مختار ابن ابی عبید ثقفی پہلی صدی ہجری قمری کے تابعین میں سے تھا، جو طائف کا رہنے والا تھا۔ جو امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا انتقام لینے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ مسلم ابن عقیل جب امام حسین (ع) کے سفیر کے عنوان سے کوفہ آئے تو مختار نے انکی میزبانی کی لیکن حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت کے وقت مختار عبید اللہ ابن زیاد جو اس وقت کوفہ کا والی تھا، کے زندان میں قید تھا۔
مختار نے اپنے قیام کے ذریعے واقعہ عاشورا اور امام حسین (ع) کے قتل میں ملوث بہت سے مجرموں کو قتل کیا۔ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کے قیام کو امام زین العابدین (ع) کی تائید بھی حاصل تھی۔ مختار نے قیام کی کامیابی کے بعد کوفہ پر اپنی حکومت قائم کی اور 18 ماہ حکومت کے بعد مصعب ابن زبیر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کی قبر مسجد کوفہ میں مسلم ابن عقیل کی قبر کے ساتھ واقع ہے۔
نسب اور لقب:
مختار ابن ابی عبیدہ ابن مسعود ابن عمرو ابن عمیر ابن عوف ابن عقدہ ابن غیرۃ ابن عوف ابن ثقیف ثقفی کہ جن کی کنیت ابو اسحاق اور لقب کیسان تھا۔
أسد الغابۃ ج4 ص 346
تاریخ طبری، ج 6 ص 7
کہا جاتا ہے کہ فرقہ کیسانیہ مختار سے منسوب تھا۔
وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج 4 ص172
کیسان زیرک و باہوش کے معنی میں ہے۔
اصبغ ابن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ:
ایک دن حضرت علی (ع) نے جب مختار بچپنے کی عمر تھا، اپنے زانو پر بٹھایا ہوا تھا اور اسے کیس کا لقب دیا۔ چون حضرت علی (ع) نے دو دفعہ اسے کیس کہہ کر پکارا اسی وجہ سے انہیں کیسان کہا جاتا تھا۔
معجم الرجال، ج 18 ص 102
بعض کا خیال ہے کہ کیسان کا لقب ان کے کسیی کمانڈر اور مشاور کے نام سے لیا گیا ہے، جسکی کنیت ابو عمرہ کیسان تھا۔
رجال کشی، ص 128
مختار اہل طائف اور قبیلہ ثقیف سے تھا۔ ان کا دادا مسعود ثقفی حجاز کے بزرگان میں سے تھا اور عظیم القریتین کے لقب سے مشہور تھا۔
الطبقات الکبری، ج 2 ص 79
المعارف،متن، ص 400
مختار کا والد ابو عبید پیغمبر اکرم (ص) کے بڑے صحابہ میں سے تھا۔
أسد الغابۃ،ج 4 ص 347
پیغمبر اکرم (ع) کی رحلت کے بعد عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 1، ص356
انکی ماں ددومہ بنت عمرو ابن وہب تھی۔ ابن طیفور نے انہیں بلاغت و فصاحت کا حامل قرار دیا ہے۔
ریاحین الشریعۃ، ج 4 ص 245
ان کے چچا سعد ابن مسعود ثقفی، امام علی (ع) کی طرف سے مدائن کا والی منصوب ہوا تھا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 1 ص 616
الإصابۃ، ج 1 ص561
ان کے بھائی وہب، مالک اور جبر اپنے والد کے ساتھ جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے تھے۔
الفتوح،ج 1 ص 134
الإصابۃ،ج 1 ص 561
زندگی نامہ اور کارنامے:
مختار ہجرت کے پہلے سال متولد ہوئے۔
أسد الغابۃ،ج 4 ص 347
الکامل،ج 2 ص 111
مختار کی بچپن کے زمانے کے بارے میں کوئی دقیق معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہیں اور ان کے بارے میں جو معلومات ثبت ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق امام حسین (ع) کا انتقام لینے کی خاطر چلانے والی ان کی تحریک کے دوران سے ہے۔ اس لیے ان کی شخصی زندگی سے متعلق بہت ہی کم روایات نقل ہوئی ہیں۔
جنگوں میں شرکت:
کہا جاتا ہے کہ مختار نے 13 سال کی عمر میں جنگ جسر میں شرکت کی جسمیں انہیں اپنے والد اور تین بھائیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کم عمری کے باوجود مختار اس جنگ میں میدان میں جانا چاہتے تھے، لیکن ان کے چچا سعد ابن مسعود نے انہیں اس کام سے روکے رکھا۔
بحار الأنوار، ج 45 ص 350
مدائن کی زندگی:
مختار کے چچا سعد ابن مسعود جو حضرت علی (ع) کی طرف سے مدائن میں گورنر منصوب ہوا تھا، نے خوارج کے ساتھ جنگ میں مختار کو مدائن میں اپنا جانشین مقرر کیا اور خود جنگ کیلئے نہروان کی طرف چلے گئے۔
اخبار الطوال/ترجمہ،ص: 250
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 1 ص 629
صلح امام حسن (ع):
امام علی (ع) کی شہادت کے بعد امام حسن (ع) نے معاویہ (لع) کے ساتھ جنگ میں اپنے بعض سپاہیوں کی خیانت اور غداری کے سبب اپنے بعض اصحاب کے ساتھ مدائن تشریف لائے۔ امام حسن (ع) مدائن میں سعد ابن مسعود ثقفی کے ہاں ٹہرے چونکہ وہ امام کی طرف سے مدائن پر حاکم تھا۔ بعض مؤرخین کے مطابق مختار نے اپنے چچا سے کہا:
آیا مال ثروت اور مقام و منصب چاہتے ہو ؟
پوچھا گیا کس طرح ؟
کہا حسن ابن علی (ع) کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کر دو اور جو چاہے لے لو !
ان کے چچا نے کہا تم پر خدا کی لعنت ہو ! تم کتنے برے آدمی ہو ! کیسے ہم فرزند پیغمبر کو دشمن کے حوالے کر سکتے ہیں۔
شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص159، نقل از
طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج 7 ص 2
و ابناثیر، الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 404
آیت اللہ خوئی اس حدیث کے مرسل ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے ۔
اور فرماتے ہیں کہ: اگر حدیث صحیح بھی ہو تو ممکن ہے مختار نے دل سے نہ کہا ہو بلکہ شاید وہ اپنے چچا کو آزمانا چاہتے تھے۔
معجم الرجال، ج 18 ص 97
سید محسن امین نیز اس عقیدے سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ مختار اپنے چچا کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ کس قدر امام (ع) کے ساتھ دوستی اور محبت رکھتے ہیں۔
اعیان الشیعہ، ج 7 ص 230
معاویہ (لع) کا دور:
شمس الدین ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتا ہے کہ:
معاویہ کے دور میں مختار امام حسین (ع) کے حق میں بعض کام انجام دیتا تھا۔ ذہبی کے بقول معاویہ کے دور میں بصرہ جا کر بصرہ والوں کو امام حسین (ع) کے حق میں آمادہ کرتا تھا۔ اس وقت عبید اللہ ابن زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ میں بعنوان گورنر منصوب تھا، نے مختار کو گرفتار کر کے 100 کوڑے لگائے، جس کے بعد مختار طائف واپس آ گئے۔
ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج 3 ص 544
قیام امام حسین (ع):
مختار کے واقعہ کربلا میں شریک نہ ہونے کے بارے میں تاریخی منابع میں مختلف افوائیں موجود ہیں لیکن جو چیز یقینی اور زیادہ اطمینان بخش نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ:
اس واقعے میں اس کی غیر حاضری اختیاری نہیں تھی بلکہ کوفہ میں امام حسین (ع) کے سفیر مسلم ابن عقیل کا ساتھ دینے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف اقدامات کرنے کے جرم میں، آپ کو عبید اللہ ابن زیاد نے قید کر رکھا تھا۔
جناب مسلم (ع) مختار کے گھر میں:
حضرت مسلم ابن عقیل کی کوفہ آمد کے موقع پر مختار ان افراد میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے حضرت مسلم کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسی وجہ سے حضرت مسلم جب کوفہ میں آئے تو مختار کے گھر تشریف لے گئے۔جب عبید اللہ ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ حضرت مسلم کی مخفی گاہ مختار کا گھر ہے تو وہ وہاں سے ہانی ابن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔
الکامل،ج 4 ص 36
الأخبارالطوال، ص: 231
ابن قتیبۃ الدینوری، الأخبار الطوال، ص 231
مسعودی، ج 3 ص 252
جناب مسلم (ع) کی حمایت:
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ مختار ہمیشہ حضرت مسلم کی حمایت کیلئے تیار تھا اور حضرت مسلم کی شہادت کے دن بھی مختار کوفہ سے باہر ایک مقام پر آپ کی حمایت اور دفاع کیلئے افراد کی جمع آوری میں مشغول تھا۔ مختار جب کوفہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت مسلم اور ہانی ابن عروہ دونوں شہید ہو چکے تھے۔
أنساب الأشراف،ج 6 ص 376
تاریخ الطبری، ج 5 ص 569
روز عاشورا اور مختار کی عدم حاضری:
حضرت مسلم اور ہانی ابن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد مختار کو بھی شہید کرنا چاہتا تھا، لیکن عمرو ابن حریث کی وساطت سے مختار کو امان مل گئی لیکن ابن زیاد نے تازیانے کے ذریعے سے مختار کی ایک آنکھ کو زخمی کر کے اسے زندان روانہ کر دیا۔ یوں مختار امام حسین (ع) کے قیام کے اختتام تک کوفہ میں ابن زیاد کے زندان میں قید تھا۔
أنساب الأشراف،ج 6 ص 377
المنتظم،ج 6 ص 29
سر امام حسین (ع) کی زیارت:
واقعہ کربلا کے بعد جب اسراء کو کوفہ لایا گیا تو ابن زیاد نے امام حسین (ع) کے حامیوں منجملہ مختار کو امام حسین (ع) کے سر کو دکھانے کیلئے دربار میں بلایا۔ اس موقع پر مختار اور ابن زیاد کے درمیان تلخ کلمات کا تبادلہ ہوا اور مختار نے امام (ع) کا سر دیکھنے کے بعد بہت گریہ و زاری کی اور اپنے سر پر مارنے لگا۔
با کاروان حسینی،ج 5 ص 140
واقعہ کربلا کے بعد عبد اللہ ابن عمر کی وساطت سے یزید نے مختار کو آزاد کر دیا کیونکہ مختار کی بہن یعنی صفیہ بنت ابو عبید، عبد اللہ ابن عمر کی زوجہ تھی۔ اس کے کہنے پر اس نے یہ وساطت کی تھی۔البتہ عبید اللہ ابن عمر نے آزادی کے وقت مختار سے یہ عہد لیا کہ تین دن سے زیادہ کوفہ میں قیام نہیں کریگا اور اگر تین دن کے بعد اسے کوفہ میں دیکھا گیا تو وہ خود اپنے خون کا ذمہ دار ہو گا۔
المنتظم،ج 6 ص 29
عبداللہ ابن زبیر کی بیعت:
ابن زیاد کی قید سے آزادی کے بعد مختار مکہ چلا گیا اور وہاں پر ابتداء میں عبداللہ ابن زبیر ناصبی کی بیعت کی، اس شرط پر کہ کاموں میں اس سے مشورت کریگا اور بغیر مشورے کے کوئی کام انجام نہیں دیگا اور اس کی مخالفت نہیں کریگا۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج 2 ص 907
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج 2 ص 37
جب یزید کے سپاہیوں نے مکہ پر حملہ کر کے اسے محاصرے میں لیا تو مختار نے عبد اللہ ابن زبیر کے ساتھ یزید کی فوج سے مقابلہ کیا۔ لیکن جب عبد اللہ ابن زبیر نے خلافت کا دعوا کیا تو مختار اس سے جدا ہو گیا اور کوفہ جا کر اپنے قیام کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج 2 ص 910
مختار یزید کی ہلاکت کے 6 ماہ بعد اور ماہ مبارک رمضان کی 15 تاریخ کو کوفہ واپس پہنچ گیا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 2 ص 43
ابن زبیر نے عبد اللہ ابن مطیع کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو، مختار نے اس سے مقابلہ کر کے کوفہ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 2 ص 44
آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج 2 ص 911
مختار اور توّابین کا قیام:
مختار توابین کے قیام کو بے فائدہ سمجھتے تھے، اسی وجہ سے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ مختار سلیمان ابن صرد خزاعی کو جنگی فنون سے نا آشنا سمجھتے تھے۔
المنتظم،ج 6 ص 29
جب مختار نے توابین کا ساتھ نہ دیا تو توابین کے 16000 کے لشکر کہ جنہوں نے سلیمان ابن صرد خزاعی کی بیعت کی تھی، میں سے تقریبا 4000 ہزار کے لشکر نے بھی سلیمان سے اپنی بیعت واپس لے لی، چونکہ یہ لوگ بھی سلیمان کو جنگی فنون میں ماہر نہیں سمجھتے تھے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج 2 ص 43
البتہ مختار توابین کے قیام کے دوران دوبارہ زندان میں تھے۔ توابین میں سے بعض لوگ، اسے زندان سے طاقت کے زور پر آزاد کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ان کو منع کیا اور کہا وہ عنقریب زندان سے آزاد ہو جائے گا۔ اس دفعہ بھی مختار عبد اللہ ابن عمر کے ذریعے سے آزاد ہوا تو اس وقت توابین شکست سے دوچار ہو گئے تھے۔ یوں مختار نے خطوط کے ذریعے توابین کے بازماندگان سے اظہار ہمدردی کیا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج 2 ص 44
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج 2 ص 44
قیام مختار:
14 ربیع الاول سن 66 ہجری قمری کو مختار نے امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا بدلہ لینے کی نیت سے قیام کا آغاز کیا تو کوفہ کے شیعوں نے بھی مختار کا ساتھ دیا۔ مختار کہا کرتا تھا کہ خدا کی قسم اگر قریش کا دو تہائی حصہ بھی قتل کیا جائے تو امام حسین (ع) کی ایک انگلی کے برابر بھی نہیں ہو گا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 2 ص 44
الفخری،ص: 122
مختار نے اس قیام کے دوران شمر ابن ذی الجوشن، خولی ابن یزید، عمر ابن سعد اور عبید اللہ ابن زیاد جیسے ظالمین اور فاسقین افراد کو کہ جو کربلا کے واقعے میں خود شریک یا انکا اس واقعے سے تعلق تھا، کو واصل جہنم کیا۔
أسدالغابۃ،ج 4 ص 347
اس قیام میں ابراہیم ابن مالک اشتر نے بھی مختار کا ساتھ دیا اور وہ مختار کی فوج کا سپہ سالار تھا اور اس نے عبید اللہ ابن زیاد کو موصل میں واصل جہنم کیا تھا۔
أسدالغابۃ،ج 4 ص 347
جب مختار نے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کا سر محمد ابن حنفیہ کے لیے بھیجا تو اس وقت آپ مسجد الحرام میں کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ جس وقت امام حسین (ع) کا سر عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تھا تو وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا اور جب ابھی اس کا سر ہمارے پاس بھیجا گیا ہے تو ہم بھی ایسی ہی حالت میں تھے۔ اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اس کا سر مسجد الحرام میں لٹکایا جائے تا کہ ہر ایک اسے مشاہدہ کر سکے۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج 2 ص 913
قیام مختار کا نعرہ:
مختار نے اس قیام میں دو نعروں یا لثارات الحسین اور یا منصور امت کا استعمال کیا۔ مختار نے جنگی لباس زیب تن کرتے وقت انہی دو نعروں کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو جنگ کی اطلاع دی۔ البتہ ان دو نعروں کا اس سے پہلے بھی استعمال ہوا تھا "یا منصور امت" پہلی بار جنگ بدر میں جبکہ "یا لثارات الحسین" کے نعرے کا استعمال اس سے پہلے توابین کے قیام میں استعمال ہوا تھا۔ اسی طرح جب عمر ابن سعد مارا گیا تو کوفہ والوں نے بھی "یا لثارات الحسین" کا نعرہ لگایا تھا۔
أنساب الأشراف،ج 6 ص 390
تاریخ الطبری،ج 6 ص 20
الفتوح،ج 6 ص 233
أنساب الأشراف،ج 6 ص 370
أنساب الأشراف،ج 6 ص 407
مختار کا انجام:
مختار ثقفی اپنے قیام کے بعد 18 ماہ کوفہ پر حکومت کرنے اور تین گروہ شام میں بنی امیہ، حجاز میں آل زبیر اور کوفہ کے سرداروں سے جنگ کرنے کے بعد آخر کار 14 رمضان سن 67 ہجری قمری کو 67 سال کی عمر میں مصعب ابن زبیر کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ مصعب کے حکم پر مختار کا ہاتھ کاٹ کر مسجد کوفہ کی دیواروں کے ساتھ کیل کے ذریعے سے لٹکا دیا گیا لیکن جب حجاج ابن یوسف کوفہ پر قابض ہوا تو چونکہ وہ بھی قبیلہ ثقیف سے تھا، اس بناء پر اس نے مختار کے ہاتھوں کو دفن کرا دیا۔
المنتظم،ج 6 ص 68
أسد الغابۃ،ج 4 ص 347
المعرفۃ و التاریخ،ج 3 ص 330
الکامل،ج 4 ص 275
مختار کے بعد ان کے حامی جنکی تعداد 6000 تھی اور انھوں نے مصعب کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے، مصعب نے امان دینے کا وعدہ دیا تھا لیکن اس ملعون نے وعدے کی مخالف کرتے ہوئے، سب کے سروں کو کاٹ کر بدن سے جدا کر دیا۔
أخبار الدولۃ العباسیۃ،ص 182
مصعب ابن زبیر کا یہ کام اتنا وحشت ناک تھا کہ جب عبد اللہ ابن عمر نے اس سے ملاقات کی تو کہا کہ یہ 6000 ہزار کی تعداد اگر تمہارے باپ کی بھیڑ بکریاں بھی ہوتیں تو تم ان سب کے سروں کو بھی کاٹتے تو پھر بھی اس کام کو اسراف (فضول خرچی) کہا جانا تھا، اب جبکہ تم نے بھیڑ بکریوں کے نہیں بلکہ اتنی تعداد میں انسانوں کے سر کاٹے ہیں !
أنساب الأشراف،ج 6 ص 445
مختار کی بیوی کا قتل:
مصعب ابن زبیر نے نعمان ابن بشیر کی بیٹی عمرہ جو کہ مختار کی بیوی تھی، کو مختار سے بیزاری اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن اس نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تو مصعب نے اسے قتل کر دیا۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: مصعب نے عمرہ سے کہا کہ مختار کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ عمرہ نے بڑی جرات سے کہا کہ وہ ایک پرہیزگار آدمی تھا اور ہر روز روزہ رکھتا تھا۔ اس پر مصعب نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اور اسلام میں یہ پہلی خاتون تھی کہ جسکی تلوار کے ذریعے سے گردن اڑا دی گئی تھی۔
تاریخ الیعقوبی،ج 2 ص 264
قیام مختار کے علل و اسباب:
جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس قیام میں مختار کا نعرہ یا لثارات الحسین تھا اور ظاہرا اس نے کربلا کے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے قیام کیا تھا۔ لیکن بعض لوگوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مختار کا یہ نعرہ صرف ایک بہانہ تھا اور اس نے اس نعرے سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کیلئے راہ ہمورا کی تھی۔ اس حوالے سے مختار کے ساتھ اہل بیت اطہار (ع) کی بعض شخصیات کا رابطہ اور ان حضرات کا مختار کے بارے میں جو نظریات ہیں، کہ جو اس تاریخی خدشے اور ابہام کو دور کر دیتے ہیں۔
مختار کا امام سجاد (ع) سے رابطہ:
امام سجاد (ع) کے مختار کے ساتھ رابطہ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض روایات میں امام سجاد (ع) کے مختار کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہونے اور امام (ع) کا اس کے قیام کی حمایت نہ کرنے کی بات نظر آتی ہے۔ یہ حضرات اس بات کی دلیل کو امام کی طرف سے مختار کے بھیجے ہوئی ہدایا کی واپسی قرار دیتے ہیں۔
بحار الانوار، ج 45 ص 344
معجم الرجال ج 18 ص 96
جبکہ اس کے مقابلے میں بعض اخبار اس بات پر زور دیتی ہے کہ امام (ع) نے مختار کے قیام کی تائید کی تھی۔ لیکن بنی امیہ اور آل زبیر نے جو حالات اسلامی ملکوں میں ایجاد کر رکھے تھے، اس وجہ سے آپ (ع) کھل کر مختار کی حمایت نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لیے آپ (ع) نے اپنے چچا "محمد ابن حنفیہ" کو اپنا نائب بنایا تھا اور مختار کو ان کی طرف رہنمائی اور رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس قول کی بناء پر مختار نے 20 ہزار دینار امام سجاد (ع) کی خدمت میں بھیجے اور امام نے اسے قبول کیا اس کے ذریعے عقیل ابن ابی طالب اور دوسرے بنی ہاشم کے خراب شدہ گھروں کی تعمیر فرمائی تھی۔
معجم الرجال ج 18 ص 96
اسی طرح مختار نے 30 ہزار درہم میں ایک کنیز خرید کر امام سجاد (ع) کو ہدیہ دیا تھا کہ جس کے بطن سے زید ابن علی متولد ہوئے تھے۔
مقاتل الطالبیین،ص 124
اسی حوالے سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: کوفہ کے اشراف میں سے بعض امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (ع) سے مختار کے قیام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں بھی "محمد بن حنفیہ" کی طرف بھیجا اور فرمایا: اے میرے چچا ! اگر کوئی سیاہ فارم غلام بھی ہم اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی ہر ممکن حمایت کریں۔ اس بارے میں آپ جو کچھ مصلحت جانتے ہیں، انجام دیں۔ میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں۔
آیت اللہ خوئی اور عبد اللہ مامقانی نے قیام مختار کو امام زین العابدین کی خاص اجازت کے ساتھ انجام پانے کی تصریح کی ہے۔
بحار الأنوار، ج 45 ص 365
ریاض الأبرار ج 1 ص 298
معجم الرجال، ج 18 ص 100
تنقیح المقال، ج 3 ص 206
مختار کا محمد ابن حنفیہ سے رابطہ:
بعض روایات کے ظاہر سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مختار لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی امامت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اسے " امام مہدی " کے نام سے پکارتے تھے۔ لیکن اربلی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں اس رابطے کو ظاہری اور مختار کے قیام میں محمد ابن حنفیہ کی دخالت کو امام زین العابدین (ع) کے زمانے کے مخصوص حالات کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔
کشفہ الغمہ، ص 254
محمد ابن اسماعیل مازندرانی حائری اپنی کتاب منتہی المقال میں مختار کی محمد ابن حنفیہ کی امامت پر عقیدہ رکھنے کو قبول نہیں کرتے اور اسے امام سجاد (ع) کی امامت کے قائلین میں سے قرار دیتے ہیں۔
منتہی المقال کملہ مختار ص 65
نجات محمد ابن حنفیہ:
عبد اللہ ابن زبیر ناصبی کو جب مختار کے قیام کا علم ہوا تو اس نے " محمد ابن حنفیہ" اور ان کے قریبی افراد کو مجبور کرنے لگا تا کہ اس کی بیعت کریں، بصورت دیگر انہیں زندہ جلائے جانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ محمد ابن حنفیہ نے مختار کو ایک خط لکھا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ مختار نے 400 افراد پر مشتمل ایک گروہ کو مکہ روانہ کیا اور محمد ابن حنفیہ کو نجات دلا کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔
أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص 100
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج 2 ص 911
مختار کے بارے میں مختلف نظریات:
مختار احادیث کی روشنی میں:
مختار کے بارے میں موجود احادیث دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم میں مختار کی مدح سرائی کی گئی ہے، تو دوسری قسم میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔
احادیث مدح:
امام سجاد (ع) نے خدا سے مختار کے کام کے بدلے میں اسے جزائے خیر کی دعا دی ہے۔
رجال کشی، ص 127
تنقیح المقال، ج 3 ص 204
امام باقر (ع) نے مختار کے بیٹے ابو الحکم سے جب ملاقات کی تو اس کی عزت و احترام کے بعد مختار کی بھی تعریف و تمجید کی اور فرمایا تمہارے والد پر خدا کی رحمت نازل ہو۔
تنقیح المقال ج 3 ص 205
عبد اللہ مامقانی امام (ع) کی مختار پر ترحم کو اس کے عقیدے کی صحت پر دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ائمہ (ع) کی رضایت اور خوشنودی خدا کی رضایت اور خوشنودی کے تابع ہے۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے منحرف نہیں تھا۔ اسی وجہ سے وہ ائمہ (ع) کی خوشنودی اور رضایت کے مستحق ٹھرے ہیں۔
تنقیح المقال ج 3 ص 205
امام صادق (ع) نے مختار کے توسط سے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کے سروں کو مدینہ بھیجنے کو موجب خوشنودی اہل بیت عصمت و طہارت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
واقعہ عاشورا کے بعد ہماری عورتوں میں سے کسی عورت نے خود کو زینت نہیں دی تھی، یہاں تک کہ مختار نے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کا سر مدینہ بھیجا۔
رجال کشی، ص 127
احادیث مذمت:
امام باقر (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ امام سجاد (ع) نے مختار کے قاصد سے ملاقات نہیں کی اور اسے کے بھیجے ہوئے تحفے تحائف کو واپس بھیج دیا اور اسے کذّاب یعنی جھوٹا خطاب کیا۔ اس روایت کو علماء رجال نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ مختار نے امام سجاد (ع) کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
معجم الرجال ج 18 ص 96
رجال کشی، ص 125
معجم الرجال، ج 18 ص 96
جس وقت امام حسن (ع) ساباط نامی جگہ پر تشریف فرما تھے تو مختار نے اپنے چچا سعد ابن مسعود کو امام کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کرنے کی تجویز دی تا کہ ہمارا مقام و منصب متزلزل نہ ہو۔
علل الشرائع، ج 1 ص 221
آیت اللہ خوئی نے اس حدیث کو مرسل ہونے کی وجہ سے اسے غیر قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ممکن ہے کہ مختار نے اس بات کو دل سے نہ کہا ہو بلکہ شاید وہ اپنے چچا کی رائے دریافت کرنا چاہتا تھا کہ وہ امام کے ساتھ کتنا سچا اور مخلص ہے۔
معجم الرجال ج 18 ص 97
سید محسن امین بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مختار اپنے چچا کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
اعیان الشیعہ ج 7 ص 230
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ مختار اہل جہنم میں سے ہے، لیکن امام حسین (ع) کی شفاعت کے ذریعے نجات پائے گا۔ یہ حدیث بھی علم رجال کے ماہرین کے نزدیک ضعیف ہے۔
تہذیب الأحکام ، ج 1 ص 466
معجم الرجال، ج 18 ص 97
مختار شیعہ علماء کی نظر میں:
شیعہ علماء میں سے بعض نے اسکی تعریف اور بعض نے اسکی مذمت کی ہے۔
حامی علماء:
ابن نما حلی معتقد ہیں کہ شیعہ ائمہ (ع) نے مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ امام سجاد (ع) کا مختار کے حق میں جزائے خیر کی دعا کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ امام (ع) کی نگاہ میں مختار ایک نیک اور پرہیزگار شخص تھا۔
بحار الأنوار، ج 45 ص 346
عبد اللہ مامقانی بھی مختار کو ائمہ معصومین (ع) کی امامت کا قائل انسان جانتا تھا اور اس کے قیام اور حکومت کو امام سجاد (ع) کی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مامقانی کے مطابق امام باقر (ع) کا مختار کیلئے طلب رحمت کرنا وہ بھی ایک ہی حدیث میں تین بار، مختار کی نیک نیتی اور نیک سیرتی کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
تنقیح المقال، ج 3 ص 206
علامہ حلی بھی مختار کے حوالے سے مثبت نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں مختار کا ذکر کیا ہے اور چونکہ علامہ حلی کسی غیر امامیہ کو حتی وہ کتنا مورد وثوق کی کیوں نہ ہو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کرتے۔ اس بناء پر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ علامہ حلی کی نگاہ میں مختار شیعہ اور امامی تھا۔
تنقیح المقال ج 3 ص 206
سید ابن طاووس نے بھی مختار کی مدح میں موجود روایات کو اس کی مذمت میں موجود روایات پر ترجیح دی ہے۔
تنقیح المقال ج 3 ص 206
معاصر علماء اور فقہاء جنہوں نے مختار کی مدح سرائی کی ہے، ان میں آیت اللہ خوئی اور علامہ امینی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خوئی مختار کے حوالے سے مدح اور مذمت والی احادیث کو جمع کرنے کے بعد مدح والی روایات کو مذمت والی پر ترجیح دیتے ہیں۔ آپ قیام مختار کو امام سجاد (ع) کی اجازت حاصل ہونے کے قائل ہیں۔
معجم الرجال الحدیث، ج 18 ص 94
معجم الرجال ج 18 ص 100
علامہ امینی نیز مختار کو ایک دیندار اور ہدایت یافتہ اور مخلص اشخاص میں شمار کرتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ امام سجاد (ع)، امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) نے مختار کیلئے رحمت کی دعا کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ائمہ میں سے امام باقر (ع) نے نہایت خوبصورت انداز میں مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔
الغدیر ج 2 ص 343
توقف کرنے والے علماء:
میرزا محمد استرآبادی معتقد ہیں کہ مختار کی مذمت نہیں کرنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے منقول احادیث کو مورد اعتماد قرار نہیں دیتے ہیں اور آخر کار اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔
جامع الرواہ، ج 2 ص 221
علامہ مجلسی کو بھی ان افراد میں شامل کر سکتے ہیں جنہوں نے مختار کے بارے میں توقف کیا ہے۔ آپ نے مختار کے ایمان کو غیر کامل قرار دیتے ہوئے اس کے قیام کو امام سجاد (ع) کی اجازت کے بغیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں چونکہ مختار نے بہت سے اچھے اقدامات انجام دئیے ہیں، اس لیے وہ عاقبت بخیر ہوا ہے۔ آخر میں علامہ مجلسی مختار کے بارے میں توقف کرنے پر تصریح کرتے ہیں۔
بحار الانوار، ج 45 ص 339
مختار شیعہ معاصر مؤرخین کی نظر میں:
مختار کی شخصیت کے بارے میں شیعہ مؤرخین کے درمیان پر اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
حامی حضرات:
ان مؤرخین میں عبد الرزاق مقرّم جیسے حضرات مختار پر لگائے جانے والے الزامات اور تہمتوں سے برئ الذمہ قرار دیتے ہیں اور ان سب کو جھوٹ پر مبنی اور دشمنوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔
پيامد ہاى عاشورا، ص 135
باقر شریف قرشی بھی قیام مختار کو جہاد مقدّس قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار جس قدرت اور سلطنت کے پیچھے تھا، وہ اس کی جاہ طلبی اور ریاست طلبی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اہل بیت پیغمبر (ع) کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہ ایسی قدرت اور سلطنت کے در پے تھا۔
پيامد ہاى عاشورا، ص: 133
اس مناسبت سے نجم الدین طبسی جو معاصر مؤرخین میں سے ہیں، مختار کے دفاع کی خاطر مختار پر لگائے گئے، الزامات کو مختار ستیزی کی خاطر بنی امیہ کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول امام باقر (ع) نے جس روایت میں مختار کیلئے طلب رحمت کی ہے، وہ حدیث بہت معتبر حدیث ہے اور یہ روایت ایک طرح سے مختار کے قیام اور اس کا امام حسین (ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کی صحت پر واضح دلیل ہے۔
سایٹ استاد شیخ نجم الدین طبسی ،
بعض مؤرخین کے نظریات مختار کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پر مشتمل ہیں:
مثلا مہدی پیشوائی مختار کا ائمہ کی امامت پر اعتقاد کو شیعہ سیاسی اعتقاد سے بالاتر قرار دیتے ہوئے، اس کے قیام کو ایک مکمل شیعہ قیام قرار دیتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار نے یہ قیام اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ معتقد ہیں کہ مختار کی شخصیت جاہ طلبی اور ریاست طلبی سے خالی نہیں تھی اور بعض موارد میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
یعقوب جعفری نیز اسی نظریئے کو درست قرار دیتے ہیں۔ وہ مختار کو واقعی شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اصل ہدف اور مقصد درست تھا لیکن انتقام لینے میں بعض مواقع پر زیادہ روی سے کام لیا ہے۔ جسے وہ مختار کی تندروی کی وجہ سے قرار دیتے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
محمد ہادی یوسفی غروی بھی مختار کو ایک قدرت طلب اور سیاسی مسلمان قرار دیتے ہیں وہ اس کے اقدامات کو مورد تائید ائمہ قرار نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود اسے ائمہ کی امامت پر ایمان اور عقیدہ رکھنے کا معتقد جانتے ہیں اور ائمہ کی طرف سے اس کیلئے دعائے خیر اور رحمت کی درخواست کو اس کی نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
مخالفین:
مخالفین میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار کی زندگی کا مطالعہ اور تاریخی شواہد کے مطالعے سے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ مختار ایک قدرت طلب اور ریاست طلب آدمی تھا۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛دیدگاہ محسن الویری، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
یہ حضرات قیام مختار کو اس کی طرف سے اپنے مقاصد اور سیاسی اہداف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مختار نے صرف اہداف میں مشترک ہونے کی وجہ سے حضرت مسلم کی حمایت کی تھی، نہ عقیدے کی بنیاد پر۔ ان کے مطابق مختار ایک عقیدتی شیعہ ہونے کے معیار کا حامل نہیں ہے۔ اس بناء پر اس کا قیام سو فیصد ایک شیعہ قیام اور تحریک نہیں تھی۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛ دیدگاہ محمد رضا بارانی، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
بعض مؤرخین بھی مختار کو ایک تیز بین ہوشیار اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت قرار دیتے ہوئے اسے امام سجاد (ع) کی بجائے محمد ابن حنفیہ کی امامت کا قائل سمجھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مختار اہل بیت (ع) کو اپنے سیاسی اہداف تک پہنچنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛ دیدگاہ نعمت اللہ صفری فروشانی، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
مختار اہل سنت علماء کی نظر میں:
ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابۃ میں مختار کی سو فیصد مذمت کرتا ہے اور اس سے منقول روایات کو قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف پیغمبر (ص) سے یوں احادیث بھی جعل کی ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:
قبیلہ ثقیف سے ایک جھوٹا اور ظالم شخص آئے گا۔
اس روایت کے راوی اسماء دختر ابو بكر اور عبد اللہ ابن زبیر کی ماں ہے۔ اسماء کے بقول اس روایت میں کذاب سے مراد مختار ہے۔
تاریخی شواہد کی بناء پر مختار کیلئے کذاب کا لقب پہلی بار حجاج ابن یوسف نے استعمال کیا اور وہ لوگوں کو حضرت علی (ع) اور مختار پر لعن کرنے کا حکم دیتا تھا۔
تقی الدین احمد مقریزی مختار کو خوارج میں سے قرار دیتے ہیں۔
أسد الغابۃ،ج 4 ص 347
الأنساب ،ج 3 ص 140
الاستیعاب،ج 3 ص 909
أسد الغابۃ،ج 3 ص 141
تاریخ الإسلام،ج 5 ص 226
الطبقات الکبری، ج 8 ص 200
المعرفۃ و التاریخ،ج 2 ص 618
الطبقات الکبری،ج 6 ص 168
إمتاع الأسماع،ج 14 ص 157
الزامات:
مختار اپنے قیام کی کامیابی کے بعد کوفہ پر حکومت کرتا تھا۔ عین اسی وقت شام میں آل مروان اور حجاز پر آل زبیر کی حکومت تھی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو خلیفہ سمجھتا تھا اور مختار کو اپنی خلافت کے ایک حصے کو جدا کرنے والا قرار دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان دو گروہ کی حد الامکان کوشش ہوتی تھی کہ جتنا ہو سکے مختار کی شخصیت کشی کی جائے اور اسے ایک جھوٹا شخص قرار دیا جائے۔ دوسری طرف سے بعض سادہ لوح شیعہ علماء نے بھی پوری تاریخ میں بنی امیہ اور آل زبیر کی جھوٹی باتوں اور بے جا تہمتوں پر یقین کرتے ہوئے مختار کی مذمت کیا کرتے تھے۔ ان الزامات اور بہتانوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
ادعائے نبوت:
ابن خلدون مدعی ہے کہ مختار نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ اس بات کی تقویت مختار کی طرف سے استعمال شدہ بعض ہم قافیہ اور منظم عبارات سے کرتے ہیں، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس کی حکومت کوفہ میں تھی، جس کی مسلمانوں نے حمایت کی تھی اور دوسری طرف سے ائمہ اہل بیت میں سے بعض ائمہ نے ان کی تعریف و تمجید میں احادیث بھی ارشاد فرمائی ہیں۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں ہو سکتی۔ چونکہ احنف زبیریوں کا طرفدار تھا، اس لیے ان عبارات کو بہانہ بنا کر مختار پر دعوئے نبوت کا الزام لگایا، یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی ان الزامات سے باز نہیں آتے تھے۔
محمد ابن حنفیہ کا مختار کی موت کے بعد اور وہ بھی عبد اللہ ابن زبیر کے دربار میں مختار کو کذاب قرار دینے سے انکار کرنا، خود اس تہمت اور الزام تراشیوں کی وہابیت کے کارخانوں میں جعل ہونے کی دلیل ہے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج 1 ص 356
انساب الاشراف، ج 6 ص 403
انساب الاشراف ج 6 ص 418
انساب الاشراف ج 3 ص 287
مؤسس کیسانیہ:
بعض حضرات مختار کو کیسانیہ مذہب کا موسس قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: چونکہ مختار ملقب بہ کیسان تھا، اس لیے اس کے ماننے والوں کو کیسانیہ کہا جاتا تھا۔
آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج 2 ص 820
عبد اللہ مامقانی مختلف دلایل کی روشنی میں اس مطلب کو قبول نہیں کرتے اور مختار کے کیسانی ہونے کو رد کرتے ہیں۔
تنقیح المقال، ج 3 ص 205
آیت اللہ خوئی نیز ان الزامات کو غیر شیعہ علماء کی طرف سے مختار کی شخصیت کشی کی سازش قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف موجود روایات سب جعلی اور مردود ہیں اور مذہب کیسانیہ کی تأسیس کو مختار اور محمد ابن حنفیہ کی موت کے بعد قرار دیتے ہیں۔
معجم الرجال، ج 18 ص 102
علامہ امینی بھی مذہب کیسانیہ کی نسبت مختار کی طرف دینے کو رد کرتے ہیں۔
الغدیر، ج 1 ص 343
زوجات اور اولاد:
زوجات:
پہلی بیوی: ام ثابت جو سمرۃ ابن جندب کی بیٹی تھی اس کے بطن سے مختار کیلئے دو فرزند محمد اور اسحاق متولد ہوئے تھے۔
دوسری بیوی: عمرہ جو نعمان ابن بشیر کی بیٹی تھی، مختار کے بعد مصعب کے ہاتھوں قتل ہوئی۔
تیسری بیوی: ام زید الصغری جو سعید ابن زید ابن عمرو کی بیٹی تھی۔
چوتھی بیوی: أم الولید بنت عمیر ابن رباح یہ ام سلمہ بنت مختار کی ماں تھی۔ مختار کی یہ بیٹی عبد اللہ ابن عمر ابن خطاب کی زوجہ تھی۔
المعارف،متن،ص 402
مروج الذہب، ج 3 ص 99
المحبر،ص 70
الطبقات الکبری،ج 8 ص 346
اولاد:
محمد ابن مختار جسکی ماں امت ثابت تھی۔
اسحاق ابن مختار جسکی ماں بھی امت ثابت تھی۔
ام سلمہ جسکی ماں امت الولید تھی۔
عمر ابن مختار جو شہر رے کے شیعیان میں سے تھا اور وہاں کپڑے کا تاجر تھا۔ جب ابو مسلم خراسانی نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اسے شہر رے کا گورنر بنایا۔
ابو الحکم ابن مختار
جبر ابن المختار
أمیۃ ابن المختار
بلال ابن مختار: شیخ طوسی بلال ابن مختار نامی شخص کا نام لیتے ہیں، جس کے فرزند کا نام بھی مختار تھا۔
المعارف،متن،ص 402
الطبقات الکبری،ج 8 ص 346
أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص 262
تاریخ الإسلام،ج 17 ص 102
جمہرۃ أنساب العرب،متن،ص 268
رجال الطوسی، ص 568
رجال الطوسی، ص 437
مختار ثقفی تاریخِ اسلامی کے ان چند حکمرانوں میں سے ایک ہے کہ جس نے بنو امیہ کے خلاف تلوار اٹھائی اور کربلا میں حسین ابن علی کی شہادت کا بدلہ لیا اور سینکڑوں قاتلانِ حسین کو واصل جہنم کیا۔ جس میں شمر بھی شامل تھا۔ جس نے امام حسین کا سر جسم سے جدا کر کے نیزے پر دمشق بھجوایا تھا، اور حرملہ بھی جس نے امام حسین کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا تھا۔
ناسخ التواریخ
وہ محبان اہلِ بیت سے تھا۔ مثلاً جب امیر مختار نے عمر سعد اور ابنِ زیاد کے سر امام زین العابدین علیہ السلام کو بھیجے تو انہوں نے امیر مختار کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے بعض نکتہ چینوں کو کہا کہ مختار کو گالی نہ دو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا قصاص لیا تھا۔
ابتدائی حالات:
مختار ثقفی کے بچپن میں ایک بار حضرت علی (ع) نے آپ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انہیں زیرک و دانا کہہ کر پیار فرمایا اور فرمایا یہ میرے بیٹے حسین کے قاتلوں سے انتقام لے گا ۔
تاریخ طبری
واقعات:
آپ عبید اللہ ابنِ زیاد کی قید میں اہلبیت سے محبت کے جرم میں قید رہے جس طرح امام حسین کی شہادت کے وقت بیشتر محبانِ علی کو قید میں بند کر دیا گیا تھا۔ تاریخ میں قیدیوں کی یہ تعداد کئی لاکھ لکھی ہوئی ہے، یعنی کوفے میں اہلبیت سے محبت کرنے والوں کو قید کر کے عبید اللہ ابنِ زیاد نے ایسے دین فروش افراد کے سپرد کوفہ کر دیا کہ جنہوں نے امام حسین کے بھیجے ہوئے اپنے خاص سفیر مسلم ابن عقیل کو یک و تنہا کر دیا اور یوں انہیں حالتِ مظلومیت میں شہید کر دیا گیا۔
مختار باہر کے واقعات سے بے خبر اس بات کی توقع لگائے ہوئے تھے کہ ہمارے امام حسین کی آمد کے ساتھ ہی یہ سختیاں ختم ہو جائیں گی اور امام حسین کو ان کا جائز حقِ خلافت جو معاویہ کی روایتی اُموّی مکاری اور دغا بازی کے سبب امام حسن کی حکومت سے دستبر داری کا سبب بنا، امام حسین کو مل جائے گی۔ مگر جب امیر مختار کو امام حسین کے عالمِ مظلومیت میں شھید ہونے کی خبر ملی پھر آپ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی اہلیبیت سے محبت نے آپ کو مجبور کیا کہ قاتلوں کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کر دیں۔ ابنِ زیاد خواہش کے باوجود ممکنہ سیاسی و دیگر وجوہ کی بنا پر انہیں قتل نہ کرا سکا۔ مختار ثقفی عبد اللہ ابن عمر کی بہن کے شوہر تھے اور ان کی اپنی بہن کی شادی عبد اللہ ابن عمر کے ساتھ ہوئی تھی۔ قید سے رہا ہونے اور واقعاتِ کربلا سے آگاہی کے بعد امیر مختار نے قسم کھائی کہ قاتلانِ شہدائے کربلا کا بدلہ لیں گا۔ پہلے مختار ثقفی نے عبد اللہ ابن زبیر کے خروج میں ان کا ساتھ دیا مگر جب عبد اللہ ابن زبیر نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کر لی تو ان سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ مدینہ سے کوفہ چلے گئے۔ وہاں اپنی تحریک کو منظم کیا اور سن 67 ہجری میں خروج کیا۔
تاریخ ابو الفداء
اس وقت ان کے ساتھ ابراہیم ابن مالک اشتر بھی مل گئے جو ایک مشہور اور شجاع جنگجو تھے اور ان کے پاس اپنی کچھ فوج بھی تھی۔ انہوں نے بصرہ اور کوفہ میں جنگ کی اور بے شمار قاتلانِ شہدائے کربلا سے بدلہ لیا۔ جن میں عمر ابن سعد، حرملہ، شمر، ابنِ زیاد، سنان ابن انس وغیرہ شامل تھے۔ ابنِ زیاد کا سر کاٹ کر امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں بھجوایا گیا۔ جسے دیکھ کر انہوں نے اہلِ بیت کو سوگ ختم کرنے کا کہا۔
وفات:
عبد اللہ ابنِ زبیر بہرحال دنیا پرستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان لوگوں کے ساتھ رہے، جو اہلبیت کے دشمن اور اسلامی معاشرے میں عیاشانہ بدعتوں کے قائل تھے۔ چنانچہ مختار ثقفی کی عبد اللہ ابن زبیر ناصبی سے شدید اختلافات کے باعث جنگ ہوئی ۔ ادھر بنو امیہ کا غاصبانہ اقتدار ان کی نواسہِ رسول سے دشمنی اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے ہونے کے سبب ان سے چھن گیا اور مختار کی دشمنی میں بنی امیہ نے مختار کے خلاف نت نئی خود ساختہ باتیں مشہور کر دیں۔
تاریخ مسعودی
عبد اللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب ابن زبیر کے حکم پر مختار ثقفی کو سن 67 ہجری میں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا گیا۔ یہ 15 رمضان سن 67 ہجری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد مختار ثقفی کے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ جس میں ان کی ایک بیوی عمرہ بنت بشیر ابن نعمان انصاری (بشیر عبید اللہ ابن زیاد سے پہلے کوفہ کے گورنر تھے) بھی شامل تھیں۔ جو مدائن میں رہتی تھیں، ان کو مصعب ابن زبیر کے حکم پر قتل کیا گیا۔ مگر کوفہ میں رہنے والی بیوی ناریہ بنت سمرہ ابن جندب کو مصعب ابن زبیر نے معاف کر دیا۔
قیام مختار کا ایک جائزہ:
تاریخ نے ہمیشہ بہت سی کوششوں، مبارزوں، شکستوں اور بڑی بڑی کامیابیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور مختلف اسباب ان حوادث کو عالم وجود میں لانے کا سبب بنے ہیں ۔ کبھی کوئی خاص فرد تو کبھی کوئی گروہ اپنے خاص اہداف کے ساتھ تن تنہا وارد میدان ہوئے اور تاریخ کے خاص دور میں انتہائی پر جوش، غمگین یا مسرت آفرین حوادث کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔
حضرت مختار بن ابی عبید ثقفی کے قیام کا تجزیہ ایک ایسا مثبت قدم ہے، جو ان کے اور ان کے اس قیام کے چہرے سے مظلومیت اور فراموشی کے گرد و غبار کو دور کر سکتا ہے۔ جس کا منشاء و سر چشمہ قیام عاشورا ہے۔ اس قیام کی رہبری و قیادت پیروان و محبان اہل بیت میں سے ایک حریت پسند شخص کے ذمہ تھی۔ جس کا نام مختار ابن ابی عبید ثقفی تھا۔ انھوں نے اپنے قیام کا آغاز شب جمعرات 14 ربیع الاول سن 66 ہجری کو " یا لَثاراتِ الحسین " کے نعرہ سے کیا۔
در حقیقت یہ قیام ایک عظیم تاریخی انقلاب تھا، جو واقعہ کربلا کے بعد پیش آیا۔ حضرت مختار نے کوفہ کو انقلاب کا نقطۂ آغاز قرار دیا۔ وہ شجاع اور امام کے مرید تھے اور انھوں نے اپنے شعار کو خدا کے نام سے شروع کیا۔ اسی کے نام سے برقرار رکھا اور اپنے انقلاب کا انجام لقاء خدا کو قرار دیا۔ حضرت مختار نے خوں چکاں تاریخ شیعہ میں ایک زرین ورق کا اضافہ کیا۔ آپ نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ کربلا کے تمام ملاعین اپنے کیفر کردار تک پہنچے۔
امام محمد باقر (ع) کے صحابی " سدید " کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت مختار کے بارے میں فرمایا:
لا تَسُبّوا المختارَ، فَانہ قَد قَتَلَ قَتَلَتَنا و طَلَب بِثَارِنا، و زَوَّجَ ارٔامِلنَا، و قَسَمَ فینا المالَ عَلَی العُسرَۃِ ،
مختارکو برا بھلا مت کہو کیونکہ انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہم اہل بیت (ع) کے خون کا انتقام لیا اور ہماری بیٹیوں کا عقد کروایا اور مشکل دور میں ہمارے درمیان مال تقسیم کیا۔
رجال کشی، ص 125
بحار الانوار ،ج 45 ص 343
روایت میں وارد ہوا ہے کہ: امام حسین (ع) کے اہل بیت نے اس وقت تک نیا لباس زیب تن نہیں کیا اور عورتوں نے اس وقت تک آنکھوں میں سرمہ نہیں لگایا جب تک کہ خدا کا انتقام پیش نہ آیا۔ مختار کے لیے اس سے بڑھ کر سعادت نہیں ہو سکتی تھی، جو ان کو نصیب ہوئی اہل بیت کی خوشنودی اور امام محمد باقر (ع) کی دعا ان کے شامل حال ہو اور اہل بیت نے بارہا دعائے خیر سے یاد کیا ہے۔ بعنوان مثال ایک مرتبہ کسی نشست میں امام محمد باقر (ع) نے ابو الحکم ابن المختار سے فرمایا:
فرحم اللہ أباک، آپ نے اس جملہ کو تین بار ارشاد فرمایا پھر فرمایا: ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ ،
رجال کشی، ص 125
انتقام، قرآن کریم کی روشنی میں:
قرآن مجید میں دشمنان خدا اور اس کے دین کے دشمنوں کی نابودی سے مربوط بہت سی آیات ہیں اور یہ خدا کے صریح فرمان میں سے ہے:
انا من المجرمین منتقمون ،
ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں ۔
سورہ سجدہ آیت 22
و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ،
اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ کس ٹھکانے پہنچنے والے ہیں۔
سورہ نساء ،آیت 47
سورہ انفال، آیت 42 ، 44
سورہ اسراء آیت 5
ظالموں کو سزا دینا سنت الٰہی اور تقاضائے عدل خداوند ہے۔ ان صریح آیات کے مطابق اہل بیت (ع) کے حق کے غاصب، اسلام کی عظیم ہستیوں کے قاتل، آیات حق کے منکر اور ملحد تبہکار افراد سے انتقام لیا جانا ضروری ہے۔ آیت قرآنی کے مطابق:
لھم خزی فی الدنیا و لھم فی الآخرۃ عذاب عظیم ،
ان کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عظیم عذاب ہے،
چنانچہ مختار کا عظیم انقلاب متواتر و مستفیض روایتوں کی بنیاد پر مجرموں کی ہلاکت کے سلسلہ میں وعدۂ پروردگار کے تحقق کے علاوہ اور کچھ نہ تھا:
و کان امر اللہ مفعولا ،
اور اللہ کا امر غالب ہو کے ہی رہتا ہے۔
سورہ انعام، آیت 124
اسی اصل کی بناء پر امیر المومنین اور ائمہ علیہم السلام نے قیام مختار اور واقعہ عاشورا کے بعد قاتلین حسین سے آپ کے انتقام لینے کی بشارت دی اور تائید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ:
و لم یبق من قتلۃ الحسین احد الا عوقب فی الدنیا اما بالقتل او العمی او سواد الوجہ او زوال الملک فی مدۃ یسیرۃ ۔
حسین کے قاتلوں میں سے کوئی اس دنیا میں باقی نہ بچا مگر یہ کہ وہ قتل ہوا یا اندھا ہوا یا اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا یا مختصر مدت میں اس کی حکومت نابود ہو گئی۔
حیاۃ الامام الحسین علیہ السلام، قرشی، ص 457
جناب مختار کا اخلاص:
شجاع، سخی، عظیم، خطیب اور عادل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہت مخلص تھے، آپ کی حکومت کے زمانے میں قاتلین حسین علیہ السلام کی نابودی پر شکر کے لیے اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شکر کے روزے ہیں ۔ امام حسین کے شیر خوار کے قاتل حرملہ کو پھانسی دینے کے بعد آپ گھوڑے سے اترے، دو رکعت نماز بجا لائی اور بہت دیر تک سجدہ میں رہے۔
جناب مختار کی شجاعت:
واقعہ عاشورا اور ابن زیاد کے کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد، اہل بیت پیغمبر (ص) کے چاہنے والوں کا قلع قمع ہو گیا۔ ابن زیاد مسجد کے منبر سے امیر المومنین اور ان کی اولاد پر سب و شتم کرنے لگا۔ بعض معترضین کی شہادت کے بعد کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ابن زیاد کو روکتا، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ ناگہاں مسجد کے ایک کونے سے مختار کی خشم آلود آواز ابن زیاد کے دل کو دہلا گئی اور کسی آزاد شدہ شیر کی طرح فرزند سمیہ سے چلا کر کہا: وائے ہو تجھ پر، اے ابن زیاد ! علی اور حسین کی توہین کر رہا ہے، تیرا منہ بہسم ! جانے تو کون ہے ؟ وہی مشہور زنا زادہ اور یہ جو تم نے تہمت لگائی ہے، تیرے لیے اور تیرے امیر یزید کے لیے ہے نہ حسین اور خاندان پیغمبر کے لیے ۔
مختار کی باتوں نے اس حد تک ابن زیاد کو خشم آلود کیا کہ وہیں سے اس نے لکڑی اٹھا کر آپ کی طرف پھینکی، جس سے آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا۔
تاریخ طبری، ج 4 ص 356
اور کہا کہ اگر یزید کا خط نہ ہوتا تو یقیناً اسی جگہ تم کو پھانسی پر چڑھا دینے کا حکم دیدیتا۔
ائمہ اطہار (ع) کی نظر میں مختار کی شخصیت:
مقدس اردبیلی مندرجہ ذیل روایت کو امیر المومنین علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
سیقتل ولدی الحسین و سیخرج غلام من ثقیف و یقتل من الذین ظلموا۔
بہت جلد میرے بیٹے حسین کو قتل کیا جائے گا لیکن زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ قبیلہ ثقیف سے ایک جوان قیام کرے گا اور ان ستمگروں سے بدلہ لے گا۔
حدیقۃ الشیعہ، مقدس اردبیلی، ص 405
قیام مختار کی بشارت امام حسین (ع) کی زبانی:
علامہ مجلسی روز عاشورا کے حالات میں ذکر کرتے ہیں کہ:
امام حسین علیہ السلام نے لشکر کوفہ و شام کے لیے خطبہ ارشاد فرمایا: آپ نے خطبہ کے ذیل میں کوفیوں اور شامیوں کی اس طرح سے ملامت کی:
و یسلط علیھم غلام ثقیف یسقیھم کاساً مصبرۃ و لا یدع فیھم احداً الا قتلہ قتلۃ بقتلۃ و ضربۃ بضربۃ ینتقم لی و لاولیائی و اھل بیتی و اشیاعی منھم۔
بہت جلد ایک ثقفی جوان مرد ان پر مسلط ہو گا تا کہ انہیں موت و ذلت کا تلخ جام چکھائے، ہمارے قاتلوں میں سے کسی کو معاف نہیں کرے گا، ہر قتل کے بدلے میں قتل اور ہر ضربت کے بدلے میں ضربت، میرا، میرے دوستوں کا، میرے اہل بیت کا اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے گا۔
تنقیح المقال، مامقانی، ج 3 ص 205
عمرو ابن علی ابن الحسین علیہما السلام ( امام سجاد کے بیٹے ) فرماتے ہیں: جب مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر امام کے پاس بھیجا تو آپ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ شکر میں خدا کی اس طرح حمد کی:
الحمد للہ الذی ادرک لی ثأری من اعدائی و جزی اللہ المختار خیراً
تمام تعریف ہے اس خدا کی جس نے ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام لیا خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے۔
رجال کشی ص 127
امام باقر علیہ السلام مختار کے کام کی تجلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کیا مختار کے علاوہ کوئی اور تھا جس نے ہمارے برباد گھروں کو پھر سے آباد کیا ؟ کیا وہ ہمارے قاتلوں کا قاتل نہیں ہے ؟ خدا اس پر رحمت کرے، خدا کی قسم میرے بابا نے مجھ کو بتایا ہے کہ جب بھی مختار، فاطمہ علیھا السلام بنت امیر المومنین کے گھر میں داخل ہوتے تھے، آپ ان کا احترام کرتی تھیں۔ آپ کے لیے فرش بچھاتیں اور تکیہ لگاتی تھیں، آپ بیٹھتے تو آپ کی باتیں سنتی تھیں۔
پھر امام باقر علیہ السلام نے مختار کے بیٹے کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
رحم اللہ اباک، رحم اللہ اباک، ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ قتل قتلتنا و طلب بدمائنا ۔
خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، انھوں نے ہمارا حق واپس لیا، ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا۔
اہل بیت علیہم السلام کی خوشی:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: حادثہ عاشورا کے بعد بنی ہاشم کی کسی بھی عورت نے زینت نہیں کی اور خضاب نہیں لگایا یہاں تک کہ مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر ہمارے لیے مدینہ میں بھجوایا۔
رجال کشی، ص 12
مختار کے بارے میں علامہ امینی کا نظریہ:
مختار، دینداری، ہدایت اور اخلاص میں معروف تھے۔ بے شک آپ کا مقدس انقلاب عدالت کے نفاذ اور بنی امیہ کے ظلم کو ختم کرنے کے لیے تھا۔ مختار کا مذہب کیسانیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کی ذات پر جو تہمتیں لگائی جاتی ہیں، وہ سب کی سب بے بنیاد ہیں۔ بے وجہ نہیں ہے کہ ائمہ علیہم السلام جیسے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام نے آپ پر رحمت بھیجی ہے، خاص کر امام باقر علیہ السلام نے بہت خوبصورتی کے ذریعہ آپ کی ستائش کی ہے اور ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک آپ کی خدمات قابل تحسین و تشکر رہی ہیں۔
الغدیر، ج 2 ص 434
انقلاب مختار کے اسباب:
1- کربلا کے میدان میں بنی امیہ کا ظلم کچھ اتنا شدید تھا کہ تاریخ اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
2- یزید کا ظلم صرف کربلا میں ختم نہیں ہوتا بلکہ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف خروج کیا اور اس کے خلاف بغاوت کی تو اس نے مدینہ میں قتل عام کروایا اور اس کے دوسرے سال مکہ کا محاصرہ کرا کے خانہ کعبہ حرم امن الہی کو آگ لگا دی۔
3- بنی امیہ نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا:
الف: عرب، جن کے لیے خاص امتیازات تھے۔
ب: موالی، غیر عرب جو حکام کی جانب سے مورد ظلم و تحقیر واقع ہوا کرتے تھے۔
تاریخ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس سیاست کی بنیاد عمر نے رکھی تھی، تعلیمات پیغمبر (ص) کی بناء پر یہ سیاست پوری طرح ختم ہو چکی تھی، لیکن افسوس کہ عمر کے زمانے میں زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور امام علی علیہ السلام کی حکومت تک یہ سیاست جاری تھی، یہاں تک کہ آپ نے جیسے ہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو شدت کے ساتھ اس جاہلی رسم کی مخالفت کی اور اسے لغو کر دیا۔ معاویہ جو کہ عمر کی جانب سے شام کا گورنر تھا، اس نے اس سیاست کو جاری رکھا اور جس زمانہ میں وہ خود کو خلیفہ سمجھتا تھا، مختلف خطوں کے ذریعے سے اس نے اس طریقۂ کار کو استحکام بخشا، جیسے کہ مصر میں موجود غیر عرب کے لیے عمرو ابن عاص کے نام اس کا خط یا اس کا دوسرا خط زیاد ابن ابیہ کے نام جس میں وہ عراق میں موجود عجم کے لیے لکھتا ہے کہ:
ایرانیوں پر کڑی نظر رکھو، کبھی بھی انہیں عربوں کے ہم پایہ قرار نہ دو، عرب ان کی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں، لیکن انہیں حق نہیں ہے کہ وہ کسی عرب عورت سے شادی کریں، عرب ان سے ارث لے سکتا ہے، لیکن وہ عرب سے ارث نہیں لے سکتے، جہاں تک ممکن ہو، ان کے حقوق کو کم کر دو، معاشرے میں موجود پست کاموں پر انہیں مامور کرو، عرب کی موجودگی میں غیر عرب امام جماعت نہیں ہو سکتا، غیر عرب نماز جماعت کی پہلی صف میں کھڑے نہیں ہو سکتے ہیں۔ سرحد کی نگہبانی اور قضاوت ان کے سپرد نہ کرو۔
حماسہ حسینی، استاد مطھری، ج 3 ص 76
لوگوں کے مختار کی طرف مائل ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ اپنے مولا و آقا امیر المؤمنین علی (ع) کی طرح اس نسل و نژاد پرستانہ سیاست کے شدید مخالف تھے۔
مرحوم علامہ دہخدا اپنی لغت میں لکھتے ہیں کہ:
ایرانیوں نے قیام توابین، قیام مختار، خروج زید ابن علی اور یحیی ابن زید کو ایک خاص رنگ عطا کیا۔
لغت نامہ ی دھخدا، ص 558 کلمہ ی "ایران" ۔
قیام سے کچھ سال قبل مختار عراق کے سابق حاکم مغیرہ ابن شعبہ کے ساتھ بازار کوفہ سے گزر رہے تھے، تو چونکہ مغیرہ ایک حد تک عوام الناس اور بالخصوص عراق میں موجود ایرانیوں کی اہل بیت علیہم السلام کی بہ نسبت محبت سے واقف تھا، لہذا اس نے مختار سے کہا:
خدا کی قسم میں ایک ایسی ترکیب جانتا ہوں کہ اگر کوئی مدبر انسان استعمال کرے تو لوگ اس کے گرویدہ ہو جائیں گے اور اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کو تیار ہو جائیں گے بالخصوص وہ ایرانی جو اس سلسلے میں بہت جلد متأثر ہو جاتے ہیں۔ مختار نے مغیرہ سے سوال کیا: چچا جان وہ کیا چیز ہے ؟ مغیرہ نے کہا:
یدعوھم الی نصرۃ آل محمد و الطلب بدمائھم،
ان کو آل محمد اور ان کے خون کے انتقام کی دعوت دینا ہے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 323
اہل بیت علیہم السلام سے ایرانیوں کی محبت کا ایک سبب، ان کا حق طلب اور عدالت پسند ہونا بھی تھا۔
قیام مختار کے لیے کوفیوں کی آمادگی:
حضرت امیر المومنین علی (ع) کی حکومت کے دوران اہل کوفہ آرام و آسائش کا مزہ چکھ چکے تھے۔ جب ابن زبیر کے نمائندے عبد اللہ ابن مطیع نے اہل کوفہ سے کہا کہ میں تم پر عمر و عثمان کی سیرت کے مطابق حکومت کروں گا تو کوفہ کی بزرگ شخصیتوں میں سے ایک نے جواب دیا، ہمیں سیرت علوی کے علاوہ کسی اور سیرت کی ضرورت نہیں ہے۔
عبد اللہ ابن زبیر کی حکومت کی ماہیت و حقیقت واضح ہوتے ہی اہل کوفہ اس کے نمائندے سے دور ہوتے گئے اور یہ انقلاب مختار سے ان کے ملحق ہونے کا سبب بنا۔ دوسری طرف مختار خود کو اہل بیت (ع) کے ایک فرد یعنی محمد حنفیہ ابن علی ابن ابی طالب (ع) کا نمائندہ بھی جانتے تھے، جس کی وجہ سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئیں کہ مختار ان کو عدالت و اصلاح پسندی کی سیرت یعنی سیرت اہل بیت کی طرف ہدایت کریں گے، اس کے علاوہ انقلاب مختار کا نعرہ " یا لثارات الحسین " بھی عراقی شیعوں کے ان سے ملحق ہونے کا سبب بنا۔ کوفہ کی سرکردہ شخصیتوں اور انقلاب کے مخالفوں کے لیے سیرت مختار کو تحمل کرنا بہت سخت تھا۔ اس کے علاوہ ان میں سے اکثر کے ہاتھ حسین و اصحاب حسین (ع) کے خون سے رنگین تھے لہذا وہ علنی طور پر مختار کے خلاف پرچم مخالفت لے کر کھڑے ہو گئے اور جنگ کرنے لگے، لیکن مختار نے ان کا سر کچل ڈالا اور امام حسین کے قاتلوں اور کوفہ کی فاسد شخصیتوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ان کے سرکردہ افراد کو واصل جہنم کر ڈالا۔
ثورۃ الحسین (ع)، محمد مھدی شمس الدین، ص 273
قیام مختار کے حقیقی اہداف و مقاصد:
قیام مختار کا مہم مقصد شہدائے کربلا کے خون کا انتقام لینا تھا اور ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ ان اسباب و عوامل کو ختم کر دیا جائے، جو حادثہ عاشورا کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔ پھر دوسرے مرحلے میں اس قیام کا مقصد عدالت و انصاف کا نفاذ، اہل بیت کے پامال شدہ حقوق کا حاصل کرنا، محروموں اور دبے کچلے ہوئے لوگوں کی حمایت اور عدالت علوی اور مکتب تشیع پر مبنی حکومت کی تشکیل تھا۔
جناب مختار کوفہ کے سرکردہ شیعوں سے ملاقات کے دوران اپنے قیام کے مقصد کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:
بے شک مہدی ( محمد حنفیہ ) ابن علی وصی و جانشین پیغمبر اسلام (ص) نے مجھے تمہاری طرف امین، وزیر اور کمانڈر کے عنوان سے بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ قاتلان حسین کو کیفر کردار تک پہنچاؤں، ان کے اہل بیت کے خون کا انتقام لوں اور ضعیف انسانوں کی حمایت میں قیام کروں لہذا میری آواز پر لبیک کہنے والے تم پہلے گروہ بنو۔
تاریخ طبری، ج 5 ص 580
ابن اثیر، ج 6 172
ایک دوسری ملاقات میں وہ اہل کوفہ سے یوں ہم کلام ہوئے:
میں شعار اہل بیت کے قیام ان کے مقاصد کے احیاء اور شہداء کے خون کا انتقام لینے کے لیے تمہاری طرف آیا ہوں۔
البدایۃ و النھایۃ، ج 8 ص 249
قیام مختار کے مقاصد کو سب سے واضح طور پر اس کلام کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے جو انھوں نے لوگوں سے بیعت لیتے وقت بیان کیا:
تم لوگ کتاب خدا اور سنت رسول کی بنیاد پر اور انتقام خون اہل بیت (ع)، قاتلان حسین سے جنگ، مستضعفین کے دفاع، ہم سے بر سر پیکار افراد سے نبرد آزمائی اور ہم سے صلح رکھنے والوں سے صلح رکھنے کے لیے ہم سے بیعت کرو ۔اس کے جواب میں اگر کوئی ہاں کہہ دیتا تھا، تو وہ ان سے بیعت لے لیتے تھے۔
تاریخ طبری ج 6 ص 32
تاریخ کامل ج 4 ص 226
قیام مختار کے مقدمات:
جب امام حسین نے مسلم ابن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ بھیجا تو آپ جناب مختار کے گھر میں وارد ہوئے۔ مختار ان افراد میں سے تھے کہ جنہوں نے شروع ہی میں مخفی طور پر حضرت مسلم کی بیعت کر لی تھی اور جب حضرت مسلم نے علنی طور پر قیام کیا تو مختار کوفہ میں نہیں تھے بلکہ وہ شر کے باہر " خطرنیہ " کے علاقے میں اپنے کھیت پر گئے ہوئے تھے اور اس دوران حضرت مسلم کا قیام کرنا پہلے سے معین نہیں تھا بلکہ دوسرا وقت معین تھا لیکن حضرت ہانی کی گرفتاری اور دوسرے حادثات سبب بنے کہ وقت معین سے پہلے جناب مسلم قیام کریں۔ مختار کوفہ کے حالات سے باخبر ہوتے ہی بلا فاصلہ کوفہ پہنچے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 214
لیکن جب وہ کوفہ پہنچے تو وہاں کے حالات انتہائی خراب ہو چکے تھے۔ حضرت مسلم شہید کر دیئے گئے تھے اور شہر میں ایک رعب و وحشت کا عالم تھا۔ ابن زیاد فاتح کمانڈر کے عنوان سے حالات کو اپنے قابو میں لے چکا تھا اور یزید کی من پسند حکومت کا اعلان کرنے کے لیے اہل کوفہ کو مسجد میں جمع کر چکا تھا۔
جناب مختار کی آرزو یہ تھی کہ زندہ رہیں اور امام حسین کے رکاب میں شہید ہوں لیکن ابن زیاد نے انہیں راہی زندان کر دیا، اس لیے کہ وہ حکومت کے لیے ایک بڑے خطرے کی شکل میں دیکھے جا رہے تھے۔ اسی لیے ابن زیاد نے اسی مقام پر یہ حکم دیا کہ مختار کو قید کر دیا جائے۔
فلم یزل محبوساً حتیٰ قتل الحسین،
مختار قید ہی میں تھے کہ کربلا کا واقعہ پیش آیا اور امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 215
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 169
مختار نے حجاز میں موجود اپنے داماد عبد اللہ ابن عمر، شوہر صفیہ کے نام ایک خط تحریر کیا اور ان سے درخواست کی شام میں یزید کو خط لکھیں کہ وہ ابن زیاد کو میری آزادی کا حکم دے۔ جب عمر کے بیٹے کا خط یزید تک پہنچا تو یزید نے فوراً ابن زیاد کو خط لکھا کہ جیسے ہی میرا خط تم تک پہنچے فوراً مختار کو آزاد کردو اور انہیں کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ اسی خط کی بنیاد پر مختار آزاد ہوئے ۔
شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 1 ص 210
آزادی کے بعد مختار حجاز کی طرف روانہ ہوئے جو مرکز توحید، مرکز اصحاب اور خاندان پیغمبر تھا۔ امام سجاد اور ان کے اہل بیت مدینہ میں تھے اور ادہر بنی امیہ کا سخت دشمن عبد اللہ ابن زبیر مکہ کا حاکم ہو گیا۔
مکہ میں کچھ دن قیام کے بعد مختار ابن زبیر سے جدا ہو کر طائف کی طرف روانہ ہوئے جو کہ ان کا آبائی وطن تھا اور وہاں ایک سال تک مقیم رہ کر غور و فکر اور منصوبہ بندی میں مشغول رہے۔ یزید سن 64 ہجری میں واصل جہنم ہوا اور مختار اسی سال طائف سے مکہ کی طرف واپس آئے۔
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 171
کوفہ کی طرف روانگی سے قبل مختار حضرت محمد حنفیہ کے حضور میں حاضر ہوئے اور اپنے منصوبہ سے انھیں آگاہ کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کا انتقام آپ کی حمایت کے ساتھ قیام کروں، اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ محمد حنفیہ خاموش رہے اور مختار نے ان کے سکوت کو علامت رضایت قرار دیتے ہوئے کہا: ان کا سکوت میرے لیے اجازت کے مساوی ہے، پھر محمد حنفیہ سے خدا حافظی کے بعد عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 218
جناب محمد حنفیہ سے امام سجاد (ع) کی گفتگو:
حضرت امام سجاد (ع) نے محمد حنفیہ اور سرکردہ شیعوں کے جواب میں فرمایا:
یا عم لو ان عبداً زنجیاً تعصب لنا اھل البیت لوجب علی الناس موازرتہ و قد ولیتک ھذا الامر فاصنع ما شئت،
اے چچا جان ! اگر کوئی حبشی غلام ہم اہل بیت کی حمایت میں قیام کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی نصرت کریں اور اس امر میں میں آپ کو اپنا نائب بناتا ہوں لہذا اس سلسلہ میں جو بہتر سمجھیں، انجام دیں۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 13
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 214
کوفہ میں قیام کے لیے مختار کی تیاری:
شہر کوفہ میں حضرت مختار کے داخل ہوتے ہی ایک بڑی تبدیلی آئی۔ سن 65 ہجری تھا اور لوگ بہت مسرور اور پر امید تھے۔ ابن زیاد اور بنی امیہ کے گورنر کو نکال دیا گیا تھا اور شیعوں نے ابن زبیر کے گورنروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اب سب کی نگاہیں اس انقلابی شخصیت پر تھیں اور سب اس سے لو لگائے ہوئے تھے۔
حضرت مختار اہل کوفہ کے پرجوش استقبال سے روبرو ہوئے اور وہ ہمیشہ لوگوں کو حضرت محمد حنفیہ کی قیادت اور اہل بیت کی حمایت کی طرف دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے:
میں اہل بیت کے شعار کے قیام ان کے مقاصد کے احیاء اور ان کے شہداء کے خون کا انتقام لینے کے لیے تمہاری طرف آیا ہوں۔
شیعوں کا جناب مختار کی بیعت کرنا:
جب شیعوں پر مختار کے قیام کی حقیقت واضح ہو گئی تو جوق در جوق ان کی بیعت میں داخل ہوتے گئے اور اس سلسلہ میں عبد الرحمن ابن شریح اور ابراہیم ابن مالک اشتر کا اہم کردار قابل ذکر ہے۔
ابراہیم ابن مالک اشتر کا نمایاں کردار:
حضرت مختار کے انصار میں، جناب ابراہیم ابن مالک اشتر سے بڑھ کر کوئی چہرہ نمایاں نہیں، ان کا کردار سب سے زیادہ اہمیت اور تاثیر کا حامل ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر ابراہیم نہ ہوتے تو اس قیام کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس لیے کہ سرکردہ شیعہ افراد کی نگاہوں میں ان کا کافی احترام تھا۔
مختار کو ابراہیم کی صورت میں ایک قوی حامی مل گیا تھا اور وہ ان کی فوج کی سرکردہ شخصیت قرار پائے۔
جناب مختار کے لیے تین اہم رکاوٹیں:
1- شہر کوفہ کو آزاد کرانا اور عراق میں انقلابی حکومت کا وجود میں لانا۔
2- اندرونی دشمنان انقلاب کی سرکوبی کرنا۔
3- شامی فوج سے مقابلے کے لیے کافی مقدار میں فوج کو تیار کرنا۔
مختار کا حکم:
جناب مختار نے رسمی طور پر قیام کا حکم صادر کر دیا اور اپنے انصار میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں سونپیں اور ان میں سعید نام کے ایک شخص کو حکم دیا: جاؤ مشعلوں میں آگ لگا دو اور ان مشعلوں کو مسلمانوں کے قیام کے اعلان کی غرض سے اوپر اٹھا دو۔
قیام مختار کا نعرہ:
یہ نعرہ سب سے پہلے جنگ بدر میں لگایا گیا تھا۔ روایت میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:
کان شعار اصحاب رسول اللہ یوم بدر: یا منصور امت،
اے کامیاب ! مار ڈالو ۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 20
قیام مختار کی مقبولیت اور جذابیت:
یہ انقلاب و قیام اس قدر پر کشش تھا کہ ہر طرف سے لوگ اس میں شامل ہونے لگے۔ اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ:
دوسرے قبائل کی نسبت عراق میں موجود ایرانی سب سے زیادہ اس قیام کی حمایت میں شریک رہے۔
مختار کی نماز:
انقلاب کے دن اول وقت باشکوہ و باعظمت نماز صبح جناب مختار کی امامت میں قائم ہوئی۔ اس نماز کے عینی شاہد منجملہ حمید ابن مسلم، والبی، نعمان ابن ابی جعدہ کا کہنا ہے کہ: ہم نے مختار کی امامت میں نماز صبح ادا کی۔ انھوں نے پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد سورہ نازعات اور دوسری رکعت میں خوبصورت اور بہترین انداز میں سورۂ عبس کی تلاوت فرمائی۔ ہم نے ان سے بڑھ کر فصیح اور بہترین لب و لہجہ رکھنے والا پیشوا نہیں دیکھا تھا۔
بحار الانوار، ج 45 ص 368
مختار کے قیام کی کامیابی:
کوفہ کے محل کو ختم کرنے کے بعد مختار، مسجد میں نماز، تقریر اور انقلاب کی کامیابی کے اعلان کے لیے خود کو آمادہ کر رہے تھے۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 32
شاید وہ دن جمعہ کا دن تھا اور جناب مختار نے خود نماز جمعہ قائم کی اور دو پرکشش اور بہترین خطبے دئیے۔ ان دو خطبوں میں انھوں نے اپنے قیام کے حقیقی اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ جس خطبے کا ایک حصہ یہ تھا:
اے کوفہ والو ! میں اہل بیت کی طرف سے اس بات پر مامور ہوں امام مظلوم حضرت حسین اور ان کے اصحاب کے خون کے انتقام کے لیے قیام کروں اور ان سرخ کفن افراد کا بدلہ لوں اور میں اپنی آخری سانسوں تک شدت کے ساتھ اس مقدس ہدف کے حصول کے لیے کوشاں رہوں گا۔
جناب مختار کے ہاتھوں پر بیعت:
دار الامارہ پر قبضہ ہونے اور ابن زبیر کے نمائندے کے فرار ہونے کے ساتھ ہی انقلابیوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، مکمل طور پر شہر کوفہ انقلابیوں کے قبضے میں آ گیا اور عراق کی عظیم قدرت کا مرکز ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہو گیا۔
شہر کی جامع مسجد میں تقریر کرنے کے بعد مختار منبر سے نیچے آئے اور منبر کے کنارے بیٹھ گئے اور پھر رسمی طور پر بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ جوق در جوق اس اسلام کے بزرگ مرد اور شیعوں کے پامال شدہ حقوق کا دفاع کرنے والے، شہیدوں کے خون کا انتقام لینے والے کے ہاتھ پر اہل بیت پیغمبر (ص) کے نمائندے کی حیثیت سے بیعت کرنے لگے۔
مختار کا عوام سے تعلق:
تاریخ شاہد ہے کہ مغرور فاتح حاکموں کے برخلاف جناب مختار، کامیابی کے بعد لوگوں سے بڑے ہی احترام اور خضوع و خشوع کے ساتھ ملاقات کرتے تھے اور خاص طور پر کمزوروں اور محروموں کے ساتھ نیکی سے پیش آتے تھے، جن کی ان کی فوج میں اکثریت پائی جاتی تھی۔ وہ قوم کے سرداروں اور بزرگوں سے بھی ان کی حد کے مطابق حسن سلوک سے پیش آتے تھے اور انہیں اپنے کام میں شریک کر لیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں میں لوگوں سے مشورہ کرتے تھے، خود پسند اور خود رائے نہیں تھے۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 33
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 226
قیام مختار میں انتقام کا عنصر:
اپنی انفرادی صلاحیتوں کے مطابق جناب مختار کی کوشش یہی تھی کہ اپنے اہداف کو اچھے طریقے سے حاصل کرے ۔ اس کا یہ بھی ارادہ تھا کہ اگر فاتح رہے تو ظلم کو جڑوں سے ختم کر دیں، باطل و غاصب حکومتوں کو نیست و نابود کر دیں اور کتاب خدا و سنت رسول اور ولایت اہل بیت (ع) کی بنیاد پر ایک انقلابی حکومت کو تشکیل دیں۔
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کیوں مختار نے اتنی قساوت اور بے رحمی کے ساتھ قاتلان اہل بیت کو کیفر کردار تک پہنچایا اور کوفہ کو ایک وحشتناک قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ؟
بزرگ شیعہ عالم توفیق اعلم اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
ہاں قاتلان امام حسین اس طرح سے مختار کی بے رحم عدالت و انصاف کا شکار ہوئے لیکن پوری تاریخ میں صرف ایک ہی قساوت قلبی اور بے رحمی ملامت سے خالی رہی ہے اور معذور سمجھی گئی ہے اور وہ صرف مختار کا عادلانہ کام تھا۔
اھل البیت ( توفیق اعلم )، ص 517
مختار کے خلاف کوفہ کا اندرونی خلفشار، 24 ذی الحجہ سن 66 ہجری کو مختار کی کامیابی کے ساتھ ختم ہو گیا۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 57
اور ان کے دشمن کا بھاری نقصانات اٹھا کر قلع قمع ہو گیا اور کوفہ کے سرکردہ افراد بصرہ کی طرف فرار کر گئے اور مصعب ابن زبیر کی پناہ میں داخل ہو گئے، جو اپنے بھائی عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے والی بصرہ تھا۔
مختار کہتے تھے کہ ہمارا دین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم قاتلان امام حسین (ع) کو اس دنیا میں چین سے رہنے دیں۔
کچھ لوگوں کی پھانسی:
روز عاشورا جن لوگوں نے گھوڑے کی ٹاپوں سے حضرت امام حسین (ع) اور شہدائے کربلا کے اجسام مطہرہ کو پامال کیا تھا۔
بحار الانوار، ج 45 ص 374
جناب مختار کے حکم سے ان دس افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے گئے اور زمین پر لٹا کر ان کے ہاتھوں اور پیروں پر کیل ٹھونک دی گئی پھر گھوڑوں کی نعل بندی کر کے ان کے اوپر دوڑا دیئے گئے۔ جن سے ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔
بحار الانوار، ج 45 ص 374
اسی طرح دوسرے ظالموں کو ان کے ظلم کے مطابق کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ واصل جہنم ہوئے اور اسی طرح دیگر تمام مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق ہی سزا دی گئی۔
" زیان کاران " نامی مقالہ میں کربلا میں جنایات کے مرتکب ہونے والوں کے ہولناک انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،
ہاں ایسا ہی ہونا چاہیے تھا،
سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون،
سورہ شعراء، آیت 227
حضرت مختار کا نعرہ انتقام:
مختار کا نعرہ انتقام امیر مختار کے لیے پچاس معززین کوفہ کی تصدیق جناب محمد حنفیہ (ع) کے پاس جانا اور جناب محمد حنفیہ (ع) کی حاضری خدمت حضرت امام زین العابدین (ع) میں مختار ، عبد الملک ابن مروان کے خوانحوار جرنیل حجاج ابن یوسف ثقفی کے خونی ہاتھوں سے بچ کر عراق سے کوفہ پہنچے ، یہاں پہنچ کر آپ نے اپنا نعرہ انتقام بلند فرمایا۔ اہل کوفہ چونکہ مکمل طور پر آپ کی تائید میں تھے۔ لہٰذا انہوں نے آپ کی تحریک کو کامیاب کرنے میں پور ساتھ دیا۔ ہر طرف سے تائیدات کی صدائیں بلند تھیں۔ ہر شخض آپ کی حمایت کے لیے بے چین تھا۔ کوفہ کی گلی کوچوں میں آپ کی حمایت جاری تھی اور لوگ جوق در جوق بیعت کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
آپ جس عہد کے مطابق بیعت لے رہے تھے، وہ یہ تھا کہ قرآن مجید اور سنت رسول پر عمل کرنا ہو گا۔ امام حسین (ع) اور اہل بیت رسول کے خون بہا لینے میں مدد کرنی ہو گی اور ضعیف و کمزور شیعوں کی تکالیف کا مداویٰ کرنا ہو گا۔
نور الابصار ص 82
صاحب روضۃ الصفاء کا بیان ہے کہ: جس شخص کے دل میں محبت اہل بیت رسول ذرا سی بھی تھی، اس نے مختار کی بیعت میں تاخیر نہیں کی۔
علامہ محسن الامین کا بیان ہے کہ: مختار کی آواز پر جن لوگوں نے سب سے پہلے لبیک کہا، وہ اہل ہمدان تھے اور اہل عجم کے وہ لوگ تھے، جو کوفہ میں آباد تھے۔ جن کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
اصدق الاخبار ص 38
جناب مختار اپنی پوری توجہ کے ساتھ فراہمی اسباب میں منہمک تھے اور لوگوں کو اپنی طرف مسلسل دعوت دے رہے تھے اور اسی دوران میں عبد اللہ ابن زبیر نے اپنے دونوں والی عبد اللہ ابن یزید اور ابراہیم محمد ابن طلحہ کو معزول کر دیا اور ان کی جگہ پر عبد اللہ ابن مطیع کو ریاست کوفہ کے لیے اور حارث ابن عبد اللہ ابن ابی ربیعہ کو حکومت بصرہ کے لیے بھیج دیا۔ عبد اللہ ابن مطیع نے کوفہ میں داخل ہوتے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔ جامع مسجد میں تمام لوگ جمع ہوں جب لوگوں سے مسجد چھلکنے لگی، تو اس نے منبر پر جا کر خطبہ دیا جس میں اس نے کہا:
مجھے حاکم وقت عبد اللہ ابن زبیر نے کوفہ کو گورنر بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں شہر کو قابو میں رکھوں اور اخذ اموال کا فریضہ ادا کروں لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم پر بالکل اسی طرح حکومت کروں گا جس طرح عمر ابن خطاب اور عثمان ابن عفان نے کی ہے اب تم تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرو اور خاموشی سے زندگی بسر کرنے کی فکر کرو۔ شر اور فساد شور شرابا کا خیال بالکل ذہن سے نکال دو اور تم میں جو احمق قسم کے لوگ ہیں، انہیں اختلافات اور حکومت کی مخالفت سے باز رکھو اور انہیں سمجھاؤ کہ اعمال صالحہ انجام دیں، ورنہ گرداب عمل میں گرفتار ہوں گے۔
عبد اللہ ابن مطیع ابھی منبر سے اترنے نہ پایا تھا کہ ایک دلیر شخص نے جس کا نام صائب ابن مالک اشعری تھا، مجمع میں کھڑا ہو گیا اور ابن مطیع کو مخاطب کر کے بولا اے امیر تو نے اپنی تقریر میں عمر اور عثمان کی سیرت پر عمل کرنے کا حوالہ دیا ہے اور تو چاہتا ہے کہ کوفہ میں ان دونوں کی سیرت کی روشنی میں حکومت کرے۔ ہم تجھ سے پوچھتے ہیں کہ تو نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی سیرت عمل کا حوالہ کیوں نہیں دیا اور اپنے خطبہ میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ابن مطیع نہ ہم عمر کی سیرت چاہتے ہیں نہ عثمان کی سیرت کے خواہاں ہیں۔ ہمیں تو صرف سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام چاہیے۔ اگر تو کوفہ میں رہ کر ان کی سیرت پر عمل کرے گا تو ہم تیری رعایا اور تو ہمارا حاکم ہو گا اور اگر تو نے ان کی سیرت نظر انداز کر دی تو یاد رکھ کہ ہمارے درمیان ایک پل بھی حکومت نہ کر سکے گا۔ صائب ابن مالک کا یہ کہنا تھا کہ مجمع سے صدائے تحسین و آفرین بلند ہو گئی اور سب کے سب صائب کی تائید میں بول اٹھے۔ مسجد میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ہر طرف سے صائب کے لیے تائیدی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ عبد اللہ ابن مطیع نے پکار کر خاموش رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ تم لوگ گھبراؤ مت میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے درمیان اسی طرح حکومت کروں گا۔ جس طرح تم لوگ خود چاہو گے۔ اس ہنگامہ خیزی کے بعد عبد اللہ ابن مطیع مسجد سے نکل کر سیدھا اپنے دار الامارہ میں چلا گیا اور مسجد کے لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ مسجد میں جو واقعہ گزرا ، اس سے ارکان دولت میں کھلبلی مچ گئی اور سب نتائج پر غور کرنے لگے۔ بالآخر کوتوال کوفہ ایاس ابن مضارب عجلی ، عبد اللہ ابن مطیع کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے امیر تجھے معلوم ہے کہ جس شخص نے دوران خطبہ میں اعتراض کیا تھا وہ کون ہے ؟ عبد اللہ نے کہا کہ مجھے علم نہیں ۔ ایاس نے جواب دیا کہ یہ مختار کے لوگوں کے سر براہوں میں سے ہے۔ اے امیر کوفہ کے حالت روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
روضۃ الصفا ج 3 ص77
مختار کی گرفتاری کا مشورہ:
کوتوال کوفہ ایاس ابن مضارب نے عبد اللہ ابن مطیع کے سامنے حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کوفہ میں اچھا خاصا انتشار پیدا ہے اور اس انتشار کی تمام تر ذمہ داری مختار پر ہے۔ اے امیر مجھے پتا چلا ہے کہ مختار کی بیعت بڑی تیزی سے کی جا رہی ہے۔ لوگ جوق در جوق بیعت کے لیے شب و روز چلے آ رہے ہیں۔ پتا چلا ہے کہ ہزاروں افراد ان کے دائرہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ مختار عنقریب خروج کرنے والے ہیں۔ اے امیر یاد رکھ کہ اگر مختار میدان میں کھلم کھلا نکل آئے تو پھر ان کا سنبھالنا نہایت دشوار ہو گا۔ عبد اللہ ابن مطیع نے کہا کہ تمہارے نزدیک اس کا انسداد کیونکر مناسب اور ممکن ہے۔ ایاس ابن مضارب نے کہا کہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ مختار کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک تیری حکومت مستحکم نہ ہو جائے۔ عبد اللہ ابن مطیع نے کوتوال کوفہ کی رائے پر غور کرنے کے بعد حکم دیا کہ مختار کو بلایا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لیے زائدہ ابن قدامہ اور حسین ابن عبد اللہ صمدانی کو طلب کیا گیا اور ان سے جملہ حالات بتا کر انہیں ہدایت کر دی گئی کہ مختار کو دربار میں لانے کے ارادے سے اسکی مدد کریں۔ وہ دونوں مختار کے پاس گئے۔ ان دونوں نے مختار سے ملاقات کرنے کے بعد ان سے کہا کہ عبد اللہ ابن مطیع آپ کو ایک امر میں مشورہ کرنے کے لیے بلا رہا ہے، لہذا آپ ہمارے ساتھ چلیں۔
مختار نے فرمایا کہ ابھی چلتا ہوں یہ کہہ کر فوراً لباس بدلا اور روانگی کے لیے تیار ہو کر وہ کھڑے ہو گئے۔ ابھی باہر نہ نکلے تھے کہ زائدہ ابن قدامہ جو ان کو لے جانے والوں میں سے ایک تھا، نے یہ آیت پڑھی:
اذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک ویخرجوک او یقتلوک ،
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار تمہارے ساتھ مکر کر رہے ہیں یا تمہیں یہاں سے نکال دیں گے یا قتل کر دیں گے۔ مختار نے جونہی اس آیت کو سنا وہ فوراً سمجھ گئے کہ میرا جانا خطرے سے خالی نہیں ہے اور اگر میں گیا تو یقینا گرفتار کر لیا جاؤں گا۔ یہ خیال کرتے ہی آپ نے اپنے غلام سے کہا کہ دیکھو اس وقت جبکہ میں یہاں سے روانہ ہو رہا ہوں، مجھے سردی لگنے لگی ہے اور ایک دم سے اچانک بخار ہو گیا ہے۔ طبیعت بہت بے قابو ہو رہی ہے۔ غلام نے ضروری کپڑے اور سامان حاضر کر دیا۔ مختار نے اسے اورڑھ لیا اور عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں بندوں سے کہا کہ میری حالت تم دیکھ رہے ہو، مجھے اچانک بخار ہو گیا ہے۔ اس لیے اب میں تمہارے ساتھ اس وقت نہیں آ سکتا۔ تم جا کر عبد اللہ ابن مطیع سے وہ سارا واقعہ بیان کر دو، جو تم نے دیکھا ہے۔ یہ سن کر ابن قدامہ نے کہا کہ میرا تنہا کہنا کافی نہ ہو گا۔ میں تو اپنی طرف سے تمہاری حالت بیان کرنے میں بالکل کوتاہی نہ کروں گا، لیکن ضرورت ہے کہ حسین ابن عبد اللہ بھی ہم خیال و ہم زبان ہو۔ مختار نے حسین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے حسین سن جو میں کہتا ہوں، اسے کان دھر کے سن اور اس پر عمل کر، یہ عمل تجھے ایک دن فائدہ پہنچائے گا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ امیر کو میری جانب سے مطمئن کر دو اور اسے یقین دلاؤ کہ میں مجبوراً اس وقت اس کی طلب پر اس کے پاس نہیں پہنچ سکا۔ اس کے بعد مختار سے دونوں سفیر حکومت رخصت ہو کر واپس چلے گئے۔ باہر نکلنے کے بعد حسین ابن عبد اللہ ہمدانی نے اپنے ساتھی زائدہ ابن قدامہ سے کہا کہ میں سب کچھ سمجھتا ہوں کہ مختار آتے آتے کیسے رک گیا ہے اور اس کے تمارض یعنی بیمار بننے کا سبب کیا ہے، لیکن میں امیر کے سامنے اس کی وضاحت نہ کروں گا۔ کیونکہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں کوفہ مختار کے ہاتھ ہو گا۔ میں اس وقت راز کے چھپانے میں آئندہ کا فائدہ دیکھ رہا ہوں۔ الغرض عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں بندے واپس آ کر اس سے ملے۔ زائدہ ابن قدامہ نے بتایا کہ وہ آ رہے تھے۔ لیکن اچانک بیمار ہو گئے۔ اس لیے حاضر نہ ہو سکے۔ حسین ابن عبد اللہ نے زائدہ کی تائید کر دی اور ابن مطیع خاموش ہو گیا۔
روضۃ الصفا ء ج3 ص78
تاریخ طبری ج 4 ص653
مختار نے قیام کے عمل کو تیز کر دیا:
عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں سفیر تو واپس چلے گئے، لیکن مختار کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ اب ہماری گرفتاری میں کوشاں ہے، لہٰذا انہوں نے سعی خروج تیز کر دی۔ موٴرخ ہروی کا بیان ہے کہ:
مختار نے یہ یقین کرنے کے بعد کہ ابن مطیع مجھے گرفتار کرے گا، اپنے اہل بیت کو جمع فرمایا اور ان سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں خروج کروں۔ لہٰذا تم لوگ تیار ہو جاؤ اور میدان کے لائق اسلحے وغیرہ فراہم کر لو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آپ کے حکم پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں۔ جب حکم ہو میدان میں نکل آئیں گے اور بروایت سعید ابن الجعفی لوگوں نے کہا کہ ہم اسباب خروج کی تیاری میں ہیں۔ ہمیں اور چند دن کی مہلت ملنی چاہیے تا کہ مکمل تیاری کر لیں۔
روضۃ الصفا ج 3 ص 78
جناب مختار کی تقریر چند یوم مہلت دینے کے بعد جناب امیر مختار نے ایک جلسہ طلب کیا۔ جب کثیر اصحاب جمع ہو گئے تو آپ نے ایک زبردست تقریر فرمائی جس میں آپ نے اپنے منصوبہ انتقام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے اب ہمارا خروج کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ آپ کی تقریر کے بعد بہت سے لوگوں نے آپ سے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ کوفہ کے کافی افراد عبد اللہ ابن مطیع سے ملے ہوئے ہیں اور وہ سب آپ سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم جناب ابراہیم ابن مالک اشتر کو بھی ہمنوا بنا لیں۔
حتی جاء معنا ابراہیم ابن الاشتر خرجنا باذن اللّٰہ تعالی القوة علی عدونا فلہ العشیرة الخ۔
اگر ہمارے ساتھ مالک اشتر کے چشم و چراغ حضرت ابراہیم بھی ہو جائیں تو بڑی قوت حاصل ہو جائے گی اور ہم دشمنوں پر آسانی سے قابو حاصل کر سکیں گے کیونکہ وہ اپنی قوم کے سردار ہیں اور ان کے ساتھ بہت بڑا گروہ ہے۔
حضرت مختار نے فرمایا کہ اچھا انہیں ہمنوا بنانے کی سعی کرو اور اب ان تک میری آواز پہنچاؤ۔ انہیں بتا دو کہ ہم ذمہ داران اسلام سے اجازت نامہ لے کر آئے ہیں اور واقعہ کربلا کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ تمہارے کہنے سے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے، تو صحیح ہے اور اگر انہوں نے کچھ بھی شک و تردید کیا تو میں خود ان کے گھر جا کر ان سے مدد کی درخواست کروں گا۔ مختار کے کہنے کے مطابق کچھ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
فلم یجب فانصرفوا۔
اور ان لوگوں نے حضرت مختار کا پیغام ان تک پہنچایا۔
ابراہیم ابن مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور یہ لوگ واپس پلٹ آئے۔
دمعۃ ساکبہ ص 408
جناب مختار کی ابراہیم اشتر کے گھر آمد:
موٴرخ ہروی رقم طراز ہیں کہ حضرت مختار کی خواہش کے مطابق عقلا کا ایک گروہ جن میں ابو عثمان المہدی اور عامر الشعبی بھی تھے۔ ابراہیم اشتر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابراہیم نے ان لوگوں کی بڑی عزت و توقیر کی اور فرمایا کہ اپنے آنے کا سبب بیان کرو، تا کہ میں ان کی تعمیل و تکمیل پر غور کر سکوں۔ ان لوگوں میں سے یزید ابن انس نخعی جو فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے اور تیز زبان کے مالک تھے، بولے کہ اے ابو نعمان ہم اس مقصد کے لیے آئے ہیں کہ آپ کی خدمت میں ایک خاص بات اور ایک اہم امر کی درخواست کریں۔ ابراہیم نے فرمایا کہ مقصد بتاؤ تا کہ میں غور کر سکوں۔ یزید ابن انس نے کہا کہ ہم لوگ کتاب خدا اور سنت رسول کی اتباع اور طلب خون حسین (ع) کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور لوگوں کو اسی امر کی دعوت دے رہے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ کوفے کا بہت بڑا گروہ ہمارے ساتھ ہو گیا ہے۔ بالکل یہی بات احمد ابن شمیط بجلی نے بھی کہی۔ ابراہیم نے ان کے کہنے پر غور و فکر کیا اور سرداری کا حوالہ دیا، ان لوگوں نے جناب مختار کی بیعت کر لینے کا تذکرہ کر کے ان سے حمایت کی درخواست کی۔ ابراہیم خاموش ہو گئے اور یہ لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔ ان لوگوں نے جناب مختار کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ مختار نے تین دن خاموش رہنے کے بعد اپنے معتمد لوگوں کو طلب کیا اور انہیں ہمراہ لے کر ابراہیم کے مکان پر پہنچنا ضروری سمجھا۔ معززین کوفہ کا گروہ مختار کے ہمراہ ابراہیم کے مکان پر جا پہنچا۔ ان لوگوں نے دربانوں سے اجازت دخول حاصل کی اور یہ لوگ اندر داخل ہو گئے۔ ابراہیم نے مختار کا بڑا احترام کیا ، اور تشریف آوری کا سبب پوچھا۔ مختار نے فرمایا کہ میں نے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور شاید آپ کو علم ہو گا کہ میں اس سلسلہ میں کسی کے مکان پر آپ کے مکان کے سوا نہیں گیا۔ آپ سید و سردار ہیں، مجھے آپ کی امداد کی اس سلسلے میں شدید ضرورت ہے، میں آپ کیلئے حضرت محمد حنیفہ کا ایک خط بھی لایا ہوں، اس کی رو سے آپ کی امداد کا خواہش مند ہوں، ابراہیم نے خط طلب کیا۔ مختار نے حضرت محمد حنفیہ (ع) کا خط ان کے حوالہ کیا۔ انہوں نے جب اس خط کو کھولا تو اس میں یہ لکھا دیکھا کہ میں نے مختار کو واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے اپنا مختار اور ولی منتخب و مقرر کیا ہے، آپ ان کی مدد کریں اور ان کی اطاعت قبول کر لیں۔ میں اس امر کا وعدہ کرتا ہوں کہ کوفہ سے شام تک جتنے علاقے اس مہم کے سلسلے میں زیر نگیں ہوں گے، ان کی حکومت آپ کے حوالے کی جائے گی۔ میں تمہاری اس عنایت کا شکر گزار رہوں گا اور دیکھو اگر تم نے اس امر میں کوتاہی کی تو یاد رکھو کہ دنیا و آخرت میں تمہیں گھاٹا ہو گا۔ ابراہیم اشتر نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اے ابو اسحاق حضرت محمد حنیفہ کے خط کا جو انداز ہوتا تھا، وہ اس خط میں نہیں ہے، میں کیسے یقین کر لوں کہ یہ خط انہیں کا ہے ؟ مختار نے فرمایا کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے۔ اصل خط انہی کا ہے، انداز چاہیے جو ہو اگر آپ اس امر کی تصدیق کے لیے گواہ چاہتے ہو کہ یہ خط انہی کا ہے تو میں گواہ پیش کر سکتا ہوں۔
روضۃ الصفا ج 3 ص 79
موٴرخ طبری کا بیان ہے کہ اس خط میں صاف صاف لکھا تھا کہ میں نے مختار کو کوفہ بھیجا ہے۔ تم ان کی بیعت کرو تمہارے والد مالک اشتر ہمارے مخلص اور شیعہ تھے، تم ان کی پیروی کرو۔
تاریخ طبری ج 4 ص 654
ابراہیم اشتر نے فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں۔ جو اس کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ خط حضرت محمد حنفیہ (ع) ہی کا ہے۔ یہ سن کر پندرہ بندے جو مختار کے ہمراہ تھے جن میں یزید ابن انس احمر ابن سعید اور عبد اللہ ابن کامل تھے، نے گواہی دی اور کہا:
نحن نعلم و نشھد انہ کتاب محمد الیک ۔
کہ ہم جانتے ہیں اور اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ خط حضرت محمد بن الحنفیہ ہی کا ہے۔
یہ سن کر ابراہیم اپنے مقام سے اٹھے اور انہوں نے جناب مختار کی بیعت کی اور انہیں اپنے مقام پر بٹھایا اور خود نیچے اتر کر بیٹھ گئے۔
تاریخ طبری ج 4 ص 456
ذوب النضار ص 108
اخذ الثار ابی مخنف ص 488
دمعۃ ساکبہ ص 408
معززین کوفہ کے 50 افراد محمد حنیفہ (ع) کی خدمت میں:
مختار کی واپسی کے بعد بقول امام اہلسنت علامہ عبد اللہ ابن محمد ابراہیم نے یہ ضروری سمجھا کہ مزید اطمینان کے واسطے آپس میں تبادلہ خیالات کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے دوسرے دن نماز صبح کے بعد اپنے اعزہ و اقربا سے واقعہ مختار پر تبصرہ کیا اور ان لوگوں سے بیعت کی خواہش کی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ معاملہ بہت اہم ہے۔ اس لیے ہمارے واسطے یہ امر ضروری ہے کہ ہم مختار کے متعلق حضرت محمد حنیفہ سے مزید اطمینان حاصل کریں اور اس کی صورت یہ ہے کہ ہمارے پچاس آدمی تصدیق امر مختار کے لیے حضرت محمد حنیفہ کی خدمت میں جائیں اور تصدیق کر کے واپس آئیں۔ اگر انہوں نے تصدیق کر دی تو ہم دل و جان سے لڑیں گے اور اپنی جائیں دیں گے اور اپنے جسم کا آخری قطرہ خون بہا دیں گے اور اگر انہوں نے تصدیق نہ کی تو ہم خاموش ہو کر اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔
قرة العین فی اخذ الثار الحسین ص 143 طبع بمئبی
علامہ ہروی کا بیان ہے کہ حضرت محمد بن حنیفہ کے پاس پچاس افراد کے جانے کا فیصلہ سراے عبد الرحمن ابن شریح ہمدانی میں ہوا تھا … اس فیصلے کے بعد پچاس افراد حضرت محمد ابن حنیفہ سے تصدیق امر مختار کے لیے روانہ ہو گئے۔ منزلیں طے کرنے کے بعد جب ان کی خدمت میں پہنچے اور آستان بوس ہوئے اور ان کی خدمت میں پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ آج کل تو حج کا زمانہ بھی نہیں ہے۔ آخر تم لوگ کس لیے یہاں آئے ہو عبد اللہ ابن شریح ہمدانی نے کہا کہ خداوند عالم نے آپ کو خاندانی عزت و بزرگی سے سرفراز فرمایا ہے۔ جو شخص آپ کی اطاعت نہ کرے وہ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ اس زمانے میں خاندان رسالت بلکہ تمام اہل عرفان و معرفت غم امام حسین (ع) سے رنجیدہ ہیں۔ جناب مختار ہمارے وطن کوفہ میں آئے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم حضرت محمد حنیفہ کی طرف سے یہاں آئے ہیں اور ان کے خطوط کے حوالے سے تم لوگوں سے بیعت چاہتے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم حضرت امام حسین (ع) کے خون کا بدلہ لیں۔ حضور ہم لوگوں میں سے کافی تعداد میں اس بناء پر ان کی بیعت کر لی ہے کہ وہ آپ کے خطوط دکھلا رہے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ اگر وہ آپ کی طرف مامور ہوں، تو ہم تکمیل بیعت کریں اور ان کی پوری پوری امداد سے سرخرو ہوں، ورنہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں۔
حضرت محمد حنیفہ نے فرمایا کہ جہاں تک ہماری عزت و حرمت کا تعلق ہے، یہ خدا کا عطیہ ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عزت عنایت فرماتا ہے اور حضرت امام حسین (ع) کا قتل دلسوز ہے، مختار کے بدلہ لینے کے متعلق یہ ہے کہ باللہ الذی لا الہ الا ہو
اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ وہ جس کسی کو بھی اپنے بندوں میں سے طاقت دے دے اور دشمنوں پر فتح نصیب کر دے کہ وہ اس واقعہ کا بدلہ لے جو ہم پر گزرا ہے تو یہی ہمارا عین مقصود ہے۔
روضۃ الصفا ج 3 ص78
موٴرخ طبری کا بیان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ امام حسین کے خون کا بدلہ لینا تمام اہل عرفان پر واجب ہے۔
تاریخ طبری ج 4 ص 654
موٴرخ ابن ایثر جزری کا بیان ہے کہ حضرت محمد بن حنیفہ نے خداوند کی حمد و ثنا کے بعد کہا کہ تم لوگ جس شخص کا ذکر کرتے ہو، وہ تم کو ہم لوگوں کے خونوں کا بدلہ لینے کے لیے دعوت دیتا ہے۔ اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ میں خود یہ چاہتا ہوں کہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ اپنی مخلوق میں جس شخص کے ذریعے چاہے، ہم کو ہمارے عدو کے خلاف مدد دے اور اگر میں نہ چاہتا تو کہہ دیتا کہ ایسا نہ کرو۔
ترجمہ تاریخ کامل ج 1 ص 360
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
قوموا بنا الی امامی وامامکم علی بن الحسین۔
کہ اٹھو ہم لوگ اپنے اور تمہارے امام زمانہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس چلیں۔
جب یہ لوگ روانہ ہو کر ان کی خدمت بابرکت میں پہنچے اور ان کی خدمت میں عرض ادب پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:
یا عم لو ان عبدا زنجیا تعصب لنا اھل اھلبیت لوجب علی الناس موازرقہ ولقد ولیتک ھذا الامر فاصنع ما شِئت ،
اے چچا جان اگر غلام حبشی ہم اہل بیت (ع) کی مدد گاری اور جانبداری کیلئے کھڑا ہو جائے تو اس کے ساتھ رفاقت اور اس کی شراکت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ میں نے اس امر میں آپ کو اپنا وکیل بنا دیا ہے اب آپ جو مناسب سمجھیں کر سکتے ہیں۔
ذوب النضار فی شرح الثار ص 401
دمعۃ ساکبہ ص 408
نور الابصار ص 92
اصدق الاخبار ص 39
اس کے بعد وہ لوگ نہایت خوش و مسرور حضرت محمد حنیفہ سمیت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس سے واپس آئے اور حضرت محمد بن حنیفہ سے درخواست کی کہ ہمیں اپنا نوشتہ دے دیجئے، چنانچہ انہوں نے خط لکھ دیا اور یہ لوگ ان سے رخصت ہو کر روانہ کوفہ ہو گئے۔
نور الابصار ص 91
وہاں سے نکلنے کے بعد جب یہ لوگ اپنوں سے ملے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں حضرت امام زین العابدین (ع) اور حضرت محمد بن حنیفہ نے اجازت دے دی ہے۔
دمعۃ ساکبہ ص 408
ذوب النضار ابن نما ص 407
علامہ محمد ابراہیم لکھتے ہیں کہ جناب مختار کو ان لوگوں کے جانے کی خبر نہ تھی جب انہیں معلوم ہوا کہ پچاس آدمی محمد حنیفہ کے پاس گئے تھے اور وہ واپس آ کر قادسیہ میں مقیم ہیں، تو اپنے غلام سیطح کو طلب فرمایا اور اس سے کہا کہ تو قادسیہ جا کر حالات معلوم کر اور سن اگر تو یہ خبر لایا کہ ان لوگوں کو میری بیعت کی اجازت لی گئی ہے، تو میں تجھے آزاد کر دوں گا۔ غلام دوڑا ہوا قادسیہ پہنچا اور اس نے وہاں دیکھا کہ لوگ مختار کے نام کی بیعت لے رہے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر بھاگا ہوا مختار کے پاس پہنچا اور اس نے انہیں خبر مسرت سنائی۔ مختار نے حسب گفتہ خود اپنے غلام کو آزاد کر دیا۔
نور الابصار ص 91
اخذ الثار ابی مخنف ص 489
موٴرخ ہروی کا بیان ہے کہ اہل کوفہ جب وہاں سے لوٹ کر کوفہ پہنچے اور ان لوگوں کی مختار سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کیا جواب لائے ہو ؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت نے آپ کی بیعت اور آپ کی امداد کا حکم دے دیا ہے۔ مختار نے کمال مسرت کی حالت میں فرمایا کہ میں انشاء اللہ دشمنوں کو تہ تیغ کر دوں گا۔ جب یہ خبر اجازت کوفہ میں مشہور ہو گئی تو وہ تمام لوگ جنہیں خدا کی طرف سے محبت اہل بیت (ع) کا کچھ حصہ بھی نصیب ہوا تھا، بیعت مختار کیلئے دوڑ پڑے اور سب نے اسکی بیعت کرلی۔
روضۃ الصفاء ج 3 ص 78
مختار کی بیعت بصرہ میں:
موٴرخ طبری کا بیان ہے کہ جب مختار کی بیعت کوفہ میں عام طور سے ہونے لگی، تو اسی دوران میں بنی مثنیٰ نامی ایک شخص بصرہ سے کوفہ آیا اور اس نے بھی جناب مختار کی بیعت کی۔ مختار نے مثنیٰ سے فرمایا کہ تم ابھی بصرہ میں مقیم ہو اور پوشیدہ طریقے سے میری بیعت لیتے رہو اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رکھو، جب تک میں خروج نہ کروں، جب میں کوفہ میں خروج کروں تو تم بصرہ میں ہنگامہ برپا کر دو۔ اگر خدا نے چاہا اور اس نے میری مدد کی اور میں کامیاب ہو گیا تو بصرہ کی حکومت تمہارے سپرد کر دوں گا۔ مثنیٰ نے کہا کہ بہت خوب آپ کا جو حکم ہو میں اس کی تعمیل کروں گا۔چنانچہ مثنیٰ اپنے ہمدردوں کو لے کر کوفہ کے لیے روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر مختار کے ساتھ ہو گئے۔
تاریخ طبری ج 4 ص654 طبع لکھنوء
حضرت محمد حنفیہ (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام اور حمایت مختار کے لیے اعلان عام ابو مخنف کا بیان ہے کہ:
اہل کوفہ کی واپسی کے تین دن بعد مشائخ کوفہ حضرت مختار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضرت محمد بن حنفیہ (ع) کا خط جو اہل کوفہ کے نام تھا، مختار کو دیا۔ اس کے بعد ایک منادی کے ذریعہ سے اعلان عام کرا دیا گیا کہ سب لوگ مختار کی بیعت کرنے میں عجلت سے کام لیں اور کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو بیعت نہ کرے۔ اس اعلان کے بعد تقریباً تمام اہل معرفت نے مختار کی بیعت کر لی اور ان کی نصرت و حمایت پر کمر عزم و استقلال باندھ لی۔
اخذ الثار انتصار المختار علی الطغاة الفجار ص489
نور الابصار ص92 طبع لکھنوء
موٴرخ ابو الفداء لکھتا ہے کہ مختار نے تمام لوگوں سے کتاب خدا سنت رسول اور طلب انتقام خون اہلیت (ع) پر بیعت لی۔ مختار کی جنگ صرف قاتلان حسینی سے تھی۔ اس جنگ میں مختار نے پوری پوری کامیابی حاصل کی اور تقریباً سب ہی کو قتل کر ڈالا۔
تاریخ الفداء ج 2ص 148
ابو مخنف کا بیان ہے کہ واقعہ کربلا میں چار اشخاص نمایاں حیثیت رکھتے تھے: ابن زیاد ، عمر سعد ، سنان ابن انس ، شیث ابن ربعی یہ لوگ گمراہوں کے لشکر کے سربراہ تھے۔
کنز الانساب ص 14 طبع بمبئی
جناب مختار کا خروج اور قیام:
فانتقمنا من الذین اجرموا وکان حقاً علینا نصر المومنین ،
ناصر اہل بیت (ع) جناب مختار کا خروج ابراہیم ابن مالک کا عظیم الشان حمایتی کردار اور حصولِ مقصد میں شاندار کامیابی کارنامہ مختار کا آغاز ہوا۔
صفِ جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز (اقبال)
مختار متعدد قید و بند کی سختیاں برداشت کرنے اور حجاج ابن یوسف جیسے خونخوار سے محفوظ رہنے کے بعد عزم و خروج کو فروغ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ مختار سے پہلے اگرچہ جناب علقمہ سلیمان اور مسیب وغیرہ نے جوش انتقام کا مظاہرہ کیا، لیکن انہیں درجہ شہادت پر فائز ہونے کے علاوہ کوئی نمایاں کامیابی نہ ہوئی۔
کنز الانساب ابو مخنف ص14
مختار نے کمال عزم و استقلال کے ساتھ خروج کا فیصلہ فرمایا اور اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے جرنیل ابراہیم ابن مالک اشتر سے مشورہ کر کے تاریخ خروج مقرر کر دی۔ مختار اور تاجدار شجاعت ابراہیم اور ان کی جمعیت نے فیصلہ کیا کہ ہمیں 14 ربیع الثانی سن 66 ہجری بروز جمعرات خروج کر دینا چاہیے۔
دمعۃ ساکبہ ص 408
تاریخ طبری ج 4 ص 654
مختار نے تاریخ خروج کے فیصلے کے بعد ابراہیم کو علمدار اور سپہ سالار مقرر کر دیا۔
و عقد رایة دفعھا الی ابراہیم
اور ایک جھنڈا یعنی علم لشکر مرتب کر کے جناب ابراہیم کے سپرد فرما دیا۔
قرة العین ص144
موٴرخین کا بیان ہے کہ بیعت کرنے اور سپہ سالار مقرر ہونے کے بعد ابراہیم، مختار کے گھر مسلسل آتے جاتے تھے اور فتح و کامرانی کے حصول پر تبادلہ خیالات فرماتے تھے۔ ابراہیم جب بھی جناب مختار کے مکان پر جاتے تھے، آپ کے ہمراہ آپ کے ہوا خواہان اور افراد قبیلہ ہوا کرتے تھے۔ عموماً آپ کا آنا جانا شب کے وقت ہوا کرتا تھا۔
کوتوال کوفہ ایاس ابن مضارب کی گھبراہٹ:
ابراہیم کی نقل و حرکت سے کوفہ کے ایوان حکومت میں شدید قسم کی ہلچل مچ گئی اور تمام ارکان دولت میں اضطراب پیدا ہو گیا۔ حالات کی روشنی میں ایاس ابن مضارب عجلی جو کہ عبد اللہ ابن مطیع والی کوفہ کی طرف سے کوتوال شہر مقرر تھا ۔ عبد اللہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں آج کل کوفہ میں جس فضاء کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عنقریب کوفہ میں فتنہ عظیم برپا ہو گا۔ اس نے کہا کہ میں برابر دیکھ رہا ہوں کہ ابراہیم ابن مالک اشتر ایک جمعیت کثیر سمیت رات کے وقت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کے پاس جاتے ہیں اور بڑی رات تک ان سے گفتگو کیا کرتے ہیں۔ شک ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ لوگ عنقریب کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ اس نے کہا کہ میں حالات حاضرہ سے امیر کو مطلع کر کے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائیں۔ عبد اللہ ابن مطیع نے ایاس کی باتوں کو کان دھر کے سنا اور حفظ ما تقدم کے لیے اس نے یہ بندوبست کرنا ضروری سمجھا کہ کوفہ کی ناکہ بندی کر دے، چنانچہ ابن مطیع نے ایاس کے مشورہ کیمطابق بروایت طبری کوفہ کے ساتوں محلوں پر پانچ سو سواروں کے دستوں کے ساتھ ایک ایک افسر مقرر کر دیا اور ان لوگوں کو حکم دیا کہ تم لوگ اپنے اپنے محلوں پر پورا پورا قابو رکھو اور جن کو دیکھو کہ وہ فتنے کے ارادے سے برآمد ہوا ہے، اس کا سر تن سے بے دریغ جدا کر دو اور ایاس ابن مضارب کو حکم دیا کہ تو اپنے محلہ کی حفاظت کے علاوہ سو سواروں کو ہمراہ لے کر کوفہ کے شہر اور اس کے بازاروں اور گلیوں کا رات میں چکر لگایا کر چنانچہ اس نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ ابراہیم جو برابر مختار کے پاس جایا کرتے تھے، جب حسب اصول ایک رات کو سو سواروں سمیت نکلے تو راستے میں ایاس ابن مضارب جو کئی سو سواروں سمیت اس مقام پر موجود تھا، راستے میں اس سے آمنا سامنا ہو گیا۔ اس نے ابراہیم ابن اشتر کو روکتے ہوئے کہا کہ تم کون لوگ ہو اور کس کے پاس رات کو مسلح ہو کر جا رہے ہو۔ جناب ابراہیم نے کہا کہ میں نے ابن مالک اشتر ہوں اور میرے ہمراہ جو لوگ ہیں یہ میری قوم و قبیلہ والے ہیں، ہم لوگ ایک اہم کام کے سلسلہ میں نکلے ہیں۔ ایاس نے کہا کہ وہ مہم کام کیا ہے، جس کے لیے تم لوگ آدھی رات کو مسلح ہو کر نکلے ہو ؟ ابراہیم نے کہا ہے جو مہم کام بھی ہو، تم کو اس سے کیا ہے۔ اس کے متعلق ہم سے بحث نہ کر اور ہمیں اپنے راستے پر جانے دے اور تو خود اپنے راستے پر یہاں سے چلا جا۔
ایاس اور ابراہیم میں بحث اور اختلاف:
ایاس نے کہا کہ میں کوتوال شہر ہوں اور میں اب تمہیں حرکت کرنے نہ دوں گا اور تم سے کہتا ہوں کہ تم لوگ چپکے سے میرے ہمراہ والی کوفہ عبد اللہ ابن مطیع کے پاس چلے چلو۔
ابراہیم نے کہا کہ میں تجھ سے پھر کہتا ہوں کہ ہم لوگوں کو نہ چھیڑ اور اپنی راہ لگ جاؤ۔ اس نے کہا کہ یہ ناممکن ہے اب تو دو ہی صورتیں ہیں یا یہ کہ تم میرے ہمراہ چلو یا دو دو ہاتھ مجھ سے کر لو۔ میں جب تک زندہ ہوں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔ ابراہیم نے کہا کہ خدا کی قسم تجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تو کیا کر رہا ہے۔ میں تجھ سے پھر کہتا ہوں کہ مجھ سے مزاحمت نہ کر اور جدہر جانا ہے، چلا جا۔ ایاس نے کہا کہ خدا کی قسم میں تم لوگوں کو عبد اللہ ابن مطیع کے پاس پہنچا کر ہی دم لوں گا۔ ابراہیم کے بار بار سمجھانے کے باوجود وہ راہ راست پر نہ آیا تو ابراہیم نے ایک شخص ابو قطن ہمدانی کے ہاتھ سے نیزہ لے کر ایاس کے سینے پر دے مارا۔ وہ زمین پر گر پڑا آپ نے حکم دیا کہ اس کا سر کاٹ لیا جائے۔ ایاس کے گرتے ہی اس کے سارے ساتھی بھاگ گئے۔ ابراہیم ایاس کا سر لیے ہوئے مختار کے پاس پہنچے اور ان کے قدموں میں ایاس کا سر ڈال کر کہا کہ جس تاریخ کو خروج کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس سے قبل ہی یہ واقعہ پیش آ گیا۔ جناب مختار نے بڑی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ قتل ایاس ہمارے لیے فال نیک ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب ہوں گے۔ اس کے بعد مختار نے اپنے سرداران لشکر مثل رفاعہ ابن شداد ، قدامہ ابن مالک اور سعید ابن منقد سے کہا کہ اب پوری طاقت سے میدان میں آ جانے کی ضرورت ہے۔ تم لوگ کوفہ کے محلوں میں جا کر نعرہ انتقام بلند کرو اور لوگوں کو دعوت دو کہ فوراً یہاں آ جائیں ان لوگوں نے کوفہ کے بازاروں اور گلیوں میں یا الثارات الحسین کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ اس آواز کا اثر یہ ہوا کہ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر خانہ مختار پر جا پہنچے۔ جب کافی جمعیت ہو گئی تو مختار نے سلاح جنگ پہنا اور آلات حرب سے اپنے آپ کو آراستہ کیا اور اپنے جرنیل جناب ابراہیم سے کہا کہ بس اب نکل چلنا چاہیے۔ چنانچہ یہ حضرات لشکر سمیت برآمد ہو گئے۔
علامہ حسام الواعظ رقمطراز ہیں کہ: جب ایاس ابن مضارب قتل کر دیا گیا اور اس کی اطلاع عبد اللہ ابن مطیع کو پہنچی اور اسی دوران میں اس نے مختار کی طبل خروج کو سنا تو لرزا اٹھا اور اس نے فورا ً راشد ابن ایاس کو بلا کر کہا کہ ابراہیم ابن مالک اشتر نے تمہارے باپ کو قتل کر دیا ہے اور اس کا سر مختار کے پاس بھیج دیا ہے۔ یہ سن کر ابن ایاس نے اپنے سر سے پگڑی پھینک دی اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور سرد پا برہنہ ہو کر سخت گریہ کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر ابن مطیع نے اس سے کہا کہ تو عورتوں کی طرح روتا ہے۔ یہ رونا پیٹنا احمقوں کا کام ہے، اب تو تیار ہو جا اور ابراہیم سے اپنے باپ کا بدلہ لے اور اسے قتل کر کے ان کا سر میرے پاس لا حاضر کر۔ ابن ایاس چونکہ بڑا بہادر تھا، لہٰذا وہ ابراہیم سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اب یہ اپنے باپ کی طرح قاتلان امام حسین (ع) سے بھی تھا۔ ابن مطیع کی بات سن کر ابن ایاس 22 آدمیوں کو لے کر جن میں سوار و پیادے تھے، بازار میں آیا۔ ادھر مختار نے گھروں کی چھتوں پر آگ روشن کر دی تھی اور طبل خروج بجوا دیا تھا تا کہ لوگوں کو خروج کی اطلاع مل جائے، لیکن اس کے باوجود لوگ مختار کے پاس جمع نہ ہوئے، یعنی وہ 18 ہزار افراد جو بیعت کر چکے تھے، وہ مختار کے پاس نہ پہنچے۔ اگرچہ کوفیوں کی بے وفائی مشہور ہے، لیکن اس موقع پر ان کے نہ پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ مختار نے جمعرات کی شب کی تاریخ مقرر کر رکھی تھی اور یہ ساتھ ساتھ کہہ دیا تھا کہ اگر اس سے قبل بھی آگ وغیرہ دیکھی تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ ابن مطیع کی حرکت ہے۔
اسی بناء پر کوئی نہ آیا اور سب کے سب اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چلے گئے اور وہاں سے حالات کا جائزہ لینے لگے اور اسکی وجہ یہ ہوئی کہ ابراہیم سے اچانک جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے جمعرات کی بجائے بدھ ہی کو خروج کو شروع کر دیا گیا۔ مختار نے حالات کی روشنی میں ابراہیم سے کہا کہ شاید کوفی ہمارے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں، جو وہ حضرت مسلم ابن عقیل کے ساتھ کر چکے ہیں۔ ابراہیم نے فرمایا کہ اے امیر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اولا ًسارے راستے بند ہیں ثانیا ً ہم لوگوں نے سب کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ جمعرات سے پہلے کسی کے اعلان پر کان نہ دھرنا۔ اب مناسب یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ پر مقیم رہیے، میں جاتا ہوں اور سب کو باخبر کرتا ہوں۔ مختار نے ابراہیم کو دعا دی اور وہ سو سوار لے کر مسجد فاطمی کے دروازے پر جا پہنچے اور وہاں سے چل کر مسجد بازار کے کوچے میں داخل ہوئے جہاں بیعت کرنے والوں کے چار سو افراد رہتے تھے، ابراہیم جونہی اس کوچے میں پہنچے، آپ نے دیکھا کہ سو افراد دشمنوں کے وہاں موجود ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ میں ابراہیم ابن مالک اشتر ہوں، اس نے جواب دیا کہ میں عمر ابن عفیف ہوں اور تمہیں اور حسین کو قتل کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر ابراہیم نے ایک زبردست نعرہ لگایا جس کی وجہ سے وہ کانپ گیا اور اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے بھاگ نکلا۔ یہ دیکھ کر ابراہیم کے ساتھی انکے پیچھے دوڑے اور انہیں جا گھیرا بالآخر ان کے چالیس افراد قتل کر دئیے اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔ اس کے بعد ابراہیم نے مؤمنوں کو اپنے خروج کی اطلاع دی پھر وہاں سے چل کر محلہ بنی کندہ میں پہنچے، وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک شخص ایک سرائے کے دروازے پر بیٹھا ہوا ہے، آپ نے اس سے پوچھا کہ اس محلے کا محافظ کون ہے ؟ اس نے کہا کہ زبیر ہشمی ، ابراہیم نے فرمایا کہخداوند اس پر بے شمار لعنت کرے کہ وہ امیر المؤمنین کے ساتھ جنگ صفین میں لڑا تھا، پھر امام حسین (ع) کے قتل میں کربلا میں بھی شریک ہوا۔ خدا مجھے توفیق و تسلط عطا کرے کہ میں اس کا سر تن سے جدا کروں۔ اس کے بعد اس محلے کے گرد چکر لگا کر اہل ایمان کو خروج مختار سے باخبر کرنے لگے۔ اسی دوران میں ابراہیم کے ساتھیوں نے ایک شخص کو مسلح دیکھ کر پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہا کہ میں سنان ابن انس کا آدمی ہوں۔ بازار کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ لوگوں نے اسے گرفتار کر کے ابراہیم کے سامنے پیش کیا۔ ابراہیم نے حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جائے چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا۔
مختار کے مکان پر حملہ کرنے کے لیے شیث ابن ربعی کی روانگی:
ابراہیم ادہر چکر لگا رہے تھے، ادہر عبد اللہ ابن مطیع نے شیث ابن ربعی کو بلا کر کہا کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے مختار کے مکان کو گھیر کو انہیں تباہ کر دے۔ شیث نے کہا کہ اے امیر یہ رات کا وقت ہے، اس وقت کیونکہ حملہ کرنا مناسب ہو گا۔ ابن مطیع نے کہا کہ بہانے نہ کر اور چل پڑ۔
یہ سُن کر شیث ایک ہزار سوار لے کر نکل پڑا۔ اس کے ساتھ مشعلیں اور سیاہ عَلم تھا۔ وہ اپنے مقام سے چل کر جونہی محلہ بنی سالم سے گزرا، اِس نے دیکھا کہ ایک وہ آ رہا ہے۔ وہ گروہ تھا حجاز ابن جر کا اسی محلہ کا محافظ تھا۔ اس گروہ نے باہم یہ فیصلہ کیا کہ چل کر دار الامارہ کو دیکھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مختار نے اس پر حملہ کر دیا ہو۔ یہ لشکر جا ہی رہا تھا کہ اس کی نگاہ شیث کے لشکر پر پڑی، وہ یہ سمجھا کہ مختار کا لشکر آ رہا ہے اور حجاز کا لشکر بھی یہی سمجھا کہ مختار کا لشکر آ رہا ہے۔ غرضیکہ دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو مختار کا لشکر سمجھا اور یہی سمجھ کر دونوں نے آپس میں جنگ کرنا شروع کر دی اور بالآخر حجاز کا لشکر جو کہ پانچ سو پر مشتمل تھا، اسکو فتح حاصل ہو گئی اور شیث کے لشکر پر جو کہ ایک ہزار پر مشتمل تھا غالب آیا۔ شیث ابن ربعی کا لشکر ہزیمت کھا کر بھاگا گیا اور شیث کے لشکر کے 360 سوار مارے گئے اور تقریباً کُل کے کُل زخمی ہو گئے۔ شیث ابن ربعی بھاگا ہوا عبد اللہ ابن مطیع کے پاس پہنچا۔ اب اسے معلوم ہو چکا تھا کہ کشت و خون آپس ہی میں ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ شب کے وقت حملہ کرنا قرین مصلحت نہیں ہے۔ تو نہ مانا آخر نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے ہی بہت سے سوار مارے گئے۔ ابن مطیع نے کہا کہ تو مختار سے ڈر گیا ہے، مختار کو جب شیث اور حجاز کے باہمی قتال کی خبر ہوئی تو وہ سجدہ شکر میں گِر پڑے۔ اس کے بعد انہوں نے ابراہیم سے کہا کہ بھائی دشمن کو یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس لشکر بہت ہے، اگر اُسے یہ پتا چل گیا کہ ہمارے معاون فی الحال بہت کم ہیں، وہ حملہ کر دیں گے اور ہمیں سخت نقصان پہنچ جائے گا۔ ابراہیم نے کہا کہ چاروں طرف راستے بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی آمد کم ہے۔ بمقام "شاکریہ" شیعیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کافی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر انہیں خروج کی صحیح اطلاع مل جائے تو یقینا وہ لوگ ہم تک پہنچ جائیں گے اور اب اس کی صورت صرف یہی ہے کہ کسی کو اس مقام پر بھیج دیا جائے۔ یہ سن کر بشیر ابن قان جو اسی مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ بولا کہ یہ فریضہ میں ادا کروں گا۔
اور اے امیر میں اس امر میں کامیاب بھی ہو جاؤں گا کیونکہ میں باہر کا رہنے والا ہوں۔ یہاں کے لوگ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ میں یہ بہانہ کر کے جاؤں گا کہ شاکر یہ میرا ایک دوست ہے، مجھے اس سے ملنا ہے۔ مختار نے فرمایا کہ یہ سب سچ ہے لیکن اگر کہیں کعب ابن ابی کعب مل گیا تو ہو سکتا ہے کہ تمہیں قتل کر ڈالے۔ تب کیا بنے گا۔ اس نے کہا کہ " زہے سعادت " اگر میں راہِ حسین (ع) میں قتل ہو گیا تو اس سے بہتر اور کیا ہے ؟ یہ سُن کر مختار نے اُس کو دُعا دی اور اجازت مرحمت فرمائی۔ بشیر، مختار سے رخصت ہو کر پرانے لباس اور دست میں عصا لے کر شاکریہ کے دروازہ پر پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ اہل شاکریہ دروازہ بند کیے بیٹھے ہیں۔ جب اس نے دروازہ کے شگاف و دراز سے نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ شمعیں روشن کیے سلاح جنگ سے آراستہ بیٹھے ہیں۔ بشیر نے آواز دی کہ " معشر المسلمین " میرے قریب آؤ کہ میں ایک ضروری بات کہنی چاہتا ہوں۔ یہ سن کر ایک شخص مسلح اپنے مقام سے اُٹھا اور پھاٹک کے قریب آیا اور آ کر کہنے لگا کہ تو کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔ بشیر نے کہا کہ میں مختار کے پاس سے آیا ہوں، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کو مختار کے خروج کی اطلاع دے دوں اور یہ بتا دوں کہ امیر مختار کے مکان پر جو آگ روشن کی گئی ہے، وہ اعلان خروج کیلئے ہے اور دھوکہ نہیں ہے اور جو نقارہ بجایا جا رہا ہے، درست ہے۔ سنو ! میں تمہیں خاص طور سے اطلاع دینے کے لیے رات کے وقت آیا ہوں۔ یہ سُننا تھا کہ ایک ہزار چار سو سوار بیک وقت دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔
اہل شاکریہ کی سیاست:
باہر نکلنے کے بعد ان لوگوں نے باہمی مشورہ کیا کہ ہمیں اب کدہر چلنا چاہیے۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو سیدھے مختار کے پاس نہیں جانا چاہیے، کیونکہ اگر ہم براہ راست چلے گئے تو کعب ہمارے مکانات کھدوا ڈالے گا۔ ہمارے بچوں کو قتل اور اسیر کرے گا اور ہماری جائیداد کو تباہ کر دے گا۔ بہتر یہ ہے کہ ہم سب ابن مطیع کی طرف دار بن کر کعب کے پاس چلیں اور اسے یہ یقین دلائیں کہ ہم اس کے مددگار ہیں۔ جب وہ مطمئن ہو جائے تو پھر موقع سے امیر مختار کے پاس پہنچ جائیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر جب موقع نصیب ہوا تو باہر نکل کر آواز لگانے لگے: "یا لثارات الحسین " اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ لشکر کعب یہ سمجھا کہ مختار آ گئے ہیں اور اس تصور کے قائم ہوتے ہی سب کے سب بھاگ نکلے اور یہ ایک ہزار چار سو افراد مختار کی خدمت میں جا پہنچے۔
مجاہدوں کی فراہمی کے لیے ابراہیم اشتر کی روانگی:
اس کے بعد جناب مختار نے ابراہیم سے فرمایا کہ اب کوئی ایسی صورت ہونی چاہیے کہ تمام مؤمنین یہاں پہنچ جائیں۔ ابراہیم نے فرمایا کہ آپ اپنے مقام پہ رہیے، میں خود جا کر لوگوں کو فراہم کرتا ہوں۔ چنانچہ ایک سو سوار لے کر باہر نکل پڑے اور وہاں سے روانہ ہو کر بازار میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر ایک لشکر کو دیکھا کہ بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو اور کہاں سے آئے ہو اور تمہارا نشان کیا ہے۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہمارا نشان " المنصور المنتقم یا لثارات الحسین " ہے۔ یہ سن کر ابراہیم شاد ہو گئے اور عبد اللہ ابن عروہ اس لشکر سے برآمد ہو کر ابراہیم سے بولے کہ اے امیر وعدہ خروج تو کل جمعرات کی رات کے لیے تھا، آج ہی خروج کی کیا وجہ ہو گئی ؟ جناب ابراہیم نے واقعہ بتایا اور انہیں امیر مختار کے پاس بھیج دیا۔ ابراہیم وہاں سے دوسری طرف روانہ ہو گئے۔ یہ رات تاریکی میں ایک طرف کو جا رہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظر اپنے لشکر کے ایک دستے پر پڑی، دیکھا کہ وہ ایک شخص کو پکڑے ہوئے لا رہا ہے۔
جب وہ لوگ اسے ابراہیم کے پاس لائے تو ابراہیم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس نے سوا اس کے کسی سوال کا جواب نہ دیا۔ ابراہیم نے اُسے مختار کے پاس بھیج دیا، پھر آپ اور آگے بڑھے دیکھا کہ ایک لشکر جرار چلا آتا ہے، ابراہیم نے آگے بڑھ کر پوچھا تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو اور تمہارا نشان کیا ہے ؟ انہوں نے سب باتوں کا جواب یہ دیا کہ ہمارا نشان " المنصور المنتقم یا لثارات الحسین " ہے۔ اس کے بعد ایک شخص حارث ابن اثاث ہمدانی اپنے لشکر سے آگے بڑھا جونہی ابراہیم کی نگاہ اس کی پیشانی پر پڑی، پوچھا برادرم ! تمہاری پیشانی کیوں زخمی ہے۔ اس نے کہا کہ جب خانہ امیر مختار پر آگ روشن ہوئی اور نقارہ بجایا گیا تو ہم لوگوں نے سمجھا کہ ابن مطیع نے مکر و فریب کیا ہے، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک پیر مرد نے مجھ سے کہا کہ مختار نے خروج کر دیا ہے اور شاکریہ کے ایک ہزار چار سو بہادر مختار کے پاس پہنچ گئے ہیں۔
یہ سننا تھا کہ تابِ تاخیر باقی نہ رہی۔ ہم لوگ آپ کی خدمت میں پہنچنے کے لیے بے چین ہو گئے ہیں۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک گروہ سامنے سے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور کس سے تعلق رکھتے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم شمر ابن ذی الجوشن کے آدمی ہیں اور وہ خود ہمارے لشکر میں بحیثیت امیر موجود ہے۔ میں نے یہ سُن کر ان لوگوں پر حملہ کر دیا اور جنگ ہونے لگی۔ یہاں تک کہ خود شمر میرے مقابلے میں آ گیا۔ میں نے اس پر ایک زبردست حملہ کیا اور اسے زخمی کر دیا۔ اُس نے اُس کے جواب میں مجھ پر حملہ کیا اور میری پیشانی مجروح ہو گئی، لیکن خدا کا فضل ہے کہ میں نے اُس گروہ کو شکست دے دی اور وہ سب مفرور ہو گئے، معلوم نہیں اب وہ سب کدہر نکل گئے ہیں۔ ابراہیم نے ان لوگوں کو دعا دی اور مختار کے پاس انہیں بھیج دیا۔ اس کے بعد ابراہیم ایک دوسری جانب کو چل پڑے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک گروہ آ رہا ہے۔ آپ نے اسے روک کر پوچھا کہ تم کون لوگ ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ہم المنصور المنتقم یا لثارات الحسین ہیں۔ ابراہیم خوش ہو گئے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ تمہارا سردار کون ہے انہوں نے قاسم ابن قیس کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ قاسم ایک نوجوان شخص تھا جس کی عمر 20 سال تھی۔
لیکن یہ شجاعت میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اسی کے والد قیس حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ حضرت نے انہیں اپنا خط دے کر کوفہ بھیجا تھا۔ جب ابن زیاد کے سپاہیوں نے انہیں دیکھا تو اسے گرفتار کر لیا اور ابن زیاد کے سامنے انہیں پیش کیا۔ ابن زیاد نے کہا کہ اے قیس حسین کے ایلچی ہو تمہیں قتل ضرور کیا جائے گا، لیکن اگر تم چاہتے ہو کہ قتل سے بچ جاؤ تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تم دار الامارہ کی چھت پر جا کر میری اور یزید کی تعریف کرو اور علی و حسین کی مذمت میں ناسزا الفاظ کہو۔ قیس نے کہا بہتر ہے کہ تم مجھے چھت پر بھیج دو۔ جب وہ چھت پر پہنچے تو بآوازِ بلند بولے اے لوگو:
میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا قاصد ہوں، انہوں نے مجھے تم لوگوں کے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہیں بتا دوں کہ وہ حسین جو فرزند پیغمبر ہیں کربلا میں آ چکے ہیں اور دشمن انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے، وہ تم سے مدد کے خواہاں ہیں۔ خوشا نصیب ان لوگوں کا جو اپنی دولت اور اپنے مال و منال کی پرواہ کیے بغیر ان کی خدمت میں پہنچ کر سعادت ابدی حاصل کریں گے۔ سُنو ! ان کی امداد کرنا، تم پر فرض ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے یزید، معاویہ اور ابن زیاد پر لعنت کرنا شروع کی اور ان لوگوں کی سخت مذمت کی۔ ابن زیاد کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی ابن زیاد نے حکم دیا کہ قیس کو چھت سے زمین پر گرا کر قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے، غرضیکہ ابراہیم قاسم ابن قیس کو ہمراہ لیے ہوئے مختار کی خدمت میں جا پہنچے۔ ابراہیم کی کاوش اور محنت مشقت سے خانہ مختار پر مجاہدوں کا کافی اجتماع ہو گیا۔ اس اجتماع کی جب ابن مطیع کو اطلاع ملی، تو وہ گھبرا گیا اور وہ یہ فکر کرنے لگا کہ مختار کی جمعیت کو کسی نہ کسی صورت سے منتشر کرے۔ اس کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ مختار کو تباہ و برباد کر ڈالے۔
ابن مطیع کا لشکر امیر مختار کے مکان پر:
چنانچہ اس نے اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن حرب کو طلب کیا اور اُسے حکم دیا کہ تو ایک ہزار کا لشکر لے کر مختار کے مکان پر جا اور اُن کی ساری جمعیت کو تہس نہس کر دے۔ عبد اللہ اپنے زعم شجاعت میں لشکر لیے ہوئے نکلا اور مختار کے مکان کے قریب جا پہنچا۔ ابراہیم کو جونہی اطلاع ملی، انہوں نے مختار سے فرمایا کہ آپ اپنی جگہ پر قیام کریں۔ میں ان دشمنوں کو ابھی دم کے دم تہ تیغ کر دیتا ہوں۔ ابراہیم اشتر ابھی پیش قدمی نہ کرنے پائے تھے کہ ایک بہت بڑا گروہ آ گیا اور اس نے ایسا نعرہ لگایا کہ تمام شیعوں کے دل ہل گئے اور سب گھبرا اُٹھے ان لوگوں نے سمجھا کہ یہ لشکر بھی ابن مطیع کے لشکر کی مدد میں آ گیا ہے۔ مختار نے ابراہیم سے فرمایا کہ آپ اس آنے والے لشکر کا مقابلہ کریں اور میں ابن مطیع کے آئے ہوئے لشکر کا مقابلہ کے لیے نکلتا ہوں۔ چنانچہ ابراہیم آگے بڑھے، جونہی اس بعد والے لشکر نے ابراہیم کو دیکھا نعرہ یا لثارات الحسین لگایا۔ ابراہیم خوش ہو گئے اور انہوں نے فرمایا کہ لشکر کا سردار کون ہے، یہ سُن کر ورقاء ابن غارب سامنے آئے، ابراہیم نے ان سے ملاقات کی اور واپس آ کر جناب مختار کو خوشخبری دی کہ وہ لشکر جس نے نعرہ بلند لگایا تھا وہ ورقاء کا لشکر ہے۔ آپ کی مدد کے لیے آیا ہے۔ یہ سن کر مختار اور ان کے سب ساتھی خوش و مسرور ہو گئے۔ اس کے بعد ابراہیم نے ابن مطیع کے لشکر پر حملہ کیا اور زبردست جنگ کے بعد ان کو شکست دی۔ اس کے 20 سوار قتل ہوئے اور وہ سب کے سب مفرور ہو گئے، لیکن اس جنگ میں قاسم ابن قیس شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت سے مختار اور ابراہیم سخت غمگین ہوئے اور ان دونوں نے تا دیر گریہ کیا۔
جناب مختار کا ایک جاسوس جامع مسجد میں:
رات گزرنے کے بعد صبح ہوئی تو مختار نے ایک شخص سعید کو حکم دیا کہ پرانا لباس پہن کر مسجد جامع میں جاؤ اور ابن مطیع کے پیچھے نماز ادا کرو اور دیکھو کہ وہاں کیا کیا امور رونما ہوتے ہیں، اور سنو ! کہ لوگ نماز کے بعد ہمارے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔ سعید حسب الحکم نماز میں شریک ہوا اور اس نے وہاں کے تمام حالات کا معائنہ کیا۔ اس نے واپس آ کر مختار سے بیان کیا کہ ابن مطیع جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو اس کے پیچھے 50 مسلح مرد کھڑے ہو گئے اور اس نے ان کی حفاظت میں نماز ادا کی اور دروازہ مسجد پر بارہ ہزار افراد تدبیر جنگ کے متعلق بات چیت کر رہے تھے۔ مختار نے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ ابن مطیع نے رکعت اول میں بعد سورہ حمد کون سا سورہ پڑھا تھا۔ سعید نے کہا کہ اس نے رکعت اوّل میں سورہ عبس کی تلاوت کی تھی۔ مختار نے بطور تفاؤل کہا تھا کہ انشاء اللہ اس کا چہرہ ترش ہی رہے گا پھر پوچھا کہ اس نے رکعت دوم میں کون سا سورہ پڑھا تھا۔ اس نے کہا کہ رکعت دوم میں اذا زلزلۃ الارض مختار نے فرمایا کہ اس نے وہی سورہ پڑھا ہے جس کا نتیجہ میرے ہاتھوں سے برآمد ہو گا۔ ان شاء اللہ میں ان کے بدنوں میں زلزلہ ڈال دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اے سعید میں نے آج کی نماز کی رکعت اوّل میں سورہ نازعات اور رکعت دوم میں اذ جاء نصر اللہ کی تلاوت کی ہے۔ میں ان شاء اللہ نصرت خدا سے کامیاب ہو کے رہوں گا۔
قتل کا منصوبہ اور جاسوس مختار کی خبر رسانی:
مسجد سے نکلنے کے بعد ابن مطیع نے حکم دیا کہ جتنے افراد محلوں میں تعینات میں انہیں دار الامارہ میں بُلایا جائے۔ ابن ایاس نے کہا کہ ان لوگوں کا بلانا مناسب نہیں کیوںکہ وہ لوگ ناکہ بندی کیے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں بلا لیا گیا تو مختار کے آدمیوں کو مختار تک پہنچنے کا راستہ مل جائے گا۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ مختار پر دو طرف سے حملہ کیا جائے۔ ایک طرف سے میں حملہ کروں اور دوسری طرف سے آپ حملہ کریں اور بہتر یہ ہے کہ کچھ اور لوگوں کو بھی ہمراہ بھیج دیں تا کہ میں مختار اور ابراہیم کا سر کاٹ کر لاؤں۔ ابن مطیع نے ابن ایاس کی رائے پسند کی اور کہا کہ بس اُٹھ کھڑے ہو۔ اس کے بعد شیث ابن ربعی کو دو ہزار سوار دے کر کہا کہ تو مختار پر داہنی جانب سے حملہ کر اور ابن ایاس سے کہا تو بائیں جانب سے حملہ کر۔ ابن ایاس کے ہمراہ بھی دو ہزار کا لشکر کر دیا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ تم لوگوں کا فرض ہے کہ مختار کو گھیر کر میرے پاس لے آؤ اور اگر گرفتار کرنا ممکن نہ ہو تو ان کا سر کاٹ کر لے آؤ۔ ادھر ابن مطیع نے ان لوگوں کو حکم دیا ادھر مختار کے جاسوس نے مختار کو فوراً اس مشورے اور تیاری کی خبر کر دی۔ مختار نے ابراہیم کو داہنی جانب اور جناب یزید ابن انس کو بائیں جانب حملہ کی ہدایت کی اور فرمایا کہ پوری طاقت سے حملہ کرنا چاہیے۔ مختار کی ہدایت کے مطابق ابراہیم اور یزید ابن انس لشکر لیے تیار کھڑے تھے۔ جونہی شیث ابن ربعی وہاں پہنچا۔ ابراہیم نے پوری طاقت سے حملہ کیا اور بہت دیر تک شدید جنگ جاری رہی۔ ابراہیم کا لشکر چونکہ کم سواروں پر مشتمل تھا، اس لیے حالات ایسے پیدا ہوئے کہ قریب تھا کہ ان کے لشکر کو شکست ہو جائے۔ حضرت مختار کو جب اس کی طلاع ملی کہ ابراہیم کا لشکر قریب بہ ہزیمت ہے تو انہوں نے پانچ سو سوار ان کی امدا د کے لیے بھیج دئیے۔ امدادی لشکر کا پہنچنا تھا کہ جناب ابراہیم کے حملوں میں جان پڑ گئی اور انہوں نے ایک ایسا زبردست حملہ کیا کہ دشمن کے پاؤں اُکھڑ گئے۔
جب دشمن محو فرار ہوئے تو ابراہیم کے لشکر نے اُن کا پیچھا کیا اور انہیں ابن مطیع تک جا پہنچایا۔ اس کے بعد ابراہیم مظفر و منصور حضرت مختار کی خدمت میں آ موجود ہوئے۔ مختار نے اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ اب صبح ہو چکی تھی، بائیں جانب حملہ کیلئے یزید ابن انس جب پہنچے تو دیکھا کہ راشد ابن ایاس میمنہ اور میسرہ درست کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا اے ملعون لشکر کیوں ترتیب دے رہا ہے، موت تو تیرے سر پر منڈلا رہی ہے۔ میں یزید ابن انس ہوں، اور تجھے واصل جہنم کرنے کے لیے آیا ہوں۔ راشد کو چونکہ اپنی شجاعت پر غرور تھا، لہٰذا اس نے کہا کہ اے یزید! تم اپنے کو سمجھتے ہو کہ مرد ہو اور مجھے عورت جانتے ہو۔ تم میں اگر مقابلے کا حوصلہ ہے تو آ جاؤ۔ یہ سُن کر جناب یزید ابن انس اُٹھ کھڑے ہوئے اور مقابلے کیلئے آگے بڑھے۔ یہ دیکھ کر ابراہیم ان کی مدد کے لیے ہمراہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور راشد کے مقابل جا کر بولے کہ اے راشد میں نے تیرے باپ ایاس کو واصل جہنم کیا ہے، اب اگر خدا نے چاہا تو میں تجھے بھی تیرے باپ کے پاس بھیج دوں گا۔ یہ کہہ کر ابراہیم نے گھوڑے کو تیار کیا اور راشد پر نیزے کا وار فرمایا۔ راشد نے ان کے وار کو رد کر کے ان کے ان کے سر پر تلوار کا وار چلایا، مگر وہ خالی گیا۔ ابراہیم نے خدا کو یاد کیا۔ رسول پر صلوٰة بھیجی اور حضرت مشکل کشاء سے مدد مانگی اور دانتوں کو ملا کر اس کے سر پر ایسی تلوار لگائی کہ دو نیم ہو کر گھوڑے کی زین سے سطح زمین پر آ گیا۔ اس کے گرتے ہی فوج میں ہل چل مچ گئی۔ اس کے بعد ابراہیم اور یزید ابن انس نے مل کر دشمنوں پر حملے شروع کر دیئے اور اس بے جگری سے لڑے کہ دشمنوں کے دانت کھٹے ہو گئے اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ یہ دونوں میدان شجاعت کے شہسوار مظفر و منصور جناب مختار کی خدمت میں واپس آئے۔ مختار نے انہیں دعا دی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اُدھر ہزیمت خوردہ لشکر ابن مطیع کے پاس جا پہنچا۔
ابن مطیع نے محلوں کے محافظوں کو بلا کر حملہ کرنے کا حکم دے دیا:
ابن مطیع نے حکم دیا کہ وہ تمام سوار جو محلوں کی حفاظت کر رہے ہیں، ان سب کو دار الامارہ حاضر کیا جائے۔ چنانچہ سب اپنے محلوں کو چھوڑ کر اُس کے پاس حاضر ہوئے، ادھر وہ لوگ محلوں سے نکلے اُدھر مجاہدوں نے راستہ پا کر اپنے کو جناب مختار کی خدمت میں پہنچا دیا۔ انہیں دیکھ کر مختار بہت خوش ہوئے اور اُن سے پوچھا کہ تم لوگ اب تک کہاں تھے۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ حضور ہمارے راستے مسدود تھے، اس لیے ہم نکل نہ سکتے تھے اب موقع ملا ہے تو حاضر ہوئے۔ اب دن چڑھ چکا تھا، ابن مطیع نے محلوں کے محافظوں کو جمع کر کے مکمل حملے کا بندوبست کیا۔
جناب مختار کا عظیم الشان خطبہ:
عمرو ابن احمد کوفی کا بیان ہے کہ جب چاروں طرف سے حضرت مختار کے پاس مجاہدوں کا اجتماع ہو گیا تو مختار نے حکم دیا کہ جملہ سرداروں کو میرے پاس لایا جائے۔ چنانچہ ورقہ ابن غارب، شعر ابن ابی شعر ، عبد اللہ ابن صخر مذحجی، ربان ابن ہمدانی، قرہ ابن قدامہ ثقفی، زبیر ابن عبد اللہ کوفی، احمد نخعی، عبد اللہ کامل ساعد ابن مالک اور ابراہیم ابن مالک نخعی نیز دیگر بزرگان کو حاضر کر دیا گیا۔ جب یہ لوگ جمع ہو گئے تو حضرت مختار نے ایک عظیم الشان نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور فرمایا کہ :
اے بہادرو ! اپنے کاموں میں خدا پر بھروسہ کرو اور دشمنان آل محمد سے جنگ آزمائی کے لیے پوری ہمت کے ساتھ تیار ہو جاؤ۔ میرے عزیزو ! یہ جان لو کہ خدا کی رحمت تم پر نثار ہے اور اس کی مدد تمہارے سروں پر ہے۔ سنو ! اگر تم دشمنوں کو قتل کرو گے۔ مجاہد قرار پاؤ گے اور اگر شہید ہو جاؤ گے، خدا کے نزدیک بڑے عظیم درجات کے مالک ہو گے۔ کیونکہ تم صحیح ارادے اور پاک نیت سے کھڑے ہوئے ہو اور تمہارا مقصد صرف خونِ امام حسین (ع) کا بدلہ لینا ہے۔ یقین رکھو کہ قیامت کے دن حضرت رسول کریم (ص) ، حضرت علی (ع) حضرت فاطمہ زہرا (ع) حضرت خدیجۃ الکبریٰ (ع) تمہاری شفاعت کریں گے اور تمہارا حشر حضرات شہداء کربلا کے ساتھ ہو گا۔
یہ سُن کر بہادر مجاہدوں نے کہا اے امیر ہم تمہارے دل و جان سے فرمانبردار ہیں اور ہم اس وقت تک دشمنوں سے لڑنے میں کوتاہی نہ کریں گے، جب تک جان میں جان رہے گی۔ اے امیر ! ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم لوگ راہ خدا میں قتل ہونے کا دل سے تہیہ کر چکے ہیں۔ ہم غسل کر چکے ہیں، کفن پہن چکے ہیں، اہل و عیال کو رخصت کر آئے ہیں ، دُنیا و مافیہا سے منہ موڑ چکے ہیں۔ ہم بالکل آپ کے ساتھ ہیں اور تا بمرگ آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور ان شاء اللہ تکمیل مقصد میں آپ کی پوری پوری مدد کریں گے، یہاں تک کہ راہِ خدا میں درجہ شہادت حاصل کر لیں۔ اس کے بعد حضرت مختار نے اپنے سرداروں کو سفید علم حوالے کر دیا۔
ابن مطیع کے لشکر کی تیاری:
ادھر عبد اللہ ابن مطیع نے اپنے لوگوں کو جمع کر کے مختار سے جنگ کے لیے آمادہ کیا اور ہدایت کی کہ پوری طاقت سے حملہ کرنا اور کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔ ابن مطیع نے اپنے لشکر کا شمار کیا تو 18 ہزار پایا۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جن میں اکثر ایسے تھے جو واقعہ کربلا میں شریک تھے۔ مختار اور ابن مطیع کے لشکروں میں زبردست مڈبھیڑ خدائی مجاہدوں کا گروہ اور شیطان ابن زیاد کا وہ گروہ جس کا سربراہ عبد اللہ ابن مطیع حاکم کوفہ تھا۔ اپنے اپنے مقام پر تیار ہو کر ایک مقام پر جمع ہو گیا۔ مختار کے گروہ نے طبل جنگ بجایا اور دونوں لشکر مقابل ہو گئے اس آواز طبل سے کوفہ کی تمام چھتوں پر عورتیں اور بچے پہنچ گئے۔ مجاہدوں نے یا امیر المومنین یا لثارات الحسین کی آواز بلند کی اور یزیدیوں نے " الامام یزید ابن معاویہ " کی صدا دی۔ اب سب انتظار میں تھے کہ دیکھیں آغازِ جنگ کدھر سے ہوتی ہے، اور اس عظیم لڑائی میں کیا بنتا ہے۔ اتنے میں عبد الرحمن ، سعد قیس، حاکم کوفہ عبد اللہ ابن مطیع کے پاس آیا اور آ کر اجازت جنگ طلب کرنے لگا۔ اس نے ایک ہزار سپاہ کے ساتھ اسے جنگ کی اجازت دی۔
وہ میدان میں آ کر مبازر طلبی کرنے لگا۔ یہ سن کر احمد ابن شمیط نے جناب مختار کی خدمت میں حاضر ہو کر مقابلہ کیلئے برآمد ہونے کی اجازت چاہی۔ مختار نے اسے اجازت دے دی۔
وہ عمدہ قسم کے لباسِ جنگ سے آراستہ ہو کر میدان میں آئے۔ میدان میں پہنچ کر جناب احمد ابن شمیط نے عبد الرحمن سے کہا کہ تجھے کیا ہو گیا کہ تو اپنے باپ کی راہ سے ہٹ کر ادھر آ گیا ہے، کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیرا باپ حضرت علی (ع) کے اصحاب خاص میں سے تھا اور تیرا یہ حال ہے کہ تو ان کے فرزند کے دشمنوں کی طرف سے لڑنے کے لیے نکلا ہے۔ یہ سن کر اس نے ناسزا الفاظ میں ان کا جواب دیا۔ احمد ابن شمیط نے غصے میں آ کر گھوڑے کو ایڑ دی اور آگے بڑھ کر اس پر شیرانہ حملہ کیا اور اسے پہلے ہی حملے میں مجروح کر دیا۔ احمد کی تلوار اس کے کندھے پر پڑی اور اس نے شانہ کاٹ کر اُسے سخت زخمی کر کیا۔ اس کے ایک آہ نکلی اور وہ درک اسفل میں پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر اس کا ایک ہزار کا لشکر بھاگ نکلا۔ ابن مطیع نے فوراً عبد الصمد صخرہ کو حکم جنگ دیا۔ یہ ملعون حضرت امام حسن (ع) کے فرزند جناب عبد اللہ کا قاتل تھا۔ اس کے برآمد ہوتے ہی جناب ورقاء ابن عازب، حضرت مختار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ اس سے مقابلہ کے لیے مجھے اجازت دی جائے۔ حضرت مختار نے انہیں دعا دی اور میدان میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ جناب ورقاء سلاحِ جنگ سے آراستہ ہو کر میدان میں تشریف لائے اور اس ملعون کے مقابل میں پہنچ کر حملہ آور ہوئے۔ آپ نے ایک ایسا نیزہ اس کے سینے پر مارا کہ وہ ایک بالشت پشت سے باہر جا نکلا۔ وہ ملعون اس کے صدمہ سے زمین پر آ گرا۔ جناب ورقاء نے اس کا سر کاٹ لیا اور وہاں سے واپس آ کر آپ نے اسے حضرت مختار کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضرت مختار نے جناب ورقاء کو دعا دی اور فرمایا کہ خدا تمہیں اس کے صلہ میں اپنی رحمت سے نوازے۔ تم نے میرا اور میرے مولا حضرت امام حسین علیہ السلام کا دل خوش کر دیا ہے۔ اس کے بعد یزید ابن انس جو کہ بزرگان شیعہ کوفہ میں سے تھے۔ 85 سواروں سمیت مختار کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں میدان میں جا کر نبرد آزمائی کروں۔ حضرت مختار نے اجازت مرحمت فرمائی اور آپ میدانِ کارزار میں پہنچے۔ ابن مطیع نے یزید کو میدان میں دیکھ کر حکم دیا کہ ان کے مقابلہ کے لیے حجاج ابن حُر باہر نکلے۔ چنانچہ وہ سو سواروں کو ہمراہ لے کر میدان میں آیا۔ حجاج نے میدان میں پہنچ کر جناب یزید ابن انس سے کہا کہ میں تیرا سر کاٹنے کے لیے آیا ہوں اور تجھے ہرگز زندہ نہ چھوڑوں گا۔ اس کے بعد اس نے اپنے سواروں سے کہا کہ جب میں یزید پر حملہ کروں تو تم لوگ بھی میرے ہمراہ ان پر حملہ کر دینا۔ چنانچہ اس نے حملہ کر دیا اور اس کے ہمراہ سارے لشکر نے حملہ کیا۔ یزید ابن انس اس خیال میں تھے کہ اس کے علم کو سر نگوں کروں کیونکہ وہ علم کو ہلا کر " الامام یزید ابن معاویہ " کا نعرہ لگا رہا تھا۔ اب تیزی سے تلوار چلنے لگی۔ اتنے میں یزید ابن انس نے دیگر لوگوں پر حملہ شروع کیا اور اس بے جگری سے اُن پر حملہ کیا کہ چالیس سواروں کو تنہا قتل کر ڈالا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی اور لشکر مخالف بھاگ کر ابن مطیع کے پاس جا پہنچا۔
ابن مطیع کی گھبراہٹ اور اُس کا خود میدان میں آنا ابن مطیع نے اس ہزیمت خوردہ گروہ سے کہا کہ تم لوگ کیا کرتے ہو، جو جاتا ہے شکست کھاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر لشکر مختار یکبارگی حملہ کر دے تو تم میں سے ایک بھی میرا ساتھ دینے والا نہ رہے گا۔ یہ کہہ کر نہایت غصے کی حالت میں اس نے اپنے کو لوہے سے آراستہ کیا اور ایک گرانمایہ گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں نکل آیا اور آ کر کہنے لگا جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے میں عبد اللہ ابن مطیع حاکم کوفہ ہوں۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ اے حسینیو ! کہاں ہے تمہارا مختار میرے مقابلے کے لیے بھیجو۔ یہ سننا تھا کہ حضرت مختار بے چین ہو گئے اور حکم دیا کہ میری سواری کا جانور لایا جائے۔ میں خود اس کے مقابلے کے لیے جاؤں گا۔
حضرت مختار کا یہ کہنا تھا کہ آپ کے لشکر کے سرداروں نے کہا اے امیر یہ ناممکن ہے کہ ہماری موجودگی میں آپ سرِ میدان جائیں۔
عبد اللہ ابن مطیع کا پوری تیاری کے ساتھ جناب مختار پر حملہ:
جناب مختار اور ابراہیم نے فیصلہ کیا کہ شہر سے باہر چل کر کچھ دیر سکون حاصل کرنا چاہیے۔ چنانچہ بروایت طبری یہ لوگ شہر سے باہر چلے گئے۔ عبد اللہ ابن مطیع والیٴ کوفہ کو جب معلوم ہوا کہ مختار شہر سے باہر مقیم ہے تو اس نے اُن کے مقابلے کے لیے بروایت موٴرخ ہروی شیث ابن ربعی کو چار ہزار اور راشد ابن ایاس ابن مضارب کو تین ہزار اور حجاز ابن حر کو تین ہزار اور غضاب ابن قعشری کو تین ہزار اور شمر ابن ذی الجوشن کو تین ہزار اور عکرمہ ابن ربعی کو تین ہزار فوج سمیت بھیج دیا۔
یہ 19 ہزار کا لشکر جب مختار سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوا تو ایک شخص بنی حلیفہ مختار کی خدمت میں عرض پرداز ہوا کہ عظیم لشکر آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے آ رہا ہے اور اس لشکر والوں نے مرنے پر کمر باندھ لی ہے، یہ لوگ آپ سے بہت ہی سخت جنگ کریں گے۔
جناب مختار نے فرمایا کہ اے بھائی غم نہ کرو اور فکر مند مت ہو، ان شاء اللہ ان کا جاہ و حشم خاک میں مل جائے گا۔ وہ لشکر عبد اللہ ابن مطیع نے مختار سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا تھا۔ جونہی سامنے آیا، جنگ شروع ہو گئی اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس جنگ میں حضرت مختار، ابراہیم اور عبد اللہ ابن حُر نے اس بے جگری سے جنگ کی کہ دشمن کے دل دہل گئے، یہ جنگ دوپہر تک جاری رہی بالآخر عبد اللہ ابن مطیع کا لشکر جان بچا کر بھاگ گیا۔ یہ ہزیمت نصیب لوگ شہر کوفہ کی طرف جب بھاگنے لگے تو مختاریوں نے اُن کا پیچھا کیا اور اس دوران میں جو ہاتھ آتا گیا، اُسے قتل کرتے گئے یہاں تک کہ یہ لوگ شہر میں داخل ہو کر محلوں میں چلے گئے اور وہاں پہنچ کر ان لوگوں نے تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر حملے کا ارادہ کیا اور ان لوگوں پر حملہ کر دیا۔ ابراہیم کے بھائی سائب ابن مالک اشتر نے جب یہ رنگ دیکھا تو اپنے لشکر والوں سے پکار کر کہا کہ تم لوگ گھوڑوں سے اُتر پڑو اور پا پیادہ مشغول بہ جنگ ہو جاؤ۔ چنانچہ وہ لوگ گھوڑوں سے اُتر کر مصروف بہ جنگ ہو گئے اور اس کثرت سے دشمنوں کو قتل کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے اور اتنی لاشیں کوچہ و بازار میں جمع ہو گئیں کہ راستہ چلنا نا ممکن ہو گیا۔ قہر قہار نے گھیرا تھا، ستمگاروں کو لاشوں سے پاٹ دیا۔ کوفہ کے بازاروں کو اسی دوران میں چھتوں پر سے بوڑھے مردوں اور عورتوں کی فریاد کی آوازیں بلند ہوئیں، وہ کہہ رہے تھے کہ اے ابو اسحاق خدارا رحم کرو۔ حضرت مختار نے اُن سے فرمایا کہ چھتوں سے اُتر کر ہمارے پاس آ جاؤ تا کہ تمہاری جانیں محفوظ کر دی جائیں، ورنہ میں ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا۔ آپ نے کہا کہ خداوند عالم نے مجھے دشمنانِ آل محمد کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے اور میں اس میں ہرگز کوتاہی نہ کروں گا۔
جناب ابراہیم کی حوصلہ افزا پکار:
جنگ جاری ہی تھی کہ دشمنوں کے لشکر پر لشکر پھر آنے شروع ہو گئے۔ ابراہیم نے اپنے مجاہدوں کو آواز دی کہ اے بہادرو دشمنوں کی کثرت سے خوفزدہ نہ ہونا اور دامن صبر اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا، دیکھو صبر و استقلال خلیف فتح و ظفر ہو گا۔ تم گھبراؤ نہیں اور ہمت نہ ہارو۔ خداوند عالم ہمیں ضرور فتح نصیب کرے گا۔ اس کے بعد جنگ نے پوری شدت حاصل کر لی اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس جنگ میں چونکہ حضرت مختار اور ابراہیم دونوں مل جُل کر برسرِ بیکار تھے۔ لہٰذا کشتوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ابن مطیع دار الامارة میں اور یہ عالم رونما ہو گیا کہ دشمن جو قتل ہونے سے بچے، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔ ابن مطیع نے جب یہ دیکھا کہ اس کے سرداران قتل ہو گئے تو اس نے بھی اپنا تحفظ ضروری سمجھا اور اس مقصد کے لیے ابن مطیع نے رؤساء کوفہ، ارکانِ دولت اور علماء کو جمع کیا اور جلد سے جلد دار الامارہ میں جا کر اس کے دروازے بند کرا دئیے۔
جناب مختار کا دار الامارہ کا محاصرہ کرنا:
مختار نے جب یہ دیکھا کہ ابن مطیع نے دار الامارہ میں پناہ لے لی ہے، تو فوراً اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دار الامارہ کا محاصرہ کر لو۔ چنانچہ ہمارے لشکر نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرہ سے آمد و رفت بھی بند ہو گئی اور طعام و خوراک کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ محاصرہ سے مختار کے لشکر میں اضافہ ہونے لگا اور اس اضافے کی تعداد 12 ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ محاصرہ تین شبانہ روز جاری رہا بالآخر جب دار الامارہ میں محصور لوگوں پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوا ہوا تو سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ طے پایا کہ ہمیں مختار سے امان مانگ لینی چاہیے۔ اس فیصلہ سے چونکہ ابن مطیع کو اختلاف تھا۔ لہٰذا اس نے بروایت طبری فرار اختیار کیا اور بروایت موٴرخ ہروی اُسے دار الامارہ کی چھت سے نیچے پھینک دیا گیا۔
اور ایک دوسری روایت کی بناء پر وہ عورت کے لباس میں دار الامارہ سے نکل کر ابو موسیٰ اشعری کے مکان میں پناہ گیر ہوا۔
علامہ محمد باقر صاحب دمعۃ ساکبہ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ میں ابراہیم کے ہمراہ 900 سوار اور 600 پیادہ اور نعیم ابن ہبیرہ کے ہمراہ 300 سوار اور 600 پیادہ تھے اور حضرت مختار نے یزید ابن انس کے ہمراہ 900 سواروں کو بھیج دیا تھا کہ جو مقام " مسجد شیث " میں نبرد آزما تھے۔
وقاتلوھم حتی ادخلو ھم البیوت و قتل من الفریقین جمع کثیر،
جناب مختار کے سواروں اور پیادوں نے اتنی شدید جنگ کی کہ دشمن بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور عالم یہ ہو گیا کہ ان بہادروں نے انہیں گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ میں فریقین کے کثیر جنگجو کام آ گئے۔ اسی جنگی کشمکش میں حضرت مختار کے ایک جرنیل نعیم ابن ہبیرہ بھی شہید ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس جنگ میں ابن مطیع کے کثیر جرنیل قتل ہو گئے۔ اسی شدت قتال میں خزیمہ ابن نصر عیسیٰ نے راشد ابن نصر عیسیٰ نے راشد ابن ایاس کو قتل کر دیا اور قتل کے بعد انہوں نے آواز دی کہ خدا کی قسم میں راشد کو واصل جہنم کر دیا ہے۔ اس آواز کے بلند ہوتے ہی دشمن کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ اپنی جانیں بچا کر گلیوں اور کوچوں میں چھپنے لگے۔ ابن مطیع نے جب یہ حال دیکھا تو وہ بھی بھاگ کر دار الامارہ میں پناہ گزیں ہو گیا۔ حضرت مختار نے دار الامارہ کا محاصرہ کر لیا۔ تین روز کے بعد ابن مطیع عورت کا لباس پہن کر دار الامارہ سے نکل بھاگا اور اس نے ابو موسیٰ اشعری کے مکان میں پناہ لی۔
دار الامارہ سے ابن مطیع کا خط حضرت مختار کے نام:
علامہ حسام الواعظ رقمطراز ہیں کہ جب ابن مطیع دار الامارہ میں محصور ہو گیا اور چار دن اس نے اس میں بدقت و شواری گزارے تو پانچویں روز اس نے ایک خط لکھ کر حضرت مختار کے نام دار الامارہ کی چھت سے لشکر میں پھینکا۔ اس خط میں حضرت مختار کے لیے لکھا تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم اے برادر عزیز مختار ! آگاہ ہو کہ کوئی شخص بھی دنیا میں ایسا نہیں ہے کہ جو اپنی بُرائی چاہتا ہو لیکن جب قضا آ جاتی ہے، تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں بہت زیادہ دل شکستہ ہو چکا ہوں۔ تم کو معلوم ہے کہ میرا تم پر حق ہے۔ وہ وقت تمہیں یاد ہو گا جب کہ مکہ میں ابن زبیر تمہیں قتل کرنا چاہتا تھا اور میں نے ہی تمہیں مکر و حیلہ سے اس کے چنگل سے نکالا تھا۔ اے مختار کیا اس کا بدلہ یہی ہے جو تم کر رہے ہو۔ پہلے تو تم نے میری حکومت تباہ کی اور اب تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو۔ مختصر یہ کہ میں تم سے مہلت چاہتا ہوں اور تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے یہاں سے نکل جانے کا موقع دو۔ حضرت مختار نے جونہی اس کا خط پڑھا۔ اُسے اپنے لشکر سے چھپا کر جواب لکھا کہ میں نے تمہیں مہلت دے دی ہے اور تم کو اجازت دیتا ہوں کہ رات کے وقت فلاں دروازے سے خفیہ طور پر نکل کر جہاں چاہو چلے جاؤ، تمہیں کوئی گزند نہ پہنچائے گا۔ پھر جب رات آئی تو حضرت مختار اس دروازے پر خُود پہنچ گئے، جس کا خط میں حوالہ دیا تھا۔
ابن مطیع نے جونہی حضرت مختار کو دیکھا ان کے پیروں میں گِر پڑا اور بہت زیادہ رویا اور معذرت و معافی کے بعد اس جگہ سے روانہ ہو گیا۔ ابن مطیع کے چلے جانے کے بعد جب شیعیان علی ابن ابی طالب (ع) کو معلوم ہوا کہ حضرت مختار نے ابن مطیع کو امن و امان کے ساتھ دار الامارہ سے رخصت کر دیا ہے، تو رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے آ کر حضرت مختار سے کہا کہ اے امیر آپ نے اتنے خطرناک دشمن کو آزاد کر دیا ہے۔ آپکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ بڑا کمینہ ہے، یہاں سے نکلنے کے بعد پھر کسی موقع سے فتنہ برپا کرے گا۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ اس نے ایک موقع پر میرے ساتھ بھلائی کی تھی، اس لیے میں نے بھی اُس کے ساتھ نیکی کی ہے۔ اب اگر کبھی دوبارہ مقابلے میں آئے گا تو پھر اسکو ویسا ہی بدلہ دوں گا۔
مسجد جامعہ میں جناب مختار کا پہلا خطبہ:
دار الامارہ میں سکونت اور حصول امارت کے بعد سب سے پہلے حضرت مختار نے منادی کرا دی کہ سب لوگ جامع مسجد میں جمع ہو جائیں اور حکم دیا کہ گلدستہ اذان سے الصلوٰة الجامعۃ کا اعلان کر دیا جائے۔ چنانچہ مکمل اعلان ہو گیا۔ حضرت مختار کی طرف سے حکم اجتماع پاتے ہی خلق کثیر مسجد جامع میں جمع ہو گئی۔ اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لے گئے اور آپ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:
الحمدللّٰہ الذی وعدولیہ النصر وعدوہ الخسرو عداً ایتاً وامراً مفعولاً وقدخاب من انتری ایھا الناس مدت لناغایة و رفعت لنارایت نقیل فی الرایة ارفعوھا ولاتضعوھا و فی الغایة خذوھا ولاتدعوھا، فسمعنا دعوة الداعی و قبلنا قول الراعی فکم من باغ و باغیة و قتلی فی الراعیة الافبعداً لمن طغی و بغی و حجد ولغی کذب وتولی الافھلموا عباداللہ الی بیعة الھدیٰ و مجاھدة الاعداء والاذب عن الضعفاء من ال محمد مصطفےٰ و انا المسلط علی المخلین الطالب بدم ابن بنت نبی رب العالمین اماوسنشی السحارب الشدید العقاب لا بنش قبر ابن شہاب المفتری الکذاب، المجرم المرتاب ولانفین الاحزاب الی بلاد الاعراب، ثم ورب العالمین لاقتلن اعوان الظالمین و بقایا القاسطین ثم قعد علی المنبر و تٰب قائما و قال اما و الذی جعلنی بصیرا و نور قلبی تنویر الاحرض بالمصر دوراً ولابنش بھا قبورا ولاشفین بھا صدوراً و لاقتلن بھا جباراً کفوراً، ملعونا غدوراً و عن قلیل و رب الحرم المحرم و حق النون والقلم لیرفعن لی علم من الکوفة الی اضم الی اکتاف ذی سلم من العرب والعجم ثم لا تخذن من بنی تمیم اکثر الخدم
(ترجمہ) تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں کہ جس نے اپنے اولیاء کو مدد دینے اور ان کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اپنے دشمنوں کو ذلت و رسوائی سے ڈرایا دھمکایا ہے۔ خدا کا وعدہ لازماً پورا ہونے والا اور اس کا حکم حتماً نافذ ہونے والا ہے۔
یاد رکھو جو افتریٰ کرے گا، بے بہرہ بے نصیب ہے اے لوگو ! اچھی طرح جان لو، میرے (کاموں کے لیے) زمانے میں وسعت ہے۔
اور میرے علم و پرچم کی سربلندی مقرر اور مقدر ہے، مجھے حکم ملا ہے کہ میں اس سربلندی کے وقت اور اس زمانے کو حاصل کروں۔ اور نشان (فتح و ظفر) کو بلند کروں اور اُسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دوں (غور سے سنو) کہ میں نے خدائی دعوت دینے والے کی بات کو کان دھر کے سن لیا ہے اور خصوصی توجہ کرنے والے کے قول کو مان لیا ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہر صنف میں بہت سے گمراہ قتل کیے جائیں گے، یاد رکھو کہ سرکش باغی منکر جھوٹے لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ سب رحمت الہٰی سے دور ہیں، اے خدا کے بندو ! ہوش میں آؤ اور راہ راست اختیار کرو۔ ہدایت کے راستے پر چلو اور دشمنان محمد و آل محمد سے جہاد کے لیے تیار ہو جاؤ اور اس امر کا پورا پورا عزم کر لو کہ اب آل محمد کے کمزور لوگوں سے دشمنوں کو دور کرو گے اور ان کی مدد کرو گے۔ اے لوگو ! تم کان دھر کے سن لو کہ میں مقہور اور سرکشوں پر مسلط کیا گیا ہوں۔ میں اس لیے میدان میں آیا ہوں کہ فاطمہ بنت رسول کے فرزند امام حسین (ع) کے خون کا بدلہ لوں۔ لوگو ! اس خدا کی قسم جو دوش ہوا پر ابر کو پیدا کرتا ہے اور جو گنہگاروں اور سرکشوں کو سخت سزا دینے والا ہے کہ وہ دن قریب ہے کہ جس میں " ابن شہاب " جیسے مفتری، کذاب، مجرم اور مرتاب کی قبر کھود کر پھینک دوں گا اور منافقوں کے گروہوں کو شہر سے باہر نکال دوں گا، اور ضرور ظالموں کے مددگاروں اور قاسطین کے باقی لوگوں کو قتل کروں گا۔
(اس کے بعد آپ ایک لحظہ کے لیے منبر پر بیٹھے پھر کھڑے ہو کر بولے) قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بصیرت عطا کی ہے۔
اور میرے دل میں پورا نُور بھرا ہے۔ میں لوگوں کے گھروں کو مصر میں جلا ڈالوں گا اور قبروں سے مردوں کو اکھاڑ پھینکوں گا۔
اور مؤمنوں کے دلوں کو خوش و خرم کر دوں گا اور جہاد و کفار کو تہ تیغ کروں گا پھر فرمایا اے مسلمانو ! یہ بھی سُن لو کہ میں خانہ کعبہ اور نون و قلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے علم کامرانی اور کوفہ سے زخم اور اطراف ذی سلم حتیٰ کہ عرب و عجم تک پہنچا دوں گا اور بنی تمیم کے اکثر لوگوں کو غلام بناؤں گا۔
اس خطبے کے بعد آپ منبر سے اُتر کر دار الامارہ میں تشریف لائے۔ یہاں پہنچنے کے بعد لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔
اور یہ عالم ہو گیا کہ خلق کثیر حلقہ بیعت میں آ گئی جس میں عالم عرب لوگوں کے علاوہ سادات و سردار بھی تھے۔ بیت المال کا جائزہ حضرت مختار نے سریع حکومت پر قبضہٴ مجاہدانہ کرنے کے بعد اس کے بیت المال کا جائزہ لیا۔ اس میں بروایت طبری 9 ہزار اور بروایت موٴرخ ہروی 12 ہزار اور برایت علامہ جعفر ابن نما 9 لاکھ درہم تھے۔ آپ نے اس میں سے تین ہزار آٹھ سو افراد کو جو کہ محاصرہ قصر پہلے سے ہمراہ تھے، پانچ پانچ سو درہم اور چھ ہزار افراد کو محاصرہ قصر کے بعد ساتھ ہوئے تھے۔ دو دو سو درہم دے دئیے۔
حضرت مختار اور ابن مطیع کی مالی امداد:
حضرت مختار نے جائزہ بیت المال کے بعد اس امر پر غور کیا کہ عبد اللہ ابن مطیع کہاں ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ ابو موسیٰ اشعری کے مکان میں روپوش ہے اور یہ بھی پتا چلا کہ جب وہ دار الامارہ سے نکل کر پناہ تلاش کر رہا تھا، تو اسے کوئی پناہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ حضرت مختار نے اسے کہلا بھیجا کہ مجھے تمہاری روپوشی کا پورا علم ہے، چونکہ لوگ تمہارے دشمن ہیں اس لیے میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ تم کوفہ سے کہیں اور چلے جاؤ۔ ورنہ یہ لوگ اگر تمہارے وجود سے آگاہ ہو گئے تو تمہیں قتل کر دیں گے۔
عبد اللہ ابن مطیع نے کہلا بھیجا کہ میں زادِ راہ کا بندوبست کر رہا ہوں۔ مجھے تین دن کی مہلت دی جائے۔ زادِ راہ کے انتظام کے فوراً بعد یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ حضرت مختار کو جب یہ معلوم ہوا کہ عبد اللہ ابن مطیع زادِ راہ اور آزوقہ سفر کی کشمکش میں مبتلا ہے، تو آپ نے ہمدردی کے طور پر اس خیال سے بھی کہ وہ کوفہ کے واقعہ سے قبل بروایت طبری ان کا دوست تھا۔ عبد اللہ ابن کامل شاکری کے ذریعے سے مبلغ ایک لاکھ درہم بھیج کر کہلا بھیجا کہ تم اسے لے لو اور اپنے کام میں لاؤ۔ عبد اللہ ابن مطیع نے ان درہموں کو لے لیا۔
اور وہ کوفہ سے روانہ ہو کر بصرہ چلا گیا۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ عبد اللہ ابن زبیر کے پاس حیا و شرم کی وجہ سے نہیں گیا۔ ایک روایت کی بناء پر وہ کوفہ سے روانہ ہو کر مکہ پہنچا اور وہاں ابن زبیر سے ملا۔ ابن زبیر نے اُسے سخت بُرا بھلا کہا۔ وہ وہاں سے رنجیدہ اور غمگین روانہ ہو کر بصرہ میں مقیم ہو گیا۔
حضرت مختار کا تجدیدِ بیعت کیلئے فرمان واجب الاتباع:
منبر حکومت پر تمکّن کے بعد حضرت مختار نے بیعت کنندگان کے جمع ہونے کا حکم دیا اور جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب اس امر پر تجدید بیعت کریں کہ وہ کتابِ خدا کے احکام اور سنتِ رسول کریم پر عمل کریں گے اور خونِ حسین (ع) کے عوض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں گے۔ چنانچہ سب نے تجدید بیعت کر لی۔
حضرت مختار کا عہد اور جلوہ عدالت علوی و مہدوی (ع):
علماء اور موٴرخین فریقین کا اتفاق ہے کہ حضرت مختار نے کمال انصاف اور عدالت کے ساتھ خود کام کرنا شروع کر دیا۔
موٴرخ طبری کا بیان ہے کہ حضرت مختار کوفہ میں ہر روز صبح سے نماز ظہر کے وقت تک دار العدل میں بیٹھتے اور نہایت انصاف کے ساتھ فیصلے کرتے تھے۔
موٴرخ ہروی یعنی صاحب روضۃ الصفا لکھتے ہیں کہ: مختار نے کوفہ میں قواعد عدل کی بنیاد ڈال دی اور ظلم و بیداد کے رسوم پارینہ کو فنا کر دیا۔ وہ ہر روز ایوان میں خود بیٹھتے تھے اور فیصلے فرماتے تھے اور جو ظلم کرتا تھا، اس کی مکمل گوشمالی فرماتے اور اُسے پوری سزا دیتے تھے۔ نجذاہ اللہ خیرا۔ خدا ان کی کو اس کی بہترین جزا دے۔
علّامہ مجلسی کا ارشاد ہے کہ حضرت مختار محرم سن 97 ہجری تک کوفہ میں حکومت کرتے رہے۔
اس کے بعد انہوں نے قاتلانِ حسین (ع) کو قتل کرنے کی طرف قدم بڑھایا اور 7 محرم سن 67 ہجری کو ہفتہ کے دن ابراہیم ابن مالک اشتر کو ارض جزیرہ کی طرف ابن زیاد کے قتل کی خاطر بھیج دیا۔ جہاں وہ قیام پذیر تھا۔
التماس دعا۔۔۔۔۔