2024 March 28
حضرت زہرا (س)نے ابوبکر سے چند مرتبہ فدک کا مطالبہ کیا تھا ؟
مندرجات: ٦٣٧ تاریخ اشاعت: ١٠ October ٢٠٢١ - ٠٩:٣٥ مشاہدات: 18894
سوال و جواب » فاطمہ زهرا
جدید
حضرت زہرا (س)نے ابوبکر سے چند مرتبہ فدک کا مطالبہ کیا تھا ؟


 حضرت زہرا  (س)نے ابوبکر سے چند مرتبہ فدک کا مطالبہ کیا تھا ؟

 

مطالب کی فہرست :

اجمالی جواب:

تفصیلی جواب:

 حضرت زہرا (س) کا چند مراحل میں فدک کا مطالبہ کرنا:

 فدک کو اپنے والد محترم سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے

فدک کو اپنے والد محترم سے لی گئی میراث کے عنوان سے

حضرت زہرا (س) کا اپنے حق کے لیے مدینہ کے تمام لوگوں سے مدد طلب کرنا:

 اہل سنت حضرات سے چند اہم سوال:

 

اجمالی جواب:

 جب ابوبکر، عمر اور بعض دوسرے دوستوں کی بر وقت مدد سے خلیفہ بن گیا تو، اس نے سب سے پہلے حضرت زہرا (س) کی ملکیت یعنی باغ فدک کو ان سے چھین کر اس باغ میں کام کرنے والے بندوں کو وہاں سے باہر نکال دیا۔ ابوبکر نے حضرت زہرا (س) سے نہ فقط باغ فدک چھینا تھا بلکہ اس نے بی بی سے ان کے والد محترم رسول خدا کا دیا ہوا مال اور جائیداد بھی چھین لی تھی۔ اسی طرح ابوبکر نے جنگ خیبر سے حاصل کیے ہوئے خمس سے بنی ہاشم ( رسول خدا کے ذوی القربی ) کے حصے کو بھی ختم کر دیا تھا۔

حضرت زہرا (س) نے سب سے پہلے ابوبکر سے فدک کو اپنے ذاتی مال اور والد سے لیے ہوئے ہدئیے کے عنوان سے طلب کیا۔ بعض روایات کی بناء پر ابوبکر نے رسول خدا (ص) کی بیٹی کی بات کی تصدیق کر کے اپنے عامل کو خط لکھا کہ باغ فدک کو حضرت زہرا (س) کو واپس کر دیا جائے، لیکن یہ خط عمر نے اسی جگہ یا راستے میں حضرت زہرا سے لے کر پھاڑ دیا تھا۔

حضرت زہرا (س) نے دوسری مرتبہ ابوبکر سے فدک کو اپنے والد سے لی ہوئی میراث کے عنوان سے طلب کیا، یعنی اگر فرض بھی کریں کہ رسول خدا (ص) نے فدک کو حضرت زہرا (س) کو نہ بھی دیا ہو تو، کیونکہ وہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد انکی اکیلی ہی وارث تھیں، اور اسکے علاوہ سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ فدک رسول خدا کی ملکیت تھا، اور باپ کی جائیداد دنیا سے جانے کے بعد اولاد کو ملتی ہے، پس فدک حضرت زہرا کا حق ہو گا۔

ابوبکر نے گواہوں کی گواہی کو ردّ کرتے ہوئے حضرت زہرا (س) کے رسول خدا (ص) کی طرف سے فدک کے ملنے کے دعوی کو ردّ کر دیا اور فدک کے میراث ہونے کے دعوی کو بھی ایک جھوٹی حدیث «لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» گھڑ کر ردّ کر دیا۔

حضرت زہرا (س) نے تیسری مرتبہ ابوبکر سے فدک کو اپنے لیے خمس کے حصے کے طور پر طلب کیا، یعنی خمس ہم اہل بیت (ع) نبی کا حق ہے اور یہ فدک مجھے اپنے بابا سے خمس کے طور پر ملا ہے، لیکن ابوبکر نے اس دعوے کو بھی جھوٹی روایت:

سَهْمُ ذَوِی الْقُرْبَى لَهُمْ فی حَیاتِی وَ لَیسَ بَعْدَ مَوْتِی،

یعنی میرے اہل بیت کو انکا حصہ میری زندگی میں ملے گا، اور میرے مرنے کے بعد انکو کچھ نہیں ملے گا۔

کو گھڑ کر ردّ کر دیا اور اسطرح ابوبکر نے اہل بیت (ع) کو ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا۔

 

اہل سنت کی روایات میں فدک کو میراث کے طور پر ابوبکر سے مطالبہ کرنے کا زیادہ ذکر ہوا ہے اور حقیقت میں ایک سازش سرگرم عمل تھی تا کہ حضرت زہرا اور اہل بیت کو مالی لحاظ سے کمزور سے کمزور کیا جائے،لیکن اہل سنت کی بعض دوسری روایات میں سند معتبر کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ فدک حضرت زہرا کو رسول خدا کی طرف سے ہدئیے کے طور پر ملا تھا۔

اس موضوع کے بارے میں مذکورہ روایات میں تحقیق کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے مختلف عنوان اور ناموں سے ابوبکر سے چھے مرتبہ فدک کا مطالبہ کیا تھا۔

تفصیلی جواب:

 رسول خدا (ص) کا حضرت زہرا (س) کو فدک عطا کرنا:

 

اس تفصیلی جواب کو ہم چند فصلوں میں ذکر کریں گے:

فصل اول:

رسول خدا (ص) کا حضرت زہرا (س) کو فدک عطا کرنا:

 

شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے کہ خیبر کے یہودیوں نے رسول خدا (ص) کو جب فدک دیا تھا تو انھوں نے فدک کو اپنی بیٹی زہرا کو عطا کر دیا تھا۔

روایت اول: از ابو سعید خدری: (با سند صحیح)

ابو یعلی موصلی نے کہ جو اہل سنت کے بزرگان میں سے ہے، اس نے ابو سعید خدری سے روایت کو نقل کیا ہے کہ:

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَینِ بْنِ یزِیدَ الطَّحَّانِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِیدِ بْنِ خُثَیمٍ، عَنْ فُضَیلٍ، عَنْ عَطِیةَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتِ الآیةُ: وَ آتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ. دَعَى النَّبِی صلی الله علیه و سلم فَاطِمَةَ وَ أَعْطَاهَا فَدَكَ.

رسول خدا کے معروف صحابی ابو سیعد خدری نے کہا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی کہ "ذوی القربی کا حصہ انکو عطا کر دیں" تو رسول خدا نے حضرت فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔

أبو یعلى الموصلی التمیمی، أحمد بن علی بن المثنى (متوفی307 هـ)، مسند أبی یعلى، ج 2، ص 334

اور ج 2، ص 534، تحقیق: حسین سلیم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

اسی طرح اسی روایت کو تھوڑی عبارت کی تبدیلی کے ساتھ ایک دوسری جگہ پر اسطرح نقل کیا ہے کہ:

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَینِ بْنِ یزِیدَ الطَّحَّانِ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ خُثَیمٍ، عَنْ فُضَیلٍ، عَنْ عَطِیةَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِی، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیةُ: " وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ " دَعَا النَّبِی صلی الله علیه و سلم فَاطِمَةَ وَ أَعْطَاهَا فَدَكَ "

أبو یعلى الموصلی التمیمی، أحمد بن علی بن المثنى (متوفی307 هـ)، مسند أبی یعلى، ج 2، ص 534، تحقیق: حسین سلیم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

روایت کی سند پر اشکال اور اسکا جواب:

اس روایت کا متن ثابت کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (س) کو دے دیا تھا، لیکن اہل سنت کے بعض علماء نے اس روایت کی سند پر اشکال کیا ہے۔

ہیثمی کہ جو علم رجال کا عالم ہے، اس نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد، فقط عطیہ کو اس سند میں ضعیف کہا ہے اور لکھا ہے کہ:

قوله تعالى (وآت ذا القربى حقه) عن أبی سعید قال لما نزلت (و آت ذا القربى حقه) دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فأعطاها فدك رواه الطبرانی و فیه عطیة العوفی و هو ضعیف متروك.

ابو سعید سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: جب آیت «و آت ذا القربی حقه» نازل ہوئی تو رسول خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر باغ فدک انکو عطا کر دیا۔ اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس روایت کی سند میں عطیہ عوف ہے کہ جو ضعیف اور متروک ہے، یعنی علماء نے اسکی روایات کو ترک کیا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتے۔

الهیثمی، ابوالحسن علی بن أبی بكر (متوفى807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 7 ، ص 49، ناشر: دار الریان للتراث، دار الكتاب العربی - القاهرة، بیروت – 1407هـ.

علمائے وہابی اور اہل سنت کا عطیہ عوفی کو ثقہ قرار  دینا:

کیونکہ اس روایت کی سند میں فقط اشکال عطیہ عوفی پر کیا گیا ہے، اسی وجہ سے ہم اہل سنت کے علمائے علم رجال کی نظر میں اسکے حالات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

عطیہ: اسکا مکمل نام عطیہ بن سعد بن جنادہ ہے۔ علمائے اہل سنت نے اس کا شمار بزرگ راویوں میں کیا ہے اور اسکو ثقہ قرار دیا ہے۔ اب ہم ان علماء کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں:

1. توثیق ہیثمی:

خود ہیثمی نے عطیہ بن سعید کو کہ اس روایت میں ضعیف کہا ہے، اسی نے عطیہ کو ایک دوسری جگہ پر ثقہ کہا ہے:

رواه أحمد و فیه عطیة بن سعید و فیه كلام و قد وثق.

اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور اسکی سند میں عطیہ ذکر ہوا ہے کہ اسکے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ وہ ایک ثقہ راوی ہے۔

مجمع الزوائد، ج 3، ص 120

2. توثیق عجلی کوفی:

عجلی نے اپنی کتاب «معرفة الثقات من رجال أهل العلم و الحدیث» میں عطیہ کا نام ذکر کیا ہے اور واضح طور پر اسکو ثقہ کہا ہے:

عطیة العوفی كوفى تابعی ثقة و لیس بالقوی.

عطیہ عوفی کہ جو اہل کوفہ ہے، وہ تابعی و ثقہ ہے، لیکن زیادہ قوی نہیں ہے۔

العجلی، أبی الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم و الحدیث و من الضعفاء و ذكر مذاهبهم و أخبارهم، ج 2، ص 1253، تحقیق: عبد العلیم عبد العظیم البستوی، ناشر: مكتبة الدار - المدینة المنورة - السعودیة، الطبعة: الأولى،

3. ملا على قارى:

اس نے عطیہ کے بارے میں کہا ہے کہ:

عطیة بن سعد العوفی، و هو من أجلاء التابعین .

       عطیہ بن سعد عوفی، وہ بزرگ تابعین میں سے ہے۔

القاری ، ملا علی (وفات 1104) ؛شرح مسند أبی حنیفة، ص 292 ، ناشر : دار الکتب العلمیة بیروت

4. توثیق محمد بن جریر طبری :

اس نے عطیہ کے بارے میں کہا ہے کہ:

منهم عطیة بن سعد بن جنادة العوفى ... و کان کثیر الحدیث ثقة إن شاء الله.

ان میں سے ایک عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ہے.... اس نے بہت سی روایات کو نقل کیا ہے اور وہ انشاء اللہ ثقہ ہے۔

الطبری، محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر (متوفی310هـ) المنتخب من ذیل المذیل ، ج 1، ص 304، الجامع الکبیر کی سی ڈی کیمطابق،

5. توثیق ابن سعد:

اس نے اپنی کتاب الطبقات میں عطیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

عطیة بن سعد بن جنادة العوفی ... و کان ثقة إن شاء الله و له أحادیث صالحة.

عطیہ بن سعد... انشاء الله ثقہ ہے، اور اس نے اچھی روایات کو نقل کیا ہے۔

الزهری، محمد بن سعد بن منیع ابو عبد الله البصری (متوفى230هـ)، الطبقات الکبرى، ج6، ص 304 ، ناشر: دار صادر - بیروت.

6. یحیى بن معین :

یہ علم رجال کا بزرگ عالم ہے اور روایوں کے بارے میں بہت ہی احتیاط سے کام لینے میں مشہور ہے، اس نے عطیہ کو صالح کہا ہے:

قیل لیحیى کیف حدیث عطیة قال صالح.

یحیی بن معین سے کہا گیا کہ عطیہ کی روایات کیسی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ صالح ہے یعنی روایات کو نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یحیى بن معین أبو زکریا ( متوفی233هـ)، تاریخ ابن معین (روایة عثمان الدارمی)، ج 3 ، ص 500، تحقیق: د. أحمد محمد نور سیف، دار النشر: دار المأمون للتراث - دمشق

ابن جعد نے بھی یحیی بن معین کے قول کو نقل کیا ہے:

حدثنا بن زنجویه نا زید بن الحباب نا فضیل بن مرزوق الأغر الرؤاسی نا أبو إسحاق و حدثنا عباس سمعت یحیى بن معین یقول عطیة العوفی هو عطیة الجدلی قیل لیحیى کیف حدیث عطیة قال صالح.

یحیی بن معین سے کہا گیا کہ عطیہ کی روایات کیسی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ صالح اور اچھا راوی ہے، یعنی روایات کو نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

الجوهری البغدادی، علی بن الجعد بن عبید ابوالحسن (متوفى230هـ) مسند ابن الجعد، ج 1، ص 302 ، تحقیق: عامر أحمد حیدر، ناشر: مؤسسة نادر - بیروت، الطبعة: الأولى، 1410هـ – 1990م.

7. ترمذی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

ترمذی کہ اسکی کتاب صحاح ستہ میں سے ایک کتاب ہے، اس نے عطیہ کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے:

حدثنا أبو کُرَیبٍ حدثنا مُعَاوِیةُ بن هِشَامٍ عن شَیبَانَ عن فِرَاسٍ عن عَطِیةَ عن أبی سَعِیدٍ قال قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم من یرَائِی یرَائِی الله بِهِ وَ مَنْ یسَمِّعْ یسَمِّعْ الله بِهِ قال و قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم من لَا یرْحَمْ الناس لَا یرْحَمْهُ الله و فی الْبَاب عن جُنْدَبٍ وَ عَبْدِ اللَّهِ بن عَمْرٍو قال أبو عِیسَى هذا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ من هذا الْوَجْهِ،

......، اس سند میں کہ عطیہ موجود ہے، روایت کی سند اس طریق سے حسن و صحیح ہے۔

الترمذی السلمی، ابوعیسی محمد بن عیسی (متوفى 279هـ)، سنن الترمذی، ج 4 ، ص591 ، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.

اور بہت سی جگہ پر اس نے عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے، جیسے:

سنن الترمذی  ج 4، ص 670 ش 2522،

سنن الترمذی  ج 4، ص 693 ش 2558 ،

8. حاكم نیشاپوری کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

حاكم نیشاپوری نے بھی عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

أخبرنا عبد الله بن الحسین بمرو ثنا الحارث بن أبی أسامة ثنا هاشم بن القاسم ثنا أبو عقیل عبد الله بن عقیل الثقفی عن ربیعة بن یزید وعطیة بن قیس عن عطیة بن سعد رضی الله عنه و كان من أصحاب رسول الله صلى الله علیه و سلم أنه قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم إن الرجل لا یكون من المتقین حتى یدع ما لا بأس به حذرا لما به بأس،

 هذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاه.

اس روایت کے راویوں میں سے ایک عطیہ بن سعد ہے، لہذا اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری و مسلم نے اس روایت کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

المستدرك على الصحیحین  ج 4 ، ص 355

9. قطیعی اور ترمذی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

 احمد ابن حنبل نے ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں روایت کو نقل کیا ہے کہ اہل سنت کے دوسرے علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، وہ روایت یہ ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا بن فُضَیلٍ ثنا سَالِمٌ یعنی بن أبی حَفْصَةَ وَ الأَعْمَشُ وَ عَبْدُ اللَّهِ بن صُهْبَانَ وَ كَثِیرٌ النَّوَّاءُ وابن أبی لَیلَى عن عَطِیةَ العوفی عن أبی سَعِیدٍ الخدری قال قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم ان أَهْلَ الدَّرَجَاتِ العلی لَیرَاهُمْ من تَحْتَهُمْ كما تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فی أُفُقٍ من آفَاقِ السَّمَاءِ أَلاَ و ان أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ منهم وَ أَنْعَمَا،

عطیہ نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: جو جنت میں بلند درجے پر ہوں گے وہ نیچے درجے والوں کو دیکھ سکتے ہوں گے، جس طرح کہ وہ آسمان پر طلوع ہونے والے ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ابوبکر اور عمر بھی ان افراد میں سے ہیں۔

مسند أحمد بن حنبل  ج 3، ص 93

بدر الدین عبد الله بدر کہ جو کتاب ، جزء الالف دینار، کا محقق ہے، اس نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے:

حدثنا الفضل قال حدثنا عثمان بن عبد الله البیتامی قال حدثنا سلمة ابن سنان الأنصاری عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم ( إن أهل الدرجات العلى لیراهم من هو أسفل منهم كما تراءون الكوكب الدری فی أفق السماء و إن أبا بكر و عمر منهم و أنعما) صحیح.

اس روایت کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے......،

القطیعی، أبو بكر أحمد بن جعفر بن حمدان (متوفی368هـ)، جزء الألف دینار وهو الخامس من الفوائد المنتقاة والأفراد الغرائب الحسان، ج 1، ص 238، تحقیق: بدر بن عبد الله البدر، دار النشر: دار النفائس – الكویب، الطبعة: الأولى،

البتہ اسی محقق نے اسی کتاب میں اس روایت کو دوسری دو جگہ پر بھی، صحیح قرار دیا ہے:

جزء الألف دینار، ج 1،  ص 288

جزء الألف دینار، ج 1،  ص 441

بغوی نے بھی روایت کو حسن کہا ہے:

هذا حدیث حسن.

البغوی، الحسین بن مسعود (متوفى516هـ)، شرح السنة، ج 14، ص 100، تحقیق: شعیب الأرناؤوط - محمد زهیر الشاویش، ناشر: المكتب الإسلامی - دمشق _ بیروت، الطبعة: الثانیة، 1403هـ - 1983م.

10. زیلعی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

 زیلعی عالم بزرگ اہل سنت نے بھی عطیہ کی روایت کو حسن قرار دیا ہے:

حدیث آخر أخرجه الترمذی عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم ان أحب الناس إلى الله یوم القیامة و ادناهم مجلسا منه امام عادل قال بن القطان فی كتابه و عطیة العوفی مضعف و قال بن معین فیه صالح فالحدیث به حسن انتهى،

یہ روایت اس سند کے ساتھ حسن ہے، کہ اس سلسلہ سند میں ایک راوی عطیہ عوفی بھی ہے۔

الزیلعی، عبدالله بن یوسف ابومحمد الحنفی (متوفى762هـ)، نصب الرایة لأحادیث الهدایة، ج 4، ص 68، تحقیق: محمد یوسف البنوری، ناشر: دار الحدیث - مصر – 1357هـ.

11. البانی وہابی کا عطیہ کی روایات کو صحیح قرار دینا:

البانی وہابی نے عطیہ کی بہت سی روایات کو صحیح قرار دیا ہے:

روایت اول:

 ( صحیح )

 حدثنا القاسم بن زکریا بن دینار حدثنا عبد الرحمن بن مصعب ح و حدثنا محمد ابن عبادة الواسطی حدثنا یزید بن هارون قالا حدثنا إسرائیل أنبأنا محمد بن جحادة عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر (صحیح ) ...

صحیح سنن ابن ماجة للالبانی ش 3240-4001

روایت دوم:

 ( سنن الترمذی )

حدثنا زیاد بن أیوب البغدادی حدثنا محمد بن ربیعة عن فضیل بن مرزوق عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال كان نبی الله صلى الله علیه وسلم یصلی الضحى حتى نقول لا یدع ویدعها حتى نقول لا یصلی قال أبو عیسى هذا حدیث حسن غریب .

تحقیق الألبانی :

صحیح ، ابن ماجة

صحیح و ضعیف سنن الترمذی - ج 1  ص 477

 ( سنن الترمذی )

حدثنا ابن أبی عمر حدثنا سفیان عن مطرف عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم كیف أنعم و قد التقم صاحب القرن القرن وحنى جبهته و أصغى سمعه ینتظر أن یؤمر أن ینفخ فینفخ قال المسلمون فكیف نقول یا رسول الله قال قولوا حسبنا الله و نعم الوكیل توكلنا على الله ربنا و ربما قال سفیان على الله توكلنا قال أبو عیسى هذا حدیث حسن و قد رواه الأعمش أیضا عن عطیة عن أبی سعید .

تحقیق الألبانی :

صحیح ، الصحیحة

صحیح و ضعیف سنن الترمذی، ج 7  ص 243

اور اسکے علاوہ دوسری روایات.......،

پس عطیہ عوفی اہل سنت کے علماء رجال کی نظر میں موثق ہے، خاص طور پر اس جگہ میں بہت ہی ثقہ ہے کہ جب اس نے ابوبکر اور عمر کے فضائل کو نقل کیا ہو۔ جس طرح کہ آپ نے اوپر عبارت میں ایک نمونے کو ملاحظہ کیا ہے۔

البتہ بعض دوسرے علماء نے بھی عطیہ عوفی کی روایات کو صحیح اور معتبر قرار دیا ہے، لیکن عطیہ عوفی کے ثقہ ہونے کے واضح ہونے کی وجہ سے ہم فقط اتنی ہی مقدار میں علماء کے کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

سیوطى کہ اہل سنت کا معروف عالم ہے، اس نے اپنی کتاب الدر المنثور میں اہل سنت کے چند علماء کے نام کو ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے اپنی کتب میں ابو سعید کی روایت کو نقل کیا ہے:

و أخرج البزار و أبو یعلى و ابن أبی حاتم و ابن مردویه عن أبی سعید الخدری رضی الله عنه قال: لما نزلت هذه الآیة «و آت ذا القربى حقه» دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فأعطاها فدك.

بزار، أبو یعلى، ابن أبی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید کے ذریعے سے اس واقعے کو نقل کیا ہے کہ ابو سعید نے کہا ہے کہ: جب آیت و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔

السیوطی، عبد الرحمن بن الكمال جلال الدین (متوفی911هـ)، الدر المنثور، ج 5، ص 273، ناشر: دار الفكر - بیروت – 1993.

روایت دوم: از ابن عباس:

شوکانی نے ابن عباس کے ذریعے سے روایت کو نقل کیا ہے کہ جس میں رسول خدا (ص) کی طرف سے حضرت زہرا (س) کو فدک کے دئیے جانے کے بارے میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

و أخرج ابن مردویه عن ابن عباس قال لما نزلت (و آت ذا القربى حقه) أقطع رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فدك.

ابن مردویہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ: جب آیت ، و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے فدک کو فاطمہ کو دینے کے لیے الگ کر دیا۔

الشوكانی، محمد بن علی بن محمد (متوفی1255هـ)، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة و الدرایة من علم التفسیر، ج 3، ص 224، ناشر: دار الفكر – بیروت.

روایت سوم: از امام صادق (ع):

شیعہ کتب میں بھی رسول خدا (ع) کے حضرت زہرا (س) کو فدک دینے کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں۔ ان روایات میں سے ایک طولانی روایت ہے کہ جو امام صادق (ع) سے نقل ہوئی ہے، کہ اس روایت کے ایک حصے میں امام نے فرمایا ہے کہ:

... فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ علیها السلام فَقَالَ یا بُنَیةِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِیكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا فَهِی لِی خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِینَ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِیجَةَ عَلَى أَبِیكِ مَهْرٌ وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ بِذَلِكِ وَ نَحَلْتُكِهَا تَكُونُ لَكِ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ قَالَ فَدَعَا بِأَدِیمٍ عُكَاظِی وَ دَعَا عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ علیه السلام فَقَالَ اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وَ شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ وَ أُمُّ أَیمَنَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِی صلی الله علیه وآله فَقَاطَعَهُمْ عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِینَ أَلْفَ دِینَارٍ فِی كُلِّ سَنَةٍ.....،

رسول خدا (ص) جب غزوے سے واپس آئے تو حضرت زہرا کے پاس گئے اور فرمایا کہ: اے میری بیٹی ! خداوند نے فدک کو تیرے باپ کو بخشا ہے اور اس کے ساتھ خاص کیا ہے اور اس فدک میں کسی دوسرے مسلمان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تم اس فدک کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتی ہو، انجام دے سکتی ہو، کیونکہ میں تیری ماں خدیجہ کو اس کا حق مہر ادا کرنے کا مقروض تھا، اسلیے میں فدک کو تیری ماں کے مہر کے بدلے میں تجھے عطا کرتا ہوں کہ یہ فدک تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہو گا۔ اسکے بعد ایک کھال کی بنی ہوئی چیز کو لے کر علی (ع) کو دیا اور ان سے فرمایا کہ: لکھو کہ رسول خدا نے فدک کو اپنی بیٹی  فاطمہ کو عطا کر دیا ہے۔ علی (ع) نے لکھنے کے بعد رسول خدا کے غلام اور ام ایمن کو اس تحریر پر گواہ بنایا۔ رسول خدا نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ام ایمن اہل بہشت میں سے ہے۔ اہل فدک آئے اور انھوں نے رسول خدا کے ساتھ ہر سال میں 24،000 دینار دینے کے بدلے میں، اتفاق اور صلح کر لی۔

الراوندی، قطب الدین (متوفى573هـ)، الخرائج والجرائح، ج‏1، ص 113، تحقیق و نشر: مؤسسة الإمام المهدی علیه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

یہاں تک اس صحیح روایت اور دوسری روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ فدک فقط و فقط رسول خدا (ص) کی اپنی خاص ملکیت تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو اپنی بیٹی حضرت زہرا (س) کو ہدئیے کے طور پر عطا کر دیا تھا۔

فصل دوم:

 حضرت زہرا (س) کا چند مراحل میں فدک کا مطالبہ کرنا:

جب ثابت ہو گیا کہ رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو فدک ہدئیے کے طور پر عطا کیا تھا تو، اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ فدک حضرت زہرا (س) کی ملکیت تھا اور فقط وہ اسکی مالک تھیں اور دوسرا جو بھی باغ فدک میں کوئی بھی کام انجام دینا چاہتا ہو تو، وہ حضرت زہرا کی اجازت کے ساتھ انجام دے گا اور باغ فدک لینا یا اس پر قبضہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی بھی انکی اجازت کے بغیر کوئی  کام بھی اس باغ میں انجام نہیں دے سکتا تھا۔

لیکن رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد جب ابوبکر زبردستی خلیفہ بن گیا تو اس نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا (س) کے بندوں کو زبردستی نکال کر فدک کو اس کے مالک کی مرضی و رضایت کے خلاف مسلمانوں کے عمومی اموال میں قرار دے دیا۔

اس واضح غصب کے بعد حضرت زہرا (س) نے اپنے حق فدک کو واپس لینے کے لیے اپنے مطالبات کا آغاز کیا۔

یہ نکتہ مہم اور قابل توجہ ہے کہ حضرت زہرا (س) کی طرف سے چند مرحلوں میں اور مختلف عنوانات کے ساتھ بار بار فدک کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس بارے میں روایات کو چند گرہوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

1- حضرت زہرا (س) کا خود دربار میں حاضر ہو کر فدک کو اپنے والد محترم سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کرنا:

پہلے مرحلے میں حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کا اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا، لیکن ابوبکر نے حضرت زہرا سے کہا کہ اپنے اس دعوی پر گواہ لے کر آئے۔ حضرت زہرا نے علی (ع)، ام ایمن اور رسول خدا (ص) کے غلام رباح کو اپنے گواہوں کے طور پر پیش کیا۔

 بعض دوسری روایات کے مطابق حضرت زہرا (س) گواہی کے لیے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو اپنے ساتھ لے گئیں، لیکن بہت ہی افسوس کہ ابوبکر نے مختلف بہانوں سے انکی گواہی کو جھٹلا دیا۔

اس بارے میں ہم شیعہ اور اہل سنت کی روایات کو ذکر کرتے ہیں:

 

روایت اول: از امام صادق (ع):

علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں آیت «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِینَ وَ ابْنَ السَّبِیلِ‏» کی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:

حَدَّثَنِی أَبِی عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِیسَى وَ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ لَمَّا بُویعَ لِأَبِی بَكْرٍ وَ اسْتَقَامَ لَهُ الْأَمْرُ عَلَى جَمِیعِ الْمُهَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ بَعَثَ إِلَى فَدَكَ فَأَخْرَجَ وَكِیلَ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله مِنْهَا- فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ علیها السلام إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَتْ یا أَبَا بَكْرٍ مَنَعْتَنِی عَنْ مِیرَاثِی مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَ أَخْرَجْتَ وَكِیلِی مِنْ فَدَكَ فَقَدْ جَعَلَهَا لِی رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله بِأَمْرِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهَا هَاتِی عَلَى ذَلِكَ شُهُوداً- فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ فَقَالَتْ لَا أَشْهَدُ- حَتَّى أَحْتَجَّ یا أَبَا بَكْرٍ عَلَیكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله فَقَالَتْ أَنْشُدُكَ اللَّهَ، أَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله قَالَ إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ بَلَى، قَالَتْ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ» فَجَعَلَ فَدَكَ لِفَاطِمَةَ بِأَمْرِ اللَّهِ- وَ جَاءَ عَلِی علیه السلام فَشَهِدَ بِمِثْلِ ذَلِكَ- فَكَتَبَ لَهَا كِتَاباً بِفَدَكَ وَ دَفَعَهُ إِلَیهَا- فَدَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَذَا الْكِتَابُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ فَاطِمَةَ ادَّعَتْ فِی فَدَكَ وَ شَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ وَ عَلِی فَكَتَبْتُ لَهَا بِفَدَكَ، فَأَخَذَ عُمَرُ الْكِتَابَ مِنْ فَاطِمَةَ فَمَزَّقَهُ وَ قَالَ هَذَا فَی‏ءُ الْمُسْلِمِین‏.....،

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب ابوبکر کی بیعت کی گئی اور اسکی خلافت کا زبردستی اعلان ہو گیا تو، اس نے اپنے بندوں کو باغ فدک بھیجا اور انھوں نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا کے کاریگروں کو وہاں سے زبردستی نکال دیا۔ فاطمہ ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: اے ابوبکر! تم نے مجھے رسول خدا کی میراث سے محروم کر دیا ہے اور میرے مزدوروں کو بھی وہاں سے نکال دیا ہے، حالانکہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو مجھے دیا تھا۔

ابوبکر نے کہا کہ: اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ لے کر آؤ۔ حضرت زہرا نے ام ایمن کو پیش کیا۔ اس نے کہا کہ: میں رسول خدا (ص) کے اس فرمان پر گواہی دیتی ہوں تا کہ تمہارے سامنے احتجاج کر سکوں۔ ام ایمن نے کہا کہ: اے ابوبکر میں تم کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ: ام ایمن اہل جنت میں سے ہے ؟ ابوبکر نے جواب دیا: ہاں سنا ہے، ام ایمن نے کہا کہ: میں گواہی دیتی ہوں کہ: خداوند نے اپنے رسول کو وحی کی کہ اپنے ذوی القربی کا حق انکو دے دو، اس پر رسول خدا نے فدک کو خداوند کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی فاطمہ کو دے دیا، پھر علی آئے اور انھوں نے  بھی ام ایمن کی طرح گواہی دی۔ یہ سن کر ابوبکر نے حضرت زہرا کے لیے ایک حکم نامہ لکھا اور انکو دیا کہ، جس میں لکھا تھا کہ، فدک انکو واپس کر دیا جائے۔ اسی وقت عمر ابوبکر کے پاس آیا اور کہا: یہ کیسا حکم نامہ ہے ؟ ابوبکر نے کہا کہ: فاطمہ نے فدک کے بارے میں ایک دعوی کیا تھا اور اپنے اس دعوی پر ام ایمن اور علی (ع) کو گواہی کے لیے بھی پیش کیا ہے اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا، میں نے اسی وجہ سے اس حکم نامے کو لکھ کر حضرت زہرا کو دیا ہے۔ یہ سن کر عمر نے فاطمہ (س) سے حکم نامہ لے کر اسکو پھاڑ کر کہا کہ یہ فدک تمام مسلمانوں کا حق ہے......،

         القمی، أبی الحسن علی بن ابراهیم (متوفى310هـ) تفسیر القمی، ج‏2، ص 156، تحقیق: تصحیح وتعلیق وتقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

روایت دوم: از مالک بن جعونہ:

بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا:

      وَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَیمُونٍ الْمُكْتِبُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفُضَیلُ بْنُ عَیاضٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ جَعْوَنَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ لأَبِی بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله جَعَلَ لِی فَدَكَ، فَأَعْطِنِی إِیاهُ، وَشَهِدَ لَهَا عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَسَأَلَهَا شَاهِدًا آخَرَ، فَشَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتِ یا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ أَنَّهُ لا تَجُوزُ إِلا شَهَادَةُ رَجُلَینِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ، فَانْصَرَفَتْ.

مالك بن جعونہ نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو، اور علی (ع) نے حضرت زہرا کے لیے گواہی دی۔ ابوبکر نے ایک دوسرا گواہ طلب کیا تو، ام ایمن نے بھی گواہی دی۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی آپ کو تو معلوم ہے کہ دو مرد اور ایک عورت کی گواہی قبول کی جاتی ہے۔ حضرت زہرا ابوبکر کی یہ بات سن کر وہاں سے چلی گئیں۔

         البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ

روایت سوم: از جعفر بن محمد:

بلاذرى نے ایک دوسری روایت کو اسطرح نقل کیا ہے کہ:

وَ حَدَّثَنِی رَوْحٌ الْكَرَابِیسِی، قَالَ: حَدَّثَنَا زَیدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ رَجُلٍ حَسِبَهُ رَوْحٌ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِی اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لأَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ: أَعْطِنِی فَدَكَ، فَقَدْ جَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِی، فَسَأَلَهَا الْبَینَةَ، فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ، وَرَبَاحٍ مَوْلَى النَّبِی صلی الله علیه وسلم فَشَهِدَا لَهَا بِذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لا تَجُوزُ فِیهِ إِلا شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ.

جعفر بن محمد نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ یہ سن کر ابوبکر نے ان سے گواہوں کو طلب کیا۔ اس پر فاطمہ نے ام ایمن اور رسول خدا کے غلام رباح کو پیش کیا اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا۔ اس پر ابوبکر نے کہا کہ: وہ گواہی قابل قبول ہوتی ہے کہ جو دو مرد اور ایک عورت گواہی دیں۔

      البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ.

روایت چہارم: از ابی بكر بن عمرو:

طبری نے ایک دوسری روایت کو ابی بکر بن عمرو کے طریق سے نقل کیا ہے کہ:

و عن عبد الله بن أبی بكر بن عمرو بن حزم عن أبیه قال جاءت فاطمة إلى أبی بكر فقالت اعطنی فدك فإن رسول الله صلى الله علیه وسلم وهبها لی قال صدقت یا بنت رسول الله صلى الله علیه وسلم ولكنی رأیت رسول الله صلى الله علیه وسلم یقسمها فیعطی الفقراء والمساكین وابن السبیل بعد ان یعطیكم منها.

فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی، آپ نے صحیح کہا ہے، لیکن میں نے خود دیکھا تھا کہ رسول خدا نے فدک میں سے آپ کے حصے کو دینے کے بعد، اسکو فقراء، مساکین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

      الطبری، ابوجعفر محب الدین أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفى694هـ)، الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ج 2، ص 126، تحقیق: عیسی عبد الله محمد مانع الحمیری، ناشر: دار الغرب الإسلامی - بیروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

روایت پنجم: از موسی بن عقبہ:

بلاذری نے ایک دوسری روایت کو موسی بن عقبہ سے نقل کیا ہے کہ:

الْمَدَائِنِی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ خَالِدٍ مَوْلَى خُزَاعَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، قَالَ : دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِی بَكْرٍ حِینَ بُویعَ . فَقَالَتْ : إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ وَرَبَاحًا یشْهَدَانِ لِی أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی فَدَكَ . فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا خَلَقَ اللَّهُ أَحَبَّ إِلَی مِنْ أَبِیكِ، لَوَدِدْتُ أَنَّ الْقِیامَةَ قَامَتْ یوْمَ مَاتَ ، وَ لَأَنْ تَفْتَقِرَ عَائِشَةُ أَحَبُّ إِلَی مِنْ أَنْ تَفْتَقِرِی ، أَفَتَرَینِی أُعْطِی الأَسْوَدَ وَ الأَحْمَرَ حُقُوقَهُمْ وَ أَظْلِمُكِ وَ أَنْتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ إِنَّمَا كَانَ لِلْمُسْلِمِینَ ، فَحَمَّلَ مِنْهُ أَبُوكِ الرَّاجِلَ وَ ینْفِقُهُ فِی السَّبِیلِ ، فَأَنَا إِلَیهِ بِمَا وَلِیهُ أَبُوكِ ، قَالَتْ : وَاللَّهِ لا أُكَلِّمُكَ قَالَ : وَاللَّهِ لا أَهْجُرُكِ . قَالَتْ : وَاللَّهِ لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ عَلَیكَ . قَالَ : لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ لَكِ.

موسی بن عقبہ نے کہا ہے کہ: جب ابوبکر کی بیعت ہو گئی تو  حضرت زہرا اس کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: ام ایمن اور رباح گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔

کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( یعنی باغ فدک ) تمام مسلمانوں کا حق ہے، اور تمہارے والد نے فدک کو خدا کی راہ میں مجاہدین پر انفاق کر دیا تھا، یعنی رسول خدا فدک کی آمدنی کو جنگ میں مجاہدین پر خرچ کرتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا جو تمہارے والد انجام دیتے تھے۔ یہ سن کر فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں  تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔

     البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (متوفى279هـ)، أنساب الأشراف، ج3، ص 316، الجامع الكبیر کی سی ڈی کیمطابق،

روایت ششم: ہشام بن محمد :

جوہری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا تھا:

و روى هشام بن محمد، عن أبیه قال: قالت فاطمة، لأبی بكر: إن أم أیمن تشهد لی أن رسول الله (صلى الله علیه وآله)، أعطانی فدك، فقال لها: یا ابنة رسول الله، والله ما خلق الله خلقا أحب إلی من رسول الله (صلى الله علیه وآله) أبیك، ولوددت أن السماء وقعت على الأرض یوم مات أبوك، والله لأن تفتقر عائشة أحب إلی من أن تفتقری، أترانی أعطی الأحمر والأبیض حقه وأظلمك حقك، وأنت بنت رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم)، إن هذا المال لم یكن للنبی (صلى الله علیه وآله وسلم)، وإنما كان مالا من أموال المسلمین یحمل النبی به الرجال، وینفقه فی سبیل الله، فلما توفی رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم) ولیته كما كان یلیه، قالت: والله لا كلمتك أبدا، قال: والله لا هجرتك أبدا، قالت: والله لأدعون الله علیك، قال: والله لأدعون الله لك، فلما حضرتها الوفاة أوصت ألا یصلی علیها، فدفنت لیلا، وصلى علیها عباس بن عبد المطلب، وكان بین وفاتها ووفاة أبیها اثنتان وسبعون لیلة .

فاطمہ (س) نے ابوبکر سے کہا کہ: ام ایمن گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔

کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( باغ فدک ) رسول خدا کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے، کہ جو لوگ لے رسول خدا کے پاس آتے تھے اور وہ بھی اسکو خدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔ اب انکی وفات کے بعد میں اس فدک کا عہدے دار ہوں، جسطرح کہ رسول خدا اپنی زندگی میں، اس فدک کے عہدے دار تھے۔

فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں تمہارے لیے بددعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔

جب فاطمہ (س) کا وفات کا وقت نزدیک آیا تو، انھوں نے وصیت کی کہ ابوبکر میرے جنازے میں شریک نہ ہو اور مجھ پر نماز نہ پڑھے، پس انکو رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور عباس بن عبد المطلب نے ان پر نماز پڑھی۔ رسول خدا اور حضرت فاطمہ کی وفات میں 72 دن کا فاصلہ تھا۔

 

الجوهری، أبی بكر أحمد بن عبد العزیز (متوفی323هـ)، السقیفة وفدك، ص 104، تحقیق: تقدیم وجمع وتحقیق: الدكتور الشیخ محمد هادی الأمینی، ناشر : شركة الكتبی للطباعة والنشر - بیروت – لبنان، الطبعة الأولى 1401 ه‍ - 1980م / الطبعة الثانیة 1413 ه‍ . 1993م

2: حضرت زہرا (س) کا خود دربار میں حاضر ہو کر فدک کو اپنے والد محترم سے لی گئی میراث کے عنوان سے مطالبہ کرنا:

اسکے بعد کہ فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے حضرت زہرا کے مطالبے کو سقیفہ کے حاکم ابوبکر نے ردّ کیا تو رسول خدا کی بیٹی نے اپنے حق کو لینے کے لیے، اپنے عنوان کو بدلا۔

 سید ابن طاوؤس نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

 و من طریف ما تجدد لفاطمة علیها السلام منهم أنها لما رأت تكذیبهم لها وشكهم فیها وفی شهودها بأن أباها وهبها ذلك فی حیاته أرسلت إلى أبی بكر و رووا أنها حضرت بنفسها تطلب فدكا بطریق میراث أبیها، و رووا أنها حضرت بنفسها تطلب فدكا بطریق میراث أبیها، لأن المسلمین لا یختلفون فی أن فدكا كانت لأبیها محمد (صلی الله علیه و آله) فمنعها أیضا أبو بكر من میراثها و هان علیه ظلمها و تكذیبها.

جالب نکات میں سے یہ نکتہ جالب ہے کہ: فاطمہ (س) نے اپنے مطالبے کی روش اور طریقے کو بدلا اور ایک دوسرا راستہ نکالا اور اس وجہ سے وہ فاطمہ (س) کے دعوے کو جھٹلا رہے تھے اور انکے پیش کیے گئے گواہوں کی گواہی کو بھی قبول نہیں کر رہے تھے، اور آخر کار فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے حضرت زہرا کے دعوے کو قبول نہیں کر رہے تھے، فاطمہ نے کسی بندے کو ابوبکر کے پاس بھیجا۔

 روایت کی گئی ہے کہ: فدک کے رسول خدا کی ملکیت ہونے کے بارے میں کسی کا کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن ابوبکر نے فاطمہ (س) کو انکے والد محترم کی میراث سے محروم کر دیا اور انکے حق کے غصب کرنے اور انکے دعوی کو جھٹلانے کو ایک عام و عادی کام شمار کیا تھا۔

       ابن طاووس الحلی، ابی القاسم علی بن موسی (متوفی664هـ)، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ص 257، چاپخانه: الخیام ـ قم، چاپ: الأولى1399

اہل سنت کی کتب میں حضرت زہرا (س) کے اس عنوان سے اپنے مطالبے کو بیان کرنے کے بارے میں صحیح سند کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں کہ جن میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت زہرا نے اپنے مطالبے کو بار بار ابوبکر کے سامنے بیان کیا تھا۔

پہلی مرتبہ:

 حضرت زہرا (س) کا رسول خدا (ص) کی شہادت کے دوسرے دن علی (ع) کے ساتھ جا کر ابوبکر کے سامنے فدک کے مطالبے کو بیان کرنا:

ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات الكبری میں لکھا ہے کہ:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَیدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، یقُولُ: لَمَّا كَانَ الْیوْمُ الَّذِی تُوُفِّی فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم بُویعَ لأَبِی بَكْرٍ فِی ذَلِكَ الْیوْمِ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ مَعَهَا عَلِی، فَقَالَتْ: مِیرَاثِی مِنْ رَسُولِ اللَّهِ أَبِی! فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِنَ الرِّثَّةِ أَوْ مِنَ الْعِقَدِ؟ قَالَتْ: فَدَكُ وَخَیبَرُ وَصَدَقَاتُهِ بِالْمَدِینَةِ أَرِثُهَا كَمَا یرِثُكَ بَنَاتُكَ إِذَا مِتَّ !، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُوكِ وَاللَّهِ خَیرٌ مِنِّی، وَأَنْتِ وَاللَّهِ خَیرٌ مِنْ بَنَاتِی، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: " لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". یعْنِی هَذِهِ الأَمْوَالَ الْقَائِمَةَ، فَتَعْلَمِینَ أَنَّ أَبَاكِ أَعْطَاكِهَا، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتِ نَعَمْ لأَقْبَلَنَّ قَوْلَكِ وَلأُصَدِّقَنَّكِ ! قَالَتْ: جَاءَتْنِی أُمُّ أَیمَنَ فَأَخْبَرَتْنِی أَنَّهُ أَعْطَانِی فَدَكَ، قَالَ: فَسَمِعْتِهِ، یقُولُ هِی لَكِ؟ فَإِذَا قُلْتِ قَدْ سَمِعْتُهُ فَهِی لَكِ، فَأَنَا أُصَدِّقُكِ، وَأَقْبَلُ قَوْلَكِ، قَالَتْ: قَدْ أَخْبَرْتُكَ مَا عِنْدِی.

زید بن اسلم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ عمر نے کہا کہ: جس دن رسول خدا دنیا سے گئے تو، اسی دن ابوبکر کی بیعت کی گئی۔ اس کے دوسرے دن حضرت زہرا امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: میں تم سے اپنے والد کی میراث کو طلب کرنے کے لیے آئی ہوں۔ ابوبکر نے کہا کہ: اپنے والد کی میراث یا ان سے کیے گئے عقد سے ؟ یعنی وہ چیزیں کہ جو تم نے رسول خدا سے خریدی ہیں یا وہ جو انھوں نے تم کو دی ہیں، حضرت نے فرمایا کہ: فدک، خیبر اور انکے مدینے کے صدقات میراث کے طور پر اب مجھے ملیں گے، جس طرح کہ تیرے مرنے کے بعد تیری میراث تیری بیٹیوں کو ملے گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم تیرے والد مجھ سے بہتر ہیں اور تم میری بیٹیوں سے بہتر ہو اور رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی چیز میراث کے طور پر نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چھوڑتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے،  یعنی جو تم ساری چیزیں کہہ رہی ہو اب تمہاری میراث نہیں بلکہ صدقہ ہے۔

البصری الزهری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبد الله (متوفی230 هـ)، الطبقات الكبرى، ج 2، ص 315، دار النشر : دار صادر - بیروت ، الجامع الكبیر کی سی ڈی کیمطابق،

یہ روایت صحیح ہے اور اس روایت کے حکم کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ:

الحكم على المتن: صحیح لغیره.

اس روایت میں موجود قابل توجہ نکتہ:

       «فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ مَعَهَا عَلِی» 

اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کی شہادت کے ایک دن بعد حضرت زہرا (س) اور امیر المؤمنین علی (ع) فدک کا مطالبہ کرنے کے لیے ابوبکر کے پاس گئے تھے۔

لیکن لفظ "غد" سے رسول خدا کی شہادت کے ایک دن بعد کا معنی نہیں کیا جا سکتا، اسلیے کہ اس وقت تک تو ابھی رسول خدا کے بدن مطہر کو دفن بھی نہیں کیا گیا تھا، پس کیسے علی (ع) و فاطمہ (س) اس حالت میں دوسروں کی طرح رسول خدا کے بدن مطہر کو چھوڑ کر میراث اور مال دنیا کے پیچھے جا سکتے تھے ؟؟؟

اسکے علاوہ رسول خدا کی شہادت کے ایک دن بعد کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تھی، تو فوری تو فدک کو انھوں نے غصب نہیں کیا تھا، کیونکہ ابھی تو ابوبکر کی خلافت اتنی محکم بھی نہیں ہوئی تھی اور ابھی تو سب مہاجرین اور انصار سے اسکے لیے بیعت بھی نہیں لی گئی تھی کہ علی (ع) اور فاطمہ (س) فدک کا مطالبہ کرنے کے لیے ابوبکر کے پاس چلے جائیں۔

لہذا اس خبر (یعنی الطبقات الکبری والی روایت) کے کہنے والے (یعنی عمر) نے اپنی اس خبر سے فقط یہ چاہا ہے کہ رسول خدا (ص) کے اہل بیت کو مال دنیا کے لیے حریص ہونے میں اپنے ساتھ شریک کرے کہ جو رسول خدا کی میت کو دفن کیے بغیر فدک وغیرہ کے لیے ابوبکر کے پاس چلے گئے تھے، ورنہ تو فاطمہ (س) جیسی بیٹی سے تو یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ رسول خدا جیسے بابا کی میت کو چھوڑ اپنی ارث و میراث کے  پیچھے چلی جائیں، جس طرح کہ رسول خدا کے بعد بننے والے خلفاء نے کیا تھا اور رسول خدا کے بدن مطہر کو چھوڑ کر سقیفہ میں دنیا و ریاست طلبی کے پیچھے چلے گئے تھے!!!

ابن ابی الحدید عالم معتزلی مذہب نے واضح بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ رسول خدا کی شہادت کے دس دن بعد ابوبکر کے پاس فدک کا مطالبہ کرنے گئیں تھیں۔

      و حدیث فدك و حضور فاطمة عند أبی بكر كان بعد عشرة أیام من وفاة رسول الله صلی الله علیه و سلم.

فدک کے بارے میں بات اور فاطمہ کا ابوبکر کے پاس جانا یہ رسول خدا کی شہادت کے دس دن بعد واقع ہوا تھا۔

إبن أبی‌الحدید المدائنی المعتزلی، (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 16، ص 156، تحقیق: محمد عبد الكریم النمری، ناشر: دار الكتب العلمیة – بیروت، لبنان،

 دوسری مرتبہ:

 حضرت زہرا (س) کا اکیلے جا کر فدک کا مطالبہ کرنا:

کتاب صحیح بخاری میں عایشہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ: حضرت زہرا (س) رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد ابوبکر کے پاس اپنی میراث کا مطالبہ کرنے کے لیے گئیں تھیں:

حدثنا عبد الْعَزِیزِ بن عبد اللَّهِ حدثنا إِبْرَاهِیمُ بن سَعْدٍ عن صَالِحٍ عن بن شِهَابٍ قال أخبرنی عُرْوَةُ بن الزُّبَیرِ أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ رضی الله عنها أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ علیها السَّلَام ابْنَةَ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ بَعْدَ وَفَاةِ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم أَنْ یقْسِمَ لها مِیرَاثَهَا ما تَرَكَ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم مِمَّا أَفَاءَ الله علیه فقال أبو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قال لَا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتى تُوُفِّیتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ قالت وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِیبَهَا مِمَّا تَرَكَ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم من خَیبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتَهُ بِالْمَدِینَةِ فَأَبَى أبو بَكْرٍ علیها ذلك.

عروہ بن زبیر نے کہا ہے کہ: عایشہ نے اسکو بتایا تھا کہ فاطمہ رسول خدا کی بیٹی نے رسول خدا کی شہادت کے بعد ابوبکر سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا تھا کہ رسول خدا کی میراث کو مجھے دے دیا جائے۔ ابوبکر نے کہا کہ: رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی میراث نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چیز چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتی ہے۔ یہ سن کر رسول خدا کی بیٹی ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اس سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی۔ فاطمہ رسول خدا کی شہادت کے بعد چھ ماہ تک زندہ  رہیں۔

راوی کہتا ہے کہ: فاطمہ بار بار اپنے حق یعنی رسول خدا کی میراث، مدینے کے صدقات اور فدک کو ابوبکر سے طلب کرتیں تھیں، لیکن وہ ہمیشہ ان کی بات کو قبول نہیں کرتا تھا اور انکو اپنے حق سے محروم کرتا رہتا تھا۔

          البخاری الجعفی، ابو عبد الله محمد بن إسماعیل (متوفى256هـ)، صحیح البخاری، ج 3، ص 1126، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن كثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

ان روایات میں قابل توجہ نکات:

نكتہ اول: ان روایات میں باغ فدک کو فقط اپنے والد کی میراث کے عنوان سے طلب کیا ہے۔

       نكتہ دوم: جن چیزوں کا مطالبہ کیا گیا ان میں فدک، خیبر کا خمس اور اپنے والد کی میراث شامل تھے۔

نكتہ سوم: اس روایت میں لفظ «هَجَرَتْ» کا معنی اس سے ناراض ہونا ہے کہ جس سے اچھے تعلقات نہ ہوں۔ جس طرح کہ کتاب صحیح بخاری کی شرح کرنے والے نے بھی اس لفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

      معنى الهجرة هو ترك الرجل كلام أخیه مع تلاقیهما و اجتماعهما و إعراض كل واحد منهما عن صاحبه مصارمة له و تركه السلام علیه.

ھجرت کا معنی اپنے بھائی سے اس طرح سے بات چیت کرنا، ختم کرنا ہے کہ اگر اتفاق سے ان کا ایک جگہ پر آمنا سامنا بھی ہو جائے تو پھر بھی شدت ناراضگی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے بات تک نہ کریں۔

إبن بطال البكری القرطبی، ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملك (متوفى449هـ)، شرح صحیح البخاری، ج 9، ص 270، تحقیق: ابوتمیم یاسر بن إبراهیم، ناشر: مكتبة الرشد - السعودیة ، الریاض، الطبعة: الثانیة، 1423هـ - 2003م.

پس حضرت زہرا (س) کا ابوبکر سے ناراض ہونا، یہ خود ابوبکر کے پاس حاضر ہو کر اور اپنے کسی بندے کو بھیج کر مطالبات کرنے کے بعد تھا، ورنہ وہ روایات کہ جو بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ (س) نے اپنے مطالبات کو بار بار طلب کیا تھا، وہ بے معنی ہو جائیں گی۔

ایک دوسری روایت میں احمد ابن حنبل نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا عبد الْوَهَّابِ الْخَفَّافُ ثنا محمد بن عَمْرٍو عن أبی سَلَمَةَ عن أبی هُرَیرَةَ ان فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ تَطْلُبُ مِیرَاثَهَا من رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم فَقَالاَ لها سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یقول انی لاَ أُورَثُ.

ابوہریرہ نے کہا ہے کہ: فاطمہ ابوبکر اور عمر کے پاس گئیں اور ان سے اپنے والد رسول خدا کی میراث کو طلب کیا۔ ان دونوں نے کہا کہ: ہم نے رسول خدا سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ: میرے مرنے کے بعد میری کوئی میراث نہیں ہو گی۔

        الشیبانی، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفى241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 2، ص 353، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

 تیسری مرتبہ:

 حضرت زہرا (س) کا عباس بن عبد المطلب کے ساتھ جا کر ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کرنا:

کتاب صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت زہرا دو بار رسول خدا کے چچا عباس کے ساتھ ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کرنے کے لیے گئیں تھیں۔

         حدثنا عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدٍ حدثنا هِشَامٌ أخبرنا مَعْمَرٌ عن الزُّهْرِی عن عُرْوَةَ عن عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ عَلَیهِمَا السَّلَام أَتَیا أَبَا بَكْرٍ یلْتَمِسَانِ مِیرَاثَهُمَا من رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم وَهُمَا حِینَئِذٍ یطْلُبَانِ أَرْضَیهِمَا من فَدَكَ وَسَهْمَهُمَا من خَیبَرَ فقال لَهُمَا أبو بَكْرٍ سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یقول لَا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إنما یأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ من هذا الْمَالِ قال أبو بَكْرٍ والله لَا أَدَعُ أَمْرًا رأیت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یصْنَعُهُ فیه إلا صَنَعْتُهُ قال فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتى مَاتَتْ.

عایشہ نے کہا ہے کہ: فاطمہ اور عباس دونوں ابوبکر کے پاس آئے اور انھوں نے اس سے رسول خدا کی میراث کا مطالبہ کیا اور انھوں نے اس سے باغ فدک اور خیبر کے اپنے حصے کو بھی طلب کیا تھا۔ ابوبکر نے اس سے کہا کہ: میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی میراث نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چیز چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتی ہے، اور رسول خدا کی آل بھی ان سے استفادہ کرتی ہے، ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم جو کام رسول خدا انجام دیتے تھے، میں ہرگز اسکو ترک نہیں کروں گا، یعنی میں بھی وہی کام انجام دوں گا۔

راوی کہتا ہے کہ: فاطمہ یہ بات سن کر ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک اس سے بات نہیں کی تھی۔

      صحیح البخاری، ج 6، ص 2474

حضرت زہرا (س) کا امیر المؤمنین علی (ع) اور رسول خدا (ص) کے چچا عباس کے ساتھ جا کر اپنے مطالبے کو بیان کرنا:

 

ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت زہرا امیر المؤمنین علی (ع) اور ابن عباس کے ساتھ ابوبکر کے پاس گئیں تھیں:

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِی هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ تَطْلُبُ مِیرَاثَهَا وَ جَاءَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یطْلُبُ مِیرَاثَهُ وَجَاءَ مَعَهُمَا عَلِی، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: "لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، وَمَا كَانَ النَّبِی یعُولُ فَعَلَی، فَقَالَ عَلِی: وَرِثَ سُلَیمَانُ دَاودَ، وَقَالَ زَكَرِیا: یرِثُنِی وَیرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ هَكَذَا وَأَنْتَ وَاللَّهِ تَعْلَمُ مِثْلَمَا أَعْلَمُ، فَقَالَ عَلِی: هَذَا كِتَابُ اللَّهِ ینْطِقُ ! فَسَكَتُوا وَانْصَرَفُوا.

فاطمہ ابوبکر کے پاس آئیں اور اپنی میراث کو اس سے طلب کیا۔ عباس بن عبد المطلب بھی ابوبکر کے پاس آیا اور اس نے بھی اپنی میراث کو اس سے طلب کیا، اور علی (ع) بھی انکے ساتھ تھے۔ ابوبکر نے کہا کہ: رسول خدا نے فرمایا تھا کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی میراث نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چیز چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتی ہے، اور جو کام رسول خدا انجام دیتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا۔

علی (ع) نے فرمایا کہ: سلمان نے داود سے میراث پائی ہے، اور زکریا نے بھی فرمایا تھا کہ: خدایا مجھے ایک ایسا جانشین عطا فرما کہ جو مجھ سے اور آل یعقوب سے میراث پائے۔ ابوبکر نے کہا کہ: زکریا ایسا ہی تھا اور خدا کی قسم تم بھی میری طرح سب کچھ جانتے ہو۔ علی (ع) نے فرمایا کہ: یہ خداوند کی کتاب ہے کہ جو کلام کرتی ہے۔ اسکے بعد سب خاموشی سے وہاں سے واپس آ گئے۔

 البصری الزهری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله (متوفی230 هـ)، الطبقات الكبرى، ج 2، ص 315، دار النشر : دار صادر - بیروت ، الجامع الكبیر کی سی ڈی کیمطابق،

3: حضرت زہرا (س) کا کسی کو ابوبکر کے پاس بھیج فدک کا میراث کے عنوان سے مطالبہ کرنا:

اہل سنت کی معتبر کتب میں حضرت زہرا کا کسی کو ابوبکر کے پاس بھیج فدک کا میراث کے عنوان سے مطالبہ کرنے کے بارے میں بھی روایات موجود ہیں۔ بخاری نے اس بارے میں بہت سی روایات کو نقل کیا ہے:

 

حدثنا یحیى بن بُكَیرٍ حدثنا اللَّیثُ عن عُقَیلٍ عن بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ عن عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ علیها السَّلَام بِنْتَ النبی صلى الله علیه وسلم أَرْسَلَتْ إلى أبی بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِیرَاثَهَا من رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم مِمَّا أَفَاءَ الله علیه بِالْمَدِینَةِ وَفَدَكٍ وما بَقِی من خُمُسِ خَیبَرَ فقال أبو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قال لَا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إنما یأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله علیه وسلم فی هذا الْمَالِ وَإِنِّی والله لَا أُغَیرُ شیئا من صَدَقَةِ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم عن حَالِهَا التی كانت علیها فی عَهْدِ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم وَلَأَعْمَلَنَّ فیها بِمَا عَمِلَ بِهِ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم فَأَبَى أبو بَكْرٍ أَنْ یدْفَعَ إلى فَاطِمَةَ منها شیئا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ على أبی بَكْرٍ فی ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتى تُوُفِّیتْ.

عایشہ نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا تا کہ وہ ابوبکر سے رسول خدا کی میراث کا، فدک کا اور خیبر کے خمس کا مطالبہ کرے۔ ابوبکر نے کہا کہ: رسول خدا نے فرمایا تھا کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی میراث نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چیز چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتی ہے، اور جو کام رسول خدا انجام دیتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا اور اسی پر عمل کروں گا۔ لہذا ابوبکر نے ان میں سے کوئی چیز بھی فاطمہ کو نہ دی۔ اس پر فاطمہ (س) ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک اس سے بات نہیں کی تھی۔

 البخاری الجعفی، ابو عبد الله محمد بن إسماعیل (متوفى256هـ)، صحیح البخاری، ج 4، ص 1549، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن كثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

اس روایت کی عبارت «أَرْسَلَتْ إلى أبی بَكْرٍ تَسْأَلُهُ» سے واضح ہے کہ حضرت زہرا نے یہ مطالبہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیج کر کیا تھا۔

بخاری نے بھی ایک دوسری روایت میں اسی مطلب کو نقل کیا ہے کہ:

حَدَّثَنَا أَبُو الْیمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَیبٌ عَنِ الزُّهْرِىِّ قَالَ حَدَّثَنِى عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ - عَلَیهَا السَّلاَمُ - أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِى بَكْرٍ تَسْأَلُهُ میراثها مِنَ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - فِیمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ - صلى الله علیه وسلم -، تَطْلُبُ صَدَقَةَ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - الَّتِى بِالْمَدِینَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِىَ مِنْ خُمُسِ خَیبَرَ.

.... عایشہ نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے ایک بندے کو ابوبکر کے پاس بھیجا تا کہ وہ ابوبکر سے رسول خدا کی میراث، مال فئی و مدینہ کے صدقات، فدک اور جو کچھ خیبر کے صدقات سے باقی بچا ہے، کا مطالبہ کرے۔

صحیح البخاری، ج 3، ص 1360، ح 3508، كتاب فضائل الصحابة، بَاب مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رسول اللَّهِ (ص) وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ علیها السَّلَام،

4. حضرت زہرا (س) کا اپنے حق کے لیے مدینہ کے تمام لوگوں سے مدد طلب کرنا:

شیعہ اور اہل سنت کی روایات کے مطابق حضرت زہرا نے ابوبکر سے بار بار اپنے مطالبات کے ذریعے سے حجت تمام کرنے کے بعد، مسجد نبوی میں خطبہ فدکیہ دیا اور ابوبکر و عمر سے اپنے غصب شدہ حق کو واپس لینے کے لیے رسول خدا (ص) کے تمام اصحاب اور خاص طور پر انصار سے مدد کرنے کو کہا۔

 حضرت زہرا نے قرآن کی آیات کے ذریعے سے جب ابوبکر کو شکست دے دی اور رسول خدا کی شہادت کی مصیبت کے غم کے عمیق ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد، انصار سے مخاطب ہو کر کہا کہ:

یا مَعْشَرَ النَّقِیبَةِ وأَعْضَادَ الْمِلَّةِ وحَضَنَةَ الْإِسْلَامِ مَا هَذِهِ الْغَمِیزَةُ فِی حَقِّی و السِّنَةُ عَنْ ظُلَامَتِی؟ أَ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله أَبِی یقُولُ الْمَرْءُ یحْفَظُ فِی وُلْدِهِ سَرْعَانَ مَا أَحْدَثْتُمْ و عَجْلَانَ ذَا إِهَالَةٍ و لَكُمْ طَاقَةٌ بِمَا أُحَاوِلُ وقُوَّةٌ عَلَى مَا أَطْلُبُ و أُزَاوِلُ أَ تَقُولُونَ مَاتَ مُحَمَّدٌ ص فَخَطْبٌ جَلِیلٌ اسْتَوْسَعَ وَهْنُهُ واسْتَنْهَرَ  فَتْقُهُ وانْفَتَقَ رَتْقُهُ وأَظْلَمَتِ الْأَرْضُ لِغَیبَتِهِ وكَسَفَتِ الشَّمْسُ والْقَمَرُ وانْتَثَرَتِ النُّجُومُ لِمُصِیبَتِهِ وأَكْدَتِ الْآمَالُ وخَشَعَتِ الْجِبَالُ وأُضِیعَ الْحَرِیمُ وأُزِیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَمَاتِهِ فَتِلْكَ واللَّهِ النَّازِلَةُ الْكُبْرَى والْمُصِیبَةُ الْعُظْمَى لَا مِثْلُهَا نَازِلَةٌ ولَا بَائِقَةٌ عَاجِلَةٌ أَعْلَنَ بِهَا كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِی أَفْنِیتِكُمْ وفِی مُمْسَاكُمْ ومُصْبَحِكُمْ یهْتِفُ فِی أَفْنِیتِكُمْ هُتَافاً وصُرَاخاً وتِلَاوَةً وإِلْحَاناً ولَقَبْلَهُ مَا حَلَّ بِأَنْبِیاءِ اللَّهِ ورُسُلِهِ حُكْمٌ فَصْلٌ وقَضَاءٌ حَتْمٌ- وما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ ومَنْ ینْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَیهِ فَلَنْ یضُرَّ اللَّهَ شَیئاً وسَیجْزِی اللَّهُ الشَّاكِرِینَ.

اے جماعت بزرگان ، اے اس ملت کے طاقتور بازوؤ ، اے دین کی حفاظت کرنے والو، میرے حق کے غصب ہونے میں تم نے یہ کیسی سستی اور بے پرواہی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ کیا میرے بابا رسول خدا نے فرمایا نہیں تھا کہ: ہر شخص کا خیال اسکی اولاد کے احترام میں ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے ؟ تم لوگوں نے کتنی تیزی سے اس قول کے خلاف عمل کیا ہے، اگرچے مجھے تم لوگوں سے یہی امید تھی، اسکے باوجود کہ تم میں میرے حق کو واپس لینے کی طاقت و قدرت ہے، کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ رسول خدا دنیا سے چلے گئے ہیں اور اب میں لا وارث ہو گئی ہوں ؟ آہ افسوس کہ بابا کا دنیا سے چلے جانا کتنا  درد ناک اور غمناک تھا، انکی وفات سے اس امت میں بہت ہی بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، تمام نظام درہم برہم ہو گیا ہے، انکے نہ ہونے سے زمین تاریک ہو گئی ہے، سورج و چاند نے اپنی روشنی کھو دی ہے، تمام ستارے اپنے مدار سے ہٹ گئے ہیں، آرزوؤں  کی کشتی ڈوب گئی ہے، اس غم سے پہاڑ جھک گئے ہیں، انکی وفات سے تمام حرمتوں کو پامال کر دیا گیا ہے، اور خدا کی قسم یہ بہت ہی بڑا اور بے نظیر حادثہ تھا۔

ہاں یہ حتمی مقدر اور تقدیر تھی کہ جسکو خداوند نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو پہلے سے بتایا ہوا تھا کہ:

اور محمد فقط رسول ہیں، دوسرے رسولوں کی طرح، اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں، تم راہ حق سے ہٹ جاؤ گے اور جہالت کی طرف واپس پلٹ جاؤ گے، اسکو جان لو کہ جو بھی زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا تو اس سے خداوند کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، اور خداوند اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جزاء دیتا ہے۔

       إِیهاً بَنِی قَیلَةَ أَ أُهْضِمَ تُرَاثُ أَبِی وأَنْتُمْ بِمَرْأًى مِنِّی ومَسْمَعٍ ومُنْتَدًى ومَجْمَعٍ تَلْبَسُكُمُ الدَّعْوَةُ وتَشْمَلُكُمُ الْخِبْرَةُ وأَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ و الْعُدَّةِ والْأَدَاةِ والْقُوَّةِ وعِنْدَكُمُ السِّلَاحُ والْجُنَّةُ تُوَافِیكُمُ الدَّعْوَةُ فَلَا تُجِیبُونَ وتَأْتِیكُمُ الصَّرْخَةُ فَلَا تُغِیثُونَ وأَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفَاحِ مَعْرُوفُونَ بِالْخَیرِ والصَّلَاحِ والنُّخْبَةُ الَّتِی انْتُخِبَتْ والْخِیرَةُ الَّتِی اخْتِیرَتْ لَنَا أَهْلَ الْبَیتِ ...

 أَلَا وقَدْ قُلْتُ مَا قُلْتُ هَذَا عَلَى مَعْرِفَةٍ مِنِّی بِالْجِذْلَةِ الَّتِی خَامَرَتْكُمْ والْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْهَا قُلُوبُكُمْ ولَكِنَّهَا فَیضَةُ النَّفْسِ ونَفْثَةُ الْغَیظِ وخَوَرُ الْقَنَاةِ وبَثَّةُ الصَّدْرِ وتَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ فَدُونَكُمُوهَا فَاحْتَقِبُوهَا دَبِرَةَ الظَّهْرِ نَقِبَةَ الْخُفِّ بَاقِیةَ الْعَارِ مَوْسُومَةً بِغَضَبِ الْجَبَّارِ وشَنَارِ الْأَبَدِ مَوْصُولَةً بِنَارِ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ  الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ فَبِعَینِ اللَّهِ مَا تَفْعَلُونَ وسَیعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ وأَنَا ابْنَةُ نَذِیرٍ لَكُمْ بَینَ یدَی عَذابٍ شَدِیدٍ فَاعْمَلُوا إِنَّا عامِلُونَ  وانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ.

اے انصار کی جماعت، تم زندہ ہو، اور تمہاری آنکھوں کے سامنے میرے بابا کی میراث کو اس طرح ظلم سے مجھ سے چھین کر لے جائیں ؟!

میں نے اپنے اس خطاب و دعوت سے تم سب کو ایک امتحان و آزمائش میں ڈال دیا ہے، حالانکہ تمہارے پاس سب جنگی ساز و سامان تھا اور تم نیک کام اور احسان کرنے والے مشہور و معروف ہو، لیکن اب تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم میری فریاد کو سن رہے ہو، لیکن میری مدد نہیں کر رہے ؟!

میرے اشکوں کو دیکھ رہے ہو، لیکن غیرت مندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہو ؟! حالانکہ تم زمانہ ماضی میں شجاعت، استقامت اور مشکلات کو تحمّل کرنے والوں کی طرح معروف و مشہور تھے اور تم سب ہم اہل بیت کے خاص گروہ میں سے تھے ؟!......

ہاں میں نے تم سب کو بہت احتیاط اور معرفت کے ساتھ تمہیں تمہاری باطنی گمراہی اور ظلمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دل کا غم و غصہ اس طرح سے باہر آ گیا ہے، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے، کہ جسکو میں اپنے سینے میں نہیں روک سکی اور اسطرح سے میری زبان پر آ گیا ہے، جاؤ میرے غصب شدہ حق کو پامال کر کے لے جاؤ اور خلافت و فدک کی اس سواری کو اپنے ہاتھوں سے رام کر  لو اور آرام سے اس پر سوار ہو جاؤ۔

لیکن یہ ضرور یاد رکھنا کہ اس سواری کے پاؤں اور پشت ہر دو زخمی ہیں، اس پر سوار ہونے کا ننگ و عار ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، کیونکہ اس سواری پر خداوند کی مہر لگی ہوئی ہے، اور جو بھی اسکو اپنے ساتھ لگانا چاہے گا، وہ اس سوار کو ہمیشہ خداوند کے غضب کی آگ کی طرف لے جائے گی۔ خداوند نے ظالموں کا احاطہ کیا ہوا ہے، پس تم کہاں جا رہے ہو اور کدہر جا رہے ہو ؟!

غور کرو میں تمہارے پیغمبر کی بیٹی ہوں، وہ پیغمبر کہ جو تمہارے لیے بشیر اور نذیر تھا، اور انھوں نے تم خداوند کے سخت عذاب سے بھی آگاہ کیا تھا، پس اب جو تمہارا دل ہے کرو، ہم بھی تم سے بدلہ لیں گے، لہذا تم بھی اس دن کے منتظر رہو، اور ہم بھی اسی دن کے ہی منتظر ہیں۔

الطبرسی، أبی منصور أحمد بن علی بن أبی طالب (متوفى 548هـ)، الاحتجاج، ج‏1، ص108، تحقیق: تعلیق وملاحظات: السید محمد باقر الخرسان، ناشر: دار النعمان للطباعة والنشر - النجف الأشرف، 1386 - 1966 م.

أبی الفضل احمد بن أبی طاهر المعروف بابن طیفور (متوفى280 هـ ) بلاغات النساء، ص12، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتی ـ قم.

حضرت زہرا کے اس خطبہ فدکیہ کو اہل سنت نے بھی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور اس خطبے کی اتنی زیادہ اسناد ہیں کہ اسکے لیے جداگانہ طور پر ایک مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔

علامہ مجلسی نے اپنی مشہور کتاب بحار الانوار میں اس خطبے کے بارے میں ایک خاص فصل ذکر کی ہے اور اس خطبے کی متعدد اسناد کو ذکر کرنے سے پہلے، واضح طور پر کہا ہے کہ یہ خطبہ علمائے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مشہور تھا اور لکھا ہے کہ:

فصل نورد فیه: خطبة خطبتها سیدة النساء فاطمة الزهراء صلوات الله علیها احتج بها على من غصب فدك منها. اعلم أن هذه الخطبة من الخطب المشهورة التی روتها الخاصة والعامة بأسانید متضافرة.

اس فصل میں، میں نے حضرت زہرا کے فدک کے غصب کرنے والوں کے سامنے بیان کیے گئے، خطبے کو ذکر کیا ہے، یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ خطبہ ان چند مشہور خطبوں میں سے ہے کہ جس کو شیعہ اور اہل سنت کے محدثین نے متعدد اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔

         المجلسی، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج29، ص215، تحقیق: محمد الباقر البهبودی، ناشر: مؤسسة الوفاء - بیروت - لبنان، الطبعة: الثانیة المصححة، 1403هـ - 1983م.

اہل سنت کے علماء میں سے ایک عالم کہ جس نے اس خطبے کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، وہ ابن طیفور ہے کہ اس نے خطبے کو زید ابن علی اور حضرت زینب کے طریق سے نقل کیا ہے، اور آخر میں اس خطبے کی سند کے صحیح ہونے پر بھی واضح طور پر وضاحت کی ہے کہ:

قال أبو الفضل ... وقد رواه قوم وصححوه وكتبناه على ما فیه.

ابو الفضل معروف بہ ابن طیفور نے کہا ہے کہ: ....... اس خطبے کو ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور اس خطبے کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے اور میں نے اس خطبے کو ویسے ہی ذکر کیا ہے کہ جسطرح اس جماعت نے نقل کیا ہے۔

        أبی الفضل احمد بن أبی‌طاهر المعروف بابن طیفور (متوفى280 هـ ) بلاغات النساء، ج1، ص8، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتی ـ قم.

 تحقیق کا نتیجہ:

 

ذکر شدہ روایات کی روشنی میں واضح و ثابت ہو گیا کہ حضرت زہرا (س) نے چھے مراحل میں فدک کا بار بار اور مختلف عناوین کے ساتھ ابوبکر اور عمر سے نہ چاہتے ہوئے بھی، فقط ان پر حجت کو تمام کرنے کے لیے، فدک کا مطالبہ کیا  تھا۔

 اہل سنت حضرات سے چند اہم سوال:

 1. کیوں امیر المؤمنین علی (ع) نے کہ جو سائے کی طرح ہمیشہ رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ رہے، انھوں نے روایت لا نورث ( کہ ہم تمام انبیاء کوئی میراث چھوڑ کر نہیں مرتے ) کو کیوں رسول خدا (ص) کی زبان سے نہیں سنا تھا ؟؟؟

       2. کیوں رسول خدا (ص) نے خود مرتے وقت اپنی بیٹی کو کہ جو انکی وارث تھیں، کو اتنی ضروری وصیت نہیں کی کہ اے میری بیٹی میرے مرنے کے بعد فدک کا مطالبہ نہ کرنا اور فدک کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہو گا، جو میرا خلیفہ بنے گا ؟

3. فدک حضرت زہرا (س) کے ہاتھ و اختیار میں تھا اور انکے مزدور باغ فدک میں کام کرتے تھے، نتیجے میں حضرت زہرا (س) اس باغ کی مالک شمار ہوتی تھیں، لیکن ابوبکر نے عمر کی مدد سے حضرت زہرا کے بندوں کو باغ فدک سے زبردستی نکال دیا اور زبردستی اس باغ پر قبضہ کر لیا۔

سوال یہ ہے کہ کیوں ابوبکر نے فقہی قاعدے ذوالید کو باغ فدک کے بارے میں عملی طور پر جاری نہیں کیا تھا، حالانکہ وہ اپنے آپ کو عالم اور رسول خدا کا خلیفہ کہتا تھا ؟

       4. ہر دلیل کی بناء پر ہی سہی، جب حضرت زہرا (س) کے گواہوں کی گواہی کو ردّ کر دیا گیا یا اہل سنت کے قول کے مطابق کہ ابوبکر کی مرضی کے گواہ نہیں لائے گئے تھے، کیوں خود ابوبکر نے خدا کی قسم نہیں کھائی تھی کہ رسول خدا کی بیٹی فدک کی مالک نہیں ہے ؟ کیونکہ فقہی قاعدہ ہے کہ جو بھی کسی بات کا کسی دوسرے کی نسبت انکار کرتا ہے تو، اس پر اس دعوی کے لیے قسم کھانا، واجب ہو جاتا ہے۔

«الیمین علی من انكر» کیا ابوبکر کو اس فقہی اور شرعی قاعدے کا بھی علم نہیں تھا ؟؟؟

التماس دعا.....

 

 

 

 

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی