2024 March 19
امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں موجود مختلف اقوال کے بارے میں بحث
مندرجات: ٦٩٧ تاریخ اشاعت: ١٠ April ٢٠١٧ - ١٧:٣٢ مشاہدات: 6380
مضامین و مقالات » پبلک
امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں موجود مختلف اقوال کے بارے میں بحث

مقدمہ:

امیر المؤمنین علی (ع) کے لا تعداد فضائل ہیں، ان میں سے بعض فضائل، ان حضرت کے خصائص میں سے شمار ہوتے ہیں اور وہ کسی دوسرے انسان میں موجود نہیں ہیں، خانہ کعبہ میں ان حضرت کا دنیا میں آنا، یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ جو فقط انکی مقدس ذات میں پائی جاتی ہے۔ لیکن صد افسوس سے یہ بات لکھنا پڑ رہی ہے کہ اس بے مثل و لا زوال فضیلت کا بعض اہل سنت کے علماء نے انکار کیا ہے۔ یہ تحقیق انہی کے جواب میں کی گئی ہے۔ اس مستند تحقیق میں فریقین ( شیعہ و اہل سنت ) کی کتب سے صحیح و معتبر روایات کو بیان کیا گیا ہے اور ایک تحقیق شدہ مقالہ، آپ عزیزان کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مختلف اقوال:

امیر المؤمنین علی (ع) کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں مختلف اقوال امامیہ و اہل سنت کی کتب میں، فضائل اور زیارات کے ابواب میں نقل و ذکر کیے گئے ہیں۔ ان ابواب میں سے ایک باب، باب "مولد الإمام علی عليہ السلام" کے عنوان سے فریقین کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔ تمام یہ اقوال ایک طرح کے نہیں ہیں، بعض اقوال میں اصل ولادت کے خانہ کعبہ میں ہونے کو بیان کیا گیا ہے، بعض اقوال میں ماجرے کی تفصیل و شرح میں اختلافات ہونے کے باوجود، سب نے مشترکہ طور پر حضرت فاطمہ بنت اسد (س) کے خانہ کعبہ میں داخل ہونے اور علی (ع) کی اس مقدس مقام پر ولادت کے ہونے کو ذکر و نقل کیا ہے۔

 

 

 

یہاں پر اس اہم و علمی مطلب کو بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ: بعض علمائے اسلام نے حضرت امیر (ع) کی ولادت کے بارے میں روایات کو ذکر کرتے ہوئے، ان روایات کے سلسلہ سند کو ذکر نہیں کیا، اسی وجہ سے اس تحقیق میں ہم نے ان روایات کو ذکر کیا ہے کہ جنکا سلسلہ سند بھی ساتھ موجود ہے اور ان روایات کو یہ جنکے راویوں کا سلسلہ سند موجود نہیں ہے، ہم نے ان روایات کو فقط ذکر کیا ہے اور انکے بارے میں کسی قسم کی شرح و تفصیل کو بیان نہیں کیا۔

 

 

 

وہ روایات کہ جو مسند ہیں، ( یعنی جو سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں ) کم از کم پانچ واسطوں سے رسول خدا (ص)، حضرت امیر (ع)، عباس ابن عبد المطلب، یزید بن قعنب اور ام العارۃ بنت عبادۃ سے فریقین کی کتب میں نقل ہوئی ہیں۔ اس قدر روایات کی تعداد کو علم حدیث کی رو سے مستفیض کہتے ہیں کہ ایسی روایت یا روایات قابل توجہ حد تک معتبر اور قابل قبول ہوتی ہیں۔

 

 

 

البتہ حاکم نيشاپوری کہ اہل سنت کا ایک بزرگ حدیث شناس ہے، کی بات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امیر کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اور معتبر ہونے کی بالا ترین حد تک پہنچی ہوئی ہیں، یعنی وہ روایات حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔

حاکم نیشاپوری کے کلام کی عبارت ایسے ہے کہ:

فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة.

متواتر روایات وارد ہوئی ہیں کہ فاطمہ بنت اسد نے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کو خانہ کعبہ کے اندر جنم دیا تھا۔

        الحاكم النيشاپوري، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفى405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 3   ص 550، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990

اسی بات کو بعض علمائے امامیہ نے بھی ذکر کیا ہے:

البحراني، السيد هاشم البحراني الموسوي التوبلي (متوفي1107هـ)، غاية المرام وحجة الخصام في تعيين الإمام من طريق الخاص والعام، - ج 1 ص 50، تحقيق: العلامة السيد علي عاشور

اول: رسول خدا (ص) کے ذریعے سے ولادت کی روایت کا نقل ہونا:

 

اس نقل میں سید ابن طاؤوس نے کتاب " مولد مولانا علی (ع) بالبيت" تاليف شيخ صدوق اور صاحب كتاب "جامع الاخبار" میں مختصر طور پر جابر ابن عبد اللہ انصاری کے واسطے سے اور اس نے رسول خدا (ص) کے قول سے نقل کیا ہے، پھر شاذان ابن جبرائیل قمی نے کتاب الفضائل میں اسی قول کی تفصیل کو بیان کیا ہے۔ ان اقوال میں، امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کی ولادت کے زمین و آسمان پر آثار و  برکات کو، اس ولادت سے جناب ابو طالب کے خوشی منانے اور اسی طرح اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر دینے کو ذکر کیا گیا  ہے۔

سيد ابن طاؤوس نے لکھا ہے کہ:

 [الباب فيما نذكره من تسمية مولانا علي ع بأمير المؤمنين] رأيت ذلك و رويته من كتاب مولد مولانا علي عليه السلام بالبيت تأليف أبي جعفر محمد بن بابويه قد رواه عن رجال الجمهور فلذلك أذكره و أقتصر على المراد منه.فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الطَّالَقَانِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَطَا قَالَ حَدَّثَنَا شَاذَانُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ قَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الْمَكِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص عَنْ مِيلَادِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقَالَ آه آه لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ خَيْرِ مَوْلُودٍ بَعْدِي عَلَى سُنَّةِ الْمَسِيحِ عليه السلام.‏

اس باب میں ہم ذکر کریں گے کہ امام علی کو، امیر المؤمنین کیوں کہا جاتا ہے۔ میں نے اس روایت کو شیخ صدوق کی کتاب مولد مولانا علی (ع) بالبيت میں دیکھا اور نقل کیا ہے۔ اس روایت کو اہل سنت کے علماء سے بھی نقل کیا جا سکتا ہے۔ پس میں اسی وجہ سے اس روایت کو نقل کر رہا ہوں، اور روایت کا جو حصہ ہماری بحث سے مربوط ہے، میں فقط اسی حصے کو ذکر کرنے پر اکتفاء کروں گا۔

شیخ صدوق نے اپنی سند کے سلسلے کے ساتھ جابر سے نقل کیا اور اس نے کہا ہے کہ میں نے رسول خدا سے امام علی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو، رسول خدا نے فرمایا کہ: آہ آہ تم نے میرے بعد افضل ترین پیدا ہونے والے انسان کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے کہ وہ حضرت عیسی کے طریقے پر اس دنیا میں آیا تھا، یعنی اسکی ولادت کا طریقہ، عیسی کی طرح فقط اسی کے ساتھ خاص ہے۔ 

ابن طاووس، على بن موسى‏ (متوفي 664)، اليقين باختصاص مولانا علي عليه السلام بإمرة المؤمنين، ص 191.

كتاب "جامع الاخبار" میں ایسے ذکر ہوا ہے کہ:

رُوِيَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى بْنِ بَابَوَيْهِ الْقُمِّيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرٌ النَّجَّارُ دوريستي [الدُّورْيَسْتِيُ‏] قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنِي الشَّيْخُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى بْنِ بَابَوَيْهِ الْقُمِّيُّ وَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ قَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الْمَكِّيُّ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص عَنْ مِيلَادِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقَالَ ص لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ خَيْرِ مَوْلُودٍ وُلِدَ بَعْدِي عَلَى سُنَّةِ الْمَسِيحِ‏ ...

الشعيري، محمد بن محمد، (متوفي قرن 6)، جامع الاخبار، ص 16، ناشر: مطبعة حيدرية

قابل ذکر ہے کہ علامہ مجلسی نے اسی روایت کو کتاب "غُرر الدرر" سے بھی نقل کیا ہے:

 كِتَابُ غُرَرِ الدُّرَرِ لِلسَيِّدِ حَيْدَرِ الْحُسَيْنِيِّ عَنِ الشَّيْخِ جَمَالِ الدِّينِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّشِيدِ الْأَصْبَهَانِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ الْعَطَّارِ الْهَمَدَانِيِّ عَنِ الْإِمَامِ رُكْنِ الدِّينِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْفَارِسِيِّ عَنْ فَارُوقٍ الْخَطَّابِيِّ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مِنْهَالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِمْرَانَ الْفَسَوِيِّ عَنْ شَاذَانَ بْنِ الْعَلَاءِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ خَالِدٍ الْمَكِّيِّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ مِثْلَه‏.

المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏35، ص: 106، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

 روایت کی شرح و تفصیل کو شاذان ابن جبرائیل نے ایسے بیان کیا ہے کہ:

أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْعَالِمُ الْوَرِعُ النَّاقِلُ ضِيَاءُ الدِّينِ شَيْخُ الْإِسْلَامِ أَبُو الْعَلَاءِ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارُ الْهَمَدَانِيُّ ره فِي هَمَدَانَ فِي مَسْجِدِهِ فِي الثَّانِي وَ الْعِشْرِينَ مِنْ شَعْبَانَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَ ثَلَاثِينَ وَ سِتِّمِائَةٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْإِمَامُ رُكْنُ الدِّينِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْفَارِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رَوْقٍ الْخَطَّابِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ شَاذَانَ بْنِ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ عَنْ سَالِمٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ السَّرِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص عَنْ مِيلَادِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ آهْ‏ آهْ‏ سَأَلْتَ عَجَباً يَا جَابِرُ عَنْ خَيْرِ مَوْلُودٍ وُلِدَ بَعْدِي عَلَى سُنَّةِ الْمَسِيحِ ... كَانَ رَجُلٌ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ وَ كَانَ زَاهِداً عَابِداً يُقَالُ لَهُ الْمُثْرِمُ بْنُ زَغِيبٍ الشَّيْقُبَانُ وَ كَانَ مِنْ أَحَدِ الْعُبَّادِ ... ثُمَّ قَالَ أَبْشِرْ يَا هَذَا [يعني اباطالب] فَإِنَّ الْعَلِيَّ الْأَعْلَى أَلْهَمَنِي إِلْهَاماً فِيهِ بِشَارَتُكَ فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ وَ مَا هُوَ قَالَ وَلَدٌ يُولَدُ مِنْ ظَهْرِكَ هُوَ وَلِيُّ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ وَ وَصِيُّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ... قَالَ أَبُو طَالِبٍ إِنِّي لَا أَعْلَمُ حَقِيقَةَ مَا تَقُولُ إِلَّا بِبُرْهَانٍ مُبِينٍ وَ دَلَالَةٍ وَاضِحَةٍ قَالَ الْمُثْرِمُ مَا تُرِيدُ قَالَ أُرِيدُ أَنْ أَعْلَمَ مَا تَقُولُهُ حَقٌّ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَلْهَمَكَ ذَلِكَ قَالَ فَمَا تُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ لَكَ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يُطْعِمَكَ فِي مَكَانِكَ هَذَاقَالَ أَبُو طَالِبٍ أُرِيدُ طَعَاماً مِنَ الْجَنَّةِ فِي وَقْتِي هَذَا قَالَ فَدَعَا الرَّاهِبُ رَبَّهُ قَالَ جَابِرٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَمَا اسْتَتَمَّ الْمُثْرِمُ دُعَاءَهُ حَتَّى أُوتِيَ بِطَبَقٍ عَلَيْهِ  فَاكِهَةٌ مِنَ الْجَنَّةِ وَ عِذْقُ رُطَبٍ وَ عِنَبٍ وَ رُمَّانٍ فَجَاءَ بِهِ الْمُثْرِمُ إِلَى أَبِي طَالِبٍ فَتَنَاوَلَ مِنْهُ رُمَّانَةً ثُمَّ نَهَضَ مِنْ سَاعَتِهِ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ رض فَلَمَّا اسْتَوْدَعَهَا النُّورَ ارْتَجَّتِ الْأَرْضُ وَ تَزَلْزَلَتْ بِهِمْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ حَتَّى أَصَابَ قُرَيْشاً مِنْ ذَلِكَ شِدَّةٌ فَفَزِعُوا ...ثُمَّ صَعِدَ أَبُو طَالِبٍ الْجَبَلَ وَ قَالَ لَهُمْ أَيُّهَا النَّاسُ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَزَّ وَ جَلَّ قَدْ أَحْدَثَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ حَادِثاً وَ خَلَقَ فِيهَا خَلْقاً ... فَبَكَى وَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَ قَالَ إِلَهِي وَ سَيِّدِي أَسْأَلُكَ بِالْمُحَمَّدِيَّةِ الْمَحْمُودَةِ وَ الْعَلَوِيَّةِ الْعَالِيَةِ وَ  الْفَاطِمِيَّةِ الْبَيْضَاءِ إِلَّا تَفَضَّلْتَ عَلَى تِهَامَةَ بِالرَّأْفَةِ وَ الرَّحْمَةِ قَالَ جَابِرٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَوَ اللَّهِ الَّذِي خَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ قَدْ كَانَتِ الْعَرَبُ تَكْتُبُ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ فَيَدْعُونَ بِهَا عِنْدَ شَدَائِدِهِمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَ هِيَ لَا تَعْلَمُهَا وَ لَا تَعْرِفُ حَقِيقَتَهَا حَتَّى وُلِدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَلَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا ع أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ وَ تَضَاعَفَتِ  النُّجُومُ فَأَبْصَرَتْ مِنْ ذَلِكَ عَجَباً فَصَاحَ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ وَ قَالُوا إِنَّهُ قَدْ حَدَثَ فِي السَّمَاءِ حَادِثٌ أَ لَا تَرَوْنَ إِشْرَاقَ السَّمَاءِ وَ ضِيَاءَهَا وَ تَضَاعُفَ النُّجُومِ بِهَا قَالَ فَخَرَجَ أَبُو طَالِبٍ وَ هُوَ يَتَخَلَّلُ سِكَكَ مَكَّةَ وَ مَوَاقِعَهَا وَ أَسْوَاقَهَا وَ هُوَ يَقُولُ لَهُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ فِي الْكَعْبَةِ حُجَّةُ اللَّهِ تَعَالَى وَ وَلِيُّ اللَّه‏ ... 

 

 

 

جابر کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا سے امام علی کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو رسول خدا نے فرمایا کہ : آہ آہ تم نے میرے بعد افضل ترین پیدا ہونے والے انسان کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے کہ وہ حضرت عیسی کے طریقے پر اس دنیا میں آیا تھا.....، اس زمانے میں ایک عابد و زاہد انسان تھا کہ اسکو مثرم کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس نے کہا کہ اے ابو طالب تم کو خوشخبری ہو کہ خداوند بزرگ نے مجھے ایسا الہام کیا ہے کہ جس میں تمہارے لیے خوشخبری ہے۔ حضرت ابو طالب نے کہا کہ: وہ خوشخبری کیا ہے ؟ مثرم نے کہا کہ: آپ سے ایک ایسا بیٹا پیدا ہو گا کہ جو ولی خدا، امام المتقین اور رسول خدا کا خلیفہ و جانشین ہو گا.....، حضرت ابو طالب نے کہا کہ : کیا تمہارے پاس اس بات پر کوئی واضح دلیل موجود ہے ؟ مثرم نے کہا کہ: آپ مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ حضرت ابو طالب نے کہا کہ میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو، وہ حقیقت ہے یا نہیں، اور  کیا واقعی طور تم کو خداوند نے الہام کیا ہے یا نہ ؟ مثرم نے کہا کہ: کیا چاہتے ہو کہ میں خداوند سے کہوں کہ تم کو یہاں پر کھانا کھلائے ؟ حضرت ابو طالب نے کہا کہ : میں جنی کھانا چاہتا ہوں۔ اس پر مثرم نے خداوند سے طلب کیا۔ جابر کہتا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: ابھی اسکی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک طشت حاضر ہوا کہ جس میں جنتی میوے، کھجور، انگور اور انار تھے۔ مثرم نے اس طشت کو ابو طالب کے لیے لایا تو اس نے ان میں سے ایک انار کو کھایا۔ پھر ابو طالب وہاں سے اٹھ کر فاطمہ بنت اسد کے پاس چلے گئے۔ جب حضرت علی کا نور فاطمہ بنت اسد کی رحم میں منتقل ہوا تو، زمین لرز اٹھی اور یہ لرزہ سات دن  تک جاری رہا، یہاں تک کہ قریش اس لرزے سے خطرے کا احساس کرنے لگے.....، اسکے بعد حضرت ابو طالب ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور کہا : اے لوگو جان لو کہ خداوند نے آج کی رات ایک عجیب حادثہ ایجاد کیا ہے اور ایک نئی مخلوق کو خلق فرمایا ہے.....، پھر حضرت ابو طالب نے گریہ کرنا شروع کیا اور پھر ہاتھوں کو بلند کر کے دعا کی: اے خداوندا میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مقام محمدی کے حق کا واسطہ دے کر اور مقام علوی کا واسطہ کہ جو بلند مرتبہ ہے اور شان فاطمی کا یہ جو بہت نورانی ہے، کہ سرزمین مکہ پر اپنی رحمت کر نازل فرما۔

جابر کہتا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے اور انسان کو خلق کیا ہے، عربوں نے ابو طالب کے ان جملوں کو لکھ لیا تھا اور جاہلیت کے زمانے میں سختیوں اور مشکلات میں ان جملات کے ساتھ خداوند کو پکارا کرتے تھے، حالانکہ وہ ان کلمات کے معنی اور حقیقت کو نہیں جانتے تھے، یہاں تک کہ حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت واقع ہو گئی۔ جس رات کو وہ پیدا ہوئے، زمین پر ایک نور پھیل گیا اور ایسا لگتا تھا کہ آسمان پر ستاروں کی تعداد دو برابر ہو گئی ہے۔ یہ دیکھ کر سب حیران ہو گئے، بعض نے بلند آواز سے کہنا شروع کر دیا کہ آسمان پر کوئی حادثہ رونما ہوا ہے، کیا تم لوگ آسمان کے نور کو اور ستاروں کی تعداد کے زیادہ ہونے کو نہیں دیکھ رہے ہو ؟ اس وقت حضرت ابو طالب باہر آئے اس حالت میں کہ شہر مکہ کی سڑکوں اور گلیوں میں چلتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ: اے لوگو! آج رات خانہ کعبہ میں حجت خدا اور ولی خدا کی ولادت واقع ہوئی ہے..................،  

القمي، شاذان بن جبرئيل، (متوفي 660هـ) الفضائل، ص 54 الي 56، ناشر : منشورات المطبعة الحيدرية ومكتبتها - النجف الأشرف، ال چاپ : 1381 - 1962 م

 

 

 

دوم: امير المؤمنین علی کے ذریعے سے ولادت کی روایت کا نقل ہونا:

 

 

 

اس نقل میں طبری کہ جو شیعہ ہے، اس نے اور حسین بن عبد الوہاب نے سلسلہ سند کو میثم تمّار سے نقل کیا ہے۔ اس نقل کے مطابق سعید بن فضل نے بہت سے لوگوں کے سامنے، کہ جن میں خود امام علی (ع) بھی موجود تھے، کے فضائل کو بیان کرنا شروع کیا کہ ان میں سے ایک فضیلت یہ بیان کی کہ ان حضرت کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی تھی۔ اتنے بہت سے لوگوں میں سے کسی نے بھی اسکی اس بات کو ردّ نہیں کیا تھا۔ خود امام علی نے بھی اسکی بات کی تائید کی اور فرمایا کہ: اے سعید ابن فضل تم جسکے بارے میں فضائل بیان کر رہے ہو، وہ میں ہوں۔

اس روایت کی عبارت یہ ہے:

حدثنا أبو التحف علي بن محمد بن إبراهيم المصري قال [ حدثني ] الأشعث بن مرة عن المثنى بن سعيد عن هلال بن كيسان الكوفي الجزار عن الطيب الفواخري عن عبد الله بن سلمة الفتحي عن شقادة بن الاصيد العطار البغدادي قال [ حدثني ] عبد المنعم بن الطيب عن العلا بن وهب بن قيس عن الوزير أبي محمد [ بن ] سايلويه رضي الله عنه فإنه كان من أصحاب أمير المؤمنين عليه السلام [ العارفين وروى جماعتهم ] عن ابن حريز عن أبي الفتح المغازلي عن أبي جعفر ميثم التمار قال: كنت بين يدي مولاي أمير المؤمنين عليه السلام إذ دخل علينا من الباب رجل مشذب عليه قباء أدكن ... وقال: أيكم المجتبى في الشجاعة أيكم المولود في الحرم ... فقال أمير المؤمنين عليه السلام: أنا يا سعد بن الفضل بن الربيع بن مدركة ...

ميثم تمار کہتا ہے کہ: میں ایک دن کوفہ میں امیر المؤمنین  (ع) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک بلند قد شخص وہاں پر آیا اور کہا: تم میں سے کون شجاعت میں مشہور انسان ہے۔ تم میں سے کون ایسا ہے کہ جو خانہ کعبہ میں دنیا میں آیا ہے ؟ یہ سن کر علی (ع) نے سر کو بلند کیا اور کہا کہ اے سعید ابن فضل ابن ربیع ابن مدرکۃ جو کچھ تم نے ذکر کیا ہے، وہ میں ہوں........،  

طبرى آملى، محمد بن جرير بن رستم‏ (متوفي قرن 5)، نوادر المعجزات، ص 32 الي 33.

حسين بن عبد الوهاب، عيون المعجزات ص 18، ناشر: محمد كاظم الشيخ صادق الكتبي منشورات المطبعة الحيدرية في النجف 1369 هج‍ - 1950 م سال چاپ: 1369چاپخانه: الحيدرية – نجف.

 

 

 

سوم: يزيد بن قعنب کے ذریعے سے ولادت کی روایت کا نقل ہونا:

 

 

 

یہ نقل یزید ابن قعنب کی ہے کہ جو ولادت کے واقعے کا چشم دید گواہ ہے۔ اس نقل کے مطابق دیوار کعبہ شقّ ہوئی، فاطمہ بنت اسد یہ دیکھ کر خانہ کعبہ کے اندر چلی گئیں، اور چند دن کعبہ کے اندر ہی رہیں، یہاں تک کہ حضرت علی دنیا میں آئے۔ امام علی کی مادر گرامی بہت خوش ہوئیں اور اپنے بیٹے کے نام کو خداوند کے حکم کے مطابق کہ جو غیب سے ایک فرشتہ لے کر آیا تھا، علی رکھا۔

شیخ صدوق نے اپنی تین معروف کتب میں راویوں کے سلسلہ سند کو ذکر کرنے کے ساتھ کہا ہے کہ:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الدَّقَّاقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ‏ كُنْتُ جَالِساً مَعَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ فَرِيقٍ مِنْ عَبْدِ الْعُزَّى بِإِزَاءِ بَيْتِ اللَّهِ الْحَرَامِ إِذْ أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدٍ أُمُّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام وَ كَانَتْ حَامِلَةً بِهِ لِتِسْعَةِ أَشْهُرٍ وَ قَدْ أَخَذَهَا الطَّلْقُ فَقَالَتْ رَبِّ إِنِّي مُؤْمِنَةٌ بِكَ وَ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ مِنْ رُسُلٍ وَ كُتُبٍ وَ إِنِّي مُصَدِّقَةٌ بِكَلَامِ جَدِّي إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ عليه السلام وَ أَنَّهُ بَنَى الْبَيْتَ الْعَتِيقَ فَبِحَقِّ الَّذِي بَنَى هَذَا الْبَيْتَ وَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ الَّذِي فِي بَطْنِي لَمَّا يَسَّرْتَ عَلَيَّ وِلَادَتِي قَالَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ فَرَأَيْنَا الْبَيْتَ وَ قَدِ انْفَتَحَ عَنْ ظَهْرِهِ وَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فِيهِ وَ غَابَتْ عَنْ أَبْصَارِنَا وَ الْتَزَقَ الْحَائِطُ فَرُمْنَا أَنْ يَنْفَتِحَ لَنَا قُفْلُ الْبَابِ فَلَمْ يَنْفَتِحْ فَعَلِمْنَا أَنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ خَرَجَتْ بَعْدَ الرَّابِعِ وَ بِيَدِهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام ثُمَ‏ قَالَتْ إِنِّي فُضِّلْتُ عَلَى مَنْ تَقَدَّمَنِي مِنَ النِّسَاءِ لِأَنَّ آسِيَةَ بِنْتَ مُزَاحِمٍ عَبَدَتِ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ سِرّاً فِي مَوْضِعٍ لَا يُحِبُّ أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ فِيهِ إِلَّا اضْطِرَاراً وَ أَنَّ مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ هَزَّتِ النَّخْلَةَ الْيَابِسَةَ بِيَدِهَا حَتَّى أَكَلَتْ مِنْهَا رُطَباً جَنِيًّا وَ أَنِّي دَخَلْتُ بَيْتَ اللَّهِ الْحَرَامَ فَأَكَلْتُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ أَوْرَاقِهَا فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ هَتَفَ بِي هَاتِفٌ يَا فَاطِمَةُ سَمِّيهِ عَلِيّاً فَهُوَ عَلِيٌّ وَ اللَّهُ الْعَلِيُّ الْأَعْلَى يَقُولُ إِنِّي شَقَقْتُ اسْمَهُ مِنِ اسْمِي وَ أَدَّبْتُهُ بِأَدَبِي وَ وَقَفْتُهُ عَلَى غَامِضِ عِلْمِي وَ هُوَ الَّذِي يَكْسِرُ الْأَصْنَامَ فِي بَيْتِي وَ هُوَ الَّذِي يُؤَذِّنُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِي وَ يُقَدِّسُنِي وَ يُمَجِّدُنِي فَطُوبَى لِمَنْ أَحَبَّهُ وَ أَطَاعَهُ وَ وَيْلٌ لِمَنْ أَبْغَضَهُ وَ عَصَاه‏.

 

 

 

یزید بن قعنب کہتا ہے کہ: میں عباس ابن عبد المطلب اور عبد العزّی کے قبیلے کے چند لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ فاطمہ بنت اسد کہ جو نو مہینے سے حاملہ تھیں، آئیں اور وہ حمل کے درد سے بے چین تھیں۔ اسی حالت انھوں نے کہا کہ : خدایا میں آپ پر اور آپکی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لاتی ہوں، میں آپکے انبیاء اور آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لاتی ہوں اور اپنے جدّ حضرت ابراہیم خلیل کی  تعلیمات کی تصدیق کرتی ہوں، وہ ہیں کہ جہنوں نے اس کعبہ کو تعمیر کیا ہے۔ خدایا میں آپکو اسی کے حق کا اور اس بچے کا واسطہ دیتی ہوں کہ جو ابھی میرے شکم میں ہے، مجھ پر اس ولادت کے مرحلے کو آسان فرما۔ یزید ابن قعنب کہتا ہے کہ :  ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹ گئی اور فاطمہ بنت اسد اسکے اندر چلی گئیں اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں اور دیوار بھی اپنی پہلی حالت میں آپس میں مل کر صحیح ہو گئی۔ ہم نے چاہا کہ  خانہ کعبے کا تالا کھول کر اندر جائیں، لیکن ہم اسکا تالا نہ کھول سکے۔ یہ دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ یہ کام خداوند کی طرف سے ہے اور ایک عادی و معمولی واقعہ نہیں ہے۔ فاطمہ بنت اسد چار دنوں کے بعد کعبہ سے باہر آئیں، اس حالت میں کہ علی کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہوا تھا، پھر کہا کہ میں گذشتہ تمام عورتوں سے افضل ہوں، کیونکہ آسیہ بنت مزاحم مخفی طور پر خدا کی عبادت کرتی تھی اور مریم بنت عمران نے کھجور کے خشک درخت کو اپنے ہاتھ  سے ہلایا اور اس سے تازی کھجوریں گریں، جسکو اس نے کھایا اور میں خداوند کے محترم گھر میں داخل ہوئی اور جنت کے پھلوں کو میں نے کھایا اور جب اس گھر سے باہر آنا چاہتی تھی تو غیب سے ایک آواز آئی اے فاطمہ اس بچے کا نام نام علی رکھو، کیونکہ وہ علی ہے اور خداوند اعلی نے فرمایا ہے کہ میں نے اسکے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے اور اپنے آداب سے اسکو مؤدب بنایا ہے اور اپنے پنہان علم سے اسکو علم دیا ہے اور یہ وہ ہے کہ جو خانہ کعبہ میں بتوں کو توڑے گا اور اسکی چھت پر اذان دے گا اور میرے حمد و تعریف بیان کرے گا۔ خوش قسمت ہے وہ انسان کہ جو اس علی سے محبت کرے گا اور اسکے فرامین پر عمل کرے گا اور بدبخت ہے وہ انسان کہ جو اس سے دشمنی کرے گا اور اس کی نافرمانی کرے گا۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، الأمالي، ص 194 الي 195، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفي 381هـ)، علل الشرائع، ج 1 ص 135 الي 136، تحقيق وتقديم : السيد محمد صادق بحر العلوم، ناشر : منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها - النجف الأشرف، الطبع: 1385 - 1966 م.

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين،(متوفى381هـ)، معاني الأخبار، ص 62، ناشر: جامعه مدرسين، قم‏، اول، 1403 ق‏.

قابل ذکر ہے کہ صاحب کتاب بشارة المصطفی نے اسی روایت کو سلسلہ سند کی ابتداء میں ایک راوی کے اضافے کے ساتھ شیخ صدوق سے نقل کیا ہے کہ:

أَخْبَرَنَا الرَّئِيسُ الزَّاهِدُ الْعَابِدُ الْعَالِمُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ فِي الرَّيِّ سَنَةَ عَشَرَةٍ وَ خَمْسِمِائَةٍ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِيهِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَمِّهِ الشَّيْخِ السَّعِيدِ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ بَابَوَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الدَّقَّاقُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ‏ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قَالَ: يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ‏: كُنْتُ جَالِساً مَعَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ...

الطبري، عماد الدين أبي جعفر محمد بن أبي القاسم (متوفي525هـ)، بشارة المصطفى (صلى الله عليه وآله) لشيعة المرتضى عليه السلام، ص 27، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، طبع ونشر: مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة الطبعة: الأولى1420 ه‍ .

 

 

 

چہارم: عباس بن عبد المطلب کے ذریعے سے ولادت کی روایت کا نقل ہونا:

اس نقل کو شیخ طوسی نے رسول خدا (ص) کے چچا عباس، سے کہ جو واقعہ ولادت کا ایک چشم دید گواہ ہے، کے ذریعے سے تین اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دو سندیں یعنی عایشہ اور انس ابن مالک کا شمار اہل سنت کے راویوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ روایت، یزید ابن قعنب کی روایت کے ساتھ معنی میں بہت نزدیک ہے۔ روایت کی  عبارت یہ ہے کہ:

 

 

 

حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ الطُّوسِيُّ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَاذَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَبِيبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ.

 

 

 

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَاذَانَ: وَ حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الرُّبَيْعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.

قَالَ ابْنُ شَاذَانَ: وَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ عَنْ آبَائِهِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ قَالَ: كَانَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ جَالِسَيْنِ مَا بَيْنَ فَرِيقِ بَنِي هَاشِمٍ إِلَى فَرِيقِ عَبْدِ الْعُزَّى بِإِزَاءِ بَيْتِ اللَّهِ الْحَرَامِ، إِذْ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ أُمِّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ كَانَتْ حَامِلَةً بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِتِسْعَةِ أَشْهُرٍ فَوَقَفَتْ بِإِزَاءِ الْبَيْتِ الْحَرَامِ وَ قَدْ أَخَذَهَا الطَّلْقُ فَرَمَتْ بِطَرْفِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ وَ قَالَتْ: أَيْ رَبِ‏ إِنِّي‏ مُؤْمِنَةٌ بِكَ‏ وَ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِكَ الرَّسُولُ فَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الْبَيْتِ وَ بِهَذَا الْمَوْلُودِ الَّذِي فِي أَحْشَائِي الَّذِي ... لَمَّا يَسَّرْتَ عَلَيَّ وِلَادَتِي قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ يَزِيدُ بْنُ قَعْنَبٍ: لَمَّا تَكَلَّمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدٍ رَأَيْنَا الْبَيْتَ قَدِ انْفَتَحَ مِنْ ظَهْرِهِ وَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فِيهِ وَ غَابَتْ عَنْ أَبْصَارِنَا ثُمَّ عَادَتِ الْفَتْحَةُ وَ الْتَزَقَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى فَرُمْنَا أَنْ نَفْتَحَ الْبَابَ لِيَصِلَ إِلَيْهَا بَعْضُ نِسَائِنَا فَلَمْ يَنْفَتِحِ الْبَابُ فَعَلِمْنَا أَنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَ بَقِيَتْ فَاطِمَةُ فِي الْبَيْتِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ انْفَتَحَ الْبَيْتُ مِنَ الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَتْ دَخَلَتْ فِيهِ فَخَرَجَتْ فَاطِمَةُ وَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى يَدَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَضَّلَنِي عَلَى الْمُخْتَارَاتِ مِمَّنْ مَضَى قَبْلِي ... لِأَنِّي وَلَدْتُ فِي بَيْتِهِ الْعَتِيقِ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ وَ وَلَدِي عَلَى يَدَيَّ هَتَفَ بِي هَاتِفٌ وَ قَالَ: يَا فَاطِمَةُ، سَمِّيهِ عَلِيّاً، فَأَنَا الْعَلِيُّ الْأَعْلَى وَ اشْتَقَقْتُ اسْمَهُ مِنْ اسْمِي وَ وُلِدَ فِي بَيْتِي وَ هُوَ أَوَّلُ مَنْ يُؤَذِّنُ فَوْقَ بَيْتِي، وَ يَكْسِرُ الْأَصْنَامَ وَ هُوَ الْإِمَامُ بَعْدَ حَبِيبِي وَ نَبِيِّي ...

عباس بن عبد المطلب، يزيد بن قعنب بنی ہاشم اور عبد العزی کے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ فاطمہ بنت اسد کہ جو نو مہینے سے حاملہ تھیں، آئیں اور وہ حمل کے درد سے بے چین تھیں۔ اسی حالت انھوں نے کہا کہ : خدایا میں آپ پر اور آپکی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لاتی ہوں، میں آپکے انبیاء اور آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لاتی ہوں اور اپنے جدّ حضرت ابراہیم خلیل کی تعلیمات کی تصدیق کرتی ہوں، وہ ہیں کہ جہنوں نے اس کعبہ کو تعمیر کیا ہے۔ خدایا میں آپکو اسی کے حق کا اور اس بچے کا واسطہ دیتی ہوں کہ جو ابھی میرے شکم میں ہے، مجھ پر اس ولادت کے مرحلے کو آسان فرما۔ یزید ابن قعنب کہتا ہے کہ : ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹ گئی اور فاطمہ بنت اسد اسکے اندر چلی گئیں اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں اور دیوار بھی اپنی پہلی حالت میں آپس میں مل کر صحیح ہو گئی۔ ہم نے چاہا کہ خانہ کعبے کا تالا  کھول کر اندر جائیں، لیکن ہم اسکا تالا نہ کھول سکے۔ یہ دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ یہ کام خداوند کی طرف سے ہے اور ایک عادی و معمولی واقعہ نہیں ہے۔ فاطمہ بنت اسد چار دنوں کے بعد کعبہ سے باہر آئیں، اس حالت میں کہ علی کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے لوگو! بے شک خداوند نے اپنی مخلوق میں سے مجھے انتخاب کیا ہے اور مجھ سے پہلی عورتوں میں سے بھی مجھے انتخاب کیا ہے اور فضیلت و برتری عطا کی ہے.......، کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو خانہ کعبہ میں جنم دیا ہے، اور جب میں نے اس مقدس گھر سے اپنے بچے کے ساتھ نکلنے کا ارادہ کیا تو ، غیب سے آواز آئی کہ: اے فاطمہ اس بچے کا نام نام علی رکھو، کیونکہ وہ علی ہے اور خداوند اعلی نے فرمایا ہے کہ میں نے اسکے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے اور اپنے آداب سے اسکو مؤدب بنایا ہے اور اپنے پنہان علم سے اسکو علم دیا ہے، اور اسکو اپنے گھر میں دنیا میں لایا ہے، وہ پہلا شخص ہے کہ جو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دے گا اور بتوں کو توڑے گا اور وہ میرے حبیب و میرے نبی ( محمد ص ) کے بعد امام ہو گا۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، الأمالي، ص 706 الي 707، تحقيق : قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة، ناشر: دار الثقافة ـ قم ، الطبعة: الأولى، 1414هـ

 

 

 

پنجم: اُم العارة بنت عبادة کے ذریعے سے ولادت کی روایت کا نقل ہونا:

اس نقل کو ابن مغازلی کہ جو پانچویں صدی کا اہل سنت کا عالم ہے، نے زیدۃ بنت قریبہ اور اس نے اپنی ماں ام عمارہ سے، کہ جو اس ولادت کے واقعے کی ایک چشم دید گواہ ہے، سے نقل کیا ہے۔ یہ نقل اگرچے واقعے کی جزئیات کو بیان کرنے میں، دوسری نقلوں سے تھوڑی مختلف ہے، لیکن یہ نقل حضرت فاطمہ بنت اسد کے خانہ کعبہ میں داخل ہونے اور وہاں پر امام علی (ع) کے دنیا میں آنے میں، بالکل  دوسری نقلوں کی طرح ہے۔ اس روایت کے مطابق امام سجاد (ع) نے بھی اس نقل کو ایک بہترین نقل قرار دیا ہے۔

اس نقل کی عبارت یہ ہے:

أخبرنا أبو طاهر محمد بن علي بن محمد البيع قال أخبرنا أبو عبد الله أحمد بن محمد بن عبد الله بن خالد الكاتب قال حدثنا أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي قال: حدثني عمر بن أحمد بن روح حدثني أبو طاهر يحيى بن الحسن العلوي قال: حدثني محمد بن سعيد الدارمي حدثنا موسى بن جعفر، عن أبيه، عن محمد بن علي عن أبيه علي بن الحسين قال: كنت جالساً مع أبي ونحن زائرون قبر جدنا عليه السلام، وهناك نسوان كثيرة إذ أقبلت امرأة منهن فقلت لها: من أنت يرحمك الله؟ قالت: أنا زيدة بنت قريبة بن العجلان من بني ساعدة. فقلت لها: فهل عندك شيئاً تحدثينا؟ فقالت: إي والله حدثتني أمي أم العارة بنت عبادة بن نضلة بن مالك بن عجلان الساعدي أنها كانت ذات يوم في نساءٍ من العرب إذ أقبل أبو طالب كئيباً حزيناً فقلت له: ما شأنك يا أبا طالب؟ قال: إن فاطمة بنت أسد في شدة المخاض ثم وضع يديه على وجهه فبينا هو كذلك إذ أقبل محمد صلى الله عليه وسلم فقال له:  ما شأنك يا عم؟ فقال: إن فاطمة بنت أسد تشتكي المخاض فأخذ بيده وجاء وهي معه فجاء بها إلى الكعبة فأجلسها في الكعبة ثم قال: اجلسي على اسم الله قال: فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً نظيفاً منظفاً لم أر كحسن وجهه فسماه أبو طالب علياً وحمله النبي صلى الله عليه وسلم حتى أداه إلى منزلها. قال علي بن الحسين عليهم السلام: فوالله ما سمعت بشيء قط إلا وهذا أحسن منه.

امام سجاد عليہ السلام نے فرمایا کہ: میں اپنے والد محترم کے ساتھ رسول خدا کی زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے ، وہاں پر بہت سی عورتیں بھی موجود تھیں کہ اچانک ان میں سے ایک عورت نے ہماری طرف رخ کیا تو میں نے اس سے کہا کہ تم کون ہو ؟ اس عورت نے جواب دیا: میں قبیلہ بنی ساعدہ سے زیدہ بنت قریبہ ابن عجلان ہوں۔ امام نے اس سے کہا کہ: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بات ہے کہ جو ہمارے لیے نقل کرنا چاہتی ہو ؟ اس عورت نے کہا کہ: خدا کی قسم ہاں، اس نے کہا کہ میری ماں ام عماره دختر عبادة بن نضلة بن مالک بن عجلان ساعدى نے مجھ سے کہا کہ ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس بیٹھی تھی کہ ابو طالب پریشانی کی حالت میں وہاں پر آئے تو میں نے ان سے کہا کہ : اے ابو طالب آپکو کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ فاطمہ بنت اسد وضع حمل کی حالت میں ہے، اتنے میں اچانک رسول خدا بھی وہاں پر آ گئے۔ انھوں نے بھی ابو طالب سے کہا کہ: اے چچا آپکو کیا ہوا ہے ؟ ابو طالب نے جواب دیا کہ : فاطمہ بنت اسد کو وضع حمل کی حالت کی وجہ سے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ رسول خدا نے یہ سن کر ابو طالب کا ہاتھ پکڑا اور انکو فاطمہ بنت اسد کے ساتھ کعبہ کی طرف لے آئے اور فاطمہ بنت اسد سے کہا کہ: اللہ کا نام لے کر یہاں بیٹھ جائیں۔ فاطمہ بنت اسد نے کہا کہ اسی وقت مجھے دوبارہ وضع حمل کا درد محسوس ہوا، تو میں نے وہاں پر ایک چاند سے پاک بیٹے کو دنیا میں لایا، ایسا خوبصورت بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ ابو طالب نے اسکا نام علی رکھا اور پھر بچے اور فاطمہ بنت اسد کو لے کر گھر واپس آ گئے۔

على بن الحسين عليہ السلام نے فرمایا کہ: خدا کی قسم میں نے علی (ع) کی ولادت کے بارے جو کچھ سنا تھا، ان سب میں سے یہ نقل میرے لیے ایک بہترین نقل تھی۔

ابن المغازلي، علي بن محمد ،(متوفي 483هـ)، مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ج1 ص 26، تحقيق: أبو عبد الرحمن تركي بن عبد الله الوادعي

 ولادت کے بارے میں غیر مسند روایات:

 

 

 

امام علی (ع) کی ولادت کے بارے میں روایات کو نقل کرنے والے بعض محدثین نے بعض روایات کو سلسلہ سند کے ذکر کیے بغیر نقل کیا ہے، یعنی فقط روایات کی عبارت کو ذکر کیا ہے اور راویوں کے اسماء کو ذکر نہیں کیا۔ اس کام کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ روایات کی سند نہیں ہے یا وہ روایات معتبر نہیں ہیں، بلکہ شاید یہ کام اختصار کے لیے یا ان روایات کی بہت ہی شہرت کی وجہ سے کیا گیا ہو۔

ان غیر مسند روایات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

 

 

 

يکم: امام سجاد (ع) سے نقل شدہ روایت:

 

 

 

رُوِيَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْفُضَيْلِ الدَّرْوَقِيَّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ضَرَبَهَا الطَّلْقُ وَ هِيَ فِي الطَّوَافِ فَدَخَلَتِ الْكَعْبَةَ فَوَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع فِيهَا.

قال عمر بن عثمان ذكرت هذا الحديث لسلمة بن الفضل فقال حدثني محمد بن إسحاق عن عمه و موسى بن بشار أن علي بن أبي طالب ع ولد في الكعبة.

ابو حمزہ ثمالی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا کہ:

 

 

 

میں نے امام سجاد سے سنا تھا کہ انھوں نے فرمایا کہ: فاطمہ بنت اسد کو طواف کے دوران جب وضع حمل کی تکلیف محسوس ہوئی تو خانہ کعبہ کے اندر چلی گئيں اور وہاں پر علی ابن ابی طالب کو دنیا میں لایا۔

 

 

 

عمر بن عثمان نے کہا ہے کہ: میں نے اس روایت کو سلمۃ ابن فضل سے نقل کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ: محمد بن اسحاق نے اپنے چچا اور موسی بن بشار سے میرے لیے نقل کیا ہے کہ: علی بن ابي طالب عليه السلام کعبہ میں دنیا میں آئے تھے۔

النيسابوري ، ابو علي محمد بن الفتال (الشهيد 508هـ) ، روضة الواعظين ، ص81، تحقيق: السيد محمد مهدى السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي ـ قم.

 کتاب کے مؤلف نے کتاب کے مقدمے میں کہا ہے کہ:

 

 

 

و أنا إن شاء الله أفتتح لكل مجلس منها بكلام الله تعالى ثم بآثار النبي و الآئمة ع محذوفة الأسانيد فإن الأسانيد لا طائل فيها إذا كان الخبر شائعا ذائعا۔

 

 

 

اگر خداوند چاہے تو ہر مجلس کو سب سے پہلے خداوند کے کلام سے اور پھر رسول خدا اور آئمہ کی روایات کو، انکی اسناد کو حذف کرنے کے ساتھ شروع کروں گا، کیونکہ جب ایک روایت بہت ہی زیادہ مشہور ہو تو، اسکی سند ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

النيشاپوري ، ابو علي محمد بن الفتال (الشهيد 508هـ) ، روضة الواعظين ، ص 1، تحقيق: السيد محمد مهدى السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي ـ قم.

 

 

 

دوم: امام صادق (ع) سے نقل شدہ روایت:

 

 

 

[زيارة اخرى لأمير المؤمنين صلوات الله عليه‏] زَارَ بِهَا الصَّادِقُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي سَابِعَ عَشَرَ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ عَلَّمَهَا لِمُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ: إِذَا أَتَيْتَ مَشْهَدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَاغْتَسِلْ غُسْلَ الزِّيَارَةِ ... وَ قُل: ... السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا وَالِدَ الْأَئِمَّةِ ... السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ‏ وُلِدَ فِي‏ الْكَعْبَة.

 

 

امیر المؤمنین کی ایک دوسری زیارت کہ امام صادق نے 17 ربیع الاول کو سورج کے طلوع ہوتے وقت ان عبارات کے ساتھ علی کی زیارت کی تلاوت کی ہے، اور اس زیارت کو محمد ابن مسلم کو بھی سیکھایا تھا، اور فرمایا کہ: جب تم امام کے حضور میں جانا چاہو تو، پہلے غسل زیارت کرو......، پھر کہو : آپ پر سلام ہو اے ابو الآئمہ.....، آپ پر سلام ہو کہ آپ خداوند کے گھر میں دنیا میں آئے۔   

 

المشهدي، الشيخ أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي (متوفى610هـ)، المزار، ص 205 الي 207، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة : الأولى ، رمضان المبارك 1419هـ . 

 

 

 

سوم: امام صادق (ع) سے نقل شدہ روایت:

 

 

 

عن الصادق عليه السلام ان فاطمة ابنة أسد قالت لما حملت بعلى رآني رسول الله صلى الله عليه وآله بعد أربعة أشهر فقال إن معك حملا يا أماه قلت نعم قال إن ولدتيه ذكرا فهبيه لي أشدد به أزري وأشركه في أمري فسمعه أبو طالب فقال عزيزي انا غلامك وفاطمة جاريتك ان ولدت ذكر أو أنثى فهو لك فلما تمت شهوري طفت بالبيت ثلثا فضربني المطلق فاستقبلني محمد وقال مالي أرى وجهك متغيرا قلت ضربني المطلق قال فرغت من الطواف قلت لا قال طوفي فان اتى عليك أمر لا تطيقينه فادخلي الكعبة فهي ستر الله فلما كنت في السابعة وعلاني مالا أطيقه دخلت الكعبة فلما توسطتها بإزاء الرخامة الحمراء ولدت عليا ساجدا لله فسمعته يقول سبحانك سبحانك ...

امام صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ: فاطمہ بنت اسد نے  کہا کہ: جب میں علی سے حاملہ ہوئی تو، رسول خدا نے چار مہینے کے بعد مجھے دیکھا اور مجھ سے فرمایا کہ: اے ماں، کیا آپ حاملہ ہیں ؟ فاطمہ بنت اسد نے کہا کہ: ہاں، تو رسول خدا نے فرمایا کہ: اگر آپکا بچہ بیٹا ہوا تو اسے مجھے دے دینا تا کہ اس کے ذریعے سے میں اپنی قدرت میں اضافہ کروں اور نبوت کے کاموں میں اسے اپنے ساتھ شریک کروں۔

ابو طالب نے رسول خدا کی اس بات کو سن کر کہا: اے میرے عزیز، میں آپکا غلام اور فاطمہ بنت اسد آپکی کنیز ہے۔ اگر اسکا بچہ لڑکا ہو یا لڑکی، وہ آپکا ہی ہو گا۔

فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ جب حمل کے نو ماہ پورے ہوئے تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کرنا شروع کیا، تو اسی دوران مجھے وضع حمل کی تکلیف محسوس ہوئی، تو یہ دیکھ کر رسول خدا میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا: آپکے چہرے کا رنگ کیوں بدل گیا ہے ؟ میں نے کہا کہ: وضع حمل نزدیک ہے، فرمایا کہ: کیا آپ کا طواف مکمل ہو گيا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ: نہیں، رسول خدا نے فرمایا، صحیح ہے آپ اپنا طواف جاری رکھیں اور اگر کوئی مشکل پیش آئے اور حالت برداشت سے باہر ہو جائے تو آپ خانہ کعبہ کے اندر چلی جانا تو خداوند آپکی مدد فرمائے گا۔

فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ: جب میں طواف کے آخری دور میں تھی، تو میرا درد زیادہ ہو گیا، اس پر میں خانہ کعبہ کے اندر چلی گئی تو میں نے کعبہ کے اندر سرخ رنگ کے پتھر کے سامنے اپنے بیٹے کو جنم دے دیا۔ دنیا میں آتے ہی بچہ سجدے میں گر گیا اور میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ سبحانک سبحانک......

ألقاب الرسول وعترته، تاليف: من قدماء المحدثين، ص 17، ناشر : مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي - قم

 

 

 

چہارم: عتّاب بن اُسَيد سے نقل شدہ روایت:

رُوِيَ عَنْ عَتَّابِ‏ بْنِ‏ أُسَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ: وُلِدَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام بِمَكَّةَ فِي بَيْتِ اللَّهِ الْحَرَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ رَجَب‏.

عتاب بن اسيد سے روايت نقل ہوئی ہے کہ علی بن ابی طالب عليه السلام مکہ میں، خانہ کعبہ میں اور جمعہ کے دن، 13 ماه رجب، کو دنیا میں آئے۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، مصباح المتهجد، ص 819، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1411 - 1991 م.

 

 

 

پنجم: على بن حسين مسعودی سے نقل شدہ روایت:

 

 

 

روي ان فاطمة بنت أسد لما حملت بأمير المؤمنين عليه السّلام كانت تطوف بالبيت فجاءها المخاض و هي في الطواف فلما اشتد بها دخلت الكعبة فولدته في جوف البيت‏.

 

 

 

روایت ہوئی ہے کہ: فاطمہ بنت اسد جب أمير المؤمنين علی عليہ السّلام سے حاملہ تھیں، تو وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں کہ اسی دوران وضع حمل کا درد محسوس ہوا تو وہ خانہ کعبہ کے اندر چلی گيئں اور خانہ کعبہ کے وسط میں على بن ابی طالب عليہ السّلام کو دنیا میں لایا۔

مسعودى، على بن حسين‏، اثبات الوصية، ص 133، ناشر: انصاريان‏

 

 

 

ان روایات کے معتبر ہونے کے بارے میں:

مذکورہ روایات کے بارے میں دو علم، یعنی علم حدیث اور علم رجال کی روشنی میں کہ مجموعی طور پر یہ پانچ روایات ہیں، راویوں کے بارے میں جرح و توثیق کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ علم حدیث کی رو سے یہ روایات مستفیض ہیں کہ جو معتبر اور قابل قبول ہوتی ہیں۔ یہ بات علم حدیث اور علم رجال کے علماء کے نزدیک واضح اور ثابت شدہ ہے۔

 

 

 

خلاصہ بحث:

 

 

 

امیر المؤمنین علی (ع) کی خانہ کعبہ میں ولادت کے بارے میں تمام روایات فریقین شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں ذکر اور نقل ہوئی ہیں۔ اس بارے میں روایات غیر مسند سے چشم پوشی کرتے ہوئے، وہ روایات جو سلسلہ سند کے ساتھ ذکر و نقل ہوئی ہیں، وہ روایات 5 الگ الگ واسطوں سے نقل ہوئی ہیں کہ نتیجے کے طور پر علم حدیث کی رو سے یہ روایات مستفیض ہوتی ہیں کہ جو علمائے علم حدیث اور علم رجال کے نزدیک معتبر اور قابل قبول ہوتی ہیں۔

 

 

 

اس طرح سے امیر المؤمنین علی (ع) کا خانہ کعبہ میں دنیا میں آنا ثابت ہو جائے گا اور اب وہ دشمنان اسلام یا ناصبی کہ جو کہتے ہیں کہ علی خانہ کعبہ میں دنیا میں نہیں آئے یا جو کہتے ہیں کہ بتوں سے بھرے گھر میں دنیا میں آ جانا کوئی فضیلت نہیں ہے تو ان پر لازم اور ضروری ہے کہ اپنے دعوی پر دلیل لائیں، حالانکہ 1400 سال سے فقط باتیں کر رہے ہیں اور انکے پاس کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ اگر دلیل ہوتی تو اسے ضرور ذکر کرتے۔

 

 

 

السلام علیک یا امیر المؤمنین يَا اَبَا الْحَسَنِ يا اَميرَ الْمُؤْمِنينَ يا عَلِىَّ بْنَ أَبيطالِبٍ يا حُجَّةَ اللّهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا إِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللَهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللَهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَهِ........

التماس دعا.....





Share
1 | اعجاز مرزا | | ١٧:٠٩ - ١٣ April ٢٠١٧ |
ماشاءاللہ ، جس محنت و عرق تیزی سے اس موضوع پر یہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا گیا ہے ، اس پر صاحب تحریر و تحقیق داد و تحسین کے مستحق ہیں ، خدا ان کو اجر عظیم عطا فرمائے اور ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
احقر العباد : اعجاز مرزا

جواب:
سلام علیکم : بہت شکریہ ۔۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔۔
 اللہ ہم سب کو محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دئے ۔
آمین یا رب العالمین ۔۔ 
 
التماس دعا۔۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی