موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
جناب ابوکر کی خلافت پر نہ نص اور نہ اجماع ۔
مندرجات: 2127 تاریخ اشاعت: 28 بهمن 2022 - 01:02 مشاہدات: 3056
مضامین و مقالات » پبلک
جناب ابوکر کی خلافت پر نہ نص اور نہ اجماع ۔

بسم الله الرحمن الرحیم

ابوکر کی خلافت پر نہ  نص  اور نہ اجماع ۔

مطالب کی فہرست

 مقدمه:

ابوبکر کی خلافت پر کوئی نص نہیں ہے ۔

«سعد الدین تفتازانی» کا اعتراف:

  «ابن کثیر دمشقی» کا اعتراف :

فخر رازی کا اعتراف

  جناب«عمر بن خطاب» کا اعتراف :

کیا  «ابوبكر» کی خلافت پر اجماع قائم ہوا !؟

جناب «عمر بن خطاب» کا اعتراف :

اهل سنت  کے بزرگ علماﺀ کا اعتراف  :

امیر المومنین ع اور تمام انصار کی مخالفت 

بنی امیه  اور بنی هاشم کی مخالفت :

انصار کا امیرالمؤمنین ع کی بیعت سے دفاع :

جناب «عایشه»،کا اعتراف :

کیا ابوبکر کا پیغمبر ص کی جگہ نماز ادا کرنا ان کی خلافت پر دلیل ہے ؟

«ابوبکر»، ایسا امام جماعت کہ جو خود پیغمبر ص کی اقتدا کررہا تھا !

«ابوبکر» مکبّر  تھا ،امام جماعت نہیں تھا !!

 «ابوبكر» کو مقام خلافت تک پہنچانے کے لئے طاقت کا استعمال !!

«عمر بن خطاب»کی طرف سے خوف و ہراس پھیلانا :

طاقت کا استعمال کر کے لوگوں کو بیعت پر مجبور کرنا :

 « قبیلہ اسلم»، والوں کو اہل مدینہ سے بیعت لینے پر مامور کرنا :

 بیعت نہ کرنے کی صورت میں حضرت زهرا (سلام الله علیها) کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی :

حضرت علي (علیه السلام)  کو بیعت کے لئے بدترین شکل میں حاضر کرنے کا حکم !

 

 مقدمه:

جس طرح «شیعه» اعتقاد رکھتے ہیں کہ «امیرالمؤمنین»، کی ولایت اور خلافت پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے نص موجود ہے ، اھل سنت کے بعض لوگ بھی شیعوں کی طرح  کہتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت پر بھی نص موجود اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے انہیں خلافت کے مقام پر نصب کیا ہے۔

 اھل سنت والے اپنے اس مدعا کے اثبات کے لئے کچھ شواہد پیش کرتے ہیں جیسے «پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی جگہ پر ابوبکر کا نماز ادا کرنا » یا  «ابوبکر کی خلافت پر مسلمانوں کا اجماع » ہم اس مقالے میں یہ ثابت کریں گے کہ ابوبکر کی خلافت پر نہ نص موجود ہے نہ مسلمانوں کا اجماع بلکہ زور اور طاقت کا استعمال کر کے خلافت پر قبضہ کیا ہے ۔

ہم اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے پیش کردہ نصوص کو پیش کرنے اور ان کو رد کرنے کے بجائے خود اہل سنت کے علماﺀ کی طرف سے ابوبکر کی خلافت نص نہ ہونے پر اعترافات کو نقل کرتے ہیں !

  «ابوبکر» کی خلافت پر کسی قسم کا نص موجود نہیں ہے !

جیساکہ اس سلسلے میں اہل سنت کے علماﺀ کا واضح اعتراف موجود ہے :

   «سعد الدین تفتازانی» کا اعراف :

  «تفتازانی»، کہ جو اہل سنت کے  علم کلام کے بزرگ علماﺀ میں سے ہے ، انہوں نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے :

«و النص منتف في حق أبي بكر.»

ابوبکر کی خلافت کے حق میں کوئی نص موجود نہیں ہے .

شرح المقاصد فی علم الکلام، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازاني، ج 2، ص 281 دار النشر: دار المعارف النعمانية - باكستان - 1401هـ - 1981م ، الطبعة: الأولى

«ابن کثیر دمشقی» کا اعتراف:

«ابن کثیر» دمشقی سلفی، نے بھی واضح طور پر نص نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے :

«إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى الْخِلَافَةِ عَيْنًا لِأَحَدٍ مِنَ النَّاس، لَا لِأَبِي بَكْرٍ كَمَا قَدْ زَعَمَهُ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَلَا لَعَلِّي كما يقوله طائفة من الرَّافِضَةِ.»

پیغمبر اکرم ص نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی ہے، نہ ابوبکر کی خلافت پر ،جیساکہ اہل سنت کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے اور نہ علی ع کی خلافت پر کہ بعض شیعہ اس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔

ابن كثير دمشقي، اسماعيل بن عمر (م 774)، البداية و النهاية، ج 8، فَصْلُ إِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ عَلَى تَقْدِيمِ أَبِي بَكْرٍ، ص 94، تحقيق: عبد الله بن عبد المحسن التركي، دار هجر ، چاپ اوّل، 1418 هـ.ق.

« فخرالدین رازی، کا اعتراف

انه لا يمكن اثباتها بالنص، لأنه لو كان منصوصا عليه بالامامة، لكان  توقيفه يوم السقيفة إمامة نفسه على البيعة، من أعظم المعاصى و ذلك يقدح فى إمامته ۔

ابوبکر کی خلافت کو نص کے ذریعے ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی امامت نص کی وجہ سے ہوتی اور انہیں اس مقام پر منصوب کیا ہوا ہوتا تو سقیفہ کے دن ان کی امامت کو بیعت کے ذریعے منعقد کرنا اور نص پیش نہ کرنا بڑے گناہوں میں سے ہے اور یہ ان کی امامت کے لئے قابل اعتراض پہلو ہے ۔

 فخرالدین رازی، الاربعين في اصول الدين، ج‏2، ص 274:

  عبد القاهر بغدادي متوفاى   429کا اعتراف

: «ليس من النبي صلى اللّه عليه وسلم نصّ على إمامة واحد بعينه»

کسی کی امامت پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نص موجود نہیں ہے ۔

الفرق بين الفرق: ص 349

 

« ابو حامد غزالي کا اعتراف

ابو حامد غزالي متوفاي 505 لکھتا ہے : «ولم يكن نصّ رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم على إمام أصلاً ... فلم يكن أبو بكر إماما إلاّ بالاختيار والبيعة».

کسی امام کی امامت ہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے نص موجود نہیں ہے ۔۔۔۔۔لہذا ابوبکر انتخاب اور بیعت کے ذریعے خلیفہ بنا ہے ۔

قواعد العقائد: ص 226

عضد الدين ايجي متوفای 756:کا اعتراف :

 

«أمّا النص فلم يوجد»

 

 کوئی نص اس سلسلے میں موجود نہیں ہے ۔

المواقف: ص400

« امام نووي متوفاي 676: کا اعتراف

«إنّ المسلمين أجمعوا على أنّ الخليفة إذا حضرته مقدمات الموت ... يجوز له الاستخلاف ، ويجوز له تركه ، فإن تركه فقد اقتدى بالنبي صلى اللّه عليه وسلم في هذا ، وإلاّ فقد اقتدى بأبي بكر»

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ خلیفہ موت کے وقت اپنے بعد خلیفہ کا انتخاب کر سکتا ہے اور انتخاب نہ کرنا بھی جائز ہے اور اگر انتخاب کرئے تو اس نے اللہ کے نبی کی پیروی کی ہے اور اگر انتخاب کر لیے تو بھی تو کوئی مسٗلہ  نہیں ہے کیونکہ  ایسی صورت میں اس نے ابوبکر کی اطاعت کی ہے ۔

صحيح مسلم بشرح النووي: ج 12 ص 205

 

اہل سنت کے بزرگ علماﺀ میں سے انہیں چند ایک کا اعتراف اس بات پر دلیل ہے کہ ابوبکر کی خلافت پر نص موجود نہیں ہے ۔

، «عمر بن خطاب» کا اہم ترین اعتراف :

ان سب سے اہم ترین بات خود خلیفہ دوم کا وہ اعتراف ہے جو انہوں نے آپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس وقت کیا جب بعض ان سے اپنے بعد خلیفہ انتخاب کرنے کا کہہ رہا تھے۔

«إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُوبَكْرٍ وَ إِنْ أَتْرُكْ فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ.»

اگر میں خلیفہ منتخب کروں تو یہ ابوبکر کا طریقہ کار ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،انہوں نے خلیفہ انتخاب کیا اور اگر میں خلیفہ انتخاب نہ کروں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ مجھ سے بہتر تھے ،آپ نے خلیفہ منتخب نہیں فرمایا !

صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، ج 6، ص 2638، كِتَابُ الأَحْكَامِ، باب الإستخلاف، ح 6792، دار النشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت - 1407 - 1987 ، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا۔

اب اھل سنت والے ابوبکر کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے 50 رایات بھی لیکر آئے چاہئے یہ نص خفی ہو یا جلی ،ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ خلیفہ دوم کا یہ اعتراف صحیح ہے ہے یا اہل سنت کے لوگوں کا ادعا ؟ اگر عمر بن خطاب کا ادعا صحیح ہے تو اہل سنت والوں کا ادعا اور ان کی طرف سے پیش کردہ ساری روایات کسی کھاتے کا نہیں ،اور اگر خلیفہ دوم جھوٹ بول رہا ہے تو جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ خلافت کا اہل نہیں کیونکہ خود اہل سنت کا یہ ادعا ہے کہ خلیفہ کو سب سے زیادہ عادل ہونا چاہئے ۔ 

اگر مسلمانوں کا خلیفہ جھوٹ بولتا ہو تو کیسے اسلام کو معاشرے میں لاگو کرسکتا ہے؟  کیسے ظالم سے مظلوم کا حق دلا سکتا ہے ؟ کس طرح عدالت کی رعایت کرسکتا ہے؟۔

جیساکہ اسی حدیث کے ضمن میں بھی اھل سنت کے علماﺀ نے یہی اعتراف کیا ہے ؛

صحیح مسلم کے مشہور شارح امام النووي نے  اسی حدیث کی ضمن میں لکھا  ہے : 

هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى خَلِيفَةٍ وَهُوَ إِجْمَاعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِم ۔

 شرح على مسلم (12/ 206۔

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی ہے  اور اس پر اھل سنت اور دوسروں کا اجماع ہے۔

ابن حجر عسقلانی  اس حدیث کی ضمن میں جناب عمر کی طرف سے کسی کو خلیفہ معین نہ کرنے کی وجہ بیان کرتا ہے :

فأخذ من فعل النبي صلى الله عليه و سلم طرفا وهو ترك التعيين ۔ فتح الباري - ابن حجر (13/ 207

پس انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل سے ایک حصہ لیا اور یہ کسی کو خلیفہ بنانے کو ترک کرنا  ۔

لہذا اھل سنت کے پاس ابوبکر کی خلافت پر کوئی نص موجود نہیں ہے ۔

قابل توجہ نکتہ :

جیساکہ خلفاﺀ کے انتخاب کے وقت خود خلفاﺀ اور ان کے حامی کسی صحابی نے خلیفہ کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے کسی قرآنی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے استدلال نہیں کیا اور اپنے مخالفین کے سامنے کسی آیت اور حدیث کو پیش نہیں کیا ۔

جناب فخر رازی کے بقول، نص اگر ہوتی تو نص پیش کرتے، نص کو چھوڑ کر خلیفہ کو منتخب کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔

لہذا خلفاﺀ کی خلافت کسی آیت یا حدیث سے استدلال کا نتیجہ نہیں ہے ،اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے کوئی ایسا دستور نہیں تھا جس کہ وجہ سے خلفاﺀ کا انتخاب عمل میں آیا ہو اور اللہ اور اللہ کے رسول ص نے یہ حکم دیا ہو کہ پیغمبر کے بعد ان کا جانشین جناب ابوبکر اور پھر جناب عمر ہوگا  ۔

کیا جناب«ابوبكر» کی خلافت پر اجماع قائم ہوا ہے !؟

اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت پر نص تو نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ کے اصحاب نے ان کی خلافت پر اجماع کیا اور سب نے متفقہ طور پر انہیں خلیفہ انتخاب کیا اور ان کی بیعت کی ۔ جیساکہ رسول اللہ صلی و آلہ وسلم کا فرمان بھی ہے :

«إِنَّ أُمَّتِي لا تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ»

یقینا میری امت گمراہی پر اجماع نہیں کرئے گی .

سنن ابن ماجه، ج2، ص 1303، باب سواد الأعظم، ح 3950

قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے :

«وَ مَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى‏ وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبيلِ الْمُؤْمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَ ساءَتْ مَصيراً»

جو شخص راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے باوجود   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی مخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے*، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

سوره نساء(4): آیه 115

ابوبکر کی خلافت پر اجماع نہ ہونے پر تاریخی شواہد !

جناب ابوبکر کی خلافت پر اجماع کا ادعا کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے تاریخی شواہد کی بنیاد پر ابوبکر کی خلافت پر کسی قسم کا کوئی اجماع قائم نہیں ہوا تھا یعنی ایسا نہیں ہوا ہے کہ اصحاب نے مل بیٹھ کر متفقہ فیصلہ کیا ہو اور اتفاق راے سے ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا ہو۔

خود جناب  «عمر بن خطاب» کا اعتراف :

خلیفہ دوم واضح طور پر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ابوبکر کی خلافت ایک بغیر سوچے سمجھے فیصلے کا نتیجہ تھا ۔

«إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَ تَمَّتْ، أَلاَ وَ إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا»

ابوبکر کی بیعت ایک فلتہ [ بغیر مشورت کے اچانک انجام پانے والا کام ] اللہ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا .

صحيح البخارى، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، ج6، ص 2505، کتاب الحدود، بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ، ح 6442؛ دار النشر: دار ابن كثير اليمامة - بيروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة،  

اب اگر شورا یا اجماع نام کی کوئی چیز ہوتی تو جناب «عمر» کو اس بیعت کو «فَلْتَةً» قرار نہ دیتا ، یعنی ایسا کام جو کسی تدبیر اور مشورت کا نتیجہ نہ ہو ۔

کیوں خلیفہ اس کو ایسا کام کہہ رہا ہے کہ جو شر کا باعث بن سکتا ہے «وَ لَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا» ؟

جناب «شيخ محمد مرعي الأمين الأنطاكي»، متوفى 1383 هـ‍ ق؛ قاضی القضات «سوریه»، کہ جو ۶۷ سال کی عمر میں شیعہ ہوا یہ اور ان کے بھائی شیعہ ہونے سے کئی ہزار لوگ شیعہ ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس شر سے کبھی بھی محفوظ نہیں رہا ۔

«لاوالله ما وقى الله شرها، بل ما زال شررها يلتهب، و ضررها مستمر إلى الأبد»

اللہ کی قسم اس فلتہ کے شر سے محفوظ نہیں رہا اس کی خرابی اور ضرر جاری رہا  .

لماذا اخترت مذهب الشيعة، ص 414

اھل سنت کے بزرگ عالم جناب «قرطبی» کا اعتراف :

  «قرطبى» اس سلسلے میں کہتا ہے :

« فَإِنْ عَقَدَهَا وَاحِدٌ مِنْ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ فَذَلِكَ ثَابِتٌ وَ يَلْزَمُ الْغَيْرُ فِعْلَهُ، خِلَافًا لِبَعْضِ النَّاسِ حَيْثُ قَالَ: لَا تَنْعَقِدُ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ مِنْ أَهْلِ الْحَلِّ وَ الْعَقْدِ وَ دَلِيلُنَا أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَقَدَ الْبَيْعَةَ لِأَبِي بَكْرٍ وَ لَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ ذَلِكَ»

اگر اھل حل و عقد میں سے ایک شخص کسی کو خلیفہ معین کرئے تو اس کی خلافت ثابت ہوجائے گی ہماری یہ بات  بعض لوگوں کے نظریے کے خلاف ہے کہ جو کہتے ہیں کہ خلافت صرف اھل حل و عقد کی ایک جماعت کے ذریعے سے ہی صحیح ہوگی ۔ہماری دلیل یہ ہے کہ ابوبکر کی خلافت اھل حل و عقد میں سے عمر کی بیعت سے منعقد ہوئی اور اصحاب میں سے کسی نے اس کا انکار بھی نہیں کیا ۔

تفسير القرطبي، ج1، ص  269؛ دارالنشر: دارالشعب، القاهره

«قرطبی» کا یہ اعتراف تو ٹھیک ہے کہ ابوبکر کی خلافت صرف «عمر»  بیعت سے منعقد ہوئی۔  لیکن قرطبی نے اپنے اس ادعا کے لئے دلیل پیش نہیں کی، کسی صحابی نے اس پر اعتراض نہیں کیا ، کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی ، یہ جناب قرطبی کا ایک ایسا ادعا ہے کہ جس پر کوئی دلیل نہیں.

ماوردي شافعي ( متوفّاي 450 ) کا اعتراف :

 واضح طور پر کہا ہے : ابوبکر کی خلافت کے مسئلے میں کسی قسم کا اجماع قائم نہیں ہوا لہذا اجماع کی بات کرنا بیہودہ ہے۔

. « فقالت طائفة : لاتنعقد إلّا بجمهور أهل العقد والحلّ من كلّ بلد ، ليكون الرضا به عامّاً ، والتسليم لإمامته إجماعاً ، وهذا مذهب مدفوع ببيعة أبي بكر -رضي اللّه- عنه علي الخلافة باختيار من حضرها ، ولم ينتظر ببيعته قدوم غائب عنها » 

الأحكام السلطانيّة لماوردي ، ص 33 ، الأحكام السلطانيّة ، لأبي‏يعلي محمد ابن الحسن الفراء ، ص 117 . 

اہل سنت کے بزرگ متکلم  امام الحرمين ( متوفّاي 478 ) کا اعتراف

یہ امام غزالي کے استاد بھی ہیں ،انہوں نے اس اجماع کا انکار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :

 ؛ « اعلموا أنّه لا يشترط في عقد الإمامة ، الإجماع ، بل تنعقد الإمامة وإن لم تجمع الأمّة علي عقدها ، والدليل عليه أنّ الإمامة لمّا عقدت لأبي بكر ابتدر لإمضاء أحكام المسلمين ، ولم يتأن لانتشار الأخبار إلي من نأي من الصحابة في الأقطار ، ولم ينكر منكر . فإذا لم يشترط الإجماع في عقد الإمامة ، لم يثبت عدد معدود ولا حدّ محدود ، فالوجه الحكم بأنّ الإمامة تنعقد بعقد واحد من أهل الحلّ والعقد »

 خلافت کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیساکہ ابوبکر کی خلافت اور امامت کسی اجماع کے بغیر اور اس کی خبر دوسری جگہوں پر موجود اصحاب تک پہنچنے سے پہلے انجام پائی اور دوسروں تک یہ خبر پہنچائی گئی ۔[ یعنی ان سے راے لینے کے بجائے انہیں اس کی صرف اطلاع دی گئی ۔]

 امام حرمین آخر میں نتیجہ لیتے ہیں کہ  امامت، اهل حلّ و عقد کے ایک آدمی کی تائید سے بھی ہوسکتی ہے ۔

 الإرشاد في الكلام ، ص 424 ، باب في الاختيار وصفته وذكر ما تنعقد الإمامة .

مشہور متکلم  عضدالدين ايجي ( متوفّاي 756 ) صاحب كتاب « المواقف » کا اعتراف :

 آپ علم کلام کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں ،آپ اس سلسلے میں لکہتے ہیں :

۔ فاعلم أنّ ذلك لا يفتقر إلي الإجماع ، إذ لم يقم عليه دليل من العقل أو السمع ، بل الواحد والإثنان من أهل الحلّ والعقد كاف ، لعلمنا أنّ الصحابة مع صلابتهم في الدين اكتفوا بذلك ، كعقد عمر لأبي بكر ، وعقد عبد الرحمن بن عوف لعثمان » .
امامت اور خلافت اجماع کی طرح محتاج نہیں ہے ؛کیونکہ  کوئی بھی عقلی اور نقلی دلیل اجماع کے دلیلیت پر نہیں ہے ۔ اهل حلّ و عقد میں سے ایک ، دو کی بیعت کافی ہے ۔ اسی سے امامت اور خلافت منعقد ہوتی ہے ۔،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اصحاب دین میں صلابت اور پائیدار ہونے کے باوجود ،انہوں نے اسی پر اکتفاﺀ کیا ،جیساکہ ابوبکر کی امامت عمر کی بیعت سے اور عثمان کی بیعت عبد الرحمن بن عوف کی بیعت سے منعقد ہوئی ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ باقی شہروں کے لوگوں کے اجماع تو دور کی بات ہے، ابوبکر کی امامت  کے سلسلے میں خود اھل مدینہ کی اجماع کو بھی ضروری نہیں جانا گیا ۔

صاحب مواقف اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
؛ 
« ولم يشترطوا اجتماع مَن في المدينة فضلاً عن اجتماع الأمّة . هذا ولم ينكر عليه أحد ، وعليه انطوت الأعصار إلي وقتنا هذا »

 المواقف في علم الكلام ، ج 8 ، ص 351 . !

خلیفہ دوم کا اعتراف:

امیرالمؤمنین؛ زبیر تمام  انصار کی مخالفت پر  خلیفه دوم کا  اعتراف :

خلیفہ دوم واضح انداز میں اعتراف کرتا ہے کہ ابوبکر کی خلافت پر کسی قسم کا اجماع قائم نہیں ہوا ، بلکہ بہت سے مسلمان اس کے مخالف تھے :

«أَنَّ الأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَ الزُّبَيْرُ وَ مَنْ مَعَهُمَا... »

انصار نے ہماری مخالفت کی اور سب سقیفہ بن سعدہ میں جمع ہوئے اور علی علیہ السلام اور زبیر اور ان کے ساتھ دینے والوں نے ہماری مخالفت کی ۔

صحيح البخارى، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، ج6، ص 2505، کتاب الحدود، بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ، ح 6442؛ دار النشر: دار ابن كثير اليمامة - بيروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا

بنی امیه اور بنی هاشم کی طرف سے مخالفت :

«ابن تیمیه» متوفای 748 قمری کہتا ہے :

«وكان أكثر بني عبد مناف ـ من بني أمية وبني هاشم و غيرهم ـ لهم ميل قوي إلى عليّ بن أبي طالب يختارون ولايته.»

بنی امیه ، بنی هاشم  اور دوسرے قریش کے قبائل میں سے عبد مناف کے اکثر لوگوں کا جکاو علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف تھا اور ان لوگوں نے انکی ولایت اور جانشینی کو قبول کیا تھا ۔

منهاج السنة النبوية، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني، ج 7، ص 49، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406 ، الطبعة: الأولى ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم

انصار کی طرف سے امیرالمؤمنین ع سے بیعت کا اعلان:

«ابن الأثير» نے انصار کی طرف سے ابوبکر کی مخالفت کے بارے میں نقل کیا ہے :

«فقالت الأنصار أو بعض الأنصار: لانبايع إلاّ عليّاً»

تمام انصار  یا انصاف میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم علی ع کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کریں گے .

الكامل فی التاریخ، ج 2، ص 189؛ دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي؛ تاريخ الطبري، ج2، ص233؛ دارالنشر: دار الکتب العلمیه- بیروت

جناب «عایشه»، کا اعتراف :

جناب «عایشه» بنت ابوبکر کہتی ہے :

«وَ عَاشَتْ فَاطِمَةُ بَعْدَ النَّبِيِّ سِتَّةَ أَشْهُر... وَ لَمْ يَكُنْ علي يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ.»

  فاطمه سلام اللہ علیہا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھے مہینے تک زندہ رہیں اور اس دوران علی ابن ابی طالب ع نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ۔ ۔

صحیح البخاری، ج 4، ص 1549، ح 3998؛ دار النشر: دار ابن كثير- اليمامة - بيروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا

اہم سوال :

گزشتہ مطالب کی روشنی میں  قرطبی وغیرہ کہ جو یہ ادعا کرتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت پر اصحاب کا اجماع تھا، جبکہ خلیفہ دوم واضح انداز میں اعلان کر رہا ہے کہ بنی ھاشم والے ،سارے انصار ، امیر المومنین ع ،جناب زبیر اور ان دونوں کے ساتھ دینے والے دوسرے بہت سے اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔ ،اب ان سب کی طرف سے مخالفت کے باوجود یہ کیسا اجماع ہے کہ جس کا یہ لوگ ادعا کرتے ہیں ؟

«ابن حزم آندلسی» نے  ایسے اجماع کے بارے میں یک خوبصورت تعبیر استعمال کیا ہے  :

«وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى كُلِّ إجْمَاعٍ يَخْرُجُ عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ مِنْ الصَّحَابَةِ»

اللہ کی لعنت ہو ایسے اجماع ہر جس میں  علی بن ابیطالب اور ان کے ساتھ دینے والے اصحاب شامل نہ ہو ۔

المحلى، ج 9، ص 345؛ دار النشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي

رسول اللہ ص کی جگہ پر نماز ادا کرنا ابوبکر کی خلافت پر دلیل ہے ؟

اھل سنت والوں کا ابوبکر کی خلافت پر بہترین اور بنیادی ترین دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ابوبکر کو اپنی جگہ پر نماز پڑھانے کےلئے کہا ۔لہذا یہ ابوبکر کی جانشینی کے لائق ہونے پر دلیل ہے ۔

 جناب«عایشه» بنت ابوبکر نے نقل کیا ہے :

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: مُرِي أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ»

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دیا کہ ابوبکر  لوگوں کے لئے نماز پڑھائے ۔

صحیح البخاری، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، ج 3، ص 1238، ح3204، دار النشر: دار ابن كثير- اليمامة - بيروت - 1407 - 1987 ، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا

کہتے ہیں کہ آگر حضرت علی ع افضل تھے تو انہیں نماز پڑھانے کا حکم دیتے. لہذا حقیقت میں پیغمبر ص نے لوگوں کو اس کام کے ذریعے یہ سمجھایا کہ جو شخص امامت کی لیاقت رکھتا ہے وہ ابوبکر ہے ۔اب جب جناب ابوبکر دینی امور میں ہمارا امام ہوسکتے ہیں تو دنیوی امور میں بطریق اولی امامت کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

ایسا امام جماعت کہ جو خود پیغمبر ص کی اقتدا میں نماز ادا کر رہا تھا!!

پیغمبر کی جگہ پر جاکر امام جماعت بنے کا یہ ادعا تو کیا جاتا ہے لیکن یہ واقعہ اتنا عجیب و غریب طریقے سے نقل کیا ہے  کہ جس کے مطابق جس نماز میں  ابوبکر لوگوں کا امام بنے ہیں۔ اسی نماز میں خود ابوبکر ،رسول اللہ ص کی اقتدا میں نماز پڑھتا ہے۔

«بخاری» نے نقل کیا ہے :

«فَكَانَ أبوبَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا و كان رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا يَقْتَدِي أبوبَكْرٍ بِصَلَاةِ رسول اللَّهِ وَ النَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أبي بَكْرٍ»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی اقتداء۔

صحيح البخاري، ج1، ص 251، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ، ح 681؛ دار النشر: دار ابن كثير- اليمامة - بيروت - 1407 - 1987 ، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا۔

اب یہ دنیا کی عجیب و غریب نماز جماعت ہے جس میں دو امام  ایک ساتھ نماز جماعت ادا کر رہے ہیں ،اس میں پیغمبر ص ،ابوبکر کا خصوصی امام ، اور ابوبکر اصحاب کا امام جماعت اور نماز بھی ایک ہی !

اب اگر پیغمبر ص کی نماز باطل ہے تو ابوبکر کی نماز بھی باطل ہے ! اگر پیغمبر ص کی نماز صحیح ہے تو لوگوں نے کیوں آپ کی امامت میں نماز ادا نہیں کی ؟

«ابوبکر» مکبّر  تھا، امام جماعت نہیں تھا !!

«بخاری» نے ایک قابل توجہ روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ جس کے مطابق جس نماز کا اھل سنت والے  «ابوبکر»  کو امام جماعت کہتے ہیں،اسی میں بخاری کے نقل کے مطابق ابوبکر مکبّر تھا نہ امام جماعت :

«وَأَبُوبَكْر يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ»

ابوبکر لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے.

صحيح البخاري، ج1، ص 251، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ مَنْ أَسْمَعَ النَّاسَ تَكْبِيرَ الإِمَامِ، ح 680؛ دار النشر: دار ابن كثير- اليمامة - بيروت - 1407 - 1987 ، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا

لہذا عجیب تناقض گوئی ہے اگر رسول اللہ ص کا ہی حکم تھا اور آپ نے ہی ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد روانہ کیا تھا اور آُپ یہ چاہتے تھے کہ ابوبکر آُپ کی جگہ نماز ادا کرئے تو پھر آپ خود ہی مریضی کی حالت میں وہ بھی دو لوگوں کے سہارے کیوں مسجد میں تشریف لائے ؟ کیوں ابوبکر کو جماعت کرنے نہیں دیا ؟

قابل توجہ نکتہ : ؎

اب جو لوگ اس سے  استدلال کرتے ہیں اور اگر  ان کا استدلال صحیح ہو اور پیغمبر ص اس حکم کے ذریعے لوگوں کو ابوبکر کی صلاحیت اور قابلیت اور اہلیت کو سمجھانا چاہتے تھے تو یہاں تو نتیجہ برعکس نکلتا ہے ،یہاں تو آُپ سخت بیماری کی حالت میں تشریف لاکر ابوبکر کی امامت کو ناتمام کرتے ہیں ۔

اس سلسلے کی مختلف قسم کی روایات اور ان روایات کے مضامین کو سامنے رکھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق انجام پایا ۔یہ حکم جناب رسول اللہ ص کا نہیں تھا جب انہیں صورت حال کا علم ہوا تو آپ نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے سخت تکلیف کی حالت میں اپنے آُپ کو مسجد تک پہنچایا ۔

«ابوبكر» کو اس مقام تک پہنچانے کے لئے طاقت کا استعمال !!

اگر ہم جناب ابوبکر کی خلافت کے سلسلے میں تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کی خلافت پر نہ کوئی قرآن و سنت سے نص موجود تھا ،نہ ان کی خلافت پر کوئی اجماع، یہاں تک کہ لوگوں کو اس انتخاب کے سلسلے مین کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں تھا، ڈرا ،دھما کر انہیں لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے  اور لوگوں سے زبردستی ان کے لئے بیعت لی گئ۔

اس سلسلے میں تاریخ میں بہت سے شواہد موجود ہیں ،ہم ان میں سے بعض یہاں نقل کرتے ہیں ،

«عمر بن خطاب» کا لوگوں کو ڈرانا اور خوف وھراس کا ماحول پیدا کرنا :

بخاری نے جناب «عایشه» سے نقل کیا ہے :

«لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ، وَ إِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا»

عمر نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے۔

صحیح البخاری، ج3، ص 1341، كتاب أصحاب النبي، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا»، ح 3467؛ دار النشر: دار ابن كثير- اليمامة - بيروت - 1407 - 1987 ، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا  

لوگوں سے  زبر دستی بیعت لینا :

«ابن ابی الحدید» نے «براء بن عازب» سے نقل کیا ہے :

«فلمّا قبض رسول اللّه صلى‏الله‏عليه‏و‏آله‏وسلم... فكنت أتردّد إلى بنى هاشم وهم عند النبى صلى ‏الله ‏عليه ‏و‏آله ‏وسلم فى الحجرة... واذا أنا بأبى بكر قد أقبل و معه عمر و أبو عبيدة و جماعة من أصحاب السقيفة و هم محتجزون بالأَزْرِ الصنعانيّة لايمرّون بأحد الاّ خبطوه. قدّموه فمدّوا يده فمسحوها على يد أبي بكر يبايعه شاء ذلك أو أبى»

 جس وقت پیغمبر  ص دنیا سے چلے گئے ، اس وقت میرا آنا جانا بنی ھاشم کے پاس  تھا یہ لوگ کمرے میں رسول اللہ ص کے جنازے کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ۔ اسی دوران ابوبکر کو دیکھا ، ابوبکر کے ساتھ عمر ، ابوعبیده اور سقیفہ میں ان کے ساتھ موجود افراد تھے ،ان کے ساتھ صنعا کی ڈنڈیاں تھیں ، جو بھی ان کے سامنے آتے ۔

یہ لوگ، لوگوں کو ڈنڈا مارتے اور پکڑ کر ابوبکر کی بیعت کے لئے لے آتے ، لوگ چاہئے یا نہ چاہئے ان کے ہاتھ کو ابوبکر کے ہاتھ سے چھوتے .

شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج1، ص 137؛ دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1418هـ - 1998م، الطبعة : الأولى، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري؛ نثر الدر، ج1، ص 278؛ دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1424 هـ - 2004 م الطبعة : الأولى، تحقيق : خالد عبد الغني محفوظ

بیعت لینے کے لئے چھڑی کا استعمال :

مرحوم «شیخ مفید» اپنی کتاب «الجمل»، میں اہل سنت کے ایک مشہور عالم  «محمدبن اسحاق کلبی سے نقل کیا ہے :

«كان جماعة من الاعراب قد دخلوا المدينة ليتماروا منها ... فأنفذ إليهم عمر واستدعاهم وقال لهم خذوا بالحظ من المعونة على بيعة خليفة رسول اللّه واخرجوا إلى الناس واحشروهم ليبايعوا فمن امتنع فاضربوا رأسه وجبينه ... وأخذوا بأيديهم الخشب وخرجوا حتى خبطوا الناس خبطا وجاؤا بهم مكرهين إلى البيعة.»

باھر سے بعض لوگ اپنے خردو نوش کا سامان لینے مدینہ میں آئے ہوئے تھے ، جناب عمر نے اس گروہ کو بلایا اور گروہ والوں کو ابوبکر کے لئے لوگوں سے بیعت لینے کا حکم دیا ، عمر نے ان لوگوں سے کہا ْ: خورد و نوش کے جتنےسامان چاہئے میں تم لوگوں کو دئے دیتا ہوں ،لیکن لوگوں کے پاس جائیں اور انہیں ابوبکر کی بیعت کا کہے ،جو بھی بیعت سے انکار کرئے تو چھڑی سے ان کے سر اور چہرے پر مارے ،یہ لوگ ہاتوں میں لکڑیاں لیے لوگوں کو یعت کے لئے لے آتے تھے اور لوگوں کو خلیفہ کی بیع پر مجبور کرتے ۔

الجمل شيخ مفيد، ص 59

قبيله «اسلم»، کو ابوبکر کی بیعت کے لئے استعمال کرنا  :

«طبری» لکھتا ہے :

«إن أسلم أقبلت بجماعة فبايعوا أبا بكر فكان عمر يقول: ما هو إلاّ أن رأيت أسلم، فأيقنت بالنصر»

قبیله اسلم والوں نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ ابوبکر کی بیعت کی. عمر کہتا ہے : بنی اسلم قبیلہ والوں نے جب ابوبکر کی بیعت کی تو ہمیں اپنی کامیابی کا یقین ہوا۔

تاريخ الطبري ج 2 ص 244، دارالنشر: دارالکتب العلمیه/ بیروت؛ كامل ابن الأثير ج 2 ص 224؛ الحاوی الکبیر، علی بن محمد ماوردی، ج 14، ص 99؛ دارالنشر: دارالکتب العلمیه/ بیروت  

قبیله «اسلم»، مدینہ کے اطراف میں بسنے والے قبائل میں سے تھا اور انصار سے بنیادی اور قدیمی رنجس اور اختلاف رکھتے تھے ،یہ لوگ سری اور ایک طے شدہ پروگرام کے ساتھ مدینہ میں آئے اور ہاتھوں میں ڈنڈا لے کر لوگوں سے زبردستی بیعت لیے ۔ ۔

  حضرت زهرا (سلام الله علیها)  کے گھر کو آک لگانے کی دھمکی ، نقل «بلاذری» :

بیعت نہ کرنے کی صورت میں حضرت زهرا (سلام الله علیها)  کے گھر کو آک لگانے کی دھمکی دی گئی ؛ جیساکہ «بلاذری» متوفی 270 هجری، نے «عبدالله بن عون» سے نقل کیا ہے ۔

« أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ يُرِيدُ الْبَيْعَةَ، فَلَمْ يُبَايِعْ. فَجَاءَ عُمَرُ، و معه قَبَسٌ فَتلقته فاطمة على الباب، فقالت فاطمة: يا ابن الْخَطَّابِ، أَتُرَاكَ مُحَرِّقًا عَلَيَّ بَابِي؟ قَالَ: نَعَمْ»

ابوبکر نے حضرت علی ع سے بیعت لینے کے لئے کسی کو ان کے گھر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے بیعت سے انکار کیا  اس  وقت عمر(فتیلہ، آگ بڑھکانے والی چیز) لے کر آئے اور گھر کے سامنے حضرت زہرا ع سے ملاقات ہوئی۔ حضرت زہراع  نے فرمایا: اے فرزند خطاب ہمارا گھر جلانے آئے ہو؟ عمر نے جواب دیا: ہاں،

انساب الاشراف، بلاذرى، ج1، ص586؛ تحقيق: سهيل زكار و رياض الزركلي، الناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996م  

اس روایت کی سند کی تحقیق :

«ذهبی» نے  «علی بن محمد مدائنی» کے بارے میں کہا ہے :

«المَدَائِنِيُّ أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ اللهِ: العَلاَّمَةُ، الحَافِظُ، الصَّادِقُ... قال يحيى: ثقة ثقة ثقة.»

علی بن محمد مدائنی، بہت زیادہ علم کا مالک ، حافظ( کہ جس کو  ایک لاکھ  سے زیادہ حدیث یاد ہو )، سچا آدمی ہے... یحیی بن معین نے تین مرتبہ ان کے بارے میں کہا ہے : یہ قابل اعتماد ہے ، قابل اعتماد ہے ،قابل اعتماد ہے .

سير أعلام النبلاء ج10، ص 401؛ دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413 ، الطبعة: التاسعة، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي

«ابن حبان» نے «مسلمة بن محارب» کے بارے میں کہا ہے :

«مسلمة بن محارب ثقه»

مسلمة بن محارب قابل اعتماد ہے .

الثقات ابن حبان، ج7، ص 490؛ دار النشر: دار الفكر - 1395 - 1975، الطبعة: الأولى، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد

«ابن حجر عسقلانی» نے  «سلیمان تیمی» کے بارے میں لکھا ہے  :

«سليمان التِيْمي: قال ابن معين و النسائي: ثقة.»

ابن معین  اور نسائی نے کہا ہے : سلیمان تیمی ثقہ ہے .

تهذيب التهذيب، ج 4، ص176؛ دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1404 - 1984، الطبعة: الأولى

«بخاری» نے «عبدالله بن عون» کے بارے میں کہا ہے :

«عبدالله بن عون: قال ابن المبارك: ما رأيت أحدا أفضل من ابن عون»

ابن مبارک نے کہا ہے کہ میں نے ابن عون سے زیادہ بافضیلت شخص نہیں دیکھا ہے ،

تاريخ الكبير بخاری، ج 5، ص 163، ش 512؛ دار النشر: دار الفكر، تحقيق: السيد هاشم الندوي

  حضرت زهرا (سلام الله علیها)  کے گھر کو آک لگانے کی دھمکی  نقل «طبری»:

«طبری» متوفی 310 هجری، نے  «عمر بن خطاب»، کی طرف سے  امیرالمؤمنین سے بیعت لینے کے لئے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی والی روایت کو یوں نقل کیا ہے :

« عَنْ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: أَتَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْزِلَ عَلِيٍّ وَفِيهِ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لأَحْرِقَنَّ عَلَيْكُمْ أَوْ لَتَخْرُجُنَّ إِلَى الْبَيْعَةِ

زیاد بن کلیب نے نقل کیا ہے کہ عمر نے  قسم کھائی کہ اگر گھر سے نکل کر بیعت کرنے نہ آئے تو گھر کو گھر والوں سمیت آگ لگا دوں گا ۔

تاريخ الطبرى، ج2،‌ ص233؛ دار النشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ابن ابی شیبہ المصنف میں لکھتے ہیں: حدثنا محمد بن بِشْرٍ نا عُبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلَم عن ابیه اسلم اَنَّهُ حِینَ بُویِعَ لاِبِی بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) کَانَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ یَدْخُلان عَلی فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فََیُشَاوِرُونَهَا وَیَرْتَجِعُونَ فی اَمرِهِمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذالِکَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّی دَخَلَ عَلی فَاطِمَةَ، فَقَالَ: یَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) مَا مِنَ الْخَلْقِ اَحَدٌ اَحَبُّ اِلَینا مِنْ اَبِیکِ، وَمَا مِنْ اَحَدٍ اَحَبُّ اِلَیْنَا بَعْدَ اَبِیکِ مِنْکِ، وَایْمُ اللَّهِ مَا ذَاکَ بِمَانِعِیَّ اِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَکِ اَنْ آمُرَ بِهِمْ اَنْ یُحْرَقَ عَلیْهِمُ الْبَیتُُ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ اَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِی وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیَحْرِقَنَّ عَلَیکُمُ الْبَیْتَ، وَایْمُ اللَّهِ لَیُمْضِیَنَّ مَا حَلَفَ عَلَیْهِ فَانْصَرِفُوا رَاشِدِینَ، فِرُّوا رَاْیَکُمْ وَلاَ تَرْجِعُوا اِلَیَّ، فَانْصَرَفُوا عَنْهَا وَلَمْ یَرْجِعُوا اِلَیْهَا حَتَّی بَایَعُوا لاَبِی بَکْرٍ

جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تو علی و زبیر بیت فاطمہؑ میں بات چیت اور مشاورت کیلئے جمع ہوئے، یہ خبر عمر بن خطاب تک پہنچی۔ وہ بیت فاطمہؑ پر آیا اور کہا: اے بنت رسول خداؐ! ہمارے نزدیک محبوب ترین فرد آپ کے والد ہیں اور ان کے بعد آپ!!! مگر خدا کی قسم! یہ محبت اس امر سے مانع نہیں ہے کہ اگر یہ افراد تیرے گھر میں جمع ہوں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے سمیت جلا ڈالیں۔

عمر یہ جملہ کہہ کر چلا گیا، جب علیؑ اور زبیر گھر واپس آئے تو پیغمبرؐ کی لخت جگر نے علیؑ و زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم اٹھائی ہے کہ اگر دوبارہ تم لوگ جمع ہوئے تو گھر کو تمہارے سمیت جلا ڈالے گا، خدا کی قسم! اس نے جو قسم کھائی ہے اسے انجام دے گا!»

حضرت علي (ع) کو بیعت کے لئے بدترین شکل میں حاضر کرنے کا حکم !!

 

«بلاذری» نے «انساب الأشراف»، میں ابوبکر کی طرف سے امیرالمؤمنین ع سے بیعت لینے کے سلسلے میں  ایک قابل توجہ حکم کو نقل کیا ہے ۔

« عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُمْ حِينَ قَعَدَ عَنْ بَيْعَتِهِ وَقَالَ: ائْتِنِي بِهِ بِأَعْنَفِ الْعُنْفِ. فَلَمَّا أَتَاهُ، جَرَى بَيْنَهُمَا كَلامٌ. فقال: احْلُبْ حَلَبًا لَكَ شَطْرُهُ. واللَّه مَا حِرْصُكَ على إمارته اليوم إلا ليؤثرك»

ابن عباس کہتے ہیں : جس وقت علی بن ابیطالب ع نے ابوبکر کی بیعت کا انکار کیا تو ابوبکر نے عمر کو ان کی طرف یہ حکم دئے کر بھیجا : علی کو بدترین انداز میں میرے پاس لے آو اور جس وقت عمر نے حضرت علی ع کو حاضر کیا تو عمر اور حضرت علی ع کے درمیان ایک جھگڑا ہوا ، اس وقت آپ نے عمر سے کہا  : خلافت کا صرف اتنا دودھ دوھو جتنا تمہارا حصہ ہے، اللہ کی قسم آج خلافت پر اس لئے جان دئے رہے ہو کہ تم کل اس خلافت کے مالک بن جاؤ....  

 أنساب الأشراف بلاذری، ج1، ص 587 ؛ تحقيق: سهيل زكار و رياض الزركلي الناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م

اس روایت کے مطابق  امیرالمؤمنین ع نے ابوبکر کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں عمربن خطاب کی طرف سے زیادہ کوشش کے پیچھے موجود عوامل کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ بتایا کہ  اے عمر! تم یہ سب اپنی خلافت کے لئے زمین ہموار کر رہے ہو، ابوبکر کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کر رہے ہو جبکہ اصلی مقصد اور ہدف خلافت کا حصول ہے ۔

«ابن قتيبه دينوری» نے امیرالمؤمنین(سلام الله علیه) سے جبری بیعت لینے کےواقعے کو اس طرح نقل کیا ہے :

«فمضوا به إلى أبي بكر، فقالوا له: بايع . فقال : إن أنا لم أفعل فمه؟! قالوا : إذا والله الذي لا إله إلا هو نضرب عنقك! قال: إذا تقتلون عبد الله و أخا رسوله و أبو بكر ساكت لا يتكلم فقال له عمر: ألا تأمر فيه بأمرك؟ فقال: لا أكرهه على شيء ما كانت فاطمة إلى جنبه»

علی کو ابوبکر کے پاس لایا اور ان سے بیعت کرنے کو کہا ! اس وقت آپ نے فرمایا : اگر میں بیعت نہ کروں تو کیا کروگے ؟ جواب دیا : اگر بیعت نہ کرئے تو اللہ کی قسم آپ کی گردن اڑھا دیں گے ، اس وقت آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ایسی صورت میں اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے اور رسول اللہ ص کے بھائی کے قتل کے مرتکب ہوں گے ۔اس وقت ابوبکر خاموش ہوا اور کچھ نہیں کہا ،لیکن عمر نے جواب دیا : کیا علی ع کے کام تمام کرنے [ گردن اڑھانے] کا حکم نہیں دو گے؟ ابوبکر نے جواب دیا : جب تک فاطمہ س علی کے ساتھ ہیں میں علی کو کسی چیز پر مجبور نہیں کروں گا ۔ .

الإمامة والسياسة، ج1، ص 16؛ دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م تحقيق: خليل المنصور

اب دیکھیں یہ لوگ خلافت کے مقام کو حاصل کرنے کے لئے  امیرالمؤمنین ع کو بھی درمیان سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن جناب حضرت فاطمه (سلام الله علیها) کے وجود کو اس راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر فاطمہ س کی زندگی میں انہیں قتل کرتے تو جناب سیدہ انہیں رسوا کرتی ۔۔ ۔

اب اگر اس روایت کو صحیحین میں موجود اس روایت سے ملائے کہ جس کے مطابق جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کہ رحلت کے بعد جب جناب امیر المومنین علیہ سلام نے لوگوں کا منفی رویہ دیکھا اور لوگوں کے چہرے بگھڑتے دیکھا تو ابوبکر کی بیعت کا فیصلہ کیا ۔

اگر روایت  صحیح ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کو گزند نہ پہنچانے کے سلسلے میں  خلفاﺀ کی نظر میں موجود رکاوٹ اب دور ہوگئ تھی۔ لہذا یہ خوف تھا کہ دوبارہ آپ سے بیعت لینے کے لئے طاقت کا استعمال کرئے، اسی لئے آپ نے خطرے کو ٹالنے کے لئے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ حقیقت میں یہ بچاو کی ایک تدبیر ہے ۔ نہ خلیفہ کو اس مقام کا لائق سمجھ کر خلیفہ کی ہاتھ پر شرعی بیعت ۔

 

نتیجہ :

لہذا گزشتہ بیان سے یہ بات روشن ہوئی کہ جناب «ابوبکر»، کی خلافت پر کوئی نص موجود نہیں ہے ، ان کی خلافت کسی اجماع کا نتیجہ نہیں ہے، ایسا نہیں ہوا کہ اصحاب نے جناب ابوبکر کو خلافت کا اہل سمجھا ہو اور مل بیٹھ کر  اصحاب کی راے اور متفقہ فیصلے سے جناب ابوبکر کو خلیفہ انتخاب اور ان کی بیعت کی ہو ، خود اہل سنت کی تاریخی اسناد کے مطابق ڈرا ،دھمکا کر لوگوں سے بیعت لی گئی ، طاقت کا استعمال اور ڈنڈے کے زور پر خلافت کو اپنے قبضے میں لیا۔

 

والسلام علی من اتبع الهدی

  تحقیقاتی ادارہ،  حضرت ولی عصر(عجل الله تعالی فرجه الشریف)

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: