2024 April 24
اہل سنت کی عزاداری امام حسین علیہ السلام کے لئے
مندرجات: ٣٣٧ تاریخ اشاعت: ١٥ August ٢٠١٦ - ١١:٠٢ مشاہدات: 3112
مضامین و مقالات » پبلک
اہل سنت کی عزاداری امام حسین علیہ السلام کے لئے

 

اہل سنت حضرات کا امام حسین ع پر مرثیہ پڑھنا

ابو الفرج ابن جوزی حنبلی کا مرثیہ پڑھنا

لما أسر العباس يوم بدر سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أنينه فما نام ، فكيف لو سمع  أنين الحسين ؟ لما أسلم وحشي قال له : غيب وجهك عني . هذا والله والمسلم لا يؤاخذ بما كان في الكفر ، فكيف يقدر الرسول صلى الله عليه وسلم أن يبصر من قتل الحسين ؟ قوله تعالى)  ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا ( لقد جمعوا في ظلم الحسين ما لم يجمعه أحد ، ومنعوه أن يرد الماء فيمن ورد ، وأن يرحل عنهم إلى بلد ، وسبوا أهله وقتلوا الولد ، وما هذا حد دفع عن الولاية هذا سوء معتقد .  نبع الماء من بين أصابع جده فما سقوه منه قطرة. 

جب پیغمبر اکرم ص کے چچا عباس جنگ بدر میں اسیر ہوئے تو پیغمبر اکرم ص نے ان کے رونے کی آواز سنی اور ان کے گریہ کی آواز نے پیغمبر ص کی نیند اڑادی، پس اگر پیغمبر ص امام حسین ع کے رونے کی آواز سنتے تو ان کی کیا حالت ہوتی؟! جس وقت جناب حمزہ کا قاتل مسلمان ہوا، تو پیغمبر ص نے اس سے فرمایا: اپنا چہرا مجھ سے چھپا لے ( میں نہیں چاہتا کہ میری نگاہ تجھ پر پڑے) پیغمبر ص کا یہ رویہ اس وقت کا ہے کہ جب خدا کی قسم پیغمبر مسلمانوں سے زمانہ کفر میں انجام دئے ہوئے کاموں کے بارے میں بھی مواخذہ نہیں کرتے تھے، ان تمام تر حالات کے باوجود پیغمبر ص کس طرح امام حسین ع کے قاتل کو دیکھتے۔ خداوند عالم فرماتا ہے: وہ شخص جو مظلوم قتل کیا گیا ہو اس کے وارثوں کو ہم نے حق قصاص دیا ہے۔ امام حسین ع پر اتنا ظلم کیا گیا جتنا کسی پر بھی ظلم نہیں کیا گیا، ان کو پانی سے روکا گیا، ان کو کسی دوسرے شہر نہیں جانے دیا گیا، ان کے خانوادہ کو اسیر کیا گیا، ان کے بچوں کو قتل کردیا گیا، اتنا زیادہ ظلم اس شخص کے ساتھ نہیں کیا جاتا جو حکومت سے فردی مقابلہ کرے۔ بلکہ یہ یزید کے فاسد عقائد کی نشاندہی کرتاہے۔ پانی تو ان کے جد کی انگلیوں سے بہتا تھا مگر ایک قطرہ آب بھی اس کو نہیں دیا۔

كان الرسول صلى الله عليه وسلم من حب الحسين يقبل شفتيه ويحمله كثيرا على عاتقيه ، ولما مشى طفلا بين يدي المنبر نزل إليه ، فلو رآه ملقى على أحد جانبيه و السيوف تأخذه والأعداء حواليه والخيل قد وطئت صدره ومشت على يديه ودماؤه تجري بعد دموع عينيه لضج الرسول مستغيثا من ذلك ولعز عليه.

كربلاء ما زلت كربا و بلا   ما لقي عندك أهل المصطفي
ما أري حزنكم ينسي ولا   رزأكم يسلي ولو طال المدي

ابن جوزي ، التبصرة  ج 2، صص 16-17.

پیغمبر اکرم ص امام حسین ع کو اتنا چاہتے تھے کہ ہمیشہ آپ کے لبوں کو بوسہ دیتے تھے اور آپ کو بہت زیادہ اپنے کاندھوں پر بٹھاتے تھے، اور جب امام حسین ع بچپنے میں منبر کے سامنے سے جارہے تھے، تو آنحضرت ص منبر سے نیچے آگئے تھے ( اور امام حسین ع کو آغوش میں لے لیا تھا)؛ اب اگر ہیغمبر ص حسین کو اس عالم میں دیکھتے تھے کہ آپ ع کسی ایک پہلو پہ پڑے ہوئے ہیں، تلواروں نے اسے گھیر رکھا ہے، دشمن اس کے اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں، گھوڑوں نے اس کے سینے کو پامال کردیا ہے اور ان کے ہاتھوں پر سے گزر گئے ہیں اور اس کی دونوں آنکھوں سے مسلسل اشک جاری ہیں ، تو یقینا پیغمبر اکرم ص بآواز بلند گریہ کرتے اور استغاثہ کرتے۔ اور یہ ماجرا ان کے لئے بہت گراں گزرتا۔

اے کربلا تو ہمیشہ سختی اور بلا کے ہمراہ رہی ہے

اہل بیت پیغمبر ص تمہارے پاس کن سختیوں سے روبرو پوئے ہیں

مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا غم و اندوہ فراموش ہوگا

اور مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا غم کبھی تسلی پائے گا

چاہے جتنا عرصہ دراز گزر جائے۔

سبط ابن جوزی حنفی کی مرثیہ خوانی

( ابو الفرج کی نواسی)

وقد سئل في يوم عاشوراء زمن الملك الناصر صاحب حلب أن يذكر للناس شيئا من مقتل الحسين فصعد المنبر وجلس طويلا لا يتكلم ثم وضع المنديل على وجهه و بكى شديدا ثم أنشا يقول وهو يبكي :
ويل لمن شفعاؤه خصماؤه    والصور في نشر الخلائق ينفخ
لا بد أن ترد القيامة فاطم     و قميصها بدم الحسين ملطخ
ثم نزل عن المنبر و هو يبكي و صعد الي الصالحية و هو كذلك

البداية والنهاية ، ج 17 ، ص 344- 245 ؛ بدر الدين العينى ، عقد الجمان في تاريخ أهل الزمان، ص 30 ؛ عبد القادر بن محمد النعيمي الدمشقي، الدارس في تاريخ المدارس، ج 1،  ص 367 ؛ عبد القادر بدران، منادمة الأطلال ومسامرة الخيال، منادمة الأطلال، ج 1، ص 155.

بادشاہ ناصر کے زمانے میں حلب کے گورنر نے سبط ابن جوزی سے درخواست کی کہ وہ لوگوں کے سامنے تھوڑا سا امام حسین ع کا مقتل بیان کرے؛ ( یعنی مصائب امام حسین ع بیان کریں) وہ منبر پر گئے اور کافی دیر خاموش رہے، پھر ایک رومال چہرے پر رکھا اور بہت تیز رونے لگے، اور یہ اشعار روتے روتے پڑھ رہے تھے:

اس شخص کے حال پر وائے ہو کہ جس کے شفیع اس کے دشمن ہوجائیں ۔

در حالیکہ مخلوقات کو محشور کرنے کے لئے صور پھونکا جائے گا،

یقینا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا روز قیامت وارد ہوں گی اس عالم میں کہ آپ کا لباس امام حسین ع کے خون سے آلودہ ہوگا۔

اسی گریہ کے عالم میں ابن جوزی منبر سے نیچے آئے اور گریہ کرتے ہوئے مدرسہ صالحیہ چلے گئے۔

ایک حنفی عالم اہل سنت کو، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا حکم، امام حسین ع کے لئے نوحہ خوانی کرنے کا

حدثني أبي ، قال : خرج إلينا يوماً ، أبو الحسن الكاتب ، فقال : أتعرفون ببغداد رجلاً يقال له : ابن أصدق ؟ قال : فلم يعرفه من أهل المجلس غيري ، فقلت : نعم ، فكيف سألت عنه ؟ فقال : أي شيء يعمل ؟ قلت : ينوح على الحسين عليه السلام . قال : فبكى أبو الحسن ، وقال : إن عندي عجوزاً ربتني من أهل كرخ جدان عفطية اللسان ، الأغلب على لسانها النبطية ، لا يمكنها أن تقيم كلمة عربية صحيحة ، فضلاً عن أن تروي شعراً ، وهي من صالحات نساء المسلمين ، كثيرة الصيام والتهجد . وإنها انتبهت البارحة في جوف الليل ، ومرقدها قريب من موقعي ، فصاحت بي : يا أبا الحسن . فقلت : ما لك ؟ فقالت : الحقني . فجئتها ، فوجدتها ترعد ، فقلت : ما أصابك ؟ فقالت : إني كنت قد صليت وردي فنمت ، فرأيت الساعة في منامي ، كأني في درب من دروب الكرخ ، فإذا بحجرة نظيفة بيضاء ، مليحة الساج ، مفتوحة الباب ، ونساء وقوف عليها . فقلت لهم : من مات ؟ وما الخبر ؟ فأومأوا إلى داخل الدار . فدخلت فإذا بحجرة لطيفة ، في نهاية الحسن ، وفي صحنها امرأة شابة لم أر قط أحسن منها ، ولا أبهى ولا أجمل ، وعليها ثياب حسنة بياض مروي لين ، وهي ملتحفة فوقها بإزار أبيض جداً ، وفي حجرها رأس رجل يشخب دماً .

میرے والد مجھ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز ابو الحسن کاتب (کرخی) میرے پاس آئے اور کہا کہ کیا تم بغداد میں کسی ابن اصدق نامی شخص کو پہچانتے ہو؟ اس جلسہ میں میرے علاوہ ان کو کوئی نہیں پہچانتا تھا، میں نے جواب دیا کہ ہاں میں ان کو پہچانتا ہوں، کیا ہوگیا ہے جو تم ان کے بارے میں اتنی جستجو کررہے ہو؟ ابو الحسن نے کہا: ابن اصدق کیا کرتا ہے؟ میں نے کہا: امام حسین ع کے لئے نوحہ خوانی کرتا ہے۔ اس وقت ابو الحسن کرخی رونے لگے اور فرمایا: میرے پاس ایک ضعیف خاتون ہے جس کے ذمہ بچپنے سے میری پرورش تھی، وہ کرخ جدان کے اطراف کی رہنے والی ہے اور وہ گفتگو کرنے سے یا عربی بولنے سے قاصر ہے اور وہ عربی کا ایک کلمہ بھی صحیح طریقہ سے ادا نہیں کرسکتی پس یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ کوئی شعر نقل کرے۔۔۔ نیم شب میں بیدار ہوئی، اس کے سونے کی جگہ میری جگہ سے نزدیک ہے، اس نے فریاد کی اے ابوالحسن میرے ہاس آئیں! میں نے پوچھا کیا ہوا؟ جب میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ لرز رہی ہے، میں نے پوچھا کیا ہوا تمہارے ساتھ؟ اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کرخ کے ایک دروازے کے سامنے کھڑی ہوں، میں نے ایک صاف ستھرا کمرا دیکھا جس کی دیواریں سفید اور تھوڑا سرخ تھیں، دروازہ کھلا ہوا تھا اور خواتین دروازے پر کھڑی ہوئی تھیں، میں نے ان خواتین سے پوچھا کہ کون دنیا سے چلا گیا؟ آخر کیا بات ہے؟ انہوں نے کمرے کی طرف اشارہ کیا، جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کمرا بہت خوبصورت ہے اور اس کے کمرے کے بیچ و بیچ ایک خاتون موجود ہیں جس سے نیک اور خوبصورت خاتون میں نے اس سے پہلے نہیں دیہکھی تھی، ایک سفید رنگ کا لمبا لباس زیب تن کئے ہوئے تھی اور اس کے اوپر ایک بہت ہی سفید چادر اوڑھے ہوئے تھی ، جس کے دامن میں ایک کٹا ہوا سر تھا جس سے خون ابل رہا تھا۔

فقلت : من أنت ؟ فقالت : لا عليك ، أنا فاطمة بنت رسول الله ، وهذا رأس ابن الحسين ، عليه السلام ، قولي لابن أصدق عني أن ينوح : لم أمرضه فأسلو . . . لا ولا كان مريضا فانتبهت فزعة . قال : وقالت العجوز : لم أمرطه ، بالطاء ، لأنها لا تتمكن من إقامة الضاد ، فسكنت منها إلى أن نامت . ثم قال لي : يا أبا القاسم مع معرفتك الرجل ، قد حملتك الأمانة ، ولزمتك ، إلى أن تبلغها له . فقلت : سمعاً وطاعة ، لأمر سيدة نساء العالمين . قال : وكان هذا في شعبان ، والناس إذ ذاك يلقون جهداً جهيداً من الحنابلة ، إذا أرادوا الخروج إلى الحائر . فلم أزل أتلطف ، حتى خرجت ، فكنت في الحائر ، ليلة النصف من شعبان . فسألت عن ابن أصدق ، حتى رأيته . فقلت له : إن فاطمة عليها السلام ، تأمرك بأن تنوح بالقصيدة التي فيها : لم أمرضه فأسلو . . . لا ولا كان مريضا وما كنت أعرف القصيدة قبل ذلك . قال : فانزعج من ذلك ، فقصصت عليه ، وعلى من حضر ، الحديث ، فأجهشوا بالبكاء ، وما ناح تلك الليلة إلا بهذه القصيدة.
و أولها : أيها العينان فيضا . . . وامیرستهلا لا تغيضا

نشوار المحاضرة وأخبار المذاكرة ، ج1 ، صص 396-397؛ بغية الطلب في تاريخ حلب، ج 6 ، صص 2654-265

میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب دیا: مجھے تم سےکوئی مطلب نہیں، میں پیغمبر اکرم ص کی بیٹی فاطمہ س ہوں اور یہ میرے بیٹے حسین ع کا سر ہے؛ میری طرف سے ابن اصدق سے کہنا کہ وہ یہ نوحہ پڑھے کہ، میرا بیٹا مریض نہیں تھا یہ سوال کرو، اور اس واقعہ سے پہلے بھی بیمار نہیں تھا۔

ابو الحسن نے مجھ سے کہا: اے ابو القاسم جبکہ تم ابن اصدق کو پہچانتے ہو تو امانتداری سے کام لو اور اس خبر کو ابن اصدق تک پہنچادو؛ میں نے جواب دیا کہ شہزادی کونین کے حکم کی اطاعت کروں گا۔ ابو القاسم تنوخی آگے فرماتے ہیں: یہ واقعہ ماہ شعبان کا ہے، جس زمانے میں لوگ امام حسین ع کی زیارت کو جانا چاہتے ہیں اور ان کو حنبلیوں کی طرف سے بہت مصیبتیں اٹھانا پڑتی تھیں، میں نے بہت جدو جہد کی اور آخر کار نیمہ ماہ شعبان میں حائر حسینی تک پہنچ گیا۔ پھر ابن اصدق کی تلاش میں لگ گیا یہاں تک کہ میں نے ان سے ملاقات کی، میں نے ان سے کہا: جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے آپ کو ایک حکم دیا ہے کہ ( امام حسین ع پر) ایک قصیدہ بعنوان نوحہ پڑھو جس میں مذکورہ شعر شامل ہو۔ میں نے ابن اصدق سے کہا اس واقعہ سے پہلے میں اس قصیدہ سےواقف نہیں تھا، ابن اصدق کی کیفیت بدلنے لگی۔ میں نے خواب کو بطور کامل ان کے لئے اور تمام حاضرین کے لئے نقل کیا، سب نے بہت گریہ کیا اور تمام رات اسی نوحہ کو دوہراتے رہے۔ اس قصیدہ کا پہلا شعر یہ ہے: اے دونوں آنکھ اشک برسائو اور خوب رو اور تمہارے آنسو خشک نہ ہونے پائیں۔

وأبو الحسن الكرخي المذكور هو من كبار أصحاب أبي حنيفة

بغية الطلب في تاريخ حلب  ج 6   ص 2656

ابن عدیم لکھتا ہے: ابو الحسن کرخی ابو حنیفہ کے بزرگ اصحاب میں سے ہیں۔

أبو القاسم علي بن محمد التنوخي القاضي الحنفي ، وكان من أذكياء العالم ، راوية الأشعار ، عارفاً بالكلام والنحو ، وله ديوان شعر.

اليافعي اليمني المكي، مرآة الجنان وعبرة اليقظان ، ج 2 ص 251

یافعی ابوالقاسم تنوخی کے بارے میں لکھتے ہیں: ابو القاسم علی بن محمد تنوخی، حنفی مذہب کا قاضی اور دینا کے ہوشمند ترین لوگوں میں سے تھا، اشعار کی روایت کرتا تھا اور علم کلام اور علم نحو پر تسلط رکھتا تھا اور اس کا ایک شعروں کا دیوان بھی ہے۔

ابو الحسن کرخی ابو حنیفہ کے بزرگ اصحاب میں سے ہے۔

ابو القاسم تنوخی حنفی قاضی ہے۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حکم ،امام حسین ع پر نوحہ خوانی کرنے کا، شیعہ اور سنی دونوں کو

قال ابن عبد الرحيم حدثني الخالع قال كنت مع والدي في سنة ست وأربعين وثلاثمائة وأنا صبي في مجلس الكبوذي في المسجد الذي بين الوراقين والصاغة وهو غاص بالناس وإذا رجل قد وافى وعليه مرقعة وفي يده سطيحة وركوة ومعه عكاز وهو شعث فسلم على الجماعة بصوت يرفعه ثم قال أنا رسول فاطمة الزهراء صلوات الله عليها فقالوا مرحبا بك وأهلا ورفعوه فقال أتعرفون لي أحمد المزوق النائح فقالوا ها هو جالس فقال رأيت مولاتنا عليها السلام في النوم فقالت لي امض إلى بغداد واطلبه وقل له نح على ابني بشعر الناشىء الذي يقول فيه :
بني أحمد قلبي لكم يتقطع    بمثل مصابي فيكم ليس يسمع  
وكان الناشىء حاضرا فلطم لطما عظيما على وجهه وتبعه المزوق والناس كلهم وكان أشد الناس في ذلك الناشىء ثم المزوق ثم ناحوا بهذه القصيدة في ذلك اليوم إلى أن صلى الناس الظهر وتقوض المجلس وجهدوا بالرجل أن يقبل شيئا منهم فقال والله لو أعطيت الدنيا ما أخذتها فإنني لا أرى أن أكون رسول مولاتي عليها السلام ثم آخذ عن ذلك عوضا وانصرف ولم يقبل شيئا 

معجم الأدباء ، ج 4 ، صص 149-150.

ابن عبد الرحیم کہتے ہیں کہ مجھ سے خالع نے بیان کیا ہے کہ جب وہ چھوٹا تھا تو 236ھ  میں  اپنے والد کے ساتھ 
کبوذی (محدث) کی مجلس میں گیا جو کتاب فروشی کے بازار اور صرافہ بازار کے بیچ میں تھی ، مجلس مجمع سے بھری ہوئی تھی، اچانک ایک شخص داخل ہوا، ایک قبا اپنے دوش پر ڈالے ہوئے تھا، ایک ہاتھ میں پانی کی مشک اور کھانے کا تھیلا لئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں عصا، بآواز بلند سلام کیا اور فرمایا: میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا فرستادہ ہوں، لوگوں نے کہا: خوش آمدید اور اس کا اکرام کیا، اس نے کہا: کیا آپ لوگ مجھے نوحہ خوان احمد مزوق سے ملا سکتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں یہی تو ہے جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، اس نے کہا: میں نے خواب میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ آپ (س) نے مجھ سے فرمایا: بغداد جائو اور احمد مزوق کو تلا ش کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے بیٹے حسین ع پر نوحہ پڑھے ناشی کے اس شعر کے ساتھ جس میں اس نے کہا ہے:

اے احمد کے بیٹوں! میرا دل تمہارے ماتم سے پھٹ رہا ہے۔

اس ماتم کے سنبب جو بھی میرے دل پر گزری ہے وہ کسی بھی شخص کے بارے میں سنی نہیں گئی۔

ناشی بھی اس مجلس میں موجود تھا، اپنے چہرے پر بہت تیز ہاتھ مارا، اس کو دہکھ کر احمد مزوق نے اور تمام حاضرین نے بھی اپنے چہروں پر مارنا شروع کردیا اور ایک شور گریہ بلند ہوگیا۔ سب سے زیادہ ناشی اور اس کے بعد مزوق متاثر ہوئے، اس کے بعد اسی قصیدہ کے ساتھ نوحہ پڑھا گیا یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا اور مجلس ختم ہوگئی اور لوگ منتشر ہو گئے۔ ان لوگوں نے بہت کوشش کی کہ آنے والا مسافر کوئی تحفہ قبول کرلے مگر اس نے کسی بھی تحفہ کو قبول نہیں کیا، اور اس نے کہا: خدا کی قسم اگر تم لوگ ساری دنیا بھی مجھے دیدوگے تب بھی میں لینے والا نہیں ہوں، یہ مناسب نہیں ہے کہ میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیغام رساں بنوں اور اس کے بدلہ میں تم سے پیسے لوں، آخر کار شہزادی کونین کا فرستادہ واپس چلا گیا اور کچھ بھی قبول نہیں کیا۔



 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی