ فرمان تاقیامت مینارہ نور ہے کہ جو بھی محمد و آل محمد اور امام حسین (ع) کے مقابلے میں یزید لعین کا ساتھ دے گا یا پیروی کرے گا، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب
علامہ اقبال ہی نے محرم کی دس تاریخ عاشورا اور ذی الحجہ کی دس تاریخ کی قربانی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
ہے نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
اسی طرح محرم کے دوران جلوسوں اور باطل و یزیدیوں کے خلاف برسر پیکار رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؑ
کہ فکر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک سجدہ شبیریؑ ایک ضرب ید الہی ؑ
یاد رہے کہ علامہ اقبال نے ضرب ید الہی کی تشبیہ، شیر خدا حضرت امام علی (ع) جسے رسول اللہ (ص) نے ید اللہ کا خطاب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ جنگ خندق میں علی (ع) کی ایک ضرب (جسں سے عمرو ابن عبد ود کو واصل جہنم کیا تھا) ثقلین (دونوں جہانوں) کی عبادت سے بہتر ہے۔
اور یہ تاریخی حقیقت آج بھی پوری دنیا و عالم اسلام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر حق و فرامین رسول خدا (ص) کو فراموش کیا جائے تو اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔
کربلا ميں بچوں کا کردار:
جب کہ کربلا کے میدان جنگ میں چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر (ع) سمیت ایسے درجنوں بچوں نے حق و امام حسین علیہ السلام پر جان نچھاور کر دی یا پھر واقعہ کربلا کے بعد یزیدی فوج کی طرف سے مخدارات عصمت و طہارت سمیت قید و بند اور شام و کوفہ کے زندانوں میں مصائب و آلام کا اس طرح سے مقابلہ کیا کہ کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک بغیر کجاوہ کے اونٹوں پر لے جاتے ہوئے مظالم سے شہید ہوتے گئے، لیکن یزیدیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکا کرتے گئے۔
حکیم الامت و کربلا شناس علامہ اقبال کی اس پیشن گوئی کی تفسیر ہے اور ہم بحثیت پاکستانی اب تک علامہ اقبال کو نہ سمجھ سکے:
دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
کربلا میں تلوار پر خون کی فتح رقم کر کے 61 ہجری کی طرح اکییسویں صدی میں بھی اس شعر کی عملی تفسیر کر دی کہ:
قتل حسین اصل میں مرگ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
میدان کربلا اور کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک لے جاتے ہوئے یزیدی فوج کے مظالم سے شہید ہونے والوں میں کئی بچوں میں سے چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر (ع) سمیت شریکتہ الحسین حضرت بی بی زینب علیہ السلام کے دو بیٹے عون و محمد کے علاوہ حضرت جعفر طیار کے نواسے اور سفیر حسین حضرت مسلم ابن عقیل کے دو کمسن فرزندان کے علاوہ نواسہ رسول (ص) امام حسن ابن علی علیہ السلام کے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام کی لازوال قربانی شامل ہے۔ اسی طرح امام حسین (ع) کی چار سالہ بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین کا یزیدی فوج کے مظالم برداشت کرتے ہوئے زندان شام دمشق میں شہادت بچوں کی قربانیوں کا درخشان باب ہے۔
میدان کربلا ميں بچوں کا کردار واضح تر کرنے کے لیے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام کا یہ واقعہ ہی کافی ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام سے پوچھا کہ میرے بھتیجے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام تم حق کی راہ میں موت کو کیسے پاتے ہو تو تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موت کو شہد سے زیادہ شیرین پاتا ہوں۔
اسی طرح امام حسین (ع) کے اٹھارہ سالہ کڑیل جوان نے اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
جب ہم حق پر ہیں تو اس کی پروا نہیں کہ موت ہم پر پڑے یا ہم موت پر۔
یہ گھرانہ آل محمد کی تربیت ہی کا اثر تھا اور امام حسین علیہ السلام فرماتے تھے کہ میں ظالموں کے ساتھ رہنے اور ان کی بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ ماننے کی بجائے شہادت کو ترجیح دیتا ہوں، کیونکہ ذلت ہم اہلبیت علیہ السلام سے بہت دور ہے۔
بقول شاعر
عزت کی موت بہتر ہے ذلت کی زندگی سے
یہ سبق ہمیں ملا ہے حسین ابن علی سے
شریکۃ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے شام دمشق کے یزیدی درباروں اور بازاروں میں یادگار خطبے دیئے۔
شام کے زندان کو اپنے مظلوم بھائی کے عزا خانے میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ستمکاروں کے محل لرزنے لگے۔
ابن زیاد ملعون اس باطل خیال میں تھا کہ ایک خاتون اس قدر مصائب اور رنج و آلام دیکھ کر ایک جابر ستمگر کے سامنے جواب دینے کی سکت و جرأت نہیں رکھتی، کہنے لگا:
اُس خدا کا شکر گزار ہوں کہ جس نے آپ لوگوں کو رسوا کیا، تمہارے مردوں کو مار ڈالا اور تمہاری باتوں کو جھوٹا ثابت کیا۔
علی (ع) کی بیٹی نے کمال عظمت کے ساتھ اس سرکش طاغوت کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا:
یابن مرجانہ یاد رہے کہ ابن زیاد لعین کی ماں مرجانہ اس وقت عرب کی زانی خواتین میں مشہور تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ ابن زیاد حرام زادہ ہے، لیکن اس کے باوجود یزید ملعون نے ابن زیاد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا کر گورنر بنایا تھا، تعریفیں اُس خدا کیلیے ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے پیغمبر کے ساتھ منسوب کر کے عزت بخشی، آلودگی و ناپاکی سے ہم کو دور رکھا اور تجھ جیسے ویران گر شخص کو رسوا کر دیا۔
دربار یزید میں، حضرت زینب (س) کا تاریخی خطبہ:
زینب (س) اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی طرح ظالموں کے سامنے آواز بلند کر کے صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں ، بھرے دربار میں خداوند کی حمد و ستائش کرتی ہیں اور رسول خدا (ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آيات سے اپنے خطبہ کا اس طرح سے آغاز کرتی ہیں :
یزید تو یہ سمجھتا تھا کہ تو نے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کر دیا ہے، تیرے گماشتوں نے ہمیں شہروں شہروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے گمان میں ہم رسوا اور تو با عزت ہو گیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہو گیا ہے اسی لیے ان باتوں پر تکبر کر رہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔
تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی اصلیت کو آشکار کر سکے کیا تو نے قول خدا کو فراموش کر دیا ہے کہ:
کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے، یہ ان کے لیے بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لیے مہلت دی ہے تا کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہو گا۔
کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں با عزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول خدا (ص) کی بیٹیوں کو تو اسیر کر کے سر برہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جائے ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کر کے شہر بہ شہر پھرائے ؟ نہ انہیں کوئی پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کا خیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے لوگ ادھر ا دھر سے انہیں دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ، لیکن جسکے دل میں ہمارے لیے کینہ بھرا ہوا ہے، اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟
تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول (ص) سید الشہدا امام حسین علیہ سلام کے دندان مبارک پر چھڑی لگا کر بے حرمتی کرتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تو نے آل رسول (ص) اور خاندان عبد المطلب بنی ہاشم کا خون بہا کر اپنے آپ کو ابوجہل و ابوسفیان کی اولاد بنی امیہ ثابت کیا ہے۔
خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پر ستم کیا ہے، ان کے دلوں کو ہمارے کینے سے خالی کر دے ، خدا کی قسم تو اپنے آپے سے باہر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھا لیا ہے۔
جس دن رسول خدا (ص) اور انکے اہل بیت (ع) رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا ہو گا۔ یہ دن وہ دن ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا، وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انہیں جمع کرے گا۔
خدا خود فرماتا ہے :
راہ خدا میں مر جانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خود خدا ہو گا اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس دن معلوم ہو گا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے۔
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تو نے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کر کے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہو جائے گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا تھا، وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس دن تمہارے کیے کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہو گا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے، تو اور تیرے پیروگار خدا کے میزان عدل کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
تجھے اس دن معلوم ہو گا کہ بہترین توشہ جو تمہارے اجداد نے تیرے لیے جمع کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تو نے رسول خدا (ص) کے بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جو چاہو تم کرو ، جس دھوکہ دہی سے کام لینا چاہو لو ، اپنی ہر دشمنی کا اظہار کر کے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گيا ہے، وہ ہرگز نہ چھوٹے گا ، ہر تعریف خدا کے لیے ہے، جس نے جوانان بہشت کے سرداروں حسن و حسین علیہ سلام کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لیے واجب قرار دیا۔
میدان کربلا میں بچوں بزرگوں اور خواتین کا نمایاں کردار ہمیں آج کی کربلا یا دور حاضر میں اپنا کردار ادا کرنے کا سبق دیتا ہے بقول شاعر:
لب فرات پہ اب بھی جنگ جاری ہے
کوئی حسین کے لشکر میں آئے حر کی طرح
یزید کا دربار اور حضرت سکینہ بنت الحسین (س) کا خواب:
شہر شام میں پیش آنے والے عجیب اور غریب واقعات میں سے ایک شہزادی حضرت سکینہ کا وہ خواب ہے کہ جو آپ نے یزید کے دربار میں بیان فرمایا جس کو علامہ مجلسی، ابن نما حلی، سیّد ابن طاووس ، محدث بحرانی اور شیخ عباس قمّی جیسے جیّد علماء نے اپنی اپنی کتب میں نقل فرمایا ہے۔
حضرت سکینہ نے دربار شام میں یزید سے فرمایا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے اگر تو سنے تو میں بیان کروں۔ یزید سننے کے لیے تیار ہو گیا۔ آپ نے فرمایا : کل رات جیسے ہی میں نماز اور دعا سے فارغ ہوئی تو اچانک مجھے بابا کی یاد ستانے لگی، میں بہت روئی اور روتے روتے میری آنکھ لگ گئی ، میں نے خواب میں دیکھا: گویا آسمان کے تمام دروازے میرے لیے کھول دئیے گئے ہیں اور میں ایک ایسے نور کے بقعہ میں ہوں جسکا نور آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے۔
اسکے بعد میں نے اپنے والد گرامی کو جنت کے ایک باغ میں پایا اور وہاں ایک خادم کو دیکھا جو اس باغ میں موجود تھا، جیسے ہی میں نے باغ میں قدم رکھا تو ایک عالی شان قصر میرے سامنے تھا، جیسے ہی میں نے داخل ہونے کا قصد کیا، میرے ساتھ پانچ افراد اور داخل ہونے لگے۔ میں نے خادم سے پوچھا یہ محل کس کا ہے ؟ خادم نے جواب دیا: یہ تمہارے باباکا محل ہے جو اللہ نے انہیں ان کے عظیم اور پائیدار صبر کے بدلے میں عطا فرمایا ہے۔
میں نے اس سے دوسرا سوال کیا: یہ پانچ با جلالت و با عظمت افراد کون ہیں کہ جو میرے ہمراہ وارد قصر ہونا چاہتے ہیں ؟ اس نے ہر ایک کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتانا شروع کیا کہ یہ پہلے ابو البشر حضرت آدم ہیں ،یہ حضرت نوح ہیں ، یہ تیسرے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور یہ چوتھے حضرت موسیٰ کلیم اللہ ہیں، میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں کہ جو اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور آثار حزن و ملال ان کے چہرے سے ظاہر ہے اور مسلسل جنکی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہہ رہے ہیں ؟ اس نے جواب دیا: آقا زادی! ان بزرگ کو نہیں پہچانتی ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا : یہ تمہارے جد رسول خدا حضرت محمّد مصطفی (ص) ہیں کہ جو اپنے نواسے امام حسین (ع) سے ملاقات کے لیے آئے ہیں۔
سکینہ کہتی ہیں کہ میں دوڑتی ہوئی اپنے جد کے قریب گئی اور ان کے سامنے یہ بین کرنے لگی:
یا جدّاہ قتلت واللہ رجالنا و سفکت واللہ دماءنا وھتکت حریمنا و حملنا علی الاقطاب من غیر قطاع و نصاب الی یزید،
اے نانا خدا کی قسم ہمارے مردوں کو مار ڈالا گیا ، ہمارے خون کو بہایا گیا ، ہماری بے حرمتی کی گئی اور ہم کو برہنہ پشت اونٹوں پر سوار کر کے شام تک لایا گیا۔
یہ سن کر پیغمبر خدا نے مجھے اپنی آغوش میں لیا اور آدم و نوح و ابراہیم اور موسیٰ کی طرف رخ کر کے فرمایا:
اما ترون ما صنعت امتّی بولدی من بعدی،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میری امّت نے میرے بعد میرے نور نظر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟
خادم نے کہا:
سکینہ بی بی خاموش ہو جاؤ تم نے اپنے نانا کو بہت غم زدہ اور محزون کر دیا ہے۔
اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس قصر کے اندر لے گیا، جہاں میں نے ان پانچ عورتوں کو دیکھا جنکا وجود نور خدا سے منّور تھا، ان کے درمیان ایک معظمہ بی بی کو دیکھا کہ جو ہر اعتبار سے ممتاز تھیں بال پریشان، سیاہ لباس میں ملبوس اور ایک خون بھرا کرتا ہاتھوں میں لیے ہوئے تھیں، جب وہ اٹھتی تھیں تو تمام عورتیں ان کے احترام میں کھڑی ہو جاتی تھیں۔ میں نے خادم سے سوال کیا یہ کون ہیں ؟ خادم نے مجھ سے ان سب کا تعارف کرایا: یہ خاتون مریم ہیں ، یہ خدیجہ ، یہ ہاجرہ اور یہ سارہ ہیں اور یہ خاتون کہ جن کے ہاتھوں میں خون بھرا کرتا ہے، یہ جنّت کی تمام عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ زہرا (س) ہیں۔ یہ سن کر میں اپنی دادی کے پاس گئی اور کہا:
یا جدّتا قتل و اللہ ابی و ایتمت علی صغر سنّی،
دادی جان ! خدا کی قسم، ظالموں نے میرے بابا کو قتل کر کے مجھے اس کم سنی میں ہی یتیم کر دیا ہے۔
میری دادی نے میرے یہ بین سن کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور آہ و بکا کرنے لگیں، اب کیا تھا وہ عورتیں بھی رونے لگیں اور بصد احترام عرض کیا:
اے سیّدہ عالمیان ! صبر کرو !خداوند تمہارے اور یزید کے درمیان فیصلہ کرے گا۔
اسکے بعد صدّیقہ طاہرہ (س) نے مجھ سے فرمایا:
کفّی صوتک یا سکینہ،
میری لاڈلی سکینہ اب نہ رونا،
فقد قطعت نیّاط قلبی ھذا قمیص ابیک الحسین،
تیری صدائے گریہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے اور دیکھ یہ تیرے بابا حسین کا خون بھرا کرتا ہے،
لا یفارقنی حتّی القی اللہ بہ،
اسے اس وقت تک ہاتھوں سے نہ چھوڑوں گی، جب تک خدائے واحد سے ملاقات نہ کر لوں۔