2024 March 19
آئمہ معصومین(علیھم السلام) کا امام حسین(ع) ک ے لیے عزاداری کرنا:
مندرجات: ٣٨٨ تاریخ اشاعت: ٢٣ August ٢٠٢١ - ٠٨:٠١ مشاہدات: 12203
مضامین و مقالات » پبلک
آئمہ معصومین(علیھم السلام) کا امام حسین(ع) ک ے لیے عزاداری کرنا:

 
آئمہ معصومین(علیھم السلام) کا امام حسین(ع) ک ے لیے عزاداری کرنا:
 

مقدمہ:

رسول خدا(ص) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امیر المومنین علی (ع) کا  امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

حضرت زہرا (س) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام حسن (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا:

امام حسين (ع) کا خود اپنے پر گريہ کرنے کے بارے میں کہنا:

امام سجاد (ع) کا  امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام باقر (ع) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام صادق (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام کاظم(ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام رضا (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام حسن عسکری (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا:

امام زمان (عج) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ و عزاداری کرنا:

نتيجہ:

 

مقدمہ:

زمانہ قدیم سے شیعہ کے مھم عقائد پر شیعہ کے دشمنوں اور مخالفین کی طرف سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ یہ حملے زمانے کے حالات کے مطابق شدید اور ضعیف ہوتے رہے ہیں البتہ ان حملوں میں زیادہ تر جھوٹ، تھمت اور بھتان کا رنگ واضح  رہا ہے۔  ان مسلّم و واضح عقائد سے جس عقیدے  پر زیادہ  حملے ہو‏ئے ہیں، وہ امام حسین(ع) کے لیے ماہ محرم میں عزاداری کرنا ہے۔  لیکن ایام محرم میں خاص طور پر یہ حملے زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں تا کہ اس بارے میں جھوٹ، تھمت اور مطالب کو حقیقت کے خلاف بتا اور دکھا کر جوان نسل اور عام لوگوں کو شک و تردید سے دوچار کر کے نتیجے میں ان سب کو اہل بیت(ع) اور امام حسین(ع) کی عزاداری سے دور رکھ سکیں۔

ان شبھات میں سے وہ شبہ جو محرم کے ایام میں مخالفین کی طرف سے زیادہ بیان ہوتا ہے، وہ خود آئمہ معصومین(ع) کی طرف سے امام حسین(ع) کے لیے عزاداری نہ کرنا ہے۔  یعنی آسان الفاظ میں کہ مخالفین آئمہ اور شیعیان کہتے ہیں کہ اگر واقعا امام حسین(ع) کے لیے عزاداری کرنا شرعی اور جائز تھا تو آئمہ اور اہل بیت(ع) نے عزاداری کیوں نہیں کی اور اس بارے میں آئمہ(ع) سے کوئی روایت صحیح سند کے ساتھ کیوں نقل نہیں ہوئی ؟

اس طرح کے سوالات اور شبھات مخالفین کی طرف سے جھل، تعصب اور دشمنی کی وجہ سے بیان ہوتے ہیں کیونکہ رسم عزاداری آئمہ معصومین(ع) کے درمیان یہ روایات اور کتب حدیثی شیعہ میں اس قدر نقل ہوئی ہے کہ یہبات تواتر معنوی بلکہ تواتر کی حد سے بھی بالا تر ہے۔ اس کے با وجود بھی اس بارے میں شبھات بیان کرنا اور کہنا کہ اس بارے میں ایک بھی روایت صحیح سند کے ساتھ نہیں ہے، یہ فقط اور فقط ان کے اہل بیت کے ساتھ نفاق، بغض، کینے اور دشمنی کی علامت ہے۔ اس لیے کہ علم حدیث میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جو بات و مسئلہ تواتر سے ثابت ہوا ہو اس کی سند کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسی پر علماء اور محدثین کا اتفاق بھی ہے۔

اس کے علاوہ امام حسین(ع) پر گریہ اور عزاداری یہ نہ فقط امام کی شھادت کے بعد بلکہ انکی شھادت سے پہلے یہ آئمہ کی روایات میں بہت زیادہ نقل ہوا ہے۔ یہ روایات و سیرت عملی آئمہ اس بات کی علامت ہے کہ امام حسین(ع) کے لیے عزاداری ہر امام کے دور میں ہوئی ہے اور ہر امام نے زمانے کے حالات کے مطابق مسئلہ عزاداری کو اہمیت دی ہے۔

اس مقدمے کی بناء پر ہم اب ترتیب سے  آئمہ معصومین(ع) کی روایات کو عزاداری کے بارے میں بیان کرتے ہیں اگرچہ معصومین کی روایات ایک طرح کی نہیں ہیں کیونکہ ہر امام نے زمانے کے حالات کے مطابق ان روایات کو نقل و بیان کیا ہے۔ جس امام کو زیادہ فرصت ملی ہے اس امام سے زیادہ روایات اس بارے میں نقل ہوئی ہیں اور جس امام کو فرصت کم ملی ہے اس امام سے بہت کم یا بالکل روایات نقل نہیں ہوئی۔ بہر حال ان تمام روایات کی روشنی میں امام حسین(ع) کے لیے عزاداری و گریہ کرنا تواتر سے ثابت ہو جاتا ہے۔

رسول خدا(ص) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

رسول خدا(ص) کا  امام حسین(ع) کی شھادت سے پہلے ان پر گریہ کرنے کے بارے میں بہت سی روایات کتب شیعہ میں نقل ہوئی ہیں البتہ ساری روایات ایک طرح کی نہیں ہیں۔ بعض روایات میں رسول خدا نے لوگوں کے سامنے یا بعض اوقات اہل بیت کے سامنے امام حسین(ع) کے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بلند آواز سے گریہ بھی کیا ہے کہ اسی مصائب پڑھنے اور گریہ کرنے کو عزاداری کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) کا مصائب پڑھنا اور لوگوں کا گریہ کرنا:

 قال رواة الحديث. فلما أتت على الحسين عليه السلام من مولده سنة كاملة هبط على رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم إثنى عشر ملكا أحد هم على صورة الأسد، و الثانى على صورة الثور، و الثالث على صورة التنين، و الرابع على صورة ولد آدم، و الثمانية الباقون على صور شتى محمرة وجوههم باكية عيونهم قد نشروا أجنحتهم و هم يقولون، يا محمد صلى الله عليه و آله و سلم سينزل بولدك الحسين عليه السلام ابن فاطمة ما نزل بهابيل من قابيل و سيعطي مثل أجر هابيل و يحمل على قاتله مثل وزر قابيل و لم يبق في السموات ملك مقرب إلا و نزل إلى النبي صلى الله عليه و آله و سلم كل يقرئه السلام و يعزيه في الحسين عليه السلام و يخبره بثواب ما يعطى و يعرض عليه تربته و النبى صلى الله عليه و آله و سلم يقول: اللهم اخذل من خدله و اقتل من قتله و لا تمتعه بما طلبه. قال فلما أتى على الحسين عليه السلام من مولده سنتان خرج النبي صلى الله عليه و آله و سلم في سفر له فوقف في بعض الطريق و إسترجع و دمعت عيناه فسئل عن ذلك. فقال: هذا جبرائيل عليه السلام يخبرني عن أرض بشط الفرات يقال لها كربلاء يقتل عليها ولدي الحسين ابن فاطمة عليه السلام فقيل له: من يقتله يا رسول الله ؟ فقال: رجل إسمهه يزيد لعنه الله و كأني أنظر إلى مصرعه و مدفنه، ثم رجع من سفره ذلك مغموما فصعد المنبر فخطب و وعظ و الحسن و الحسين عليهما السلام بين يديه فلما فرغ من خطبته وضع يده اليمنى على رأس الحسن و يده اليسرى على رأس الحسين، ثم رفع رأسه إلى السماء و قال: (اللهم إن محمدا عبدك ونبيك وهذان أطائب عترتي وخيار ذريتي. و أرومتى و من أخلفهما في امتى و قد اخبرني جبرائيل عليه السلام أن ولدي هذا مقتول مخذور. اللهم فبارك له في قتله و اجعله من سادات الشهداء اللهم و لا تبارك في قاتله و خاذله.) قال: فضج الناس في المسجد بالبكاء و النحيب، فقال النبي صلى الله عليه و آله و سلم أ تبكونه و لا تنصرونه ثم رجع صلى الله عليه و آله و سلم و هو متغير اللون محمر الوجه فخطب خطبة اخرى موجزة و عينا تنهملان دموعا۔

محدثین نے روایت کی ہے کہ جب امام حسین(ع) ایک سال کے ہوئے تو بارہ فرشتے رسول خدا پر نازل ہوئے۔ ان میں سے ایک شیر کی شکل دوسرا گائے کی شکل تیسرا اژدھا کی شکل چوتھا انسان کی شکل جبکہ باقی آٹھ فرشتے مختلف شکلوں میں تھے ان کے چہرے سرخ اور آنکھیں اشک آلود تھیں۔ انھوں نے اپنے بالوں اور پروں کو کھولا ہوا تھا اور کہہ رہے تھے: اے محمد ! وہی ظلم و ستم کہ جو قابیل نے ھابیل پر کیا وہی آپ کے بیٹے حسین پر بھی ہو گا اور وہی جزا جو ھابیل کو دی گئی وہ حسین کو بھی دی جائے گی اور جو عذاب ھابیل کے قاتل کو ہوا وہی حسین کے قاتل کو بھی ہو گا۔ اس موقع پر تمام آسمانوں میں تمام  فرشتے رسول خدا کے پاس آئے، ان کو سلام کیا اور حسین(ع) کے قتل ہونے پر ان کو تعزیت پیش کی اور جو کچھ خداوند نے شھادت کے بدلے میں حسین(ع) کے لیے مقرر فرمایا تھا اسکی بھی خبر ان کو دی پھر امام حسین(ع) کی قبر کی مٹی کو رسول خدا کو دیکھایا۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا: اے خدا جو بھی میرے بیٹے حسین کو خوار کرے، تو اس کو ذلیل و خوار فرما اور جو میرے بیٹے حسین کو قتل کرے تو اس کو قتل فرما اور اس کے قاتل کو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ فرما۔

جب امام حسین(ع) دو سال کے ہوئے تو رسول خدا کسی جگہ سفر پر جا رہے تھے کہ اچانک راستے میں رک گئے اور:«انا لله وانا إليه راجعون» کہہ کر رونا شروع کر دیا۔ پوچھا گیا کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا  ابھی جبرائیل نے مجھے نہر فرات کے کنارے کربلاء کی سر زمین کے بارے میں بتایا ہے کہ میرا بیٹا حسین(ع) وہاں پر شھید ہو گا۔ پھر اصحاب نے پوچھا کہ آپ کے بیٹے کا قاتل کون ہے ؟ رسول خدا نے فرمایا یزید کہ خداوند کی اس پر لعنت ہو اور جبرائیل نے مجھے ابھی اس کی شھادت اور دفن ہونے کی جگہ بھی دکھائی ہے۔

رسول خدا(ص) اسی غم و حزن کی حالت میں  سفر سے واپس آئے اور ایک دن منبر پر خطبہ پڑھا اس حالت میں کہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) بھی رسول خدا کے سامنے بیٹھے تھے۔ جب خطبہ ختم ہوا تو آپ(ص) نے اپنا دایاں ہاتھ امام حسن(ع) کے سر پر اور اپنا بایاں ہاتھ امام حسین(ع) کے سر پر رکھا اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: اے خدایا میں تیرا بندہ محمد(ص) اور تیرا رسول ہوں اور یہ دونوں پاک ترین اور بہترین میری عترت، میری نسل اور میری اولاد ہیں۔ میری امت میں سے سب سے بہترین ہیں کہ جن کو میں اپنے بعد اپنی امت میں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے بیٹے حسین(ع) کی توہین کریں گے اور اسکو شھید کریں گے۔ خداوندا اس کی شھادت کو اس کے لیے مبارک قرار دے اور اس کو  سید الشھداء قرار دے۔ خداوندا جو میرے بیٹے حسین کی اہانت کرے اور اس کو قتل کرے اس کو اس کے لیے مبارک قرار نہ دے۔

راوی کہتا ہے کہ لوگ مسجد میں شدت غم سے گریہ اور شیون کر رہے تھے۔ اس پر رسول خدا نے کہا کہ کیا تم اس کے لیے گریہ کر رہے ہو کیا تم اس کی مدد نہیں کرو گے ؟ یہ کہہ کر آپ مسجد سے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد مسجد میں دوبارہ واپس آئے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا اور پریشانی کی حالت میں تھے اسی حالت میں ایک دوسرا خطبہ گریہ کرتے ہوئے پڑھا۔

السيد ابن طاووس الوفاة: 664، اللهوف فی قتلى الطفوف ج1ص13، الناشر: أنوار الهدى، قم، ايران

رسول اکرم (ص)  کا  مسلم ابن عقیل (ع) کے لیے شدید گریہ کرنا:

حدثنا الحسين بن أحمد بن إدريس (رحمه الله)  قال: حدثنا أبي، عن جعفر بن محمد بن مالك، قال حدثني محمد بن الحسين بن زيد، قال: حدثنا أبو أحمد محمد بن زياد، قال: حدثنا زياد بن المنذر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال علي (عليه السلام) لرسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم): يا رسول الله، إنك لتحب عقيلا ؟قال إي و الله إني لأحبه حبين: حبا له، و حبا لحب أبي طالب له، و إن ولده لمقتول في محبة ولدك، فتدمع عليه عيون المؤمنين، و تصلي عليه الملائكة المقربون. ثم بكى رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم) حتى جرت دموعه على صدره، ثم قال: إلى الله أشكو ما تلقى عترتي من بعدی۔

علی(ع) نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ آپ عقیل سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں اس سے دو محبتیں کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ وہ خود اچھا انسان ہے اور دوسری یہ کہ حضرت ابو طالب اس سے محبت کرتے تھے اور اس کا بیٹا تیرے بیٹے سے محبت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور مؤمنین کی آنکھیں اس پر گریہ کریں گی اور خدا کے مقرب فرشتے اس پر سلام کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول خدا نے اتنا گریہ کیا کہ اشک ان کے سینے پر گرنے لگے۔ پھر فرمایا کہ جو کچھ میرے خاندان کے ساتھ ہو گا میں اس کی خدا سے شکایت کروں گا۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی ج1 ص191، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه‌. ق   

 رسول اکرم (ص) کا جبرائیل سے امام حسین(ع) کی شھادت کی خبر سن کر گریہ کرنا:

حدثني أبي رحمه الله، عن سعد بن عبد الله، عن محمد بن عيسى، عن محمد بن سنان، عن أبي سعيد القماط، عن ابن أبي يعفور، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: بينما رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) في منزل فاطمة و الحسين في حجره، إذ بكى و خرّ ساجدا، ثم قال: يا فاطمة يا بنت محمد ان العلي الاعلى تراءى لي في بيتك هذا في ساعتي هذه في أحسن صورة و أهيا هيئة، فقال لي: يا محمد أتحب الحسين (عليه السلام)، قلت: نعم يا رب قرة عيني و ريحانتي و ثمرة فؤادي و جلدة ما بين عيني. فقال لي: يا محمد – و وضع يده على رأس الحسين (عليه السلام) - بورك من مولود عليه بركاتي و صلواتي و رحمتي و رضواني، و نقمتي و لعنتي و سخطي و عذابي و خزيي و نكالي على من قتله و ناصبه و ناواه و نازعه، اما انه سيد الشهداء من الأولين و الآخرين في الدنيا و الآخرة، و سيد شباب أهل الجنة من الخلق أجمعين،  و أبوه أفضل منه و خير، فاقرأه السلام و بشره بأنه راية الهدى و منار أوليائي، و حفيظي و شهيدي على خلقي، و خازن علمي، و حجتي على أهل السماوات و أهل الأرضين و الثقلين الجن و الإنس.

میرے والد نے  سعد بن عبد اللَّه سے اور اس نے محمّد بن عيسى سے اور اس نے محمّد بن سنان سے اور اس نے ابى سعيد قمّاط سے اور اس نے ابن ابى يعفور سے اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ: ایک دن رسول خدا حضرت زھرا(س) کے گھر تھے اور امام حسین(ع) رسول خدا کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے گریہ کیا اور سجدے میں جا کر کہا: اے فاطمہ(س) اے محمد(ص) کی بیٹی، اس وقت اسی جگہ پر خداوند نے مجھے اپنی بہترین اور خوبصورت ترین شکل دکھائی ہے اور کہا ہے کہ: اے محمد(ص) کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، وہ میری آنکھوں کا نور، میرا خوشبو دار پھول، میرے جگر کا ٹکڑا اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان کا پردہ ہے۔ اس حالت میں اس نے حسین(ع) کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا مجھے فرمایا کہ: اے محمد(ص)، اس بچے سے برکت ہی حاصل ہوتی ہے جس پر میری برکت، رحمت اور رضا ہوتی ہے اور میری لعنت، میرا غضب اور میرا عذاب اس پر ہو گا جو اس کو قتل کرے گا اور اس سے دشمنی کرے گا اور اس سے جنگ کرے گا۔ وہ یقینی طور پر اولین و آخرین میں سے دنیا اور آخرت میں سید الشھداء اور جوانان جنت کا سید و سردار ہے۔ تمام مخلوقات میں سے اس کا باپ اس سے افضل و بر تر ہے۔ پس میرا سلام اس کو دو اور اسکو بشارت دو کہ وہ علم و علامت حق، ھدایت کا منار میرے دوستوں کے لیے، میرا نگہبان و شاھد میری مخلوق میں، میرے علم کا خزانے دار اور اہل آسمان و زمین و جن و انس پر میری حجّت ہے۔

ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1ص69، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق، 

رسول اکرم (ص)  کا امام حسین(ع) کی شھادت کی کیفیت بیان کرتے وقت گریہ کرنا:

 حدثني الحسن بن عبد الله بن محمد بن عيسى، عن أبيه، عن الحسن بن محبوب، عن علي بن شجرة، عن سلام الجعفي، عن عبد الله بن محمد الصنعاني، عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال كان رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إذا دخل الحسين (عليه السلام) جذبه إليه ثم يقول لأمير المؤمنين (عليه السلام): أمسكه، ثم يقع عليه فيقبله و يبكي يقول: يا أبه لم تبكي، فيقول: يا بني اقبل موضع السيوف منك و ابكي قال: يا أبه و اقتل، قال: اي و الله و أبوك و أخوك و أنت، قال: يا أبه فمصارعنا شتى، قال: نعم يا بني، قال: فمن يزورنا من أمتك، قال لا يزورني و يزور أباك و أخاك و أنت الا الصديقون من أمتی۔

جب بھی امام حسین(ع) رسول خدا کے پاس آتے تو وہ ان کو اپنے سینے سے لگاتے اور پھر علی(ع) سے فرماتے کہ حسین کو پکڑ کر رکھو پھر اس کو بوسے دیتے اور گریہ کرتے۔ امام حسین(ع) رسول خدا(ص) سے پوچھتے کہ آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ تو آپ فرماتے کہ: بیٹا میں تلواروں کی جگہ کو چوم کر رو رہا ہوں۔ امام حسین(ع) کہتے کہ اے بابا کیا میں قتل کیا جاؤں گا ؟ تو آپ فرماتے ہاں خدا کی قسم تم، تمہارا بھائی اور تمہارا باپ سب شھید کیے جاؤ گے۔ پھر امام حسین(ع) نے کہا کیا ہماری قبریں آپس میں دور دور ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے بیٹا۔ پھر پوچھا کہ آپ کی امت میں سے کون لوگ ہماری زیارت کے لیے آئیں گے ؟ رسول خدا نے فرمایا: میری امت کے سچّے انسان میری، تمہارے والد، تمہارے بھائی اور تمہاری زیارت کے لیے آیا کریں گے۔

  ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1ص68، تحقيق: بهراد الجعفري،الناشر: مکتبة الصدوق، 

رسول اکرم (ص) اور حضرت زہراء(س) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

 حدثني أبي ومحمد بن الحسن جميعا، عن محمد بن الحسن الصفار،عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن ابن فضال، عن عبد الله ابن بكير، عن بعض أصحابنا،عن أبي عبد الله (عليه السلام)،قال: دخلت فاطمة (عليها السلام) على رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم) و عيناه تدمع، فسألته مالك، فقال: ان جبرئيل  عليه السلام أخبرني ان أمتي تقتل حسينا، فجزعت و شق عليها، فأخبرها بمن يملك من ولدها، فطابت نفسها وسكنت۔

حضرت فاطمہ(س) رسول خدا(ص) کے پاس گئیں دیکھا کہ رسول خدا(ص) کی آنکھیں اشک بہا رہی ہیں۔ حضرت فاطمہ(س) نے پوچھا کہ بابا آپ کو کیا ہوا ہے ؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ بہت جلد میری امت حسین کو قتل کر دے گی۔ یہ سن کر حضرت زھرا(س) نے رونا شروع کر دیا اور اپنے لباس کو چاک کر لیا۔ جب رسول خدا نے یہ حالت دیکھی تو بی بی سے کہا کہ اسی حسین کا ایک فرزند ان کے قاتلین سے انتقام لے گا۔ یہ سن کر حضرت زہرا چپ ہو گئیں۔

ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1 ص56، تحقيق: بهراد الجعفری،الناشر: مکتبة الصدوق.

 رسول اکرم (ص) کا پنجتن پاک کی شھادت کی خبر دیتے ہوئے گریہ کرنا:

حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد (رضي الله عنه)، قال: حدثنا أحمد بن إدريس و محمد بن يحيى العطار جميعا، عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري، قال: حدثنا أبو عبد الله الرازي، عن الحسن بن علي بن أبي حمزة، عن سيف بن عميرة، عن محمد بن عتبة، عن محمد بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب (عليه السلام)، قال: بينا أنا و فاطمة و الحسن و الحسين عند رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم)، إذا التفت إلينا فبكى، فقلت: ما يبكيك يا رسول الله ؟ فقال: أبكي مما يصنع بكم بعدي. فقلت: و ما ذاك يا رسول الله؟ قال: أبكي من ضربتك على القرن، و لطم فاطمة خدها، و طعنة الحسن في الفخذ، و السم الذي يسقى، و قتل الحسين قال: فبكى أهل البيت جميعا، فقلت: يا رسول الله، ما خلقنا ربنا إلا للبلاء ! قال:   ابشريا علي، فإن الله عز وجل قد عهد إلي أنه لا يحبك إلا مؤمن، و لا يبغضك إلا منافق.

حضرت امیر(ع): جب میں، فاطمہ، حسن اور حسین(علیہم السلام) رسول خدا(ص) کے پاس تھے تو انھوں نے ہمیں دیکھا اور گریہ کرنا شروع کیا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ اے رسول خدا(ص) کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ فرمایا کہ جو کچھ آپ سب کے ساتھ میرے مرنے کے بعد ہو گا، میں اس پر گریہ کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کیا ہو گا یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ میں اس ضربت پر کہ جو تمہاری پیشانی پر لگے گی، وہ طمانچہ جو فاطمہ کے چہرے پر مارا جائے گا اس نیزے پر کہ جو حسن کی ران پر لگے گا اور اس زہر پر کہ جو اس کو کھلایا جائے گا اور حسین کے قتل ہونے پر گریہ کر رہا ہوں۔ یہ سن کر سب اھل بیت(ع) نے رونا شروع کر دیا اور کہا کہ اے رسول خدا، خداوند نے ہمیں بلاء و امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ رسول خدا نے فرمایا میں تم کو بشارت دیتا ہوں کہ اے علی خداوند نے مجھ سے عھد کیا ہے کہ تم سے محبت فقط مؤمن کرے گا اور تم سے دشمنی فقط منافق کرے گا۔

 الشيخ الصدوق، الوفاة:381، الامالی ج1 ص197،، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه‌. ق.

 امام صادق (ع) کا رسول اکرم (ص) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنے کو نقل کرنا:

 حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الْحُسَيْنِ التَّغْلِبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ لَهَا لَا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ فَجَاءَ الْحُسَيْنُ عليه السلام وَ هُوَ طِفْلٌ فَمَا مَلَكَتْ مَعَهُ شَيْئاً حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم فَدَخَلَتْ‏ أُمُّ سَلَمَةَ عَلَى أَثَرِهِ فَإِذَا الْحُسَيْنُ عَلَى صَدْرِهِ وَ إِذَا النَّبِيُّ صلي الله عليه و آله و سلم يَبْكِي وَ إِذَا فِي يَدِهِ شَيْ‏ءٌ يُقَبِّلُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه و آله و سلم يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّ هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ هَذَا مَقْتُولٌ وَ هَذِهِ التُّرْبَةُ الَّتِي يُقْتَلُ عَلَيْهَا فَضَعِيهِ‏ عِنْدَكِ‏ فَإِذَا صَارَتْ دَماً فَقَدْ قُتِلَ حَبِيبِي فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَلِ اللَّهَ أَنْ يَدْفَعَ ذَلِكَ عَنْهُ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيَّ أَنَّ لَهُ دَرَجَةً لَا يَنَالُهَا أَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ وَ أَنَّ لَهُ شِيعَةً يَشْفَعُونَ فَيُشَفَّعُونَ وَ أَنَّ الْمَهْدِيَّ مِنْ وُلْدِهِ فَطُوبَى لِمَنْ كَانَ مِنْ أَوْلِيَاءِ الْحُسَيْنِ وَ شِيعَتِهِ هُمْ وَ اللَّهِ الْفَائِزُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ 

امام صادق(ع) نے فرمایا: رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے۔ آپ نے ام سلمہ سے کہا کہ کوئی بندہ میرے کمرے میں نہ آئے۔ تھوڑی دیر بعد امام حسین(ع) کہ کمسنی کی حالت میں تھے، آئے ام سلمہ کے منع کرنے کے با وجود بھی رسول خدا(ص) کے پاس چلے گئے۔ ام سلمہ ان کے پیچھے کمرے میں گئی دیکھا کہ حسین نانا کے سینے پر بیٹھے ہیں اور رسول خدا گریہ کر رہے ہیں۔ آپ نے ام سلمہ سے کہا کہ یہ جبرائیل ہے اس نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین قتل کر دیا جائے گا اور یہ اس کی قتلگاہ کی خاک ہے اس اپنے پاس رکھو اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا کہ حسین کو قتل کر دیا گیا ہے۔

ام سلمہ نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ خدا سے چاہیں کہ یہ مصیبت حسین سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا میں نے خداوند سے کہا ہے لیکن خدا نے کہا ہے کہ حسین کے لیے جنت میں ایک ایسا درجہ و مقام ہے کہ جو کسی دوسرے انسان کے لیے نہیں ہے اور امام حسین(ع) کے شیعہ ہیں کہ جب وہ شفاعت کریں گے تو انکی شفاعت قبول ہو گی اور حضرت مھدی(عج) اولاد امام حسین میں سے ہیں۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو امام حسین(ع) کے دوستوں میں سے ہو اور امام حسین(ع) کے شیعہ قیامت والے دن کامیاب ہوں گے۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص329، تحقيق: الشيخ احمد الماحوزی، الناشر:موسسة الصادق للطباعة والنشر

ام سلمہ کا رسول اکرم (ص) کا گریہ کرنا نقل کرنا:

  و روى سماك، عن ابن مخارق، عن أم سلمة - رضي الله عنها قالت: بينا رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم ذات يوم جالس و الحسين عليه السلام جالس في حجره، إذ هملت عيناه بالدموع، فقلت له: يا رسول الله، ما لي أراك تبكي، جعلت فداك ؟ ! فقال: جاءني جبرئيل عليه السلام فعزاني بابني الحسين، و أخبرني أن طائفة من أمتي تقتله،لا أنالهم الله شفاعتی۔

سماک نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ: ایک دن رسول خدا(ص) بیٹھے ہوئے تھے اور حسین(ع) بھی انکی گود میں تھے۔ اچانک رسول خدا نے گریہ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے عرض کیا اے رسول خدا میں آپ پر قربان ہوں آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ: جبرائیل میرے پاس آیا ہے اور مجھے تعزیت پیش کی ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ حسین کو قتل کرے گا اور خداوند میری شفاعت ان کے نصیب نہیں کرے گا۔

مفيد، محمد بن محمد،الوفاة: 413 ق‌، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج2 ص130، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام‌، چاپ اول،  الناشر: سیمینار شيخ مفيد 1413 ق‌

 صفیہ بنت عبدالمطلب کا رسول اکرم (ص) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ نقل کرنا:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَعْرُوفُ بِأَبِي عَلِيِّ بْنِ عَبْدَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ السُّكَّرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْجَوْهَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ عليه السلام عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَت‏: لَمَّا سَقَطَ الْحُسَيْنُ عليه السلام مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ فَدَفَعْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم فَوَضَعَ النَّبِيُّ لِسَانَهُ فِي فِيهِ [فَمِهِ‏] وَ أَقْبَلَ الْحُسَيْنُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ يَمُصُّهُ قَالَتْ وَ مَا كُنْتُ أَحْسَبُ رَسُولَ اللَّهِ يَغْذُوهُ إِلَّا لَبَناً أَوْ عَسَلًا قَالَتْ فَبَالَ الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ فَقَبَّلَ النَّبِيُّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيَّ وَ هُوَ يَبْكِي وَ يَقُولُ لَعَنَ اللَّهُ قَوْماً هُمْ قَاتِلُوكَ يَا بُنَيَّ يَقُولُهَا ثَلَاثاً قَالَتْ فَقُلْتُ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي وَ مَنْ يَقْتُلُهُ قَالَ بَقِيَّةُ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ.

صفیہ کہتی ہے کہ: جب حسین(ع) پیدا ہوئے تو میں نے ان کو رسول خدا(ص) کو دیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنی زبان حسین(ع) کے منہ میں ڈالی تو انھوں نے زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں یہ سمجھی کہ رسول خدا اس کو دودھ اور شھد کھلا رہے ہیں۔ صفیہ کہتی ہے کہ حسین نے رسول خدا کے کپڑوں کو گیلا کر  دیا تو انھوں نے حسین کی پیشانی کا بوسہ لیا اور حسین کو مجھے دے دیا۔ پھر رسول خدا(ص) نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور تین مرتبہ کہا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جو تم کو قتل کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ کون اس او قتل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا بنی امیہ کا ایک باغی گروہ کہ خدا کی ان پر لعنت ہو۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص320، تحقيق: الشيخ احمد الماحوزی، الناشر:موسسة الصادق للطباعة والنشر

امیر المومنین علی (ع) کا  امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

وہ روایات جو علی(ع) کے امام حسین(ع) پر گريئے و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں اگرچہ ان روایات سے، کہ جو رسول خدا کے گريئے و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، کم ہیں لیکن یہ روایات ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی نے (ع) امام حسین(ع) پر ہونے والے مصائب پر بہت گریہ اور شدید غم و حزن کا اظھار کیا ہے۔ 

امام حسین (ع) کی شهادت سے پہلے ان پر گریہ کرنا:

حدثنا محمد بن أحمد السناني (رضي الله عنه)، قال: حدثنا أحمد بن يحيى بن زكريا القطان، قال: حدثنا بكر بن عبد الله بن حبيب، قال: حدثنا تميم بن بهلول، قال: حدثنا علي بن عاصم، عن الحسين بن عبد الرحمن، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: كنت مع أمير المؤمنين (عليه السلام) في خروجه إلى صفين، فلما نزل بنينوى وهو شط الفرات، قال بأعلى صوته: يا بن عباس، أتعرف هذا الموضع؟ فقلت له: ما أعرفه، يا أمير المؤمنين. فقال علي (عليه السلام): لو عرفته كمعرفتي لم تكن تجوزه حتى تبكي كبكائي. قال: فبكى طويلا حتى اخضلت لحيته و سالت الدموع على صدره، و بكينا معا، وهو يقول: أوه أوه، مالي و لآل أبي سفيان، مالي ولآل حرب، حزب الشيطان، وأولياء الكفر، صبرا - يا أبا عبد الله - فقد لقي أبوك مثل الذي تلقى منهم. ثم دعا بماء فتوضأ و ضوءه للصلاة و صلى ما شاء الله أن يصلي، ثم ذكر نحو كلامه الاول، إلا أنه نعس عند انقضاء صلاته وكلامه ساعة، ثم انتبه فقال: يا ابن عباس. فقلت: ها أنا ذا. فقال: ألا أحدثك بما رأيت في منامي آنفا عند رقدتي؟ فقلت: نامت عيناك و رأيت خيرا، يا أمير المؤمنين. قال: رأيت كأني برجال قد نزلوا من السماء معهم أعلام بيض، قد تقلدوا سيوفهم، و هي بيض تلمع، وقد خطوا حول هذه الارض خطة، ثم رأيت كأن هذه النخيل قد ضربت بأغصانها الارض تضطرب بدم عبيط، و كأني بالحسين سخلي  و فرخي و مضغتي و مخي قد غرق فيه، يستغيث فلا يغاث، و كأن الرجال البيض قد نزلوا من السماء ينادونه و يقولون: صبرا آل الرسول، فإنكم تقتلون على أيدي شرار الناس، و هذه الجنة - يا أبا عبد الله - إليك مشتاقة. ثم يعزونني و يقولون: يا أبا الحسن، أبشر، فقد أقر الله به عينك يوم القيامة، يوم يقوم الناس لرب العالمين، ثم انتبهت هكذا. و الذي نفس علي بيده، لقد حدثني  الصادق المصدق أبو القاسم (صلى الله عليه و آله و سلم) أني سأراها في خروجي إلى أهل البغي علينا، و هذه أرض كرب و بلاء، يدفن فيها الحسين و سبعة عشر رجلا من ولدي و ولد فاطمة، و أنها لفي السماوات معروفة، تذكر أرض كرب و بلاء كما تذكر بقعة الحرمين و بقعة بيت المقدس... ثم بكى بكاء طويلا و بكينا معه حتى سقط لوجهه و غشي عليه طويلا...

ابن عباس کہتا ہے کہ میں صفین کے سفر میں علی(ع) کے ساتھ تھا۔ جب ہم نینوا پہنچے تو انھوں نے اونچی آواز سے کہا اے ابن عباس کیا اس جگہ کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں اے امیر المؤمنین۔ آپ نے فرمایا اگر تم جگہ کو جانتے ہوتے تو میری طرح تم بھی اس جگہ پر رک کر گریہ کرتے اور آپ نے اتنا گریہ کیا کہ کہ آپ کی ریش مبارک اشکوں سے گیلی ہو گئی اور اشک سینے پر بھی بہنے لگے اور ہم مل کر گریہ کرنے لگے۔ پھر کہا کہ ہائے افسوس آل ابو سفیان و آل حرب کہ جو حزب شیطان اور کفر کے دوست ہیں، کو مجھ سے کیا کام ہے۔ پھر کہا کہ اے ابا عبد اللہ صبر کرو کہ جو تم دیکھ رہے ہو وہ میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ پھر علی(ع) نے وضو کر کے نماز پڑھی اور اپنی بات کو جاری رکھا۔ اس کے بعد تھوڑا آرام کیا۔ بیدار ہو کر کہا اے ابن عباس میں خواب نے دیکھا ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں سفید پرچم اور تیز تلواریں تھیں۔ انھوں نے اس زمین پر چند لکیریں کھنچی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان کھجور کے درختوں نے اپنی شاخوں کو تازے خون میں رنگ لیا ہے۔ میں نے اچانک دیکھا کہ میرا بیٹا حسین اس خون میں غرق ہے اور فریاد کر رہا ہے اور کوئی اس کی آواز کو نہیں سن رہا اور وہ آسمان سے نازل ہونے والے انسان کہہ رہے ہیں کہ اے آل رسول صبر کریں کہ آپ کو بد ترین لوگ شھید کریں گے اور یہ جنت ہے کہ جو حسین(ع) تیری مشتاق ہے۔ پھر انھوں نے مجھے تعزیت پیش کی اور کہا کہ اے ابو الحسن میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ جب خداوند قیامت والے دن لوگوں کو حساب کے لیے محشور کرے گا، آپکی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرے گا۔ پھر میں خواب سے بیدار ہو گیا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں علی(ع) کی جان ہے صادق و مصدق رسول خدا(ص) نے مجھے بتایا ہے کہ میں ان کو اھل بغاوت کے ساتھ خروج کے وقت دیکھوں گا۔ یہ زمین کربلاء ہے کہ حسین میری اور فاطمہ کی اولاد میں سے 17 مردوں کے ساتھ اس سر زمین میں دفن ہو گا۔ یہ زمین آسمان میں کربلاء کے نام سے مشھور ہے جس طرح کہ زمین مکہ و مدینہ اور بیت المقدس بھی آسمان میں مشھور ہیں........ پھر ان حضرت نے بہت ہی گریہ کیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا یہاں تک کہ وہ منہ کے بل زمین پر گر گئے اور کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

 الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص694،، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه‌. ق 

 امير مؤمنین علی (ع) کا کربلا سے گزرنا:

وَ عَنْ محمد بن عيسی، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرَّ عَلِيٌّ بِكَرْبَلَاءَ فِي اثْنَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ. قَالَ: فَلَمَّا مَرَّ بِهَا تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ لِلْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا مُنَاخُ رِكَابِهِمْ، وَ هَذَا مُلْقَى رِحَالِهِمْ، وَ هَاهُنَا تُهَرَاقُ دِمَاؤُهُمْ، طُوبَى لَكَ مِنْ تُرْبَةٍ عَلَيْكَ تُهَرَاقُ دِمَاءُ الْأَحِبَّةِ۔

جب علی(ع) دو بندوں کے ساتھ کربلاء سے گزرے تو انکی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں اور فرمایا کہ یہ انکے رکنے کی جگہ ہے۔ یہ انکے سامان اور خیموں کی جگہ ہے۔ یہاں پر ان کا خون بہایا جائے کا۔ اے خاک کربلاء تو خوش قسمت ہے کہ اچھے اور نیک انسانوں کا حون تم پر بہے گا۔

عبد الله بن جعفر حميرى، الوفاة: قرن 3 ه‌ ق، قرب الإسناد(ط- الحديثة) ج 1 ص 26، ‌طبع اول، الناشر: مؤسسه آل البيت عليهم السلام‌ 1413 ه‌ ق‌

 امیرمؤمنین علی (ع) اور ابن عباس کا امام حسین (ع) پر گریہ کرنا:

لقد دخلت على علي عليه السلام بذي قار، فأخرج إلي صحيفة وقال لي: يا بن عباس، هذه صحيفة أملاها علي رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم و خطي بيدي. فقلت: يا أمير المؤمنين، إقرأها علي فقرأها، فإذا فيها كل شئ كان منذ قبض رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم إلى مقتل الحسين عليه السلام و كيف يقتل و من يقتله و من ينصره و من يستشهد معه. فبكى بكاء شديدا و أبكاني فكان فيما قرأه علي: كيف يصنع به و كيف يستشهد فاطمة و كيف يستشهد الحسن ابنه و كيف تغدر به الأمة. فلما أن قرأ كيف يقتل الحسين و من يقتله أكثر البكاء، ثم أدرج الصحيفة و قد بقي ما يكون إلى يوم القيامة۔

ابن عباس کہتا ہے کہ: ایک دن میں ذی قار کے مقام پر علی(ع) کے پاس گیا۔ حضرت نے ایک کتاب مجھے دکھائی اور فرمایا اے ابن عباس یہ وہ کتاب ہے کہ جو رسول خدا(ص) نے مجھے املاء کے طور پر لکھوائی ہے اور میں نے اس کو لکھا ہے۔ میں نے کہا اے امیر المؤمنین اس کتاب کو میرے لیے پڑھیں۔ حضرت نے کتاب کو پڑھا اس کتاب میں رسول خدا(ص) کے زمانے سے لے کر امام حسین(ع) کی شھادت تک کے تمام واقعات کو لکھا گیا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ وہ کیسے شھید کیے جائیں گے اور کون ان کو شھید کرے گا اور کون انکی مدد کرے گا اور کون ان کے ساتھ شھید ہو گا۔ حضرت نے بہت ہی گریہ کیا اور میں نے ان کے ساتھ گریہ کیا۔ حضرت نے یہ بھی میرے لیا پڑھا کہ خود ان کے ساتھ ہو گا اور حضرت زھرا کو کیسے شھید کیا جائے گا اور کیسے ان کے بیٹے امام حسن کو شھید کیا جائے گا اور کیسے امت ان کے ساتھ دھوکا کرے گی۔ جب حضرت نے امام حسین کے شھید ہونے کی کیفیت کو بیان کیا تو بہت ہی زیادہ گریہ کیا پھر اس کتاب کو بند کر دیا اور جو کچھ قیامت تک واقع ہونے والا تھا اس کو بیان کرنا ابھی باقی رہ گیا تھا۔

سليم بن قيس الهلالی، الوفاة: سال ۷۶ هجری،كتاب سليم بن قيس الهلالی ج 1 ص 435، تحقيق: محمد باقر الانصاری الزنجانی، چاپ اول، الناشر: نشر الهادی، قم، ايران  1420 هـق، 1378 هـ ش

 حضرت زہرا (س) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا:

حضرت زہرا(س) کے گريئے کے بارے میں جو روایات نقل ہوئی ہیں ان میں فقط گریہ کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عبارت "شھقہ" ذکر ہوئی ہے کہ جو زور سے چیخ کر گریہ کرنے کا معنی دیتی ہے جبکہ بعض دوسری روایات حضرت زہرا کے نوحہ خوانی کرنے پر بھی  دلالت کرتی ہیں۔

حضرت زہرا (س) کا شهقہ کے ساتھ شدید  گریہ کرنا:

حدَّثني محمّد بن عبدالله بن جعفر الحميريُّ، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حمّاد البصريّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ قال: حدَّثنا الهَيْثم بن واقِد، عن عبد الملك بن مُقَرِّن، عن أبي عبد الله عليه ‌السلام قال: إذا زرتم أبا عبد الله عليه‌ السلام فألزموا الصَّمْت إلاّ مِن خير، و إنْ ملائكة اللَّيل و النَّهار من الحفظة تحضر الملائكة الّذين بالحائر، فتصافحهم فلا يجيبونهم مِن شدَّة البُكاء فينتظرونهم حتّى تزول الشَّمس و حتّى ينوّر الفجر، ثمَّ يكلّمونهم و يسألونهم عن أشياء مِن أمر السّماء، فأمّا ما بين هذين الوقتين فإنّهم لا ينطقون، و لا يفترون عن البُكاء و الدُّعاء، و لا يشغلونهم في هذين الوقتين عن أصحابهم، فإنّما شغلهم بكم إذا نطقتم.قلت: جُعِلتُ فِداك و ما الّذي يسألونهم عنه و أيّهم يسأل صاحبه؛ الحفظة أو أهل الحائر؟ قال: أهل الحائر يسألون الحفظة، لأنَّ أهل الحائر مِن الملائكة لا يَبرحون، و الحفظة تنزل و تصعد،قلت: فما ترَى يسألونهم عنه؟ قال: إنّهم يمرُّون إذا عرجوا بإسماعيل صاحب الهَواء، فربّما وافقوا النَّبيَّ صلى‌ الله ‌عليه‌ و آله‌و سلم و عنده فاطمة و الحسن و الحسين و الأئمّة مَن مضى منهم فيسألونهم عن أشياء، و عمّن حضر منكم الحائر، و يقولون: بَشّروهم بدعائكم، فتقول الحفظة: كيف نُبشِّرُهم و هم لا يَسمعون كلامنا؟ فيقولون لهم: باركوا عليهم و ادعوا لهم عنّا فهي البشارة منّا، فإذا انصرفوا فحُفّوهم بأجْنِحَتكم حتّى يحسّوا مكانكم و إنّا نستودِعهم الَّذي لا تضيع ودائعه؛ و لو يعلمون ما في زيارته من الخير و يعلم ذلك النّاس لاقتتلوا على زيارته بالسّيوف، و لباعوا أموالهم في إتيانه، و أنَّ فاطمة عليها‌السلام إذا نَظرتْ إليهم و معها ألفُ نبيٍّ و ألفُ صِدِّيقٍ و ألف شهيدٍ مِن الكَرُوبيّين ألف ألف يُسعدونها عَلى البُكاء، وإنّها لتشهق شَهْقَة فلا يبقى في السّماوات ملك إلاّ بكى رحمةً لصوتها، و ما تسكن حتّى يأتيها النَّبيُّ صلى‌ الله‌ عليه‌ و آله‌ و سلم فيقول:يابُنَيّة قد أبكيتِ أهل السَّماوات و شَغَلْتِهم عن التَّسبيح و التَّقديس فكُفّي حتّى يقدّسوا:فإنَّ الله بالغٌ أمره، و إنّها لتنظر إلى مَن حضر منكم فتسأل الله لهم مِن كلِّ خير، و لا تزهدوا في إتيانه! فإنَّ الخير في إتيانه أكثر مِن أن يُحصى ».

امام صادق(ع) سے نقل ہے کہ جب امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاؤ تو وہاں پر خاموشی اختیار کرو اور باتیں نہ کرو مگر اچھی اور نیک باتیں کیونکہ وہ ملائکہ جو نگہبان اور حافظ ہیں وہ ان فرشتوں کے پاس کہ جو حرم حسینی میں ہیں،آتے ہیں اور ان سے مصافحہ کرتے ہیں لیکن وہ شدت گریہ و حزن  کی وجہ سے ان کے سلام کا جواب نہیں دیتے وہ دوسرے دن دوپہر تک تھوڑا انتظار اور صبر کرتے ہیں پھر وہ ان کے سام کا جواب دیتے ہیں اور ان سے آسمانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں لیکن ان دو وقت(صبح و دوپہر) کے درمیان وہ بالکل بات نہیں کرتے بلکہ اس وقت میں وہ گریہ کرنے اور دعا کرنے سے کوتاہی نہیں کرتے۔ اس وقت میں وہ فرشتے بھی ان کو اپنے دوستوں سے دور نہیں کرتے۔ جب تم باتیں کرتے ہو تو وہ تم میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام سے سوال کیا کہ وہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور کون سے فرشتے سوال کرتے ہیں کیا نگہبان اور حافظ فرشتے حرم حسینی والے فرشتوں سے سوال کرتے ہیں یا بر عکس ہے ؟ امام نے فرمایا: حرم حسینی والے فرشتے نگہبان اور حافظ فرشتوں سے سوال کرتے ہیں کیونکہ حرم والے فرشتے ادھر ادھر نہیں جاتے بلکہ وہ حرم کے اندر ہی رہتے ہیں جبکہ نگہبان اور حافظ فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ میں(راوی) نے عرض کیا آپ کی نظر ان کے سوال کے بارے میں کیا ہے اور وہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ امام نے فرمایا نگہبان فرشتے جب آسمان پر جاتے ہیں تو وہ اسماعیل(صاحب ہوا) کے پاس سے گزرتے ہیں اور شاید رسول خدا سے بھی ملاقات کرتے ہیں اس حال میں کہ حضرت زھرا، امام حسن، امام حسین اور دوسرے آئمہ بھی ان کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ وہ فرشتے ان سے چند چیزوں کے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں کہ جو حرم حسینی میں حاضر ہوتے ہیں، سوال کرتے ہیں ؟ آئمہ معصومین(ع) ان کے سوالات کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: 

زائرین کو بشارت دو کہ وہ دعا جو تم ان کے لیے کرتے ہو۔ نگہبان فرشتے عرض کرتے ہیں کہ: ان کو کیسے بشارت دیں کہ وہ تو ہماری آواز ہی نہیں سنتے ؟ آئمہ معصومین فرماتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کرو کہ خداوند کی برکات ان پر ہمیشہ رہیں اور ہماری طرف سے بھی ان کے لیے دعا کرو اور خود ہماری طرف سے ان کے لیے بشارت ہے اور جب وہ زیارت کر کے واپس جایئں تو اپنے پروں  سے ان کو ایسے مس کرو کہ وہ اس کو حس کریں اور ہم ان کو تمہیں امانت کے طور پر سپرد کرتے ہیں اور امید ہے کہ تم اس امانت کی حفاظت کرنے میں کوتاہی نہیں کرو گے۔ اگر لوگ جان لیتے کہ امام حسین(ع) کی زیارت میں کیا خیر و برکت ہے تو زیارت پر جانے کے لیے تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور اس راہ میں اپنے مال کو خرچ کر کے  زیارت کے لیے جاتے۔ حضرت زھرا(س) جب بھی زائرین کو دیکھتی ہیں اس حال میں کہ ان کے ساتھ ایک ہزار پیغمبر، ایک ہزار صدیق، ایک ہزار شھید مقرّبین میں سے ہوتے ہیں اور دس لاکھ بندے ان کے ساتھ گریہ کرتے ہیں اور بی بی زھرا اس طرح زور سے فریاد کرتی ہیں کہ آسمان پر جو فرشتہ بھی اس فریاد کو سنتا ہے وہ بھی رونا شروع کر دیتا ہے۔ بی بی کو چین نہیں آتا مگر جب تک رسول خدا(ص) ان کے پاس نہیں آ جاتے اور کہتے ہیں کہ اے میری بیٹی تم نے سب اھل آسمان کو رلا دیا ہے اور انھوں نے تسبیح و عبادت کرنا چھوڑ دی ہے۔ اب رونا بس کرو تا کہ وہ عبادت کو جاری رکھ سکیں۔ پھر امام نے فرمایا: حضرت زھرا(س) جو بھی تم میں سے زیارت کے لیے جاتا ہے، نظر کرتی ہیں اور خداوند سے ان کے لیے خیر و برکت کو طلب کرتی ہیں۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم امام حسین کی زیارت پر جانے میں سستی کرو کیونکہ ان حضرت کی زیارت میں اتنی خیر و برکت ہے کہ جس کو شمار و حساب نہیں کیا جا سکتا۔

جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 368، کامل الزيارات: ج 1ص 91، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.

حضرت زہرا)س(کا امام حسین (ع) کے غم میں نوحہ خوانی کرنا:

 عن أمالي المفيد النيسابوري: أن زرة النائحة رأت فاطمة عليها السلام فيما يرى النائم أنها وقفت على قبر الحسين تبكي وأمرتها أن تنشد:

             أيها العينان فيضا              واستهلا لا تغيظا 

             وابكيا بالطف ميتا             ترك الصدر رضيضا

             لم أمرضه قتيلا                لا ولا كان مريضا  

شھر آشوب امالی مفید نیشاپوری سے نقل کرتے ہیں کہ(ذرّہ نوحہ خوان) نے حضرت زھرا(س) کو خواب میں دیکھا کہ وہ امام حسین(ع) کی قبر پر ہیں اور انھوں نے مجھ کو حکم دیا کہ ان اشعار کو نوحے کے طور پر حسین کے غم میں پڑھے: اے میری دو آنکھوں بہت زیادہ اشک بہاؤ اور گریہ کرو اور کم اشک بہانے پر راضی نہ ہونا۔ اس شھید پر گریہ کرو کہ جو کربلاء کی زمین پر گرا ہوا ہے اور گھوڑوں نے اس کے بدن اور سینے کو پامال کیا ہے، وہ مریض نہیں تھا کہ دنیا سے چلا گیا ہو بلکہ اس کو شھید کیا گیا ہے۔

ابن شهر آشوب،  الوفاة: 588 ه‌،  مناقب آل أبی طالب، ج 3 ص 220، تحقيق: لجنة من أساتذه النجف الاشرف، الناشر: المطبعة الحيدرية.

امام صادق (ع) کی زبان سے  حضرت زہرا(س) کا  امام حسين (ع) کے لیے گریہ نقل کرنا:

حدَّثني محمّد بن عبد الله، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حمّاد البَصريِّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبدالله بن مُشكانَ، عن أبي بصير قال: كنت عند أبي عبد الله عليه ‌السلام [و] اُحدِّثه، فدخل عليه ابنُه فقال له: مَرْحباً، و ضَمَه و قَبَّله، و قال: حَقَر اللهُ مَن حَقّركم، و انتقم مِمَّن وَ تَركم، وخَذَلَ الله مَن خَذلكم، و لعن الله مَن قتلكم، و كان اللهُ لكم وليّاً و حافظاً و ناصراً، فقد طال بُكاء النِّساء و بُكاء الأنبياء و الصِّدّيقين و الشّهداء و ملائكة السَّماء، ثمَّ بكى و قال: يا أبا بصير إذا نظرتُ إلى وُلْدِ الحسين أتاني ما لا أملكه بما اُتي إلى أبيهم و إليهم، يا أبا بصير إنّ فاطمة عليها‌ السلام لتبكيه وتشهق، فتَزْفِر جهنَّم زَفْرَة لولا أنَّ الخَزَنة يسمعون بُكاءَها و قد استَعدُّوا لذلك مَخافة أنْ يخرج منها عُنُق أو يَشْرَر دُخانها فيحرق أهل الأرض فيَكْبَحونها ما دامَتْ باكية، و يزجُرونها و يستوثِقون من أبوابها مَخافةً على أهل الأرض، فلا تَسْكنْ حتّى يسكن صوتُ فاطمة عليها‌ السلامو إنّ البِحار تَكاد أنْ تَنْفَتِق فيدخل بعضها على بعض، وما منها قَطرةٌ إلاّ بها ملكٌ مُوَكّل، فإذا سمع الملك صوتَها أطفأ نارها بأجْنِحَته، و حبس بعضها على بعض مخافةً على الدُّنيا و ما فيها و مَن على الأرض، فلا تزال الملائكة مُشفِقين يبكون لبكائِها، و يدعون الله و يتضرَّعون إليه، و يتضرَّع أهلُ العرش و مَن حَوله؛ و ترتفع أصواتٌ مِن الملائكة بالتَّقديس للهِ مَخافةً على أهل الأرض، و لو أنّ صوتاً مِن أصواتهم يصل إلى الأرض لصَعِق أهلُ الأرض و تقطّعتِ الجبال وزَلزلتِ الأرض بأهلها. قلت: جُعِلتُ فداك إنَّ هذا الأمر عظيم! قال: غَيرُه أعظمُ منه ما لم تسمعه، ثمّ قال لي: يا أبا بصير أما تحبُّ أن تكون فيمن يُسعد فاطمة عليها ‌السلام؟ فبكيت حين قالها فما قدرت على النّطق، و ما قدر (كذا) على كلامي من البكاء، ثمَّ قام إلى المصلّى يدعو، فخرجت مِن عنده على تلك الحال، فما انتفعت بطعام و ما جاءَني النَّوم، و أصبحت صائماً وَجِلاً حتّى أتيته، فلمّا رَأيته قد سكن سكنتُ، و حمدتُ الله حيث لم تُنزل بي عُقوبة۔

عبد اللہ بن مسکان نے ابو بصیر سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا کہ میں امام صادق(ع) کے پاس تھا اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ اسی وقت امام کا ایک بیٹا وہاں آیا۔ امام نے اسکو بارک اللہ کہہ کر سینے سے لگایا اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا: خداوند ان کو ذلیل و خوار کرے جو آپ کو ذلیل و خوار  کرے اور جو آپ پر ظلم کریں خداوند ان سے انتقام لے اور لعنت کرے ان کو جو آپ کو قتل کرے۔ خداوندتمہاری حفاظت کرے۔ عورتیں،انبیاء، صدیقین، شھداء اور آسمان کے فرشتے  آپ پر بہت گریہ کرتے ہیں۔ پھر امام نے گریہ کیا اور فرمایا: اے ابو بصیر میں جب بھی امام حسین کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو ان کے والد اور خود ان پر ہونے والے مظالم کی وجہ سے غم سے میری حالت بہت خراب ہو جاتی ہے۔ اے ابو بصیر حضرت زہرا(س) نے ان پر گریہ اور چیخ و پکار کی جس سے جھنم بھی فریاد کرنے لگی کہ جب جھنم کے نگہبان اور حافظ فرشتوں نے بھی جھنم کے گرئیے کی آواز کو سنا تو جلدی اس کو کنڑول کرنے کے لیے تیار ہو گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جھنم کی آگ بھڑک اٹھے، اس سے دھواں اٹھنے لگے اور وہ اھل زمین کو جلا ہی نہ دے۔ لھذا جب بھی جھنم گریہ و فریاد کرتی ہے تو نگہبان و حافظ فرشتے اسکو کنڑول کرتے ہیں کہ اہل زمین ہی کو نہ جلا دے۔ اس لیے اس کے دروازوں کو بند کرتے ہیں لیکن پھر بھی جھنم آرام میں نہیں آتی جب تک حضرت زھرا(س) کے گريئے کی آواز بند نہ ہو جائے۔ اے ابو بصیر نزدیک تھا کہ دریا پھٹ جائیں اور بعض دریا ایک دوسرے میں داخل ہو جایئں اور ہر دریا کے ہر قطرے پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے اور جب بھی دریا میں طغیانی و خروش آتا ہے وہ دریا پر مؤکل فرشتہ اپنے پروں کو دریا پر مار کر اسکو آرام کرتا ہے اور یہ کام فرشتے اس لیے کرتے ہیں کہ دنیا اور اہل دنیا کی حفاظت کر سکیں۔ فرشتے رحمدل و شفقت  کی وجہ سے دریا کے گریہ کرنے کی وجہ سے گریہ کرتے اور خدا کو پکارتے ہیں اور اھل عرش اور اس کے اطراف میں رہنے والے بھی گریہ و غم بھی حالت میں ہیں۔ فرشتوں کی آواز اونچی ہے اور وہ ہمیشہ خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اور اگر ان کی آواز زمین پر پہنچ جائے تو اہل زمین فریاد کرنا شروع ہو جایئں، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جايئں اور اہل زمین لرز اٹھیں گے۔ 

ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے امام سے کہا کہ یہ چیز بہت عظیم و بڑی ہے۔ امام نے کہا تم نے آج تک اس سے بڑی کوئی خبر نہیں سنی ہو گی پھر فرمایا کہ اے ابو بصیر کیا تم نہیں چاہتے کہ ان میں سے ہو جو حضرت زھرا(س) کی مدد و نصرت کرتے ہیں ؟ ابو بصیر نے کہا جب امام نے یہ کہا تو میری حالت اس طرح سے رونے والی ہو گئی اور اس بات کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں بالکل بات کا جواب نہ دے سکا۔ پھر امام اٹھ کر نماز خانے جا کر دعا کرنے لگ گئے۔ اس کے بعد میں امام کے پاس سے اٹھ کر باہر آ گیا۔ نہ میں نے کھانا کھایا اور نہ میں سویا۔ دوسرے دن میں نے روزہ رکھا اور دوبارہ امام کے پاس گیا۔ جب میں نے امام کو آرام اور سکون کی حالت میں دیکھا تو مجھے بھی آرام آ گیا۔ اس پر کہ مجھ پر کوئی بلا اور مصیبت نازل نہیں ہوئی میں نے خداوند کا شکر ادا کیا۔

    ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367، كامل الزّيارات، ج 1 ص 85، تحقيق: بهراد الجعفری،  الناشر: مکتبة الصدوق.

حضرت زہراء(س) کا امام حسین (ع) کی ولادت کے وقت گریہ کرنا:

حدّثنا محمّد بن عليٍّ ماجيلويه رضي‌ الله ‌عنه قال:حدّثني عمّي محمّد بن أبي ـ القاسم، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقيُّ قال:حدّثني محمّد بن عليٍّ القرشي قال: حدّثني أبو الربيع الزهرانيُّ قال: حدّثنا جرير عن ليث بن أبي سليم، عن مجاهد قال: قال ابن عبّاس: سمعت رسول الله «صلى‌ الله ‌عليه ‌و آله و سلم» يقول: إنَّ لله تبارك و تعالى ملكا يقال له: دردائيل كان له ستّة عشر ألف جناح ما بين الجناح إلى الجناح هواء و الهواء كما بين السّماء إلى الأرض: فجعل يوماً يقول في نفسه: أ فوق ربّنا جلَّ جلاله شيء؟ فعلم الله تبارك و تعالى ما قال فزاده أجنحة مثلها فصار له اثنان و ثلاثون ألف جناح، ثمّ أوحى الله «عزَّ و جلَّ» إليه أنَّ طر، فطار مقدار خمسين عاماً فلم ينل رأس قائمة من قوام العرش، فلمّا علم الله «عزَّ و جلَّ» إتعابه أوحى إليه أيّها الملك عد إلى مكانك فأنا عظيم فوق كلِّ عظيم و ليس فوقي شيء و لا أوصف بمكان فسلبه الله أجنحته و مقامه من صفوف الملائكة، فلمّا ولد الحسين بن عليّ «عليهما‌ السلام» و كان مولده عشية الخميس ليلة الجمعة أوحى الله عزَّ و جلَّ إلی مالك خازن النّار أنَّ أخمد النيران على أهلها لكرامة مولود ولد لمحمّد، و أوحى إلى رضوان خازن الجنان أنَّ زخرف الجنان و طيّبها لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله تبارك و تعالى إلى حور العين تزّيّن و تزاورن لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله «عزَّ وجلَّ» إلى الملائكة أن قوموا صفوفاً بالتسبيح و التحميد و التمجيد و التكبير لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله تبارك و تعالى إلى جبرئيل «عليه ‌السلام» أن اهبط إلي نبيّي محمّد في ألف قبيل و القبيل ألف ألف من الملائكة على خيول بلق، مسرَّجة ملجّمة، عليها قباب الدُّرِّ و الياقوت، و معهم ملائكة يقال لهم: الرُّوحانيّون، بأيديهم أطباق من نور أن هنّئوا محمّداً بمولود، و أخبره يا جبرئيل أنّي قد سميته الحسين، و هنّئه و عزِّه و قل له: يا محمّد يقتله شرار أمّتك على شرار الدَّوابِّ، فويل للقاتل، و ويل للسائق، و ويل للقائد. قاتل الحسين أنا منه بريء و هو منّي بريء لأنّه لا يأتي يوم القيامة أحد إلّا و قاتل الحسين «عليه‌ السلام» أعظم جرما منه، قاتل الحسين يدخل النّار، يوم القيامة مع الّذين يزعمون أنَّ مع الله إلهاً آخر، و النار أشوق إلى قاتل الحسين ممّن أطاع الله إلى الجنّة. قال: فبينا جبرئيل «عليه‌ السلام» يهبط من السّماء إلى الأرض إذ مرَّ بدردائيل فقال له دردائيل: يا جبرئيل ما هذه اللّيلة في السّماء هل قامت القيامة على أهل الدُّنيا؟ قال: لا و لكن ولد لمحمّد مولود في دار الدُّنيا و قد بعثني الله «عزَّ و جلَّ» إليه لاهنّئه بمولوده فقال الملك: يا جبرئيل بالذي خلقك وخلقني إذا هبطتَّ إلى محمّد فأقرئه منّي السلام و قل له: بحق هذا المولود عليك إلّا ما سألت ربّك أن يرضى عني فيرد عليّ أجنحتي و مقامي من صفوف الملائكة فهبط جبرئيل «عليه‌ السلام» على النبيِّ «صلي الله عليه و آله و سلم » فهنّأه كما أمره الله «عزَّ و جلَّ» و عزَّاه فقال له النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم »: تقتله أمّتي؟ فقال له: نعم يا محمّد، فقال النبيّ« صلی الله عليه آله و سلم »: ما هؤلاء بأمّتي أنا بريء منهم، و الله «عزَّ و جلَّ» بريء منهم، قال جبرئيل: و أنا بريء منهم يا محمّد،فدخل النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم » على فاطمة «عليها ‌السلام» فهّنأها و عزَّاها فبكت فاطمة «عليها‌ السلام»، و قالت: يا ليتني لم ألده، قاتل الحسين في النّار، فقال النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم »: و أنا أشهد بذلك يا فاطمة و لكنّه لا يقتل حتّى يكون منه إمام يكون منه الائمّة الهادية بعده، ثمّ قال «عليه ‌السلام»: و الائمّة بعدي الهادي عليّ، و المهتدي الحسن، و الناصر الحسين، و المنصور عليّ بن الحسين، و الشافع محمّد بن عليٍّ، و النفاع جعفر بن محمّد، و الامين موسى ابن جعفر، و الرِّضا عليُّ بن موسى، و الفعّال محمّد بن عليٍّ، و المؤتمن عليُّ بن محمّد، و العلام الحسن بن عليّ، و من يصلي خلفه عيسى بن مريم عليه ‌السلام القائم «عليه‌ السلام»فسكتت فاطمة عليها ‌السلام من البكاء ثمَّ أخبر جبرئيل «عليه ‌السلام» النبيِّ صلى‌ الله ‌عليه ‌و آله و سلم بقصّة الملك و ما أصيب به، قال ابن عبّاس: فأخذ النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم « الحسين «عليه ‌السلام» و هو ملفوف في خرق من صوف فأشار به إلى السّماء، ثمّ قال: اللّهمّ بحقِّ هذا المولود عليك لا بل بحقك عليه و على جدِّه محمّد و إبراهيم و إسماعيل و إسحاق و يعقوب أنَّ كان للحسين بن عليٍّ ابن فاطمة عندك قدرٌ فارض عن دردائيل و ردَّ عليه أحنجته و مقامه من صفوف الملائكة فاستجاب الله دعاء ه و غفر للملك و ردِّ عليه أحنجته و ردِّه إلى صفوف الملائكة ] فالملك لا يعرف في الجنّة إلّا بأن يقال: هذا مولى الحسين بن عليٍّ و ابن فاطمة بنت رسول الله « صلی الله عليه و آله و سلم »۔

ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ خدا نے ایک فرشتہ خلق کیا ہے جس کا نام دردائیل ہے۔ اس کے سولہ ہزار پر ہیں۔ ایک پر سے دوسرے پر تک کا فاصلہ زمین سے لے کر آسمان تک ہے۔ ایک دن اس نے خود سے کہا کہ کیا ہمارے ربّ سے بالا تر کوئی چیز ہے ؟ خدا نے اس فرشتے کی بات کو سن لیا اور اس کو جتنے اسکے پہلے پر تھے اتنے ہی مزید اس کو پر ديئے لھذا اب اس کے 32 ہزار پر ہو گئے تھے۔ خدا نے اس کو  وحی کی کہ پرواز کرو۔ اس نے پچاس سال پرواز کی لیکن وہ  عرش کے ایک ستون کے سرے تک بھی نہ پہنچ سکا۔ جب خدا نے دیکھا کہ یہ فرشتہ تھک گیا ہے تو دوبارہ اس کو وحی کی کہ اپنی پہلی والی جگہ پر واپس آ جاؤ کہ میں ہر بزرگ سے بزرگ تر ہوں۔ میں ہر جگہ ہوں لیکن میری کوئی جگہ معیّن نہیں ہے۔ پھر خدا نے اس کے پروں کو واپس لے لیا اور اسے فرشتوں کی صف سے خارج کر دیا۔ 

جب امام حسین(ع) شب جمعہ کو دنیا میں آئے تو خداوند نے جھنم کے نگبہان پر وحی کی کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے جھنم کی آگ کو ٹھنڈا کر دو اور پھر جنت کے نگہبان پر وحی کی کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے جنت کو معطّر اور زینت کر دو اور خداوند نے حوروں کو حکم دیا کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے تم اپنے آپ کو زینت کر کے ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جاؤ۔ پھر خداوند نے فرشتوں کو وحی کی کہ ذکر تسبیح و تحمید و تقدیس و تکبیر کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں اس مولود کی ولادت کی برکت  سے کہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے۔ پھر خداوند نے جبرائیل کو وحی کی کہ فرشتوں کے ایک ہزار کے گروہ کہ ہر گروہ دس دس لاکھ فرشتوں پر مشتمل ہے، دو رنگ کے گھوڑوں ابلق پر سوار ہوں کہ جنکی زین اور لگام درّ اور یاقوت سے بنی ہیں ان ملائکہ روحانی کے ساتھ کہ جن کے ہاتھوں میں نور کے طبق ہیں، زمین پر جایئں اور حضرت محمد(ص) کو اس مولود کی مبارک باد دیں اور جبرائیل سے کہا کہ میں نے اس کا نام حسین رکھا ہے اس کو بھی مبارک اور تعزیت پیش کرنا اور کہنا کہ اے محمد تیری امت کے بد ترین بندے بد ترین سواریوں پر سوار ہو کر اس بچے کو قتل کریں گے۔ ویل ہے اس کے قاتل پر اور ویل ہے جو اس کے سامنے ہو اور ویل ہے جو سواری پر سوار ہو۔ میں اس سے اور وہ مجھ سے بیزار ہے کیونکہ قیامت والے دن قاتل حسین کا گناہ تمام انسانوں کے گناہ سے زیادہ ہو گا۔ امام حسین کا قاتل مشرکین کے ساتھ جھنم میں ہو گا۔ جھنم قاتل حسین کی زیادہ مشتاق ہے اس سے زیادہ کہ جنت نیک لوگوں کی مشتاق ہوتی ہے۔

امام نے فرمایا کہ جبرائیل جب آسمان دنیا سے گزرتا ہے تو دردائیل کے پاس سے بھی گزرا تو دردائیل نے کہا کہ اے جبرائیل آسمان میں یہ کونسی رات ہے، کیا قیامت برپا ہو گئی ہے ؟ فرمایا نہ بلکہ حضرت محمد(ص) کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور خدا نے مجھے مبارک باد کے لیے بیجھا ہے۔ اس فرشتے نے جبرائیل سے کہا اس خدا کے حق کا تجھے واسطہ ہے جس نے مجھے اور تم کو خلق کیا ہے جب تم زمین پر گئے تو میرا سلام محمد(ص) کو کہنا کہ آپ کو اس مولود کا واسطہ ہے کہ اپنے پروردگار سے کہو کہ مجھ سے راضی ہوں اور میرے پر اور ملائکہ کے درمیان مجھے میرا مقام واپس دلا دیں۔ جبرائیل حضرت محمد(ص) پر نازل ہوا اور خدا کے حکم کے مطابق ان کو مبارک اور تعزیت پیش کی۔ پیغمبر نے کہا کیا میری امت اس کو قتل کرے گی ؟ جبرائیل نے کہا ہاں اے محمد۔ رسول خدا نے فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں ہیں، میں ان سے بیزار ہوں اور خداوند بھی ان سے بیزار ہے۔ اس پر جبرائیل نے کہا کہ میں بھی ان سے بیزار ہوں۔ رسول خدا فاطمہ(س) کے پاس آئے اور اسکو تعزیت پیش کی۔ حضرت فاطمہ نے گریہ کیا اور کہا اے کاش میں نے اس کو دنیا میں نہ لایا ہوتا۔ اس کا قاتل جھنم میں ہے۔ رسول خدا نے کہا کہ میں بھی اس بات کی شھادت دیتا ہوں لیکن اے فاطمہ حسین اگر شھید ہو گا تو اسکی نسل سے آگے امامت کا سلسلہ جاری ہو گا۔ سارے ہدایت کرنے والے امام حسین کی نسل سے ہوں گے۔ پھر کہا کہ میرے بعد والے آئمہ:الهادى على، و المهتدى الحسن، و الناصر الحسين، و المقيور على بن الحسين، و الشفاع محمد بن على، و النفاع جعفر بن محمد، و الامين موسى بن جعفر و المؤتمن على بن موسى، و الامام محمد بن على، و الفعال على بن محمد، و العلام‏ الحسن بن على، اور وہ کہ جس کے پیچھے عيسى بن مريم نماز پڑھیں گے وہ قائم (ع) ہیں۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ نے گریہ کرنا بند کر دیا۔ پھر جبرائیل نے اس فرشتے کی ساری داستان رسول خدا(ص) کو سنائی۔ ابن عباس کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کو ایک پشم کے کپڑے میں اپنے ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا اور عرض کیا کہ اے خدا اس بچے کا جو حق آپ پر ہے نہ بلکہ آپ کے اس بچے پر حق کا اور اس کے جدّ محمد(ص) و ابراهيم و اسماعيل و اسحق و يعقوب کا اگر فاطمہ کے بیٹے حسین کا آپ کے ںزدیک کوئی مقام ہے تو آپ دردائیل سے راضی ہو جائیں اور اسکے پر اور ملائکہ کی صف میں اس کا وہی مقام اس کو واپس پلٹا دیں۔ دعا قبول ہوئی اور فرشتے کی مغفرت ہوئی اور اس کے پر اور ملائکہ کی صف میں اس کا مقام اس کو واپس مل گیا۔ آج بھی وہ فرشتہ جنت میں حسین ابن علی و فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) کا غلام اور آزاد شدہ معروف اور مشھور ہے۔

  الشيخ الصدوق، الوفاة381، كمال الدّين وتمام النّعمة،  ج 1 ص 282، تحقيق: علی اكبر الغفاری، الناشر: مؤسسة النشر الإسلامی

 امام حسن (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا:

شیخ صدوق کی نقل کردہ روایت کے مطابق امام حسن(ع) نے اپنی زندگی کے آخری لحظات میں اپنے اوپر ہونے والے مصائب کو امام حسین(ع) پر ہونے والے مصائب کے مقابلے میں بہت ہی کم اور نا چیز شمار کیا ہے اور بہت ہی غم و خزن کی حالت میں امام حسین پر ہونے والے مصائب کا ذکر کیا ہے:

حدثنا أحمد بن هارون الفامي«رضي الله عنه»، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن جعفر بن جامع الحميري، قال: حدثنا أبي، عن أحمد بن محمد بن يحيى،عن محمد بن سنان، عن المفضل بن عمر، عن الصادق جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده«عليهم السلام»: أن الحسين بن علي بن أبي طالب«عليه السلام» دخل يوما إلى الحسن «عليه السلام»، فلما نظر إليه بكى، فقال له: ما يبكيك يا أبا عبد الله؟ قال: أبكى لما يصنع بك. فقال له الحسن «عليه السلام»: إن الذي يؤتى إلي سم يدس إلي فاقتل به، ولكن لا يوم كيومك يا أبا عبد الله، يزدلف إليك ثلاثون ألف رجل، يدعون أنهم من يدعون إنهم من أمة جدنا محمد صلى الله عليه و آله و سلم و ينتحلون الاسلام فيجتمعون على قتلك و سفك دمك و إنتهاك حرمتك و سبى ذراريك و نسائك و إنتهاب ثقلك فعندها يحل الله ببنى امية اللعنة و تمطر السماء دما و رمادا و يبكى عليك كل شئ حتى الوحوش و الحيتان في البحار۔

امام صادق(ع) نے اپنے آباء سے نقل کیا ہے کہ ایک دن  امام حسین(ع) اپنے بھائی امام حسن(ع) کے گھر گئے اور جب انھوں نے اپنے بھائی امام حسن کو دیکھا تو آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ امام حسن(ع) نے پوچھا آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ امام حسین(ع) نے فرمایا میں آپ پر ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے گریہ کر رہا ہوں۔ امام حسن نے فرمایا وہ ظلم جو مجھ پر ہو گا وہ زہر ہے جو مجھ کو مخفی طور پر کھلا کر مسموم کر کے مجھ کو قتل کیا جائے گا لیکن "لا يوم كيومک يا ابا عبد الله" کوئی دن بھی تیرے دن کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ 30 ہزار بندے کہ سب ہی مسلمان ہونے کا دعوی کرنے والے اور رسول خدا کی امت ہونے کا دعوی کرنے والے، آپ کو  ارد گرد سے گھیر کر تم کو قتل کرنے، تیرا خون بہانے، تیرے حرم کی خواتین اور بچوں  کو اسیر کرنے اور اموال کو غارت کرنے کے اپنے آپ کو تیار کریں گے۔ اس موقعے پر خداوند اپنی لعنت بنی امیہ پر کرے گا، آسمان سے خون برسے گا اور تمام چیزیں حتی وحشی حیوانات صحرا  میں اور مچھلیاں دریا میں بھی تیرے غم میں گریہ کریں گی۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1ص177، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر:الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، قم، 1417 ه‌. ق.

امام حسين (ع) کا خود اپنے پر گريہ کرنے کے بارے میں کہنا:

حدّثني محمّد بن الحسن، عن محمّد بن الحسن الصّفّار، عن أحمد بن محمّد بن عيسى، عن محمّد بن خالد البرقيِّ، عن أبان الأحمر، عن محمّد بن الحسين الخزَّاز، عن هارون بن خارجة، عن أبي عبد الله عليه ‌السلام قال: كنّا عنده فذكرنا الحسين عليه‌ السلام [و على قاتله لعنة الله] فبكى أبو عبد الله عليه‌ السلام و بكينا، قال:ثمَّ رفع رأسَه فقال: قال الحسين عليه‌ السلام: أنا قتيل العَبرَة، لا يذكرني مؤمن إلاّ بكى».

ہارون بن‏ خارجہ کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ باتوں باتوں میں امام حسین(ع) کا نام  ذکر ہوا۔ یہ سن کر امام نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور ہم نے بھی گریہ کیا۔ راوی کہتا ہے کہ امام صادق نے سر کو بلند کیا اور فرمایا کا امام حسین نے فرمایا ہے کہ میں اشکوں سے قتل کیا گیا ہوں، کوئی مؤمن بھی مجھے یاد نہیں کرے گا مگر جب بھی یاد کرے گا تو مجھ پر اشک بہائے گا۔

  جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367،کامل الزيارات ج1ص117، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مكتبة الصدوق.

 امام سجاد (ع) کا  امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

وہ روایات جو امام  سجاد(ع) کے گریہ و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں وہ واضح کرتی ہیں کہ فقط گریہ و عزاداری ہی اہل بیت کے نزدیک رائج نہیں تھا بلکہ اس گرئیے کو جاری رکھنا اور ایام عزا میں کھانا کھلانا اور کھانا تقسیم کرنا بھی ایک عادی و معمولی و رائج کام تھا۔ امام سجاد(ع) کا مختلف حالتوں میں گریہ کرنا جیسے کھانے پینے کے وقت گریہ کرنا معروف و مشھور ہے اور حتی امام سجاد(ع) کو ان پانچ بندوں میں شمار کیا گیا ہے جہنوں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ گریہ کیا ہے۔

امام سجاد (ع) کا  امام حسين (ع) کی عزاداری کے لیے غذا تیار کرنا:

و عن الحسن بن ظريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمرو بن علي بن الحسين قال: لما قتل الحسين بن عليّ عليه السلام لبس نساء بني هاشم السواد و المسوح و كن لا يشتكين من حرّ و لا برد، و كان علي بن الحسين « عليه السلام » يعمل لهنّ الطعام للمأتم۔

جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو بنی ہاشم کی خواتین پشم کا لباس پہن کر امام حسین کے لیے گریہ و عزاداری کیا کرتی تھیں۔ وہ بالکل سردی اور گرمی کی شکایت نہیں کیا کرتی تھیں۔ امام سجاد(ع) ان کے لیے غذا تیار کیا کرتے تھے۔

الشيخ الحر العاملی،الوفاة:1104، وسائل الشيعة، ج3 ص238، تحقيق:مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث،  الناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، قم.

 امام سجاد (ع) کا بکاؤون خمسہ میں شمار ہونا:

 حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد رضي الله عنه قال: حدثنا محمد ابن الحسن الصفار قال: حدثني العباس بن معروف، عن محمد بن سهل البحراني يرفعه إلى أبي عبد الله «عليه السلام» قال: البكاؤون خمسة: آدم، و يعقوب، و يوسف، و فاطمة بنت محمد، و علي بن الحسين «عليهم السلام». فأما آدم فبكى على الجنة حتى صار في خديه أمثال الأودية، و أما يعقوب فبكى على يوسف حتى ذهب بصره، و حتى قيل له: " تالله تفتؤ تذكر يوسف حتى تكون حرضا أو تكون من الهالكين و أما يوسف فبكى على يعقوب حتى تأذى به أهل السجن فقالوا له: إما أن تبكي الليل و تسكت بالنهار، و إما أن تبكي النهار و تسكت بالليل، فصالحهم على واحد منهما، أما فاطمة فبكت على رسول الله «صلى الله عليه وآله وسلم» حتى تأذى بها أهل المدينة فقالوا لها: قد آذيتنا بكثرة بكائك، فكانت تخرج إلى المقابر - مقابر الشهداء - فتبكي حتى تقضي حاجتها ثم تنصرف، و أما علي ابن الحسين فبكى على الحسين «عليه السلام» عشرين سنة أو أربعين سنة ما وضع بين يديه طعام إلا بكى حتى قال له مولى له: جعلت فداك يا ابن رسول الله إني أخاف عليك أن تكون من الهالكين، قال: " إنما أشكو بثي و حزني إلى الله و أعلم من الله ما لا تعلمون " إني ما أذكر مصرع بني فاطمة إلا خنقتني لذلك عبرة.

امام صادق(ع) نے فرمایا کہ: اس دنیا میں پانچ بندوں نے سب سے زیادہ گریہ کیا ہے: حضرت آدم و حضرت يعقوب و حضرت يوسف و حضرت فاطمہ زهرا بنت محمد و على بن الحسين عليهم السلام۔حضرت آدم(ع) نے جنت کے لیے اس قدر گریہ کیا کہ اشک ان کے چہرے پر پرنالے کی طرح جاری ہو گئے۔ حضرت یعقوب(ع) نے اپنے بیٹے کے لیے اس قدر گریہ کیا کہ نابینا ہو گئے یہاں تک کہ ان کو کہا گیا کہ خدا کی قسم آپ اسی طرح یوسف(ع) کو یاد کر کر کے ہلاک ہو جائیں گے، ادھر حضرت یوسف نے بھی اپنے باپ سے دوری پر اتنا گریہ کیا کہ زندان والوں کو اذیت ہونے لگی حتی انھوں نے یوسف سے کہا کہ یا رات کو گریہ کرو اور دن کو آرام سے رہو یا دن کو گریہ کرو اور رات کو آرام سے رہو۔ اس پر حضرت یوسف نے ان سے بات کر کے گریہ کرنے کا خاص وقت معیّن کر لیا۔

فاطمہ زهراء (س) نے رسول خدا کے لیے اتنا  گریہ کیا مدینہ کے لوگوں کو اذیت ہونے لگی اور انھوں نے کہا کہ آپ کے گریہ کرنے سے  ہمیں اذیت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بی بی دن کو شھر سے باہر جا کر شھیدوں کے قبرستان میں جی بھر کے گریہ کرتیں اور پھر واپس گھر آ جاتیں۔

على بن الحسين (ع) نے بیس سے چالیس سال تک اپنے والد امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا۔ جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا وہ گریہ کرنا شروع کر دیتے۔ ان کے خادم نے کہا اے امام مجھے ڈر ہے کہ آپ اس قدر گریہ کرنے سے دنیا سے ہی نہ چلے جائیں، امام نے فرمایا میں اپنے غم و خزن کی خداوند سے شکایت کروں گا، میں بعض باتوں کو جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے اس لیے کہ میں جب بھی حضرت فاطمہ(س) کی اولاد کی قتلگاہ کو یاد کرتا ہوں تو خود بخود میری آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381،  الخصال: ج1 ص272، تحقيق: علي أكبر الغفاری، الناشر: جماعة المدرسين في الحوزة العلمية 1403

  امام سجاد (ع) کا بیس سال امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

حدّثني أبي رحمه‌ الله عن جماعة مشايخي، عن سعد بن عبد الله، عن محمّد بن الحسين بن أبي الخطّاب، عن أبي داود المُسترق ـ عن بعض أصحابنا ـ عن أبي عبد الله «عليه السلام» « قال: بكى عليُّ بن الحسين على أبيه حسين بن عليٍّ«صلوات الله عليهما»عشرين سَنَة ـ أو أربعين سَنَة   ـ، و ما وضع بين يديه طعاماً إلاّ بكى على الحسين«عليه السلام» حتّى قال له مولى له:جُعلتُ فِداك يا ابن رَسول الله إنّي أخاف عليك أن تكون مِن الهالِكين، قال: « إنَّما أشْكُو بَثِّي وَ حُزْني إلى اللهِ و أعْلمُ مِنَ اللهِ ما لا يَعْلَمُون»، إنّي لم أذكر مصرع بني فاطمة إلاّ خَنَقَتني العَبرة لذلک۔

امام سجاد(ع) نے بیس یا چالیس سال اپنے والد امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا۔  جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا وہ اپنے والد کو یاد کر کے  گریہ کرنا شروع کر دیتے حتی کہ ان کے خادم نے کہا اے امام مجھے ڈر ہے کہ آپ اس قدر گریہ کرنے سے دنیا سے ہی نہ چلے جائیں۔ امام نے فرمایا: قالَ إِنَّما أَشْكُوا بَثِّی وَ حُزْنِی إِلَى اللَّهِ وَ أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ ما لا تَعْلَمُونَ. میں اپنے غم و حزن کو خدا کی بار گاہ میں کہتا ہوں اور کرم خداوند سے میں بعض چیزوں کو جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے۔  اس لیے کہ میں جب بھی حضرت فاطمہ(ع) کی اولاد کی قتلگاہ کو یاد کرتا ہوں تو خود بخود میری آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔

جعفر بن محمد بن قولويه،الوفاة: 368، کامل الزيارات: ج1 ص114، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق   

امام سجاد (ع) کا اپنے والد بزرگوار پر کبھی ختم نہ ہونے والا غم:

 حدَّثني محمّد بن جعفر الرَّزَّاز، عن خاله محمّد بن الحسين بن أبي الخطّاب الزَّيّات، عن عليِّ بن أسباط،  عن إسماعيلَ بن منصور ـ عن بعض أصحابنا ـ « قال: أشرف مولى لعليِّ بن الحسين «عليهما السلام»و هو في سقيفة له ساجدٌ يبكي، فقال له: يا مولاي يا عليَّ بن الحسين أما آنَ لِحُزنك أن ينقضي؟ فرفع رأسَه إليه و قال: ويلك ـ أو ثَكَلَتكَ اُمُّك ـ [والله] لقد شكى يعقوبُ إلى رَبّه في أقلّ ممّا رأيت حتّى قال: « يا أسَفى عَلى يُوسُفَ»، إنّه فَقَدَ ابْناً واحِداً، و أنا رَأيت أبي و جماعة أهل بيتي يُذبَّحون حَولي، قال: و كان عليُّ بن الحسين «عليهما السلام»يميل إلى ولد عقيل،فقيل له: ما بالك تميل إلى بني عَمّك هؤلاء دون آل جعفر؟ فقال: إنّي أذكر يومهم مع أبي عبد الله الحسين بن عليٍّ «عليهما السلام» فأرقّ لهم۔

امام سجاد(ع) کے خادم ساباطی نے امام کو کہ جو ہمیشہ سجدے اور گرئیے کی حالت میں رہتے تھے، کہا کہ اے میرے مولا اے امام سجاد(ع) کیا آپ کے غم و حزن کے ختم ہونے کا وقت کب آئے گا ؟ امام سجاد نے زمین سے سر کو بلند کیا اور فرمایا: افسوس ہے تم پر تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے خدا کی قسم حضرت یعقوب نے میرے ساتھ ہونے واقعے سے بھی کم تر اور نا چیز تر واقعے پر اپنے غم کی خداوند سے شکایت کی اور کہا:يا أَسَفى‏ عَلى‏ يُوسُفَ ہائے افسوس یوسف کی جدائی پر۔ اس کے با وجود کہ ان کا فقط ایک بیٹا ان سے دور ہوا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ میرے والد اور اہل بیت کے سروں کو میرے سامنے بدن سے جدا کیا گیا۔ راوی کہتا ہے امام سجاد اولاد عقیل سے ایک خاص قسم کی محبت و توجہ کیا کرتے تھے۔ امام سے پوچھا گیا آپ کیوں اولاد عقیل کو توجہ دیتے ہیں اور آل و اولاد جعفر کی طرف توجہ نہیں دیتے ؟  امام نے فرمایا مجھے یاد ہیں وہ دن کہ انھوں نے امام حسین(ع) کے ساتھ کن کن مصائب کا سامنا کیا ہے پس میں اس وجہ سے ان کے لیے غمگین ہوتا اور توجہ کرتا ہوں۔

  جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 368،کامل الزيارات، ج1ص115، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مكتبة الصدوق.  

 امام سجاد(ع) کا کھانا کھاتے وقت امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

 روى عن الصادق عليه السلام أنه قال: ان زين العابدين عليه السلام بكى على أبيه أربعين سنة صائما نهاره و قائما ليلة فإذا حضر الافطار و جاء غلامه بطعامه و شرابه قيضعه بين يديه فيقول كل يا مولاى فيقول قتل ابن رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم جائعا، قتل ابن رسول الله صلى الله عليه  و آله و سلم عطشانا، فلا يزال يكرر ذلك و يبكى حتى يبتل طعامه من دموعه ثم يمزج شرابه بدموعه فلم يزل كذلك حتى لحق بالله عز و جل۔

امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ امام سجاد(ع) نے چالیس سال اپنے والد کے غم میں گریہ کیا۔ اس حال میں آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات بیدار رہ کر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ جب افطار کا وقت ہوتا تو خادم کھانا اور پانی لے کر آتا اور کہتا کہ مولا بسم اللہ کھائیں۔ امام فرماتے کہ کیسے کھانا کھاؤں جب کہ فرزند رسول کو بھوکا شھید کیا گیا اور کیسے پانی پیئوں جب کہ فرزند رسول کو پیاسا شھید کیا گیا ہے۔ اس بات کا بار بار تکرار کرتے اور ساتھ ساتھ گریہ بھی کرتے۔ اتنا گریہ کرتے کہ کھانا اشکوں سے بھر اور گیلا ہو جاتا۔ دنیا سے جانے تک امام کی یہی حالت تھی۔

السيد ابن طاووس، الوفاة: 664، اللهوف في قتلى الطفوف ج1 ص121، الناشر: أنوار الهدى،قم، ايران 

امام سجاد (ع) کا عمر بن سعد ملعون کا سر دیکھ کر گریہ کرنا:

 و لما بعث المختار برأس عمر بن سعد (عليه اللعنة) إليه و قال (لا تعلم أحدا ما معك حتى يضع الغداء) فدخل و قد وضعت المائدة، فخر زين العابدين عليه السلام ساجدا و بكى و أطال البكاء ثم جلس، فقال: الحمد لله الذى ادرك لى بثأري قيل وفاتی۔

جب امیر مختار نے عمر سعد ملعون کا سر امام سجاد(ع) کی خدمت میں بیجھا۔ جس بندے کے پاس سر تھا اس نے کہا ابھی کسی کو نہ بتانا۔ جب کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا گیا تو سر کو اس پر رکھا گیا۔ جب امام سجاد(ع) نے سر کو دیکھا تو سجدہ شکر اور گریہ کیا اور کہا شکر اور حمد ہے اس خدا کے لیے کہ جس نے میرے مرنے سے پہلے ہمارے قتل کا بدلہ اس سے لیا۔

قطب الدين الراوندی الوفاة ،:573، الدّعوات ج1 ص162، تحقيق: مدرسة الامام المهدی،  الناشر: مدرسة الإمام المهدی (ع) - قم.    

امام باقر (ع) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام باقر(ع) سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں، بعض روایات میں امام کا مجالس عزاداری کو اپنے گھر میں اہمیت دینے کے بارے میں، بعض روایات میں امام باقر نے حکم دیا ہے مجالس عزاداری گھروں میں برپا کرنے کے بارے میں، بعض روایات میں امام باقر(ع) نے گریہ و عزاداری کے ثواب کو بیان کیا ہے کہ ان تمام رویات سے عزاداری کے شرعی اور جائز ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے:

 امام باقر (ع) کے گھر میں مجلس عزا کا برپا ہونا:

 حدثنا أبو المفضل، قال حدثنا جعفر بن محمد بن القاسم العلوي، قال حدثنا عبد الله   بن احمد بن نهيل ، قال حدثني محمد ابن ابى عمير، عن الحسين بن عطية، عن عمر بن يزيد، عن الورد بن الكميت، عن أبيه الكميت بن ابى المستهل قال: دخلت على سيدي ابى جعفر محمد بن علي الباقر عليهما السلام فقلت: يا ابن رسول الله اني قد قلت فيكم أبياتا افتأذن لي في انشادها. فقال: انها أيام البيض. قلت: فهو فيكم خاصة. قال: هات، فأنشأت أقول: أضحكني الدهر و أبكاني * و الدهر ذو صرف و ألوان لتسعة بالطف قد غودروا * صاروا جميعا رهن اكفانفبكى عليه السلام و بكى أبو عبد الله و سمعت جارية تبكي من وراء الخباء، فلما بلغت الى قولي: و ستة لا ؟ ؟ حارى   بهم * بنو عقيل خير فتيان   ثم علي الخير مولاكم   * ذكرهم هيج أحزاني 

فبكى ثم قال عليه السلام: ما من رجل ذكرنا أو ذكرنا عنده فخرج  من عينيه ماء و لو قدر  مثل جناح البعوضة الا بنى الله له بيتا في الجنة و جعل ذلك حجابا بينه و بين النار، فلما بلغت الى قولي: من كان مسرورا بما مسكم * أو شامتا يوما من الان فقد ذللتم بعد عز فما * أدفع ضيما حين يغشاني أخذ بيدي و قال: اللهم اغفر للكميت ما تقدم من ذنبه و ما تأخر، فلما بلغت الى قولي: متى يقوم الحق فيكم متى * يقوم مهديكم الثاني قال سريعا ان شاء الله سريعا۔

کمیت شاعر نے کہا ہے کہ میں امام باقر(ع) کے پاس گیا اور کہا اے فرزند رسول خدا میں نے آپ کے بارے میں چند اشعار کہے ہیں کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ آپ کے سامنے ان اشعار کو پڑھوں ؟ امام نے فرمایا ابھی تو ایام البیض ہیں۔ میں نے عرض کیا میں نے خاص طور پر ان اشعار کو آپ کے لیے کہا ہے۔  امام نے کہا چلو پڑھو۔ میں نے اشعار پڑھنا شروع کیا: زمانے نے مجھے ہنسایا اور رلایا۔ زمانے میں کئی نشیب و فراز اور کئی رنگ ہیں۔ ان نو بندوں کے لیے کہ جو کربلاء میں شھید اور اپنے کفن میں سو گئے۔ یہ سن کر امام باقر و امام صادق)ع)  نے گریہ کیا۔ میں نے سنا کہ ایک عورت پردے کے پیچھے گریہ کر رہی ہے، جب میں اس شعر پر پہنچا: چھے بندے کہ وہ سب پر فضیلت رکھتے تھے اولاد عقیل بہترین سوار، پھر علی (ع) کہ ان کے مولا ہیں جب میں ان کا نام لیتا ہوں تو میرے سارے غم زندہ ہو جاتے ہیں۔ امام نے فرمایا: جو بھی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر ہو اور اس کی آنکھوں میں مکھی کے پر کے برابر اشک آ جائے تو خداوند اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور انہی اشکوں کو اس کے اور جھنم کی آگ کے درمیان پردہ قرار دیتا ہے، جونہی میں اس شعر پر پہنچا: کون ہے جو آپ پر ہونے والے مظالم کے بارے میں خوشحال ہوتا ہے یا آج کے بعد وہ خوشحال ہو کیونکہ آپ کو عزت کے بعد خوار کیا گیا اور میں اپنی طرف آنے والے ظلم کو نہیں روکتا۔ امام سجاد نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا خداوندا کمیت کے گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرما اور جب میں اس شعر پر پہنچا: کس زمانے میں حق آپ کے درمیان قائم ہو گا ؟ کس زمانے میں آپ کا دوسرا مھدی قیام کرے گا ؟ امام نے فرمایا: انشاء اللہ بہت جلدی انشاء اللہ بہت جلدی۔

علی بن محمد بن علی الخزاز القمى الرازى،  الوفاة:400، كفاية الأثر  ج1 ص249، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسينى، الناشر: انتشارات بيدار  مطعة الخيام - قم (1401 ه‌)  

 امام باقر (ع) کا مجالس عزاداری امام حسین (ع) کو گھروں میں برپا کرنے کا کہنا:

 حدَّثني حكيم بن داود بن حكيم؛ و غيره، عن محمّد بن موسى الهَمدانيِّ، عن محمّد بن خالد الطّيالسيِّ، عن سيف بن عَمِيرة؛ و صالِح بن عُقْبة جميعاً، عن عَلقمةَ بنِ محمّد الحَضرميّ؛ و (كذا) محمّد بن إسماعيل، عن صالِح بن عُقْبة، عن مالك الجُهنيّ، عن أبي جعفر الباقر عليه‌ السلام قال: مَن زار الحسين عليه‌ السلام يوم عاشوراء من المحرَّم حتّى يظلَّ عنده باكياً لقي الله تعالى يوم القيامة بثواب ألفَــي ألف حَجّة و ألفَــي ألف عُمرة، و ألفي ألف غَزوة، و ثواب كلِّ حَجّة و عُمرة و غزوة كثواب مَن حجّ و اعتمر و غَزا مع رسول الله صلى‌ الله‌ عليه‌ و آله‌و سلم و مع الأئمّة الرَّاشدين صلوات الله عليهم أجمعين. قال: قلت: جُعِلتُ فِداك لِمَن كان في بُعدِ البلاد و اقاصيها و لم يمكنه المسير إليه في ذلك اليوم؟ قال: إذا كان ذلك اليوم بَرزَ إلى الصَّحراء أو صَعد سَطحاً مُرتفعاً في دارِه، و أومأ إليه بالسّلام، و اجتهد على قاتله بالدُّعاء، و صلّى بعد رَكعتين يفعل ذلك في صَدرِ النَّهار قبل الزَّوال، ثمَّ ليندُب الحسين عليه‌ السلام و يَبكيه و يأمر مَن في داره بالبُكاء عليه، و يقيم في داره مصيبته بإظهار الجزع عليه، و يتلاقون بالبُكاء بعضهم بعضاً في البيوت، و ليعزّ بعضهم بعضاً بمصاب الحسين عليه ‌السلام، فأنا ضامِنٌ لهم إذا فعلوا ذلك على الله عزّ َ وجلَّ جميع هذا الثَّواب، فقلت: جُعِلتُ فِداك و أنت الضّامِن لهم إذا فعلوا ذلك و الزَّعيم به؟ قال: أنا الضّامن لهم ذلك و الزَّعيم لمن فعل ذلك قال: قلت: فكيف يعزّي بعضهم بعضاً؟ قال: يقولون: عَظَّم اللهُ اُجُورَنا بِمُصابنا بِالحسينِ عليه‌ السلام، و جَعَلَنا و إيّاكم مِن الطّالِبين بِثأرِه مع وَليّه الإمام المَهديّ مِن آل محمّدٍ؛  فإن استطعت أن لا تنتشر يومك في حاجة فافعل، فإنّه يوم نحس لا تقضى فيه حاجة، و إن قضيت لم يبارك له فيها و لم ير رُشْداً، و لا تدَّخِرنَّ لمنزلك شيئاً، فإنّه مَن ادَّخر لمنزلِه شيئاً في ذلك اليوم لم يُبارك له فيما يدَّخره و لا يُبارك له في أهله، فمن فعل ذلك كُتِبَ له ثوابُ ألفِ ألفِ حَجّة و ألف ألف عُمرة، و ألف ألف غَزوة كلُّها مع رسول الله صلى‌ الله‌ عليه‌ و آله‌ و سلم و كان له ثواب مصيبة كلِّ نبيٍّ و رَسولٍ و صِدِّيق و شَهيدٍ مات أو قُتِل منذ خلق الله الدُّنيا إلى أن تقوم السّاعة۔

امام باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ: جو بھی روز عاشورا امام حسین کی زیارت کرے اور اس دن کو صبح سے شام تک غم و گریہ  کی حالت میں رہے۔ وہ بندہ قیامت کے دن خداوند سے ملاقات کرے گا اس حالت میں کہ خدا اس کو بیس لاکھ حج،  بیس لاکھ عمرے اور بیس لاکھ جھاد کے مرتبے عطا کرے گا۔ قابل توجہ یہ ہے کہ ہر حج و ہر عمرے اور ہر جھاد کا ثواب مثل اس کے ثواب کے ہے کہ جس نے حج و عمرے اور جھاد کو رسول خدا اور آئمہ کے ساتھ انجام دیا ہو۔ 

علقمہ کہتا ہے کہ میں نے امام باقر(ع) سے کہا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ اس بندے کا اجر اور ثواب کیا ہے  کہ جو کربلاء سے بہت دور رہتا ہو اور اس کے لیے روز عاشورا امام حسین کی زیارت کرنا ممکن نہ ہو ؟ امام نے فرمایا کہ وہ بندہ اس دن صحرا میں جائے یا گھر کی چھت پر چلا جائے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے امام حسین کو سلام کرے اور پھر امام کے قاتلوں پر لعنت کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اور توجہ کرے کہ اس کام کو روز عاشورا ظھر سے پہلے انجام دے پھر امام حسین کے لیے گریہ و زاری کرے اور لوگ گھر میں ہوں ان کو بھی امام حسین پر گریہ کرنے کا کہے۔ اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے اور خیال رہے کہ جب بھی اھل خانہ ایک دوسرے سے ملیں تو غم و گرئیے کی حالت میں ہوں اور ضروری ہے کہ بعض اھل خانہ ایک دوسرے کو امام حسین کے غم و مصیبت پر تسلیت و تعزیت پیش کریں اور جب وہ ان کہے ہوئے تمام کاموں کو انجام دیں گے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ جو بھی ثواب ذکر ہوا ہے وہ سب خداوند ان کو عطا کرے گا۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوں آپ ان کے لیے اس سب ثواب کی ضمانت دیتے ہیں ؟ امام نے فرمایا ہاں اگر حکم کے مطابق انجام دیں تو میں ضمانت دیتا ہوں۔علقمہ کہتا ہے میں نے امام سے عرض کیا اگر بعض اہل خانہ ایک دوسرے کو تسلیت و تعزیت دیں تو کیسے اور کیا کہیں ؟ امام نے فرمایا اس طرح کہیں کہ:عظّم اللَّه اجورنا بمصابنا بالحسين«علیه السلام»، و جعلنا و إيّاكم من الطالبين بثاره مع وليّه الإمام المهدى من آل محمّد«صلوات الله علیهم اجمعین»

خداوندا ہمارے امام حسین(ع) کے عزادار ہونے کا  اجر و ثواب زیادہ فرما اور آل محمد کے امام مھدی کے ساتھ امام حسین کے خون کا انتقام لینے والوں میں سے قرار دے۔

اور اگر تم روز عاشورا اپنی زندگی کے روز مرہ کے کاموں کے پیچھے نہ جاؤ تو بہتر ہے کیونکہ یہ دن نحس ہے اور اس دن کوئی حاجت بھی پوری نہیں ہوتی اور حاجت پوری ہو بھی جائے تو یہ حاجت اس بندے کے لیے با برکت نہیں ہو گی اور وہ اس حاجت سے خیر نہیں دیکھے گا۔ قابل توجہ ہے کہ اس دن گھر میں کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ نہ کرے کیونکہ اگر کوئی اس دن گھر میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو اس کس لیے اور کے اھل خانہ کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی۔ لھذا جو بھی حکم کے مطابق ان پر عمل کرے تو خدا اس کو بیس لاکھ حج،  بیس لاکھ عمرے اور بیس لاکھ جھاد کے مرتبے عطا کرے گا۔ قابل توجہ یہ ہے کہ ہر حج و ہر عمرے اور ہر جھاد کا ثواب مثل اس کے ثواب کے  ہے کہ جس نے حج و عمرے اور جھاد کو رسول خدا اور آئمہ کے ساتھ انجام دیا ہو اور اسی طرح خداوند اول دنیا سے لے کر آخر دنیا تمام انبیاء، مرسلین، صدیقین اور شھداء پر ہونے والے تمام مصائب اور مشکلات کا ثواب اس بندے کو بھی عطا کرے گا۔

 ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1 ص193، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق.

 امام باقر (ع) کا امام حسین (ع)  پر گریہ کرنے کا ثواب بیان کرنا:

حدِّثني الحسن بن عبد الله بن محمّد بن عيسى، عن أبيه، عن الحسن بن محبوب، عن العلاء بن رزين، عن محمّد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه‌ السلام قال: كان عليّ بن الحسين عليهما ‌السلام يقول: أيّما مؤمنٍ دمعتْ عَيناه لقتل الحسين بن عليٍّ عليهما ‌السلام دمعةً حتّى تسيل على خدِّه بوَّأه الله بها في الجنّة غُرفاً يسكنها أحقاباً، و أيّما مؤمن دَمَعَتْ عيناه حتّى تسيل على خَدِّه فينا لاُذى مسّنا مِن عَدوِّنا في الدُّنيا بوَّأه الله بها في الجنّة مبوَّأ صِدقٍ، و أيّما مؤمنٍ مَسَّه أذىً فينا فَدَمَعَتْ عيناه حتّى تسيل على خَدِّه مِن مَضَاضةِ ما اُوذِي فينا صرَّف اللهُ عن وجهه الأذى و آمنه يوم القيامة مِن سَخطه و النّار۔

امام باقر(ع) نے فرمایا کہ: امام علی ابن الحسین فرمایا کرتے تھے کہ جو مؤمن بھی امام حسین(ع) کی شھادت پر اس طرح  گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں ایک کمرہ عطا کرے گا کہ جس میں بہت زیادہ مدت زندگی گزارے گا اور جو مؤمن ہم پر دشمن کی طرف سے ہونے والے مصائب و مظالم پر اس طرح  گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں بہت ہی مناسب مقام عطا کرے گا اور جو مؤمن ان مصائب پر کہ دشمن کی طرف سے ہماری محبت اور اطاعت کی وجہ سے اس پر ہوتے ہیں اس طرح گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس غم و مصیبت کو دور کرے گا اور قیامت والے دن اس کو اپنے غضب اور جھنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔

ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367، كامل الزّيارات، ج1 ص107، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق .

  امام حسین (ع) پر ایک قطرہ اشک بہانے کی جزاء، جنت ہے:

حدثني حكيم بن داود، عن سلمة بن الخطاب، عن الحسن بن  عليه السلام، عن العلاء بن رزين القلاء، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: أيما مؤمن دمعت عيناه لقتل الحسين (عليه السلام) دمعة حتى تسيل على خده بوأه الله بها غرفا في الجنة يسكنها أحقابا۔

امام باقر(ع) نے فرماتے ہیں کہ: جو مؤمن بھی امام حسین کے شھید ہونے پر اس طرح  گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں ایک ایسا ٹھکانہ عطا کرے گا کہ جس میں وہ بہت زیادہ مدت زندگی گزارے گا۔ 

  جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص207، تحقيق: الشيخ جواد القيومی،  لجنة التحقيق، چاپ اول، الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417.

امام صادق (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام صادق(ع) سے امام حسین(ع) کی عزاداری کے بارے میں نقل ہونے والی روایات دوسرے آئمہ کی نسبت بہت زیادہ ہیں اور شاید یہ امام کے زمانے کے حالات اور اس فرصت کی  وجہ سے ہوا ہو کہ اس دور میں امام کو حاصل ہوئی ہو۔ ان روایات میں امام صادق(ع) نے خود عملی طور پر عزاداری کرنے کے علاوہ دوسروں کو بھی امام حسین پر عزاداری کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی عزاداری کرنے کا ثواب و اجر بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں ہے کہ امام خود شعراء کو امام حسین(ع) کے غم میں اشعار پڑھنے کا کہتے تھے اور خود بھی شدید گریہ کیا کرتے تھے۔

امام صادق (ع) اور ان کے محترم اہل بیت کے سامنے شعراء کا امام حسین(ع) کے  مصائب پڑھنا:

حدَّثني محمّد بن جعفر، عن محمّد بن الحسين، عن ابن أبي عُمَير، عن عبد الله بن حسّان، عن ابن أبي شعبة عن عبد الله بن غالب، قال: دخلت على أبي عبد الله عليه‌ السلام فأنشدته مَرْثِيةَ الحسين عليه ‌السلام، فلمّا انتهيتُ إلى هذا الموضع:

لَبلِيَّة تَسقو حُسَيناً      بمَسقاةِ الثَّرى غَير التُّرابِ

فصاحت باكية من وراء السّتر: و اأبتاه!!!

محمّد بن جعفر نے محمّد بن الحسين(ع) سے اور ابن ابى عمير نے  عبد اللَّه بن حسّان سے اور ابن أبى شعبہ نے  عبد اللَّه بن غالب سے نقل كیا ہے کہ: میں امام صادق(ع) کے پاس گیا اور امام حسین کی شھادت کے بارے میں مرثیہ پڑھا۔ جب میں اس شعر پر پہنچا کہ: خدا کی قسم امام حسین پر ایسی مصیبت آئی کہ اس مصیبت نے امام کو سیراب کیا نہ پانی نے: اس پر پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین نے اونچی آواز سے گریہ کیا اور کہا وا أبتاه !۔

  جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص112، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.   

جعفر بن عفان کا امام صادق (ع) کے لیے مصائب پڑھنا:

حدثنی نصر بن الصباح، قال حدثنی أحمد بن محمد بن عيسی، عن يحيی بن عمران، قال حدثنا محمد بن سنان، عن زيد الشحام، قال کنا عند أبی عبد الله عليه السلام، و نحن جماعة من الکوفيين، فدخل جعفر بن عفان علی أبی عبد الله عليه السلام، فقربه و أدناه، ثم قال يا جعفر قال لبيک جعلنی الله فداک، قال بلغنی أنک تقول الشعر فی الحسين عليه السلام و تجيد فقال له نعم جعلنی الله فداک، فقال قل فأنشده عليه السلام و من حوله حتی صارت له الدموع علی وجهه و لحيته، ثم قال يا جعفر و الله لقد شهدک ملائکة الله المقربون هاهنا يسمعون قولک فی الحسين عليه السلام و لقد بکوا کما بکينا أو أکثر، و لقد أوجب الله تعالی لک يا جعفر فی ساعته الجنة بأسرها و غفر الله لک، فقال يا جعفر أ لا أزيدک قال نعم ياسيدی، قال ما من أحد قال فی الحسين عليه السلام شعرا فبکی و أبکی به إلا أوجب الله له الجنة و غفر له۔

زید شحام نے نقل کیا ہے کہ: ہم اور اھل کوفہ کا ایک گروہ امام صادق(ع) کے پاس بیٹھے تھے کہ جعفر بن عفان بھی امام کے پاس آیا۔ امام نے اس کو اپنے قریب بیٹھایا اور اس سے فرمایا کہ: اے جعفر اس نے کہا لبیک خدا مجھے آپ پر قربان کرے۔ امام نے پھر فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم امام حسین(ع) کے بارے        میں   بہت                اچھے شعر کہتے ہو۔ اس نے کہا: ہاں، میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ امام نے فرمایا پھر ہمیں بھی آج شعر سناؤ۔ جب اس نے امام حسین کی مصیبت کے بارے میں اشعار پڑھے تو امام صادق نے اس قدر گریہ کیا کہ ان کا چہرہ اور ریش مبارک اشکوں سے گیلی ہو گئی اور وہ لوگ جو امام کے پاس بیٹھے تھے انھوں نے بھی گریہ کیا۔ پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا کی قسم تیرے ان امام حسین(ع) کے بارے میں اشعار کو خدا کے مقرب ملائکہ نے بھی سنا ہے اور انھوں نے ہم سے زیادہ گریہ کیا ہے۔ امام نے فرمایا خداوند نے ابھی تمہارے لیے جنت کو واجب قرار دیا ہے اور تیرے سارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے جعفر کیا اس سے بھی زیادہ تمہارے لیے بیان کروں ؟ اس نے کہا ہاں اے میرے مولا، امام نے فرمایا کہ جو بھی امام حسین(ع) کے بارے میں شعر کہے، خود گریہ کرے اور دوسروں کو بھی رلائے تو خداوند اس پر جنت کو واجب قرار دیتا ہے اور اس کےسارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔

الشيخ الطوسی، الوفاة: 46، رجال الکشی، ج1 ص289، المحقق: السيد مهدی الرّجائی صححه و علق عليه و قدم له و وضع فهارسه حسن المصطفوی

ابو ہارون کا امام صادق (ع) کے لیے مصائب کا پڑھنا:

 حدثنا أبو العباس القرشي، عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن محمد بن إسماعيل، عن صالح بن عقبة، عن أبي هارون المكفوف، قال: قال أبو عبد الله  عليه السلام: يا أبا هارون أنشدني في الحسين  عليه السلام، قال: فأنشدته، فبكى، فقال: أنشدني كما تنشدون - يعني بالرقة قال، فأنشدته:

امرر على جدث الحسين * فقل لأعظمه الزكية

قال: فبكى، ثم قال: زدني، قال: فأنشدته القصيدة الأخرى، قال:فبكى، وسمعت البكاء من خلف الستر، قال: فلما فرغت قال لي: يا أبا هارون من أنشد في الحسين عليه السلام شعرا فبكى و أبكى عشرا كتبت له الجنة، و من أنشد في الحسين شعرا فبكى وأبكى خمسة كتبت له الجنة، و من أنشد في الحسين شعرا فبكى و أبكى واحدا كتبت لهما الجنة، و من ذكر الحسين (عليه السلام) عنده فخرج من عينه من الدموع مقدار جناح ذباب كان ثوابه على الله و لم يرض له بدون الجنة۔

  ابو العباس قرشی نے محمّد بن الحسين بن ابى الخطّاب سے اور اس نے  محمّد بن اسماعيل سے اور اس نے صالح بن عقبہ سے اور اس نے ابى هارون مكفوف سے  نقل كیا ہے کہ: امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ اے ابو ہارون کیا تم میرے لیے امام حسین کی مصیبت کے بارے میں شعر پڑھو گے ؟ ابو ہارون نے کہا پس میں نے امام کے لیے اشعار کو پڑھا اور امام نے گریہ کیا اور فرمایا: جیسے تم اپنے لوگوں کے درمیان شعر و مرثیہ پڑھتے ہو ویسے میرے لیے بھی پڑھو یعنی خاص لہجے اور سوز و گداز کے ساتھ ۔ ابو ہارون نے کہا کہ اس شعر کو میں نے امام نے پڑھا: کہ گزر کرو امام حسین کی قبر سے اور انکی پاک و مطھر ہڈیوں سے کہو۔ ابو ہارون کہتا ہے کہ امام نے شدید گریہ کیا اور فرمایا کہ مزید بھی اشعار پڑھو۔ پس میں نے ایک اور مرثیہ امام کے لیے پڑھا اور امام نے بہت ہی شدید گریہ کیا اور میں نے امام کے اھل خانہ کے گرئیے کی آواز کو پردے کے پیچھے سے سنا۔ پھر ابو ہارون کہتا ہے کہ جب میں اشعار کو پڑھنا ختم کیا تو امام صادق نے مجھے فرمایا کہ اے ابو ہارون جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار کو پڑھے خود گریہ کرے اور مزید دس بندوں کو بھی رلائے تو جنت ان سب پر واجب ہو جاتی ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار کو پڑھے خود گریہ کرے اور ایک اور بندے کو بھی رلائے تو ان دونوں پر جنت واجب ہو جاتی ہے اور جس بندے کے سامنے امام حسین کا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر اشک جاری ہو جائے تو اس کو اجر و ثواب دینا خداوند کے ذمے ہے اور خداوند اس کو جنت سے کم اجر و ثواب عطا نہیں کرے گا۔

جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص208، تحقيق: الشيخ جواد القيومی، لجنة التحقيق، چاپ اول،  الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417.

ابو عمارة کا امام صادق (ع) کے لیے مصائب پڑھنا:

حَدَّثَنِي أَبُو الْعَبَّاسِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ‏ عَنْ حَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي عُمَارَةَ الْمُنْشِدِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: قَالَ لِي يَا بَا عُمَارَةَ أَنْشِدْنِي فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام قَالَ فَأَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا زِلْتُ أُنْشِدُهُ وَ يَبْكِي حَتَّى سَمِعْتُ الْبُكَاءَ مِنَ الدَّارِ فَقَالَ لِي يَا أَبَا عُمَارَةَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام شِعْراً فَأَبْكَى خَمْسِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى أَرْبَعِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى ثَلَاثِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عِشْرِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عَشَرَةً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام  شِعْراً فَأَبْكَى وَاحِداً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام  شِعْراً فَبَكَى فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَتَبَاكَى‏ فَلَهُ الْجَنَّۃ۔

حسن بن على بن ابى المغيره نے  ابى عماره المنشد سے اور اس نے امام صادق(ع) سے نقل كیا ہے کہ: امام صادق نے مجھ سے فرمایا کہ: اے ابو عمارۃ امام حسین(ع) کے غم میں میرے لیے مرثیہ پڑھو۔ ابو عمارہ کہتا ہے کہ میں نے امام کے لیے اشعار پڑھے اور امام نے گریہ کیا۔ میں نے دوبارہ اشعار پرھے اور امام نے بھی دوبارہ گریہ کیا۔ ابو عمارہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم میں بار بار اشعار پڑھتا رہا اور امام بار بار گریہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ امام کے گھر سے بھی گرئیے کی آواز کو میں نے سنا۔ پھر امام نے مجھے فرمایا کہ اے ابو عمارہ جو بھی امام حسین(ع) کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید پچاس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید چالیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید تیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے غم میں مرثیہ پڑھے اور بیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے  ہے اور جو امام حسین کے غم میں مرثیہ پڑھے اور دس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور امام حسین کے غم میں اشعار پڑھے اور فقط خود گریہ کرے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے غم میں اشعار پڑھے اور ایک بندے کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے لیے مرثیہ پڑھے اور فقط رونے والی شکل بنائے تو جنت اس کے لیے ہے۔ 

  ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367 ق‏،كامل الزيارات‏، ج1 ص105، تحقيق: عبدالحسين امينی، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،  1356 ش‏.

 امام صادق (ع) کا روز عاشوراء شدید گرئیے اور غم کی حالت میں ہونا:

روى عبد الله بن سنان قال: دخلت على سيدي أبي عبد الله جعفر بن محمد عليهما السلام في يوم عاشوراء فألفيته كاسف اللون ظاهر الحزن و دموعه تنحدر من عينيه كاللؤلؤ المتساقط. فقلت: يا ابن رسول الله! مم بكاؤك؟ لا أبكي الله عينيك، فقال لي: أو في غفلة أنت؟ أما علمت أن الحسين بن علي أصيب في مثل هذا اليوم؟ فقلت: يا سيدي! فما قولك في صومه؟ فقال لي: صمه من غير تبييت، و أفطره من غير تشميت، ولا تجعله يوم صوم كملا و ليكن إفطارك بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء، فإنه في مثل ذلك الوقت من ذلك اليوم تجلت الهيجاء عن آل رسول الله و انكشفت الملحمة عنهم، و في الأرض منهم ثلاثون صريعا في مواليهم يعز على رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم مصرعهم و لو كان في الدنيا يومئذ حيا لكان صلوات الله عليه و آله و سلم هو المعزي بهم، قال: و بكي أبو عبد الله عليه السلام حتى اخضلت لحيته بدموعه، ثم قال: إن الله جل ذكره لما خلق النور خلقه يوم الجمعة في تقديره في أول يوم من شهر رمضان، و خلق الظلمة في يوم الاربعاء يوم عاشوراء في مثل ذلك يعني يوم العاشر من شهر المحرم في تقديره، و جعل لكل منهما شرعة و منهاجا ۔۔۔۔

عبد اللہ ابن سنان نے نقل کیا ہے کہ: میں روز عاشورا امام صادق(ع) کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ امام  کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے اور ان کی آنکھیں بارش کی طرح اشک بہا رہی ہیں۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول خدا آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ خداوند آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ رلائے۔ امام نے فرمایا: کیا تم غافل ہو کیا تم کو معلوم نہیں کہ امام حسین پر آج کے دن ہی تو مصیبت آئی تھی۔ میں نے کہا اے مولا آج کے دن روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟  امام نے فرمایا روزہ رکھ لو لیکن رات کو روزے کی نیت نہ کرو اور بغیر کسی کی ملامت کے افطار کرو۔ ایک مکمل دن روزہ نہ رکھو بلکہ نماز ظھر کے ایک گنٹھے بعد تھوڑا سا پانی پی لو کیونکہ اسی وقت جنگ ختم ہوئی تھی اور آل رسول سے جنگ کی مصیبت ختم ہوئی تھی اور یہی وقت تھا کہ آل رسول سے تیس مردوں کے جنازے زمین پر گرے ہوئے تھے اور یہ مصیبت و غم رسول خدا کے لیے بہت سخت و دردناک تھا۔ اگر رسول خدا آج کے دن زندہ ہوتے تو اس غم میں وہ سوگ مناتے۔ راوی کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے اس قدر گریہ کیا کہ امام کی ریش مبارک اشکوں سے تر ہو گئی۔ پھر امام نے فرمایا خداوند نے ماہ رمضان کے پہلے دن جمعے کو نور کو خلق کیا اور تاریکی و ظلمت کو روز عاشورا بدھ والے دن خلق کیا یعنی دس محرم الحرام والے دن اور ہر کسی کے لیے نور اور ظلمت کی طرف راستے کو قرار دیا ہے۔

الشيخ الطوسی،  الوفاة:460، مصباح المتهجد ج1 ص782، چاپ اول، الناشر: مؤسسة فقه الشيعة بيروت – لبنان

امام صادق (ع) کا امام حسین (ع) کا نام ذکر ہوتے وقت گریہ کرنا:

حدّثني محمّد بن الحسن، عن محمّد بن الحسن الصّفّار، عن أحمد بن محمّد بن عيسى، عن محمّد بن خالد البرقيِّ، عن أبان الأحمر، عن محمّد بن الحسين الخزَّاز، عن هارون بن خارجة، عن أبي عبد الله عليه ‌السلام قال: كنّا عنده فذكرنا الحسين عليه‌السلام [و على قاتله لعنة الله] فبكى أبو عبد الله عليه ‌السلام و بكينا، قال:ثمَّ رفع رأسَه فقال: قال الحسين عليه‌ السلام: أنا قتيل العَبرَة، لا يذكرني مؤمن إلاّ بكى».

ہارون بن‏ خارجہ کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ باتوں باتوں میں امام حسین کا نام  ذکر ہوا۔ یہ سن کر امام نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور ہم نے بھی گریہ کیا۔ راوی کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے سر کو بلند کیا اور فرمایا کہ امام حسین نے فرمایا ہے کہ میں اشکوں سے قتل کیا گیا ہوں، کوئی مؤمن بھی مجھے یاد نہیں کرے گا مگر جب بھی یاد کرے گا تو مجھ پر اشک بہائے گا۔

 جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367،کامل الزيارات ج1 ص117، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مكتبة الصدوق.

امام صادق (ع) کا پانی پیتے وقت امام حسین(ع) پر گریہ کرنا:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيى،عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَمَّنْ ذَكَرَهُ، عَنِ الْخَشَّابِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَّانِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللهِ عليه‌ السلام إِذَا  اسْتَسْقَى الْمَاءَ، فَلَمَّا شَرِبَهُ رَأَيْتُهُ قَدِ اسْتَعْبَرَ، وَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِدُمُوعِهِ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا دَاوُدُ، لَعَنَ اللهُ قَاتِلَ الْحُسَيْنِ صَلَواتُ اللهِ عَلَيْهِ، وَ مَا مِنْ عَبْدٍ شَرِبَ الْمَاءَ، فَذَكَرَ الْحُسَيْنَ عليه‌ السلام وَ أَهْلَ بَيْتِه وَ لَعَنَ قَاتِلَهُ إِلاَّ كَتَبَ اللهُ ـ عَزَّ وَ جَلَّ ـ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَحَطَّ عَنْهُ مِائَةَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَ رَفَعَ  لَهُ مِائَةَ أَلْفِ دَرَجَةٍ، وَ كَأَنَّمَا أَعْتَقَ مِائَةَ أَلْفِ نَسَمَةٍ، وَ حَشَرَهُ اللهُ ـ عَزَّ وَ جَلَّ ـ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلِجَ الْفُؤَادِ ۔

داود رقی کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس تھا۔ امام نے پانی طلب کیا اور جب پانی پیئا تو امام کی گریہ کرنے والی حالت ہو گئی اور دونوں آنکھیں اشکوں سے بھر گئی۔ پھر امام نے فرمایا: اے داود خداوند امام حسین(ع) کے قاتل پر لعنت کرے، جو بندہ بھی پانی پیئے اور امام حسین کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کرے تو خداوند ایک لاکھ نیکیاں اس کو عطا کرتا ہے اور اس کے ایک لاکھ گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے ایک لاکھ درجے بلند کرتا ہے اور وہ ایسا ہے گویا اس نے ایک لاکھ غلاموں کو آزاد کیا ہے اور خداوند اس کو قیامت والے دن آرام اور مطمئن دل کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

        الشيخ الكلينی، الوفاة:329،الکافی ج12 ص658، تحقيق: قسم احياء التراث مرکز بحوث دار الحديث، الناشر: دارالحديث، قم:

امام صادق (ع) کا امام حسین (ع) پر گریہ کرنے کی نصیحت کرنا:

حدَّثني محمّد بن عبد الله بن جعفر الحِميريّ، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حماد البصريّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن مِسْمَع بن عبدالملك كِرْدين البصريّ « قال: قال لي أبو عبد الله عليه‌ السلام، يا مِسْمَع أنت مِن أهل العِراق؛ أما تأتي قبر الحسين عليه ‌السلام؟ قلت: لا؛ أنا رَجلٌ مشهورٌ عند أهل البصرة، و عندنا مَن يتّبع هوى هذا الخليفة، و عدوّنا كثير مِن أهل القبائل مِن النُّصّاب و غيرهم، و لستُ آمنهم أنْ يرفعوا حالي عند ولد سليمان فيُمثِّلون بي، قال لي: أفما تذكر ما صنع به؟ قلت: نعم، قال: فتجزع؟ قلت: إي و الله و أستعبر لذلك حتّى يرى أهلي أثر ذلك عليَّ فأمتنع مِن الطّعام حتّى يستبين ذلك في وَجهي، قال: رحِمَ الله دَمعتَك، أما إنّك مِن الَّذين يُعدُّون مِن أهل الجزع لنا، و الّذينَ يَفرحون لِفَرحِنا و يحزنون لِحُزننا و يخافون لَخوْفنا و يأمنون إذا أمنّا، أما إنّك سترى عند موتك حضور آبائي لك و وصيّتهم ملكَ الموت بك، و ما يلقّونك به مِن البشارة أفضل، و لملك الموت أرقّ عليك و أشدُّ رَحمةً لك من الاُمّ الشّفيقة على ولدها، قال: ثمَّ استعبر و استعبرتُ معه، فقال: الحمد للهِ الّذي فضّلنا على خلقِه بالرَّحمة و خصَّنا أهل البيت بالرَّحمة، يا مِسمَع إنَّ الأرض و السَّماء لتبكي مُنذُ قُتل أمير المؤمنين عليه‌ السلام رَحمةً لنا، و ما بكى لنا مِن الملائكة أكثر و ما رَقأتْ دُموع الملائكة منذ قُتلنا، و ما بكى أحدٌ رَحمةً لنا و لما لقينا إلاّ رحمه الله قبل أن تخرج الدَّمعة من عينه، فإذا سالَتْ دُموعُه على خَدِّه، فلو أنَّ قطرةً مِن دُموعِه سَقَطتْ في جهنَّم لأطْفَئتْ حَرَّها حتّى لا يوجد لها حَرٌّ، و إنّ الموجع لنا قلبه ليفرح يوم يرانا عند مَوته فرحَةً لا تزال تلك الفرْحَة في قلبه حتّى يرد علينا الحوض، و إنّ الكوثر ليفرح بمحبِّنا إذا ورد عليه حتّى أنّه ليذيقه مِن ضروب الطَّعام ما لا يشتهي أن يصدر عنه، يا مِسْمع مَن شرب منه شَربةً لم يظمأ بعدها أبداً، و لم يستق بعدها أبداً، و هو في بَرْدِ الكافور و ريح المِسْك و طعم الزَّنجبيل، أحلى مِن العَسل، و ألين مِن الزَّبد، و أصْفى مِن الدَّمع، و أذكى مِن العَنبر يخرج من تَسْنيم، و يمرُّ بأنهار الجِنان يجري على رَضْراض الدُّرِّ و الياقوت، فيه من القِدْحان أكثرُ من عدد نجوم السَّماء، يوجد ريحه مِن مَسيرةِ ألف عام، قِدْحانه مِن الذَّهب و الفِضّة و ألوان الجوهر، يفوح في وجه الشّارب منه كلُّ فائحة حتّى يقول الشّارب منه: يا ليتني تركت ههنا لا أبغي بهذا بَدلاً، و لا عنه تَحويلاً، أما إنّك يا [ابن] كِرْدين ممّن تروي منه، و ما مِن عَين بَكتْ لنا إلاّ نَعِمَتْ بالنّظر إلى الكوثر و سُقِيتْ منه، وأنَّ الشَّارب منه ممّن أحبَّنا ليعطى مِن اللَّذَّة و الطَّعم و الشَّهوة له أكثر ممّا يعطاه مَن هو دونه في حُبِّنا. و إنْ على الكوثر أمير المؤمنين عليه‌ السلام و في يده عصاً مِن عَوسَج يحطم بها أعداءَنا، فيقول الرَّجل منهم: إنّي أشهد الشَّهادتين، فيقول: انطلقْ إلى إمامك فلانٍ فاسأله أنْ يشفع لك، فيقول: تبرَّأ منّي إمامي الَّذي تذكره، فيقول: ارجع إلى ورائِك فقلْ للَّذي كنتَ تتولاّه و تقدِّمه على الخلق فاسأله إذ كان خير الخلق عِندَك أن يشفعَ لك، فإنَّ خيرَ الخلق مَن يَشفَع، فيقول: إنّي اُهلك عَطَشاً، فيقول له: زادكَ اللهُ ظَمأُ و زادَكَ اللهُ عَطَشاً. قلت: جُعِلتُ فِداك و كيف يقدر على الدُّنوّ مِن الحوض و لم يقدر عليه غيره؟ فقال: ورع عن أشياء قبيحةٍ، و كفّ عن شتمنا [أهل البيت] إذا ذكرنا، و ترك أشياء اجترء عليها غيره، وليس ذلك لِحبّنا و لا لِهوى منه لنا، و لكن ذلك لشدَّة اجتهاده في عبادته و تَدَيُّنه و لما قد شغل نفسه به عن ذكر النّاس، فأمّا قلبه فمنافق و دينه النَّصب و اتّباع أهل النَّصب و ولاية الماضينَ و تقدُّمه لهما على كلِّ أحدٍ »۔

مسمع بن عبد الملک کردین بصری نے نقل کیا ہے کہ: امام صادق(ع) نے مجھے فرمایا کہ تم اھل عراق ہو، کیا تم امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کے لیے جاتے ہو ؟ مسمع نے کہا: نہیں، میں بصرہ میں ایک مشھور بندہ ہوں اور وہاں پر خلیفہ کے جاسوس بندے ہیں اور وہاں پر ناصبی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ وہاں ہوتے ہیں اور وہاں مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اس لیے میں احتیاط کرتا ہوں اور امام حسین کی زیارت کے لیے کربلاء نہیں جاتا۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: کیا تم ان مصائب اور مظالم کہ جو امام حسین پر کئے گئے ان کو یاد بھی کرتے ہو ؟ اس نے کہا: ہاں۔ امام نے فرمایا کیا پھر تم گریہ بھی کرتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں خدا کی قسم امام حسین(ع) کے غم میں میری یہ حالت ہو جاتی ہے کہ میرے گھر والے اس اثر کو مجھ پر مشاھدہ کرتے ہیں اور میری حالت اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ کوئی چیز کھانے پینے کا دل نہیں کرتا اور غم و حزن کے آثار واضح طور پر میرے چہرے پر موجود ہوتے ہیں۔ امام نے فرمایا: خداوند تیرے ان اشکوں پر رحمت کرے اور یقینی طور پر ان میں سے شمار  ہو گے جو ہمارے لیے غمگین اور ہمارے لیے خوش حال ہوتے ہیں اور ہمارے لیے ڈر و خوف کی حالت میں ہوتے ہیں اور ہمارے امن میں ہونے کی حالت میں وہ بھی امن و امان میں ہوتے ہیں۔ تم لازمی طور پر توجہ کرو کہ موت کے وقت تم میرے اجداد کو ضرور اپنے پاس موجود پاؤ گے اور وہ ملک الموت سے تمہاری شفاعت کریں گے اور اس وقت تم کو ایسی بشارت دیں گے کہ وہ ہر چیز سے افضل و بالا تر ہے اور تم دیکھو گے کہ ملک الموت تم سے مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان تر و رحیم تر ہو گا۔ مسمع نے کہتا ہے پھر امام صادق نے گریہ کیا اور ان کے اشک ان کے چہرے پر جاری ہو گئے اور میں نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا۔ پھر امام نے فرمایا:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنا عَلى‏ خلقه بالرّحمة و خصّنا اهل البيت بالرّحمة. حمد و تعریف خداوند کے لیے خاص ہے کہ ہم کو تمام مخوقات پر رحمت کا وسیلہ قرار دے کر برتری عطا کی ہے اور ہم اھل بیت کو رحمت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اے مسمع جب سے امير المؤمنين علی(ع) شھید ہوئے ہیں آسمان ہم پر رحم کرتا ہے اور ہم پر  سب سے زیادہ فرشتوں نے گریہ کیا ہے اور وہ مسلسل اشک بہاتے ہیں کہ ان کے اشک کبھی ختم نہیں ہوتے۔ تم لازمی طور پر توجہ کرو کہ ہم پر کوئی بندہ بھی ترس اور مصائب کی وجہ سے گریہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اسکی آنکھوں سے اشک آنے سے پہلے خداوند اس پر اپنی رحمت کرے گا اور جب اشک اس کے چہرے پر جاری ہوتے ہیں تو اگر اس کے اشک کا ایک قطرہ جھنم میں گر جائے تو اسکی آگ اور حرارت کو ایسے ختم کر دے گا کہ وہ کبھی دوبارہ گرم نہیں ہو گی۔ تم یہ جان لو کہ جس بندے کا دل ہمارے غم کی وجہ سے غمناک ہوتا ہو جس دن اس کی موت کا دن ہو گا وہ ہم سب اھل بیت کو دیکھے گا اور اس وقت اس کو ایک ایسا  آرام و سکون ملے گا کہ وہ ہمارے پاس حوض کوثر کے کنارے پہنچ جائے گا اور جب ہمارا محبّ حوض کوثر پر آئے گا تو ایک خاص قسم کی خوشی حوض کوثر پر ایجاد ہو گی اور وہاں پر طرح طرح کی غذائیں اس کو کھلائی جائیں گی اور وہ چاہے گا کہ کبھی بھی ان غذاؤں کا ذائقہ اور مزہ ختم نہ ہو۔

اے مسمع جو بھی اس حوض سے ایک گھونٹ پی لے تو وہ کبھی بھی دوبارہ پیاسا نہیں ہو گا اور کبھی بھی کسی سے پانی نہیں مانگے گا۔ پھر امام نے کوثر کے پانی کی صفات اس طرح بیان کی ہیں: الف: اس پانی کی طبیعت کافور کے پانی کی طرح ٹھنڈی ہے۔ ب: اس کی خوشبو مشک کی طرح ہے۔ ج: اس کا مزہ زنجبیل کی طرح ہے۔ د: شھد سے میٹھا ہے۔ ہ: دودھ سے بھی نرم تر اور لطیف تر  ہے۔ و: آنکھ کے آنسو سے بھی صاف تر ہے۔ ز: عنبر سے پاک تر  ہے۔ ح: جنت میں تسنیم نامی کنویں سے خارج ہوتا ہے۔ ط: جنت سے بہتا ہوا آتا ہے۔ ی: جنت میں درّ اور یاقوت کے اوپر سے جاری ہوتا ہے۔ ل: اس پانی میں موجود برتنوں کی تعداد آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہے۔ م: اس پانی کی خوشبو ایک ہزار سال کے فاصلے سے بھی آتی ہے۔ ن: اس پانی میں موجود برتن زر و قیمتی جواھر سے بنے ہوئے ہیں۔ ہ: خوشبو اور باد معطر جو بھی پیتا ہے اس کے منہ سے چلتی ہے اور وہ بندہ کہتا ہے کہ اے کاش مجھے میرے اسی حال پر چھوڑ دیں کیونکہ میں یہاں سے کہیں دوسری جگہ نہیں جانا چاہتا۔

اس کے بعد امام صادق(ع) نے مسمع سے فرمایا کہ اے مسمع یاد رکھو کہ تم ان میں سے ہو کہ جو اس حوض کوثر سے پانی پییؤ گے اور جو بھی آنکھ ہمارے غم میں روتی ہے وہ اس آب کوثر کی طرف دیکھنے اور اس سے سیراب ہونے کی نعمت سے بھرہ مند ہوتی ہے۔ ہمارے محبّوں کو اس آب کوثر سے جو لذت و مزہ اور ذائقہ محسوس اور حاصل ہوتا ہے وہ اس لذت و مزے اور ذائقے سے کئی گنا زیادہ ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو ہماری محبت کے ان سے کم تر مرتبے پر فائز ہیں۔

حوض کوثر کے کنارے امير المؤمنين(ع) کھڑے ہیں اور ان کے دست مبارک میں ایک عصا ہے جو وہ ہمارے دشمنوں کو مارتے ہیں۔ ان دشمنوں میں سے ایک علی(ع) سے عرض کرے گا میں تو شھادتین کا پڑھنے والا ہوں۔ مولا اس سے فرمائیں گے کہ تم اپنے فلانے مولا کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میری شفاعت کرے۔ وہ شخص کہے گا کہ میرا امام اس وقت مجھ سے دور بھاگ رہا ہے۔ مولا فرمائیں گے کہ یہاں سے واپس چلے جاؤ اور جس کو تم اپنا امام مانتے تھے اور اس سے محبت کی وجہ سے اسکو تمام لوگوں سے افضل و مقدم جانتے تھے، اس سے اپنی شفاعت کو طلب کرو کیونکہ جو تمہارے نزدیک سب سے افضل و بہترین ہے وہی تہماری شفاعت کرے گا۔ مولا علی(ع) لوگوں کی شدت پیاس کی وجہ سے اس سے فرمائیں گے کہ خداوند نے تجھے تشنہ تر کیا ہے اور تیری پیاس کو زیادہ کرے۔ مسمع کہتا ہے کہ میں نے امام صادق سے  عرض کیا کہ وہ بندہ کیسے حوض کے کنارے پہنچ چائے گا در حالیکہ مولا علی(ع) کے سوا کوئی بھی وہاں جانے کی قدرت نہیں رکھتا ؟ امام نے فرمایا کہ یہ بندہ کچھ برے کاموں سے پرہیز کرتا تھا۔ وہ حرام کام جو دوسرے انجام دیتے تھے ان کو یہ انجام نہیں دیتا تھا اور جب بھی ہمارا نام لیتا تھا ہمیں سبّ و لعن نہیں کرتا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ تمام کام ہم سے محبت اور دوستی کی وجہ سے انجام نہیں دیتا تھا بلکہ وہ عبادت اور برے لوگوں سے دوری کی وجہ سے ان برے کاموں سے بچتا تھا لیکن اس کے دل میں ہمارے لیے نفاق تھا اور وہ ناصبیوں کے مذھب پر تھا گذشتہ خلفاء سے دوستی اور محبت کرتا تھا اور ان دو بندوں کو تمام خلفاء اور  لوگوں پر افضل و مقدم جانتا تھا۔

جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص108، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق  

 امام حسين (ع) پر گریہ کرنے کا نتیجہ گناہوں کا معاف ہونا ہے:

حدثني حكيم بن داود، عن سلمة، عن يعقوب بن يزيد، عن ابن أبي عمير، عن بكر بن محمد، عن فضيل بن يسار، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: من ذكرنا عنده ففاضت عيناه و لو مثل جناح الذباب غفر له ذنوبه و لو كانت مثل زبد البحر.

امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر اشک آ جائے تو اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اگرچہ وہ گناہ دریا کی جھاگ کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

 جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص208، تحقيق: الشيخ جواد القيومی، لجنة التحقيق، چاپ اول،  الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417

 امام صادق (ع) کا امام حسین (ع) پر گرئیے کے جائز ہونے کو بیان کرنا:

 حدثنا محمد بن محمد، قال: حدثنا أبو القاسم جعفر بن محمد بن قولويه رحمه ‌الله، قال: حدثني أبي، قال: حدثني سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد ابن عيسى، عن الحسن بن محبوب الزراد، عن أبي محمد الأنصاري، عن معاوية بن وهب، قال: كنت جالسا عند جعفر بن محمد عليهما‌ السلام إذ جاء شيخ قد انحنى من الكبر، فقال: السلام عليك و رحمة الله و بركاته. فقال له أبو عبد الله: و عليك السلام و رحمة الله و بركاته، يا شيخ ادن مني، فدنا منه فقبل يده فبكى، فقال له أبو عبد الله عليه ‌السلام: و ما يبكيك يا شيخ؟ قال له: يا بن رسول الله، أنا مقيم على رجاء منكم منذ نحو من مائة سنة، أقول هذه السنة و هذا الشهر و هذا اليوم، و لا أراه فيكم، فتلومني أن أبكي! قال: فبكى أبو عبد الله عليه‌ السلام ثم قال: يا شيخ، إن أخرت منيتك كنت معنا، و إن عجلت كنت يوم القيامة مع ثقل رسول الله صلى‌ الله ‌عليه ‌و آله. فقال الشيخ: ما أبالي ما فاتني بعد هذا يا بن رسول الله. فقال له أبو عبد الله عليه ‌السلام: يا شيخ، إن رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم  قال: إني تارك فيكم الثقلين ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا: كتاب الله المنزل،و عترتي أهل بيتي، تجئ و أنت معنا يوم القيامة. قال: يا شيخ، ما أحسبك من أهل الكوفة. قال: لا. قال: فمن أين أنت؟ قال: من سوادها جعلت فداك. قال: أين أنت من قبر جدي المظلوم الحسين عليه ‌السلام؟ قال: إني لقريب منه قال: كيف إتيانك له؟ قال: إني لآتيه و أكثر قال: يا شيخ، ذاك دم يطلب الله (تعالى) به، ما أصيب ولد فاطمة و لا يصابون بمثل الحسين عليه‌ السلام، و لقد قتل عليه ‌السلام في سبعة عشر من أهل بيته،  نصحوا لله و صبروا في جنب الله، فجزاهم أحسن جزاء الصابرين، إنه إذا كان يوم القيامة أقبل رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم  و معه الحسين عليه ‌السلام و يده على رأسه بقطر دما فيقول: يا رب، سل أمتي فيم قتلوا ولدي. و قال عليه ‌السلام. كل الجزع و البكاء مكروه سوى الجزع و البكاء على الحسين عليه ‌السلام.

کمر جھکا ہوا ایک بوڑھا بندہ امام صادق(ع) کی خدمت میں آیا اور کہا:السلام عليک و رحمۃ اللَّه. امام صادق(ع) نے فرمایا: عليک السلام و رحمۃ اللَّه‏. پھر کہا اے اللہ کے بندے میرے نزدیک آؤ۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے امام کے ہاتھ کو چوم کر گریہ کیا۔ امام نے فرمایا کہ تم کیوں گریہ کر رہے ہو ؟ اس بوڑھے نے کہا یا ابن رسول اللہ میں سو سال ہو گئے ہیں کہ میں اس انتظار میں ہوں۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، اس سال میں، اس ماہ میں، فلاں دن آپ خروج و قیام کریں گے لیکن ابھی میں اسی انتظار میں ہوں اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں کیوں گریہ کر رہا ہوں۔ امام نے بھی گریہ کرنا شروع کیا اور فرمایا اے اللہ کے بندے اگر تیری آرزو پوری ہونے میں دیر ہو گئی تو تم ہمارے ساتھ ہو گے اور اگر جلدی پوری ہو گئی تو تم قیامت والے دن اہل بیت رسول خدا کے ساتھ ہو گے۔ اس بوڑھے نے کہا اب جو بھی ہو جائے مجھے اسکی پرواہ نہیں ہے۔

امام نے فرمایا اے بندہ خدا رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: انى تارك فيكم الثقلين، ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا: كتاب اللَّه المنزل و عترتى: اهل بيتى. 

"میں تم لوگوں میں دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان مضبوطی سے تھامے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، وہ دو چیزیں،قرآن اور میرے اھل بیت ہیں۔ امام نے فرمایا اے بندہ خدا کل قیامت کو تم ہمارے ساتھ ہو گے۔ پھر امام نے کہا کہ تم اھل کوفہ ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ امام نے فرمایا پھر کہاں سے ہو ؟ اس نے کہا کوفہ کے نزدیک رہتا ہوں۔ امام نے فرمایا میرے مظلوم جدّ کی قبر سے کتنے فاصلے پر رہتے ہو ؟ اس نے کہا: میرے گھر کے نزدیک ہی ہے۔ امام نے فرمایا کس قدر میرے امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتے ہو ؟ اس نے کہا میں کربلاء زیارت کے لیے زیادہ جاتا ہوں۔ امام صادق نے فرمایا کہ امام حسین کا خون ایک ایسا خون ہے جس کا بدلہ لینا خود خداوند کے ذمے ہے۔ امام حسین کی مصیبت کی طرح اولاد فاطمہ(س) سے کسی پر  بھی ویسی مصیبت نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی۔ امام حسین کےساتھ سترہ اھل بیت کے جوان مرد اس حالت میں شھید ہوئے کہ انھوں نے خداوند کے لیے نصیحت اور صبر کیا۔ خداوند نے بھی صابرین والا بہترین اجر ان کو عطا کیا ہے۔ جب قیامت ہو گی تو رسول خدا امام حسین کے ساتھ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ہاتھ ان کے سر پر ہوں گے اور ان سے خون بہہ رہا ہو گا اور رسول خدا عرض کریں گے اے خداوندا میری اس امت سے سوال کریں کہ انھوں نے کیوں میرے بیٹے حسین کو قتل کیا تھا ؟ امام صادق نے فرمایا کہ ہر جزع و گریہ کرنا مکروہ ہے مگر امام حسین(ع) پر گریہ کرنا مکروہ نہیں ہے۔

أبی جعفر محمّد بن الحسن بن علی بن الحسن الطّوسی الوفاة: 460،  الامالی ج1 ص161، تحقيق: مؤسسة البعثة، چاپ اول،الناشر: دار الثقافة ١٤١٤ هـ.ق

 امام صادق (ع) کا امام حسين (ع) کے لیے سینے زنی کے جائز ہونے کو بیان کرنا:

و ذكر أحمد بن محمد بن داود القمي في نوادره قال: روى محمد بن عيسى عن أخيه جعفر بن عيسى عن خالد بن سدير أخى حنان بن سدير قال: سألت ابا عبد الله عليه ‌السلام عن رجل شق ثوبه على أبيه أو على امه أو على اخيه أو على قريب له فقال: لا بأس بشق الجيوب. قد شق موسى بن عمران على أخيه هارون، و لا يشق الوالد على ولده و لا زوج على امرأته، و تشق المرأة على زوجها سألت ابا عبد الله عليه‌ السلام عن رجل شق ثوبه على أبيه أو على امه أو على اخيه أو على قريب له فقال: لا بأس بشق الجيوب. قد شق موسى بن عمران على أخيه هارون، و لا يشق الوالد على ولده و لا زوج على امرأته، و تشق المرأة على زوجها و إذا شق زوج على امرأته أو والد على ولده فكفارته حنث يمين و لا صلاة لهما حتى يكفرا و يتوبا من ذلك، و إذا خدشت المرأة وجهها أو جزت شعرها أو نتفته ففي جز الشعر عتق رقبة أو صيام شهرين متتابعين أو اطعام ستين مسكينا، و في الخدش إذا دميت و في النتف كفارة حنث يمين، و لا شئ في اللطم على الخدود سوى الاستغفار و التوبة، و قد شققن الجيوب و لطمن الخدود الفاطميات على الحسين بن علي عليهما‌ السلام، و على مثله تلطم الخدود و تشق الجيوب۔

ابن سدیر نے نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے اس بندے کے بارے میں سوال کیا کہ جو اپنے باپ یا ماں یا بھائی یا کسی نزدیکی رشتے دار کی موت پر اپنے لباس کو چاک کرتا ہے کہ کیا اس کا یہ عمل جائز ہے ؟ امام نے فرمایا کہ لباس کو چاک کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ حضرت موسی نے حضرت ہارون کے لیے اپنی قمیص کو چاک کیا تھا۔ لیکن باپ اپنے بیٹے اور شوہر اپنی بیوی کے لیے لباس کو چاک نہیں کرسکتے لیکن بیوی اپنے شوہر کے غم میں اپنا لباس چاک کر سکتی ہے اور اگر باپ اپنے بیٹے اور شوہر اپنی بیوی کے غم میں ایسا کرتے ہیں تو ان پر قسم کو توڑنے والا کفارہ ہو گا اور ان دونوں کی نماز جب تک کفارہ نہ دیں اور اپنے اس عمل سے توبہ نہ کریں، قبول نہیں ہو گی۔ جب عورت اپنے چہرے کو زخمی کرتی ہے یا اپنے بالوں کو کھولتی ہے یا ان کو سر سے اکھاڑتی ہے تو اس پر وہ ایک غلام کو آزاد کرے گی یا دو ماہ روزے رکھے گی یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے گی اور اگر چہرے کو اس طرح زخمی کرتی ہے کہ خون جاری ہو جاتا ہے تو اس پر قسم کو توڑنے والا کفارہ ہو گا۔ چہرے پر ہاتھ مارنے کا کفارہ فقط استغفار و توبہ کرنا ہے اور بنی ہاشم کی خواتین نے امام حسین کے غم میں اپنے گریبان کو چاک کیا اور چہروں پر ماتم کیا اور امام حسین(ع) کے غم میں چہرے پر ماتم اور گریبان کو چاک کرنا چاہیے۔

الشيخ الطوسی، الوفاة:460، تهذيب الاحکام ج8 ص325، تحقيق: السيد حسن الخراسان، چاپ سوم، الناشر:دار الکتب الاسلامية –تهران

امام صادق (ع) کا امام حسین(ع) کا گریہ کرنے والوں کے لیے استغفار کرنے کو بیان کرنا:

  حدَّثني أبي رحمه‌ الله عن الحسين بن الحسن بن أبان، عن الحسين بن، عن عبد الله بن المغيرة، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبد الله بن بُكَير الاُرجانيِّ، و حدَّثني أبي رحمه ‌الله عن سعد بن عبد الله،عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عبد الله بن زُرارة، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبد الله بن بُكَير « قال: حَجَجْتُ مع أبي عبد الله عليه‌ السلام ـ في حديث طويل ـ فقلت: يا ابن رسول الله لو نُبِش قبرُ الحسين بن عليٍّ عليهما‌ السلام هل كان يُصابُ في قبره شيءٌ؟ فقال: يا ابن بُكَير ما أعظم مسائِلُك، إنَّ الحسين عليه‌ السلام مع أبيه و اُمّه و أخيه في منزل رَسول اللهِ صلى‌ الله ‌عليه‌ و آله ‌و سلم و معه يُرزقون و يحبون و أنّه لعَلى يمين العَرش متعلّق (كذا) يقول: يا رَبِّ أنْجزْ لي ما وَ عَدتَني، و إنّه لينظر إلى زُوَّاره، و أنّه أعرف بهم و بأسمائهم و أسماءِ آبائهم و ما في رِحالهم من أحَدِهم بولده، و أنّه لينظر إلى مَن يبكيه فيستغفر له و يسأل أباه الاستغفار له، و يقول: أيّها الباكي لَو عَلِمتَ ما أعدّ اللهُ لك لَفَرِحْتَ أكثر ممّا حَزِنْتَ، و إنّه ليستغفر له مِن كلِّ ذنبٍ و خطيئةٍ۔

عبد اللہ بن بکیر نے کہا کہ میں نے امام صادق کے ساتھ حج انجام دیا....... روایت طولانی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ یا ابن رسول اللہ اگر امام حسین(ع) کی قبر کو کھولیں تو اس میں سے کوئی چیز ملے گی یہ نہیں ؟ امام نے فرمایا تم نے کتنا بڑا سوال کیا ہے۔ ایک دن امام حسین اپنے والد، والدہ اور بھائی کے ساتھ رسول خدا کے گھر تھے اور سب مل کر کھانا کھا رہے تھے اور میں تمہارے لیے خاص طور پر امام حسین کے بارے میں بیان کرتا ہوں کہ امام حسین نے عرش خدا کے دائيں طرف کو پکڑا اور عرض کیا يا ربّ أنجز لي ما وعدتنى۔

خدایا آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں اور امام حسین اپنے زائرین کی طرف نگاہ کرتے ہیں اور ان کو ان کے ناموں اور کے آباؤ و اجداد کے ناموں سے جانتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس سامان ہے اس کو بھی خود ان سے زیادہ امام حسین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ گریہ کرنے والوں کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں تو ان کے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اپنے والد سے بھی ان کے لیے طلب مغفرت کرنے کو کہتے ہیں۔ اور ان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اگر تم جان لو کہ خداوند نے تمہارے لیے کیا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے تو تمہاری خوشی تمہارے غم سے زیادہ ہو جائے گی اور یہ حتمی بات ہے کہ خداوند ان اشکوں کے بدلے میں  تمہارے سارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور امام گریہ کرنے والے سے جو بھی گناہ سرزد ہوا ہو اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

  جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص110، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق  

 امام صادق (ع) کا اہل بیت (ع) پر گریہ کرنے کے ثواب کو بیان کرنا:

و عن حكيم بن داود، عن سَلَمَةَ، عن عليِّ بن سَيف، عن بَكر بن محمّد، عن فَضَيل بن فَضالة، عن أبي عبد الله عليه‌ السلام  قال: مَن ذُكِرْنا عِنده ففاضَتْ عَيناه حرَّم اللهُ وَجْهَه على النّار۔ 

فضیل بن یسار نے امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر اشک آ جائے تو اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اگرچہ وہ گناہ دریا کی جھاگ کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ 

 جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367،کامل الزيارات ج1 ص111، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.  

 امام کاظم(ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

       امام کاظم(ع) کے غم و حزن کے بارے میں جو عبارات بیان ہوئی ہیں بعض کو شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں امام رضا(ع) کی مبارک زبان سے نقل کیا ہے:

حدثنا جعفر بن محمد بن مسرور (رحمه الله)، قال: حدثنا الحسين بن محمد بن عامر، عن عمه عبد الله بن عامر، عن إبراهيم بن أبي محمود، قال: قال الرضا (عليه السلام): إن المحرم شهر كان أهل الجاهلية يحرمون فيه القتال، فاستحلت فيه دماؤنا، و هتكت فيه حرمتنا، و سبي فيه ذرارينا و نساؤنا، و أضرمت النيران في مضاربنا، و انتهب ما فيها من ثقلنا، و لم ترع لرسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم) حرمة في أمرنا. إن يوم الحسين أقرح جفوننا، و أسبل دموعنا، و أذل عزيزنا، بأرض كرب و بلاء، أورثتنا الكرب و البلاء، إلى يوم الانقضاء، فعلى مثل الحسين فليبك الباكون، فإن البكاء يحط الذنوب العظام. ثم قال (عليه السلام): كان أبي سلام الله عليه إذا دخل شهر المحرم لا يرى ضاحكا، و كانت الكآبة تغلب عليه حتى يمضي منه عشرة أيام، فإذا كان يوم العاشر كان ذلك اليوم يوم مصيبته و حزنه و بكائه، و يقول: هو اليوم الذي قتل فيه الحسين سلام الله عليه۔

امام رضا(ع) نے فرمایا کہ محرم ایسا مہینہ ہے کہ جس میں زمانہ جاہلیت میں لوگ جنگ کرنے کو حرام جانتے تھے لیکن مسلمانوں نے ہمارے خون بہانے کو حلال شمار کیا ہے اور حرمت کو پامال کیا ہے۔ انھوں نے ہمارے بچوں اور عورتوں کو اسیر کیا پھر ہمارے خیموں کو آگ لگا کر جو سامان اور مال تھا اس کو لوٹ کر لے گئے۔ حتی رسول خدا کی وجہ سے بھی انھوں نے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھا۔ امام حسین کی شھادت نے ہماری آنکھوں کو زخمی کیا ہے اور ہمارے اشکوں کو جاری کر دیا ہے۔ انھوں نے ہمارے عزیز کو کربلاء میں خوار کیا اور ہمیں مصیبت و غم میں مبتلا کیا۔ قیامت تک امام حسین(ع) پر رونے والوں کو رونا چاہیے کیونکہ یہ گریہ بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ پھر امام نے فرمایا جب بھی محرم کا مہینہ آتا تھا تو میرے بابا کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھتا تھا اور ان پر دس محرم تک غم و حزن کا غلبہ رہتا تھا اور دس محرم کا دن آتا تھا تو ان کا غم و حزن و گریہ زیادہ ہو جاتا تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دن امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا تھا۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381،  الامالی ج1 ص191، چاپ اول، الناشر: تحقيق قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، قم، 1417 ه‌. ق  

 امام رضا (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ کرنا:

امام رضا(ع) نے بھی بہت سی روایات میں امام حسین(ع) پر گریہ کرنے، نوحہ سرائی کرنے، مصائب کو بیان کرنے اور اس پر اجر و ثواب کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح امام نے روز عاشورا روز  غم و حزن و گریہ کہا ہے اور بیان کیا ہے اس دن رونے والوں کو امام حسین پر اشک بہانے چاہیں۔

امام رضا (ع) کا ا امام حسين (ع) پر گریہ کرنے کے ثواب کو بیان کرنا:

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق (رحمه الله)، قال: أخبرنا أحمد بن محمد الهمداني، عن علي بن الحسن بن علي بن فضال، عن أبيه، قال: قال الرضا (عليه السلام): من تذكر مصابنا و بكى لما ارتكب منا كان معنا في درجتنا يوم القيامة، و من ذكر بمصابنا فبكى و أبكى لم تبك عينه يوم تبكي العيون، و من جلس مجلسا يحيى فيه أمرنا لم يمت قلبه يوم تموت القلوب۔ 

امام رضا(ع) نے فرمایا کہ جو بھی ہماری مصیبت کو یاد کرے اور ہماری مصیبت پر گریہ کرے تو وہ بندہ قیامت کو ہمارے درجے میں ہمارے ساتھ ہو گا  اور جو بھی ہمارے مصائب کو یاد کرے اور گریہ کرے اور دوسروں کو بھی رلائے تو یہ آنکھ گریہ نہیں کرے گی جس دن تمام آنکھیں روئیں گی  اور جو بھی جس مجلس میں بیٹھے اور ہمارے امر امامت کو زندہ کرے تو اس کا دل مردہ نہیں ہو گا جس دن تمام دل مردہ ہو جائیں گے۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی ج1 ص131، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، قم، 1417 ه‌. ق.   

 امام رضا (ع) کا مصائب پڑھنا اور گریہ کرنے کے ثواب کو بیان کرنا:

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه (رحمه الله)، قال: حدثنا علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن الريان بن شبيب، قال: دخلت على الرضا (عليه السلام) في أول يوم من المحرم، فقال لي: يا بن شبيب، أصائم أنت؟ فقلت: لا. فقال: إن هذا اليوم هو اليوم الذي دعا فيه زكريا (عليه السلام) ربه عز و جل، فقال: (رب هب لى من لدنك ذرية طيبة إنك سميع الدعاء)  فاستجاب به، و أمر الملائكة فنادت زكريا و هو قائم يصلي في المحراب: (أن الله يبشرك بيحيى) فمن صام هذا اليوم ثم دعا الله عز و جل استجاب الله له، كما استجاب لزكريا (عليه السلام). ثم قال: يا بن شبيب، إن المحرم هو الشهر الذي كان أهل الجاهلية فيما مضى يحرمون فيه الظلم و القتال لحرمته، فما عرفت هذه الامة حرمة شهرها و لا حرمة نبيها (صلى الله عليه و آله و سلم)، لقد قتلوا في هذا الشهر ذريته، و سبوا نساءه، و انتهبوا ثقله، فلا غفر الله لهم ذلك أبدا. يا بن شبيب، إن كنت باكيا لشئ، فابك للحسين بن علي بن أبي طالب (عليه السلام)، فإنه ذبح كما يذبح الكبش، و قتل معه من أهل بيته ثمانية عشر رجلا ما لهم في الارض شبيه، و لقد بكت السماوات السبع و الارضون لقتله، و لقد نزل إلى الارض من الملائكة أربعة آلاف لنصره فوجدوه قد قتل، فهم عند قبره شعث قبر إلى أن يقوم القائم، فيكونون من أنصاره، و شعارهم: يا لثارات الحسين. يا بن شبيب، لقد حدثني أبي، عن أبيه، عن جده (عليه السلام): أنه لما قتل جدي الحسين (صلوات الله عليه)، مطرت السماء دما و ترابا أحمر. يا بن شبيب، إن بكيت على الحسين (عليه السلام) حتى تصير دموعك على خديك غفر الله لك كل ذنب أذنبته، صغيرا كان أو كبيرا، قليلا كان أو كثيرا. يا بن شبيب، إن سرك أن تلقى الله عز و جل و لا ذنب عليك، فزر الحسين (عليه السلام). يا بن شبيب، إن سرك أن تسكن الغرف المبنية في الجنة مع النبي و آله (صلوات الله عليهم)، فالعن قتلة الحسين. يا بن شبيب، إن سرك أن يكون لك من الثواب مثل ما لمن استشهد مع الحسين (عليه السلام) فقل متى ما ذكرته: يا ليتني كنت معهم فأفوز فوزا عظيما. يا بن شبيب، إن سرك أن تكون معنا في الدرجاب العلى من الجنان، فاحزن لحزننا و افرح لفرحنا، و عليك بولايتنا، فلو أن رجلا تولى حجرا لحشره الله معه يوم القيامة۔

ریان ابن شبیب کہتا ہے کہ میں ماہ محرم کے پہلے دن امام رضا(ع) کے پاس گیا تو امام نے مجھے فرمایا اے شبیب کے بیٹے کیا تم نے روزہ رکھا ہے ؟ ریان نے کہا نہیں۔ امام نے فرمایا کہ آج وہ دن ہے کہ حضرت زکریا نے خداوند سے دعا کی اور عرض کیا کہ خدایا مجھے نیک و پاک اولاد عطا فرما کیونکہ تو دعا کو سننے والا ہے۔ خدا نے اس کی  دعا کو قبول کیا اور فرشتوں سے کہا کہ زکریا کو کہ جو محراب عبادت میں کھڑا تھا اس کو یحیی کی بشارت دیں۔ جو بھی اس دن روزہ رکھے اور خدا کی عادت کرے اور دعا کرے تو خداوند اس کی دعا کو قبول کرتا ہے جس طرح کہ زکریا کی دعا کو قبول کیا۔ پھر امام نے کہا اے شبیب کے بیٹے محرم وہ مہینہ ہے کہ جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ ظلم و جنگ و قتل و غارت کو اس مہینے کے احترام کی وجہ سے حرام جانتے تھے لیکن اس امت نے اس مہینے کی اور رسول خدا کی حرمت کا کوئی خیال نہیں رکھا اور اس مہینے میں رسول خدا کی اولاد کو قتل کیا گیا اور ان کی خواتین کو اسیر کیا گیا اور اموال کو غارت کیا گیا۔ خداوند ہر گز اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی چیز کے لیے گریہ کرنا چاہتے ہو تو امام حسین کے لیے گریہ کرو کہ گوسفند کی طرح ان کے سر کو بدن سے جدا کیا گیا اور ان کے خاندان کے اٹھارہ مردوں کو کہ روئے زمین پر انکی طرح کا کوئی نہیں تھا، ان کے ساتھ قتل کیا گیا۔ ان پر سات آسمانوں اور زمین نے گریہ کیا۔ ان کی نصرت کے لیے چار ہزار فرشتے زمین پر آئے لیکن انھوں نے دیکھا کہ ان کے آنے سے پہلے ان سب کو شھید کر دیا گیا تھا اور اب وہ غم کی حالت میں خاک آلود امام زمان کے ظھور تک امام حسین کی قبر کے کنارے رہیں گے اور امام کے ظھور کے بعد امام کی نصرت کریں گے اور ان کا نعرہ يا لثارات الحسين(ع) ہو گا۔

اے شبیب کے بیٹے میرے بابا نے اپنے اجداد سے نقل کیا ہے کہ جب امام حسین شھید کر دئیے گئے تو آسمان سے خون اور سرخ رنگ کی خاک برستی تھی۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم امام حسین پر گریہ کرو اور اشک تمہارے چہرے پر جاری ہو جائیں توخداوند تمہارے تمام چھوٹے بڑے کم زیادہ گناہوں کو معاف کر دے گا۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حالت میں ملاقات کرو کہ تمہارے نامہ اعمال میں کوئی گناہ باقی نہ ہو تو امام حسین ک زیارت کرو۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم چاہتے  ہو کہ جنت میں رسول خدا کے ساتھ کمرے میں رہو تو امام حسین کے قاتلوں پر لعنت کیا کرو۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم چاہتے ہو کہ امام حسین کے ساتھ شھید ہونے کا ثواب حاصل کرو تو جب بھی امام حسین اور شھداء کربلاء کو یاد کرو تو کہو اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مجھے بھی عظیم کامیابی حاصل ہو جاتی۔ اے شبیب کے بیٹے اگر تم ہمارے ساتھ جنت میں بلند درجات پر جانا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غمگین اور خوشی میں خوشحال ہوا کرو اور ہماری ولایت و امامت کے ساتھ ساتھ رہا کرو کیونکہ اگر انسان پتھر سے بھی محبت کرتا ہو تو خداوند قیامت کے دن اس انسان کو اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 38، الامالی ج1 ص192، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر:  الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، قم، 1417 ه‌. ق 

عاشوراء روز غم و حزن:

   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا قَال‏ مَنْ تَرَكَ السَّعْيَ فِي حَوَائِجِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ قَضَى اللَّهُ لَهُ حَوَائِجَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ مَنْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمَ مُصِيبَتِهِ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِهِ جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ فَرَحِهِ وَ سُرُورِهِ وَ قَرَّتْ بِنَا فِي الْجِنَانِ عَيْنُهُ وَ مَنْ سَمَّى يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَوْمَ بَرَكَةٍ وَ ادَّخَرَ فِيهِ لِمَنْزِلِهِ شَيْئاً لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيمَا ادَّخَرَ وَ حُشِرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ يَزِيدَ وَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ لَعَنَهُمُ اللَّهُ إِلَى أَسْفَلِ دَرْكٍ مِنَ النَّار۔ 

امام رضا(ع) نے فرمایا کہ جو بھی عاشورا کے دن اپنے کاموں کو انجام نہ دے تو خداوند اس کی دنیا اور آخرت کی تمام حاجات کو پورا کرےگا اور جو روز عاشورا کو اپنے لیے غم و حزن کا دن قرار دے تو خداوند قیامت والے دن کو اس کے لیے خوشی کا دن قرار دے گا اور جنت میں اس کی آنکھ ہماری زیارت سے روشن ہوں گی اور جو بھی روز عاشورا کو اپنے لیے برکت اور مبارک دن قرار دے اور اپنے گھر میں چیزیں ذخیرہ کرے تو اس کے لیے کبھی بھی برکت نہیں ہو گی اور ایسا بندہ يزيد و عبيد اللَّه بن زياد و عمر بن سعد کے ساتھ جھنم کے سب سے نیچے والی جگہ میں محشور ہو گا۔

الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی ج1 ص306، تحقيق: الشيخ احمد الماحوزی، الناشر:موسسة الصادق للطباعة والنشر. 

 امام حسن عسکری (ع) کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا:

امام حسن عسکری(ع) نے بھی امام حسین(ع) کی عزاداری کے بارے میں بہت غمناک عبارات بیان کی ہیں۔ امام عسکری نے فرمایا ہے کہ امام حسین(ع) اپنی شھادت سے پہلے اپنے شھید ہونے کے بارے میں با خبر تھے اور تمام آسمانوں نے امام حسین پر گریہ کیا ہے۔

قال الشيخ أبوجعفر الطوسي رحمه الله   

خرج الي القاسم بن العلاء الهمداني وكيل أبي محمد عليه السلام أن مولانا الحسين عليه السلام ولد يوم الخميس لثلاث خلون من شعبان، فصمه فيها و ادع بهذا الدعاء:

اللهم اني أسألك بحق المولود في هذا اليوم، الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته، بكته السماء و من فيها و الأرض و من عليها و لما يطألأبتيها، قتيل العبرة، و سيد الاسرة، الممدود بالنصرة يوم الكرة، المعوض من قتله أن الأئمة من نسله، و الشفاء في تربته، و الفوز معه في أوبته، و الأوصياء من عترته بعد قائمهم و غيبته، حتي يدركوا الأوتار، و يثأروا الثأر، و يرضوا الجبار، و يكونوا خير أنصار، صلي الله عليهم مع اختلاف الليل و النهار۔

خداوندا میں تم سے دعا کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں اور اس  مولود کے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ جو اس دنیا میں آیا ہے کہ اسکی ولادت سے پہلے اس کی شھادت کا وعدہ دیا گیا ہے اور وہ مولود ہے کہ جس پر آسمان اور اس کے اہل نے اور زمین اور اس کے اھل نے اس کی مصیبت اور شھادت پر گریہ کیا ہے۔ وہ مولود اشکوں کے ساتھ قتل کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں نے اس پر گریہ کیا ہے اور اس دنیا کے ختم ہونے تک گریہ کرتے رہے گے۔ امام حسین(ع) کی رجعت کے زمانے میں انکی نصرت کی جائے گی۔ وہ امام کہ شھادت کے بدلے میں نو امام انکی نسل سے ہیں۔ خداوند نے شفاء اور علاج کو  اسکی قبر کی خاک میں قرار دیا ہے اور اس امام کی رجعت کے دور میں نصرت اور مدد کی جائے گی۔ دن رات کے آنے جانے تک ان سب پر خداوند کا درود و سلام ہو۔

الشيخ الطوسی،الوفاة:460، مصباح المتهجد ج1ص826، چاپ اول، الناشر: مؤسسة فقه الشيعة بيروت – لبنان

امام عسکری(ع) نے اس دعا میں بہت زیبا عبارت " قتیل العبرۃ " کو  استعمال کیا ہے۔ اس عبارت کی تشریح میں علامہ مجلسی نے لکھا ہے کہ: 

   «أنا قَتيلُ العَبَرةِ» أي قتيلٌ منسوبٌ إلى العبرة و البكاء و سببٌ لها۔

 أو اُقتل مع العبرة و الحزن و شدّة الحال. و الأوّل أظهر. 

میں اشکوں سے قتل کیا گیا ہوں یعنی میری اشک اور گریہ کی طرف نسبت ہے اور میں ہی گرئیے کا سبب ہوں یا میں گرئیے،غم و حزن کے ساتھ شھید کیا جاؤں گا۔ پہلی تشریح زیادہ مناسب ہے۔

العلامة المجلسی، الوفاة: 1111، بحار الأنوار ج44 ص279، الناشر:  مؤسسةالوفاء 

امام زمان (عج) کا امام حسین (ع) کے لیے گریہ و عزاداری کرنا:

امام زمان(عج) سے کتاب المزار الکبیر میں امام حسین کی عزاداری کے بارے میں بہت درد ناک تعابیر نقل ہوئی ہیں کہ عبارات عزاداری کے شرعی اور جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

کتاب المزار الکبیر میں آیا ہے کہ:

فلئن أخرتني الدهور، و عاقني عن نصرك المقدور، و لم أكن لمن حاربك محاربا، و لمن نصب لك العداوة مناصبا، فلأندبنك صباحا و مساء، و لأبكين عليك بدل الدموع دما، حسرة عليك و تأسفا على ما دهاك و تلهفا، حتى أموت بلوعة  المصاب و غصة الاكتياب۔

اگرچہ زمانے نے مجھے دیر سے دنیا میں لایا ہے اور قسمت و تقدیر نے مجھے آپ کی نصرت سے روکا ہے۔ میں اس دنیا میں نہیں تھا کہ جن لوگوں نے آپ سے جنگ کی ان سے جنگ کر سکوں اور جہنوں نے آپ سے دشمنی کی ہے ان سے دشمنی کر سکوں۔ اب میں آپ پر دن رات گریہ کرتا ہوں اور اشکوں کی بجائے آپ پر خون بہاتا ہوں۔ آپ کے ان مصائب و مظالم پر کہ جو آپ پر ہوئے ہیں۔ میں آپ پر اتنا غم و حزن کروں گا کہ اس شدت سے اپنی جان کو قربان کر دوں گا۔

الشيخ أبو عبد الله محمّد بن جعفر المشهدی، الوفاة: 610، المزار الكبير ج1 ص501 تحقيق: جواد القيومی الاصفهانی، چاپ اول، الناشر: نشر القيوم ١٤١٩ هـ.ق.

اس عبارت میں  امام زمان(ع) امام حسین(ع) پر سلام کر رہے ہیں:

السلام عليك، سلام العارف بحرمتك، المخلص في ولايتك، المتقرب إلى الله بمحبتك، البرئ من أعدائك، سلام من قلبه بمصابك مقروح، و دمعه عند ذكرك مسفوح، سلام المفجوع المحزون، الواله المستكين۔

سلام ہو آپ پر اس بندے کا سلام کہ جو آپ کے احترام سے آگاہ ہے اور کی ولایت میں مخلص و بے ریا ہے اور جس نے آپ کی محبت و ولایت سے خداوند کا قرب حاصل کیا ہے اور جو آپ کے دشمنوں سے بیزار ہے، اس بندے کا سلام کہ جس کا دل آپ کی مصیبت اور غم سے زخمی ہے اور جس کے اشک آپ کی یاد کے ساتھ ہی جاری ہو جاتے ہیں، اس بندے کا سلام کہ جو آپ کے غم میں غمناک و عاجز ہے۔

    الشيخ أبو عبد الله محمّد بن جعفر المشهدی،الوفاة: 610، المزار الکبير ج1ص500، تحقيق: جواد القيومی الاصفهانی،چاپ اول، الناشر: نشر القيوم ١٤١٩ هـ.ق.

نتيجہ:

جیسا کہ آپ نے مشاھدہ کیا کہ تمام آئمہ معصومین(ع) نے  امام حسین(ع) کی عزاداری کو خاص اہمیت دی ہے اور مختلف طریقوں سے جیسے اشک بہانے، عزاداری کو عملی طور پر انجام دینے، دوسروں کو مجالس عزاداری برپا کرنے، عزاداری میں کھانا دینے، شعراء کا ان کے لیے مصائب پڑھنے وغیرہ کے ذریعے سے انھوں نے اس عظیم کام کو زندہ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ تمام آئمہ معصومین(ع) سے بہت سی روایات سند صحیح و معتبر کے ساتھ امام حسین(ع) کی عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں تو روایات کی اس کثرت و صحت کے بعد انکی سند کے بارے میں بحث و تحقیق کرنا ایک فالتو و بہودہ کام ہے کیونکہ ان تمام روایات سے امام حسین(ع) پر عزاداری کرنا  تواتر معنوی سے ثابت ہو جاتا ہے اور یہ بات علم حدیث کی روشنی میں بھی ثابت ہو چکی ہے کہ اگر ایک بات متواتر ہو تو اسکی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اسی طرح ان تمام روایات سے فقط گرئیے کا جائز ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ کلی طور پر امام حسین(ع) کی  عزاداری کو یہ روایات ثابت کرتی ہیں جیسے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ خود امام معصوم نے شعراء سے امام حسین(ع) کے غم کے بارے میں مرثیہ اور اشعار پڑھنے کو کہا ہے کہ جن کو سن کر امام اور ان کے اہل خانہ نے بھی گریہ کیا ہے یعنی تمام آئمہ معصومین(ع) نے روایات کو بیان کرنے کے علاوہ خود عملی طور پر بھی امام حسین(ع) کے لیے عزاداری کی ہے۔

التماس دعا

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی