2024 April 24
سعودی عرب اپنے فوجی دستے شام نہیں بھجوا سکتا: نوری المالکی
مندرجات: ١٥١٧ تاریخ اشاعت: ٢٦ April ٢٠١٨ - ١٨:٣٠ مشاہدات: 1299
خبریں » پبلک
سعودی عرب اپنے فوجی دستے شام نہیں بھجوا سکتا: نوری المالکی

عراق کے نائب صدر اول نے کہا ہے کہ سعودی عرب یمن کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور وہ اپنے دستے اس ملک میں روانہ نہيں کرسکتا / میری وزارت عظمی کے دوران شام کے بارے میں میرا حقیقت پسندانہ موقف مختلف عرب ممالک کی طرف سے میری مخالفت کا باعث بنا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جاثیہ کے مطابق، عراق کے نائب صدر اول اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی نے المیادین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب انھوں نے شام کے بارے میں حقیقت پسندانہ موقف اپنایا اور کہا کہ شام کا عدم استحکام عرب دنیا میں جنگ کا سبب بنے گا تو بعض عرب ممالک میری مخالفت پر اتر آئے۔

انھوں نے عراق کے اگلے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں کہا: ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ اگلی حکومت عوام کی خدمت کرے اور انہیں امن و سلامتی فراہم کرے۔

انھوں نے کہا: بعض لوگ میرے خلاف ہیں کیونکہ میں عراق سے امریکی افواج کے انخلاء پر زور دیتا ہوں اور علاقائی مسائل میں میرا اپنا موقف ہے۔

انھوں نے کہا: بڑی طاقتوں نے شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے منصوبہ بندی کی تھی لیکن میں نے ان سے کہا تھا کہ شام کی حکومت کا زوال پورے علاقے میں جنگ کا باعث ہوگا اور میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دوں گا۔

عراق کے نائب صدر اول نے کہا: میں نے ان ممالک سے کہا تھا کہ ہم اپنی افواج دمشق پر دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے اور شام کی حکومت بچانے کے لئے اس ملک میں بھجوانے کے لئے تیار ہیں۔

انھوں نے یہودی ریاست کے حوالے سے کہا: ہم یہودی ریاست کے مسئلے میں کسی کے ساتھ بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے جبکہ بعض کرد جماعتیں اس ریاست کے ساتھ اپنے تعلق کا انکار نہیں کررہی ہیں۔

انھوں نے عراق ـ سعودی تعلقات کے بارے میں کہا: سعودیوں نے ہمارے ساتھ تعلق تو استوار کرلیا ہے لیکن عراق کے سلسلے میں سعودی نقطہ نظر میں کوئی فرق نہیں آیا؛ سعودی شام اور لبنان کی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں بھی ناکام ہوچکا ہے۔ جب سے سعودیوں کو اپنی شکست کا اندازہ ہوا ہے اس نے اپنا راستہ بدل دیا ہے۔ عراق میں اگر سعودی عرب فرقہ وارانہ انداز فکر کو ترک کردے اور دہشت گردوں کی حمایت چھوڑ دے تو ہم سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خیر مقدم کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ نجف اشرف اور بصرہ میں قونصل خانے قائم کرے اور اس وقت سعودی نمائندے عراق کے بعض حکام اور قبائل کے سربراہوں سے ملاقات کے خواہاں ہیں اور سعودی حکمران اس ذریعے سے عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ مثبت روابط کے خواہاں ہیں جس طرح کے ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ بھی مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا: میں نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں امریکہ سے کہا تھا کہ شام، لیبیا نہیں ہے، شام علاقے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے؛ اور اب بھی ان سے کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنی فوج کو شام سے نکالنا چاہتا ہے تو یہ معقول نہيں ہے کہ وہ اپنے مورچے سعودی دستوں کے سپرد کرے۔

عراق کے سابق وزیر اعظم نے کہا: میں نہيں سمجھتا کہ سعودی عرب شام میں اپنی فوجیں بھیج سکے گا کیونکہ وہ یمن کے بحران میں غرق ہوچکا ہے۔

انھوں نے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا: سعودی عرب کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ یمن کے نہتے عوام اور شہری علاقوں کو نشانہ بنائے۔ میں سعودیوں اور قطریوں سے کہتا ہوں کہ اگر انھوں نے اپنی افواج شام بھجوایا تو انہیں مجاہدین کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور انہیں اب مان لینا چاہئے کہ شام کا مسئلہ سیاسی طور طریقوں سے حل ہوگا۔




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات