2024 October 4
امیر المؤمنین علی (ع) کے خلاف عائشہ اور معاویہ کی ایجاد کردہ داخلی جنگوں میں صحابہ کی اکثریت کس کے ساتھ تھی ؟
مندرجات: ١٥٣٦ تاریخ اشاعت: ٢٥ October ٢٠٢٢ - ١٠:٠٤ مشاہدات: 18486
سوال و جواب » امام علی (ع)
امیر المؤمنین علی (ع) کے خلاف عائشہ اور معاویہ کی ایجاد کردہ داخلی جنگوں میں صحابہ کی اکثریت کس کے ساتھ تھی ؟

وجہ نامگذاری:  

امام علی (ع) کے دور حکومت کی جنگیں۔

امیر المؤمنین علی(ع) کی صلح کیلئے کوششیں:

جنگ کی علت کے بارے ابن تیمیہ اور ذھبی کا غیر معقول توجیہ ۔

جنگ جمل کے وجود میں آنے کے علل و اسباب:

جنگ جمل اور جنگ صفین میں قتل شدہ افراد کی تعداد:

اہل سنت کی اجتہاد سے مراد:

امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ جنگ، اجتہاد یا عداوت ؟!

رسول خدا کا ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم:

جنگ جمل اہل سنت کی نظر میں:

جنگ جمل کے اخراجات کس کے ذمے تھے ؟

عائشہ کے اونٹ کی ٹانگوں کو کاٹنا:

جنگ جمل اصلی قصور وار کون، مولا علی (ع) یا عائشہ ؟

آخر میں اہل سنت اور وہابیوں سے چند سوالات:

 

 

توضیح سوال:

دین اسلام میں مسلمانوں کے درمیان ہونے والی پہلی داخلی جنگ، جنگ جمل کہ جو جناب عائشہ بنت ابوبکر نے بعض صحابہ کے ساتھ مل کر خلیفۃ المسلمین کے خلاف شروع کی تھی، برائے مہربانی اس تلخ جنگ کو تفصیل سے بیان کریں۔

جواب:

جنگ جَمَل امام علی (ع) کے دور خلافت کی پہلی جنگ ہے کہ جو جناب عا‏ئشہ، طلحہ اور زبیر کی سرکردگی میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے امام علی (ع) کے خلاف لڑی۔ یہ جنگ سن 36 ہجری قمری میں بصرہ کے قریب واقع ہوئی۔ عائشہ اور ان کے ساتھیوں نے اس جنگ کو خلیفہ سوم عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے جھوٹے بہانے سے شروع کیا تھا۔ عائشہ اس جنگ میں خود شریک ہوئی اور ایک سرخ اونٹ پر سوار تھی اور اس جنگ کو جمل نام رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ عربی میں نر اونٹ کو جمل کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ جو مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ تھی، امام علی (ع) کی فتح اور طلحہ و زبیر کی ہلاکت پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ میں عائشہ گرفتار ہوئی اور جنگ کے آخر میں امیر المؤمنین (ع) نے اسے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کے ذریعے مدینہ پہنچا دیا۔

چونکہ اس جنگ کے سرکردگان نے امام علی (ع) کی بعنوان خلیفہ بیعت کی تھی، لیکن بعد میں جب امیر المؤمنین علی (ع) سے اپنے مطلوبہ اہداف ملتے ہوئے نظر نہ آئے تو، فوری بیعت توڑ کر آپ (ع) کے ساتھ جنگ شروع کی۔ اسی وجہ سے یہ گروہ ناکثین (عہد و پیمان توڑنے والے) کے نام سے مشہور ہوا اور اس جنگ کو اسی سبب سے جنگ ناکثین بھی کہتے ہیں۔

وجہ نامگذاری:   جَمَل عربی میں " نر اونٹ " کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس جنگ میں عائشہ " عسکر " نامی ایک " نر اونٹ " پر سوار تھی۔ اسلیے اس جنگ کو " جنگ جمل " کہا جاتا ہے۔

تاریخ طبری، ج 4، ص 452، 456 و 507

امام علی (ع) کے دور حکومت کی جنگیں۔

جنگ جمل:

عائشہ، طلحہ و زبیر کا لشکر،15 جمادی الثانی سن 36 ہجری قمری،

جنگ صفین:

معاویہ کا لشکر، صفر سن 37 ہجری قمری

جنگ نہروان:

خوارج کا لشکر، صفر سن 38 ہجری قمری

امیر المؤمنین علی(ع) کی صلح کیلئے کوششیں:

جب امام علی (ع) طَفّ کے راستے بصرہ کی طرف روانہ ہوئے اور زاویہ نامی جگہ پر چند روز قیام کے بعد اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے، بصرہ میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف سے طلحہ، زبیر اور عائشہ بھی فرضہ (بندر) کے راستے چند دن پہلے سے ہی بصرہ میں پہنچ کر اس شہر میں جنگی حالات پیدا کر چکے تھے۔ یوں دونوں گروہ بصرہ میں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے۔

تاریخ خلیفۃ ‌بن خیاط‌، ج 1، ص‌ 111 /تاریخ طبری‌، ج‌، ص‌ 500 /مروج الذھب‌، ج 3، ص‌ 104

عائشہ بھی اپنی اقامتگاہ سے مسجد حُدّان،‌ جو قبیلہ ازد کے محلے میں میدان جنگ کے نزدیک تھی، میں منتقل ہو گئی۔

تاریخ طبری‌، ج‌ 4، ص 503

امام علی‌ (ع) جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، اسی لیے بصرہ میں داخل ہونے کے تین دن تک مسلسل اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح مخالفین کو جنگ سے باز رکھیں اور انہیں اپنے ساتھ ملحق ہونے کی دعوت دیتے رہے۔

الامامۃ و السیاسۃ، دینوری‌، ص‌ 147/تاریخ طبری‌، ج‌ 4، ص‌ 501 مروج الذھب، مسعودی‌، ج‌ 3، ص‌ 106/الجمل، مفید، ج 1، ص‌ 334

جنگ کے دن بھی امام علی (ع) صبح سے ظہر تک اصحاب جمل کو واپس آنے کی دعوت دیتے رہے۔

الامامۃ و السیاسۃ، دینوری‌، ص‌ 147

امام امیر المؤمنین علی ‌(ع) نے طلحہ اور زبیر کے نام ایک خط لکھا جس میں اپنی خلافت کی مشروعیت، لوگوں کی آزاد بیعت، عثمان کے قتل میں اپنی بے گناہی، عثمان کے انتقام لینے میں طلحہ اور زبیر کا حق بہ جانب نہ ہونے اور طلحہ اور زبیر کا قرآن کی سراسر مخالفت کرتے ہوئے، زوجہ پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے گھر سے باہر لانے جیسے مسائل کی طرف انہیں آگاہ کیا۔

امام ‌(ع) نے عائشہ کو بھی ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ قرآن کے حکم کی واضح مخالفت کرتے ہوئے، اپنے گھر سے باہر نکلی ہے اور لوگوں کی اصلاح اور عثمان کے انتقام کے بہانے سے لشکر کشی کر کے خود کو ایک عظیم گناہ میں گرفتار کیا ہے۔

طلحہ اور زبیر نے جواب میں اپنی نافرمانی پر اصرار کیا جبکہ عائشہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

دوسری طرف عبد اللہ ابن زبیر لوگوں کو امام ‌(ع) کے خلاف اکسانے میں مصروف تھا، جن کا امام حسن (ع) نے جواب دیا۔

الامامۃ و السیاسۃ، ابن قتیبہ، ج‌ 1، ص‌ 70/الفتوح، ابن اعثم کوفی‌، ج‌ 2، ص‌ 465

آخر میں امام علی (ع) نے صَعْصَعہ ابن صوحان پھر عبد اللہ ابن عباس کو، طلحہ و زبیر اور عائشہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا لیکن ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ اس درمیان عائشہ سب سے زیادہ سر سخت نکلی۔

الجمل، مفید، ج 1، ص‌ 313/الفتوح، ابن اعثم کوفی‌، ج‌ 2، ص‌ 467

امیر المؤمنین علی (ع) کا براہ راست مخالفین سے بات چیت کرنا:

امام علی‌(ع) نے طلحہ اور زبیر سے خود گفتگو کی اور زبیر کو پیغمبر اکرم (ص) کی ایک بھولی ہوئی حدیث یاد دلائی۔ جس پر زبیر نے اقرار کیا کہ اگر یہ حدیث اسے یاد رہتی تو ہرگز جنگ کیلئے نہیں آتا اور امام کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی قسم کھائی۔

اس وقت زبیر نے عائشہ سے کہا کہ وہ جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر اسکے بیٹے عبد اللّہ ابن زبیر نے کہا کہ یہ تم ہی تھے کہ جس نے ان دو لشکروں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے اور اب یہ ایک دوسرے پر تلوایں نکال رہے ہیں اور اب تم اس صورتحال میں چاہتے ہو کہ ان کو چھوڑ کر چلے جاؤ ؟ تم علی ابن ابی طالب کے دلیر اور شجاع جوانوں کے ہاتھوں میں موجود پرچموں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے ہو۔

طبری کی نقل کے مطابق زبیر نے اپنے بیٹے عبد اللّہ کے اصرار پر قسم توڑنے کے کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کیا اور پھر دوبارہ جنگ کیلئے تیار ہو گیا۔

تاریخ طبری  ج 3، ص 513

ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ الإسلام میں لکھا ہے کہ:

کان مع علی یوم وقعة الجمل ثمانمائة من الأنصار، وأربعمائة ممن شهدوا بیعة الرضوان ،انصار میں سے 800 اور بیعت رضوان کرنے والوں میں سے 400 صحابہ جنگ جمل والے دن علی کے ساتھ تھے۔   شهد مع علی یوم الجمل مائة وثلاثون بدریاً ،

رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سے 130 افراد کہ جہنوں نے جنگ بدر (بدری) شرکت کی تھی، وہ جنگ جمل میں علی (ع) کے ہمراہ تھے۔

تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام، اسم المؤلف: شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی، دار النشر: دار الکتاب العربی - لبنان/ بیروت ، ج 3، ص 484، باب 5 خلافة علی رضی الله عنه

تاریخ خلیفة بن خیاط، اسم المؤلف: خلیفة بن خیاط اللیثی العصفری أبو عمر، دار النشر: دار القلم, مؤسسة الرسالة - دمشق, بیروت - تحقیق: د. أکرم ضیاء العمری، ج 1، ص 184، باب معرکة الجمل

الفتوح، نویسنده: أحمد بن أعثم الکوفی، تحقیق: علی شیری (ماجستر فی التاریخ الإسلامی)، ج 2، ص 544، باب ذکر خروج معاویة من الشام

اسی طرح کتاب مروج الذهب میں ذکر ہوا ہے کہ:

وکان جمیع من شهد معه من الصحابة ألفینا وثمانمائة ،

جنگ صفین میں علی (ع) کی رکاب میں 2800 صحابہ نے جنگ لڑی۔

مروج الذهب، اسم المؤلف: أبو الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی (المتوفی: 346 هـ)، ج 1، ص 314، باب ذکر نسبه ولمع من أخباره وسیره نسبه وأخوته وأخواته

علی (ع) کے مدمقابل کہ جو معاویہ (لع) کے ساتھ تھے، وہ لوگ تھے کہ جنکا کوئی نہ کوئی رشتے دار جنگ بدر، جنگ احد، جنگ احزاب اور دوسری جنگوں میں قتل ہوا تھا، وہ امیر المؤمنین علی سے انتقام لینے کی خاطر معاویہ کے لشکر میں آئے تھے!!!

جنگ کی علت کے بارے ابن تیمیہ اور ذھبی کا غیر معقول توجیہ ۔

ابن تیمیہ ناصبی نے واضح طور پر کہا ہے کہ:

وعلی رضی الله عنه لم یکن قتاله یوم الجمل وصفین بأمر من النبی وإنما کان رأیاه راه جنگ جمل اور صفین میں علی کا جنگ اور شرکت کرنا، یہ رسول خدا کے حکم کے مطابق نہیں تھا اور یہ جنگ اس (علی) نے اپنی مرضی سے ہی لڑی تھی۔

منهاج السنة النبویة، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی أبو العباس، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولی، تحقیق: د. محمد رشاد سالم، ج 4، ص 496

ابن تیمیہ جھوٹے ناصبی کی اس بالکل غلط بات کے مقابلے میں علمائے اہل سنت کی کتب میں بہت سی صحیح و معتبر روایات موجود ہیں کہ جن میں خود رسول خدا (ص) نے علی (ع) کو ناکثین، مارقین اور قاسطین سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ذہبی نے واضح طور پر اپنے علم و عقل کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

وأهل العلم یعلمون أنهم لم یقصدوا حرب علی ولا علی قصد حربهم لکن وقع القتال بغتة ،

اور اہل علم (ابن تیمیہ اور اسکے پیروکار) جانتے ہیں کہ طلحہ و زبیر کا علی سے جنگ کرنے کا ارادہ نہیں تھا اور علی بھی ان سے جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن ایک دم سے اچانک دو مسلمانوں گروہ کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔

ایک عام انسان کو تو چھوڑیں، ایک وہابی خر دماغ بھی ذہبی کی اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے !!! اس لیے کہ اے کاش ذہبی ناصبی یہ بھی بیان کرتا کہ جب کسی کا بھی جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، تو پھر عائشہ، طلحہ اور زبیر 30 ہزار کے لشکر کو مدینہ سے بصرہ کیوں لے کر گئے، اور انھوں نے علی کو مجبور کیا کہ وہ بھی 20 ہزار کے لشکر کو مدینہ سے لے کر بصرہ جائیں۔

شاید عائشہ طلحہ و زبیر کے ساتھ شہر بصرہ میں پکنک منانے گئی تھی، اور جب انھوں نے دیکھا کہ بصرہ کا موسم بہت خوشگوار ہے، تو انھوں نے کہا چلو خلیفۃ المسلمین علی کو بھی کہتے ہیں کہ آپ بھی بصرہ کی سیر کرنے ہمارے پاس آ جائیں۔

خدا کے لیے اے ذہبی، اے اہل سنت اور وہابی علماء ، آج 1400 سال پہلے کا دور نہیں ہے، کیوں تم لوگ دوسرے انسانوں کی عقل و شعور کا احترام نہیں کرتے اور اس علم و ترقی کے دور میں بھی سب کو اپنی طرح کا ہی سمجھتے ہو ؟ !!! اس لیے کہ جب کسی کا جنگ کرنے کا دل ہی نہیں تھا، تو پھر دونوں طرف سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان کیسے قتل اور شہید ہو گئے ؟ ہاں شاید ہو سکتا ہے وہاں پر بھی ایک وہابی داعشی نے خودکش جیکٹ پہن کر بم دھماکہ کیا ہو کہ جسکے نتیجے میں ہزاروں مسلمان قتل ہو گئے تھے۔

جنگ جمل کے وجود میں آنے کے علل و اسباب:

کتاب تاریخ طبری کی جلد سوم صفحہ 9 پر زہری سے روایت بیان ہوئی ہے کہ:

طلحة والزبیر إلی مکة بعد قتل عثمان رضی الله عنه بأربعة أشهر و ابن عامر بها یجر الدنیا وقدم یعلی بن أمیة معه بمال کثیر وزیادة علی أربعمائة بعیر، فاجتمعوا فی بیت عائشة رضی الله عنها فأرادوا الرای فقالوا نسیر إلی علی فنقاتله»

طلحہ و زبیر، عثمان کے قتل ہونے کے چار ماہ بعد مکے گئے، ابن عامر وہاں (مکہ) پر تجارت کرتا تھا اور یعلی ابن امیہ نے بھی 400 اونٹ کے ساتھ بہت سا مال اموال، ان (طلحہ و زبیر و عائشہ) کو دیا تھا۔ وہ سارے مکے میں عائشہ کے گھر اکٹھے ہوئے اور سب نے کہا: ہم سب علی سے جنگ کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔

اے ذہبی تم سن 748 ہجری میں فوت ہوئے ہو ، لیکن طبری سن 310 ہجری میں فوت ہوا ہے، یعنی اے ذہبی تمہارے اور طبری کے درمیان تقریبا 500 سال کا فاصلہ ہے، اور تمہاری علمی شان و مقام سے بہت ہی بعید ہے کہ تم نے کتاب تاریخ طبری اور ابن اثیر کی کتاب الکامل کو نہ دیکھا ہو !!!

اس جنگی ٹولے میں سے بعض نے کہا:

فقال بعضهم لیس لکم طاقة بأهل المدینة ، ولکنا نسیر حتی ندخل البصرة والکوفة ولطلحة بالکوفة شیعة وهوی وللزبیر بالبصرة هوی ومعونة فاجتمع رأیهم علی أن یسیروا إلی البصرة وإلی الکوفة فأعطاهم عبد الله بن عامر مالا کثیرا وإبلا فخرجوا فی سبعمائة رجل من أهل المدینة ومکة ولحقهم الناس حتی کانوا ثلاثة آلاف رجل ،

مدینہ کے لوگ علی کے ساتھ ہیں اور ہم میں مدینہ کے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت اور ہمت نہیں ہے۔ ہمیں بصرے اور کوفے کی طرف جانا چاہیے۔

کوفہ میں طلحہ کے طرفدار اور چاہنے والے ہیں اور بصرہ میں زبیر کے طرفدار اور مدد کرنے والے ہیں۔ ان سب نے اتفاق کیا کہ بصرہ اور کوفہ کی طرف جایا جائے۔

عبد الله ابن عامر نے بہت زیادہ مال اور بہت سے اونٹ ان (عائشہ، طلحہ، زبیر اور انکے پیروکار) کو دئیے۔ مکہ و مدینہ سے 700 افراد اور ادھر ادھر سے بہت سے افراد انکے ساتھ مل گئے، یہاں تک کہ انکی تعداد 3000 ہزار ہو گئی۔

تاریخ الطبری، اسم المؤلف: لأبی جعفر محمد بن جریر الطبری، دار النشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، ج 3، ص 9، باب خروج علی إلی الربذة یرید البصرة

امیر المؤمنین علی (ع) اسلام کے دشمن معاویہ منافق و غاصب سے جنگ کرنے کے لیے شام کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں خبر ملی کہ عائشہ، طلحہ، زبیر اور انکا لشکر تاریخ اسلام میں پہلا داخلی فتنہ برپا کرنے کے لیے بصرہ گیا ہے اور انھوں نے وہاں پہنچ کر عام لوگوں اور بعض صحابہ کو بے گناہ قتل کر دیا ہے اور مسلمانوں کے اموال (بیت المال) کو زبردستی لوٹ لیا ہے۔ لہذا امیر المؤمنین علی (ع) مجبور ہو گئے کہ اس منافق فتنے گر گروہ سے مقابلہ کرنے کے لیے، شام جا کر معاویہ سے جنگ کرنے کی بجائے آدھے راستے سے ہی بصرہ کی طرف چلے جائیں۔

نوٹ:

ہماری جانیں قربان ہوں اسلام کی خاطر اس مظلوم و مجبور ہونے والے خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین علی (ع) کے لیے کہ جسکو خلیفہ بننے کے فورا بعد اپنے اور بیگانوں نے کس طرح سے ستانا اور تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔

اسی طرح ابن اثیر نے کتاب الکامل میں نقل کیا ہے کہ احنف ابن قیس نے عثمان کے قتل ہونے کے بعد امیر المؤمنین علی (ع) کی بیعت کی تھی۔

احنف کہتا ہے کہ: جب میں مکہ گیا تو میں نے عائشہ، طلحہ اور زبیر سے الگ الگ ملاقات کی اور میں نے ان سے کہا کہ:

إن الرجل مقتول فمن تأمروننی أبایع ، «فکلهم قال بایع علیا» «فقلت أترضونه لی» «فقالوا نعم» «ورجعت إلی المدینة رأیت عثمان قد قتل فبایعت علیا»

«إذ أتانی آت فقال هذه عائشة وطلحة والزبیر بالخریبة یدعونک» «فقلت ما جاء بهم» «قال یستنصرونک علی قتال علی فی دم عثمان» «فقلت إن خذلانی أم المؤمنین وحواری رسول الله لشدید وإن قتال ابن عم رسول الله وقد أمرونی ببیعته أشد» «قال فقلت یا أم المؤمنین ویا زبیر ویا طلحة نشدتکم الله أقلت لکم من تأمروننی أبایع فقلتم بایع علیا» «فقالوا نعم ولکنه بدل وغیر» «فقلت والله لا أقاتلکم ومعکم أم المؤمنین» «ولا أقاتل ابن عم رسول الله»

عثمان قتل ہو گیا ہے، آپ لوگ مجھے کیا حکم دیتے ہو کہ میں کس کی بیعت کروں ؟ تینوں نے کہا: جاؤ جا کر علی کی بیعت کرو۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ کیا تم سب راضی ہو کہ میں علی کی بیعت کروں ؟ انھوں نے ہاں۔

احنف کہتا ہے کہ میں قتل عثمان کے بعد مدینے واپس آیا اور علی کی بیعت کر لی۔ ایک بندہ میرے پاس آیا اور کہا: عائشہ، طلحہ اور زبیر خریبہ کے گھر ہیں اور وہ تمہیں اپنے پاس بلا رہے ہیں۔ احنف نے کہا: وہ سب یہاں کیا کرنے آئے ہیں ؟!

اس نے کہا: وہ تم سے عثمان کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مدد مانگنا چاہتے ہیں۔

احنف نے تعجب سے کہا کہ: وہ علی سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ انھوں نے خود مجھے کہا ہے کہ میں علی کی بیعت کروں !

احنف کہتا ہے کہ جب میں ان تینوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا: اے ام المؤمنین ! اے طلحہ ! اے زبیر ! تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگوں نے مجھے نہیں کہا کہ میں علی کی بیعت کروں ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں ہم نے کہا تھا، لیکن اب علی دین سے خارج ہو کر گمراہ ہو گیا ہے !

احنف ابن قیس کہتا ہے کہ میں نے جرات سے کہا: اگرچہ ام المؤمنین عائشہ تم لوگوں کے ساتھ ہے، لیکن میں پھر بھی ہرگز تم لوگوں کی طرف سے رسول خدا کے چچا کے بیٹے (علی) سے جنگ نہیں کروں گا۔

الکامل فی التاریخ، اسم المؤلف: أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکریم الشیبانی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - تحقیق: عبد الله القاضی، ج 3، ص 127، باب ذکر مسیر علی إلی البصرة والوقعة

ابن ابی شیبہ متوفی سن 235 ہجری نے کتاب المصنف جلد 6 میں ایک روایت کو بالکل اسی بارے میں ذکر کیا ہے۔ قابل توجہ ہے کہ ابن ابی شیبہ، طبری اور ابن اثیر سے قدیمی تر ہے، اسلیے کہ طبری متوفی سن 310 ہجری اور ابن اثیر متوفی سن 630 ہجری ہے۔

ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ:

احنف ابن قیس ام المؤمنین ، طلحہ اور زبیر کے پاس گیا اور ان سے مدد مانگی، لیکن جب ان تینوں نے امیر المؤمنین علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے ان تینوں سے کہا کہ: تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگوں نے مجھے نہیں کہا کہ میں علی کی بیعت کروں ؟ انھوں نے جواب دیا:

نعم ولکنه بدل،

ہاں ہم نے کہا تھا، لیکن اب علی بدل گیا ہے !

فقلت یا زبیر یا حواری رسول الله یا طلحة نشدتکما بالله أقلت لکما من تأمرانی به فقلتما علیا ،

میں نے کہا: اے زبیر اے صحابی رسول خدا، اے طلحہ تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا میں نے تم لوگوں سے مشورہ کیا ہے یا نہیں کہ تم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں علی کی بیعت کروں ؟

انھوں نے کہا: فقالا نعم ولکنه بدل،

ہاں کہا تو تھا، لیکن اب وہ بدل گیا ہے۔

المصنف فی الأحادیث والآثار، اسم المؤلف: أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی، دار النشر: مکتبة الرشد - الریاض - 1409، الطبعة: الأولی، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ج 6، ص 197، ح 30629

دیکھا کہ یہ لوگ (عائشہ، طلحہ، زبیر) کتنے آرام اور واضح طور پر صحابہ اور عام لوگوں سے امیر المؤمنین علی کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے مدد مانگ رہے ہیں۔

انکی مراد علی (ع) کے بدلنے سے یہ تھی کہ علی  بھی قتل عثمان میں شریک ہے، اس لیے کہ وہ عثمان کے قاتلوں سے  بدلہ نہیں لے رہا۔ اسلیے اب علی دین سے خارج ہو کر نعوذ باللہ کافر ہو گیا ہے، لہذا اب ہمارا اس سے جنگ کرنا لازم اور ضروری ہو گیا ہے۔

ابن کثیر دمشقی، کہ جو ذہبی کا ہمعصر اور یہ دونوں ابن تیمیہ ناصبی کے شاگرد ہیں، نے اپنی کتاب البدایۃ و النہایۃ میں بھی اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وقد کتبت عائشة إلی زید بن صوحان تدعوه إلی نصرتها والقیام معها، فإن لم یجیء فلیکف یده ولیلزم منزله أی لا یکون علیها، أنا فی نصرتک ما دمت فی منزلک،

(وَ قَرْنَ فِی بُیوتِکن) سوره احزاب: آیت 33

وأبی أن یطیعها فی ذلک وقال رحم الله أم المؤمنین، أمرها الله أن تلزم بیتها وأمرنا أن نقاتل، فخرجت من منزلها وأمرتنا بلزوم بیوتنا، آلتی کانت هی أحق بذلک منا، وکتبت عائشة إلی أهل الیمامة والکوفة بمثل ذلک ،

عائشہ نے زید ابن صوحان کو خط لکھا اور اس سے چاہا کہ انکے قیام انکی مدد کرے۔ اگر تم نے ہماری مدد نہیں کرنی تو پھر اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور علی کی بھی مدد نہ کرو۔

اس نے عائشہ کو جواب دیا:اگر تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو تو پھر میں تمہاری مدد کروں گا، اسلیے کہ خداوند نے فرماتا ہے کہ:اور تم اپنے گھروں میں بیٹھی رہو۔

اس نے عائشہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اس نے کہا: خداوند ام المؤمنین عائشہ پر رحمت کرے، خدا نے اسے حکم دیا ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور ہمیں جنگ کرنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ وہ اب اپنے گھر سے باہر آ گئی ہے اور ہمیں حکم دے رہی ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہیں اور علی کی رکاب میں جنگ نہ کریں۔

اگر گھر میں بیٹھنا کسی کا حق ہے تو رسول خدا کی ازواج کا ہے، پھر وہ کہتا ہے کہ: عائشہ نے اہل یمامہ اور اہل کوفہ والوں کو بھی خط لکھا اور ان سے بھی چاہا کہ وہ اسکی مدد کریں۔

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 234، باب ابتداء وقعة الجمل

ابن کثیر نے کتاب البدایۃو النہایۃ کی جلد 7 صفحہ 231 پر مزید لکھا ہے کہ:

فاجتمع فیها خلق من سادات الصحابة وأمهات المؤمنین فقامت عائشة رضی الله عنها فی الناس تخطبهم وتحثهم علی القیام بطلب دم عثمان ،

عائشہ نے مکے سے بصرہ کی طرف حرکت کرنے سے پہلے عوام، بزرگ صحابہ اور امہات المؤمنین سے خطاب کیا اور لوگوں کو عثمان کے خون (قتل) کا بدلہ لینے کے لیے ترغیب دلائی۔

حتی بعض صحابہ نے خود عائشہ سے کہا کہ: تیرا قیام تو قتل عثمان سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے !!!

اس لیے کہ اس فتنے گر قیام میں 30 ہزار مسلمان قتل ہوئے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟!

اگر عثمان قتل ہوا تھا تو کیا طلحہ اسکا ولی و وارث تھا ؟! کیا زبیر عثمان کا ولی و وارث تھا ؟! کیا خود عائشہ عثمان کی ولی و وارث تھی ؟! آخر انھوں نے کس نام اور کس حیثیت سے یہ فتنے گر قیام کیا تھا ؟! خلیفۃ خود امیر المؤمنین علی تھے، جو امت کی اصلاح میں تھا، اسکو انجام دیتے اور جو امت کی اصلاح میں نہ ہوتا، اسکو انجام نہ دیتے۔ عائشہ، طلحہ اور زبیر کی امت اسلامی میں کیا حیثیت اور مقام تھا کہ جھوٹے بہانوں سے مسلمانوں کے خلیفہ کے خلاف سازشیں کریں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائیں !!!

قابل توجہ ہے ابوبکر اور عمر کے واقعے میں بہت سے افراد نے اصرار کیا کہ خلفاء کے خون کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔ عمر کے بیٹے نے ابو لؤلؤ کی بیٹی اور اسکے غلام کو قتل کر دیا تو سب لوگوں نے کہا کہ عمر کے بیٹے سے انتقام لیا جانا چاہیے، اس لیے کہ: وَ مَنْ یقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فی‌ها ،

اور جو بھی جان بوجھ کر ایک با ایمان شخص کو قتل کرے تو اسکی جزا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔

سوره نساء آیت 93

کیا ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان سے مختلف ہے ؟! عائشہ اینڈ کمپنی نے انتقام کیوں نہیں لیا اور قصاص کیوں نہیں کیا ؟! دیہ تو نہیں لے سکتے تھے، اسلیے کہ عثمان کو انھوں نے عمدا قتل کیا تھا !! اگر تم نے اعتراض کرنا ہی تھا تو تم نے پہلے ابوبکر و عمر کے قتل ہونے پر اعتراض و قیام کیوں نہیں کیا؟!  ہاں انھوں نے ابوبکر اور عمر کے قتل کے خلاف اس لیے قیام نہیں کیا کہ ان دونوں کے بعد انکی مرضی کا خلیفہ عثمان مسند خلافت پر آ گیا تھا۔ اب کیونکہ علی (ع) خلیفہ بن گئے تھے اس لیے  عائشہ امت اسلامی میں مختلف جھوٹے بہانوں سے فتنے برپا کرنا چاہتی تھی۔

عائشہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ:

وذکرت ما افتات به اولئک من قتله فی بلد حرام وشهر حرام، ولم یراقبوا جوار رسول الله، وقد سفکوا الدماء وأخذوا الأموال فاستجاب الناس لها، وکان بقیة أمهات المؤمنین قد وافقن عائشة علی المسیر إلی المدینة، فلما اتفق الناس علی المسیر إلی البصرة رجعن عن ذلک، وقلن لا نسیر إلی غیر المدینة، وبکین للوداع وتباکی الناس ،

ان لوگوں نے محترم سرزمین اور محترم مہینے میں عثمان کو قتل کیا ہے اور رسول خدا کے حرم کا بھی انھوں نے احترام لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے اس مہینے میں خون بہایا ہے اور لوگوں کے مال پر قبضہ کیا ہے۔ عائشہ کہتی ہے کہ:

ہم مدینے میں علی ابن ابی طالب سے جنگ نہیں کر سکتے، اسی وجہ سے ہم اپنے تمام وسائل و آلات کے ساتھ بصرہ جائیں گے اور وہاں پر اس (علی) سے جنگ کریں گے۔

تمام امہات نے اتفاق کیا کہ مدینہ کی طرف جایا جائے اور بصرہ کی طرف نہ جایا جائے۔ امہات المؤمنین نے کہا: ہم مدینہ کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گی۔

یعلی ابن امیہ نے 6 لاکھ درہم اور 600 اونٹ اس سازشی ٹولے کو دئیے۔ ام المؤمنین عائشہ عسکر نامی اونٹ پر ایک ہودج میں سوار ہوئی۔ امہات المؤمنین ذات عرق نامی مقام تک عائشہ کے ساتھ رہیں اور وہاں سے انھوں نے اپنی راہ عائشہ سے جدا کر لی۔ اس مقام پر امہات المؤمنین اور عائشہ نے گریہ کرنا شروع کر دیا کہ جسکو سن کر لشکر والوں نے بھی گریہ کیا۔

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 231 - 233، باب ابتداء وقعة الجمل

ابن کثیر دمشقی نے مزید لکھا ہے کہ:

عائشہ آئی اور لشکر عثمان ابن حنیف عامل علی ابن ابی طالب بھی بصرہ میں باہر آ گيا۔

وتکلمت أم المؤمنین فحرضت وحثت علی القتال، أم المؤمنین والله لقتل عثمان أهون من خروجک من بیتک علی هذا الجمل عرضة للسلاح، إن کنت أتیتینا طائعة فارجعی من حیث جئت إلی منزلک، وإن کنت أتیتینا مکرهة فاستعینی بالناس فی الرجوع، وأمرت عائشة أصحابها فتیامنوا حتی انتهوا إلی مقبرة بنی مازن، وحجز اللیل بینهم فلما کان الیوم الثانی قصدوا للقتال فاقتتلوا قتالا شدیداً إلی أن زال النهار، وقتل خلق کثیر من أصحاب ابن حنیف وکثرت الجراح فی الفریقین،

ام المؤمنین عائشہ نے اپنے لشکر سے خطاب کیا اور انکو علی ابن ابی طالب کے شہر بصرہ میں پہنچنے سے پہلے پہلے جنگ شروع کرنے کے لیے ترغیب دلائی۔

لشکر عائشہ نے علی ابن ابی طالب کے مقرر کردہ بصرے کے حاکم عثمان ابن حنیف کے لشکر سے جنگ کی۔ لشکر عائشہ نے پہلے پتھروں اور پھر تلواروں سے لشکر عثمان ابن حنیف پر حملہ کیا، یہاں تک کہ حارثۃ ابن قدامہ سعدی نے کہا:

اے ام المؤمنین ! خدا کی قسم عثمان کا قتل ہونا تو اس سے بہت آسان تھا کہ تم جنگ کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل آئی ہو۔ اگر تم اپنی مرضی و ارادے سے اپنے گھر سے بصرے آئی ہو تو ہم تم سے چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی سے گھر واپس چلی جاؤ، اور اگر تم کو مجبور کر کے یہاں پر لایا گیا ہے تو لوگوں سے کہو کہ تم کو ان مجبور کرنے والوں کے ہاتھوں سے نجات دلا کر تمہیں تمہارے گھر پہنچا دیں۔

 عائشہ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ ، یہاں تک کہ وہ سب مقبرہ بنی مازن کے نزدیک پہنچ گئے۔ انھوں نے دوسرے دن جنگ شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اس طرح ہر دو لشکر نے دوپہر ظہر تک جنگ کی۔ (ابھی تک خلیفۃ المسلمین علی بصرہ نہیں پہنچے کیونکہ وہ شام سے بصرہ کی طرف آ رہے تھے)

حاکم بصرہ عثمان ابن حنیف کے بہت سے ساتھی اور بصرے کی بہت سے لوگ قتل اور زخمی کر دئیے گئے۔

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 231 - 233، باب ابتداء وقعة الجمل

( ابن تیمیہ اور ذہبی وغیرہ کو واقعا یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کہ لشکر عائشہ کا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں تھا، حالانکہ انھوں نے یقینی طور پر ابن کثیر کی کتاب کو دیکھا ہو گا۔

 کتب تاریخی میں موجود ہے کہ جب لشکر عائشہ نے دیکھا کہ بہت سے بے گناہ مسلمان دونوں طرف سے قتل اور شہید ہو گئے ہیں تو اپنی نجس اور مکارانہ نیت سے کہا کہ ایک صلحنامہ لکھتے ہیں کہ جسکے مطابق عثمان ابن حنیف شہر بصرہ میں ہی رہے اور طلحہ و زبیر بصرہ سے باہر رہیں، یہاں تک کہ امیر المؤمنین علی بھی بصرہ پہنچ جائیں۔

عثمان ابن حنیف شہر بصرہ میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا کہ طلحہ و زبیر نے دھوکے سے اسکو گرفتار کر لیا اور اسکی داڑھی اور چہرے کے سارے بالوں کو کھینچ کر نکال دیا گیا، پھر عائشہ نے حکم دیا کہ عثمان ابن حنیف کو قتل کر دیا جائے۔

یہ سن کر اصحاب میں سے ایک صحابی نے کہا کہ عثمان رسول خدا کا صحابی ہے، اے عائشہ کیا تم ایک صحابی کو قتل کرنے کا حکم دے رہی ہو ؟!یہ سن کر عائشہ اس کام سے باز آ گئی اور کہا کہ: ابان ابن عثمان کو حکم دو کہ میرے پاس آئے۔ جب وہ آیا تو عائشہ نے اس سے کہا عثمان ابن حنیف کو ابھی قتل نہ کرو۔ ابھی اسکا فقط جسمانی ریمانڈ لو۔ ابان ابن عثمان نے کہا اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم نے مجھے یہی کہنا ہے تو میں تمہارے پاس واپس نہ آتا اور اسے قتل کر دیتا۔

جب امیر المؤمنین علی شہر بصرہ کے نزدیک پہنچے تو عثمان ابن حنیف حضرت کے استقبال کے لیے گیا، اس حالت میں کہ نہ اسکی داڑھی تھی، نہ مونچھیں تھی، نہ آنکھوں پر ابرو اور نہ ہی پلکیں تھیں۔ اس نے حضرت کو دیکھ کر عرض کیا: اے امیر المؤمنین جب میں شہر بصرہ آیا تھا تو میری داڑھی، مونچھیں، ابرو اور پلکیں سب کچھ تھا، لیکن ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔

امیر المؤمنین علی(ع) نے فرمایا: صبر کرو، تیرا اجر خداوند کے پاس محفوظ ہے۔

مرحوم شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں لکھا ہے کہ:

جنگ جمل میں اہل بدر میں سے 80 اصحاب اور رسول خدا کے اصحاب میں سے 1105 افراد امیر المؤمنین علی کے لشکر میں موجود تھے۔

معاویہ ملعون کے منحوس لشکر میں عمرو عاص، عبد الله ابن عمرو عاص، عبید الله ابن عمر، حبیب ابن مسلمۃ، ذو الکلاع حمیری، ضحاک ابن قیس، ولید ابن عقبۃ، مروان اور عتبۃ جیسے افراد تھے۔ یہ سب وہ نامور لعنتی افراد تھے کہ جن پر خود رسول خدا (ص) نے لعنت کی تھی، ان میں بعض کو رسول خدا نے شہر مدینہ سے باہر نکال دیا تھا، ان میں سے بعض طلقاء تھے اور ان میں سے بعض کے جدّ، باپ اور بھائی کو امیر المؤمنین حیدر کرار نے اسلام کی خاطر اور رسول خدا کے حکم کے مطابق اپنے دست مبارک سے واصل جہنم کیا تھا۔

ابن مزاحم کی کتاب وقعۃ الصفین میں ذکر ہوا ہے کہ:

اجتمع عند معاویة تلک اللیلة عتبة بن أبی سفیان والولید ابن عقبة، ومروان بن الحکم، وعبد الله بن عامر، وابن طلحة الطلحات، فقال عتبة: إن أمرنا وأمر علی لعجب، لیس منا إلا موتور محاج، أما أنا فقتل جدی، واشترک فی دم عمومتی یوم بدر وأما أنت یا ولید فقتل أباک یوم الجمل، وأیتم إخوتک وأما أنت یا مروان فکما قال الأول: وأفلتهن علباء جریضا ولو أدرکنه صفر الوطاب قال معاویة: هذا الإقرار فأین الغیر؟ قال مروان: أی غیر ترید؟ قال: أرید أن یشجر بالرماح ،

جنگ صفین کی راتوں میں سے ایک رات کو معاویہ کے پاس عتبۃ ابن ابی سفیان، ولید ابن عقبہ، مروان ابن حکم، عبد الله ابن عامر اور ابن طلحۃ الطلحات جیسے افراد موجود تھے۔ عتبہ نے کہا کہ: اب ہمارا سامنا اس علی سے ہو گا کہ جس نے ہم سب کے کسی نہ کسی رشتے دار کو اپنی شمشیر سے قتل کیا ہے، ہم سب یہاں علی سے انتقام لینے کے لیے آئے ہیں۔

میرے جدّ (دادا) کو علی نے قتل کیا ہے اور وہ جنگ بدر میں بھی میرے چچا کے خون میں شریک تھا، اور علی نے تیرے باپ کو جنگ جمل میں شہید کیا اور تیرے بھائیوں کو یتیم کر دیا تھا۔

پھر سب لعنتیوں کے سردار معاویہ نے کہا: یہ جو کچھ تم سب کہہ رہے ہو، یہ اقرار ہے، لیکن تم لوگوں کی غیرت کہاں گئی ہے ؟! مروان نے معاویہ سے کہا: کس غیرت کی بات کر رہے ہو ؟! معاویہ نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کی غیرت کو اس قدر جوش آنا چاہیے کہ تمہیں اپنے رشتے داروں کے قاتل پر تیروں کی بارش برسا دینی چاہیے۔

وقعة صفین، اسم المؤلف: نصر بن مزاحم بن سیار المنقری (المتوفی: 212 هـ)، ج 1، ص 417

اسی طرح کتاب بلاغات النساء میں احمد ابن ابی طیفور متوفی سن 280 ہجری نے ایک مفصل داستان کو ذکر کیا ہے:

ام الخیر بنت الحریش البارقیہ وہ بہادر عورت تھی کہ جو جنگ صفین میں اپنے ولولہ انگیز اشعار کے ساتھ امیر المؤمنین علی کے لشکر میں شامل شیردل افراد کو دشمن پر حملہ کرنے اور اسکو نابود کرنے کے لیے جوش دلاتی تھی۔

معاویہ نے حاکم کوفہ کو خط لکھا کہ ام الخیر بنت الحریش کو میرے پاس روانہ کرو، اس نے بھی ام الخیر کو معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ قابل ذکر ہے کہ جب سارے معاویہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو اس نے اپنے اطرافیوں سے کہا:

أیکم حفظ کلام أم الخیر ،

تم میں سے کس کو جنگ صفین میں ام الخیر کا ولولہ انگیز کلام یاد ہے ؟

قال رجل من القوم أنا أحفظه یا أمیر المؤمنین کحفظی سورة الحمد،

ایک شخص نے کہا: اے امیر مجھے ام الخیر کا کلام سورہ الحمد کی طرح یاد ہے۔

معاویہ نے ام الخیر سے کہا: تیری امیر المؤمنین علی کے بارے میں کیا رائے ہے ؟! اس پر ام الخیر نے کہا:

رحمکم الله إلی الإمام العادل والوصی الوفی والصدیق الأکبر إنها إحن بدریة وأحقاد جاهلیة وضغائن أحدیة ،

خداوند اس پر رحمت کرے، وہ عادل امام، وصی رسول خدا اور صدیق اکبر تھا۔ جہنوں نے اس سے جنگ کی تھی، انکے دلوں میں جنگ بدر کے کینے، زمانہ جاہلیت کے بغض اور جنگ احد کی نفرتیں پائی جاتی تھیں۔

یعنی آسان الفاظ میں جہنوں نے امیر المؤمنین علی کے مقابلے پر آ کر ان سے جنگ کی تھی، یہ وہ لوگ تھے کہ جہنوں نے جنگ بدر ، جنگ احد میں اور زمانہ جاہلیت میں مولا حیدر کرار کی شمشیرئے ذوالفقار سے گہرے زخم کھائے تھے۔

وثب بها معاویة حین الغفلة لیدرک بها ثارات بنی عبد شمس ،

اسکے علاوہ معاویہ (لع) امیر المؤمنین علی کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے والے اپنے رشتے داروں کے خون کا انتقام لینا چاہتا تھا۔

قاتلوا أئمة الکفر إنهم لا إیمان لهم ،

کفر و نفاق کے پیشواؤں سے جنگ کرو، کیونکہ وہ اپنے کسی بھی عہد و پیمان پر عمل نہیں کرتے۔

بلاغات النساء، المؤلف: أبو الفضل أحمد بن أبی طاهر ابن طیفور (المتوفی: 280 هـ)، صححه وشرحه: أحمد الألفی، الناشر: مطبعة مدرسة والدة عباس الأول، القاهرة، م، ج 1، ص 42، باب کلام أم الخیر بنت الحریش البارقیة

جنگ جمل اور جنگ صفین میں قتل شدہ افراد کی تعداد:

جیسا کہ بیان ہوا بیان کی گئی تعداد مختلف ہے، لیکن سب نے ذکر کیا ہے کہ جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد 30 ہزار تھی۔

عالم وہابی قلقشندی نے اپنی کتاب ماثر الاناقۃ فى معالم الخلافۃ کے صفحہ 101 پر لکھا ہے کہ: جنگ جمل میں قتل شدہ 30 ہزار افراد میں سے امیر المؤمنین علی کے لشکر سے تقریبا 1000 افراد اور باقی تقریبا 20 ہزار افراد لشکر عائشہ اور لشکر معاویہ سے قتل ہوئے۔

نوٹ: یہ تقریبا 30 ہزار یا اس سے زیادہ بے گناہ مسلمان صرف اور صرف عائشہ اور معاویہ کے امیر المؤمنین علی سے بغض و کینے اور فتنے کی وجہ سے قتل ہوئے تھے۔

اسی طرح کتاب مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول میں محمد ابن طلحہ شافعی نے صفحہ 216 پر تحریر کیا ہے کہ:

جنگ جمل میں 1070 افراد امیر المؤمنین علی کے لشکر سے اور 29 ہزار افراد عائشہ کے لشکر سے قتل ہوئے تھے۔

معاویہ ملعون کی مسلمانوں کے خلاف پیدا کردہ جنگ صفین ڈیڑھ سال تک جاری رہی اور اس جنگ میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 10 ہزار مسلمان قتل ہوئے، کہ ان میں سے 20 ہزار افراد لشکر امیر المؤمنین علی سے اور 90 ہزار افراد لشکر معاویہ سے قتل ہوئے۔

کتاب مروج الذهب، مسعودی جلد 2 صفحہ 393

وہابی کہتے ہیں کہ صحابہ نے اجتہاد کیا تھا اور اپنے اسی ویران گر غلط اجتہاد کیوجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے اجتہاد کیا تھا اور امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب سے جنگ کی تھی۔

حالانکہ انکو اپنی کتب میں موجود صحیح روایات کی روشنی میں معلوم ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا کہ:

من أطاعنی فقد أطاع الله ومن عصانی فقد عصی الله ومن أطاع علیا فقد أطاعنی ومن عصی علیا فقد عصانی ،

جس نے میری اطاعت کی، تو اس نے خداوند کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے خداوند کی نافرمانی کی اور جس نے علی کی اطاعت کی تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 131، ح 4617

تاریخ مدینة دمشق، اسم المؤلف: أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعی، دار النشر: دار الفکر - بیروت - تحقیق: محب الدین أبی سعید عمر بن غرامة العمری، ج 42، ص 270، ح 4933

یعنی علی کی اطاعت، خداوند کی اطاعت ہے اور علی کی نافرمانی خداوند کی نافرمانی ہے، کیا کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے اجتہاد اور علم کی وجہ سے خداوند کی اطاعت اور نافرمانی کرتا ہوں۔ اب جہنوں نے امیر المؤمنین علی کے ساتھ جنگ کی تھی، انھوں نے انکی اطاعت کی تھی یا نافرمانی کی تھی ؟! اسلیے کہ خداوند کی اطاعت ہر حال میں صحیح اور واجب ہے اور اسکی معصیت اور نافرمانی ہر حال میں غلط اور حرام ہے۔

یا یہ حدیث ہے کہ:

من آذَی عَلِیا فَقَدْ آذانی ،

رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ جس نے علی کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی ہے۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 3، ص 483، ح 16002

صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، اسم المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التمیمی البستی، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بیروت - تحقیق: شعیب الأرنؤوط، ج 15، ص 365، ح 6923

اسی روایت کو بخاری کے استاد ابن ابی شیبہ نے بھی نقل کیا ہے کہ جب عمرو ابن شاس یمن سے واپس آیا تو اس نے رسول خدا (ص) سے علی (ع) کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا:

قد آذیتنی ،

تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔

بہت عجیب ہے، کیونکہ رسول خدا کو اذیت کرنا، کوئی کم گناہ نہیں ہے۔ اسلیے کہ سورہ احزاب میں ارشاد خداوندی ہے کہ:

إِنَّ الَّذِینَ یؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِینا،

جو لوگ خدا اور اسکے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں تو خود خداوند ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان لوگوں کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔سوره احزاب آیت 57

اتفاق سے خود ابن تیمیہ ناصبی نے کہا ہے کہ:

لِأَن مؤذی النَّبِی صلی الله عَلَیهِ وَسلم لَا تقبل تَوْبَته ، إذَا تَابَ مِنْ الْقَذْفِ حَتَّی یسْلِمَ إسْلَامًا جَدِیدًا ،

کیونکہ رسول خدا کو اذیت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی، جو بھی اس کام سے توبہ کرنا چاہتا ہے تو اسے نئے سرے سے جدید اسلام لا کر مسلمان ہونا چاہیے۔

یعنی اسکو دوبارہ شہادتین (کلمہ) پڑھ کر مسلمان ہونا ہو گا۔۔۔

مجموع الفتاوی، المؤلف: تقی الدین أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی (المتوفی: 728 هـ)، المحقق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم، الناشر: مجمع الملک فهد لطباعة المصحف الشریف، المدینة النبویة، المملکة العربیة السعودیة، ج 15، ص 362، باب فِی قَوْله تَعَالَی {إنَّ الَّذِینَ یرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ}

دقائق التفسیر الجامع لتفسیر ابن تیمیة، المؤلف: تقی الدین أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی الحنبلی (المتوفی: 728 هـ)، المحقق: د. محمد السید الجلیند، الناشر: مؤسسة علوم القرآن – دمشق، الطبعة: الثانیة، 1404، ج 2، ص 456

اسی ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا ہے کہ:

جو بھی رسول خدا کو اذیت کرے تو وہ کافر ہے۔

الصارم المسلول علی شاتم الرسول، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی أبو العباس، دار النشر: دار ابن حزم - بیروت - 1417، الطبعة: الأولی، تحقیق: محمد عبد الله عمر الحلوانی, محمد کبیر أحمد شودری، ج 2، ص 58، فصل واما الایات الدالة علی کفر الشاتم

اور ادہر خود رسول خدا (ص) عمرو ابن شاس سے فرما رہے ہیں کہ:

قد آذیتنی،تم نے مجھے اذیت کی ہے، یہ سن کر اس نے رسول خدا کہا:

قال قلت یا رسول الله ما أحب أن أوذیک ،

اے اللہ کے رسول میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آپکو اذیت پہنچاؤں۔

رسول خدا نے اس سے فرمایا:

قال من آذی علیا فقد آذانی ،

جس جس نے بھی علی کو اذیت پہنچائی تو اس اس نے مجھ کو بھی اذیت  پہنچائی ہے۔

الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، اسم المؤلف: أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی، دار النشر: مکتبة الرشد - الریاض - 1409، الطبعة: الأولی، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ج 6، ص 371، ح 32108

اسی طرح کتاب مسند احمد ابن حنبل میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:

یا عَمْرُو والله لقد آذیتنی ،

رسول خدا نے فرمایا کہ اے عمرو خدا کی قسم تم نے مجھے اذیت کی ہے۔

اس پر اس نے کہا:

قلت أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أوذیک یا رَسُولَ اللَّهِ ،

اے رسول اللہ، میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں آپکو اذیت کروں۔

حضرت نے فرمایا:

قال بَلَی من آذَی عَلِیا فَقَدْ آذانی،

ہاں جس نے بھی علی کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھ کو بھی اذیت پہنچائی ہے۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 3، ص 483، ح 16002

کتاب مسند ابو یعلی میں روایت نقل ہوئی ہے کہ: سعد ابن ابی وقاص نے اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور علی ابن ابی طالب کے بارے میں غلط باتیں کر رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ رسول خدا غصے کی حالت میں ہماری طرف آ رہے ہیں۔ ہم نے حضرت کو دیکھ کر کہا:

فتعوذت بالله من غضبه،

ہم رسول خدا کے غضب سے خداوند کی پناہ مانگتے ہیں۔

رسول خدا نے یہ سن کر فرمایا:

فقال ما لکم وما لی من آذی علیا فقد آذانی ،

تمہیں مجھ سے کیا کام ہے، جس نے بھی علی کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی ہے۔

مسند أبی یعلی، اسم المؤلف: أحمد بن علی بن المثنی أبو یعلی الموصلی التمیمی، دار النشر: دار المأمون للتراث - دمشق - 1404 - 1984، الطبعة: الأولی، تحقیق: حسین سلیم أسد، ج 2، ص 109، ح 770

یہ روایت کتاب مجمع الزوائد میں نقل ہوئی ہے اور اسکی سند کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ:

رواه أحمد والطبرانی باختصار والبزار أخصر منه ورجال أحمد ثقات ،

اسی روایت کو احمد حنبل، طبرانی اور بزار نے نقل کیا ہے اور احمد کی نقل کردہ روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 9، ص 129، باب منه جامع فیمن یحبه

کیا ان جیسی بہت سی صحیح و معتبر احادیث کے سامنے ، اجتہاد کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟! اس لیے کہ ہر اجتہاد پر دلیل یا قرآن سے ہونی چاہیے یا سنت رسول سے۔ حالانکہ صحابہ کے تمام اجتہادات صد در صد قرآن و سنت رسول کے مخالف تھے۔

جب اجتہاد کرنے کا جب غلط دروازہ کھل جاتا ہے تو نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ عالم اہل سنت ابن حزم اندلسی کہتا ہے کہ:

اگر عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نے علی ابن ابی طالب کو ناحق قتل کیا تھا، تو اس نے اجتہاد کرتے ہوئے ایسا کام انجام دیا تھا !!! اور خالد ابن ولید نے جب مالک ابن نویرہ کو قتل کیا تھا اور اسی رات اسکی بیوی سے زنا کیا تھا، تو اس نے بھی اجتہاد کرتے ہوئے یہ قتل اور زنا کیا تھا !!!

اہل سنت کی اجتہاد سے مراد:

اہل سنت کے علماء اور عام عوام صحابہ کے سراسر غلط کاموں کا جب کوئی جواب نہیں دے پاتے تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے قول پر عمل کرتے ہوئے، فوری طور پر لفظ اجتہاد کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے فلاں قتل، فلاں چوری، فلاں زنا، فلاں سازش، فلاں شراب خواری، فلاں سود خواری، فلاں حرام کام وغیرہ وغیرہ سب اجتہاد پر عمل کرتے ہوئے انجام دئیے تھے۔

حالانکہ ان سب کو یا اکثر کو اصلا اجتہاد کے معنی کا علم ہی نہیں ہے۔ اہل سنت کی عوام کو تو اجتہاد کے معنی سے کیا لینا دینا، وہ تو اپنے علماء سے سنی سنائی باتیں دوہراتے رہتے ہیں۔ اہل سنت کے علماء جب صحابہ کے غلط کاموں کی تاویل و توجیہ کرتے ہوئے، اجتہاد کہتے ہیں تو انکی اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ: وہ کہتے ہیں کہ درست ہے کہ فلاں فلاں صحابی نے فلاں فلاں غلط کام کیا تھا، کیونکہ اس نے وہ غلط اور حرام کام اپنے اجتہاد کیوجہ سے کیا تھا تو اب خداوند بھی انکے اجتہاد کا انکو ثواب عطا کرے گا، یعنی اگر ایک صحابی مثلا عمر جب شراب پیتا ہے تو، خداوند اسکو اس شراب پینے پر گناہ اور عذاب کرنے کی بجائے ثواب عطا کرے گا۔ یا جب ایک صحابی قتل کرتا ہے یا چوری کرتا ہے تو خداوند اسکو اس قتل اور چوری کرنے پر گناہ اور عذاب کرنے کی بجائے ثواب عطا کرے گا۔

جب انسان اہل بیت کے دروازے اور علم سے دور ہو جاتا ہے تو دین اور شریعت کے بارے میں کیا کیا کچھ نہیں کہتا !!!

کتاب المستدرک علی الصحیحین میں حاکم نے ذکر کیا ہے کہ:

یا علی من فارقنی فقد فارق الله ومن فارقک یا علی فقد فارقنی ، صحیح الإسناد ولم یخرجاه ،

اے علی جو آپ سے جدا ہو گیا، وہ خداوند سے جدا ہو گیا اور جو بھی تم سے جدا ہو گیا، یقینی طور پر وہ مجھ سے بھی جدا ہو گیا ہے۔ یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اس حدیث کو ذکر نہیں کیا۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 133، ح 4624

اسی حدیث کو ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں بھی ذکر کیا ہے اور آخر میں کہا ہے کہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رواه البزار ورجاله ثقات،

اس حدیث کو بزار نے بھی نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 9، ص 135، باب الحق مع علی ،

اسی حدیث کو حنبلیوں کے امام احمد ابن حنبل نے کتاب فضائل الصحابۃ میں بھی ذکر کیا ہے :

فضائل الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بیروت - 1403 - 1983، الطبعة: الأولی، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، ج 2، ص 570، ح 962

امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ جنگ، اجتہاد یا عداوت ؟!

رسول گرامی اسلام (ص) نے فرمایا: علی کے ساتھ جنگ کرنا ، میرے ساتھ جنگ کرنا ہے۔

اہل سنت کی معتبر کتب میں 50 سے زیادہ روایات صحیح سند کے ساتھ نقل ہوئی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ:

عَلِی مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِی ، اور علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ،

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے، علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے، وہ حوض کوثر تک آپس میں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 134، ح 4628

ان جیسی روایات میں اجتہاد کرنے کا کوئی مقام نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بالا تر کہ خود رسول خدا (ص) نے امیر المؤمنین علی (ع) کو ناکثین، مارقین اور قاسطین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ صحابہ نے رسول خدا کی مبارک زبان سے ان تمام احادیث کو سنا تھا اور صحابہ کہ جہنوں نے جنگ جمل و صفین میں امیر المؤمنین علی کے لشکر میں شرکت کی تھی، انکا دل و ضمیر فقط اسی بات پر مطمئن تھا کہ وہ رسول خدا کے حکم کے عین مطابق امیر المؤمنین علی اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں۔

جسطرح کہ اہل سنت کے عالم جصاص نے کہا ہے کہ: جو بھی علی کے ساتھ  جنگ کرے تو:

فاستحق من حاربهم اسم المحارب لله ولرسوله وإن لم یکن مشرکا،

ایسا شخص مستحق ہے کہ اسکو خداوند اور اسکے رسول کا دشمن کہا جائے، اگرچہ وہ شخص مشرک نہ بھی ہو تو۔

أحکام القرآن، اسم المؤلف: أحمد بن علی الرازی الجصاص أبو بکر، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - 1405، تحقیق: محمد الصادق قمحاوی، ج 4، ص 51، باب حد المحاربین

رسول خدا کا ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم:

اب دیکھتے ہیں کہ کیا حقیقت میں بھی رسول خدا (ص)نے حضرت علی (ع) کو ناکثین، قاسطین اور مارکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا تھا یا علی ابن ابی طالب نے خود ہی اجتہاد کرتے ہوئے، منافقین کے ساتھ جنگ کی تھی۔ کتاب المستدرک علی الصحیحین میں حاکم نیشاپوری نے روایت کو ذکر کیا ہے کہ:      

یہ روایت ابو ایوب انصاری سے عمر کی خلافت کے دور میں نقل ہوئی ہے، یعنی ابھی تک عثمان کی خلافت کی باری نہیں آئی اور ابھی تک امیرالمؤمنین علی بھی ظاہری طور پر چوتھے خلیفہ نہیں بنے۔ وہ روایت ایسے ہے:

أمر رسول الله علی بن أبی طالب بقتال الناکثین والقاسطین والمارقین،

پیغمبر اکرم نے علی ابن ابی طالب کو ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 150، ح 4674

ابو ایوب والی روایت کے بعد والی روایت میں نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ:

سمعت النبی یقول لعلی بن أبی طالب تقاتل الناکثین والقاسطین والمارقین،

میں (ابو ایوب) نے رسول خدا کو علی ابن ابی طالب سے فرماتے ہوئے سنا کہ اے علی تم ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنا۔

قال أبو أیوب قلت یا رسول الله مع من تقاتل هؤلاء الأقوام ،

ابو ایوب انصاری کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا سے کہا: میں کس کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کروں ؟

قال مع علی بن أبی طالب ،

رسول خدا نے فرمایا: علی ابن ابی طالب کے ساتھ شامل ہو کر جنگ کرنا۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 150، ح 4675

اسی طرح کتاب مجمع الزوائد میں ہیثمی نے ایک روایت کو امیر المؤمنین علی سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ:

عهد إلی رسول الله فی قتال الناکثین والقاسطین والمارقین ،

رسول خدا نے مجھ (علی) کو ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کی وصیت فرمائی ہے۔

رواه البزار والطبرانی فی الأوسط وأحد إسنادی البزار رجاله رجال الصحیح غیر الربیع بن سعید ووثقه ابن حبان ،

اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے اور اسی روایت کو طبرانی نے کتاب أوسط میں نقل کیا ہے، اور بزار کی نقل کردہ دو سند میں سے ایک سند کے تمام راوی ربیع ابن سعید کے علاوہ صحیح و معتبر (ثقہ) ہیں، کہ ربیع کو بھی ابن حبان نے ثقہ راوی قرار دیا ہے۔

اسی طرح ابن اثیر جزری نے کتاب اسد الغابۃ میں صراحت سے کہا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے فرمایا کہ:

إِن منکم رجلاً یقاتل علی تأَویل القرآن، کما قاتلت علی تنزیله ،

(اے میرے اصحاب) تم میں سے ایک شخص قرآن کی آیات کی تاویل (تفسیر) کی خاطر (مسلمانوں سے) جنگ کرے گا، جسطرح کہ میں نے نزول قرآن کی خاطر (کفار و مشرکین سے) جنگ کی تھی۔

یعنی میرے بعد ایک وقت آئے گا کہ اس امت سے ایک شخص قرآن کی آیات کی صحیح تشریح کرنے کی خاطر جنگ کرے گا، یعنی دوسرے بھی ظاہری طور پر مسلمان قرآن کی خاطر جنگ کریں گے، لیکن حق پر فقط یہی شخص ہو گا، کیونکہ قرآن کی صحیح و واقعی تفسیر و تشریح کا فقط اسے علم ہو گا۔          بعض نے کہا: شاید وہ شخص میں ہوں، شاید وہ شخص میں ہوں، شاید وہ شخص میں ہوں، لیکن رسول خدا نے فرمایا:

لکنه خاصف النعل،

وہ، وہ شخص ہے کہ جو جوتوں کو پیوند لگانے والا ہے۔

فجاءَ فبشرناه بذلک، فلم یرفع به رأْساً، کأَنه شیء قد سمعه من النبی،

صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے جا کر اس خبر کو علی کو بتایا، لیکن اس نے اس بات کو سن کر اپنے سر کو اوپر نہ اٹھایا (یعنی وہ اسی طرح جوتے کو پیوند لگانے میں مصروف رہا) گویا اس نے خود اس بات کو رسول خدا سے سنا ہوا تھا۔

پھر ابن اثیر جزری لکھتا ہے کہ:

عن أَبی سعید الخدری قال: أَمرنا رسول الله بقتال الناکثین والقاسطین والمارقین،

ابو سعید خدری نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے ہم صحابہ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ سن کر اصحاب نے کہا:

قلنا: یا رسول الله أَمرتنا بقتال هؤلاءِ، فمع مَنْ؟

یا رسول اللہ ! ہم اصحاب کس کے لشکر میں شریک ہو کر جنگ لڑیں ؟

رسول خدا نے فرمایا:

فقال: (مع علی بن أَبی طالب، معه یقتل عمار بن یاسر) ،

علی ابن ابی طالب کی رکاب میں شامل ہو کر جنگ کرنا اور عمار ابن یاسر اس جنگ میں قتل کیا جائے گا۔

ان روایات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امیر المؤمنین علی کو عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ وغیرہ سے اسلام اور مسلمین کی بقاء کے لیے جنگ کرنے کا حکم خود رسول خدا نے دیا تھا۔ جب ایسا ہے تو ابن تیمیہ ناصبی اور اسکے شاگرد ذہبی ناصبی نے کیسے اسلام اور مسلمین سے خیانت کرتے ہوئے لکھا اور کہا ہے کہ:

رسول خدا نے جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ علی ابن ابی طالب نے خود ذاتی اجتہاد کرتے ہوئے، ان جنگوں میں شرکت کی تھی !!! کیا کل قیامت کو خداوند کی عدالت میں انکے پاس اپنی خیانتوں کا کوئی جواب ہو گا ؟!

اسی طرح بعد والی روایت میں ذکر ہوا ہےکہ:

أَتینا أَبا أَیوب الأَنصاری، فقلنا: قاتلتَ بسیفک المشرکین مع رسول الله، ثم جئت تقاتل المسلمین ؟

ابو ایوب انصاری سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنی تلوار سے رسول خدا کی رکاب میں مشرکین کے ساتھ جنگ کی تھی، اب تم کیسے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کر رہے ہو ؟

قال: أَمرنی رسول الله بقتل الناکثین والقاسطین والمارقین ،

ابو ایوب انصاری نے جواب دیا: رسول خدا نے خود مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔

أسد الغابة فی معرفة الصحابة، اسم المؤلف: عز الدین بن الأثیر أبی الحسن علی بن محمد الجزری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت / لبنان - تحقیق: عادل أحمد الرفاعی، ج 4، ص 124، ح 3775

یعنی جیسے رسول خدا نے حکم دیا تھا، مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کا، اسی طرح حضرت نے عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ وغیرہ کے ساتھ بھی جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہاں سے دو نکتے واضح اور معلوم ہوتے ہیں کہ:

1- امیر المؤمنین علی (ع) کی حیثیت ان تینوں جنگوں میں، وہی رسول خدا (ص) والی حیثیت تھی اور جنگ جمل و صفین اور نہروان میں موجود افراد کی حیثیت وہی مشرکین اور کفار والی حیثیت تھی۔

2- اسلام اور مسلمین کی بقاء اور سلامتی کے لیے جس قدر کفار اور مشرکین خطرناک ہیں، اسی طرح اسلام اور مسلمین کی بقاء اور سلامتی کے لیے منافقین بھی خطرناک ہیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر کلمہ گو مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔

واقعا قابل ذکر اور قابل توجہ ہے کہ کتاب البدایۃ و النہایۃ میں ابن کثیر دمشقی نے ایک روایت کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے کہ:

فهذه اثنتا عشرة طریقا إلیه ستراها بأسانیدها وألفاظها ومثل هذا یبلغ حد التواتر ،

اس روایت کی 12 اسناد ہیں اور جو روایت 12 اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہو تو وہ روایت تواتر کی حد تک پہنچی ہوتی ہے،(یعنی وہ روایت سو فیصد صحیح و معتبر ہوتی ہے)

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 290 - 307، باب ما ورد فیهم من الأحادیث الشریفة

جناب ابن کثیر صاحب ! تم نے دعوی کیا ہے کہ اگر ایک روایت 12 اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہو تو وہ روایت متواتر ہوتی ہے، لیکن تم نے اپنی اسی کتاب میں ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے والی رسول خدا سے نقل ہونے والی روایت کو 20 اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے، تو کیا یہ روایت آپکی نظر میں متواتر نہیں ہے ؟ اگر متواتر نہیں ہے تو آپکی اپنی بات جھوٹی ہے اور اگر متواتر ہے تو آپ نے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے والی رسول خدا سے نقل ہونے والی روایت کے آخر میں کیوں نہیں لکھا کہ یہ روایت 20 اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے، لہذا یہ روایت تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے ؟!!!

اے ابن کثیر وہابی ناصبی بغض امیر المؤمنین علی (ع) میں یہ اسلام اور مسلمین کے ساتھ کیوں علمی خیانت کر رہے ہو ؟!!!

قابل توجہ ہے کہ ابن کثیر نے ابو ایوب انصاری سے ایک طویل روایت میں نقل کیا ہے کہ جس روایت کا آخری حصہ یہ ہے کہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فأما الناکثون فقد قاتلناهم وهم أهل الجمل طلحة والزبیر،

ابو ایوب انصاری کہتا ہے کہ ناکثین کے ساتھ تو ہم نے(رسول خدا کے حکم کے مطابق) جنگ کر لی ہے کہ اہل جمل طلحہ اور زبیر کی سربراہی میں آئے تھے۔

وأما القاسطون فهذا منصرفنا من عندهم یعنی معاویة وعمروا ،

اور قاسطین معاویہ اور عمرو عاص ہیں کہ ہم ابھی ان سے جنگ کر کے واپس آ رہے ہیں۔

وأما المارقون فهم أهل الطرقات وأهل السعیفات وأهل النخیلات وأهل النهروان،

بہرحال مارقین کہ جو طرقات ، سعیفات ، نخیلات اور نہروان کے رہنے والے ہیں۔

والله ما أدری أین هم ولکن لا بد من قتالهم إن شاء الله،

اور خدا کی قسم مجھے پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، لیکن پھر بھی انشاء اللہ قطعی طور پر ان سے جنگ ہو گی۔ (اس لیے کہ خود رسول خدا نے ہمیں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور حضرت کی بات کبھی بھی غلط اور جھوٹ نہیں ہو سکتی)

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 290 - 307، باب ما ورد فیهم من الأحادیث الشریفة۔

امیر المومنین علیہ السلام کی نصرت نہ کرنے پر افسوس

ایک روایت کو ملاحظہ کریں کہ جو بخاری اور مسلم کے نزدیک بھی صحیح و معتبر ہے۔ ذہبی نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ: «خ م» یعنی یہ روایت کتاب صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، اسی وجہ سے ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے، اور اسی طرح حاکم نیشاپوری نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

وہ روایت یہ ہے کہ:

راوی کہتا ہے کہ میں عبد الله ابن عمر کے پاس تھا کہ عراق سے ایک شخص وہاں آیا اور اس نے ابن عمر سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ آپکی پیروی کرتے ہوئے، آپ کے اخلاق کو اپنے لیے عملی نمونہ قرار دوں۔ میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، آیت قرآن ہے کہ:

وَ إِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَینَهُما فَإِنْ بَغَتْ إِحْداهُما عَلَی الْأُخْری فَقاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِی‌ءَ إِلی أَمْرِ اللَّه ،

جب بھی مؤمنین کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو انکے درمیان صلح کو برقرار کرو اور اگر ان دو گرہوں میں سے کوئی ایک دوسرے گروہ پر تجاوز و طغیان کرے تو ظالم و طغیان گر گروہ سے مقابلہ کرو تا کہ وہ خداوند کے فرمان کی طرف پلٹ آئے۔

سوره حجرات آیت 9

پھر اس نے ابن عمر سے کہا:

أخبرنی عن هذه الآیة،

اس آیت کے مطلب (تفسیر)  کو میرے لیے بیان کرو۔

فقال عبد الله بن عمر ما لک ولذلک انصرف عنی ،

عبد الله ابن عمر نے کہا: اس آیت سے تمہارا کیا کام ہے، جاؤ یہاں سے چلے جاؤ !

فقام الرجل فانطلق حتی إذا توارینا سوادة أقبل إلینا عبد الله بن عمر،

وہ عراقی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا، پھر راوی کہتا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے ہم سے کہا:

فقال ما وجدت فی نفسی شیء من أمر هذه الآیة إلا ما وجدت فی نفسی أنی لم أقاتل هذه الفئة الباغیة کما أمرنی الله تعالی ،

میں جب بھی قرآن کی اس آیت کے بارے میں سوچتا ہوں تو احساس شرمندگی کرتا ہوں، کیونکہ میں معاویہ کے ستمگر گروہ و لشکر کے خلاف جنگ نہیں کر سکا، حالانکہ خداوند نے مجھے اس کام کے کرنے کا حکم دیا تھا۔

المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 2، ص 502، ح 3722

(اے محترم قارئین اب آپکو معلوم ہوا کہ ابن عمر نے اس آیت کے مطلب کو اس بیچارے عراقی عرب کے لیے کیوں بیان نہیں کیا تھا)

اس سے بھی جالب یہ ہے کہ کتاب اسد الغابۃ میں ابن اثیر جزری نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:

قال ابن عمر حین حضره الموت: ما أَجد فی نفسی من الدنیا إِلا أَنی لم أُقاتل الفئة الباغیة ،

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب عبد اللہ ابن عمر دنیا سے جا رہا تھا تو اس نے کہا: مجھے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ جس چیز پر افسوس ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے باغی و طغیان گر گروہ کے خلاف جنگ کیوں نہیں کی۔

ما آمن علی شیء إِلا أَنی لم أُقاتل مع علی بن أَبی طالب الفئة الباغیة،

اور مجھے کسی چیز کا افسوس نہیں ہے، مگر یہ کہ میں نے جنگ صفین میں لشکر علی ابن ابی طالب میں شرکت کر کے معاویہ اور عمرو عاص کے باغی و ستمگر گروہ کے خلاف جنگ کیوں نہیں کی۔

وقال الشعبی: ما مات مسروق حتی تاب إِلی الله تعالی من تخلفه عن القتال مع علی ،

شعبی کہتا ہے کہ مسروق نے مرنے سے پہلے توبہ کی کہ کیوں اس نے علی کے لشکر میں شریک ہو کر معاویہ سے جنگ نہیں کی۔

أسد الغابة فی معرفة الصحابة، اسم المؤلف: عز الدین بن الأثیر أبی الحسن علی بن محمد الجزری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت / لبنان - تحقیق: عادل أحمد الرفاعی، ج 4، ص 125، ح 3775

(مرتے وقت تو دوست دشمن کو معلوم ہو جائے گا کہ علی ابن ابی طالب حق پر تھے، مؤمن وہ ہے کہ جو اس دنیا میں علی کے صراط مستقیم پر چل کر انکے حق پر ہونے پر ایمان لا کر انکا ساتھ دے اور اسی راہ اور عقیدے پر اس دنیا سے رخصت ہو، ورنہ ساری زندگی علی اور اولاد سے دشمنی کر کر کے آخر میں شرمندہ اور پشمان ہونے کا کیا فائدہ ہے ؟!!!!

 

جنگ جمل اہل سنت کی نظر میں:

حضرت علی اپنی ظاہری خلافت اور حکومت کے ابتدائی ایام سے ہی اسلامی معاشرے کو ظالم و فاسق حکّام سے پاک کرنے کی منصوبہ بندی میں تھے کہ جہنوں نے مسلمانوں کے بیت المال کو اپنا ذاتی خزانہ سمجھ کر لوٹنا شروع کر دیا تھا۔

اسی صورتحال کے دوران ہی بعض اصحاب کی امید اور توقع تھی کہ امیر المؤمنین علی اپنی حکومت میں بعض عہدے ہمیں بھی دیں گے۔ ان امیدوار صحابہ میں طلحہ و زبیر کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف سے جب ان دونوں کو حکومت علوی میں اچھا عہدہ ملنے کی امید سے مایوسی کا سامنا ہوا تو، ادھر دوسری طرف سے اسلام کے پیدائشی دشمن خائن اور مکار معاویہ نے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دونوں (طلحہ و زبیر) کو ایک ایک خط لکھا، جس میں معاویہ نے ان دونوں کو امیر المؤمنین کے لقب سے یاد کیا اور ان سے کہا کہ میں نے تم دونوں کے لیے شام کے لوگوں سے بیعت لے لی ہے اور اب تم دونوں بھی اس سے پہلے کہ فرزند ابو طالب شہر کوفہ اور بصرہ پر مسلط ہو، جتنی جلدی ممکن ہو سکے ان دونوں اہم شہروں پر قبضہ کر لو اور تم لوگوں کا ہر جگہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے، نعرہ یا لثارات العثمان، عثمان کے خون کا بدلہ لینا، ہونا چاہیے۔

عہدے اور مال دنیا کے مارے طلحہ و زبیر نے جب معاویہ کے خط کو پڑھا تو انھوں نے ارادہ کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے، مکہ و مدینہ سے خارج ہو کر چلیں جائیں تا کہ امیر المؤمنین علی اور بزرگ اصحاب کی نظروں سے دور اپنے لیے لشکر و سامان جنگ فراہم کر سکیں۔ اسی پلید نیت کو دل میں لیے وہ دونوں امیر المؤمنین علی کے پاس گئے اور ان سے کہا:

آپ نے امور حکومت میں عثمان کے ستم اور نا انصافیوں کو مشاہدہ کیا ہو گا، اس نے بنی امیہ کے علاوہ کسی دوسرے پر بالکل توجہ نہیں دی، اب جبکہ خدا نے آپکو خلافت نصیب کی ہے تو ہم دونوں کو بھی کوفے اور بصرے کی فرمانروائی کے لیے منصوب کریں۔ یہ سن کر امیر المؤمنین علی نے فرمایا کہ: میرے اس موضوع کے بارے میں غور و فکر کرنے تک، جو کچھ خداوند نے تمہیں نصیب کیا ہے ، اسی پر راضی رہو۔ تم دونوں یہ بات اچھی طرح سے جان لو کہ میں صرف ان افراد کو اپنے ساتھ حکومت میں شریک کروں گا کہ جنکے دین ، امانتداری اور اخلاق کے بارے میں مطمئن ہوں گا۔

طلحہ و زبیر امیر المؤمنین علی کی اس بات کو سن کر مزید مایوس ہو گئے، کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ علی کو ان دونوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اس لیے ان دونوں نے فورا بات کو تبدیل کیا اور امیر المؤمنین علی سے عرض کیا کہ پس آپ ہمیں پھر اجازت دیں کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے مدینہ سے مکہ چلے جائیں۔ امیر المؤمنین علی نے فرمایا: عمرے کے بہانے سے تم لوگوں کا کوئی دوسرا ہدف تو نہیں ہے ؟ ان دونوں نے قسم کھائی کہ ہمارا عمرہ کرنے کے علاوہ کوئی اور ہدف نہیں ہے۔ امام علی نے فرمایا: تم دونوں دھوکہ دینے اور بیعت کو توڑنے کی فکر میں ہو۔ انھوں نے اپنی اپنی قسم کو دوبارہ تکرار کیا اور امام علی کے ساتھ دوبارہ تجدید بیعت کی۔ جب وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو امیر المؤمنین علی نے وہاں پر موجود افراد سے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ دونوں فتنے کا شکار ہو کر قتل ہو جائیں گے۔

فروغ ولايت، جعفر سبحاني، صفحہ 396

ابن قتيبہ نے لکھا ہے کہ: علی کے گھر سے نکل کر وہ دونوں قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا: کیا ہمارا یہی حق تھا کہ علی نے ہمیں دیا ہے ! ہم نے عثمان کے خلاف قیام کیا تھا اور اسکو قتل کرنے کی راہ کو ہموار کیا تھا، حالانکہ علی تو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اب اسکو خلافت مل گئی ہے تو وہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے رہا ہے۔ طلحہ و زبیر نے علی کے گھر میں بار بار قسم کھانے کے باوجود بھی جب وہ مدینہ سے مکہ جا رہے تھے تو راستے میں جو جو بھی انکو نظر آتا تھا، وہ اس سے کہتے تھے کہ ہم نے علی کے ساتھ بیعت کو توڑ دیا ہے۔

الامامة و السياسة، ج 1، ص 49

الف. علل جنگ از ديدگاه اصحاب جمل:

1- عائشہ اور طلحہ کے متعدد خطبات میں جنگ جمل کی اہم ترین علت کو قتل عثمان کا بدلہ ذکر کیا ہے۔ اسکے علاوہ یہ لوگ امیر المؤمنین علی کو عثمان کے قتل کا ذمہ دار ٹھراتے تھے۔

2- معتزلہ ( اہل سنت) کے بعض  علماء نے کہا ہے کہ عائشہ ، طلحہ اور زبیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

3- طلحہ نے ایک مزید علت کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ جمل کے ساتھ رسول خدا کی امت اصلاح اور خداوند کی اطاعت کا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔

4- علی کی خلافت تین گذشتہ خلفاء کی طرح نہیں تھی، اسلیے انکی نظر میں علی کی خلافت کی شرعی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں تھی۔

5- علی اپنے کاموں میں طلحہ اور زبیر سے مشورہ نہیں کرتے تھے۔

ب: علی ابن ابی طالب(ع) کی نظر میں جنگ جمل کے علل و اسباب:

1- طلحہ و زبیر کا قدرت طلب ہونا:

 امير المؤمنين على (ع) نے کتاب نہج البلاغہ کے خطبہ 148 میں فرمایا ہے کہ:

طلحہ اور زبیر میں سے ہر ایک حکومت کو حاصل کرنے کی سوچ و فکر میں ہے۔

2- طلحہ و زبیر کا عہد و پیمان شکن ہونا:

اميرالمؤمنين على (ع) نے جنگ کے لیے تیار ہوتے وقت بار بار فرمایا تھا کہ طلحہ و زبیر نے اپنے عہد اور بیعت کو توڑ دیا ہے۔

3- پرانا بغض ، کینہ اور حسد:

یہ بات قابل انکار نہیں ہے کہ جنگ جمل برپا کرنے والوں کے دلوں میں علی کی نسبت بغض اور کینہ پایا جاتا تھا۔ خود اميرالمؤمنين على (ع) نے اس بغض و کینے کے اسباب کو ایسے بیان کیا ہے:

الف: رسول خدا کا اخوت کے علی کو انتخاب کرنا۔

ب: برتری علی بر ابوبکر

ج: مسجد نبوی کی طرف علی کے دروازے کا بند نہ ہونا۔

د: جنگ خیبر میں علم کا علی کے دست مبارک میں دیا جانا۔

ع: طلحہ و زبیر کا امیدوار ہونا کہ علی حکومتی امور میں ان سے مشور کریں گے اور نتیجے میں وہ ان دونوں کو حکومت میں اپنے ساتھ شریک بھی کریں گے، کہ جب انکی کوئی آرزو بھی پوری نہ ہوئی تو یہ سبب بنا کہ ان دونوں کے دلوں میں علی کے لیے دشمنی اور نفرت پیدا ہو گئی تھی۔

4- جنگ جمل ایجاد کرنے والوں کا منافق ہونا:

نفاق ، دو چہرے اور دو زبانوں والا ہونا، یہ وہ واضح علت ہے کہ جسکی طرف اميرالمؤمنين على (ع) نے معتدد مقامات پر اشارہ کیا ہے۔

5- اسلامی معاشرے کے امن کا تباہ ہونا:

جنگ جمل شروع کرنے والوں نے مکہ و مدنیہ سے فرار ہو کر شہر بصرہ میں جا کر قتل و غارت شروع کر دی تھی۔ اميرالمؤمنين على (ع) کا خلیفۃ المسلمین ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے عائشہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سے جنگ کرنا، واجب ہو گیا تھا۔

6- عائشہ، طلحہ اور زبیر کا اپنے کیے پر پردہ ڈالنا:

اميرالمؤمنين على (ع) نے کتاب نہج البلاغہ کے خطبہ 137 میں فرمایا ہے کہ:

وہ (عائشہ، طلحہ اور زبیر) اس خون کا انتقام اور بدلہ لینا چاہتے ہیں کہ جو خود انھوں نے بہایا ہے۔

جب عثمان کی بدعتوں سے تنگ آ کر اصحاب نے اسکے گھر کا محاصرہ کیا تو، عائشہ اسکے قتل کا فتوا دے کر مکے حج کرنے کے لیے چلی گئی۔ ابھی وہ مکے میں ہی تھی کہ اس نے عثمان کے قتل ہونے کی خبر سن لی تھی، لیکن اسکو یہ معلوم نہ ہوا کہ عثمان کے بعد مسلمانوں نے کس کی بیعت کر کے اسے مسند خلافت پر بٹھایا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے مکہ سے واپس مدینہ جانے کا ارادہ کیا۔ مکہ سے واپسی کے راستے میں ایک مقام پر اسکی ملاقات ابن ام کلاب نامی ایک شخص سے ہوئی۔ عائشہ نے اس سے مدینہ کے حالات کے بارے میں پوچھا تو اس شخص نے کہا: خلیفہ عثمان کے گھر کا محاصرہ 80 دن تک جاری رہا، آخر کار وہ اب قتل ہو گیا ہے اور چند دنوں کے بعد لوگوں نے علی کی بیعت کر کے اسے خلیفہ بنا دیا ہے۔

جونہی عائشہ نے سنا کہ انصار و مہاجرین نے اتفاق کر کے علی کو خلیفہ بنا دیا ہے تو بہت سخت غصے میں آ گئی اور غضبناک حالت میں کہا کہ: اے کاش اس خبر کو سننے سے پہلے آسمان میرے سر پر گر کر تباہ ہو جاتا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ میرے کجاوے اور سواری کو واپس مکے لے چلو۔ اس نے عثمان کے بارے میں گرگٹ کی طرح فوری رنگ بدلا اور کہا: خدا کی قسم عثمان کو ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا ہے اور میں اسکے قتل کا انتقام اسکے قاتلوں سے لے کر رہوں گی۔

ابن ام کلاب نے حیران و پریشان ہو کر عائشہ سے کہا: تم ہی ہو کہ جس نے سب سے پہلے مدینہ کے لوگوں سے کہا تھا کہ عثمان کافر ہو گیا ہے اور اب اسکو قتل کرنا بھی واجب ہو گیا ہے۔ اب تم کو کیا ہوا ہے کہ تم نے اپنے پہلے فتوے کو تبدیل کر دیا ہے ؟ عائشہ نے جواب دیا: عثمان نے قتل ہونے سے پہلے توبہ کر لی تھی، تمام صحابہ اور لوگ عثمان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے تھے تو میں بھی اسکے بارے میں باتیں کرتی تھی، لیکن اب میری یہ بات ، میری پہلی باتوں سے بہتر اور ٹھیک ہے۔    

تاريخ طبري، ج 3، ص 172.

امیر المؤمنین علی (ع) کے ظاہری طور پر خلیفہ بننے کے بعد انکے مخالفین کا مرکز شہر مکہ قرار پایا۔ حضرت علی کے مخالفین میں وہ لوگ شامل تھے جو حضرت کی سخت عدالت سے ڈرتے تھے، خاص طور پر ان مخالفین میں عثمان کے دور خلافت کے فرماندار اور حکّام تھے کہ جہنوں نے عثمان کی حکومت میں خوب بیت المال کو لوٹا تھا، وہ جانتے تھے کہ اب علی ہماری تمام کی گئی خیانتوں کا سخت حساب لے گا اور ہم سے ہماری ساری دولت واپس لے کر دوبارہ مسلمانوں کے بیت المال میں پلٹا دے گا، اسی وجہ سے وہ سب کے سب شہر مکہ میں حرم امن الہی کا سہارا لے کر اکٹھے ہو گئے اور عائشہ کی سربراہی میں جنگ جمل کا منصوبہ بنانے لگے۔

جنگ جمل کے اخراجات کس کے ذمے تھے ؟

جنگ جمل کا تمام خرچہ عثمان کے دور خلافت کے ان حکّام کی گردن پر تھا کہ جہنوں نے اسکے دور حکومت میں مسلمانوں کے اموال کو غارت کر کے ہزاروں بلکہ لاکھوں درہم و دینار جمع کر لیے تھے اور ان سب کا عائشہ سمیت ایک ہی ہدف تھا اور وہ یہ تھا کہ امیر المؤمنین علی کی خلافت کو ان سے چھین کر اپنی پسند اور مرضی کے خلیفہ کو دی جائے تا کہ ابوبکر، عمر اور عثمان والے دور دوبارہ واپس لایا جا سکے۔ ان افراد میں مندرجہ ذیل کا نام لیا جا سکتا ہے:

1- عبد اللہ ابن ابی ربیعہ:

یہ عثمان کی طرف سے یمن کا حاکم تھا۔ وہ یمن سے عثمان کی مدد کرنے کی نیت سے خارج ہوا تھا، لیکن جب اسکو راستے میں ہی معلوم ہوا کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے تو وہ مدینہ جانے کی بجائے، مکہ چلا گیا۔ مکہ میں جب اسے پتا چلا کہ عائشہ لوگوں کو عثمان کے قتل کا انتقام لینے کے لیے تیار کر رہی ہے تو وہ مسجد الحرام میں داخل ہوا اور تخت پر بیٹھ کر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ:

جو بھی خلیفہ (عثمان) کے خون کا انتقام لینے کے لیے اس جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ، میں اسکو سارا خرچہ دوں گا۔ اسی عبد اللہ نے اپنی ناجائز اور حرام دولت کی وجہ سے بہت سے لوگوں جنگ جمل لڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔

2- یعلی ابن امیہ:

یہ لشکر عثمان کا سالار تھا۔ اس نے بھی عبد اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنگ جمل میں بہت زیادہ اپنی دولت خرچ کی تھی۔ اس نے 600 اونٹ خرید کر شہر مکہ سے باہر جنگ پر بھیجنے کے تیار کھڑے کر دئیے اور اسکے علاوہ 10 ہزار دینار بھی اس جنگ پر خرچ کیے تھے۔ جب امیر المؤمنین علی کو یعلی کی اس فضول خرچیوں کا علم ہوا تو فرمایا: ابن امیہ نے 10 ہزار درہم کہاں سے لائے ہیں ؟ اس نے حتمی طور پر مسلمانوں کے بیت المال سے چرائے ہوں گے۔ خدا کی قسم اگر وہ اور ابن ابی ربیعہ میرے ہاتھ آ گئے تو ان دونوں سے تمام دولت لے کر دوبارہ بیت المال میں واپس پلٹا دوں گا۔

تاريخ طبري، ج 3 ص 166.الجمل، شیخ مفید۔ ص 124-123.

تاريخ طبري، ج 3، ص 167.جھوٹی گواہی:

آخرکار لشکر عائشہ نے تیاری مکمل کر کے پیش قدمی شروع کی اور شہر بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے یہ لشکر حوأب کے مقام پر پہنچا۔ جب عائشہ اس مقام کے نام سے آگاہ ہوئی تو اس نے طلحہ کے بیٹے سے کہا کہ مجھے یہاں سے واپس جانا چاہیے، کیونکہ ایک دن رسول خدا نے اپنی سب بیویوں سے کہا تھا کہ:

میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے ایک حوأب کے مقام سے گزرے گی اور وہاں کے کتے اس پر بھونکے گے، پھر انھوں نے سب بیویوں میں سے میری طرف رخ کر کے فرمایا: اے حمیرا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عورت تم ہی نہ ہو۔ عائشہ کے بھانجے عبد اللہ ابن زبیر نے جھوٹی قسم کھائی کہ اس جگہ کا نام حوأب نہیں ہے۔ حوأب کے مقام سے تو ہم پہلی رات ہی گزر کر آئے گئے تھے۔ تاریخ اسلام میں اپنی نوعیت کی یہ جھوٹی گواہی ، بے مثل و بے مثال تھی۔ اسکے بعد لشکر عائشہ نے شہر بصرہ کی اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور آخرکار عثمان ابن حنیف کے شہر بصرہ میں لشکر عائشہ پہنچ ہی گیا۔ شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد، ج 9، ص 312.

عائشہ کے اونٹ کی ٹانگوں کو کاٹنا:

جنگ جمل کا واقعہ 10 جمادی الثانی سن 36 ہجری کو پیش آیا۔ بہت خطرناک اور خون ریز جنگ ہونے کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ، عائشہ کا ایجاد کردہ فتنہ خود عائشہ کے اونٹ کے ذبح ہونے اور اسکے کجاوے کے زمین بوس ہونے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ عائشہ اونٹ پر اپنے منحوس مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بیٹھی تھی، اور اس پر ہودج رکھ کر اس نے اس اونٹ کو ایک تقدس اور شرف دینا چاہا تھا۔ لشکر عائشہ نے اس ہودج کی حفاظت اور اسکو وسط میدان کھڑا رہنے دینے کے لیے بہت کوششیں کیں تھیں اور اسکے لیے بہت سے ہاتھ کٹ کر گر گئے، جب بھی ایک ہاتھ کٹ کر گرتا تھا تو فوری دوسرا ہاتھ عائشہ کے اونٹ کی لگام کو پکڑ لیتا تھا۔ (گویا فتنے اور فساد کی جڑ اس ہودج کے اندر بیٹھی ہوئی تھی) لیکن آخرکار اونٹ کی لگام پکڑنے والا کوئی نہ رہا اور اس خون خرابے کی صورتحال میں کوئی بھی اس اونٹ کی لگام تھامنے کے لیے راضی نہیں تھا۔ اسی کشمکش میں عبد اللہ ابن زبیر نے اپنی خالہ عائشہ کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، لیکن فورا شیر خدا کے شیر مالک اشتر نے عبد اللہ ابن زبیر پر حملہ کر کے اسے زمین پر دے مارا ، یہ منظر دیکھتے ہی لوگ عائشہ کے اونٹ سے دور بھاگ گئے۔ امیر المؤمنین علی شیر خدا حیدر کرار نے اس خطرے سے کہ لشکر دشمن دوبارہ اس اونٹ کی طرف پلٹ کر نہ آ جائے، حکم فرمایا کہ اس اونٹ کی ٹانگوں کو کاٹ دیا جائے، پس اونٹ زمین پر گرا اور ہودج سرنگون ہو گیا۔ امیر المؤمنین علی شیر خدا عائشہ کے کجاوے کے نزدیک آئے اور اس سے فرمایا: اے عائشہ کیا رسول خدا نے تمہیں اس کام کے کرنے کا حکم دیا تھا ؟ اس نے جواب دیا: اے ابو الحسن اب جبکہ تم فتح پا کر کامیاب ہو گئے ہو، مجھے معاف کر دو۔

تاريخ طبري، ج 3، ص 539

الجمل، ص 198-166.

حضرت علی (ع) نے جنگ ختم ہونے کے بعد عائشہ کو اسکے بھائی محمد ابن ابوبکر اور چند عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر ، انکے ساتھ مکہ واپس بھیج دیا۔۔۔۔۔

امیر المؤمنین علی کی عائشہ پر اتنی مہربانی کرنے اور حتی اسکی جان بخشنے کے باوجود ، جب عائشہ مدینہ واپس پہنچی تو اس نے امیر المؤمنین علی کے بارے میں گلہ شکوہ کرنا شروع کر دیا اور کہا: اس نے رسول خدا کی بیوی کو نامحرم مردوں کے ساتھ مدینہ واپس بھیجا ہے، لیکن جب اسکو پتا چلا کہ اسے مدینہ واپس لانے والی عورتیں تھیں کہ جو مرادنہ لباس میں تھیں تو پھر اس نے کہا: خدا ابو طالب کے بیٹے کو جزائے خیر دے کہ اس نے میرے بارے میں رسول خدا کی حرمت کا خیال رکھا ہے۔

تاريخ طبري، ج 2، ص 543.

جنگ جمل اصلی قصور وار کون، مولا علی (ع) یا عائشہ ؟

عائشہ نے کیوں حکم قرآن پر عمل نہیں کیا اور جنگ جمل کے شروع کرنے کا راستہ طلحہ ، زبیر اور دوسرے اصحاب کو کیوں دکھایا۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ:

وَ قَرْنَ في‏ بُيُوتِكُن‏ ،

اور رسول خدا کی ازواج اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں۔

سورہ احزاب آیت 33

ایک وہابی ناصبی ایک وہابی ڈش چینل میں جنگ جمل کے بارے میں ہانک رہا تھا کہ:

جنگ جمل میں علی ابن ابی طالب کا قصور ہے ، اسلیے کہ اسے عائشہ سے جنگ نہیں کرنی چاہیے تھی۔

اس تاریخ اسلام سے جاہل وہابی احمق کو جواب دینا چاہیے کہ: اگر تاریخ کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر کیا جائے گا تو روشن اور واضح ہو گا کہ یہ خود عائشہ تھی کہ امیر المؤمنین علی (ع) کی دشمنی میں بعض دوسرے بے دین صحابہ کی آلہ کار بنی اور انھوں نے بھی امت اسلام فتنہ اور فساد برپا کرنے کے لیے خوب عائشہ کو استعمال کیا۔ عائشہ کسطرح حق پر ہو سکتی ہے کہ اسی کی وجہ سے امیر المؤمنین علی اسلام کے اصلی اور پیدائشی دشمن معاویہ (لع) کا قلع قمع نہیں کر سکے اور اسکے علاوہ خود عائشہ کے اس جنگ جمل کے فتنے کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ مسلمان شہید و قتل کر دئیے گئے، اس لیے کہ کل قیامت والے دن ان ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا خون کس کی گردن پر ہو گا ؟ !!!

نکتہ اول:

رسول خدا (ص) سے حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس قوم کی راہنما عورت ہو، وہ قوم کبھی کامیاب اور سعادتمند نہیں ہو سکتی۔

کتاب صحیح بخاری میں ابوبکرہ صحابی سے نقل ہوا ہے کہ:

عن أبي بَكْرَةَ قال لقد نَفَعَنِي الله بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا من رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَيَّامَ الْجَمَلِ بَعْدَ ما كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ قال لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قد مَلَّكُوا عليهم بِنْتَ كِسْرَى قال لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً.

ابوبکرہ سے نقل ہوا ہے کہ: بے شک خداوند نے مجھے اس ایک بات سے فائدہ پہنچایا کہ جسکو میں نے جنگ جمل کے بارے میں، رسول خدا سے سنا تھا۔ بہت نزدیک تھا کہ جب میں بھی اصحاب جمل کے ساتھ مل کر جنگ میں شرکت کروں۔ جب رسول کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری (کسرا) کی بیٹی کو اپنے حاکم کے عنوان سے انتخاب کر لیا ہے، تو آپ (ص) نے فرمایا: جس قوم کی راہنما ایک عورت ہو، وہ قوم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

صحيح البخاري ج4، ص1610، ح4163،صحيح البخاري، ج6، ص2600، ح6686،

نکتہ دوم:

حتی خود اہل سنت کی معتبر کتب کے مطابق رسول خدا نے بہت تاکید کے ساتھ عائشہ کو جنگ جمل میں جانے سے منع کیا تھا۔ اب خود مسلمان بتائیں کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا نے ایک کام سے عائشہ کو سختی سے منع بھی کیا ہو اور عائشہ پھر بھی اس کام کو انجام دے اور حق پر بھی ہو ؟!!!

حدثنا أبو أُسَامَةَ قال حدثنا إسْمَاعِيلُ عن قَيْسٍ قال لَمَّا بَلَغَتْ عَائِشَةُ بَعْضَ مِيَاهِ بَنِي عَامِرٍ لَيْلاً نَبَحَتْ الْكَلاَبُ عليها فقالت أَيُّ مَاءٍ هذا قَالَوا مَاءُ الْحَوْأَبِ فَوَقَفَتْ فقالت ما أَظُنُّنِي إَلاَ رَاجِعَةً فقال لها طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ مَهْلاً رَحِمَك اللَّهُ بَلْ تَقْدُمِينَ فَيَرَاك الْمُسْلِمُونَ فَيُصْلِحُ اللَّهُ ذَاتَ بَيْنِهِمْ قالت ما أَظُنُّنِي إَلاَ رَاجِعَةً إنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال لنا ذَاتَ يَوْمٍ كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عليها كَلاَبُ الْحَوْأَبِ.

قيس ابن حازم سے نقل ہوا ہے کہ جب عائشہ شہر بصرہ کی طرف جاتے ہوئے، کنواں بنی عامر کے مقام پر پہنچی تو وہاں کے کتوں اس پر بھونکنا شروع کر دیا، اس پر عائشہ نے سوال کیا: یہ کونسا پانی ہے ؟ اسکو بتایا گیا کہ یہاں حوأب کے علاقے کا پانی ہے۔ یہ سن کر عائشہ کھڑی ہو گئی اور کہا مجھے یہاں سے واپس جانا چاہیے۔ طلحہ و زبیر نے اس سے کہا: خدا آپ پر رحمت کرے، تھوڑا صبر کریں، آپ آئی ہو تا کہ خداوند آپکے وسیلے سے مسلمانوں کے درمیان اصلاح کرے، عائشہ نے کہا: مجھے لازمی طور پر واپس جانا چاہیے، کیونکہ میں نے رسول خدا کو اپنی بیویوں سے فرماتے ہوئے سنا ہے تھا کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے ایک پر حوأب کے علاقے کے کتے بھونکیں گے تو اسکا کیا حال ہو گا ؟

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفى235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج7، ص536، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض،

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) قَالَ لِنِسَائِهِ: " أَيَّتُكُنَّ الَّتِي تَنْبَحُهَا كِلابُ مَاءِ كَذَا وَ كَذَا، إِيَّاكِ يَا حُمَيْرَاءُ " يَعْنِي عَائِشَةَ.

رسول خدا نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ: تم میں سے کون وہ ہو گی کہ جس پر فلان علاقے کے کتے بھونکیں گے ؟ اے حمیراء عائشہ ایسا نہ ہو کہ وہ تم ہی ہو۔

المروزي، أبو عبد الله نعيم بن حماد (متوفى288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص84، ح189، تحقيق: سمير أمين الزهيري، ناشر: مكتبة التوحيد - القاهرة،

نکتہ سوم:

اہل سنت کی معتبر کتب میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ: امیر المؤمنین علی ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور ہرگز حق سے جدا نہیں ہوں گے اور جہاں بھی علی ہوں گے، حق ان حضرت کے اردگرد گھومے گا۔ رسول خدا سے ایسے الفاظ عائشہ، طلحہ و زبیر کے لیے بالکل نقل نہیں ہوئے کہ حق عائشہ یا طلحہ یا زبیر کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،

حق علی کے ساتھ ہے اور ہرگز حق ان سے جدا نہیں ہو گا، والی روایت مختلف الفاظ کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئی ہے۔

فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) يَقُولُ لِعَلِيٍّ: "أَنْتَ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَكَ حَيْثُ مَا دَارَ "،

رسول خدا نے علی سے فرمایا کہ: اے علی آپ حق کے ساتھ ہو اور حق بھی آپکے ساتھ ہے، جہاں پر بھی آپ موجود ہو۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج20، ص361، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفى911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج4، ص258

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج1، ص168، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - و...

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية، ج7، ص234، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

آخر میں اہل سنت اور وہابیوں سے چند سوالات:

1- رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ علی (ع) سے جنگ کرنا، میرے ساتھ جنگ کرنا ہے:

أن النبي (ص) قال لعلي وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم : ' أنا حَرْبٌ لمن حاربَكم ، وسِلْمٌ لمن سالَمكم ' .

رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) سے فرمایا: میں اس سے جنگ کروں گا، جو آپ لوگوں سے جنگ کرے گا اور میں اس سے صلح کروں گا، جو آپ لوگوں سے صلح کرے گا۔

مسند ابن أبي شيبة  ج 1   ص 355/مصنف ابن أبي شيبة  ج 6   ص 378

فضائل الصحابة لابن حنبل  ج 2   ص 767 و 442/ سنن الترمذي  ج 5   ص 699

صحيح ابن حبان  ج 15   ص 434/المعجم الأوسط  ج 3   ص 179 ، ج 5   ص 182 ، ج 7   ص 197 /المعجم الكبير  ج 3   ص 40 ، ج 5 ص 184

اسد الغابة  ج 3   ص 9 /سير أعلام النبلاء  ج 2   ص 122 و ج 3 ص 358 و ج 10 ص 432

البداية والنهاية  ج 8   ص 36 و ص 205/مجمع الزوائد  ج 9   ص 169

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 8   ص 57  /جامع الأحاديث  ج 2   ص 188 وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه

هذا حديث حسن ،

المستدرك على الصحيحين  ج 3   ص 161

آپ لوگوں کی جنگ جمل و صفین کی آگ لگانے والوں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

اگر آپ لوگ رسول خدا (ص) کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے علی (ع) کے ساتھ ان دو جنگوں کو ، خود رسول خدا (ص) کے ساتھ جنگ مانتے ہیں تو پھر عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ کا کیا بنے گا ؟

کیا خود ان لوگوں نے اور خاص طور پر عائشہ نے اس مشہور حدیث کو رسول خدا سے نہیں سنا تھا ؟

2- اگر تم لوگ کہتے ہو کہ عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا تھا، لیکن اپنے اجتہاد میں خطا کی تھی تو اجتہاد تو وہ ہوتا ہے کہ جو قرآن و سنت کی روشنی میں کیا گیا ہو، تو اب بتائیں کہ انھوں نے ایسا اجتہاد قرآن کی کسی آیت اور کس حدیث کے مطابق کیا تھا ؟

یا آپ لوگ کہتے ہو کہ عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ نے رسول خدا (ص) کے فرمان : علی سے جنگ کرنا، میرے ساتھ جنگ کرنا ہے، کا انکار کر دیا تھا اور اپنی طرف سے علی کے ساتھ جنگ کرنے کے جائز ہونے کا فتوای دیا تھا، تو اس صورت میں تم لوگوں نے عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ کو رسول خدا (ص) کے مقابلے پر لاتے ہوئے، دین اسلام کے ناقص ہونے کا اعتراف اور رسول خدا (ص) کے آخری رسول ہونے کا انکار کیا ہے !!!

3- رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ خداوند کا فرمان ہے کہ:

من عاد لي وليا فقد آذنته بالحرب ،

جو بھی میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے تو میں خدا خود اسکے ساتھ اعلان جنگ کروں گا۔

صحیح البخاری ج 7 ص 190 ح 6502

کیا تم لوگ علی (ع) کو ولی خدا مانتے ہو یا نہیں ؟ اگر ولی خدا مانتے ہو تو اس صورت میں رسول خدا سے نقل ہونی والی حدیث کے مطابق، علی کے ساتھ جنگ کرنا، خود خداوند کے ساتھ جنگ کرنا ہے۔ پس اس صورت میں جنگ جمل اور جنگ صفین کا فتنہ برپا کرنے والوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ؟

یا تم لوگ سنت رسول کو رد کرتے ہوئے اور اپنی طرف سے سنت رسول کی خلاف عقل اور خلاف دین تاویل و توجیہ کرتے ہو‏ئے جنگ جمل اور جنگ صفین کا فتنہ برپا کرنے والے منافقین کے جرم کو کم رنگ کرنا چاہتے ہو اور جیسا کہ بیان ہوا اجتہاد کی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے، ان منافقین کے نامہ اعمال میں ثواب بھی لکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں تم اہل سنت اور وہابیوں نے خداوند کی عدالت میں دینے کے لیے کیا جواب تیار کر رکھا ہے ؟

4- جنگ جمل و علی کے مخالفین اور جنگ ردہ و ابوبکر کے مخالفین میں کیا فرق ہے ؟ ایک جنگ میں تو اجتہاد کا سہارا لے کر مخالفین کو ثواب عطا کرتے ہو اور دوسری جنگ میں شمشیر کا سہارا لے کر مخالفین کے سروں کو تن سے جدا کرتے ہو اور دین کے نام اپنے مخالفین کو قتل کر کے انکی عورتوں سے زنا کرتے ہو !!!

حالانکہ ابوبکر کے مخالفین دین سے مرتد نہیں ہوئے تھے اور خود ابوبکر کے اعتراف کے مطابق وہ لوگ رسول خدا کی رسالت، نماز اور زکات پر ایمان لاتے ہوئے ان سب کو قبول کرتے تھے، لیکن انھوں نے کہا تھا کہ ہم زکات تو پہلے بھی دیتے تھے اور اب بھی دیں گے، لیکن زکات ابوبکر کو نہیں دیں گے۔ ابوبکر نے کہا:

فقال أبو بَكْرٍ والله لَأُقَاتِلَنَّ من فَرَّقَ بين الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فإن الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ والله لو مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إلى رسول اللَّهِ صلى الله عليه و سلم لَقَاتَلْتُهُمْ على مَنْعِهَا ،

ابوبکر نے کہا خدا کی قسم جہنوں نے بھی نماز اور زکات کے درمیان فرق ڈالا تو میں انکے ساتھ جنگ کروں گا اور خدا کی قسم وہ جو کچھ بھی رسول خدا کو دیتے تھے، اس میں سے اگر انھوں نے کم ترین چیز بھی مجھے نہ دی تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔

صحيح البخاري  ج 2   ص 507

ابن کثیر دمشقی نے کہا ہے کہ:

یقرون بالصلاة ویمتنعون من أداء الزکاة ومنهم من امتنع من دفعها إلى الصدیق ،

(مخالفین ابوبکر) نماز کا اقرار کرتے تھے، زکات کو قبول کرتے تھے، لیکن زکات ادا کرنے سے انکار کرتے تھے اور بعض کہتے تھے کہ ہم زکات دیں گے لیکن ابوبکر کو زکات نہیں دیں گے۔ (یعنی ہم ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کرتے)

البدایة والنهایة، ج6، ص 311،

کتب میں ذکر ہوا ہے ابوبکر کے حکم کے مطابق ہزاروں مسلمان خالد ابن ولید کے ہاتھوں بے گناہ قتل کر دیئے گئے اور اسی خالد ملعون نے مالک ابن نویرہ کو قتل کیا اور اسی رات اسی کی بیوی کے ساتھ زنا کیا تھا۔

 





Share
1 | Ahmad | | ٠٠:٢٤ - ٢٩ November ٢٠١٨ |
ماشاءالله بہت ہی آعلیٰ اور تحقیق شدہ مضمون تھا جب پڑنے بیٹھا تو پورا ارٹیکل ہی پڑا۔

آج مجید ایک سوال کا اور جواب ملا کی یہ جنگے اجتہادی غلطی تھی اور اس پر بھی ثواب ملا ۔ میں بھی۔ یہی سوچتا تھا لیکن اب میری۔ اصلاح علمی طور پر ہو گیی خدا آپ کو سلامت رکھے ۔
شکریہ ۔ جزاکللہ

جواب:
سلام علیکم : بہت شکریہ ۔
اجتھاد کی دو قسم ہے ۔
 اجتھاد جائز اور شرعی :  قرآن و سنت سے شرعی احکام کا نکالنا ۔۔
 
 نص کے مقابلے میں اجتہاد :  یعنی شریعت کا حکم واضح ہے قرآن و  حدیث اس سلسلے میں موجود ہے لیکن ایک آدمی قرآن کے حکم کو نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ میری نظر یہ حکم ایسا ہونا چاہئے اور وہ قرآن اور سنت میں موجود واضح حکم کے مقابلے میں اپنی نظر دیتا ہے ۔۔۔ یہ اجتھاد جائز نہیں ہے یہ گناہ اور اللہ اور اللہ کے رسول ص کے حکم کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہے ۔۔۔
جیساکہ جنگ صفین وغیرہ میں امام علی ع کے مقابلے میں تلوار اٹھانا اور اپ سے دشمنی کرنا ایسا ہی ہے ۔۔۔کیونکہ رسول اللہ ص کے فرامین اس سلسلے میں بہت ہی واضح ہے اور امام علی ع کا حق پر ہونا اور اپ کے مقابل والے کے باطل ہونا رسول اللہ ص کے احادیث کی روشنی میں سب کے لئے واضح تھا لہذا یہ اجتھاد کی دوسری قسم ہے جو گناہ بلکہ اس سے بھی بالاتر  ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
2 | Aamir Saeed | | ٢١:٢٩ - ٢٥ November ٢٠١٩ |
شیعہ کائنات کا بد ترین کافر ہے.

جواب:
 سلام علیکم : 
جناب اگر ایسا ہے تو کیوں شیعہ ہر سال ہزروں کی تعداد میں حج کرنے جاتے ہیں اور شیعوں کے شانہ بشانہ اہل سنت کے مفتی اور مولوی حج کرتے ہیں ؟ کیا کافر کے لئے حج کرنے کی اجازت دینا قرآنی حکم کے خلاف نہیں ؟ سورہ توبہ کی تلاوت تو کرتے ہو؟
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی