موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
مہدویت قرآن میں
مندرجات: 1918 تاریخ اشاعت: 05 دي 2021 - 16:39 مشاہدات: 3697
یاداشتیں » پبلک
مہدویت قرآن میں

 

 

اعتراض: مہدی نامی شخص کی آمد یا وجود پر کوئی قرآنی دلیل نہیں ہے۔ اگر اس اہم مسئلے کی کوئی حقیقت ہوتی تو قرآن جو کہ«تبیان کلّ شیء»ہے میں اس کا کوئی ذکر  کیوں نہیں ہوا ہے اور مہدی کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا ہے؟

تحلیل اور جائزہ

اس اعتراض کے جواب میں چند نکات بیان کریں گے:

پہلا نکتہ:

مہدویت کا مسئلے پر اسلامی مذاہب کا اتفاق ہے اور یہ شیعوں سے مختص نہیں ہے اور اس عقیدے کو شیعوں سے منسوب کرنے کی وہابی کوششیں بے کار ہے  آخر الزمان میں ایک عالمی مصلح  کی آمد تمام ابراہیمی ادیان کا مشترکہ عقیدہ ہے اور مسلمانوں سے  بھی مختص نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ:

سیاسی مسائل کے بیان میں قرآن کا طریقہ تشریح اور توصیف ہے کیونکہ  تشریحی روش میں کلام  کی حقیقت اور نشانیاں بیان کی جاتی ہیں اور اس طرح شبیہ سازی کو ناممکن بناتا ہے جبکہ اگر امام مہدیؑ اور ان کے والد کا نام قرآن میں بیان ہوتا تو یہ نہ صرف کسی مشکل کا حل ہوتا بلکہ ہزاروں افراد ناموں میں شبیہ سازی کرکے مہدویت کا ادعا کرتے اس بات کی بہترین دلیل امام مہدی اور ان کے والد کے ناموں کا احادیث میں بیان ہونا ہے تاریخ میں درجنوں افراد ان احادیث کی بنیاد پر مہدویت کے دعوے دار بنے۔ قرآن نے تمام زمین پر غلبہ، طاغوت کی سرنگونی اور عدل و انصاف کی وسعت جیسی نشانیوں کو بیان کر کے ہر قسم کی شبیہ سازی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کیا ہے۔ کیونکہ یہ علائم اور نشانیاں معمولی افراد کی طاقت سے باہر ہے۔

تیسرا نکتہ:

 قرآن میں مسئلہ مہدویت سے متعلق کافی آیات موجود ہیں۔ ان آیات کو چند گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

الف: وہ آیات جو ہر زمانے میں امام زمان کے وجود کو ثابت کرتی ہیں جیسے:

۱- ‏سورہ آیت ۷ میں اللہ فرماتا ہے:( إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ، ں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔)  یہ آیت رہنماوں کی اقسام بیان کر رہی ہے: ایک رہنما کا اصل کام انذار اور  بھٹکے ہووں کی راہ راست کی جانب رہنمائی کرنا ہے اور کچھ ایسے رہنما ہیں جن کا کام ایسے لوگوں کی ہدایت اور رہبری ہے جنہیں صراط مستقیم پر آنے کے بعد رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ احادیث کے مطابق منذر پیغمبر اکرم اور ہادی سے مراد ہر دور کے امام ہے۔ اس آیت میں(وَلِكُلِ قَوْمٍ هَادٍ) کا جملہ واو عطف سے(إِنَمَا أَنْتَ مُنْذِّرٌ) کے جملے سے جدا ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کا اصل کام "انذار" ہے تا کہ گمراہوں کو سیدھے راستے پر لایا جائے۔ اس کے بعد ہر دور کے رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو سیدھے راستے پر آنے کے بعد رہنمائی کریں۔ (وَلِكُلِ قَوْمٍ)  کا جملہ ہر زمانے میں ایسے رہبروں کی ضروت پر دلالت کرتا ہے ورنہ یہ جملہ بے معنی ہوگا۔ فریقین کی روایات میں ہادی سے امام علی مراد لی گئی ہے۔ منجملہ طبری نے ابن عباس سے روایت کی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر اکرم ؐنے حضرت علی کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:( أنتَ الهادی یا علی بِکَ یَهتَدی المُهتَدُون؛ یا علی آپ ہادی ہیں اور ہدایت پانے والے آپ کے ذریعہ ہدایت پائیں گے[1]

اہل بیت سے بھی اسی معنی میں روایت ہوئی ہے امام باقر نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: (أَمَا وَ اللَهِ مَاذَهَبَتْ مِنَا وَ مَا زَالَتْ فِینَا إِلَى السَاعَة؛ لیکن خدا کی قسم یہ آیت ہمارے درمیاں تا قیامت باقی رہے گی۔)[2] اس آیت میں ہر قوم کی " ہدایت گری" کا ذکر ہوا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہوگا لہذا امام باقر سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:(رَسُولُ اللَهِ الْمُنْذِّرُ وَ لِكُلِ زَمَانٍ مِنَا هَادٍ یَهْدِیهِمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ نَبِيُ اللَهِ؛ رسول اللہ منذر ہیں اور ہر زمانے کا ایک ہادی ہے جو پیغمبر کے لائے ہوئے اصولوں کی جانب ہدایت کرتا ہے۔)[3]

2-آیت صادقین: سورہ توبہ آیت ۱۱۹ میں خدا فرماتا ہے: (يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔) اس آیت میں تین ذمہ داریوں کا ذکر ہوا ہے :الف) يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا۔ ب) اتَّقُوا اللَّهَ، ج) مَعَ الصَّادِقينَ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آیت میں اہل تقوا مومنوں کو صادقین کی ہمراہی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں صادقین سے سچے لوگ مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو  «کونوا من الصادقین»، فرماتا جبکہ یہاں"مع" کا استعمال ہوا ہے اس معلوم ہوتا ہے کہ صادقین  کا مقام باتقوا مومنوں سے زیادہ ہے اور باتقوا مومنوں پر صادقین کی ہمراہی فرض ہے اس کلام کا معنی یہ ہے کہ اہل تقوا مومنوں پر صادقین کی اطاعت لازمی ہے۔ اگر تمام طول تاریخ میں مومنوں کو اطاعت صادقین کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر زمانے میں صادقین کی موجودگی ہے۔ فخررازی نے اس آیت کی تفسیر میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے آپ لکھتے ہیں:( «إنّه تعالى أمر المؤمنین بالكون مع الصادقین، و متى وجب الكون مع الصادقین فلا بدّ من وجود الصادقین في كلّ وقت؛  خدا نے اس آیت میں صادقین کی ہمراہی کا فرمان دیا ہے جب صادقین کی ہمراہی فرض ہے تو لازم ہے کہ ہر دور میں صادقین موجود ہوں) آپ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہر زمانے میں معصوم کی موجودگی ضروری ہے لیکن وہ معصوم اجماع امت ہے۔)[4]

فخر رازی نے آخر میں کوئی اچھا نتیجہ اخذ نہیں کیا لیکن ان کا اصل کلام یہ ہے کہ یہ ایت ہر دور میں ایک صادق معصوم کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے۔

۳-آیت اولی الامر: سورہ نساء آیت ۵۹ میں بیان ہوا ہے: (ا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ، اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو) خدا کی جانب سے بغیر کسی شرط کے اولی الامر کی اطاعت اس صورت میں صحیح ہے کہ وہ امت کے درمیان موجود ہوں اور بغیر خطا اور غلطی کے ہوں ورنہ (أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ(بے معنی ہوگا۔

فخر رازی اس بارے لکھتے ہیں: «إنّ اللَه تعالى أمر بطاعة أولي الأمر على سبیل الجزم، و ثبت أنّ كلّ من أمر اللَه بطاعته على سبیل الجزم وجب أن یكون معصوماً عن الخطأ، فثبت قطعاً أنّ أولي الأمر المذكور في هذه الآیة لا بدّ و أن یكون معصوماً؛ اللہ نے جزما بغیر کسی شرط کے اولی الامر کی اطاعت کا فرمان دیا ہے اور جس کی اطاعت کا خدا جزما حکم دے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے لہذا آیت میں مذکور اولی الامر کا معصوم ہونا لازمی ہے۔

مزید لکھتے ہیں:لیکن اس زمانے میں ہم امام معصوم کی شناخت سے عاجز ہیں لہذا یہاں اجماع امت کی اطاعت مراد ہے۔[5]
یہاں ہم فخررازی کے کلام کا تجزیہ نہیں کریں گے لیکن جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات ہر دور میں معصوم انسان کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں۔ مہدویت کا عقیدہ یعنی کامل معصوم اور زندہ انسان جس کی اطاعت سب پر فرض ہے۔

ب) وہ آیات جو باطل کے مقابل حق کی مطلق پیروزی پر اللہ تعالی کے وعدوں کو بیان کرتی ہیں:

یہ آیات مستقبل میں وعدہ الہی کی تکمیل کو بیان کرتی ہیں پیغمبر ؐ کی تفسیر اور ہل بیتؑ کے بیانات کے بغیر مصلح اور مہدویت سے ان آیات کی ربط معلوم کرنا نامکمن ہے۔یہاں کچھ آیات کو بیان کریں گے:

۱-سورہ انبیاء آیت ۱۰۵ میں اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُون،  اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔)

یہ واضح ہے کہ آج تک یہ وعدہ محقق نہیں ہوا اور خدا کبھی اپنے وعدوں کے خلاف عمل نہیں کرتا لہذا یہ آیت مستقبل کی خبر دے رہی ہے جب نیک افراد زمین کے حکمران ہونگے(یرث) کا لفظ اس بات پر دلیل ہے کہ اس زمانے میں غیرصالح حکومتیں نابود ہو جائیں گی اس کے بعد صالحین وارث زمین ہونگے۔

۲-سورہ نور آیت ۵۵ میں ارشاد ہوتا ہے: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى‏ لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً۔۔۔تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا۔)

اس آیت کے مخاطب مسلمان ہیں لہذا معلوم ہوا  کہ یہ وعدہ اس امت کے مستبقل سے متعلق ہے اور ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔

۳-سورہ توبہ آیت ۳۳ اور سورہ صف ۹سورہ فتح ۲۸ میں آیا ہے:( هُوَ الَّذي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى‏ وَ دينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه،اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے)

اسلام کی حاکمیت اور تمام ادیان پر اسلام کے غلبے کے بارے قرآن میں واضح بیان ہوا ہے لیکن یہ وعدہ ابھی محقق نہیں ہوا، اور خدا کا وعدہ حقیقت کے خلاف نہیں ہوا لہذا جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے یہ آیات مہدویت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور یہ وعدہ مستقبل میں پورا ہوگا۔ 

ج) وہ آیات جسے امام مہدی سے مطابقت دی گئی ہیں:

ان آیات کی تعداد زیادہ ہیں یہاں ایک نمونے پر اکتفا کیا جائے گا قرآن فرعونیوں پر حضرت موسی اور بنی اسرائیل کی پیروزی کے بارے ایک عام قانون بیان فرمایا:( وَ نُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثينَ، اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائی۔)[6]

یہ آیت نزول  اور سیاق کے اعتبار سے بنی اسرائیل سے متعلق ہے لیکن احادیث اسے امام زمان کے زمانے سے ربط دیتی ہیں۔حضرت علی نہج البلاغہ میں  اس بارے فرماتے ہیں:(لَتَعْطِفَنَ الدُنْیَا عَلَیْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا عَطْفَ الضَرُوسِ
عَلَى وَلَدِهَا وَ تَلَا عَقِیبَ ذَلِكَ : وَ نُرِیدُ أَنْ نَمُنَ عَلَى الَذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَةً وَ نَجْعَلَهُمُ
الْوارِثِین؛ دنیا سرکشی کے بعد ایک ایسی اونٹنی کی مانند جو دودھ دہنے والوں سے دودھ اپنے بچوں کے لیے بچا کر رکھتی ہے، ہماری طرف آئے گی)
[7]۔ اس کے بعد آپ نے آیت(وَ نُريدُ أَنْ نَمُنَّ) کی تلاوت کی۔ امام علی نے اس آیت کو ایک عام قاعدے کی طرح امام مہدی  سے مطابقت دی۔

د) آیات تأویلی و باطنی :

یہ ایسی آیات ہیں جن کا باطنی معنی اہل بیت کی احادیث کے مطابق  مہدویت سے متعلق ہے ان آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں کچھ آیات بطور نمونہ بیان کریں گے:

۱-سورہ ملک آیت ۳۰: (قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ ماؤُكُمْ غَوْراً فَمَنْ يَأْتيكُمْ بِماءٍ مَعين، کہدیجئے: بتلاؤ کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں جذب ہو جائے تو کون ہے جو تمہارے لیے آب رواں لے آئے؟)

آیت کا ظاہر پانی  جو کہ مایہ حیات زمین اور آبادی ہے سے متعلق ہے لیکن اس کا باطنی معنی دلوں کی حیات سے متعلق ہے۔[8] امام باقر نے فرمایا:(نزلت في الإمام القائم، یقول: إِنْ  أَصْبَحَ إِمَامُكُمْ غَائِباً عَنْكُمْ لَا تَدْرُونَأَیْنَهُوَ؟ فَمَنْ یَأْتِیكُمْ بِإِمَامٍ ظَاهِرٍ؛

یہ آیت امام قائم کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر امام آپ کی نظروں سے پنہان ہو اور معلوم نہ ہو کہ کہاں ہیں؟ تو آپ[9] کے لیے امام کو کون بھیجے گا۔۔۔پھر مزید فرمایاوَ اللَهِ مَا جَاءَ تَأْوِیلُ هذه الْآیَةِ وَ لَا بُدَ أَنْ یَجِيءَ؛ خدا کی قسم اس آیت کی ابھی تاویل نہیں ہوئی ہے اور آخر کار ایک دن ضرور تاویل ہوگی۔)

2-وہ آیات جو "احیا زمین" یعنی زمین کے مرنے بعد زندہ ہونے سے متعلق ہے وہ انسانی معاشرے کی امام زمان کے ہاتھوں تجدید حیات سے متعلق ہیں۔ اس تفسیر سے ان آیات کی ظاہری تفسیر مراد نہیں بلکہ باطنی معنی مراد ہے۔
امام باقر سے روایت ہوئی ہے: (اعْلَمُوا أَنَ اللَهَ یُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها قَالَ یُحْیِیهَا اللَهُ عَزَ وَ جَلَ بِالْقَائِمِ بَعْدَ مَوْتِهَا. یَعْنِي بِمَوْتِهَا كُفْرَ أَهْلِهَا وَ الْكَافِرُ مَیِت، امام نے آیت (أَنَ اللَهَ یُحْيِ الْأَرْضَ) کی تفسیر میں بیان فرمایا: قائم کے ذریعے زمین کو جو اس کے اہل کے کفر سے مرچکی تھی زندہ کرےگا(اسلام کی جانب واپش لے آئیں گے) لہذا مردہ زمین سے مراد، اہل زمین کی موت ہے اور کافر انسان حقیقت میں مردہ ہی ہے۔
[10]

ان آیات کے علاوہ مہدویت سے متعلق قرآن میں اور بھی آیات ہیں منجملہ سورہ مائدہ آیت ۵۴ جس میں امام زمان کے ساتھیوں کی خصوصیات بیان ہوئی ہے۔

(يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرينَ يُجاهِدُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ، اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو اللہ سے محبت کریں گے اور جن سے اللہ محبت کرے گا مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریںگے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے)[11]

 (فَسَوْفَ یأْتِي اللَهُ بِقَوْمٍ)سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آیندہ آئیںگے اور  ان میں چھے خصوصیات ہونگے۔ سورہ محمد آیت ۲۸ بھی اسی سے ملتی جلتی ے وہاں یہ جملہ آیا ہے:( وَإِنْ تَتَوَلَوْا یسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیرَكُمْ ثُمَ لَا یكُونُوا أَمْثَالَكُمْ؛ اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوںگے)

آیت کی داخلی قرائن اس بات ہر دلالت کرتی ہیں کہ یہ خصوصیات ایسی قوم سے متعلق ہے جو ابھی نہیں آئی قرآنی آیات واضح بیان کرتی ہیں کہ پیغمبرؐ کے صحابہ بھی ان جیسے نہ ہونگے۔ یہ خصوصیات احادیث کی بنیاد پر صرف امام زمان اور ان کے اصحاب سے مطابقت رکھتی ہیں۔

نعمائی نے کتاب الغیبۃ میں امام صادق سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ آیت امام زمان اور ان کے اصحاب سے متعلق ہے وہی لوگ جن کے بارے اللہ نے فرمایا:( فَسَوْفَ یأْتِي اللَهُ بِقَوْمٍ).[12]

قندوزی حنفی نے امام علی سے روایت کی ہے: (سیأتي الله بقوم یحبّهم الله و یحبّونه، ویملك من هو بینهم غریب و هو المهدي،ّ أحمر الوجه ...، یملأ الأرض عدلاً بلا صعوبة... و یملأ الأرض عدلاً كما مُلئت جوراً ؛ جلد ہی خداوند ایسی قوم کو لے آئے گا  جسے اللہ دوست رکھتا ہے اور وہ بھی اللہ رکھتی ہے ان پر حکومت کرنے والا مہدی ہوگا جن کا چہرہ سرخ ہوگا وہ زمین کو بغیر کسی صعوبت کے انصاف سے بھر دے گا، وہ زمین کو ظلم و ستم سے بھرنے کے بعد انصاف سے بھر دے گا۔)[13]

نتیجہ

مہدویت کے مسئلے سے انکار یا تعجب مسلمان کی شان کے خلاف ہے ۔ دنیا بھر کے  بے دین افراد بھی آخری زمانے میں کسی مصلح کی آمد کا عقیدہ رکھتے ہیں تو مسلمان اس کو تسلیم کرنے سے کتراتے کیوں ہیں؟ اس مسئلے میں تشکیک کی وہابی کوشش دیوار سے سرٹکڑانے کے برابر ہے کیونکہ تمام اسلامی مسالک کامہدویت پر عقیدہ ہے اور سینکڑوں احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب

راهنمای حقیقت؛ آیت الله جعفر سبحانی؛

الغیبة؛ محمد بن ابراهیم نعم

 



[1][1] ۔ جامع البیان في تفسیر القرآن، ج ،13ص .7۲

[2] ۔ الكافي، ج ،1ص 19۲

[3] ۔ الكافي، ج ،1ص 19۱

[4] ۔ التفسیر الکبیر، ج ،16ص .16۶

[5] ۔ التفسیر الکبیر، ج ،10ص113

[6] ۔قصص/۵

[7] ۔نهج البلاغه، حکمت 209

[8] ۔ملاحظہ ہو: البرهان في تفسیر القرآن، ج ،5ص .45 -448

[9] ۔3كمال الدین و تمام النعمة، ج ،1ص .326

[10] 4كمال الدین و تمام النعمة، ج ،2ص .668

[11] ۔ماءدہ/۵۴

[12] . الغیبه ص316

[13] ۔ ینابیع المودۀ، ج ،3ص 3۳۸





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: