موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیا شیعہ روایات کے مطابق وضو کرتے وقت پاؤں کو دھویا جاتا ہے یا ان پر مسح کیا جاتا ہے؟
مندرجات: 521 تاریخ اشاعت: 11 فروردين 2017 - 14:21 مشاہدات: 6262
سوال و جواب » شیعہ عقائد
جدید
کیا شیعہ روایات کے مطابق وضو کرتے وقت پاؤں کو دھویا جاتا ہے یا ان پر مسح کیا جاتا ہے؟

 

سوال:

 

کیا شیعہ روایات کے مطابق وضو کرتے وقت پاؤں کو دھویا جاتا ہے یا ان پر مسح کیا جاتا ہے ؟

توضیح سوال:

 

شیعہ کتب میں آیا ہے کہ وضو میں پاؤں کو لازمی طور پر دھونا چاہیے، کیا یہ روایت صحیح ہے یا نہیں ؟

الکافی جلد 3 صفحہ 35

وسائل الشيعہ جلد 1 صفحہ 269

جواب:

 

مرحوم شيخ كلينی نے اس روايت کو اس سند اور متن کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ أَبِی دَاوُدَ جَمِيعاً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِی بَصِيرٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام. قَالَ: إِذَا نَسِيتَ فَغَسَلْتَ ذِرَاعَكَ قَبْلَ وَجْهِكَ فَأَعِدْ غَسْلَ وَجْهِكَ ثُمَّ اغْسِلْ ذِرَاعَيْكَ بَعْدَ الْوَجْهِ فَإِنْ بَدَأْتَ بِذِرَاعِكَ الْأَيْسَرِ قَبْلَ الْأَيْمَنِ فَأَعِدْ غَسْلَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ اغْسِلِ الْيَسَارَ وَ إِنْ نَسِيتَ مَسْحَ رَأْسِكَ حَتَّى تَغْسِلَ رِجْلَيْكَ فَامْسَحْ رَأْسَكَثُمَّ اغْسِلْ رِجْلَيْكَ.

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: جب بھی آپ بھول کر چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لو، تو پلٹ کر اپنے چہرے کو دھو کر پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو دھو لو۔ اگر بھول کر دائیں ہاتھ سے پہلے، بائیں ہاتھ کو دھو لو تو، پلٹ کر دائیں ہاتھ کو دھو کر پھر دوبارہ بائیں ہاتھ کو دھو۔ اگر سر کے مسح کو بھول کر پیروں کو دھونا شروع کر دو تو، پلٹ کر اپنے سرکا مسح کرو اور اسکے بعد دوبارہ اپنے پاؤں کو  دھو لو۔

الكلينی الرازی، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافی، ج3 ص 35، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

اس روایت کے چند جواب دئیے جا سکتے ہیں:

اولا:

 

 اس روایت کی سند منطقع ہے:

یہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے، کیونکہ حسین بن سعید نے فضالہ بن ایوب سے ملاقات ہی نہیں کی تو وہ پھر اس سے روایت کیسے نقل کر سکتا ہے ؟ لہذا شیعہ کی نظر میں یہ روایت معتبر نہیں ہے۔

مرحوم نجاشی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

فضالة بن أيوب الأزدی عربی صميم ، سكن الأهواز ، روى عن موسى بن جعفر عليه السلام ، و كان ثقة فی حديثه ، مستقيما فی دينه . له كتاب الصلاة . قال لی أبو الحسن البغدادی السورائی البزاز . قال لنا الحسين بن يزيد السورائی : كل شئ تراه الحسين بن سعيد عن فضالة ، فهو غلط ، إنما هو الحسين عن  أخيه الحسن عن فضالة و كان يقول : إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة...

فضالہ بن ايوب ازدی کہ جو اہواز کا رہنے والا تھا اور اس نے امام کاظم (ع) سے روایت نقل کی ہے۔ وہ روایت کو نقل کرنے میں موثق، اپنے دین میں پائیدار اور صاحب کتاب بھی تھا۔ ابو الحسن بغدادی سے نقل کرتے ہوئے حسین بن سعید نے کہا ہے کہ: جہاں پر بھی دیکھو کہ حسین بن سعید نے فضالہ سے نقل کیا ہے تو سمجھ لو کہ وہ مطلب غلط ہے، کیونکہ حسین نے اپنے بھائی حسن اور اس  نے فضالہ سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ حسین بن سعید نے بالکل فضالہ سے ملاقات نہیں کی تھی۔

النجاشی الأسدی الكوفی، ابو العباس أحمد بن علی بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفی الشيعة المشتهر ب‍ہ رجال النجاشی، ص311، تحقيق: السيد موسی الشبيری الزنجانی، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامی ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

ثانيا:

 

 شیعہ علماء نے اس روایت کو تقیہ پر حمل کیا ہے۔

اگر فرض بھی کریں کہ اس روایت کی سند صحیح ہے، تو پھر بھی اس حدیث کو تقیہ اور شیعیان کی جان کو حفظ کرنے کے لیے بیان کیا تھا۔

 مرحوم شیخ حر عاملی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

أقول : غسل الرجلين محمول على التقية لما مر۔

میں کہتا ہوں کہ وضو میں دونوں پیروں کے دھونے کو تقیہ پر حمل کیا جائے گا۔

الحر العاملی، محمد بن الحسن _متوفى1104ق_، تفصيل وسائل الشيعة إلی تحصيل مسائل الشريعة، ج 1، ص 318، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ.

اس مطلب کے بارے میں تھوڑی تفصیل:

 جس جگہ پر انسان کو اپنی جان کا خطرہ ہو تو اسلام نے اجازت دی ہے کہ انسان اپنی جان کو بچانے کے لیے وہاں تقیہ کر سکتا ہے۔ امام صادق (ع) نے بھی اس روایت کو انہی حالات میں بیان کیا ہے، حالانکہ اہل بیت (ع) کی روایات کے مطابق شیعہ فقہ میں وضو میں پاؤں کا دھونا جائز نہیں ہے، اور شیعہ فقہاء نے فقط تقیہ اور خوف کی حالت میں وضو میں پاؤں کے دھونے کو جائز قرار دیا ہے۔

مرحوم شیخ طوسی نے لکھا ہے کہ:

و لا يجوز غسل الرجلين للوضوء مع الاختيار ، و يجوز عند التقية و الخوف.

اختیار کی حالت میں وضو میں دونوں پاؤں کا دھونا جائز نہیں ہے، لیکن تقیہ اور حوف کی حالت میں جائز ہے۔

الطوسی، الشيخ ابو جعفر، محمد بن الحسن بن علی بن الحسن (متوفى460هـ)، المبسوط، ج 1، ص22

يحيی بن سعيد حلّی نے بھی کہا ہے کہ:

و لا يجوز غسل الرجلين بدلا عن المسح إلا لتقية.

دونوں پاؤں کا مسح کرنے کی بجائے، دھونا جائز نہیں ہے، مگر تقیہ کی حالت میں ایسا کرنا جائز ہے۔

الحلی، يحيى بن سعيد (متوفی689هـ)، الجامع للشرايع، ص 35، تحقيق: تحقيق و تخريج: جمع من الفضلاء / إشراف: الشيخ جعفر السبحانی، ناشر: مؤسسة سيد الشهداء، چاپخانه: المطبعة العلمية – قم، چاپ: 1405

ثالثا:

 

 یہ روایت شیعہ عقائد اور دوسری شیعہ روایات کے مخالف ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ روایت، شیعہ اعتقادات کے مخالف ہے اور مستفیض روایت ہے کہ جس نے پاؤں کے مسح کرنے کو واجب قرار دیا ہے اور انکے دھونے کو جائز قرار نہیں دیا۔

 شیخ صدوق نے اس بارے میں کہا ہے کہ:

و من غسل الرجلين فقد خالف الكتاب و السنة.

جو بھی دونوں پاؤں کو وضو میں دھوئے تو بے شک اس نے قرآن اور سنت کی مخالفت کی ہے۔

الصدوق، ابو جعفر محمد بن علی بن الحسين (متوفى381هـ)، الهداية، ص80

صاحب جواہر نے بھی پا‎ؤں پر مسح کرنے کو شیعہ مذہب کے واضحات میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:

من فروض الوضوء (مسح الرجلين) إجماعا عند الإمامية محصلا و منقولا، بل هو من ضروريات مذهبهم، و أخبارهم به متواترة، بل فی الانتصار أنها أكثر من عدد الرمل و الحصى.

وضو کے واجبات میں سے، پاؤں پر مسح کرنا ہے کہ امامیہ کے نزدیک اسکی دلیل اجماع محصل اور اجماع منقول ہے، بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ مسح کرنا یہ شیعہ مذہب کی ضروریات (واضحات) میں سے ہے، اور روایات شیعہ اس بارے میں متواتر ہیں، بلکہ کتاب انتصار میں آیا ہے کہ اس بارے میں روایات ریت کے ذرّات اور صحرا کے سنگریزوں سے بھی زیادہ ہیں۔

النجفی، الشيخ محمد حسن (متوفى1266هـ)، جواهر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، ج2، ص 206، تحقيق و تعليق و تصحيح: محمود القوچانی، ناشر: دار الكتب الاسلامية ـ تهران، الطبعة: السادسة، 1363ش.

آقا رضا ہمدانی نے سید مرتضی کی کتاب الانتصار سے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

و لكن مخالفينا نبذوه وراء ظهورهم و لولاه لاتحدت الكلمة و ارتفعت المخالفة بين الأمة.

شیعہ کے مخالفین نے ان روایات کو فراموش کر کے پس پشت ڈالا ہوا ہے، اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو اس بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی ایک ہی نظر ہوتی اور اس طرح اس امت سے اختلاف ختم ہو جاتا۔

الهمدانی، آقا رضا (متوفی1322هـ)، مصباح الفقيہ (ط.ق)، ج 1، ص 157، ناشر: منشورات مكتبة الصدر – طهران، چاپخانہ: حيدری، توضيحات: طبعة حجرية، طبق برنامہ كتابخانہ اهل البيت عليهم السلام.

محقق بحرانی نے بھی اس بارے میں لکھا ہے کہ:

و ما يدل على وجوب المسح و نفی الغسل من أخبارنا فمستفيض، بل الظاهر أنه من ضروريات مذهبنا.

وہ روایات کہ جو وضو میں پیروں پر مسح کرنے کے وجوب اور انکو نہ دھونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ مستفیض روایات ہیں، بلکہ یہ کام شیعہ مذہب کے واضحات میں سے ہے۔

البحرانی، الشيخ يوسف، (متوفی1186هـ)، الحدائق الناضرة فی أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 2، ص290، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامہ مكتبہ اہل البيت.

وضو میں پاؤں پر مسح کے واجب ہونے کے بارے میں روایات:

 

یہاں تک ثابت ہوا کہ وضو میں پیروں پر مسح کرنا واجب اور یہ شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے ہے اور اس بارے میں روایات بھی متواتر ہیں۔ اس بارے میں ہم چند روایات کو ذکر کرتے ہیں:

روايت اول:

 

مرحوم كلينی نے امام باقر (ع) سے وضو میں افعال کو ترتیب سے انجام دینے کے بارے میں روايت کو نقل کیا ہے کہ امام نے اس روایت میں پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے:

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام تَابِعْ بَيْنَ الْوُضُوءِ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ابْدَأْ بِالْوَجْهِ ثُمَّ بِالْيَدَيْنِ ثُمَّ امْسَحِ الرَّأْسَ وَ الرِّجْلَيْنِ وَ لَا تُقَدِّمَنَّ شَيْئاً بَيْنَ يَدَيْ شَيْ‏ءٍ تُخَالِفْ مَا أُمِرْتَ بِهِ وَ إِنْ غَسَلْتَ الذِّرَاعَ قَبْلَ الْوَجْهِ فَابْدَأْ بِالْوَجْهِ وَ أَعِدْ عَلَى الذِّرَاعِ وَ إِنْ مَسَحْتَ الرِّجْلَ قَبْلَ الرَّأْسِ فَامْسَحْ عَلَى الرَّأْسِ قَبْلَ الرِّجْلِ ثُمَّ أَعِدْ عَلَى الرِّجْلِ ابْدَأْ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِه.

امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ:  وضو کو ترتیب کے ساتھ پے در پے انجام دو، جسطرح کہ خداوند نے حکم دیا ہے، یعنی پہلے چہرے کو دھونا، پھر دونوں بازؤوں کو دھونا، پھر سر کا مسح اور آخر میں دونوں پاؤں پر مسح کرنا ہے۔ کسی بھی عضو کو کسی دوسرے پر مقدم نہ کرو کہ اس صورت میں خداوند کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاؤ گے۔ اگر اپنے چہرے کو دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لو تو واپس پلٹ کر اپنے چہرے کو دھوئے اور اسکے بعد دوبارہ اپنے بازو کو دھوئے اور اگر اپنے سر کے مسح کرنے سے پہلے اپنے پاؤں پر مسح کرے تو واپس پلٹ کر اپنے سر کا مسح کرے اور اسکے بعد دوبارہ اپنے پاؤں کا مسح کرے۔ ہمیشہ اس عضو سے ابتدا کرو کہ خداوند نے اس سے ابتدا کی ہے۔

الكلينی الرازی، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافی، ج 3، ص 35، ح5، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

تصحيح روايت:

علماء شیعہ کی نظر میں اس روایت کی سند، صحیح ہے۔

 علامہ مجلسی نے اس روایت کے صحیح ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الحديث الخامس‏: حسن كالصحيح.

پانچویں روایت: حسن ہے، کہ روایت حسن، صحیح روایت کی طرح ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، ج‏13، ص112، تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

علامہ حلّی نے بھی لکھا ہے کہ:

و روی فی الصحيح ، عن زرارة قال : قال أبو جعفر عليه السلام : ... ثم باليدين ثم امسح الرأس و الرجلين،

زرارہ سے صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام باقر (ع) نے فرمایا کہ: وضو کی ترتیب بتاتے ہوئے کہا کہ....... پھر سر کا مسح کرو اور پھر اپنے دونوں پاؤں کا مسح کرو۔

الحلی الأسدی، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ)،‌ منتهى المطلب فی تحقيق المذهب،‌ ج 2 ص 106، تحقيق: قسم الفقہ فی مجمع البحوث الإسلامية،‌ ناشر: مجمع البحوث الإسلامية - إيران – مشهد،

مرحوم بہائی عاملی نے بھی لکھا ہے کہ:

من الصحاح زرارة قال قال أبو جعفر ( عليه السلام ) ... ثم امسح الرأس و الرجلين....

صحیح روایات میں سے زرارہ کی روایت ہے کہ امام باقر (ع) نے فرمایا کہ: وضو کی ترتیب بتاتے ہوئے کہا کہ....... پھر سر کا مسح کرو اور پھر اپنے دونوں پاؤں کا مسح کرو۔

 الحارثی العاملی، محمد بن الحسين بن عبد الصمد، (متوفی 1031هـ) الحبل المتين، ص 22، ناشر : منشورات مكتبة بصيرتی، قم

محقق بحرانی نے بھی لکھا ہے کہ:

فی صحيح زرارة : ... ثم باليدين ثم امسح الرأس و الرجلين۔

المحقق البحرانی، الحدائق الناضرة، ج 2، ص 352

آقا رضا ہمدانی نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے:

فی صحيحة زرارة ... ثم امسح الرأس و الرجلين ...

آقا رضا الهمدانی، مصباح الفقيہ (ط.ق)، ج 1، ص 173

پس یہ روایت صحیح ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ وضو میں پاؤں پر مسح کرنا واجب ہے اور لفظ امر "امسح" مسح کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

روايت دوم:

 

ایک دوسری روایت کتاب اصول کافی میں امام رضا (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ امام نے خود پاؤں کا مسح کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی ہے:

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِی الْحَسَنِ الرِّضَا عليه السلام قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ كَيْفَ هُوَ فَوَضَعَ كَفَّهُ عَلَى الْأَصَابِعِ فَمَسَحَهَا إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلَى ظَاهِرِ الْقَدَمِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قَالَ بِإِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ هَكَذَا فَقَالَ لَا إِلَّا بِكَفِّهِ.

امام رضا (ع) نے فرمایا کہ: پاؤں کا مسح کیسے کیا جاتا ہے ؟ امام نے اپنے ہاتھ کو پاؤں کی انگلیوں پر رکھا اور پیر کی اٹھی جگہ تک کا مسح کیا۔ میں نے کہا: اگر کوئی فقط اپنی دو انگلیوں سے اس طرح مسح کرے، تو کیا کافی نہیں ہے ؟ امام نے فرمایا: نہ، کافی نہیں ہے، مگر جب تک اپنے پورے ہاتھ سے مسح نہ کرے۔

    الكافی، ج‏3، ص 31، ح6

تصحيح روايت:

اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔

علامہ محمد تقی مجلسی (مجلسی اول) نے اس روایت، کو اس بحث کے ذیل میں لایا ہے کہ کیا تھوڑا سا بھی مسح کرنا کافی ہے یا نہیں ؟ صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت کو اپنے دعوی پر استدلال کے طور پر بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ:

و الأخبار الصريحة دالة على الاكتفاء بالمسمى. نعم الأولى الاستيعاب، كما يدل عليه صحيحة ابن أبی نصر عن الرضا عليه السلام: قال سألته عن‏ المسح‏ على‏ القدمين‏ كيف هو ؟ فوضع كفه على الأصابع فمسحها إلى الكعبين إلى ظاهر القدم،

روایات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ تھوڑا سا بھی مسح کرنا کافی ہوتا ہے، البتہ پورے ہاتھ سے مسح کرنا، بہتر ہے، جس طرح کہ اس مطلب پر امام رضا کی صحیح روایت کہ جو ابن ابی نصر بزنطی نے نقل کی ہے، وہ بھی دلالت کرتی ہے....

مجلسى، محمد تقى بن مقصود على، روضة المتقين فی شرح من لا يحضره الفقيه (ط - القديمة) ، ج‏1 ؛ ص149، قم، چاپ: دوم، 1406 ق.

اور کتاب مرآۃ العقول میں بھی مورد بحث، چھٹی روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

الحديث السادس‏: صحيح.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، ج‏13، ص102، تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

اور اپنی ایک دوسری کتاب میں بھی اس روایت، کو کہ جو کتاب تہذیب میں روایت نمبر 28 ہے، صحیح قرار دیا ہے:

الحديث الثامن و العشرون: صحيح أيضا.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ملاذ الأخيار فی فهم تهذيب الأخبار ،‌ ج‏1، ص283، قم، چاپ: اول، 1406 ق.

علامہ حلی نے بھی لکھا ہے کہ:

احتج الآخرون : بما رواه أحمد بن محمد بن أبی نصر ، فی الصحيح، عن أبی الحسن الرضا عليه السلام قال : سألته عن المسح على القدمين كيف هو ؟

دوسروں نے احمد ابن محمد ابن ابی نصر کی امام رضا (ع) سے نقل شدہ روایت سے استدلال کیا ہے.....

الحلی، الحسن بن يوسف (متوفی726هـ)، مختلف الشيعة، ج 1، ص 290، تحقيق : مؤسسة النشر الإسلامی، تحقيق : مؤسسة النشر الإسلامی، چاپ : الثانية، سال چاپ : ذى القعدة 1413

اور ایک دوسری کتاب میں واضح طور پر اس روایت کو صحیح کہا ہے:

و روی فی الصحيح ، عن أحمد بن محمد ، قال : سألت أبا الحسن عليه السلام عن المسح على القدمين كيف هو ؟

روایت صحیح میں احمد ابن محمد سے ذکر ہوا ہے.....،

الحلی الأسدی، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ)،‌ منتهى المطلب فی تحقيق المذهب،‌ ج 2، ص 67، تحقيق: قسم الفقہ فی مجمع البحوث الإسلامية،‌ ناشر: مجمع البحوث الإسلامية - إيران – مشهد،

شہید اول نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

و لصحيحة البزنطی عن الرضا (عليه السلام)، و سأله عن المسح على القدمين، فوضع كفه على الأصابع فمسحهما إلى الكعبين.

امام رضا (ع) کی صحیح روایت کی وجہ سے کہ جو بزنطی نے امام سے نقل کی ہے.....

اس عبارت کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہے.....

العاملی الجزينی، محمد بن جمال الدين مكی، الشهيد الأول (متوفی786 ه‍ ـ) ذكرى الشيعة فی أحكام الشريعة، ج 2، ص154، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث – قم، الطبعة الأولى 1419

فاضل ہندی نے بھی کہا ہے کہ:

لصحيح البزنطی سأل الرضا عليه السلام عن المسح على القدمين كيف هو ؟

اس عبارت کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہے.....

الاصفهانی، الشيخ بهاء الدين محمد بن الحسن الأصفهانی المعروف ب‍ الفاضل الهندی (متوفی1137ه‍)، كشف اللثام عن قواعد الأحكام، ج 1، ص 545، تحقيق: مؤسسة النشر الإسلامی، ناشر: مؤسسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، چاپ: الأولى،‌ سال چاپ: 1416

محقق بحرانی نے بھی اس روايت کو صحيح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ :

و من تلك الأخبار صحيحة أحمد بن محمد بن أبی نصر البزنطی عن الرضا ( عليه السلام ) قال : سألته عن المسح على القدمين كيف هو ؟

ان روایات میں سے ایک صحیح روایت احمد ابن محمد ابن ابی نصر بزنطی کی ہے کہ جو اس نے امام رصا سے نقل کی ہے...

اس عبارت کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہے.....

البحرانی، الشيخ يوسف، (متوفی1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 2، ص 300، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ، یہ روایت بھی صحیح ہو گی۔

روايت سوم:

 

امام صادق (ع) نے بھی صحیح روایت میں وضو کے افعال کی ترتیب کو بیان کیا ہے اور پاؤں پر مسح کرنے کو واجب کہا ہے:

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَيْرٍ عَنْ أَبِی أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْأُذُنَانِ لَيْسَا مِنَ الْوَجْهِ وَ لَا مِنَ الرَّأْسِ قَالَ وَ ذُكِرَ الْمَسْحُ فَقَالَ امْسَحْ عَلَى مُقَدَّمِ رَأْسِكَ وَ امْسَحْ عَلَى الْقَدَمَيْنِ وَ ابْدَأْ بِالشِّقِّ الْأَيْمَنِ.

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: وضو میں کان نہ چہرے کا حصہ ہیں اور نہ سر کا حصہ ہیں۔ امام نے مسح کرنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ: پہلے سر کے سامنے والے حصے کا مسح کرو اور بعد میں اپنے پیروں پر مسح کرو اور مسح کرنے میں دائیں پیر کو مقدم کرو۔

الكافی، ج‏3، ص 30، ح2

تصحيح روايت:

یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے معتبر ہے اور شیعہ علماء نے اس مطلب واضح طور پر بیان بھی کیا ہے۔

علامہ محمد باقر مجلسی نے فرمایا ہے کہ:

الحديث الثانی‏: حسن.

دوسری روایت: اسکی سند حسن ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، ج‏13، ص96، تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

محقق نراقی نے بھی اس روایت کو حسن کہا ہے:

و حسنة محمد : و ذكر المسح فقال : امسح على مقدم رأسك و امسح على القدمين و ابدأ بالشق الأيمن.

اور محمد ابن مسلم کی روایت حسن نے مسح کی بحث کو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ: اپنے سر اور ہر دو پاؤں پر مسح کرو اور دائیں پیر کو مقدم کرو۔

النراقی، المولی أحمد بن محمد مهدی (متوفی1245هـ)، مستند الشيعة فی أحكام الشريعة، ج2، ص144، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - مشهد المقدسة، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - قم،

مرحوم صاحب جواہر نے مسح کرنے کی ترتیب کے بارے میں لکھا ہے کہ:

رواه الكلينی فی الحسن كالصحيح عن محمد بن مسلم عن أبی عبد الله ( عليه السلام ) قال : و ذكر المسح فقال : امسح على مقدم رأسك ، و امسح على القدمين ،

اس مطلب کو مرحوم کلینی نے حسن روایت میں محمد ابن مسلم اور اس نے امام صادق سے نقل کیا ہے.....

اس روایت کا پہلے ترجمہ کیا جا چکا ہے.....

النجفی، الشيخ محمد حسن (متوفى1266هـ)، جواهر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، ج 2، ص 228، تحقيق و تعليق و تصحيح: محمود القوچاني، ناشر: دار الكتب الاسلامية ـ تهران، الطبعة: السادسة، 1363ش.

مرحوم آقا رضا ہمدانی نے بھی وضو میں ترتیب کو رعایت کرنے کے واجب ہونے کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے، اس روایت کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ:

و يدل عليه ما رواه الكلينی [ ره ] فی الحسن كالصحيح عن محمد بن مسلم عن أبی عبد الله ( ع ) قال و ذكر المسح فقال امسح على مقدم رأسك و امسح على القدمين.

اس مطلب پر کہ جس کو مرحوم کلینی نے حسن روایت میں محمد ابن مسلم اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے، دلالت کرتا ہے کہ.....

الهمدانی، آقا رضا (متوفی1322هـ)، مصباح الفقيه (ط.ق)، ج 1، ص 162، ناشر: منشورات مكتبة الصدر – طهران، چاپخانه: حيدری، توضيحات: طبعة حجرية، طبق برنامہ كتابخانہ اہل البيت عليهم السلام.

سيد خوانساری نے بھی اسی روایت کے بارے میں یہی تعبیر کو استعمال کیا ہے:

ما رواه الكلينی فی الحسن كالصحيح، عن أبی عبد الله عليه السلام قال: و ذكر المسح فقال: ( امسح على مقدم رأسك و امسح على القدمين و ابدء بالشق الأيمن )

الخوانساری، السيد احمد، (متوفی 1405ق) جامع المدارک ، ج 1، ص 47،‌ تحقيق : تعليق : علی أكبر الغفاری، ناشر : مكتبة الصدوق – طهران، چاپ : الثانية، سال چاپ : 1405 - 1364 ش

نتيجہ:

 

وہ روایت کہ جو وضو میں پاؤں کے دھونے کے بارے میں ہے، وہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، اور شیعہ اعتقاد کے اور دوسری صحیح مستفیض روایات کے بھی مخالف ہے، کہ ان صحیح روایات میں پاؤں پر مسح کرنے کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ان صحیح روایات میں سے چند کو ہم نے نمونے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ پس صحیح روایات کی روشنی میں، شیعہ مذہب میں وضو میں پاؤں پر مسح کرنا واجب ہے نہ ان کا دھونا۔

التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: