موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیا جناب عائشه اصلاح، کی نیت سے نکلی تھی ؟
مندرجات: 2138 تاریخ اشاعت: 25 بهمن 2021 - 19:20 مشاہدات: 2574
مضامین و مقالات » پبلک
کیا جناب عائشه اصلاح، کی نیت سے نکلی تھی ؟

بسم الله الرحمن الرحم

کیا جناب عائشه اصلاح، کی نیت سے نکلی تھی ؟

مطالب کی  فهرست

 جناب عائشه کا  جنگ جمل کی کمانڈری۔

جناب عائشه کا  اميرمؤمنین عليه السلام سے پرانی دشمنی

رسول خدا (ص) نے کیوں اميرالمؤمنین (ع) کو عائشه سے جنگ کرنے کا حکم دیا ؟

رسول خدا(ص)، نے جناب عائشه کو جنگ جمل میں شرکت سے منع فرمایا ۔

ام سلمه، عائشه سے جنگ کو مشروع سمجھتی تھیں ۔

جناب حذيفه کی پیش بینی: تم لوگوں کی ماں تم لوگوں سے جنگ کرنے آئے گی۔

اھل جمل شروع سے ہی حضرت علي (ع) سے جنگ کرنا چاہتے تھے :

اهل جمل کا لوگوں کو حضرت امیر علی  (ع)سے جنگ کرنے کی دعوت ۔

جناب عائشه ایک  آهنی کجاوہ میں  سوار تھی ۔

جناب عائشه لوگوں کو اميرالمؤمنین عليه السلام کے لشکر سے جنگ کرنے پر ابھارتی رہی ۔

  فتنه کا آغاز کرنے ولے کون؟

  اميرالمؤمنین عليه السلام کی فوج کا جناب عائشه کے کجاوے  پر حملہ

  اميرالمؤمنین عليه السلام نے جناب عائشه کو سزا کیوں نہیں دی ؟

 عورت اگر مرتد بھی ہو پھ ر بھی قتل نہیں ہوگی ،باغیہ کی بات ہی اور ہے :

اسیر کا قتل جائز نہیں :

 رسول اللہ ص کے حکم کی اطاعت

رسول خدا (ص) نے عبد الله بن أبي پر حد کیوں جاری نہیں کیا ؟

حضرت موسي (ع)،نے  سامري کو قتل کیوں نہیں کیا ؟

جناب عائشہ پر حد جاری کرنے سے فتنے کی آگ مزید بڑھکتی:

 

سوال کی وضاحت

شیعہ یہ ادعا کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں جناب عائشہ مقصر تھی ،ان کی وجہ سے ہزاروں مسلمان قتل ہوئے ، اگر شیعوں کا یہ ادعا ٹھیک ہو تو حضرت علی علیہ السلام نے کیوں انہیں سزا نہیں دی ؟

جناب عائشہ کو آزاد چھوڑنا ، انہیں محترامہ طور پر واپس مدینہ بھیجنا اور انہیں کوئی سزا نہ دینا خود اس پر دلیل ہے کہ جناب عائشہ کا مقصد اصلاح تھا،آپ فتنہ اور جنگ کے لئے نہیں گئی تھی ۔

جواب :

کیا جناب عائشہ اصلاح کے لئے نکلی تھی ؟

اس بات میں شک نہیں ہے کہ جناب عائشہ کا مقصد جنگ کرنا اور جناب امیر المومنین علیہ السلام کے نوپا حکومت کا خاتمہ اور ان کی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرنا تھا ، اگر ایسا نہیں تھا تو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آؒلہ وسلم کے فرمان کی نافرمانی کر کے ایک شھر سے دوسرے شہر جانے اور ہزاروں نامحروم لوگوں کے جرمٹ میں کئی سو کلومیٹر سفر کرنے اور جناب طلحہ اور زبیر کی ریاست طلبی کے لئے بہت سے مسلمانوں کے خون بہانے کی کیا ضرورت تھی ؟

ہم اس مقالے می پہلے اس پر گفتگو کریں گے کہ جناب عائشہ کا مقصد امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنا تھا ۔ پھر بعد میں ہم جناب امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے انہیں سزا نہ دینے کی علت پر بحث کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ انہوں نے جناب عائشہ کو سزا کیوں نہیں دی  ؟

اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ اس جنگ کا اصلی کمانڈر کون تھا ؟ جناب عائشہ کا اس جنگ میں کوئی قصور تھا یا نہیں ؟

جناب عائشہ جنگ جمل کا کمانڈر ۔

یقینا جنگ جمل کے اصلی مقصر جناب عائشه، طلحه اور زبير تھے، لیکن جناب عائشہ کا قصور باقیوں سے کچھ زیادہ ہی تھا کیونکہ آگر جناب عایشہ اس جنگ میں طلحہ اور زبیر کا ساتھ نہ دیتی تو لوگ بھی طلحہ اور زبیر کے ساتھ نہ دیتے اور یوں جنگ جمل ہی رونما نہ ہوتی ۔ 

لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ  رسول خدا صلي الله عليه وآله کی ناموس لشکر کی کمانڈری کر رہی ہے تو بہت سے لوگ شک میں پڑھ گئے اور اسی سے دھوکہ کھا کر بہت سے لوگ نے جناب امیر المومنین عليه السلام سے جنگ کے لئے حاضر ہوئے  .

اميرالمؤمنین عليه السلام نے  نهج البلاغه کے  خطبه 13 ،کہ جو  بروز جمعه ، 36 هجري کو  ،جنگ جمل کے خاتمے کے بعد  بصره کے جامع مسجد میں اہل بصرہ کی مزمت کرتے ہوئے فرمایا :

كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وَ أَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وَ عُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وَ عَهْدُكُمْ شِقَاقٌ وَ دِينُكُمْ نِفَاقٌ وَ مَاؤُكُمْ زُعَاقٌ وَ الْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ بِذَنْبِهِ وَ الشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا وَ مِنْ تَحْتِهَا وَ غَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا.

افسوس تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانورکے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانا شروع کیا تو تم لبیک  کہنے لگے اور وہ زخمی ہوگیا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔تمہارے اخلاقیات پست۔تمہارا عہد نا قابل اعتبار۔تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور ہے۔تمہارے درمیان قیام کرنے والا گویا گناہوں کے ہاتھوں رہن ہے اور تم سے نکل جانے والا گویا رحمت پروردگار کو حاصل کر لینے والا ہے۔

میں تمہاری اس مسجد کو اس عالم میں دیکھ رہا ہوں جیسے کشتی کا سینہ۔جب خدا تمہاری زمین پر اوپر اور نیچے ہر طرف سے عذاب بھیجے گا اور سارے اہل شہر غرق ہو جائیں گے۔

اس روایت میں جناب امیر المومنین عليه السلام واضح طور پر اھل بصرہ کو ایک عورت یعنی جناب عائشہ کے لشکر والے اور ان کے اونٹ کے پیچھے چلنے والے قرار دئے رہے ہیں  ۔

جیساکہ صحيح بخاري میں ابو بكره سے نقل ہوا ہے کہ اھل بصرہ کے لشکر کی کمانڈری ایک عورت کے ہاتھ میں ہونا ہے ؛

عن أبي بَكْرَةَ قال لقد نَفَعَنِي الله بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا من رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم أَيَّامَ الْجَمَلِ بَعْدَ ما كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ قال لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قد مَلَّكُوا عليهم بِنْتَ كِسْرَي قال لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً.

ابوبکرہ نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے موقع پر وہ جملہ میرے کام آ گیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا۔ میں ارادہ کر چکا تھا کہ اصحاب جمل، عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے لشکر کے ساتھ شریک ہو کر [علی علیہ السلام کی فوج سے  لڑوں۔ ] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت و تاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو۔

صحيح البخاري ج4، ص1610، ح4163، كتاب بدأ الخلق، بَاب كِتَابِ النبي e إلي كِسْرَي وَقَيْصَرَ

بخاری میں دوسری جگہ پر نقل ہوئی ہے ؛

حدثنا عُثْمَانُ بن الْهَيْثَمِ حدثنا عَوْفٌ عن الْحَسَنِ عن أبي بَكْرَةَ قال لقد نَفَعَنِي الله بِكَلِمَةٍ أَيَّامَ الْجَمَلِ لَمَّا بَلَغَ النبي صلي الله عليه وسلم أَنَّ فَارِسًا مَلَّكُوا ابْنَةَ كِسْرَي قال لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً.

ابوبکرہ نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے زمانہ میں مجھے ایک کلمہ نے فائدہ پہنچایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ فارس کی سلطنت والوں نے بوران نامی کسریٰ کی بیٹی کو بادشاہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں ہو۔

صحيح البخاري، ج6، ص2600، ح6686، كِتَاب الْفِتَنِ، بَاب الْفِتْنَةِ التي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ.

ان روایات کے مطابق ابوبکرہ کہ جو اصحاب میں سے ہیں انہوں نے جنگ جمل میں اھل جمل کے ساتھ نہ دینے کی وجہ اس جناب عائشہ کی کمانڈری کو بتائی اور واضح انداز میں یہ پیغام دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق عورت کی کمانڈری میں جنگ لڑنے میں فلاح نہیں اور کیونکہ اس جنگ میں جناب عائشہ لشکر کے کمانڈر تھی لہذا اس میں شریک نہیں ہوئے۔  کیونکہ ان کی قیادت میں جنگ کرئے تو اس جنگ میں فلاح نہیں ہے ۔

لہذ صحابی کے اس موقف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اھل جمل فلاح پانے والے نہیں تھے ، اس میں اس قوم، کی بربادی تھی لہذا اھل جمل کی حمایت کرنے والے بھی کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔

جناب عائشہ کا امیر المومنین کے خلاف جنگ کا مقصد؛

 

  جناب عائشہ کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف اس جنگ کی اصلی وجہ وہ کینہ تھا جو جناب عائشہ آپ کے بارے میں پہلے سے ہی رکھتے تھے ۔اسی بنیاد پر اس جنگ میں  ۲۰ ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے ۔

عائشہ کو جناب امیر المومنین علیہ السلام کے نام لینا بھی گوارا نہیں تھا۔جیساکہ صحیح بخاری میں چار مقامات پر اس چیز کا ذکر ہے ؛

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَي قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ - صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم - وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلاَهُ الأَرْضَ، وَكَانَ بَيْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ. قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَالَ لِي وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ قُلْتُ لاَ. قَالَ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.۔۔

عائشہ کہتی ہے :  جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ  نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔ انہوں نے اس کی آپ  کو اجازت دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  باہر تشریف لے گئے۔ آپ  کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔ آپ  اس وقت عباس اور ایک اور شخص کے سہارا لیے ہوئے تھے ،  راوی کہتا ہے  کہ میں نے جناب عائشہ کی یہ حدیث جناب ابن عباس سے بیان کی، تو انہوں  نے فرمایا: اس شخص کو جانتے ہو، جن کا نام جناب عائشہ نے نہیں لیا۔ میں نے کہا نہیں! آپ نے فرمایا : وہ دوسرے آدمی علی علیہ السلام  تھے۔

 صحيح البخاري، ج1، ص162، ح665، كتاب الأذان، باب حَدِّ الْمَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الْجَمَاعَةَ؛ ج3، ص135، ح2588، كتاب الهبة، باب هِبَةِ الرَّجُلِ لاِمْرَأَتِهِ وَالْمَرْأَةِ لِزَوْجِهَا؛ ج5، ص140، ح4442، كتاب المغازي، باب مَرَضِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - وَوَفَاتِهِ؛ ج7، ص18، ح5714، كتاب الطب، باب 22.

احمد بن حنبل نے اسی روایت کو کامل شکل میں نقل کیا ہے اور جناب عائشه کی طرف سے  اميرالمؤمنین عليه السلام کے نام نہ لینے کی علت یوں بیان کی ہے :

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أَبِي ثنا عبد الرَّزَّاقِ عن مَعْمَرٍ قال قال الزهري وأخبرني عُبَيْدُ اللَّهِ بن عبد اللَّهِ بن عُتْبَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ قالت أَوَّلُ ما اشْتَكَي رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم في بَيْتِ مَيْمُونَةَ فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ ان يُمَرَّضَ في بَيْتِهَا فَأَذِنَّ له قالت فَخَرَجَ ويدله علي الْفَضْلِ بن عَبَّاسٍ ويدله علي رَجُلٍ آخَرَ وهو يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ في الأَرْضِ قال عُبَيْدُ اللَّهِ فَحَدَّثْتُ بِهِ بن عَبَّاسٍ فقال أَتَدْرُونَ مَنِ الرَّجُلُ الآخَرُ الذي لم تُسَمِّ عَائِشَةُ هو عَلِيٌّ وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لاَ تَطِيبُ له نَفْساً.

... میں نے ابن ابن عباس کو یہ حدیث سنائی ،تو ابن عباس نے کہا جاننتے ہو کہ جس کا نام انہوں نے نہیں لیا ہے ، وہ کون تھا ؟ وہ علي عليه السلام تھے؛ لیکن عائشہ کا دل ان کے بارے میں پاک نہیں تھا .

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج6، ص228، ح25956، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

ابن حجر عسقلاني نے فتح الباري میں اور بدر الدين نے عمدة القاري میں اس روایت کی شرح میں لکھا ہے :

قوله قال هو علي بن أبي طالب زاد الإسماعيلي من رواية عبد الرزاق عن معمر ولكن عائشة لا تطيب نفسا له بخير ولابن إسحاق في المغازي عن الزهري ولكنها لا تقدر علي أن تذكره بخير.

بخاری میں موجود اس «قال هو علي بن أبي طالب» کو اسماعيلي نے عبد الرزاق سے اور انہوں نے معمرسے نقل کیا :

کیوںکہ جناب عايشه، حضرت علي علیہ السلام سے دل خوش نہیں تھی۔.

  ابن اسحاق نے مغازي میں زهري  سے اس کو نقل کیا ہے :

کیونکہ جناب عائشه علي (عليه السلام) کو اچھے انداز میں یاد نہیں کرسکتی تھی.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج2، ص156، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج5، ص192، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

حضرت اميرالمؤمنین عليه السلام کی شہادت پر عائشہ کا سجدہ:

یہ کینہ اس حد تک تھا کہ ابوالفرج إصفهاني، کہ جو اہل سنت کے مشہور عالم ہیں انہوں نےكتاب مقاتل الطالبيين میں معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے :

حدثني محمد بن الحسين الأشناني، قال: حدثنا أحمد بن حازم، قال: حدثنا عاصم بن عامر، وعثمان بن أبي شيبة، قالا: حدثنا جرير، عن الأعمش، عن عمرو بن مرة، عن أبي البختري، قال:

لما أن جاء عائشة قتل علي عليه السلام سجدت.

أبوالبختري نے نقل کیا ہے : جب  علي عليه السلام کی شہادت کی خبر جناب  عائشه تک پہنچی تو جناب عائشہ نے سجدہ کیا .

الاصفهاني، مقاتل الطالبيين، اسم المؤلف: أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356هـ)، ج1، ص11، طبق برنامه الجامع الكبير.

بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ابو الفرج اصفهاني شيعه تھے ،لیکن یہ ادعا ثابت نہیں ہے اور اگر بلفرض وہ شیعہ ہو پھر بھی اس کی روایت قابل قبول ہے، کیونکہ امام ذھبی اور ابن حجر وغیرہ نے انہیں ثقہ اور سچا آدمی کہا ہے ۔

والظاهر أنه صدوق.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج5، ص151، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م؛

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، لسان الميزان، ج4، ص221، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ - 1986م

مزکورہ روایت کے علاوہ بھی اھل سنت کے بعض علماﺀ نے نقل کیا ہے کہ حضرت امیر ع کی شہادت کی خبر سن کر جناب عائشہ نے خوشی کے اظہار کے طور پر اشعار کہے  :

وذهب بقتل علي عليه السلام إلي الحجاز سفيان بن أمية بن أبي سفيان بن أمية بن عبد شمس فبلغ ذلك عائشة فقالت:

فأَلقتْ عَصاها واستقرَّ بها النَّوي كما قرَّ عيناً بالإيابِ المُسافِرُ

سفيان بن أميه، نے حضرت علي عليه السلام کی شہادت کی خبر کوفہ سے حجاز پہنچائی اور یہ خبر جناب عائشه تک پہنچی تو عصاﺀ کو زمین پر پھینک دی اور زمین پر اس طرح بیٹھ گئی کہ جس طرح سفر سے واپس پلٹنے والا انسان بیٹھ جاتا ہے ۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع ابوعبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبري، ج3، ص40، ناشر: دار صادر - بيروت؛

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج3، ص159، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356هـ)، مقاتل الطالبيين، ج1، ص11، طبق برنامه الجامع الكبير

ابن سمعون البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفاي387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج1، ص43، طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج3، ص259، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

الدميري المصري الشافعي، كمال الدين محمد بن موسي بن عيسي (متوفاي808 هـ)، حياة الحيوان الكبري، ج1، ص75، تحقيق: أحمد حسن بسج، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1424 هـ - 2003م.

الدمشقي الباعوني الشافعي، أبو البركات شمس الدين محمد بن أحمد (متوفاي871 هـ)، جواهر المطالب في مناقب الإمام علي بن أبي طالب ( ع )، ج2 ص104، تحقيق: الشيخ محمد باقر المحمودي، ناشر: مجمع إحياء الثقافة الاسلامية ـ قم، الطبعة: الأولي، 1412هـ

یہ زمانے جاهليت کے اشعار ہیں یہ اس وقت پڑھے جاتے ہیں کہ جب کسی کو سختی اور مشکلات اور مصائب کے بعد خوشی اور سکون ملا ہو.

جیساکہ « عصا پھینکنا » بھی اسی اطمنان اور سکون کا نتیجہ ہی ہے، جب انسان کو  کسی جگہ پہنچ کر سکون میسر آئے اور ذھنی سکون ملے تو اس وقت  «القي عصاه» کہا جاتا ہے ۔

ان اشعار کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اب انہیں حضرت علي علیہ السلام کی طرف سے سکون ملا ،گویا ہمیشہ اسی خبر کا انتظار تھا ،ایسے شخص کی طرح کہ جس کو کسی مسافر کے آنے کا انتظار ہو اور جب مسافر کے آنے کی خبر ملے تو اس کو چین آتا ہے اور اس کے دل کو سکون ملتا ہے ۔

رسول خدا (ص) نے حضرت امیر (ع) کو جناب عائشه سے جنگ کرنے کا حکم کیوں دیا ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد احادیث موجود ہیں کہ جن کے مطابق آپ نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور اصحاب کو اہل جمل ، اہل صفین اور نہروان سے جنگ کرنے کا حکم دیا ۔

ابن عبد البر قرطبي نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے :

ولهذه الأخبار طرق صحاح قد ذكرناها فِي موضعها.

وروي من حديث علي، ومن حديث ابْن مَسْعُود، ومن حديث أَبِي أَيُّوب الأَنْصَارِيّ: أَنَّهُ أمر بقتال الناكثين، والقاسطين، والمارقين.

وروي عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: مَا وجدت إلا القتال أو الكفر بما أنزل الله، يَعْنِي: والله أعلم قوله تعالي: «وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ».

یہ احادیث  صحیح طرق اور صحیح اسناد رکھتی ہیں اور ان کو ہم نے اپنے محل میں ذکر کیا ہے اور یہ  امیر المومنین ،ابن مسعود ، ابو ایوب انصادی سے نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے آپ ناکثین ،قاسطین  اور مارقین سے جنگ کرنے پر مامور فرمایا  ۔ آپ علیہ السلام سے نقل ہے کہ میں ان سے جنگ کرنے یا اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کے بارے کفر اختیار میں سے ایک کو انجام دینے میں مختار ہوں آپ کا مقصد یہ آیت تھی كه «اللہ کی راہ میں جو جھاد کرنے کا حق ہے اسی طرح جہاد کرئے »

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر النمري (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج3، ص1117، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

 اب یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ آگر جناب عائشہ کا مقصد امت کی اصلاح ہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیوں جناب امیر اور آپ کے اصحاب کو ان سے جنگ کا حکم دیا اور  جناب عائشہ کے مقابلے میں اصحاب کو جناب امیر المومنین ع کی حمایت کرنے کا حکم دیا ۔

اس سلسلے میں تفصیلی مقالے دیکھنےکے لئے ذیل کے ایڈرس پر رجوع کریں ۔

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1984

 لہذا جناب عائشہ کا قصد امت کی اصلاح نہیں تھی ۔۔۔

رسول خدا ص کا جناب عائشه کو جنگ جمل میں شرکت سے منع۔

اھل سنت کی معتبر کتابوں میں متواتر طور پر نقل ہوا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ازواج کو جنگ جمل کے واقع ہونے کی خبر دے کر انہیں اس جنگ میں شرکت سے منع فرمایا اور خاص کر جناب عائشه سے خطاب میں فرمایا : اے حميرا ! خبردار تم وہی شخص نہ ہو.

لیکن جناب عائشه نے اللہ کے اس اس عظیم پیغمبر کی وصیت کو پس پشت ڈال کر جنگ میں شرکت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستور کے خلاف ،آپ کے شرعی خلیفہ سے جنگ کرنے نکلی  .

 ہم اس سلسلے کی روایات کے دو نمونے یہاں نقل کرتے ہیں ،

ثنا يحيي عن إِسْمَاعِيلَ ثنا قَيْسٌ قال لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بني عَامِرٍ لَيْلاً نَبَحَتِ الْكِلاَبُ قالت أي مَاءٍ هذا قالوا مَاءُ الْحَوْأَبِ قالت ما أظنني الا أني رَاجِعَةٌ فقال بَعْضُ من كان مَعَهَا بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ فَيُصْلِحُ الله عز وجل بَيْنِهِمْ قالت ان رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم قال لها ذَاتَ يَوْمٍ كَيْفَ بأحداكن تَنْبَحُ عليها كِلاَبُ الْحَوْأَبِ.

جب جناب عايشه بني عامر کے پانی کی جگہ پہچی، تو حوأب کے کتے بھونگنے لگے۔ عائشه نے کہا : یہ کہاں کا پانی ہے ؟ کہا : حوأب کی جگہ کا پانی . کہا : اب میں پلٹنے پر مجبور ہوں، ان کے ساتھ موجود بعض لوگوں نے کہا : آپ ہمارے ساتھ ضرور آئے تواکہ مسلمانوں کے درمیان صلح کرئے  . جناب عائشہ نے جواب دیا  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ایک دن مجھ سے فرمایا :

تم میں سے وہ کون ہے جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6، ص52، ح24299، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

اسی روایت کو ابن أبي شيبه كوفي نے كتاب المصنف میں نقل کیا ہے، اسحاق بن راهويه نے اپنی مسند میں، حاكم نيشابوري نے المستدرك میں ، بيهقي نے دلائل النبوة میں ، ابو يعلي موصلي نے اپنی  مسند میں، ابن حبان نے اپنی الصحيح میں اور دسوں اھل سنت کے علماء نے اس کو نقل کیا ہے ؛

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص536، ح37771، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ ؛

الحنظلي، إسحاق بن إبراهيم بن مخلد بن راهويه (متوفاي 238هـ)، مسند إسحاق بن راهويه، ج 3، ص891، ح1569، تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي، ناشر: مكتبة الإيمان - المدينة المنورة، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1991م؛

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص129، ح4613، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م؛

البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفاي458هـ)، دلائل النبوة، ج 6، ص129، طبق برنامه الجامع الكبير؛

أبو يعلي الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثني (متوفاي307 هـ)، مسند أبي يعلي، ج 8، ص282، ح4868، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولي، 1404 هـ - 1984م؛

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص126، ح6732، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

شمس الدين ذهبي نے سير أعلام النبلاء نے اس کے بارے میں لکھا ہے:

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجوه.

یہ  صحيح سند حدیث ہے لیکن صحاح کے لکھنے والوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص178، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة : التاسعة، 1413هـ.

۔۔جیساکہ ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق جناب عائشہ کو روکنے والے جناب طلحہ اور زبیر تھے ۔۔

 فقال لها طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ مَهْلاً رَحِمَك اللَّهُ بَلْ تَقْدُمِينَ فَيَرَاك الْمُسْلِمُونَ فَيُصْلِحُ اللَّهُ ذَاتَ بَيْنِهِمْ قالت ما أَظُنُّنِي إَلاَ رَاجِعَةً إنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللهِ صلي الله عليه وسلم قال لنا ذَاتَ يَوْمٍ كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عليها كِلاَبُ الْحَوْأَبِ.

 

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج7، ص536، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.

و شمس الدين ذهبي نے  كتاب تاريخ الإسلام میں لکھا ہے :

وَكِيعٌ، عَنْ عِصَامِ بْنِ قُدَامَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): " أَيَّتُكُنَّ صَاحِبَةُ الْجَمَلِ الأَدْبَبِ، يُقْتَلُ حَوَالَيْهَا قَتْلَي كَثِيرُونَ، وَتَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ".

رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے اپنی ازواج سے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو زیادہ بال والے اونٹ ہر سوار ہوگی اور خروج کرئے گی اور بہت سے لوگ اس کے دائیں ،بائیں مارے جائیں گے اور آخر کار وہ نجات پائے گی ؟.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج3، ص490، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

189 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) قَالَ لِنِسَائِهِ: " أَيَّتُكُنَّ الَّتِي تَنْبَحُهَا كِلابُ مَاءِ كَذَا وَكَذَا، إِيَّاكِ يَا حُمَيْرَاءُ " يَعْنِي عَائِشَةَ.

رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اپنی ازواج سے فرمایا : تم میں سے وہ کون ہوگئ کی فلان جگہ کے گتے اس پر بونکھیں گے ؟ اے حميراء (عائشه) خبردار وہ زوجہ تم نہ ہو۔۔

المروزي، أبو عبد الله نعيم بن حماد (متوفاي288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص84، ح189، تحقيق: سمير أمين الزهيري، ناشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

اس روایت میں واضح طور پر رسول اللہ صلي الله عليه وآله جناب عائشه سے مخاطب ہو کر انہیں اس جنگ میں شرکت سے منع فرما رہے ہیں اور  سفر میں حواب کے کتوں کے بھونگنے کی خبر دئے رہے ہیں ۔

اب اس قسم کی واضح روایت کے بعد پھر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا اس جنگ میں شرکت اور اس طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مقابلے میں آنا امت کی خیر خواہی کے لئے تھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو انہیں اس سفر سے منع کر رہے ہیں اور ان سب کے باوجود آپ کی نافرمانی میں اس سفر کو جاری رکھی تو کیسے یہ کہا جاسکتا کہ یہ سب امت کی اصلاح کے لئے تھا ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آؒلہ وسلم اصلاح کرنے والے کو منع کرتے تھے ؟

اس قسم  کی روایات کے مضمون کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے اہل سنت کے بہت سے بزرگ علما نے ان روایتوں کے صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے ؛

شمس الدين ذهبي نے سير أعلام النبلاء نے اس کے بارے میں لکھا ہے:

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجوه.

یہ  صحيح سند حدیث ہے لیکن صحاح کے لکھنے والوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص178، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة : التاسعة، 1413هـ.

  ابن كثير دمشقي سلفي نے بھی لکھا ہے :

وهذا إسناد علي شرط الصحيحين ولم يخرجوه.

اس روایت کی سند صحیح مسلم اور بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے   لیکن اس کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے .

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 6، ص212، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

هيثمي نے بھی اس روایت کے بارے میں لکھا ہے :

رواه أحمد وأبو يعلي والبزار ورجال أحمد رجال الصحيح۔

اس روایت کو احمد ، ابویعلی اور بزار نے نقل کیا ہے اور احمد کی سند میں موجود راوی سب صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔

الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 7، ص234، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

ابن حجر عسقلاني نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

وأخرج هذا أحمد وأبو يعلي والبزار وصححه بن حبان والحاكم وسنده علي شرط الصحيح.

اس روايت کو احمد، ابويعلي، بزار، نے نقل کیا ہے اور ابن حبان اور حاكم نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کی سند صحیح بخاری کی شرائط کے مطابق ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13، ص55، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

 

مشہور حدیث شناس شعیب الأرنؤوط نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے :

قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين۔۔

صحيح ابن حبان (15/ 126): : المؤلف : محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي الناشر : مؤسسة الرسالة - بيروتالطبعة الثانية ، 1414 - 1993تحقيق : شعيب الأرنؤوط

 

ناصر الدين الباني نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کی تصحیح کے بعد اس روایت پر ہونے والے اشکالات کا جواب دیا ہے ۔

قلتو إسناده صحيح جدا، رجاله ثقات أثبات من رجال الستةالشيخين و الأربعة رواه السبعة من الثقات عن إسماعيل بن أبي خالد و هو ثقة ثبت كما في " التقريب "و قيس بن أبي حازم مثله.

میں کہتا ہوں : اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے اس کے سارے راوی موثق  اور صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں ، ثقہ لوگوں نے اس کو اسماعيل بن أبي خالد سے نقل کیا  ہے اور وہ بھی ثقہ ہے جیساکہ بن حجر نے  تقريب میں بھی کہا ہے اور ابن حازم نے بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے ؛

ألباني، محمّد ناصر، سلسة الأحاديث الصحيحة ، طبق برنامه المكتبة الشاملة، ذيل حديث شماره:474.

اب اس قسم کی روایتیں واضح طور پر بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اس کام سے منع فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود لوگوں کے کہنے پر عمل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی نافرمانی میں سفر جاری رکھی اور جنگ پر یہ سفر ختم ہوئی ۔۔۔

جیساکہ بيهقي نے اسی روایت کو یوں نقل کیا ہے :

وقال الزهري : لما سارت عائشة ومعها طلحة والزبير، رضي الله عنهم، في سبع مائة من قريش كانت تنزل كلّ منزل فتسأل عنه حتي نبحتها كلاب الحوأب فقالت : ردوني، لا حاجة لي في مسيري هذا، فقد كان رسول الله، صلي الله عليه وسلم، نهاني فقال : كيف أنت يا حميراء لو قد نبحت عليك كلاب الحوأب أو أهل الحوأب في مسيرك تطلبين أمراً أنت عنه بمعزل ؟ ۔۔۔

زهري نے  کہا ہے : جب عائشه، طلحه اور زبير نے قریش کے 700 افراد کے ساتھ خروج کیا ، عائشه جہاں سے گزرتی اس جگہ کے بارے میں سوال کرتی ، یہاں تک کہ حوأب کے کتے ان پر بھونکنے لگے ؛ پھر انہوں نے کہا : مجھے واپس لے چلو ، اب آگے سفر جاری رکھنے کی ضرورت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے اس کام سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے :اے حميرا،  اس وقت کیا حالت ہوگی کہ جب حوأب کے کتے بھونکیں گیے اور حوأب والے تہمارے راستے میں ہوں گے اور تم سے ایسی چیز کا مطالبہ کریں گے کہ جس میں تم حق پر نہیں ہوگی؟ (اگر ایسا ہوا تو پھر سفر جاری نہ رکھنا ).۔۔۔۔۔۔

البيهقي، إبراهيم بن محمد (متوفاي بعد 320هـ)، المحاسن والمساوئ، ج 1، ص43، تحقيق : عدنان علي، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان، الطبعة : الأولي، 1420هـ - 1999م

 

اب کیا آپ نے انہیں امت کی اصلاح سے منع فرمایا تھا اور واضح طور پر اس سفر سے منع فرمانے کے بعد پھر بھی اصلاح کا بہانہ بنا کر سفر جاری رکھنے کا کوئی جواز بنتا ہے ؟ کیا یہ لوگ رسول اللہ ص سے زیادہ امت کی صلاح کو سمجھتے تھے ؟

اب  واضح سی بات ہے کہ جناب عائشہ کے کام کو صحیح سمجھنے کا مطلب نعوذ باللہ رسول اللہ ص کے حکم کو خطائی حکم سمجھنے کے مترادف ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے جناب امیر المومنین ع  کو جناب سے جنگ کا حکم دئے کر اور جناب عائشہ کو اس سفر میں جانے سے منع کر کے غلطی کی ہے نعوذ باللہ ۔۔

ایک اہم نکتہ :

اس سلسلے کی روایت کی سند کی بارے میں اہل سنت کے بزرگوں کے واضح بیان کے بعد اس کے راویوں کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ جن بزرگوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ان لوگوں نے اس روایت کے راویوں کے ثقہ ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے  : لیکن اس کے باوجود بعض اس روایت کے ایک راوی قیس ابن ابی حازم کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن یہ ثقہ ہے ، جیساکہ امام ذھبی  سے  اس میں نقل ہوا ہے  :

قيس بن أبي حازم

حجة كاد أن يكون صحابيا وثقه ابن معين والناس قال إسماعيل بن أبي خالد كان ثبتا قال وقد كبر حتى جاوز المائة وخرف قال الذهبي أجمعوا على الاحتجاج به ومن تكلم فيه فقد آذى نفسه نسأل الله العافية وترك الهوى فقد قال معاوية بن صالح كان قيس أوثق من الزهري۔

 نهاية الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط (ص: 291):

العَالِمُ، الثِّقَةُ، الحَافِظُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ البَجَلِيُّ، الأَحْمَسِيُّ، الكُوْفِيُّ.

سير أعلام النبلاء ط الرسالة (4/ 198):

وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: أَجْوَدُ التَّابِعِيْنَ إِسْنَاداً قَيْسٌ.

سير أعلام النبلاء ط الرسالة (4/ 199):

 

 

 

جناب ام سلمه، جناب عائشه سے جنگ کو جائز سمجھتی تھیں

اھل سنت کی صحیح سند روایات کے مطابق المومنین جناب ام سلمہ جناب عائشہ سے جنگ کرنے کو جائز سمجھتی تھی اور انہوں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو اس جنگ کی طرف تشویق دلائی اور اپنے فرزند کو بھی آپ کے ساتھ جنگ میں روانہ کیا ؛

(4550)- [3: 117] حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَبِيبٍ الْمَعْمَرِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: لَمَّا سَارَ عَلِيٌّ إِلَي الْبَصْرَةِ دَخَلَ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يُوَدِّعُهَا، فَقَالَتْ: " سِرْ فِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي كَنَفِهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لِعَلَي الْحَقِّ، وَالْحَقُّ مَعَكَ، وَلَوْلا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَعْصَي اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّهُ أَمَرَنَا صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَقَرَّ فِي بُيُوتِنَا لَسِرْتُ مَعَكَ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لأُرْسِلَنَّ مَعَكَ مَنْ هُوَ أَفْضَلُ عِنْدِي وَأَعَزُّ عَلَيَّ مِنْ نَفْسِي ابْنِي عُمَرَ ".

حاکم نیشاپوری نے المستدرک علی الصحیحین میں لکھا یے:

«عمره» بنت عبدالرحمن کہتی ہیں جب حضرت علی علیہ السلام بصرہ جانے والے تھے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی زوجہ جناب ام سلمہ سے خدا حافظی کے لئے ان کے پاس گئے، جناب ام سلمہ نے علی کی طرف دیکھا اور کہا:

خدا کی پناہ اور اس کی حفاظت میں سفر پر جاو، خدا کی قسم تم حق پر ہو اور حق بھی تمہارے ساتھ ہے۔ اور اگر مجھے خدا اور اس کے رسول ص کی معصیت اور نافرمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں ضرور تمھارے ساتھ چلتی، کیونکہ رسول خدا ص نے ہمیں گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن خدا کی قسم میں ایسے شخص کو تمہارے ساتھ بھیجوں گی جو میرے نزدیک بافضیلت اور مجھے جان سے زیادہ محبوب ہے، اور وہ میرا بیٹا عمر ہے۔ ۔

«حاکم نیشابوری» نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا:

«هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الثَّلَاثَةُ كُلُّهَا صَحِيحَةٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

یہ تینوں حدیثیں، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے معیارات کے تحت صحیح ہیں لیکن ان دونوں نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔

شمس الدین ذہبی بھی اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔

  «خ م» لکھا ہے جو در واقع  «علي شرط البخاري و مسلم» کا مخف ہے .

اس روایت سے متعدد مطالب سمجھ میں آتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے ۔ ازواج کو گھر یہاں تک کہ اصلاح کی خاطر بھی گھر سے نکلنے کا حق نہیں تھا ،

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جناب ام المومنین اہل جمل سے جنگ کو مشروع اور حضرت علی علیہ السلام کو حق پر سمجھتی تھی اسی لئے اپنے فرزند کو بھی آُپ کے ساتھ روانہ کیا ۔

جناب ام سلمہ کا جناب عائشہ کے دیوار سے گفتگو:

بيهقي نے المحاسن والمساوي میں اور ماوردي بصري نے الحاوي الكبير، میں نقل کیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے قسم کھائی تھی کہ وہ کبھی اس کے بعد جناب عائشہ سے بات نہیں کرئے گی اسی لئے آخری عمر تک ان سے بائیکاٹ کی حالت میں رہی:

روي عن عائشة، رضي الله عنه، أنها دخلت علي أم سلمة بعد رجوعها من وقعة الجمل وقد كانت أم سلمة حلفت أن لا تكلمها أبداً من أجل مسيرها إلي محاربة عليّ بن أبي طالب، فقالت عائشة: السلام عليك يا أم المؤمنين فقالت: يا حائط ألم أنهك ؟ ألم أقل لك ؟ قالت عائشة: فإني أستغفر الله وأتوب إليه. كلميني يا أم المؤمنين، قالت: يا حائط ألم أقل لك ؟ ألم أنهك ؟ فلم تكلمها حتي ماتت، وقامت عائشة وهي تبكي وتقول: وا أسفاه علي ما فرط مني.

نقل ہوا ہے کہ جناب عائشہ جنگ جمل کے بعد جناب ام سلمہ کے پاس آٗئی لیکن انہوں نے قسم کھائی تھی کہ کبھی بھی ان سے بات نہیں کرنی ہے، کیونکہ جناب عائشہ ،حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کے لئے گئی تھی ۔

جناب عائشہ نے کہا : ام المومنین آُپ پر سلام ہو ! جناب ام سلمہ نے جواب میں کہا : اے دیوار ! کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا؟ عائشه نے جواب دیا : میں اللہ سے توبہ کرتی ہوں اور اللہ کی بخشش کے طلبکار ہوں ۔اے ام المومنین مجھ سے بات کرو ۔ ام سلمہ نے کہا : اے دیوار کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا ؟

ام سلمہ نے ان سے بات نہیں کی اور جناب عائشہ گریہ کرتی ہوئی اور افسوس کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی !.

البيهقي، إبراهيم بن محمد (متوفاي بعد 320هـ)، المحاسن والمساوئ، ج1، ص222، تحقيق: عدنان علي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان، الطبعة: الأولي، 1420هـ - 1999م؛

الماوردي البصري الشافعي، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب (متوفاي450هـ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني، ج15، ص447، تحقيق الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولي، 1419 هـ -1999م.

اگر جناب عائشہ اصلاح کے لئے نکلی تھی اور ان کے اس کام میں امت کی اصلاح تھی تو کیوں جناب ام سلمہ نے ان سے بائیکاٹ کی اور آخری عمر تک ان سے بات تک نہیں کی ؟

ابن طيفور نے  بلاغات النساء میں اور اہل سنت کے علماﺀ نے ام المؤمنين ام سلمه سے اس سلسلے میں خوبصورت جملات نقل کیے ہیں :

وقال هارون عن العتبي عن أبيه قال قالت أم سلمة وفي نسخة كتبت إليها أم سلمة رحمة الله عليها لعائشة لمّا همّت بالخروج: يا عائشة! إنّك سدّة بين رسول الله صلي الله عليه وآله وبين أمّته، حجابك مضروب علي حرمته، وقد جمع القرآن ذيلك فلا تَنْدَحِيه، و سَكَّنَ عُقَيْرَاك فلا تُصْحِريها، اللّه من وراء هذه الأمّة، قد علم رسول اللّه مكانك لو أراد أن يعهد فيك، عهد، بل قد نهاك عن الفُرطة في البلاد، ما كنت قائلة لو أنّ رسول الله صلي الله عليه وآله قد عارضك بأطراف الفلوات نَاصَّةً قَلُوصاً قعودا من منهل إلي منهل؟! إنّ بعين الله مثواك! وعلي رسول الله صلي الله عليه وآله تعرضين، ولو أمرتُ بدخول الفردوس لاستحييتُ أن أَلْقَي محمداً هاتِكة حجاباً قد ضَرَبَه عليَّ ، فاجعليه سترك، وِقاعَة البيت قبرَك حتي تلقيه وهو عنك راض.

جس وقت عائشہ نے خروج کا ارادہ کیا تو اس وقت جناب ام المومنین ام سلمہ نے کہا :

تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور امت کے درمیان ایک رابطہ کی مانند ہو اور تمہارا حجاب ان کی حرمت کی پاسداری کےلئے ہے ۔

 .قرآن نے تیرے لباس کے دامن کو سمیٹا ہے لہذا اس کو کھلا مٹ چھوڑ ، تیرے اونٹ کے بچوں کو مسکن دی ہے لہذا انہیں صحرا میں مت چھوڑو ۔

اللہ اس امت کے محافظ ہے اگر رسول اللہ ص کو یہ معلوم ہوتا کہ اللہ نے عورتوں پر بھی جہاد فرض کیا ہے تو تمہیں جہاد کی سفارش کرتے بلکہ پیغمبر ص نے تمہیں شہروں کے چکر لگانے سے منع فرمایا ہے ۔

اگر کسی صحرا میں تم اپنے اونٹ کو ایک کنوئیں سے دوسرے کنوئیں کی طرف لے جاتے ہوئے ان سے ملاقات کرئے تو کیا جواب دو گے ؟ تیرے کام اللہ کے حضور میں ہوگا اور تیرے کاموں کو اللہ کے رسول کے پاس پاس لے جایا جائے گا ۔

اللہ کی قسم اگر مجھ سے کہا جائے «اے ام سلمه! بهشت میں  داخل ہو جا » تو میں پھ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شرمندہ ہوگی کہ میں ان سے ملاقات کروں لیکن شاید ان کی طرف سے میرے لئے دئے ہوئے حجابوں میں سے کسی کی حتک حرمت کی ہوں۔

لہذا اپنے پردے کی حرمت کی پاسداری کرو اور شرم و حیا کی چادر کو قبر میں پھلانے کے لئے باقی رکھو  ، ان چیزوں کی پابندی کرو اور اگر ان سے  پردے کی حالت میں ملاقات کرئے تو اللہ کے سب سے مطیع ہوگی اور جب تک اس پر ثابت قدم رہو گی تم دین کے مددگار رہو گی اور اگر  میں تمہیں رسول اللہ ص کے اس فرمان کو جسے تم بھی جانتی ہے ، یاد دلاوں تو تم کالا اور سفید سانپ کے ڈسھے ہوئے کی طرح ہوجاوگی ۔ السلام  

أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاي380 هـ ) بلاغات النساء، ج1، ص3، طبق برنامه الجامع الكبير

الحربي، أبو إسحاق إبراهيم بن إسحاق (متوفاي285هـ)، غريب الحديث، ج2، ص486، تحقيق: د. سليمان إبراهيم محمد العايد، ناشر: جامعة أم القري ـ مكة المكرمة، الطبعة: الأولي، 1405هـ.

الدينوري، ابومحمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج1، ص51، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م.

الآبي، ابوسعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج4، ص31، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولي، 1424هـ - 2004م.

الزمخشري الخوارزمي، ابوالقاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاي538هـ)، الفائق في غريب الحديث، ج2، ص168، تحقيق: علي محمد البجاوي -محمد أبو الفضل إبراهيم، ناشر: دار المعرفة، الطبعة: الثانية، لبنان.

 

جناب حذیفہ کی پیشنگوئی : تم لوگ کی ماں جنگ کرنے آرہی ہیں۔

حذيفة بن يمان، پیغمبر صلي الله عليه وآله کے عظیم اصحاب میں سے ایک ہے ، آپ نے انہیں غیبی اور الہی علوم کی تعلیم دی ،یہاں تک کہ اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق آپ نے انہیں قیامت تک رونما ہونے والے فتنوں سے آگاہ فرمایا ؛   

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّار، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ، بْنُ نَافِع حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِت، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ قَالَ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَي أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ...

جناب حذيفه سے نقل ہوا ہے کہ : رسول خدا (ص) نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والے تمام واقعات کی خبر دی ہے ....

النيسابوري القشيري، ابوالحسين مسلم بن الحجاج (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج4، ص2217، ح2891، كتاب الفتن واشرط الساعة، باب إِخْبَارِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم فِيَما يَكُونُ إِلَي قِيَامِ السَّاعَةِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

رسول خدا صلي الله عليه وآله، نے انہیں جن فتنوں کی خبر دی تھی ان میں سے ایک ، فتنه جمل تھا . حذيفة بن يمان نے جنگ جمل سے کئی سال پہلے لوگوں کو اس کی خبر دی تھی ۔

نعيم بن حماد نے كتاب الفتن میں  اور عبد الرزاق صنعاني نے كتاب المصنف میں اس کو نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، يَقُولُ: " لَوْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ أُمَّكُمْ تَغْزُوكُمْ أَتُصَدِّقُونِي؟ " قَالُوا: أَوَ حَقٌّ ذَلِكَ؟ قَالَ: " حَقٌّ "

  ابوطفيل سے نقل ہوا ہے : حذيفة بن يمان کہتے تھے : اگر میں تم لوگوں سے کہوں کہ تم لوگوں کی ماں تم لوگوں سے جنگ کرئے گی تو کیا میری بات کو مانو گے ؟ ان سے پوچھا : کیا ایسا ہوگا ، تو انہوں نے کہا : ہاں ایسا ہی ہوگا ۔

المروزي، أبو عبد الله نعيم بن حماد (متوفاي288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص85، تحقيق: سمير أمين الزهيري، ناشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

الصنعاني، ابوبكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج11، ص53، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

اب اس روایت میں بھی جناب حذیفہ یہی کہتے ہیں کہ جناب عائشہ جنگ کرنے آئے گی ،نہ اصلاح کے لئے ، اگر امت کی اصلاح کے لئے نکلنی تھی تو جناب حذیفہ «امكم تغزوكم» کی تعبیر استعمال نہ کرتے ۔

اہل جمل جنگ کے ارادے سے ہی نکلے تھے :

طبری نے معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اہل جمل نے خروج سے پہلے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم علی ع سے جنگ کریں گے ۔

حدثني أحمد بن زهير قال حدثنا أبي قال حدثنا وهب بن جرير بن حازم قال سمعت أبي قال سمعت يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري قال: ثم ظَهَرَا يَعْنِي طلحةُ والزُبِيرُ إلي مكةَ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ رضي الله عنه بأربعةَ أشْهُرٍ وابنُ عامرٍ بَها يَجُرُّ الدُّنْيَا وقَدِمَ يعلي بنُ اُمَيّةَ مَعَهُ بِمَالٍ كَثِيْرٍ وزيادةٍ علي أربعمائة بَعِيْرٍ فَاجْتَمَعُوا في بيتِ عائشةَ رضي الله عنها فأرادوا الرأي فقالوا: نَسِيْرُ إلي عليٍ فَنُقَاتِلُهُ.

فقال بَعْضُهُم: ليس لكم طاقةٌ بأهْلِ المَدِيْنَةِ ولَكِنَّا نَسِيْرُ حتي نَدْخُلُ البَصْرَةَ والكُوفَةَ ولِطَلْحَةَ بالكُوْفةِ شِيْعَةٌ وَهَوَي وللزُّبَيْرِ بالبَصْرَةِ هَوَي ومَعُوْنَةً فَاَجْتَمَعَ رَأيُهُم عَلَي أن يَسِيْرُوا إلي البَصْرةِ وإلي الكُوْفَةِ فَأعْطَاهُم عَبْدُ اللهِ بنُ عَامِرٍ مالاَ كَثِيْراً وَإبِلاً فَخَرَجُوا فِي سَبْعَمِائَةَ رَجُلٍ مِنْ أهْلِ المَدِيْنَةِ وَمَكَّةَ وَلَحِقَهُم النَّاسُ حَتَّي كَانُوا ثلاثةَ آلافِ رَجُلٍ.

فَبَلَغَ عَلِيًّا مَسِيْرَهُمْ فَأَمَرَ عَلَي المَدِيْنَةِ سَهْلُ بنُ حُنَيْفِ الأنْصَارِي وَخَرَجَ فَسَارَ حتي نَزَلَ ذَاقارٍ وَكانَ مَسِيرُهُ إليها ثمانَ لَيَالٍ وَمَعَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أهْلِ المَدِيْنَةِ.

طلحه اور زبير، عثمان کے قتل کے چار مہینے تک مکہ میں مقیم رہیں. ابن عامر وہاں دنیا کے مال کے پیچھے تھا، يعلي بن أميه نے بہت سے مال۴۰۰اونٹ کے ساتھ وہاں آیا  سب مکہ میں جناب عائشہ کے گھر پر جمع ہوئے اور لوگوں نے یہ راے دی کہ ہم علی ابن ابی طالب سے کی طرف جاتے ہیں اور ان سے جنگ کرتے ہیں ،بعض لوگوں نے کہا : تم لوگوں میں اھل مدینہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے لیکن بصرہ اور کوفہ کی طرف چلیں کیونکہ کوفہ میں طلحہ کی حمایت کرنے والے ہیں اور بصرہ میں زبیر کی حمایت کرنے والے لہذا سب نے اس پر اتفاق کیا کہ کوفہ اور بصرہ کی طرف پہلے حرکت کرئے ،لہذا عبد الله بن عامر،نے بہت سے مال اور بہت سے اونٹ انہیں دئے  ..مکہ اور مدینہ سے سات سو بندے ان کے ساتھ نکلے اور بعد میں ان کی تعداد تین ہزار ہوگی ۔

جب یہ خبر جناب امیر المومنین ع تک پہنچی تو آپ نے سهل بن حنيف کو اپنی جگہ بٹھا کر ذی قار کی طرف حرکت کیا اور مدینہ کے کچھ لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے ۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج3، ص8، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

لہذا یہ لوگ امیر المومنین ع سے  جنگ کرنے اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے نکلے تھے اور بصرہ بھی اسی نیت سے گئے تھے تاکہ وہاں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ مل کر حضرت علی علیہ السلام کے خلاف اقدام کرئے اور ان سے حکومت چھین کر خود ہی اس پر قبضہ جمائے .

اهل جمل کا لوگوں کو حضرت امیر ع سے جنگ کی دعوت ۔

 امت کی اصلاح کی دعوت نہیں دیتے تھے :

اھل سنت کے ہی معتبر تاریخ نگاروں کے نقل کے مطابق اہل جمل مختلف قبائلی سرداروں اور لوگوں کو امر المومنین علیہ السلام سے جنگ کے لئے خطوط لکھتے تھے:

ابن أثير جزري نے كتاب الكامل في التاريخ میں نقل کیا ہے :

وكان الأحنف قد بايع عليا بعد قتل عثمان لأنه كان قد حج وعاد من الحج فبايعه قال الأحنف ولم أبايع عليا حتي لقيت طلحة والزبير وعائشة بالمدينة وأنا أريد الحج وعثمان محصور فقلت لكل منهم إن الرجل مقتول فمن تأمرونني أبايع فكلهم قال بايع عليا فقلت أترضونه لي فقالوا نعم فلما قضيت حجي ورجعت إلي المدينة رأيت عثمان قد قتل فبايعت عليا ورجعت إلي أهلي ورأيت الأمر قد استقام فبينما أنا كذلك إذ أتاني آت فقال هذه عائشة وطلحة والزبير بالخريبة يدعونك فقلت ما جاء بهم قال يستنصرونك علي قتال علي في دم عثمان فأتاني أفظع أمر فقلت إن خذلاني أم المؤمنين وحواري رسول الله لشديد وإن قتال ابن عم رسول الله وقد أمروني ببيعته أشد

أحنف ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے قتل عثمان کے بعد جناب حضرت علي عليه السلام کی بیعت کی ۔جب حج سے واپس پلٹے تو اس نے آپ کی بیعت کی ۔

 احنف کہتا ہے : میں نے علی ع کی اس وقت بیعت کی جب میں نے طلحہ ، زبیر اور عائشہ سے ملاقات کی ، میں حج کے لئے نکلا تو اس وقت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ،میں نے ان تینوں سے کہا : عثمان قتل ہوگا ،اب ان کے بعد کس کی بیعت کروں ؟ تینوں نے کہا : علی کی بیعت کرئے۔ میں نے کہا : کیا یہی میرا حکم ہے ؟ تینوں نے کہاں : ہاں ۔ اب جب حج سے واپس آیا تو دیکھا کہ عثمان قتل ہوا ہے ۔لہذا میں نے علی کی بیعت کی اور گھر واپس آیا ،میں نے دیکھا حکومت قائم ہے اور اپنی پاوں پر کھڑی ہے ، یہاں تک کہ ایک پیغام جناب طلحہ ، زبیر اور عائشہ کی طرف سے مجھ تک پہنچا اور یہ کہا کہ  خريبه میں ہم انتظار کر رہے ہیں. میں نے کہا کیوں آئے ہیں ؟

عثمان کے خون کا بدلہ لینے اور علی سے جنگ کرنے کے لئے تمہاری مدد درکار ہے ۔

 لہذا میں ایک دشوار ترین مسئلے میں پھنس گیا ۔ میں نے کہا : ام المومنین کی ذلت اور خواری کو برداشت کرنا میرے لئے سخت ضرور ہے لیکن رسول اللہ ص کے چچا زاد بھائی سے جنگ کرنا کہ جس کی بیعت کا مجھے حکم دیا ہے وہ اس سے زیادہ سخت ہے ۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج3، ص127، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

اب اگر اہل جمل کا مقصد اصلاح ہی تھی تو لوگون کو جنگ کی دعوت کیوں دئے رہے تھے؟

ابن أبي شيبه نے اسی سلسلے میں لکھا ہے :

37798 حدثنا (عبدالله) بن إدْرِيسَ عن حُصَيْنٍ (الحصين بن عبد الرحمن السلمي) عن عُمَرَ (عمرو) بن جَاوَانَ عن الأَحْنَفِ بن قَيْسٍ قال...

فلما أَتَيْتُهُمْ قَالَوا جِئْنَا نَسْتَنْصِرُ علي دَمِ عُثُمَّانَ قُتِلَ مَظْلُومًا قال فَقُلْت يا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْشُدُك بِاللهِ هل قُلْت لَك من تَأْمُرِينِي بِهِ فَقُلْت عَلِيًّا فَقُلْت تَأْمُرِينِي بِهِ وَتَرْضَيْنَهُ لي فَقُلْت نعم قالت نعم وَلَكِنَّهُ بَدَّلَ قُلْت يا زُبَيْرُ يا حَوَارِيَّ رسول اللهِ صلي الله عليه وسلم يا طَلْحَةُ نَشَدْتُكُمَا بِاللهِ أَقَلْت لَكُمَا من تَأْمُرَانِي بِهِ فَقُلْتُمَا عَلِيًّا فَقُلْت تَأْمُرَانِي بِهِ وَتَرْضَيَانِهِ لي فَقُلْتُمَا نعم قَالاَ بَلَي وَلَكِنَّهُ بَدَّلَ قال فَقُلْت َلاَ وَاللهِ َلاَ أُقَاتِلُكُمْ وَمَعَكُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ وَحَوَارِيُّ رسول اللهِ صلي الله عليه وسلم أَمَرْتُمُونِي ببيعته.

أحنف بن قيس کہتا ہے : جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھ سے کہا : عثمان مظلومانہ طریقے سے قتل ہوا ہے ،لہذا ہم انکے خون کا انتقام لینا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا : ام المومنین جب میں نے آپ سے یہ سوال کیا کہ میں کس کی بیعت کروں تو کیا آپ نے مجھے علی کی بیعت کرنے کا نہیں کہا ؟ میں نے آپ سے کہا : کیا مجھے علی کی بیعت کی اجازت ہے تو مجھے ان کی بیعت کی اجازت دی۔

 عائشہ نے جواب میں کہا :  آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن علی اب تبدیل ہوا ہے .

پھر احنف بن قيس نے یہی باتیں طلحہ اور زبیر سے کی ، انہوں نے بھی جواب میں کہا : علی اب تبدیل ہوا ہے [لہذا ہم ان سے جنگ کریں گے]۔

أحنف کہتا ہے  : میں نے کہا : اللہ کی قسم ہم آپ لوگوں کے ساتھ ملکر ان سے جنگ نہیں کروں گا ۔ یہاں تک کہ آپ لوگوں کے ساتھ ام المومنین اور حواري رسول خدا بھی ہو  ؛ کیونکہ آپ لوگوں نے مجھے علی ع کی بیعت کا حکم دیا ہے ؟

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج7، ص540، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.

اب اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ اہل جمل حضرت علی علیہ السلام کے بدل جانے کے بھانہ اپ سے جنگ کرنے اور آپ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس پر قبضہ جمانے کے لئے ہی نکلے تھے ۔

جیساکہ ابن كثير دمشقي سلفي نے  البداية والنهاية میں لکھا ہے :

وقد كتبت عائشة إلي زيد بن صوحان تدعوه إلي نصرتها والقيام معها فإن لم يجيء فليكف يده وليلزم منزله أي لا يكون عليها ولا لها فقال أنا في نصرتك ما دمت في منزلك وأبي أن يطيعها في ذلك وقال رحم الله أم المؤمنين أمرها الله أن تلزم بيتها وأمرنا أن نقاتل فخرجت من منزلها وأمرتنا بلزوم بيوتنا التي كانت هي أحق بذلك منا وكتبت عائشة إلي أهل اليمامة والكوفة بمثل ذلك.

عائشه نے زيد بن صوحان کو ایک خط لکھا اور انہیں اپنی مدد کرنے کی دعوت دی اور یہ کہا ہے کہ آگر ہماری طرف نہ آئے تو اپنے گھر میں ہی رہو ،نہ ہمارے ساتھ دینا نہ علی کے ساتھ ۔

زيد بن صوحان نے کہا : «جب تک اپنے گھر میں بیٹھی رہوگی میں آپ کی مدد کروں گا ». انہوں نے عائشہ کی مدد نہیں کی اور کہا : «اللہ ام المومنین پر رحم کرئے ،اللہ نے انہیں گھر میں رہنے اور ہمیں گھر سے نکل کر جنگ کرنے کا حکم دیا ،لیکن جناب عائشہ خود گھر سے نکلی اور ہمیں گھر میں رہنے کا حکم دیا  ، جبکہ انہیں گھر میں ہی رہنا چاہئے ». جناب عائشہ نے یمامہ اور کوفہ کے لوگوں کو بھی اسی مضمون کا خط لکھا .

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج7، ص234، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

آہنی کجاوہ میں سوار ہوکر جناب عائشہ میدان میں ۔

اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ جناب عائشہ کا آہنی کجاوہ کے بارے میں اہل سنت کے بزرگوں نے نقل کیا ہے کہ جناب عائشہ بصرہ کی طرف نکلتے وقت آہنی کجاوہ میں سوار ہو کر نکلی ۔

وأتي بالجمل فأبرز وعليه عَائِشَةُ فِي هودجها وقد ألبست درعا، وضربت عَلَي هودجها صفائح الحديد، ويقال: إن الهودج ألبس دروعا.

عائشه، اونٹ پر سوار ہو کر میدان میں آئی؛آپ اس وقت کجاوہ میں سوار تھی اور زرہ پہنی ہوئی تھی ،ان کے کجاوہ پر لوہا لگا ہوا تھا ،کہا جاتا ہے کہ کجاوہ زرہ پوش تھا۔  .

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص309، طبق برنامه الجامع الكبير.

ابوحنيفه دينوري مي نويسد كه شتر را با سپر و هودج عائشه را با صفحه هاي از آهن پوشانده بودند:

وتقدم أمام قومه بني ضبة، فقاتل قتالا شديدا، وكثرت النبل في الهودج، حتي صار كالقنفذ، وكان الجمل مجففا، والهودج مطبق بصفائح الحديد.

 عمرو بن يثري قبيله بني ضبه کے سامنے آیا اور سخت جنگ کی اور بہت سے تیر کجاوہ کی طرف پھینکے یہاں تک کہ ان کا کجاوہ  ہیج ہاگ  کی طرح ہوگیا تھا ، اونٹ کے آگے سپر موجود تھا اور کجاوہ پر لوہے کے تختے لگے ہوئے تھے ۔  ۔۔.

الدينوري، أبو حنيفة أحمد بن داود (متوفاي282هـ)، الأخبار الطوال، ج1، ص214، تحقيق: د.عصام محمد الحاج علي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ ـ 2001م.

بيهقي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

وقال الزهري: لما سارت عائشة ومعها طلحة والزبير، رضي الله عنهم، في سبع مائة من قريش كانت تنزل كلّ منزل فتسأل عنه حتي نبحتها كلاب الحوأب فقالت: ردوني، لا حاجة لي في مسيري هذا، فقد كان رسول الله، صلي الله عليه وسلم، نهاني فقال: كيف أنت يا حميراء لو قد نبحت عليك كلاب الحوأب أو أهل الحوأب في مسيرك تطلبين أمراً أنت عنه بمعزل ؟ فقال عبد الله بن الزبير: ليس هذا بذلك المكان الذي ذكره رسول الله، صلي الله عليه وسلم، ودار علي تلك المياه حتي جمع خمسين شيخاً قسامةً فشهدوا أنه ليس بالماء الذي تزعمه أنه نهيت عنه، فلما شهدوا قبلت وسارت حتي وافت البصرة، فلما كان حرب الجمل أقبلت في هودج من حديد وهي تنظر من منظر قد صُيّر لها في هودجها، فقالت لرجل من ضبّة وهو آخذ بخطام جملها أو بعيرها: أين تري علي بن أبي طالب، رضي الله عنه ؟ قال: ها هوذا واقف رافع يده إلي السماء، فنظرت فقالت: ما أشبهه بأخيه قال الضبي: ومن أخوه ؟ قالت: رسول الله، صلي الله عليه وسلم، قال: فلا أراني أقاتل رجلاً هو أخو رسول الله، صلي الله عليه وسلم، فنبذ خطام راحلتها من يده ومال إليه.

زهري نے  کہا ہے : جب عائشه، طلحه اور زبير نے قریش کے 700 افراد کے ساتھ خروج کیا ، عائشه جہاں سے گزرتی اس جگہ کے بارے میں سوال کرتی ، یہاں تک کہ حوأب کے کتے ان پر بھونکنے لگے ؛ پھر انہوں نے کہا : مجھے واپس لے چلو ، اب آگے سفر جاری رکھنے کی ضرورت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے اس کام سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے :اے حميرا،  اس وقت کیا حالت ہوگی کہ جب حوأب کے کتے بھونکیں گیے اور حوأب والے تہمارے راستے میں ہوں گے اور تم سے ایسی چیز کا مطالبہ کریں گے کہ جس میں تم حق پر نہیں ہوگی؟ (اگر ایسا ہوا تو پھر سفر جاری نہ رکھنا ).

عبد الله بن زبير نے کہا : یہ وہ جگہ نہیں ہے جس کے بارے میں رسول خدا (ص) نے آپ سے فرمایا ہے . عبد الله ادھر ادھر گیا اور 50 بندوں کو جمع کر کے لایا ،تاکہ وہ لوگ یہ قسم کھائے کہ یہ وہ پانی  نہیں ہے کہ جس کا وہ خیال کرتی ہے ،جب ان لوگوں نے قسم کھائی تو جناب عائشہ مطمئن ہوگی اور آگے سفر جاری رکھی اور بصرہ میں داخل ہوگی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو لوہے کے بنے ہوئے ایک کجاوہ میں سوار ہوکر میدان میں آئی اور جنگ کا منظر دیکھنے لگی ۔ جس بندے نے ان کے اونٹ کا لجام پکڑا ہوا تھا، اس سے کہا : علی کہیں نظر آرہا ہے ؟ اس نے کہا : وہ وہی ہیں جو کھڑے ہیں اور ہاتھوں کو آسمان کی طرف کیے ہوئے ہیں ۔ جناب عائشہ نے ان کی طرف نگاہ کی اور کہا : کتنا اپنے بھائی کے شبیھہ ہیں!! ضبي نے کہا : اس کا بھائی کون ہے ؟ عائشه نے کہا : رسول خدا (ص). اس مرد نے کہا : میں اس سے جنگ نہیں کروں گا جو رسول خدا (ص) کے بھائی ہو ،یہ کہہ کر لجام چھوڑا اور حضرت علي بن أبي طالب عليه السلام کے ساتھ آملا.

البيهقي، إبراهيم بن محمد (متوفاي بعد 320هـ)، المحاسن والمساوئ، ج1، ص43، تحقيق: عدنان علي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان، الطبعة: الأولي، 1420هـ - 1999م

اس روایت میں لوہے کے اس کجاوہ کے بارے میں عجیب اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے اگر  جناب عائشہ جنگ کرنا نہیں چاہتی تھی تو کیوں آہنی کجاوہ پر سوار ہوکر میدان جنگ میں آئی ؟

اگر امت میں اصلاح چاہتی تھی اور جنگ کرنا نہیں چاہتی تھی تو کیوں اس لوہے کے کجاوہ میں سوار ہوئی ؟ اس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟

جناب عائشہ کے اس آھنی کجاوے کے بارے میں اھل سنت کے دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے ؛ مثلا  ابن قتيبه دينوري نے الإمامة والسياسة میں لکھا ہے ۔

فلما أتي عائشة خبر أهل الشام أنهم ردوا بيعة علي وأبوا أن يبايعوه أمرت فعمل لها هودج من حديد وجعل فيه موضع عينيها ثم خرجت ومعها الزبير وطلحة وعبد الله بن الزبير ومحمد بن طلحة.

جب عائشہ کو یہ خبر ملی کہ شام والوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی ہے تو جناب عائشہ نے اپنے لئے ایک آھنی کجاوہ بنانے کا حکم دیا اور یہ کہا ہے کہ اس کے دونوں طرف باھر دیکھنے کے لئے جگہ ہو اور جب پھر خروج کیا تو طلحہ ،زبیر ، عبد اللہ بن زبیر اور محمد بن طلحہ بھی ساتھ تھے .

الدينوري، ابومحمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص48، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م.

 

دوسری جگہ نقل لکھا ہے :

قال فخرج طلحة والزبير وعائشة وهي علي جمل عليه هودج قد ضرب عليه صفائح الحديد....

طلحه، زبير  اور  عائشه نکلے ؛ عائشہ ایک کجاوہ پر سوار تھی اور اس کجاوہ پر لوہا لگا ہوا تھا ۔۔

الإمامة والسياسة، ج1، ص63

  شهاب الدين آلوسي نے معتبر تفسير روح المعاني میں لکھا ہے :

وكان معها إبن أختها عبدالله بن الزبير وغيره من أبناء أخواتها أم كلثوم زوج طلحة وأسماء زوج الزبير بل كل من معها بمنزلة الأبناء في المحرمية وكانت في هودج من حديد.

  عائشه ایک آھنی کجاوہ میں تھی .

الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 22، ص10، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابن ربه اندلسي نے اپنی  كتاب العقد الفريد میں لکھا ہے :

وكان جملها يدعي عسكرا حملها عليه يعلي بن منية وهبه لعائشة وجعل له هودجا من حديد وجهز من ماله خمسمائة فارس بأسلحتهم وأزودتتهم وكان أكثر أهل البصرة مالا.

جس اونٹ پر عائشہ سوار تھی اس کا نام عسكر تھا ، يعلي بن منيه نے اسے  عائشه کو هديه میں دیا تھا ۔ اس کے لئے آھنی کچاوہ بنایا تھا . اسی يعلي بن منبه نے 500 سپاہوں کو مسلح کر کے تیار کیا تھا ،بصرہ کے لوگوں میں سے اس کے پاس مال زیادہ تھا ۔

الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي: 328هـ)، العقد الفريد، ج 4، ص303، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.

 

عاصمي مكي نے  سمط النجوم میں جناب عائشہ کے آہنی کجاوہ کے بارے میں لکھا ہے :

ورمي الهودج بالنشاب حتي صار كأنه قنفد وصرخ صارخ اعقروا الجمل فعقره رجل اختلف في اسمه وكان الهودج ملبسا بالدروع وداخله أم المؤمنين وهي تشجع الناس الذين حول الجمل.

فلا قوة إلا بالله ثم إنها ندمت وندم علي علي ما وقع.

ثم أتي علي كرم الله وجهه إلي الهودج فضرب أعلاه بقضيب في يده فقال أبهذا أمرك رسول الله يا حميراء والله ما أنصفك الذين أخرجوك إذ أبرزوك وصانوا حلائلهم فسمع صوت من الهودج ملكت فأسجح...

عائشہ کے کجاوہ پر اتنے تیر لگے کہ یہ  ہیج ہاگ  کی طرح ہوچکا تھا ،کسی نے بلند آواز سے کہا : عائشہ کے اونٹ کے پیر کاٹ ٖڈالے ،لہذا ایک شخص نے جاکر اونٹ کے پیر کاٹ ڈالے ،کجاوہ لوہے سے ڈھناپا ہوا تھا اور عائشہ اس میں سوار تھی ۔ آپ اس کجاوہ کے ارد گرد موجود لوگوں کو خوب لڑنے کی تشویق دلاتی تھی ۔

اس واقعے کے بعد جناب عائشہ اس کام کی وجہ سے پشیمان ہوئی اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام بھی اس واقعےکی وجہ سے ناراض ہوئے ۔۔۔

  علي بن أبي طالب علیہ السلام کجاوہ کے نذدیک آئے اور ہاتھ میں موجود چھڑی سے کجاوے پر مارا اور پھر فرمایا : اے  حميرا! کیا رسول خدا صلي الله عليه وآله نے تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا ؟ اللہ کی قسم جن لوگوں نے تمہیں گھر سے باہر لایا ان لوگوں نے انصاف سے کام نہیں لیا ، ان لوگوں نے اپنی عورتوں کو اپنے  گھروں میں رکھا ، عائشہ نے اندر سے آواز دی کہ قدرت آپ کے ہاتھ میں ہے لہذا مجھے بخش دئیں۔

 

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج2، ص568، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

اس قسم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عائشہ امیر المومنین علیہ السلام سے ٹکر لینے اور حکومت آپ سے چھینے کے لئے نکلی تھی ۔

 

جناب عائشہ لوگوں کو امیر المومنین ع اور ان کے لشکر سے جنگ کرنے کی تشویق دلاتی تھی۔

اس میں شک نہیں ہے کہ اہل جمل کا اصلی مقصد جناب امیر المومنین سے جنگ کرنا اور حکومت آپ سے چھینا تھا ، جناب عثمان کے خون کا انتقام ایک بہانہ تھا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو امیر المومنین علیہ السلام کے نمائندے سے جنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عائشہ لوگوں کو  امیر المومنین علیہ السلام کے بصرہ کے گورنر جناب عثمان بن حنيف سے جنگ کرنے پرابھارتی تھی :

وقدمت أم المؤمنين بمن معها من الناس فنزلوا المِرْبَد من أعلاه قريبا من البصرة وخرج إليها من أهل البصرة من أراد أن يكون معها وخرج عثمان بن حنيف بالجيش فاجتمعوا بالمِرْبَد فتكلم طلحة وكان علي الميمنة فندب إلي الأخذ بثأر عثمان والطلب بدمه وتابعه الزبير فتكلم بمثل مقالته فرد عليهما ناس من جيش عثمان بن حنيف وتكلمت أم المؤمنين فَحَرَّضَتْ وَحَثَّتْ علي القتال فَتَثَاوَرَ طوائفٌ من أطراف الجيش فَتَرامَوا بالحجارة ثم تَحَاجَزَ الناسُ ورجع كل فريق إلي حوزَتِه وقد صارت طائفة من جيش عثمان بن حنيف إلي جيش عائشة فكثُروا وجاء جارية بنُ قُدامة السعدي فقال يا أم المؤمنين! واللهِ لقتلُ عثمانَ أهونُ من خُرُوجِكِ من بَيتك علي هذا الجمل عرضةً للسلاح إن كنت أتَيْتِنا طائعةً فارجعي من حيث جئتِ إلي منزلكِ وإن كنت أتَيَتِنا مُكْرَهَةً فَاسْتَعِيْنِي بالناسِ في الرجوع.

عایشہ اپنے ہمراہ موجود لوگوں کے ساتھ بصرہ کے نذدیک مربد کے مقام پر اتری ۔ بصرہ کے کچھ لوگ جو ان سے ملحق ہونا چاہتے تھے ،یہ لوگ جناب عائشہ کے پاس پہنچے اور عثمان بن حنیف بھی اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچا ، اس وقت طلحہ جو دائیاں لشکر کا کمانڈر تھا ، اٹھا اور تقریر کی اور لوگوں کو جناب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دی ۔ زبیر نے بھی وہی طلحہ والی بات دہرائی ۔عثمان بن حنیف کے لشکر والوں نے جواب دیا ،

اس کے بعد جناب عائشہ نے بولنا شروع کیا اور لوگوں کو جنگ کرنے اور لڑنے کا شوق دلائی۔ اس وقت دونوں طرف سے کچھ لوگ درمیان میں آئے اور  ایک دوسرے پر پھتراو کرنے لگے ۔ کچھ لوگ ان کے درمیان رکاوٹ بنے اور ان لوگوں کو اپنی اپنی جگہ واپس کر دیا ۔

جارية بن قدامة سعديي آگے ایا اور کہا : اے ام المومنین ! اللہ کی قسم عثمان کے قتل سے زیادہ آپ کا گھر سے ،اونٹ پر سوار ہو کر اسلحوں کے درمیان آنا ہے ۔ آگر اپنی مرضی سے آئی ہو تو جہاں سے آئی ہے وہی پلٹ کر جائے اور اگر آپ کو مجبور کیا ہے تو لوگوں سے واپس پلٹنے کے لئے مدد لو ۔.

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج7 ص232ـ 233، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

عاصمي نے سمط النجوم میں لکھا ہے :

وكان الهودج ملبسا بالدروع وداخله أم المؤمنين وهي تشجع الناس الذين حول الجمل.

جناب عایشہ آہنی اور زرہ پوس کجاوہ میں سوار تھی او لوگوں کو جنگ کرنے پر ابھارہی تھی ۔

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج2، ص568، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

اب اگر اصلاح کے نکلی ہے تو کیوں لوگوں کو جنگ کرنے کا شوق دلا رہی تھی ؟

 

فتنہ کا آغاز کرنے والا کون تھا ؟

مکتب سقیفہ کے پیروکار کہتے ہیں : جنگ کا آغاز کرنے میں طلحہ ، زبیر اور جناب عائشہ کا کوئی کردار نہیں ہے ،یہ سب ابن سباﺀ اور اس کے پیروکاروں کا کام تھا ،رات کی تاریکی میں سبائی ٹولے نے عائشہ کے لشکر پر حملہ کیا ۔

اب یہ الگ بحث ہے کہ ان فتنوں کا ابن سباﺀ کا کردار ایک افسانوی کردار ہے اور اس پر کوئی سند موجود نہیں ہے ، شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں کوئی صحیح سند روایت اس سلسلےمیں موجود نہیں ہے ، بلکہ برعکس ان لوگوں کا یہ ادعا اہل سنت کی کتابوں میں موجود اسناد سے ٹکراتی ہے ۔

عبد اللہ بن سباﺀ کا داستان  سيف بن عمر کی بنائی ہوئی کہانی اور اس کی ذھنی تخلیق ہے اور اہل سنت کے بزرگوں نے اس شخص کو زندیق اور کافر تک کہا ہے اور شدت سے اس کی تضعیف کی ہے ۔۔لیکن مکتب سیقفہ کے پیروکار عبد اللہ بن سباﺀ کے افسانوی کردار کو ثابت کرنے کے لئے اس زندیق اور کافر شخص پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کی باتوں پر اعتماد کر کے اپنا نظریہ بناتا ہے ْ

اہل سنت کے بزرگ علماﺀ کی تصریح کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام کے بصرہ پہنچنے سے پہلے اہل جمل نے بہت سے لوگوں کو قتل کیے تھے ، بصرہ پر قبضہ کر کے امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کا بصرہ میں خاتمہ کیا تھا اور جب امیر المومنین علیہ السلام کو اس واقعے کی خبر ملی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کے قاتلوں سے انتقام لینے کا مصمم ارادہ کیا ۔

ابن قتيبه دينوري نے  كتاب المعارف میں جمل کے سلسلے میں لکھا ہے :

وهموا بالشام لمكان معاوية بها فصرفهم عبدالله بن عامر عن ذلك إلي البصرة فتوجهوا إليها فأخذوا عثمان بن حنيف عامل علي بها فحبسوه وقتلوا خمسين رجلا كانوا معه علي بيت المال وغير ذلك من أعماله وأحدثوا أحداثا فلما بلغ عليا سيرهم خرج مبادرا إليهم واستنجد أهل الكوفة ثم سار بهم إلي البصرة وهم بضعة عشر ألفا.

یہ لوگ بصرہ جانے کے بجائے شام کی طرف جانا چاہتے تھے اور یہ شام میں معاویہ کے پوزشن کی وجہ سے تھا لیکن عبد الله بن عامر نے انہیں بصرہ کی طرف جانے پر راضی کردیا اور جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو عثمان بن حنیف کہ جو امیر المومنین علیہ السلام کا نمائندہ تھا، انہیں گرفتار کر کے زندان میں ڈالا اور بیت المال پر مامور اور دوسرے لوگوں کو قتل کیا اور ان لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیا ۔

جب یہ خبر ملی تو امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ والوں سے مدد کرنے کا کہا اور ۲۰ ہزار کے قریب لوگوں کے ساتھ آپ نے بصرے کی طرف حرکت کی .

الدينوري، ابومحمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج1، ص208، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة.

بلاذري نے  انساب الأشراف میں بصرہ میں جنگ جمل کے آغاز ہونے کی کیفیت کے بیان میں لکھا ہے :

وأتي بعائشة علي جملها في هودجها فقالت: صه صه، فخطبت بلسان ذلق وصوت جهوري، فأسكت لها الناس فقالت: إن عثمان خليفتكم قتل مظلوماً بعد أن تاب إلي ربه وخرج من ذنبه، والله ما بلغ من فعله ما يستحل به دمه، فينبغي في الحق أن يؤخذ قتلته فيقتلوا به ويجعل الأمر شوري.

فقال قائلون: صدقت. وقال آخرون: كذبت حتي تضاربوا بالنعال وتمايزوا فصاروا فرقتين: فرقة مع عائشة وأصحابها، وفرقة مع ابن حنيف، وكان علي خيل ابن حنيف حكيم بن جبلة فجعل يحمل ويقول:

خيلي إليّ أنها قريش... ليردينها نعيمها والطيش.

وتأهبوا للقتال فانتهوا إلي الزابوقة، وأصبح عثمان بن حنيف فزحف إليهم فقاتلهم أشد قتال، فكثرت بينهم القتلي وفشت فيهم الجراح.

ثم إن الناس تداعوا إلي الصلح فكتبوا بينهم كتاباً بالموادعة إلي قدوم علي علي أن لا يعرض بعضهم لبعض في سوق ولا مشرعة، وان لعثمان بن حنيف دار الامارة وبيت المال والمسجد، وأن طلحة والزبير ينزلان ومن معهما حيث شاؤوا، ثم انصرف الناس وألقوا السلاح.

وتناظر طلحة والزبير فقال طلحة: والله لئن قدم علي البصرة ليأخذن بأعناقنا، فعزما علي تبييت ابن حنيف وهو لا يشعر، وواطآ أصحابهما علي ذلك؛ حتي إذا كانت ليلة ريح وظلمة جاؤوا إلي ابن حنيف وهو يصلي بالناس العشاء الآخرة فأخذوه وأمروا به فوطئ وطئاً شديداً، ونتفوا لحيته وشاربيه فقال لهما: إن سهلاً حي بالمدينة والله لئن شاكني شوكة ليضعن السيف في بني أبيكما. يخاطب بذلك طلحة والزبير فكفا عنه وحبساه.

وبعثا عبد الله بن الزبير في جماعة إلي بيت المال وعليه قوم من السبايجة يكونون أربعين، ويقال: أربعمائة فامتنعوا من تسليمه دون قدوم علي، فقتلوهم ورئيسهم أبا سلمة الزطي وكان عبداً صالحاً.

عائشہ اونٹ پر موجود ایک کجاوہ میں سوار ہوکر آئی اور آواز دی !خاموش ہوجاو ،خاموش ہوجاو اس کے بعد بلند اور سخت زبان کے ساتھ ایک خطبہ دیا: لوگ ان کی وجہ سے خاموش ہوگئے : عائشہ نے خطبے میں کہا : آپ لوگوں کا خلیفہ جناب عثمان توبہ کرنے اور گناہ سے پاک ہونے کے بعد مظلومانہ مارا گیا ۔ اللہ کی قسم انہوں نے معاملے کو اس حد تک خراب نہیں کیا تھا کہ جس کے بدلے اس کے خوان بہانے کو حلال جانا جائے۔

لہذا ان کے قاتلوں کو پکڑ کر انہیں قتل کرنا اور حکومت کو شورا کے حوالے کرنا چاہئے ۔

ایک گروہ نے جناب عائشہ کی تائید کی اور ایک گروہ نے انہیں جھٹلایا اور پھر ایک دوسرے سے لڑنے لگے ۔۔لیکن اس دن متفرق ہوئے ۔۔اور زاویہ کے مقام تک پہنچ گئے ،دوسرے دن عثمان بن حنیف وہاں پہنچے،ان کے درمیان شدید جنگ ہوئی اور بہت سے لوگ مارے گئے،پھر ان لوگوں کو صلح کی دعوت دی گئی اور یہ فیصلہ ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کے آنے تک ایک دوسرے کے خلاف اقدام نہ کیا جائے اور یہ طے ہوا کہ دارہ الامارہ ،بیت المال اور مسجد عثمان بن حنیف کے ہاتھ میں  رہے اور طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی جہاں چاہئے بیٹھ جائے ۔لوگ واپس پلٹے اور اسلحے چھوڑ دئے ۔

طلحہ اور زبیر نے آپس میں مشورہ کیا اور طلحہ نے کہا : اگر علی علیہ السلام بصرہ آئے تو ہماری خیر نہیں ،لہذا رات چھپ کر عثمان بن حنیف کے پاس رہنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے آپنے ساتھوں کے ساتھ یہ طے کر دیا کہ جب تاریخی چھا جائے تو عشاﺀ کی نمازکے وقت عثمان بن حنیف پر حملہ کر کے انہیں گرفتار کر لیں گے ۔ اور ان لوگوں نے ایسا ہی کیا ، انہیں گرفتار کر کے ان کی خوب پٹائی کی ۔ ان کی دھاڑی اور مونچھوں  کے بال نوچ لیے ۔عثمان بن حنيف نے  طلحه  اور زبير سے کہا : میرا بھائی سهل مدينه میں ہے اور اگر میرے ہاتھ میں قدرت آئی تو اللہ کی قسم تمہارے بابا کے بیٹوں کی گردن پر تلوار لٹکا دوں گا ۔ طلحہ اور زبیر نے انہیں زندان میں ڈال دیا ۔ ۔۔.

طلحه اور  زبير، نے عبد الله بن زبير کو بعض لوگوں کے ساتھ بيت المال کی طرف بھیجا ، بیت المال کی حفاظت پر سبايجه کے ۴۰ لوگ مامور تھے ،بعض نے ۴۰۰ سو بھی  کہا ہے ،ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کے آنے تک ،بیت المال کو ان کے حوالے کرنے سے اجتناب کیا لیکن نتیجےمیں یہ سب قتل ہوئے ،ان کا کمانڈر   ابو سلمه زطي ایک نیک اور صالح بندہ تھا .

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص369، طبق برنامه الجامع الكبير.

اب اس روایت کے مطابق جناب عائشہ لوگوں کو اکسا رہی ہے اور جناب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو حکومت سے ہٹانے  کی کوشش میں ہے اور یہ چاہتی تھی کہ شورا کے ذریعے کوئی اور خلیفہ انتخاب ہو ۔ 

اب اس روایت کے مطابق ان لوگوں نے آپس کے صلح نامہ پر عمل نہیں کیا اور ایک دھوکہ بازی اور چالاکی کے ساتھ رات کو حملہ کیا اور بیت المال کے محافظوں کو قتل کیا ، جناب عثمان بن حنیف کو گرفتار کر کے ان کی دھاڑی اور مونچھوں کے بال نوچ لیے ۔

ابن عبد البر نے بھی  الإستيعاب میں جنگ جمل کے واقعے کے بارے میں لکھا ہے :

ولما قدم الزبير وطلحة وعائشة البصرة وعليها عثمان بن حنيف واليا لعلي رضي الله عنه بعث عثمان بن حنيف حكيم بن جبلة العبدي في سبعمائة من عبد القيس وبكر بن وائل فلقي طلحة والزبير بالزابوقة قرب البصرة فقاتلهم قتالا شديدا فقتل رحمه الله قتله رجل من بني حدان.

هذه رواية في قتل حكيم بن جبله وقد روي انه لما غدر ابن الزبير بعثمان بن حنيف بعد الصلح الذي كان عقده عثمان بن حنيف مع طلحة والزبير اتاه ابن الزبير ليلا في القصر فقتل نحو اربعين رجلا من الزط علي باب القصر وفتح بيت المال واخذ عثمان بن حنيف فصنع به ما قد ذكرته في غير هذا الموضع وذلك قبل قدوم علي رضي الله عنه فبلغ ما صنع ابن الزبير بعثمان بن حنيف حكيم بن جبلة فخرج في سبعمائة من ربيعه فقاتلهم حتي اخرجهم من القصر ثم كروا عليه فقاتلهم حتي قطعت رجله ثم قاتل ورجله مقطوعة حتي ضربه سحيم الحداني العنق فقطع عنقه واستدار راسه في جلده عنه حتي سقط وجهه علي قفاه.

طلحہ زبیر اور عائشہ جب بصرہ پہنچے تو عثمان بن حںیف کہ جو حضرت علی ع کی طرف سے بصرہ کا والی تھا ،انہوں نے حكيم بن جبلة العبدي کی قیادت  میں قبيله عبد القيس اور بكر بن وائل کے ۷۰۰ لوگوں کو روانہ کیا  ، بصرہ کے نذدیک  زابوقه کے مقام پر دونوں کا آمنا سامنا ہوا ، ان میں شدید جنگ ہوئی اور حکیم بن جبلہ ،بني حدان کے ایک شخص کے ہاتھوں  قتل ہوا ۔.

ایک اور روایت کے مطابق جب طلحہ اور زبیر وغیرہ نے جو دھوکہ جناب عثمان بن حنیف کو دیا اور رات کو ان پر حملہ کیا اوربیت المال پر مامور ۴۰ لوگوں کو قتل کیا اور پھر جناب عثمان بن حنیف کی شان میں گستاخی کی او جب یہ خبر حکیم بن جبلہ تک پہنچی تو  انہوں نے ۷۰۰ لوگوں کے ساتھ ان لوگوں سے جنگ کی اور ان لوگوں کو قصر سے باہر نکالا اور پھر ان پر حملہ کیا ،یہاں تک کہ ان کے ایک پیر کٹ گیا لیکن اس کے باوجود وہ جنگ میں مصروف رہا ،یہاں تک کہ سحيم الحداني  نے ان کی گردن پر وار کیا ۔۔۔۔۔۔

ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاي 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج1، ص366، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

اس روایت کے مطابق طلحہ اور زبیر کے لوگوں نے صلح نامے کے خلاف عمل کیا اور عبد اللہ زبیر نے خیانت سے کام لیا ،راتوں رات حملہ کر کے بیت المال ہر قبضہ کیا اور اس کی حفاظت پر مامور لوگوں کو قتل کیا ، امیر المومنین علی علیہ السلام کے دوستوں کو قتل کیا ،یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم صحابہ جناب حکیم بن جبلہ کو شہید کیا ۔

لہذا طلحہ ،زبیر اور عائشہ نے صلح نامے کی مخالفت کی اور جنگ کا آغاز کیا اگر یہ لوگ حضرت امیر علیہ السلام کے آنے تک صبر کرتے اور صلح نامے کے پابند رہتے تو یہ فتنہ ہی ختم ہوجاتا .

ابن العبري نے تاريخ مختصر الدول میں لکھا ہے :

ولما سمع معاوية بقول عائشة في علي ونقض طلحة والزبير البيعة ازداد قوة وجراءة وكتب إلي الزبير: إني قد بايعتك ولطلحة من بعدك فلا يفوتكما العراق. وأعانهما بنو أمية وغيرهم وخرجوا بعائشة حتي قدموا البصرة فأخذوا ابن حنيف أميرها من قبل علي فنالوا من شعره ونتفوا لحيته وخلوا سبيله فقصد علياً وقال له: بعثني ذا لحية وقد جئتك أمرد. قال: أصبت أجراً وخيراً.

وقتلوا من خزنة بيت المال خمسين رجلاً وانتهبوا الأموال. وبلغ ذلك علياً فخرج من المدينة وسار بتسعمائة رجل.

جب معاویہ نے  علي عليه السلام کے بارے میں عائشہ کی باتیں اور طلحہ و زبیر کی طرف سے بیعت توڑنے کی باتیں سنی تو ،معاویہ کی جرات اور قدرت میں اضافہ ہوا اور زبیر کو خط  میں لکھا کہ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اور آپ کے بعد طلحہ کی بیعت کروں گا ،لہذا عراق کو ہاتھ سے جانے نہ دینا ،بنی امیہ اور دوسرے لوگوں نے ان لوگوں کی مدد کی ۔طلحہ اور زبیر جناب عائشہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور بصرہ کی طرف گئے، ان لوگوں نے ابن حنیف کو گرفتار کیا، اس کے سر اور دھاڑی کے بال نوچ لیے اور پھر انہیں آزاد کیا، وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس پہنچے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا : آپ نے جس وقت مجھے راونہ کیا تھا اس وقت میرے بال تھے  لیکن اب بالوں کے بغیر آپ کے پاس آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : آپ کو اجر اور ثواب ملے گا ۔

ان لوگوں نے بیت المال پر مامور ۵۰ لوگوں کو قتل کیا ،بیت المال کو آپس میں تقسیم کیا اور جب یہ خبر امیر المومنین علیہ السلام تک پہنچی تو  آپ ۷۰۰ لوگوں کے ساتھ مدینہ سے  روانہ ہوا ۔

ابن العبري، غريغوريوس بن اهرون الملطي، (متوفاي685 هـ)، تاريخ مختصر الدول، ج1، ص55، طبق برنامه الجامع الكبير.

جناب عثمان بن حنیف کے سر اور دھاڑی کے بال نوچنا ۔

عثمان بن حنيف، رسول اللہ  صلي الله عليه وآله کے اصحاب میں سے ایک تھے،،اھل سنت کے بعض علماﺀ کے بقول آپ جنگ بدر میں بھی شریک تھے ،جیساکہ  ابن حجر نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

وقال الترمذي وحده إنه شهد بدرا وقال الجمهور أول مشاهده أحد.

علماﺀ میں سے صرف ترمذی نے کہا ہے کہ آپ جنگ بدر میں شریک تھے ، لیکن مشہور کے نذدیک آپ نے سب سے پہلے جنگ احد میں شرکت کی ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج4، ص5438، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1992م.

عثمان بن حنيف، جنگ جمل کے وقت بصره میں امیر المومنین عليه السلام کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا، جب اہل جمل بصرہ پہنچے تو عثمان بن حنیف کے لوگوں سے جنگ کی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا ، دار الامارہ پر حملہ کیا بیت المال پر قبضہ کیا اور عثمان بن حنیف کو گرفتار کر کے اس کے بال نوچ لیے ۔

اب کیا جناب عثمان بن حنیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی نہیں تھے ، ان کا کیا جرم تھا ،کیا انہوں نے جناب عثمان کو قتل کیا تھا ؟ اگر نہیں کیا تھا تو ان کے ساتھ اس طرح برا سلوک کیوں کیا گیا ؟

ابن كثير دمشقي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

فلما انتهي إلي ذي قار أتاه عثمان بن حنيف مهشما، وليس في وجهه شعرة فقال: يا أمير المؤمنين بعثتني إلي البصرة وأنا ذو لحية، وقد جئتك أمردا، فقال: أصبت خيرا وأجرا.

جس وقت امیر المومنین علیہ السلام ذي قار پہنچے تو  عثمان بن حنيف کمزور حالت میں اور چہرے پر بال کے بغیر آپ کے پاس آئے  اور آپ سے کہا : جب آپ نے مجھے بصرہ کی طرف روانہ کیا تھا تو اس وقت میری دھاڑی پر بال تھا لیکن ابھی جب آیا ہوں تو  میرے چہرے پر بال نہیں، امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا : آپ کو اس کا اجر و ثواب ملے گا ۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج7، ص236، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

طبري نے طلحہ اور زبیر کی طرف سے بصرہ کے قصر اور بیت المال پر قبضہ کے واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے :

فجمع طلحة والزبير الرجال في ليلة مظلمة باردة ذات رياح وندي ثم قصدا المسجد فوافقا صلاة العشاء وكانوا يؤخرونها فأبطأ عثمان بن حنيف فقدما عبد الرحمن بن عتاب فشهر الزط والسيابجة السلاح ثم وضعوه فيهم فأقبلوا عليهم فاقتلوا في المسجد وصبروا لهم فأناموهم وهم أربعون وأدخلوا الرجال علي عثمان ليخرجوه إليهما فلما وصل إليهما توطؤوه وما بقيت في وجهه شعرة فاستعظما ذلك وأرسلا إلي عائشة بالذي كان واستطلعا رأيها فأرسلت إليهما أن خلوا سبيله فليذهب حيث شاء ولا تحبسوه.

طلحه اور زبیر نے ایک بارانی اور تیز آندھی والی تاریک رات ، اپنے بندوں کو جمع کیا اور دونوں مسجد کی طرف چلے ، نماز عشاﺀ کے وقت مسجد میں داخل ہوئے اور ان لوگوں نے اس وقت تک نماز نہیں پڑھی تھی ،عثمان بن حنیف نے آھستہ نماز پڑھی یہ دونوں عبد الرحمن بن عتاب کے پاس گئے تو قبیلہ الزط اور السیابجہ والوں نے ہھتیار اٹھایا اور پھر زمین پر رکھا اور پھر مسجد کی طرف آئے اور سب کو قتل کیا اور یہ چالس لوگ تھے اور پھر اپنے لوگوں کو عثمان کی طرف روانہ کیا ،انہیں باہر نکالا اور جب عثمان کو ان کے پاس لایا گیا تو خوب ان کی پٹائی کی اور ان کے بال موچ لیا اور یہ انہیں سخت گراں گزرا ،عثمان کو عائشہ کے پاس لایا ، عائشہ نے طلحہ اور زبیر سے کہا ،انہیں آزاد کرئے جہاں جانا چاپئے چلے جائے ،انہیں زندان میں نہ ڈالے ۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج3، ص17، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

خليفه بن خياط اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :

خروج طلحة والزبير وعائشة وفيها قدم طلحة بن عبيد الله والزبير بن العوام ومعهما عائشة أم المؤمنين البصرة

وبها عثمان بن حنيف الأنصاري واليا لعلي فبعث عثمان بن حنيف حكيم بن جبلة العبدي فلقي طلحة والزبير في الزابوقة وهي مدينة الرزق بحضرة كلاء البصرة فقتل حكيم بن جبلة وقتل أيضا مجاشع بن مسعود السلمي من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم وخرج عثمان بن حنيف عن البصرة وفيها خرج علي من المدينة وولاها سهل بن حنيف الأنصاري وبعث علي الحسن بن علي بن أبي طالب وعمار بن ياسر إلي الكوفة يستنفران الناس وقدم علي البصرة.

طلحہ ،زبیر اور عائشہ کا خروج ۔۔۔

طلحہ ،زبیر بصرہ پہنچے اور ان کے ساتھ ام المومنین عائشہ بھی تھی ۔

عثمان بن حنيف بصرہ میں علي عليه السلام کا منصوب حاکم تھا . عثمان بن حنيف نے  حكيم بن جبله عبدي کو ان کی طرف روانہ کیا اور زابوقه  کے مقام پر یہ لوگ آمنا سامنا ہوئے ، حكيم بن جبله اور مشاجع بن مسعود سلمي کہ جو پیغمبر ص کے اصحاب میں سے تھے ،دونوں قتل ہوئے .

عثمان بن حنيف بصرہ سے نکلے . علي بن أبي طالب بھی سهل بن حنيف کو اپنا جانشین بنا کر مدینہ سے نکلے اور حسن بن علي بن أبي طالب عليهما السلام  اور  عمار ياسر کو لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بھیجا اور خود بصرہ پہنچے .

الليثي العصفري، أبو عمر خليفة بن خياط (متوفاي240هـ)، تاريخ خليفة بن خياط، ج1، ص181، تحقيق: د. أكرم ضياء العمري، ناشر: دار القلم / مؤسسة الرسالة - دمشق / بيروت، الطبعة: الثانية، 1397هـ.

مسلمانوں کے بیت المال کو فتنہ گروں میں تقسیم کیا :

ابن كثير دمشقي اور اہل سنت کے دورے مورخین نے لکھا کہ جب یہ لوگ بصرہ پہنچ کر بیت المال پر قابض ہوئے تو مسلمانوں کے مال کو اپنے لشکر والوں کے درمیان تقسیم کیا :

بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :

وكانت جماعة السيابجة موكلين ببيت مال البصرة يقال أنهم أربعون ويقال أربعمائة فلما قدم طلحة بن عبيد الله والزبير بن العوام البصرة وعليها من قبل علي بن أبي طالب عثمان بن حنيف الأنصاري أبوا أن يسلموا بيت المال إلي قدوم علي رضي الله عنه فأتوهم في السحر فقتلوهم.

سيابجه والے بیت المال کی حفاطت پر مامور تھے ان کی تعداد ۴۰ یا ۴۰۰ بتائی ہے ، طحہ اور زبیر جب بصرہ پہنچے تو اس وقت بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کے آنے تک بیت المال کو  ان لوگوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔ طلحہ اور زبیر کے لشکر نےسحر کے وقت سب کو قتل کیا ۔۔۔۔۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ)، فتوح البلدان، ج1، ص369، تحقيق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1403هـ.

ابن كثير دمشقي سلفي نے البداية والنهاية میں لکھا ہے :

وولوا علي بيت المال عبد الرحمن بن أبي بكر وقسم طلحة والزبير أموال بيت المال في الناس وفضلوا أهل الطاعة وأكب عليهم الناس يأخذون أرزاقهم وأخذوا الحرس واستبدوا في الأمر بالبصرة.

عبد الرحمن بن أبي بكر کو ان لوگوں نے بیت المال کا ذمہ دار بنایا ، طلحه اور زبیر نے  بيت المال کو لوگوں میں تقسیم کیا اور  اهل طاعت کو زیادہ دیا، لوگ ٹوٹ پڑے اور اپنا اپنا حصہ اٹھا لیا ،بیت المال کے محافظوں کو قتل کر دیا اور یوں بصرہ کے معاملے میں استبداد اور ظلم سے کام لیا۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج7، ص233، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

اب اگر ان لوگوں کا مقصد اصلاح تھا تو کیوں بیت المال کو لوٹا اور اس کے محافظوں کو قتل کیا ؟

کیوں صلح کی پاسداری نہیں کی اور کیوں راتوں رات حملہ کر کے لوگوں کو قتل عام کیا اور بیت المال پر قبضہ جمایا ؟

امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھیوں نے کجاوہ پر دھوا بول دیا

جیساکہ کہا جاتا ہےکہ امیر المومنین ع اہل جمل سے جنگ نہیں چاہتے تھے اور یہ جنگ بعض خوارج اور منافقوں کی سازش کا نتیجہ ہے  جبکہ یہ باتیں حقیقت کے بلکل خلاف ہے ؛

جنگ کے وقت امیر المومنین ع نے کجاوے حملہ کرنے کا حکم دیا ، اونٹ کی مہار تھامنے والے ۷۰ لوگ قتل ہوئےاور ۱۰۰۰ ہاتھ اس کے ارد گرد کٹے ،یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے خونریزی سے بچنے کے لئے اونٹ کے پیروں کو کاٹ دینے کا حکم دیا ۔

ابوحنيفه دينوري نے اخبار الطوال میں نقل کیا ہے :

فلما رأي علي شدة صبر أهل البصرة جمع إليه حماة أصحابه، فقال: إن هؤلاء القوم قد محكوا، فاصدقوهم القتال، فخرج الأشتر وعدي بن حاتم وعمرو بن الحمق وعمار بن ياسر في عددهم من أصحابهم، فقال عمرو بن يثربي لقومه، وكانوا في ميمنة أهل البصرة ( إن هؤلاء القوم الذين قد برزوا إليكم من أهل العراق هم قتلة عثمان، فعليكم بهم )، وتقدم أمام قومه بني ضبة، فقاتل قتالا شديدا، وكثرت النبل في الهودج، حتي صار كالقنفذ، وكان الجمل مجففا، والهودج مطبق بصفائح الحديد.

جب امیر المومنین علیہ السلام نے دیکھا کہ بصرہ والے شدت سے دفاع کر رہے ہیں تو آپ نے اپنے شجاع اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا : اب  ان لوگوں کو آزمایا ہے ، لہذا ان کو دکھادینا کہ حقیقی جنگ کس طرح سے کیجاتی ہے ،  اشتر، عدي بن حاتم، عمرو بن حمق اور عمار ياسر اپنے ساتھوں کے ساتھ نکلے ۔

عمرو بن يثري کہ جو بصرہ کی دائیاں حصے کا کمانڈر تھا، اس نے اپنی قوم سے خطاب میں کہا : یہ اہل عراق ہیں جو تم لوگوں کی طرف آئے ہیں ،یہی عثمان کے قاتل ہیں ، لہذا ان لوگوں سے جنگ کریں۔  خود  قبيله بني ضبه کے ساتھ آگے آیا اور سخت جنگ ہوئی ،بہت سے تیر کجاوے پر لگے اور کجاوہ. تيرهاي زيادي ہیج ہاگ  کی طرح ہوا ، اونٹ کے پیر کاٹ دیے ، کجاوہ پر لوہے کے تختے لگے ہوئے تھے ۔

الدينوري، أبو حنيفة أحمد بن داود (متوفاي282هـ)، الأخبار الطوال، ج1، ص214، تحقيق: د.عصام محمد الحاج علي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ ـ 2001م.

بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :

قالوا: وسمع علي أصوات أصحاب الجمل وقد علت فقال: ما يقولون ؟ قالوا: يدعون علي قتلة عثمان ويلعنونهم. قال: نعم فلعن الله قتلة عثمان، فوالله ما قتله غيرهم وما يلعنون إلا أنفسهم، ولا يدعون إلا عليها.

ثم قال علي لابن الحنفية - ومعه الراية -: أقدم، فزحف برايته نحو الجمل، وأمر علي الأشتر أن يحمل فحمل وحمل الناس، فقتل هلال بن وكيع التميمي واشتد القتال، فضرب مخنف بن سليم علي رأسه فسقط، وأخذ الراية منه الصقعب بن سليم أخوه فقتل، ثم أخذها عبد الله بن سليم فقتل.

ثم أمر علي محمد بن الحنفية أن يحمل فحمل وحمل الناس فانهزم أهل البصرة؛ وقتلوا قتلاً ذريعاً، وذلك عند المساء، فكانت الحرب من الظهر إلي غروب الشمس.

وكان كعب بن سور ممسكاً بزمام الجمل؛ فأتاه سهم فقتله، وتعاور الناس زمام الجمل فجعل كلما أخذه أحدهم قتل، واقتتل الناس حوله قتالاً شديداً.

وسمعت عبد الأعلي النرسي يقول: بلغني انه قطعت عليه سبعون يداً.

وروي عن أبي عبيدة معمر بن المثني أنه كان يقول: قتل ممن أخذ بزمام الجمل سبعون.

لوگوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت  علي عليه السلام نےاہل جمل والوں کی آواز سنی تو کسی سے پوچھا یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں: جواب دیا :یہ لوگ عثمان کے قاتلوں پر لعنت کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا : عثمان کے قاتلوں پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ کی قسم عثمان کے قاتل خود یہی لوگ ہیں اور یہ لوگ خود اپنے ہی اوپر لعنت کر رہے ہیں ۔

پھ آپ نے اپنے فرزند جناب محمد حنیفہ کو پرچم دئے کر فرمایا : آگے بڑھو ،وہ آگے بڑے ۔لوگ بھی آگے نکلے اور اونٹ کے آس پاس حملہ کیا ۔اسی طرح آپ نے اشتر کو حکم دیا ۔ لہذا انہوں نے اور دوسرے لوگوں نے حملہ کیا ، هلال بن وكيع تميمي قتل ہوا  اور جنگ شدت اختیار کر گئی. مالك نے مخنف بن قيس  کے سر پر مارا اور اس کو زمین پر گرا دیا  اس کے بھائی قصعب بن سليم نے پرچم اٹھایا وہ بھی قتل ہوا ، پھر عبد الله بن سليم نے پرچم اٹھایا وہ بھی قتل ہوا .

پھر علي عليه السلام نے محمد حنفيه کو حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے بھی لوگوں کے ساتھ حملہ کیا ،بصرہ والے بھاگ گئے بہت سے لوگ قتل ہوئے اور یہ مغرب کے وقت انجام پایا  یہ جنگ ظہر سے مغروب تک طول پکڑی ۔۔

كعب بن مسور افسار نے اونٹ کے مہار پکڑا ،ایک تیر آیا وہ قتل ہوا ،لوگ اونٹ کے مہار کو دوسرے کے ہاتھ میں دیتے جو بھی مرتے تو دوسرا مہار پکڑتا ،اونٹ کے ارد گرد شدید جنگ ہوئی ۔

 عبد الأعلي نرسي سے سنا ہے کہ کہ وہ کہتا تھا : مہار پکڑنے کے لئے ۷۰ ہاتھ کٹے، ابو عبيده معمر بن مثني نے نقل کیا ہے کہ مہار پکڑتے پکڑتے ۷۰ لوگ قتل ہوئے ۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص310، طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن كثير دمشقي نے  البداية والنهاية میں نقل کیا ہے :

فكلما قتل واحد ممن يمسك الجمل يقوم غيره حتي قتل منهم أربعون رجلا قالت عائشة ما زال جملي معتدلا حتي فقدت أصوات بني ضبة ثم أخذ الخطام سبعون رجلا من قريش وكل واحد يقتل بعد صاحبه

ثم جاء رجل فضرب الجمل علي قوائمه فعقره وسقط إلي الأرض فسمع له عجيج ما سمع أشد ولا أنفذ منه وآخر من كان الزمام بيده زفر بن الحارث فعقر الجمل وهو في يده ويقال إنه اتفق هو وبجير بن دلجة علي عقره ويقال إن الذي أشار بعقر الجمل علي وقيل القعقاع بن عمرو لئلا تصاب أم المؤمنين فإنها بقيت غرضا للرماة ومن يمسك بالزمام برجاسا للرماح

ولما سقط البعير إلي الأرض انهزم من حوله من الناس وحمل هودج عائشة وأنه لكالقنفذ من السهام.

جب بھی اونٹ کے مہار پکڑنے والا ایک قتل ہوتا تو دوسرا اونٹ کا مہار پکڑتا ،یہاں تک کہ ۴۰ لوگ قتل ہوئے ۔ عائشه نے کہتی ہے : میرا اونٹ حالت اعتدال میں رہا ، یہاں تک کہ بني ضبه کی آواز بند ہوگی ،پھر قریش کے ۷۰لوگوں نے ایک کے بعد دوسرے نے اونٹ کا مہار پکڑا اور سب قتل ہوئے ۔

پھر ایک شخص نے آکر اونٹ کے پیر کاٹ ڈالے ، اس سے اونٹ زمین پر گرے اور ایک ایسی شدید آواز نکالا کہ اس جیسی آواز نہیں سنی تھی ، اونٹ کا مہار پکڑنے والا آخری شخص زفر بن حارث تھا ، کہا گیا ہے کہ اس نے اونٹ کے پاوں کاٹنے میں جير بن دجله کا ساتھ دیا اور کہا گیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اونٹ کے پاوں کاٹنے کا حکم دیا ۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم قعقاع بن عمرو نے دیا تاکہ ام المؤمنين کو کوئی مشکل پیش نہ آئے کیونکہ ان پر تیروں کا حملہ ہو رہا تھا اور جو بھی اونٹ کا مہار تھماتا اس پر تیر مارتا ،اور جب اونٹ کے پیر کاٹ دئے تو اونٹ زمین پر گرا۔ لوگ بھاگ گئے، عائشہ کے کجاوے کو اٹھایا۔ جبکہ یہ تیروں سے ہیج ہاگ  کی طرح ہوا تھا ۔۔.

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج7، ص244، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

ابن العبري نے  كتاب مختصر الدول، میں جنگ جمل کے واقعات کے بارے میں لکھا ہے :

وجاءه من الكوفة ستة آلاف رجل. وكانت الوقعة بالخريبة. فبرز القوم للقتال وأقاموا الجمل وعائشة في هودج ونشبت الحرب بينهم فخرج علي ودعا الزبير وطلحة وقال للزبير: ما جاء بك. قال: لا أراك لهذا الأمر أهلاً. وقال لطلحة: أجئت بعرس النبي تقاتل بها وخبيت عرسك في البيت. أما بايعتماني. قالا: بايعناك والسيف علي عنقنا.

وأقبل رجل سعدي من أصحاب علي فقال بأعلي صوته: يا أم المؤمنين والله لقتل عثمان أهون من خروجك من بيتك علي هذا الجمل الملعون إنه قد كان لك من الله ستر وحرمة فهتكتِ ستركِ وأبحتِ حرمتكِ. ثم اقتتل الناس. وفارق الزبير المعركة فاتبعه عمر بن جرموز وطعنه في جربان درعه فقتله. وأما طلحة فأتاه سهم فأصابه فأردفه غلامه فدخل البصرة وأنزله في دار خربة ومات بها. وقتل تسعون رجلاً علي زمام الجمل. وجعلت عائشة تنادي: البقية البقية. ونادي علي: اعقروا الجمل. فضربه رجل فسقط. فحمل الهودج موضعاً وإذا هو كالقنفذ لما فيه من السهام. وجاء علي حتي وقف عليه وقال لمحمد بن أبي بكر: انظر أحية هي أم لا. فأدخل محمد رأسه في هودجها. فقالت: من أنت. قال: أخوك البر. فقالت: عقق. قال: يا أخيّة هل أصابك شيء. فقالت: ما أنت وذاك. ودخل علي البصرة ووبخ أهلها وخرج منها إلي الكوفة. ولما بلغ معاوية خبر الجمل دعا أهل الشام إلي القتال والمطالبة بدم عثمان.

کوفہ سے چھے ہزار لوگ جنگ کرنے نکلے تھے اور  خربيه کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوئے ،کجاوے کو سنبھالا ، اس عائشہ اس میں سوار تھی . جس وقت ان کے درمیان جنگ چھیڑ گئی اس وقت حضرت علیہ السلام باہر نکلے اور طلحہ اور زبیر کو بلایا ، اور زبیر سے فرمایا : کیوں آئے ہو ؟ زبیر نے کہا : میں آپ کو اس مقام کے لئے لائق نہیں سمجھتا ہوں ۔

آپ نے  طلحه سے  فرمایا : پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دلہن کو لے کر آئے ہو تاکہ اس کو وسیلہ بنا کر جنگ کی آگ بڑھکائے ؛کیا تم دونوں نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ جواب دیا : ہم نے بیعت اس حالت میں کی ہے کہ ہماری گردن پر تلوار لٹک رہی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے قبیلہ سعدی والے آگے نکلے اور بلند آوز سے کہا : اے ام المومنین ؛ عثمان کا قتل ہونا اللہ کی قسم اس سے آسان تھا کہ آپ گھر سے باہر نکلے، اس ملعون اونٹ پر سوار ہو کر آئی ہو ۔ اللہ نے آپ کے پردہ اور احترام کا اہتمام کیا تھا لیکن آپ نے خود اس کو چاک چاک کیا ۔

پھر یہ لوگ ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگے اور زبیر میدان جنگ سے باہر نکل گیا ۔

عمر بن جرموز نے اس کا پیچھا کیا اور اس کو نیزا مار کر قتل کیا۔  لیکن طلحہ پر ایک تیر آلگا اور اس کے بیٹے نے انہیں بصرہ لایا اور وہی وہ بھی مرگیا . اونٹ کا مہار تھامنے والے ۷۰ لوگ قتل ہوئے ،عائشہ نے فریاد بلند کیا اور کہا : استقامت سے کام لو  ، علي عليه السلام نے اونٹ کے پاوں کاٹنے کا حکم دیا ،پاوں کاٹنے کے بعد اونٹ زمین پر گرا ، کجاوے کو دوسری جگہ منتقل کیا ، کجاوہ تیروں کی وجہ سے ہیج ہاگ  کی طرح ہوا تھا ۔

ابن العبري، غريغوريوس بن اهرون الملطي، (متوفاي685 هـ)، تاريخ مختصر الدول، ج1، ص55، طبق برنامه الجامع الكبير.

ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :

ووقعَ القتالُ وعائشةُ راكبةٌ الجملَ المسمي عسكرَ في هودجٍ، وقد صارَ كالقُنفذِ من النَشَابِ، وتَمَتِّ الهزيمةُ علي أصحاب عائشة وطلحة والزبير، ورَمَي مروانُ بن الحكمِ طلحةَ بسهمٍ فَقَتَلَه، وكلاهما كانا مع عائشة، قيل إنه طلب بذلك أخْذِ ثأر ِعثمانَ منه، لأنه نَسَبَهُ إِلي أنه أعان علي قتل عثمانَ، وانهزم الزبيرُ طالباً المدينة، وقُطِعَتْ علي خِطامِ الجملِ أيدٍ كثيرةٍ، وقُتِل أيضاً بين الفريقين خلقٌ كثيرٌ، ولما كَثُر القَتلُ علي خِطامِ الجملِ، قال عليٌ: اعقروا الجملَ فضربه رجلٌ فَسَقَطَ، فَبَقِيَتْ عائشةُ في هودجِها إِلي الليل، وأدخلها محمدُ بن أبي بكر أخوها إِلي البصرة، وأنزلها في دار عبد الله بن خلف.

جس وقت جنگ ہوئی اس وقت عائشہ عسکر نامی اونت پر کجاوہ میں سوار تھی۔اتنے تیر اس پر لگے تھے کہ یہ ہیج ہاگ کی طرح ہوگیا تھا ۔ اور یہ جنگ عائشہ ،طلحہ و زبیر کے ساتھوں کی شکست پر ختم ہوئی۔  مروان بن حكم نے طلحہ کو تیر مارا ،مروان اور طلحہ دونوں عائشہ کے ساتھ تھے اور مروان نے یہ کام عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے انجام دیا کیونکہ مروان کا یہ نظریہ تھا کہ طلحہ عثمان کے قتل میں شریک ہے ۔ زبیر میدان سے باہر بھاگا ۔ اونٹ کے ماہر پکڑنے کی راہ میں بہت سے ہاتھ کٹ گئے اور دونوں طرف سے بہت سے لوگ قتل ہوئے ، حضرت علیہ السلام نے اونٹ کےپیرکاٹنے کا حکم دیا ۔ کسی نے اونٹ کے پیر کاٹے ۔ اونٹ زمین پر گرا ، عائشہ رات تک اسی کجاوے میں رہی ،اس کے بھائی محمد نے انہیں بصرہ منتقل کیا اور عبد اللہ بن خلف کے گھر میں بٹھایا ۔

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص120، طبق برنامه الجامع الكبير.

مقدسي نے  كتاب البدء والتاريخ میں لکھا ہے :

وقتل سبعون علي زمام الجمل يأخذه واحد بعد واحد وقد شكت السهام الهودج حتي صار كأنه جناح نسر.

۷۰ ہزار لوگ اونٹ کا مہار پکڑنے کی راہ میں قتل ہوئے ،کجاوے پر اتنے تیر لگے کہ یہ کرکس کے پر کی طرح ہوا تھا ۔

المقدسي، مطهر بن طاهر (متوفاي507 هـ)، البدء والتاريخ، ج5، ص214، ناشر: مكتبة الثقافة الدينية - بورسعيد

عيني نے شرح صحيح بخاري میں لکھا ہے :

واجتمع بنو ضبة عند الجمل وقاتلوا دونه قتالا لم يسمع مثله فقطعت عنده ألف يد وقتل عليه ألف رجل منهم... وأولئك النفر لا يقلعون عن رشق هودجها بالنبال حتي بقي مثل القنفذ.

بني ضبه والے اونٹ کے ارد گرد جمع تھے اور جنگ کر رہے تھے ،ایسی جنگ کہ جو سننے کو نہیں آئی ۔یہاں تک کہ ۱۰۰۰ ہاتھ کاٹے اور ہزار لوگ قتل ہوئے ، علی علیہ السلام کے ساتھیوں نے تیر مارنے سے ہاتھ نہیں اٹھایا کجاوہ ہیج ہاگ  کی طرح ہوا تھا ۔

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج15، ص50، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :

ونادي علي اعقروا الجمل يتفرقوا وضربه رجل فسقط فما كان صوت أشد عجيجا منه وكانت راية الأزد من أهل الكوفة مع مخنف بن سليم فقتل فأخذها الصقعب أخوه فقتل ثم أخوهما عبدالله كذلك.

علي عليه السلام نے اونٹ کے پیر کاٹنے کا حکم دیا تاکہ لوگ متفرق ہو جائے ،ایک شخص نے پیر کاٹ دیے اور اونٹ زمین پر گرا ، اونٹ کی ایسی آواز بلند ہوئی کہ اس جیسی آواز سنائی نہیں دی تھی . کوفہ کے قبیلہ ازد کا پرچم محنف بن سلیم کے ہاتھ میں تھا ، جب یہ قتل ہوا تو اس کے بھائی قعصب نے پرچم ہاتھ میں اٹھایا وہ بھی قتل ہوا پھر اس کے بھائی عبد اللہ نے پرچم اٹھایا اور اس کا انجام بھی اپنے دو بھائیوں کی طرح ہوا۔

إبن خلدون الحضرمي، عبد الرحمن بن محمد (متوفاي808 هـ)، مقدمة ابن خلدون، ج2، ص619، ناشر: دار القلم - بيروت - 1984، الطبعة: الخامسة.

ابو عبد الله حميري نے كتاب صفة جزيرة أندلس میں لکھا ہے :

ورمي هودج عائشة رضي الله عنها فجعلت تنادي: يا بني البقيا، يا بني البقيا، ويعلو صوتها، وكانت جهيرة، فأبوا إلا إقداماً، وماج الناس بعضهم في بعض، فصرخ صارخ: اعقروا الجمل، وقال عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما: أمسيت يوم الجمل وبي سبع وثمان جراحة من طعنة وضربة، وما رأيت مثل يوم الجمل قط ما ينهزم منا أحد وما نحن إلا كالجبل الأسود وما يأخذ بخطام الجمل أحد إلا قتل. ونادي علي رضي الله عنه: اعقروا الجمل فإنه إن عقر تفرقوا، فضربه رجل فسقط، فما سمعت صوتاً قط كان أشد من عجيج الجمل، وقطع علي خطام الجمل سبعون يداً من بني ضبة كلما قطعت يد رجل قام آخر وقال: أنا الغلام الضبي، ورمي الهودج بالنشاب حتي صار كالقنفذ.

کجاوے پر تیر مارا تو عائشہ نے بلند آواز سے کہا : میرے بیٹو! استقامت سے کام لو ، جب عائشہ کی آواز بلند ہوئی تو لوگوں نے ان کے کہے پر عمل کیا ،اونت کے ارد گرد لوگوں کا ایک موج تھا ۔ کسی نے آواز دی کہ اونٹ کے پیر کاٹ دو .

عبد الله بن زبير کہتا تھا : جنگ جمل کا دن ختم ہوا میرے اوپر ۸۷ زخم لگے تھے میں نے جنگ جمل والے دن کی طرح سخت دن نہیں دیکھا تھا ،ہم میں سے کوئی بھی بھاگ نہیں گئے۔ ہم اس دن ایک کالے پہاڑ کی طرح تھے جو بھی اونت کا مہار پکڑتا وہ قتل ہوجاتا ۔

علي عليه السلام نے آواز دی  : اونٹ کے پیر کاٹ دئے تاکہ لوگ پراگندہ ہو جائے ،کسی نے اونٹ کے پیر کاٹا ،اونٹ زمین پر گرا ۔۔۔ قبيله بني ضبه کے ۷۰ لوگوں کے ہاتھ اونٹ کا مہار پکڑنے کی وجہ سے قطع ہوا  ،جس کا بھی ہاتھ کاٹتا دوسرا مہار پکڑتا اور یہ کہتا : میں صبی کا بیٹا ہوں، اتنے تیر کجاوے پر لگے کہ یہ ہیج ہاگ  کی طرح ہوا تھا ۔

الحميري، أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن عبد المنعم (متوفاي بعد 866 هـ)، صفة جزيرة الأندلس منتخبة من كتاب الروض المعطار في خبر الأقطار، ج1، ص207، تحقيق: إ. لافي بروفنصال، ناشر: دار الجيل - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1408 هـ ـ 1988 م.

تاریخی اسناد سے یہی ظاہر ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام  مدینہ سے ان لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے نکلے اور آپ نے خود ہی اس جنگ کی کمانڈری کی اور اپنے ساتھیوں کو کجاوہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا ، آپ کے ساتھیوں نے آپ کی اطاعت میں حملہ کیا ،اونٹ کے ارد گرد موجود  لوگ اور اونٹ کا مہار پکڑنے والے سب قتل ہوئے ۔ اونٹ کے پیر کاٹ دیے۔ اونٹ زمین پر گرا اور عائشہ کا کجاوہ تیروں سے ہیج ہاگ  کی طرح ہوگیا ۔

دوسری طرف جناب عائشہ بھی آپ سے جنگ کرنے ہی نکلی تھی اور میدان جنگ میں حاضر ہوکر لوگوں کو جنگ کرنے پر اکسا رہی تھی ۔

کیا ان سب کے باوجود یہ ادعا کر سکتا ہے کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام اہل جمل کے ساتھ جنگ کے قائل نہیں تھے؟

کیا ان حقائق کے باوجود یہ کہ سکتا ہے کہ جناب عائشہ امت میں اصلاح کے لئے نکلی تھی اور نامحرموں کے ساتھ ایک سے دوسرے شھر کی طرف سفر کر رہی تھی ؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ کسی تاریخی کتاب میں بھی  عبد الله بن سبأ يهودي کا نام موجود نہیں ہے کیونکہ سارے تاریخ نگاروں کو معلوم تھا کہ عبد اللہ بن سبا کی داستان سیف بن عمر کی ذھنی تخلیق ہے اور اس کا بنایا ہوا ایک افسانہ ہے۔

امیر المومنین عليه السلام نے جناب عائشہ کو سزا کیوں نہیں دی ؟

جیساکہ بیان ہوا کہ فتنہ جمل ،امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے شروع ہوا اس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا۔

یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل جمل اس جنگ کے اصلی مقصر  تھے۔  جنگ کا آغاز پہلے انہیں لوگوں نے کیا ، بیت المال کی حفاظت پر مامور  لوگوں کا قتل کیا اور عثمان بن حنیف کے سپاہیوں میں سے ۷۰۰ لوگوں کو قتل کیا ،امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کا بصرہ میں خاتمہ کر کے بیت المال پر قبضہ کیا ۔

لہذا یقنی طور پر امیر المومنین عليه السلام نے ان لوگوں کو سزا دینی تھی اور ان کی سزا اسلامی سرزمین میں فتنہ پرپا کرنا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا کی سزا تھی اور اس جرم کی سزا بھی ان لوگوں کو قتل کرنا ہی تھا  ۔

اب طلحہ اور زبیر تو میدان میں قتل ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ جناب امیر المومنین عليه السلام، نے عائشه کو کہ جو اس جنگ کا اصلی کمانڈر تھی ، کیوں سزا نہیں دی ؟

اب عائشہ ک سزا نہ دینے کی دلائل متعدد بھی ہوسکتی ہیں ہم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

عوررت اگر مرتد بھی ہو جائے تو اسکو قتل نہیں کیاجاتا ،باغیہ ہونا تو دور کی بات:

مشہور حنفی مکتب کے فقیہ شمس الدين سرخسي نے اس سوال کا جواب یوں دیا ہے:

ولما قيل لعلي رضي الله عنه يومَ الجملِ ألا تُقسم بيننا ما أفاء الله علينا؟ قال «فمن يأخذ منكم عائشة» وإنما قال ذلك استبعادا لكلامهم واظهارا لخطأهم فيما طلبوا.

وإذا اُخذتْ المرأةُ من أهلِ البغي فإن كانت تُقُاتِل حَبَسَتْ حتي لا يبقي منهم أحدٌ ولا تُقْتَلْ لأن المرأةَ لا تُقْتَل علي رَدَّتِها فكيف تُقْتَلْ إذا كانت باغيةً.

جب جنگ جمل میں  علي عليه السلام سے یہ کہا گیا کہ کیا جنگی غنائم تقسیم نہیں کروگے ؟ تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کون عائشہ کو اپنے حصہ میں لینے کے لئے تیار ہو ؟ آپ نے یہ فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کی غلطی کی طرف توجہ دلائے۔

واگر باغی گروہ کے کسی عورت کو پکڑا جائے تو اگرچہ اس نے جنگ بھی کی ہو پھر بھی اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو فتنہ ختم ہونے تک گرفتار رکھا جائے گا ،لیکن اس کو قتل نہیں کیا جائے گا،باغیہ کی بات ہی اور ہے .

السرخسي الحنفي، شمس الدين ابوبكر محمد بن أبي سهل (متوفاي483هـ )، المبسوط، ج10، ص127، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

لہذا سرخی کی راے کے مطابق عائشہ مرتد بھی ہو پھر بھی انہیں قتل نہیں کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اسیر کا قتل جائز نہیں :

سرخی آگے لگتے ہیں کہ جناب عائشہ جنگ میں آسیر ہوئی تھی اور اسیر کا قتل جائز نہیں

وفي حال اشتغالها بالقتال إنما جاز قَتْلُها دَفْعاً وقد إندفع ذلك حين أسِرَتْ كالولد يقتل والدَه دفعا إذا قصده وليس له ذلك بعد ما اندفع قصده ولكنها تحبس لارتكابها المعصية ويمنعها من الشر والفتنة

البتہ جنگ کے دوران دفاع کی خاطر باغیہ کا قتل جائز ہے ،لیکن جب اسیر ہوجائے تو اس کا قتل جائز نہیں ہے،جس طرح کوئی بیٹا خود سے دفاع کرنے کے لئے اپنے والد کو قتل کرئے ۔ لیکن اگر قتل کا خوف ختم ہوجائے تو پھر والد کا قتل جائز نہیں۔

اس قسم کی باغیہ عورت کو قتل کرنا جائز نہیں، لیکن اس کو زندان میں ڈال دیا جائے گا اور فتنہ سے اس کو دور رکھا جائے گا۔

سرخی کی باتیں حقیقت کے قریب ہیں کیونکہ اسلام نے اسیر کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔میدان جنگ میں جنگ کے دوران قتل کرنا صحیح ہے ۔ لیکن اگر وہ اسیر ہوجائے یا اپنےآپ کو تسلیم کردئے تو پھر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ،جیساکہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا کیا ، ھندہ جو حقیقت میں اسلام نہیں لائی تھی اور خاص کر جناب حمزہ کا خون اس کی گردن ہر تھا لیکن اس کے باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو قتل نہیں کیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں ایسی روایتیں موجود ہیں کہ جن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ،حضرت علی علیہ السلام کو جنگ جمل کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ جب عائشہ پر فتح حاصل ہو تو اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آنا ۔

بيهقي نے دلائل النبوة میں، حاكم نيشابوري  نے المستدرك میں، شيخ مفيد نے كتاب الجمل و... میں نقل کیا ہے :

أَبُو نُعَيْمٍ قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْن العباس الهمداني، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِي، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ذَكَرَ النَّبِي (ص) خُرُوجَ بَعْضِ نِسَائِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ: " انْظُرِي يَا حُمَيْرَاءُ، أَنْ لا تَكُونِي أَنْتِ "، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَي عَلِي، فَقَالَ: يَا عَلِي، " وُلِّيتَ مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا فَارْفُقْ بِهَا ".

جناب ام سلمه نقل ہوا ہے کہ  رسول خدا (ص) نے اپنی بعض ازواج کے خروج کی خبر دی ،اس وقت عائشہ ھنسی تو آپ نے عائشہ سے خطاب میں فرمایا: «اے حميراء خبردار وہ تم نہ ہو » پھر حضرت علي عليه السّلام سے خطاب میں فرمایا : «اے ابو الحسن ان کا معاملہ پیش آیے اور ان پر مسلط ہو تو ان کے ساتھ مدارا کرنا ».

البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفاي458هـ)، دلائل النبوة، ج6، ص411، طبق برنامه الجامع الكبير.

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص129، ح4610، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.

التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج1 ص338، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ.

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاي413 هـ)، الجمل، ص230، ناشر: مكتبة الداوري ـ قم.

ابن عساكر دمشقي نے اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے :

هذا حديث حسن من رواية أم سلمة هند زوجة النبي صلي الله عليه وسلم

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاي571هـ)، الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين رحمة الله عليهن أجمعين، ج1، ص71، تحقيق: محمد مطيع الحافظ / غزوة بدير، ناشر: دار الفكر - دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کی بعض روایات میں ہے کہ آپ نے امیر المومنین ع سے فرمایا : ایسی صورت میں انہیں گھر واپس پلٹا دینا:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أَبِي ثنا حُسَيْنُ بن مُحَمَّدٍ قال ثنا الْفُضَيْلُ يَعْنِي بن سُلَيْمَانَ قال ثنا محمد بن أَبِي يحيي عن أَبِي أَسْمَاءَ مولي بني جَعْفَرٍ عن أَبِي رَافِعٍ ان رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم قال لعلي بن أبي طَالِبٍ انه سَيَكُونُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ عَائِشَةَ أَمْرٌ قال أنا يا رَسُولَ اللَّهِ قال نعم قال فانا أَشْقَاهُمْ يا رَسُولَ اللَّهِ قال لاَ وَلَكِنْ إذا كان ذلك فَارْدُدْهَا إلي مَأْمَنِهَا.

رسول اللہ صلي الله عليه وآله نے حضرت علي بن أبي طالب عليه السلام  سے فرمایا : بہت جلد آپ اور عائشہ کے درمیان ایک مسئلہ پیش آئے گا ، علي عليه السلام نے فرمایا ؟ میرے اور ان کے درمیان ؟ آپ نے فرمایا : ہاں . امام نے پھر سوال کیا : یا رسول اللہ ص پھر کیا ایسی صورت میں ،میں ان میں سب سے زیادہ بدبخت ہو گا؟ جواب دیا : نہیں جب یہ معاملہ پیش آئے تو انہیں ان کے گھر واپس پلٹا دینا ۔

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج6، ص393، ح27242، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج1، ص332، ح995، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج1 ص395، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ.

هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

رواه أحمد والبزار والطبراني ورجاله ثقات.

اس روایت کو  احمد، بزار اور  طبراني نے نقل کیا ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں .

الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص234، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

ابن حجر عسقلاني نے بھی لکھا ہے :

وأخرج أحمد والبزار بسند حسن من حديث أبي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لعلي بن أبي طالب انه سيكون بينك وبين عائشة أمر قال فانا أشقاهم يا رسول الله قال لا ولكن إذا كان ذلك فارددها إلي مأمنها.

احمد اور بزار نے  حسن سند کے ساتھ ابو رافع سے اس روایت کو نقل کیا ہے ....

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج13، ص55، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

لہذا امیر المومنین علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی وجہ سے عائشہ کو سزا نہیں دی ۔

رسول خدا (ص) نے عبد الله بن أبي پر کیوں حد جاری نہیں کیا ؟

اہل سنت کے علماﺀ نے نقل کیا ہے : عبد الله بن أبي مدینہ کے منافقوں کا سردار تھا ، اس نے اور بعض اصحاب ،جیسے حسان بن ثابت، مسطح بن أثاثة اور حمنة بنت جحش ، یہ تینوں «السابقون الأولون» میں سے تھے ،ان لوگوں نے  عائشه  پر فحشاء کی تهمت لگائی. اور جب اللہ نے عائشه کی اس تہمت سے برائت پر آیت نازل کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین اصحاب پر قذف کا حد جاری کیا لیکن عبد اللہ کو آزاد کیا اور اس پر حد جاری نہیں فرمایا ،کیونکہ اللہ نہیں چاہتے تھے کہ آخرت کا عذاب اس سے کم ہو۔

قرطبی کہ جو اہل سنت کا مشہور مفسر ہیں وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

قال علماؤنا وإنما لم يُحَد عبدُ الله بن أبي لأن الله تعالي قد أعدَّ له في الآخرة عذابا عظيما فلو حُد في الدنيا لكان ذلك نقصاً من عذابه في الآخرة وتخفيفاً عنه.

ہمارے علماﺀ نے کہا ہے : عبد اللہ بن ابی ہر حدجاری نہیں کیا ؛ کیونکہ اللہ نے قیامت کے دن اس کے لئے سخت عذاب تیار کیا ہوا ہے ،اگر دنیا میں اس پر حد جاری کرئے تو آخرت کے عذاب میں کمی ہوگی ۔

الأنصاري القرطبي، ابوعبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671هـ)، الجامع لأحكام القرآن، ج12، ص201، ناشر: دار الشعب - القاهرة.

لہذا ممکن ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے جناب عائشہ پر حد جاری نہیں کیا کیونکہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً. النساء/93.

اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے*، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔ ۔

بخاری نے نقل کیا ہے کہ اسی عبد الله بن أبي نے رسول خدا صلي الله عليه وآله کے دور میں انصار اور مہاجرین کے درمیان ایک فتنہ پرپا کیا،بعض نے اس کو قتل کرنے کا آپ سے مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا : مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ یہ کہے  «محمد نے اپنے اصحاب کو قتل کیا  ».

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا - رضي الله عنه - يَقُولُ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - وَقَدْ ثَابَ مَعَهُ نَاسٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ حَتَّي كَثُرُوا، وَكَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلٌ لَعَّابٌ فَكَسَعَ أَنْصَارِيًّا، فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ غَضَبًا شَدِيدًا، حَتَّي تَدَاعَوْا، وَقَالَ الأَنْصَارِيُّ يَا لَلأَنْصَارِوَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَفَخَرَجَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - فَقَالَ « مَا بَالُ دَعْوَي أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ »ثُمَّ قَالَ « مَا شَأْنُهُمْ »فَأُخْبِرَ بِكَسْعَةِ الْمُهَاجِرِيِّ الأَنْصَارِيَّ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - « دَعُوهَا فَإِنَّهَا خَبِيثَةٌ »وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ أَقَدْ تَدَاعَوْا عَلَيْنَا، لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَي الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ. فَقَالَ عُمَرُ أَلاَ نَقْتُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْخَبِيثَ لِعَبْدِ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - « لاَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ كَانَ يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ ».

 جناب جابر سے سے نقل ہوا ہے :  ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلی وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک تھے، مہاجرین بڑی تعداد میں آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ وجہ یہ ہوئی کہ مہاجرین میں ایک صاحب بڑے دل لگی کرنے والا تھا  ، اس نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی، انصاری بہت سخت غصہ ہوا۔ اس نے اپنی برادری والوں کو مدد کے لیے پکارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان لوگوں نے یعنی انصاری نے کہا: اے قبائل انصار! مدد کو پہنچو! اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! مدد کو پہنچو! یہ غل سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (خیمہ سےباہر تشریف لائے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ صورت حال دریافت کرنے پر مہاجر صحابی کے انصاری صحابی کو مار دینے کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ایسی جاہلیت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو اور عبداللہ بن ابی سلول (منافقنے کہا کہ یہ مہاجرین اب ہمارے خلاف اپنی قوم والوں کی دہائی دینے لگے۔ مدینہ پہنچ کر ہم سمجھ لیں گے، عزت دار ذلیل کو یقیناً نکال باہر کر دے گا۔ عمر نے اجازت چاہی یا رسول اللہ! ہم اس ناپاک پلید عبداللہ بن ابی کو قتل کیوں نہ کر دیں؟  آپ نے جواب میں فرمایا ایسا نہ ہونا چاہیے کہ لوگ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے لوگوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔

صحيح البخاري ج3، ص1296، ح3330، كتاب المناقب، باب مَا يُنْهَي مِنْ دَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ.

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف اس منافق کو سزا نہیں دی بلکہ جب یہ مرا تو آپ اس کے جنازے میں شریک ہوئے اور اس پر نماز پڑھی۔

علي بن أبي طالب عليه السلام کہ جو رسول خدا صلي الله عليه کے جانشین اور وارث تھے اور آگر آپ انہیں قتل کرتے تو تاریخ میں لوگ آپ پر انگلی اٹھاتے اور آپ پر اعتراض کرتے ۔

لہذا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام اور مسلمین کی مصلحت کی خاطر عبد اللہ ابن ابی کو سزا نہیں دی، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر جناب عائشہ کو سزا نہیں دی ۔

 

حضرت موسي نے سامري کو کیوں قتل نہیں کیا ؟

قرآنی آیات کے مطابق سامری نے جناب موسی علیہ السلام کی قوم کو گمراہ کیا اور انہیں گوسالہ پرست بنایا ،جناب موسی اور ھارون علیہما السلام کی زحمت کو برباد کیا ۔

لیکن جب جناب موسی علیہ السلام جب میعاد سے واپس پلٹے تو سامری کو سزا دینے کے بجائے اس سے کہا :

قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فيِ الْحَيَوةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تخُْلَفَهُ وَانظُرْ إِليَ إِلَاهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فيِ الْيَمّ ِ نَسْفًا. طه/97.

(موسي) کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا*، اور ایک اور بھی وعده تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا**، اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کیے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں ریزه ریزه اڑا دیں گے.

لہذا سامری نے بہت بڑا فتنہ پرپا کیا لیکن حضرت موسي عليه السلام  نے اس کو سزا نہیں دی، تاکہ قیامت کے دن سخت عذاب سے دوچار ہو ۔  

شاید امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اسی وجہ سے سزا نہیں دی ۔

عائشه، کو سزا دینے سے فتنہ کی آگ مزید بڑھکتی:

یقینا آگر آپ عائشہ کو سزا دیتے تو یہ فتہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اسی سے غلط فائدہ اٹھا کر آپ کے خلاف اعلان جنگ کرتے ،جیساکہ امیر المومنین علیہ السلام کا عثمان کے قتل میں کوئی کردار نہیں تھا بلکہ آپ نے محاصرہ کرنے والوں سے بات  چیت کے ذریعے ان لوگوں کو اس کام سے دور رہنے کی کوشش کی، لیکن بعد میں موقع پرست لوگوں نے آپ کو اس قتل کا ذمہ قرار دیا اور  آپ کی نوپا حکومت کو ختم کرنے کے لئے جناب عثمان کے خون آلود کرتے کو اٹھا کر ہزاروں لوگوں کو قتل کر ڈالا ،لہذا اگر آپ جناب عائشہ کو سزا دیتے تو ایسی صورت میں فتنہ پرور لوگ نیا فتنہ پرپا کرتے ۔ 

مقدسي نے  البدء والتاريخ  میں اور ابن العبري نے  تاريخ مختصر الدول میں لکھا ہے کہ جب معاویہ کو آپ اور عائشہ کے درمیان جنگ کی خبر ملی تو لوگوں کو امیر المومنین کے خلاف جنگ پر اکسایا :

ذكر صفين وهو موضع بين العراق والشأم وقامت الحرب بين الفريقين أربعين صباحا قالوا ولما بلغ معاوية خبر الجمل دعا أهل الشأم إلي القتال علي الشوري والطلب بدم عثمان....

  صفين عراق  اور  شام کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں چالس دن تک جنگ رہی ،نقل ہا ہے کہ جب امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہنچی تو معاویہ نےلوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا ؛ تاکہ حکومت کو شورا کی کمیٹی کے حوالے کرنے اور عثمان کے خون خواہی کے لئے جنگ کرئے.

المقدسي، مطهر بن طاهر (متوفاي507 هـ)، البدء والتاريخ، ج5، ص217، ناشر: مكتبة الثقافة الدينية - بورسعيد

ولما بلغ معاوية خبر الجمل دعا أهل الشام إلي القتال والمطالبة بدم عثمان.

جب معاویہ کو جنگ جمل کی خبر ملی تو لوگوں کو جنگ اور عثمان کے خون کا بدلہ اور انتقام لینے پر اکسایا۔

ابن العبري، غريغوريوس بن اهرون الملطي، (متوفاي685 هـ)، تاريخ مختصر الدول، ج1، ص55، طبق برنامه الجامع الكبير.

اب آگر امیر المومنین علیہ السلام جناب عائشہ کو سزا دیتے یا جنگ کے دوران ان کو کچھ ہوجاتی تو معاویہ کیا عثمان کے کرتے کی طرح  اس کو لے کر لوگوں کو آپ سے جنگ کے لئے تیار نہ کرتا؟

 یقیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ کے قتل کی خبر سے معاویہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا اور آپ کو ان کا قاتل قرار دے کر لوگوں کو آپ کے خلاف جنگ پر تیار کرتا۔یہاں تک کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دشمن قرار دے کر آپ سے جنگ کو اہم ترین واجبات میں سے قرار دیتا ۔

لہذا عائشہ کو نہ سزا دینا اور انہیں قتل نہ کرنا، آپ اور اسلام کی مصلحت میں تھی ۔

 

التماس دعا ۔۔

شبھات کا جواب دینے والی ٹیم

تحقيقاتي ادارہ ، حضرت ولي عصر (عج)

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: