اس مہینے کا پہلا دن ، آل محمد (ص) کے حزن و غم کا دن ہے کہ جس میں انبیاء ، ملائکہ اور اہل بیت کے شیعہ اور چاہنے والے محزون اور غمزدہ ہوتے ہیں۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس مہینے میں پورا عالم ہی محزون ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر سال پہلی محرم سے روز عاشورا تک سید الشہداء کے پھٹے ہوئے کرتے کو عرش خدا سے زمین تک آویزاں کر دیا جاتا ہے اور حزن اور غم پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔
اور یہ دن حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری اور مجالس کے آغاز کا دن ہے، جو لوگوں کو ان کے عقائد سے آگاہ کرتا ہے، اور امام بارگاہوں اور مساجد سے ان کے دین کے احکامات کو ان تک پہنچایا جاتا ہے۔
امام زمان عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں، امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں شرکت کرنا ہمارے فرائض میں سے ہے۔
پہلی محرم کا دن، بدھ کا دن تھا اور اس دن امام حسین علیہ السلام نے قصر مقاتل نامی جگہ پر قیام فرمایا۔ مشہور ہے کہ اس منزل پر امام حسین علیہ السلام کی ملاقات عبید اللہ ابن حر جعفی سے ہوئی اور اس سے مدد چاہی لیکن اس نے اس دعوت پر لبیک نہیں کہا اور بعد میں ساری زندگی پچھتاتا رہا۔
وہ صاحبان عزّ و شرف کہ جن کے صدقے میں کائنات بنی ، جن کے طفیل میں اس عالم کو خلقت ہستی عطا ہوا ۔ جن کے سبب اس عدم کو وجود کی پوشاک ملی ۔ اگر اس پر کوئی مصیبت آئے ، اذیت پہنچے اور یہ عالم خاموش رہے تو احسان فراموشی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام پر ہر شے نے خون کے آنسو بہائے ۔ غم و الم پر گریہ و زاری کی ، مصائب حسین علیہ السلام پر ماتم کیا۔
1- ابو نعیم کی روایت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تو بارش ہوئی ، ہم نے صبح کو دیکھا تو ہمارے ڈول اور مٹکے اور ہر چیز خون سے لبالب بھری ہوئی تھی۔
2- ام حبان کہتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے تین دن ہم پر اندھیرا چھا گیا اور اگر کوئی بیت المقدس کا پتھر اٹھایا جاتا تو اس کے نیچے سے تازہ خون پایا جاتا تھا۔
3- سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ: میری دادی شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جوان تھیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آسمان ان پر کئی دن تک روتا رہا تھا۔
4- عثمان ابن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں تحریر کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر سات دن تک برابر آسمان روتا رہا ۔ دیواروں کو دیکھتے تھے تو گویا ان پر چادریں رنگین پڑی ہوئی ہیں ، تین دن تک اندھیرا رہا، پھر آسمان پر سرخی نمودار ہو گئی۔
5- ابو سعید کہتے ہیں کہ: شہادت امام حسین علیہ السلام کے دن کوئی دنیا کا پتھر نہیں اٹھایا گیا مگر یہ کہ اس کے نیچے تازہ خون نہ ہو ۔ آسمان سے خون برستا رہا اور اس کا اثر ایک مدت تک کپڑوں میں رہا، یہاں تک کہ وہ کپڑے پھٹ گئے ۔
6- صواعق محرقہ میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا سر جب دارالامارہ ابن زیاد میں لایا گیا تو دیواروں سے خون جاری ہو گیا۔
7- ثعلبی روایت کرتے ہیں کہ: امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان روتا رہا اور اس کا گریہ سرخی کا نمودار ہونا تھا۔
8- صواعق محرقہ میں ہے کہ آسمان کے کنارے امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد چھ ماہ تک سرخ رہے اور پھر وہ سرخی ہمیشہ نمودار ہونے لگی۔
9- ابن سیرین کہتے ہیں کہ: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ سرخی جو شفق کے ساتھ ہے، امام حسین علیہ السلام کے قتل سے پہلے نہ تھی۔
10- ابن جوزی لکھتے ہیں کہ: اس سرخی نمودار ہونے کی حکمت یہ ہو کہ غضب و غصہ انسان کے چہرے کو سرخ کر دیتا ہے اور اللہ جسم سے منزہ ہے بس اس کا غضب ان لوگوں پر جن کے ہاتھ سے امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے، وہ آسمان کا چند دنوں تک سرخ ہونا تھا۔
ازار حج المطالب ص 377
یہ تو غیر ذوی العقول کے گریہ کا عالم تھا اسی طرح انسان اور جنوں نے گریہ و زاری کی اور اب تک یہ گریہ و زاری کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہم یہاں کائنات کی ممتاز شخصیتوں کے گریہ کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی مسرت ہمارے لیے باعث فخر و مباہات اور ان کا اسوہ حسنہ ہمارا لائحہ عمل قرار دیا ہے۔
انبیاء کرام (ع) کا زمین کربلا پر حاضر ہونا:
شیعہ عالم و عارف مرحوم شوشتری لکھتے ہیں کہ: کربلا میں داخل ہونا ہی غم و حزن کا سبب بنتا ہے، جیسا کہ خداوند کے تمام انبیاء کے ساتھ واقع ہوا تھا۔ اس لیے کہ روایت ہے کہ:
تمام انبیاء کو کربلا کی زیارت اور وہاں پر قیام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور انھوں نے زمین کربلا سے مخاطب ہو کر کہا کہ: اے زمین تم ایک پر خیر و برکت مکان ہو، اس لیے کہ تم میں آسمان امامت کا روشن چاند دفن ہو گا۔
بحار الانوار، ج 44 ص 301، ح10.
انبیاء میں سے جو نبی بھی کربلا میں آتا تو کسی نہ کسی طریقے سے اسکے بدن پر چوٹ لگتی، اور وہاں پر اسکا دل غم و حزن سے بھر جاتا تھا۔ اس پر انھوں نے اسکے سبب کے بارے میں خداوند سے سوال کیا تو، خداوند نے ان پر وحی نازل کی اور فرمایا کہ: یہ کربلا کی زمین ہے اور یہاں پر حضرت حسین شہید ہوں گے۔
بحار الانوار، ج 44 ص 242
1- اہل بیت (ع) جب کربلا کی سر زمین پر داخل ہوئے تو بی بی ام کلثوم نے عرض کیا: اے بھائی جان یہ ایک خطرناک جگہ ہے کہ ادھر آ کر میرے دل پر بہت خوف طاری ہو گیا ہے۔
حضرت امام حسين عليہ السلام نے فرمایا: جنگ صفین سے واپسی پر میں اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ اس سرزمین سے گزرے۔ میرے والد اپنی سواری سے نیچے آئے اور تھکاوٹ کیوجہ سے تھوڑی دیر کے لیے انکی آنکھ لگ گئی، میں بھی انکے پاس ہی بیٹھا تھا کہ اچانک میرے والد گرامی پریشانی کی حالت میں نیند سے اٹھ گئے اور زار و قطار گریہ کرنا شروع کر دیا۔ میرے بھائی (امام حسن ع) نے اس رونے کا سبب معلوم کیا تو انھوں نے فرمایا کہ: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ یہ صحرا ایک خون سے بھرے دریا میں تبدیل ہو گیا ہے اور میرا بیٹا حسین اس خون کے دریا میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور کوئی بھی اسکی مدد کرنے والا نہیں ہے۔
پھر میرے والد نے مجھ سے فرمایا: اے حسین اگر اس سرزمین پر تمہارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آئے، تو تم کیا کرو گے ؟
امام حسین (ع) کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ: میں صبر کروں گا، کیونکہ صبر کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
مهيج الاحزان ص 65
معالي السبطين ج1 ص 175
اشك روان ص 210
2- جب حضرت آدم (ع) آسمان سے زمین پر آئے تو، انھوں نے حضرت حوا کو نہ دیکھا، تو انھوں نے انکو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ تلاش کرتے کرتے، انکا گزر کربلا سے ہوا۔ جونہی حضرت آدم نےکربلا کی زمین پر قدم رکھے تو انکا دل غم سے بھر گیا اور ایک عجیب قسم کا حزن ان پر طاری ہو گیا اور وہ جیسے ہی امام حسین (ع) کی شہادت کے مقام پر پہنچے تو انکا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر گر گئے اور انکے پاؤں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔
اس پر حضرت آدم نے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے خداوند سے عرض کیا: خدایا کیا مجھ سے کوئی گناہ انجام پایا ہے کہ آپ نے یہ عذاب مجھ پر نازل کیا ہے ؟ میں نے تمام زمین پر چکر لگایا ہے، لیکن میرے ساتھ ایسا فقط اس زمین پر ہوا ہے۔
خداوند نے وحی نازل کی اور فرمایا کہ: اے آدم تم نے کوئی گناہ انجام نہیں دیا، لیکن تمہارا بیٹا امام حسین اسی سرزمین پر ظلم و ستم کے ساتھ قتل کیا جائے گا، تیرا یہ خون اسی کے خون کی یاد میں جاری ہوا ہے۔
حضرت آدم نے عرض کیا: اسکا قاتل کون ہے ؟ وحی آئی: یزید ملعون اسکا قاتل ہے۔ آدم نے کہا: اے جبرائیل میں اسکے قاتل کے بارے میں کیا کروں ؟
جبرائیل نے کہا: اس پر لعنت کرو۔ پس آدم نے چار مرتبہ اس یزید پر لعنت کی اور پھر مقام عرفات کی طرف چلے گئے، تو وہاں پر انکی ملاقات حضرت حوا سے ہو گئی۔
بحار الانوار، ج 44 ص 242، ح37
اشك روان، ص 217
3- جب حضرت نوح (ع) اپنی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہوئے تو انھوں نے پوری دنیا کا چکر لگایا۔ جب وہ کربلا پہنچے تو بہت تیز طوفان آ گیا اور وہ کشتی طوفانی لہروں میں پھنس گئی۔ حضرت نوح طوفان میں غرق ہونے کے خوف سے ڈر گئے اور خداوند سے عرض کیا: خداوندا میں نے ساری دنیا میں چکر لگایا ہے، لیکن کہیں بھی اس زمین کی طرح میری حالت نہیں ہوئی۔
جبرائیل نازل ہوا اور فرمایا: اے نوح یہاں پر خاتم انبیاء حضرت محمد (ص) اور حضرت علی (ع) کا بیٹا امام حسین شہید ہو گا۔
حضرت نوح نے سوال کیا: اے جبرائیل اسکو کون قتل کرے گا ؟ جواب ملا: اسکے قاتل پر سات زمین و سات آسمانوں کی لعنت ہوئی ہے۔ پس نوح نے بھی چار مرتبہ اس پر لعنت کی، پھر انکی کشتی نے حرکت کو جاری رکھا، یہاں تک کہ کوہ جودی پر پہنچ کر رک گئی۔
بحار الانوار، ج 44 ص 243، ح 38
اشك روان، ص 217
4- حضرت ابراہيم جب سرزمین کربلا سے گزر رہے تھے تو انکا گھوڑا پھسلا، وہ نیچے گرے اور انکا سر پھٹ گیا اور خون جاری ہو گیا۔ پھر انھوں نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور عرض کیا: خداوندا مجھ سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے ؟
جبرائیل نازل ہوئے اور کہا: اے ابراہیم کوئی گناہ آپ سے سرزد نہیں ہوا، لیکن یہاں پر خاتم انبیاء حضرت محمد (ص) اور خاتم اوصیاء حضرت علی (ع) کا بیٹا امام حسین شہید ہو گا، اسی وجہ سے انکے خون کی یاد میں تمہارا یہاں پر خون بہا ہے۔
بحار الانوار، ج 44 ص 243، ح 39
5- حضرت اسماعیل نے اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لیے نہر فرات کے کنارے پر بھیجا تو چرواہے نے انکو بتایا کہ چند دنوں سے بھیڑیں پانی نہیں پی رہیں ! حضرت اسماعیل نے خداوند سے اسکا سبب پوچھا تو جبرائیل نازل ہوا اور کہا: اے اسماعیل آپ خود بھیڑوں سے اس کا سبب پوچھیں۔
حضرت اسماعیل نے خود بھیڑوں سے سوال کیا کہ تم کیوں نہر فرات سے پانی نہیں پی رہی ؟ تو انھوں نے فصیح عربی زبان میں جواب دیا کہ: ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہاں پر حضرت محمد (ص) کے نواسے امام حسین (ع) کو شدید پیاس کی حالت میں شہید کیا جائے گا اور ہم اسی غم و حزن کی وجہ سے اس نہر سے پانی نہیں پی رہیں۔
حضرت اسماعيل نے امام حسین (ع) کے قاتل کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ: انکو ایسا لعین شخص قتل کرے گا کہ جس پر زمین و آسمان اور تمام مخلوقات لعنت کرتے ہیں، پس حضرت اسماعیل نے بھی امام حسین (ع) کے قاتل پر لعنت بھیجی۔
بحار الانوار، ج 44، ص 243، ح 40
اشك روان، ص 220
6- روایت کی گئی ہے کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان اپنی قالین پر بیٹھ کر آسمان پر ہوا میں سیر کیا کرتے تھے۔ ایک دن آسمان پر سیر کے دوران کربلا میں پہنچے۔ تیز ہوا نے انکی قالین کو تین مرتبہ ہوا میں ایسے گھمایا کہ حضرت سلیمان قالین سے نیچے گرنے لگے تھے، تھوڑی دیر میں ہوا تھم گئی اور قالین زمین کربلا پر اتر آئی۔
حضرت سليمان نے ہوا سے کہا: تم نے ایسا کیوں کیا ہے اور آسمان سے اس زمین پر اتر آئی ہو ؟ ہوا نے جواب دیا: اس سرزمین پر حسین (ع) کو قتل کیا جائے گا۔
پھر سلیمان نے سوال کیا کہ: حسین کون ہے ؟ ہوا نے جواب دیا کہ حسین محمد مختار (ص) کا نواسہ اور حیدر کرار علی کا بیٹا ہے۔ پھر سوال کیا کہ اسکا قاتل کون ہے ؟ ہوا نے جواب دیا: انکو یزید لعین قتل کرے گا کہ جس پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہیں۔ یہ سن کر سلیمان نے ہاتھ اٹھا کر یزید پر لعنت کی اور جنّ و انس نے اس پر آمین کہا۔ پھر دوبارہ ہوا چلی اور قالین کو اڑا کر لے گئی۔
بحار الانوار، ج 44 ص 244، ح42
7- ایک دن حضرت موسی (ع) يوشع ابن نون کے ساتھ سير کر رہے تھے، جب وہ کربلا کی زمین پر پہنچے تو انکے جوتے پھٹ گئے اور انکے تسمے کھل گئے اور انکے پاؤں میں کانٹے لگنے کی وجہ سے خون جاری ہو گیا۔ حضرت موسی نے عرض کیا: خدایا مجھ سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے کہ جسکی مجھے یہ سزا ملی ہے ؟
ان پر وحی نازل ہوئی کہ اس جگہ پر حسین (ع) کو قتل اور انکا خون بہایا جائے گا، لہذا تمہارا خون انکے خون کی یاد میں بہا ہے۔ عرض کیا: خداوندا حسین کون ہے ؟ جواب آیا کہ: وہ حضرت محمد (ص) کا نواسہ اور حضرت علی مرتضی (ع) کا بیٹا ہے۔
پھر حضرت موسی نے سوال کیا کہ: اسکا قاتل کون ہے ؟ کہا گیا کہ: وہ ایسا ہے کہ جس پر دریا میں رہنے والی مچھلیاں، صحرا میں رہنے والے وحشی درندے اور ہوا میں اڑنے والے پرندے لعنت کرتے ہیں۔ موسی نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر یزید پر لعنت کی اور یوشع ابن نون نے آمین کہا، پھر اسکے بعد حضرت موسی وہاں سے چلے گئے۔
بحار الانوار، ج 44 ص 244، ح41
8- ایک دن جب حضرت عیسی (ع) اپنے حواریوں کے ساتھ صحرا میں چکر لگا رہے تھے ، تو انکا گزر کربلا سے ہوا۔ انھوں نے ایک شیر کو دیکھا کہ جو انکا راستہ روکے ہوئے بیٹھا تھا۔ حضرت عیسی آگے آئے اور فرمایا: اے شیر تم کیوں اس جگہ پر ہمارا راستہ روکے بیٹھے ہو ؟ اس شیر نے فصیح زبان میں کہا: جب تک تم سب امام حسین کے قاتل یزید پر لعنت نہیں کرو گے، اسوقت میں تمہارے راستے سے نہیں ہٹوں گا۔
حضرت عيسی نے فرمایا: حسین کون ہیں ؟ شیر نے کہا: وہ رسول خدا محمد (ص) کے نواسے اور خداوند کے ولی، علی (ع) کے بیٹے ہیں۔
پھر عیسی نے فرمایا: اس امام کا قاتل کون ہے ؟ شیر نے جواب دیا کہ: انکا قاتل تمام درندے وحشی حیوانات اور بھیڑیوں سے لعنت شدہ ہے اور خاص طور پر وہ سب ہر سال روز عاشورا یزید پر لعنت کرتے ہیں۔
یہ سن کر حضرت عيسی نے ہاتھ اٹھا کر یزید پر لعنت کی اور انکے حواریوں نے آمین کہی۔ پھر شیر انکے راستے سے ہٹ گیا اور وہ وہاں سے گزر کر چلے گئے۔
بحار الانوار، ج 44 ص 244، ح43
مرحوم مازندرانی حائری اسی واقعے کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ: حضرت عيسی اور حواريوں نے شیر کی بات سن کر بہت گریہ کیا اور امام کے قاتل پر لعنت کی۔ پھر حضرت عیسی نے فرمایا: اے بنی اسرائیل حسین کے قاتل پر لعنت کرو اور اگر تم اس زمانے میں موجود ہوئے تو، انکے ساتھ مل کر جہاد کرنا، کیونکہ اسکے ساتھ شہید ہونا، انبیاء کے ساتھ شہید ہونا ہے۔
معالي السبطين، ج 1 ص 176
ان انبیاء کی طرح خداوند کے دوسرے تمام انبیاء نے بھی اسی طرح کربلا کی مقدس سر زمین کی زیارت کی ہے۔
9- ام سلمہ (س) کہتی ہیں کہ: ایک شب رسول خدا گھر سے باہر گئے اور بہت دیر کے بعد واپس آئے ، اس حالت میں کہ بہت غمزدہ و خاک آلود تھے اور اپنے ہاتھوں کو باندھا ہوا تھا۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہوا ہے کہ میں آپکو اتنا پریشان اور خاک آلود دیکھ رہی ہوں ؟
حضرت نے فرمایا کہ: ابھی مجھے عراق کی سرزمین میں کربلا نام کی ایک جگہ دکھائی گئی ہے کہ جو میرے بیٹے حسین، اسکے بیٹوں اور میرے اہل بیت کے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ میں نے وہاں سے انکے خون کو بھی اپنے ہاتھوں سے اٹھایا ہے اور وہ خون ابھی میرے ہاتھوں میں ہے، پھر انھوں نے وہ خون مجھے دیا اور فرمایا کہ اسکو لے لو اور سنبھال کر رکھ لو۔
ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس سرخ رنگ کی خاک کو لے لیا اور ایک شیشے کی بوتل میں رکھ کر اسکے ڈھکن کو بند کر کے سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیا۔
جب امام حسین (ع) مکہ چھوڑ کر عراق کی طرف روانہ ہوئے، تو میں ہر روز اس شیشے کی بوتل کو دیکھا اور سونگھا کرتی تھی اور انکے مصائب پر اشک بہایا کرتی تھی۔
جب 10 محرم کا دن پہنچا تو میں نے اس شیشے کی بوتل کو دن کی ابتداء میں دیکھا تو وہ پہلی ہی حالت میں تھی، لیکن جب میں نے اسے دن کے آخری حصے میں اس خاک کو دیکھا تو وہ تازے خون میں تبدیل ہو چکی تھی، پس یہ دیکھ کر میں نے چیخ کر رونا شروع کر دیا، لیکن اس ڈر سے کہ مدینہ میں دشمنوں کو اس بات کا علم نہ ہو جائے، میں نے اپنے غم کو پنہان کر لیا اور ہمیشہ وہ دن اور وہ وقت میرے ذہن میں تھا، یہاں تک کہ امام حسین کی شہادت کی خبر مدینہ میں پہنچ گئی اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا، وہ حقیقت میں تبدیل ہو چکا تھا۔
10- شيخ صدوق نے سند معتبر کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ: جنگ صفین پر جاتے ہوئے، میں امیر المؤمنین علی کے ساتھ تھا، جب ہم نہر فرات کے کنارے نینوا کے مقام پر پہنچے تو مولا نے اونچی آواز سے فرمایا: ابن عباس کیا اس جگہ کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا: نہ، اے امیر المؤمنین۔ انھوں نے فرمایا: اگر میری طرح تم بھی اس جگہ کو جانتے ہوتے، تو تم بھی میری طرح یہاں سے گریہ کیا بغیر نہ گزرتے۔
مولا امیر نے وہاں پر بہت زیادہ گریہ کیا، یہاں تک کہ انکی ریش مبارک اشکوں سے تر ہو گئی اور اشک سینے پر بھی جاری ہو گئے، مولا کی حالت دیکھ کر ہم نے بھی گریہ کیا اور مولا نے فرمایا: ہائے افسوس، یہ ابو سفیان کی اولاد مجھ سے کیا چاہتی ہے ؟ یہ آل حرب مجھ سے کیا چاہتی ہے ؟ کہ یہ حزب شیطان اور کفر کے سرپرست ہیں۔ صبر کرو اے ابا عبد اللہ کہ انھوں نے جو کچھ تمہارے والد کے ساتھ کیا ہے، وہی وہ تمہارے ساتھ بھی کریں گے۔ پھر مولا نے پانی سے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد بھی وہی بات کہتے اور ساتھ ساتھ گریہ کرتے جاتے تھے، یہاں تک کہ تھوڑی دیر کے لیے سو گئے، جب نیند سے بیدار ہوئے تو فرمایا: اے ابن عباس، میں نے جواب دیا: جی میرے مولا میں حاضر ہوں۔
فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہے، تمہارے لیے بھی بھی بیان کروں ؟ میں نے عرض کیا: ہاں اے امیر المؤمنین۔
فرمایا: میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ آسمان سے زمین پر آئے ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں سفید پرچم اور چمکتی ہوئی تیز دھار والی شمشیریں ہیں، پھر انھوں نے اس زمین کے اردگرد دائرے کی شکل میں ایک لائن کھنچی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ گویا وہ کھجور کے درختوں کی شاخوں کو زمین پر مارتے ہیں اور ان شاخوں سے تازہ خون جاری ہوتا ہے اور میرے جگر کا ٹکڑا، میرا بیٹا حسین، اس خون میں غوطہ ور ہے اور وہ مدد کے لیے فریاد کر رہا ہے، لیکن کوئی بھی اسکی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ گویا آسمان سے آنے والے وہ نورانی اشخاص اسکو آواز دے رہے تھے کہ اے آل رسول صبر کریں کہ آپ بدترین انسانوں کے ہاتھوں سے قتل کیے جائیں گے اور اے ابا عبد اللہ ابھی جنت آپکی مشتاق ہے۔
ابن عباس کہتا ہے کہ علی (ع) نے مجھ سے کہا کہ: میں گھر میں سویا ہوا تھا کہ ایک دم سے اچانک بیدار ہو گیا، میں نے دیکھا کہ اس سے تازہ خون جاری ہے اور میری جیب خون سے بھر گئی ہے۔ میں نے بیٹھ کر گریہ کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ خدا کی قسم حسین شہید ہو گیا ہے۔ خدا کی قسم علی (ع) نے کبھی بھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولا ہے، اور انھوں نے جو بھی خبر مجھے دی ہے، وہ واقع ہو کر ہی رہی ہے، کیونکہ رسول خدا (ص) جن چیزوں کی خبر انھیں دیتے تھے، وہ خبر انکے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں دیتے تھے۔
علی (ع) کہتے ہیں کہ پھر ان نورانی انسانوں نے مجھے تسلیت دی اور کہا: اے ابا الحسن آپکے لیے خوشخبری ہے کہ خداوند قیامت کے دن آپکے بیٹے کے ذریعے سے آپکی آنکھوں کو روشن کرے گا، پھر علی (ع) نے ابن عباس سے کہا کہ ان نورانی انسانوں کی یہ بات سن کر میں نیند سے بیدار ہو گیا۔
اس خداوند کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں علی (ع) کی جان ہے، مجھے ابو القاسم رسول خدا نے خبر دی تھی کہ جب میں اہل بغاوت (معاویہ کے ساتھ جنگ صفین) میں اس زمین (کربلا) کو دیکھوں گا اور یہ کربلا کی زمین ہے کہ یہاں پر حسین میری اور فاطمہ کی اولاد میں سے 17 بندوں کے ساتھ دفن ہو گا۔ یہ سرزمین آسمانوں پر بہت معروف ہے اور اسے کربلا کی زمین کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، جسطرح کہ حرمین (مکہ و مدینہ) اور بیت المقدس کی زمین کو یاد کرتے ہیں۔
پھر علی (ع) نے ابن عباس سے فرمایا: اے ابن عباس اس زمین کی خاک کی خوشبو کو سونگھو، اس لیے کہ اسے حضرت عیسی نے بھی سونگھا ہے۔ جب انھوں نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسی زمین ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا، نہیں۔ حضرت عیسی نے فرمایا کہ یہ وہ زمین ہے کہ جہاں پر رسول خدا احمد مرسل کا بیٹا اور میری ماں کی مانند، رسول خدا کی بیٹی فاطمہ زہرا کا جگر گوشہ، قتل کیا اور دفن کیا جائے گا، یہ وہ زمین ہے کہ جسکی خاک کی خوشبو مشک و عنبر سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اس زمین کی طینت، اس شہید کی طینت سے ہے، اور انبیاء و انکی اولاد کی طینت بھی ایسے ہی ہے۔
ابن عباس کہتا ہے کہ: میں یہ بات سن کر ڈر گیا، اسی لیے میں صبح صبح گھر سے باہر گیا، میں نے دیکھا کہ شہر مدینہ میں گرد و غبار کی سی ایسی حالت ہے کہ اس میں ایک دوسرے کو اندھیرے کی وجہ سے پہچانا نہیں جا سکتا، پھر سورج نکلا، سورج کی بھی ایسی حالت تھی کہ گویا اسکو گرہن لگا ہوا ہے اور شہر مدینہ کی دیواروں کی ایسی حالت تھی کہ گویا ان پر تازہ خون ڈالا ہو، پھر میں اپنے گھر واپس آ گيا اور گھر میں بیٹھ کر گریہ کرنے لگا۔
خدا کی قسم امام حسین (ع) شہید ہو گئے ہیں، اور میں نے سنا کہ گھر کے اندر سے آواز آئی کہ:
اے آل رسول صبر کریں کہ حضرت زہرا کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے اور فرشتہ روح الامین بھی گریہ و شیون کے ساتھ نازل ہوا ہے۔
اس نے بلند آواز گریہ کیا اور میں نے بھی گریہ کیا، میں نے اس دن اور اس تاریخ کو اپنے پاس لکھ لیا، وہ عاشور کا دن تھا، جب مدینہ میں شہادت کی خبر پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہ وہی دن تھا، جب امام حسین (ع) کو شہید کیا گیا تھا۔
میں نے اس خبر کو ان لوگوں کو بتایا کہ جو مولا امیر (ع) کے ساتھ تھے، انھوں نے کہا کہ: خدا کی قسم ہم نے بھی جنگ کے دوران گریہ کرنے والے کی آواز کو سنا تھا، لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ وہ گریہ کرنے والا کون تھا، ہمارے خیال میں تو وہ حضرت خضر (ع) تھے۔
11- معتبر سند کے ساتھ ہرثمہ ابن ابی مسلم سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا کہ: میں جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ ہی تھا۔ جنگ سے واپسی پر وہ زمین کربلا پر پہنچے اور انھوں نے وہاں پر نماز صبح پڑھی، پھر انھوں نے خاک کربلا کو ہاتھ میں لے کر سونگھا اور فرمایا: اے خاک کربلا تم خوش قسمت ہو کہ تمہارے اندر سے ایک ایسا گروہ قیامت والے دن محشور ہو گا کہ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا۔
ہرثمہ جب اپنے گھر واپس لوٹ کر آیا تو اس نے اپنی شیعہ بیوی کو سارا واقعہ سنایا۔
اسکی بیوی نے کہا اے مرد امیر المؤمنین حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے۔ جب امام حسین عراق کی طرف آئے تو ہرثمہ کہتا ہے کہ میں عبید اللہ ابن زیاد کے لشکر میں تھا۔ میں نے جب زمین کربلا کو دیکھا تو مجھے علی (ع) کی وہ بات آ گئی، پھر میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر امام حسین (ع) کے پاس گيا، انکو سلام کیا اور جو کچھ میں نے اس مقام پر علی (ع) سے سنا تھا، وہ سب انکو بتا دیا۔
امام حسین (ع) نے فرمایا: کیا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو ؟ ہرثمہ کہتا ہے کہ میں نے کہا: میں نہ آپکے ساتھ ہوں اور نہ ہی آپکے مخالف ہوں، کیونکہ میری بیٹیاں کوفہ میں ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ عبید اللہ ابن زیاد کہیں انکو قتل نہ کر دے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا: پس تم جلدی سے یہاں سے ایسی جگہ چلے جاؤ کہ جہاں سے ہمیں قتل ہوتا نہ دیکھ سکو اور میری آواز کو نہ سن سکو، اس خدا کی قسم کہ جسکے ہاتھ میں مجھ حسین کی جان ہے، جو بھی میری فریاد کو سنے اور میری مدد نہ کرے تو، خداوند کل قیامت کے دن ایسے شخص کو منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔
جناب آدم کربلا میں:
جلاء العیون میں جناب علامہ باقر مجلسی اور ریاض الشہادت میں حاجی محمد حسن قزوینی نے فرمایا کہ معتبر حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت آدم زمین پر تشریف فرما ہوئے تو جناب حوا کو نہ پایا ۔ لہذا مختلف خطہ ہائے ارض پر تلاش حوا میں سرگردان و حیران و پریشان رہے کہ ایک مرتبہ زمین کربلا پر قدم رکھا اور غم و الم کا احساس ہونا شروع ہوا ، دل مغموم چشم پر نم سینہ میں اظہار تاسف مشہد امام حسین علیہ السلام کے نزدیک پہنچے تو ٹھوکر لگنے کی وجہ سے زمین پر گر گئے، پنڈلی میں زخم آیا خون جاری ہوا ۔ بارگاہ باری میں الحاح و زاری کی ۔ معبود بے مثال مختلف جگہ میں پھرا لیکن کسی جگہ ایسا نہ ہوا۔ کیا وجہ ہے کے مجھے یہ صدمہ جانکاہ پہنچا۔ وحی الٰہی ہوئی اے آدم ! آپ کی اولاد میں ایک عظیم انسان حسین علیہ السلام پیدا ہو گا ۔ جو اس جگہ پر بصد ظلم و جفا شہید کیا جائے گا۔ جس پر وحوش و ملک طیور و فلک سب ہی گریہ و زاری کریں گے ۔ ہم نے چاہا کہ آپ کو بھی اس حادثہ عظمیٰ سے خبر داد کیا جائے اور ان کے مصائب و شدائد میں شریک کریں تمہارا خون جو اس جگہ ٹپکا تو یہ اس خون سے مل جائے گا ۔
جناب آدم علیہ السلام نے عرض کی اے قدوس منان حسین علیہ السلام کیا کوئی نبی ہو گا ؟ ارشاد باری ہوا کہ نہیں بلکہ نبی آخر الزمان کا نواسہ ہو گا ۔ جناب آدم نے عرض کیا اس پر ظلم و ستم کون کرے گا ؟ بتایا گیا کہ وہ یزید پلید مردود و شقی ہو گا۔ زمین و آسمان کی اس پر لعنت ہو گی ۔ جناب جبرائیل سے جب حضرت آدم علیہ السلام نے معلوم کیا کہ مجھے اس سلسلہ میں کیا امر کیا گیا ہے ، بتایا کہ آپ بھی اس شقی پر لعنت کیجیئے ، تا کہ اجر عظیم کے مستحق ہوں پس روایت میں ہے کہ آپ نے چار مرتبہ اس پر لعنت کہی اور اس کے بعد میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں جناب حوا سے ملاقات ہوئی اور آدم علیہ السلام کے غم و الم میں کمی ہوئی۔
حضرت نوح (ع) ارض نینوامیں :
جناب نوح علیہ السلام کی قوم پر جب بارش کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور آپ کشتی پر سوار ہو کر گردش کرنے لگے تو زمین کربلا پر بھی سفینہ نوح علیہ السلام پہنچا لیکن وہاں ایک قسم کا اضطراب و طلاطم نظر آیا ، کشتی بھنور میں پھنسی گرداب نے ایک مرتبہ جھٹکا دیا کہ نوح پر غرق کا خطرہ لاحق ہوا غم و الم کی کیفیات سینہ میں موج زن ہوئیں ۔ بارگاہ الٰہی میں رو کر ارشاد کیا: معبود برحق خطہ ارض پر چہار طرف گردش کی لیکن یہ بے چینی و پریشانی کہیں طاری نہ ہوئی ۔ مالک سبب حیرانی و پریشانی کیا ہے ۔ معلوم نہیں ہوتا تو رب ودود ہے ظاہر فرماتا کہ اس اندوہ سے نجات پاؤں۔ جبرائیل خدائے جلیل کی طرف سے نازل ہوئے اور عرض کی اے نوح اس سرزمین پر امام حسین علیہ السلام شہید کیے جائیں گے جو خاتم النبیین کی صاحبزادی کا فرزند اور خاتم الاوصیاء کا لال ہو گا ۔ جناب نوح نے جبرائیل جیسے ذاکر سے مصائب حسین علیہ السلام سنے کہ دفعتاً گریہ طاری ہوا۔ حال گریہ میں معلوم کیا اے جبرائیل یہ ظلم کا بانی اور ستم و الم کا خوگر کون شقی ہو گا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یزید نابکار ہو گا، جس پر ساتوں زمین و آسمان کے ساکن لعنت کریں گے ۔ آپ بھی اسی ملعون و مطرود پر لعنت کیجیئے تا کہ کشتی کو نجات اور دل کو مراد ملے ۔ آپ نے اس پر لعنت کی تو آپ کی کشتی نے قرار لیا اور آپ کو نجات حاصل ہوئی ۔ کشتی دریائے جودی پر جا کے ٹھری ۔ نوح علیہ السلام شکر خالق بجا لائے۔
حضرت ابراہیم (ع) غاضریہ میں :
جناب ابراہیم علیہ السلام گھوڑے پر سوار اس طرف سے گزر رہے تھے کہ دفعتاً آپ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور آپ گھوڑے سے زمین پر گرے، سر زخمی ہوا خون جاری ہوا آپ استغفار باری میں مشغول ہوئے اور پروردگار سے نہایت فروتنی سے گزارش کی: مالک ظاہر فرما کہ مجھ سے ایسی کون سی کوتاہی سرزد ہوئی ہے، جس کا سبب یہ ہے ۔ جناب جبرائیل خدائے جلیل کی طرف سے حاضر ہوئے کہ اے خلیل خدا تم سے کوئی قصور و کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ یہ زمین مشہد حسین علیہ السلام ہے یہاں محمد مصطفیٰ (ص) کا لخت جگر ، علی علیہ السلام کا نور نظر تین روز کا بھوکا پیاسا جور و جفا کے ساتھ ظلم کے ساتھ شہید کیا جائے گا، میں نے چاہا کے آپ بھی اس مصیبت حسین میں شریک ہوں اور حصہ لیں جناب ابراہیم علیہ السلام نے پھر عرض کی اے جبرائیل اس سعادتمند کا قاتل کون ہو گا ۔ آپ نے جواب دیا کہ یزید بے دین ہو گا جس پر اہل زمین و آسمان لعنت کریں گے ۔ اے ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے قلم لے، اس مردود پر لعنت لوح پر لکھی تو ارشاد باری ہوا کہ اس لعنت لکھنے کا سبب ، اے قلم تو مستحق ثناء اور سزاوار مدح ہوا ہے ۔ یہ سن کر جناب ابراہیم علیہ السلام نے جانب آسمان اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور یزید پلید پر لعنت کی ۔ جناب ابراہیم علیہ السلام کے گھوڑے نے آمین کہی ، آپ نے اس سے کہا کہ اے گھوڑے تو نے کیا سمجھ کر آمین کہی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ آپ جیسا نبی مجھ پر سوار ہوتا ہے اور میں اس کی نحوست و پلیدگی کو سمجھ گیا اسی سبب میں لعنت کی ہے اسی کی وجہ سے آپ کو یہ رنج و تعب ہوا ہے۔
جناب اسماعیل(ع) شط فرات میں :
جناب اسماعیل علیہ السلام کی بھیڑ اور بکریاں فرات کے کنارے چرا کرتی تھیں ، ایک دن آپ کا چرواہا آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ: کئی دن سے بھیڑ بکریاں نہ گھاس چر رہی ہیں اور نہ پانی ہی پیتی ہیں ۔ آپ بھی متحیر ہوئے ۔ بارگاہ الٰہی میں عرض کی کہ معبود اس کا کیا سبب ہے ؟ جناب جبرائیل فرستادہ خدائے جلیل خدمت اسماعیل میں آئے اور عرض کیا کہ اس کا سبب آپ ان جانوروں سے خود ہی معلوم فرمائیں ۔ جب جناب اسماعیل علیہ السلام نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے بے زبان فصیح اس طرح جواب دیا کہ اے ذبیح اللہ ہم کو خدا کی طرف سے وحی ملی ہے کہ پیغمبر آخر الزمان کا نواسہ تین دن کا بھوکا پیاسا اس جنگل بے آب و گیاہ میں شہید کیا جائے گا اور بہت مصیبتیں اور اذیتیں ان پر اور ان کے با وفا اصحاب پر ڈھائی جائیں گی ۔ اس سبب سے ہم ان کے ماتم میں مشغول ہیں اور اسی کا ہم کو غم و اندوہ ہے، جس کے سبب ہم گھاس اور پانی سے گریز کیے ہیں پھر آپ نے معلوم کیا کہ ان کا قاتل کون ہے ؟ ان حیوانوں نے جواب دیا کہ یزید پلید ، اس پر آسمان و زمین کے رہنے والے لعنت کریں گے یہ سن کر جناب اسماعیل علیہ السلام نے اس پر لعنت کی۔
جناب سلیمان (ع) حائر حسینی میں :
ایک روز جناب سلیمان علیہ السلام اپنی بساط (قالین) پر سوار دوش ہوا پر تشریف لے جا رہے تھے کہ یکایک زمین کربلا کے مقابل آپ کی بساط پہنچی تو ہوا نے اس کو تین بار جھٹکا دیا۔ جناب سلیمان علیہ السلام کو خوف ہوا کہ کہیں بساط الٹ نہ جائے، اس کے بعد ہوا بند ہو گئی بساط چلنے سے رک گئی اور کربلا کی زمین پر اتر آئے۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے غصہ سے ہوا سے فرمایا کہ تم کیوں تھم گئی تو اس نے جواب دیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ حسین مظلوم اس زمین پر قتل کیا جائے گا ۔ معلوم کیا کون حسین ؟ کہا احمد مختار کا نواسہ ، حیدر کرار کا لخت جگر ۔ معلوم کیا اس کا قاتل کون ہو گا ؟ کہا کہ یزید ملعون اور اہل ارض و سماء اس پر لعنت کریں گے پس فوراً جناب سلیمان علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے نفرین کی ، اس لعنت کو سن کر اور آدمیوں اور جنوں نے آمین کہی ۔ اسی وقت ہوا چلنا شروع ہوئی اور بساط زمین سے بلند ہونا شروع ہوئی ۔ جناب سلیمان علیہ السلام پھر وہاں سے تشریف لے گئے ۔
جناب موسیٰ و یوشع ابن نون مشہد حسین (ع) میں :
ایک روز جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے وصی جناب یوشع کے ہمراہ اس سر زمین پر وارد ہوئے اور ادھر چل پھر رہے تھے کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا اور پیر کانٹوں پر پڑا اور ایسا کانٹا چبھا کہ جس سے خون جاری ہو گیا ۔ بارگاہ معبود میں عرض کی خداوندا مجھ سے کوئی قصور سرزد ہوا ہے جس کا یہ پھل میسر ہوا ہے ؟ جواب ملا نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ زمین مشہد حسین علیہ السلام ہے ۔ آپ کے خون نے ان کے خون سے موافقت کی ۔ عرض کیا یہ حسین کون بزرگوار ہیں ؟ وحی ہوئی نواسہ رسول ، جناب احمد مختار ، فرزند عالی وقار جناب حیدر کرار علیہ السلام ۔ سنتے ہی عرض کیا کہ ان کا قاتل کون ہے ؟ جواب ملا وہ بدبخت و بد شعار یزید ملعون ہے ، جس پر جن و انس ہی نہیں بلکہ دریائی مچھلیاں اور صحرا کے وحشی جانور تک لعنت کریں گے یہ سن کر جناب موسیٰ و یوشع علیہما السلام دونوں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور یزید نجس و نحس پر لعنت کر کے وہاں سے روانہ ہوئے۔
جناب عیسیٰ (ع) سرزمین ماریہ میں :
کتاب بحار الانوار میں بھی جناب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ماریہ میں اس طرح مرقوم ہے کہ: آپ اپنے حواریوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے زمین کربلا پر تشریف لائے کہ ناگاہ ایک درندے شیر نے آ کر سامنے سے راستہ روک لیا اور سر راہ بیٹھ گیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے شیر سے معلوم کیا کہ تمہارے راستہ روکنے کا مقصد کیا ہے اور تم ہمارے آگے جانے سے کیوں مانع ہو ؟ شیر گویا ہوا کہ جس وقت تک آپ یزید پر لعنت نہ کریں گے میں راستہ نہ چھوڑوں گا۔ آپ نے فرمایا یزید کون ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ وہ قاتل حسین علیہ السلام ۔ آپ نے فرمایا حسین علیہ السلام کون ہیں ؟ عرض کیا پیغمبر آخر الزمان محمد مصطفی (ص) کا نواسہ اور علی مرتضیٰ ولی الٰہی کا فرزند نامدار ۔ پھر شیر نے بتایا کہ قاتل حسین علیہ السلام پر سب وحشی جملہ چوپائے تمام درندے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے ہیں اور خاص کر روز عاشورہ ۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور یزید کے حق میں بد دعا اور لعنت کی ۔ شیر راستے سے ہٹ گیا اور عیسیٰ علیہ السلام روانہ ہو گئے ۔
گریہ سرور کائنات (ص) :
بیہقی نے روایت کی ہے کہ ام الفضل نے بیان کیا کہ میں امام حسین علیہ السلام کو گود میں لیے ہوئے ایک روز جناب رسول خدا (ص) کے حضور گئی اور میں نے ان کو حضور کی گود میں رکھ دیا ۔ پھر مجھے ایک کام پیش آیا اور جب میں اس سے فارغ ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور (ص) کی چشم مبارک اشکبار ہیں پس آنحضرت (ص) نے فرمایا میرے پاس جبرائیل تشریف لائے ہیں اور خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت قتل کرے گی اور مجھ کو سرخ مٹی لا کر دکھائی ہے۔
گریہ مولائے کائنات حضرت امیر (ع) :
شعبی کہتے ہیں کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام قریہ نینوا کے مقابل فرات کے کنارے گزرے اور کھڑے ہو کر پوچھا اس زمین کا نام کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کربلا ۔ آپ رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے اشکوں سے زمین تر ہو گئی ۔ پھر فرمایا کہ ایک دن میں جناب رسول خدا (ص) کی خدمت میں گیا ۔ حضور رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ جناب کے گرئیے کا سبب کیا ہے ؟ تو حضرت نے فرمایا : ابھی جبرائیل میرے پاس آئے تھے، مجھ سے کہنے لگے کہ میرا بیٹا حسین علیہ السلام فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا جس مقام کا نام کربلا ہے ۔ پھر جبرائیل نے مجھے ایک مٹھی بھر خاک سنگھائی ۔
گریہ بعد از وفات :
ترمذی اور دیلمی تحریر کرتے ہیں کہ: ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا (ص) کو خواب میں دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں اور سر اقدس اور پیشانی مبارک غبار آلود ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ہم ابھی قتل حسین کے بعد کربلا سے آ رہے ہیں ۔
حضرت امام حسین (ع) کی ولادت سے پہلے، انبیاء کا آپکے لیے عزاداری کرنا:
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت آدم اور جبرائیل کی عزاداری:
کتاب دُرّ الثمین کے مصنف فَتَلَقّی آدَمَ مِنْ رَبِّهِ کَلَماتٍ فَتابَ عَلَیْهِ إنَّهُ هُوَ التَّوابُ الرَّحیمُ ، کی تفسیر میں لکھتے ہیں: سب سے پہلے جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا، وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ پھر جب حضرت آدم نے پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کو عرش پروردگار پر مشاہدہ کیا تو جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا انھیں پڑھو:
یٰا حَمیدُ بِحَقِّ مُحَمَّد یٰا عٰالی بِحَقِّ عَلی یٰا فٰاطِرُ بِحَقِّ فاطِمة یٰا مُحْسِنُ بِحَقِّ الْحَسَنْ وَ یا قدیم الاحسان بحق الْحُسَیْن وَ مِنْکَ الْإحْسان،
جب امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی حضرت آدم کی زبان مبارک پر جاری ہوا تو اُن کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا ان کا دل غمگین ہو گیا۔ جبرائیل سے کہنے لگے: کیوں اس نام کو زبان پر جاری کرنے سے میرا دل غمگین ہو گیا ہے اور میرے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں ؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے اس فرزند پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے۔ جو سب کے سب اس کے آگے حقیر ہوں گے۔ حضرت آدم نے سوال کیا: وہ مصیبتں کیا ہوں گی ؟ جبرائیل نے کہا: آپ کا یہ فرزند پیاسا، غربت کے عالم میں حامی و ناصر کے بغیر شہید کر دیا جائے گا۔ اے آدم ! کاش آپ اسےاس وقت دیکھیں کہ وہ کیسے وا عَطشاه واقلة ناصِراه ، کی فریاد کرے گا اور پیاس اس کے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح حائل ہو جائے گی۔ کوئی بھی تلوار کے سوا اس کا جواب دینے والا نہ ہو گا اور پھر دنبے کی طرح ان کا سر پشت گردن سے جدا کر دیا جائے گا۔ ان کے دشمن ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے سروں کو ان کے غمزدہ اہل و عیال کے ساتھ شہر شہر پھرائیں گے، یہ سب کچھ حق متعال کے علم میں ہے۔ ان مصائب کے ذکر سے حضرت آدم اور جبرائیل علیہما السلام اسی طرح روئے جس طرح باپ جوان بیٹے کے مرنے پر روتا ہے اور جب حضرت آدم علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے تو حضرت امام حسین علیہ السلام کے مقتل میں آپ کا پاؤں پھسلا اور گرنے سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہو گیا تو بارگاہ رب العزت میں عرض کی: بار الہٰا ! کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے، جو اس طرح مجھے سزا دے جا رہی ہے ؟ جواب ملا نہیں کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ اس سرزمین پر آپ کا مظلوم بیٹا حسین شہید ہو گا ۔ ان کا خون اس سرزمین میں جاری ہو گا ان کے درد میں شریک ہونے کے لیے یہاں پر آپ کا خون جاری ہوا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا ! ان کا قاتل کون ہو گا ؟ جواب ملا یزید ملعون۔ اس پر لعت بھیجو۔ اس طرح حضرت آدم نے یزید لعین پر لعنت بھیجی۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت نوح (ع) کی عزاداری:
انس ابن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ: حضرت پیغمبر اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں: جب خداوند متعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا۔ جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیا تو اچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانند نور نکلنے لگا، حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔ حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔ جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے، اسے کشتی کی دائیں جانب لگائیں ۔ حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر دوسری کیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تو اس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا، حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ جواب ملا: یہ کیل سید الانبیاء کے چچا زاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے، اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔ حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیے اٹھائی اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے، اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کر دیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے، اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔ حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت ابراہیم (ع) کی عزاداری:
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا تو حضرت گھوڑے پر سوار تھے، اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرے ان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:
الھی أیُّ شیءٍ حدث منّی ؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء ،
پروردگارا ! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے ؟ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا: اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کیا جائے گا۔ اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت اسماعیل (ع) کی عزاداری:
روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے۔ ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا کہ: چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوند متعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا: اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں، وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے ؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے ؟
فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین (ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه ،
حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا کہ: ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں، اس مقام پر پیاسے شہید کیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔ حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا ؟ تو جواب ملا اُن کے قاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔
فقال اسماعیل اللّهم العن قاتل الحسین ،
حضرت اسماعیل نے کہا: خداوندا ! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت سلیمان (ع) کی عزاداری:
مرحوم علامہ مجلسی نقل فرماتے ہیں کہ: جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ گر جاتے۔ جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔ حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو ؟
فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار ،
ہوا نے کہا اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔ حضرت سلیمان نے پوچھا: حسین کون ہیں ؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا ؟ کون اُن سے جنگ کرے گا ؟ جواب ملا آسمان و زمین کا ملعون ترین شخص یزید۔ حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت موسیٰ (ع) کی عزاداری:
حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع ابن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہو گیا، جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بار الہٰا ! مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے ؟ خداوند متعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی: اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بار الہٰا ! حسین کون ہیں ؟ ارشاد ہوا : وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کیا:
یَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْکَ الْخِصَالُ الَّتِی یَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِی إِسْرَائِیلَ یَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّکَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)یَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُکَاءُ وَ التَّبَاکِی عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِیَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِیبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى یَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِیدِی فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ بَکَى أَوْ تَبَاکَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ کَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِیهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِی مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِیِّهِ طَعَاماً وَ غَیْرَ ذَلِکَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَکْتُ لَهُ فِی الدَّارِ الدُّنْیَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِینَ دِرْهَماً وَ کَانَ مُعَافاً فِی الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَیْنَیْهِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَیْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ کُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِیدٍ ،
اے میرے پروردگار ! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی ؟جواب ملا : ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: نماز، زکات، روزہ ، حج ، جمعہ، جماعت، قرآن، علم اور عاشوراء حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے ؟ ارشاد ہوا : محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اور مرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہے اور اے موسیٰ ! جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیاز میں یا پھر کسی بھی چیز میں) میں اس میں برکت ڈالوں گا، یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہو جائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گا اور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے گا، میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ ! حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کر دوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اس کا قاتل کون ہے ؟ خداوند متعال نے فرمایا: اس کا قاتل وہ ہے کہ جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں، پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔ اس کے جد حضرت محمد مصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کر دیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا:
اَلظَّلیْمَةُ اَلظَّلیْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبیِّهٰا ،
پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کر کے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے۔ اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مر جائیں گے، ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے، مدد طلب کریں گے، امان مانگیں گے، کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں کرے گا اور انھیں امان نہیں دی جائے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے یزید پر لعنت کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع ابن نون نے آمین کہا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے پروردگار! حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہو گا ؟ خداوند متعال نے وحی کی: ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ، میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہو گی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کو زندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: پروردگارا میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے، ان سب سے بیزار ہوں۔ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔
وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَیْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ ،
اور جان لو ! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت زکریا (ع) کی عزاداری:
سعد ابن عبد اللہ قمی کہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا، حضرت نے ارشاد فرمایا: اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا ؟ میں نے عرض کیا: مجھے احمد ابن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کر لوں۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو، یہ اہل تشیع کا بارہواں امام ہے ۔ سعد کہتا ہے کہ میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے سورہ مریم کے اول میں کھیعص کی تأویل سے آگاہ فرمائیں ؟ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوند متعال ان حروف کے ذریعے سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرما رہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا کہ: حضرت زکریا نے خداوند متعال سے تقاضا کیا کہ مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں، جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کیا: پروردگارا ! میں جب بھی محمد، علی، فاطمہ اور حسن صلوات الله علیہم اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تو اپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہو جاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہو جاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ؟ خداوند متعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔ پھر حضرت نے فرمایا: کاف کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور ھا، عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور یا یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور عین عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے، صاد صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کر دیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے:
إلهی اتفجع خیر جمیع خلقک بولده ؟ إلهی اتنزل بلوی هذه الرزیة بفنائة ؟ إلهی اتلبس علی و فاطمه ثیاب هذه المصیبة ؟ إلهی اتحل کربة هذه المصیبة بساحتهما ؟
اور ان جملوں کے بعد خداوند متعال سے التجا کرتے تھے کہ بار الہٰا ! مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کر دے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔ خداوند متعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت فرمایا اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہو گئے۔ حضرت یحیی اور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:
ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام،
یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔
حضرت امام حسین (ع) پر حضرت عیسیٰ (ع) کی عزاداری:
منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گزر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی ؟ شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا: میں اس راستے سے گزرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ:
تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین ؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ۔
امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں ؟ کہا: محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزند ہیں۔
پوچھا ان کا قاتل کون ہے ؟ جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
التماس دعا۔۔۔۔۔