2024 March 28
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا امام حسین علیہ السلام کے غم میں گریہ کرنا۔
مندرجات: ٣٢٥ تاریخ اشاعت: ١٠ August ٢٠٢١ - ١٩:٣٤ مشاہدات: 5379
مضامین و مقالات » پبلک
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا امام حسین علیہ السلام کے غم میں گریہ کرنا۔

 

 گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات شيعه

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات اهل سنت

قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم:

يَا فَاطِمَةُ كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ بَكَتْ عَلَي مُصَابِ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهَا ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّة.

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 44، ص: 293.

اے فاطمہ(س) ہر آنکھ قیامت والے دن روئے گی مگر وہ آنکھ کہ جو غم حسین(ع) میں دنیا میں گریہ کرے گی، پس ایسی آنکھ قیامت میں جنت کی نعمتوں پر خوشحال و مسرور ہو گی۔

 گریہ و عزا داری فطرت انسانی       

انسان کے وجود و فطرت میں خدا وند کی سنن میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم کے مواقع پر اپنی طرف سے مختلف رد عمل دکھاتا ہے یعنی خوشی کے موقع پر خوشی اور غم کے موقع پر غمی کا اظہار کرتا ہے۔      

وہ چیز کہ جو انسان کی حالت کو غم کی حالت میں تبدیل کرتی ہے اس حالت کو مصیبت و رنج کی حالت کہتے ہیں، کہ انسان کا رد عمل اس موقع پر اشک بہانا اور بے تابی کرنا ہوتا ہے۔

جس طرح کہ خوشی کے مواقع پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اسکی یہ حالت سب کو واضح طور پر نظر آتی ہے۔

وہ ماں کہ جس کا بیٹا یا کوئی بھی عزیز دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسکے اشک اس کی اندرونی غم والی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس غم کی حالت میں وہ بے تابی کرتی ہے۔ یہ ماں کی فطرت میں سے ہے کہ نہ یہ کہ کوئی اس ماں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ سب ایسی دل سوز ماں کی تعریف کرتے ہیں اور اسکے ساتھ اسکے غم میں شریک بھی ہوتے ہیں۔

لہذا نوحہ و مرثیہ خوانی اور عزا داری کرنا یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کی ذات اور فطرت میں پایا جاتا ہے۔ اس عمل کی نفی یا مخالفت کرنا گویا اک شئ کی ذات سے اس کی ذاتیات کو نفی کرنا ہے۔

آئمہ معصومین علیہم السلام کی صفات و خصوصیات فقط انہی کی ذات کے ساتھ مخصوص تھیں کہ عام عادی انسانوں میں وہ خصوصیات نہیں پا‏ئی جاتیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی جو صفات و خصوصیات ہیں وہ فقط انہی کے ساتھ خاص ہیں اور وہ کسی دوسرے معصوم میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلا یہ کہ تمام انبیاء اور انکے اوصیاء نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد ان کے مصائب پر گریہ کیا ہے اور وہ سب اس گرئیے کو اپنے لیے باعث شرف و عزت سمجھتے تھے۔

ہم اس تحریر میں رسول خدا(ص) کے امام حسین(ع) کے غم میں گرئیے کے چند نمونے بیان کرتے ہیں البتہ اس بارے روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر تحریر میں ان سب کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بہلے چند روایات کو شیعہ کتب سے اور پھر بعد میں اہل سنت کی معتبر کتب سے چند روایات کو ذکر کریں گئے۔

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات شيعه

اس بارے میں شیعہ کتب میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں ہم فقط ان میں سے چند روایات کو ذکر کرتے ہیں۔

شیخ صدوق(رح) اپنی کتاب عیون اخبار الرضاء میں لکھتے ہیں:

... فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ حَوْلٍ وُلِدَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) وَ جَاءَ النَّبِيُّ(صلي الله عليه و آله و سلم) فَقَالَ يَا أَسْمَاءُ هَلُمِّي ابْنِي فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ فِي خِرْقَةٍ بَيْضَاءَ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَي وَ أَقَامَ فِي الْيُسْرَي وَ وَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ فَبَكَي فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِمَّ بُكَاؤُكَ قَالَ عَلَي ابْنِي هَذَا قُلْتُ إِنَّهُ وُلِدَ السَّاعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ بَعْدِي لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا أَسْمَاءُ لَا تُخْبِرِي فَاطِمَةَ بِهَذَا فَإِنَّهَا قَرِيبَةُ عَهْدٍ بِوِلَادَتِه...

عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج 2، ص 26.

اسماء کہتی ہے کہ: بعد والے سال میں حسین(علیہ السلام) پیدا ہوئے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و سلم نواسے کو دیکھنے کے لیے بیٹی کے گھر آئے اور فرمایا: اے اسماء میرے بیٹے کو لاؤ ۔ اسماء حسین(‏ع) کو اس حالت میں حضرت کے پاس لائی کہ وہ ایک سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ۔ پھر رسول خدا(ص) حسین(ع) کو گود میں لے کر رونے لگے ۔

اسماء نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ اس خوشی کے موقع پر کہ آپ کا بیٹا دنیا میں آیا ہے، کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا: میں اس لیے اپنے بیٹے کی حالت پر رو رہا ہوں کہ ظالم لوگ میرے بعد میرے اسی بیٹے کو شہد کریں گئے ۔ خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔ پھر فرمایا کہ: اے اسماء اس شھادت کی خبر اس کی ماں کو نہ بتانا کیونکہ اس کا یہ بیٹا ابھی دنیا میں آیا ہے۔

مرحوم شيخ مفيد رحمۃ الله عليه اپنی كتاب الإرشاد ميں لکھتے ہیں کہ:

 عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ مِنْ عِنْدِنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ فَغَابَ عَنَّا طَوِيلًا ثُمَّ جَاءَنَا وَ هُوَ أَشْعَثُ أَغْبَرُ وَيَدُهُ مَضْمُومَةٌ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَرَاكَ أَشْعَثَ مُغْبَرّاً فَقَالَ أُسْرِيَ بِي فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ إِلَي مَوْضِعٍ مِنَ الْعِرَاقِ يُقَالُ لَهُ كَرْبَلَاءُ فَرَأَيْتُ فِيهِ مَصْرَعَ الْحُسَيْنِ وَ جَمَاعَةٍ مِنْ وُلْدِي وَ أَهْلِ بَيْتِي فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُ دِمَاءَهُمْ فِيهَا هِيَ فِي يَدِي وَ بَسَطَهَا فَقَالَ خُذِيهِ وَ احْتَفِظِي بِهِ فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا هِيَ شِبْهُ تُرَابٍ أَحْمَرَ فَوَضَعْتُهُ فِي قَارُورَةٍ وَ شَدَدْتُ رَأْسَهَا وَ احْتَفَظْتُ بِهَا فَلَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) مُتَوَجِّهاً نَحْوَ أَهْلِ الْعِرَاقِ كُنْتُ أُخْرِجُ تِلْكَ الْقَارُورَةَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ فَأَشَمُّهَا وَ أَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ أَبْكِي لِمُصَابِهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَخْرَجْتُهَا فِي أَوَّلِ النَّهَارِ وَ هِيَ بِحَالِهَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهَا آخِرَ النَّهَارِ فَإِذَا هِيَ دَمٌ عَبِيطٌ فَضَجِجْتُ فِي بَيْتِي وَ كَظَمْتُ غَيْظِي مَخَافَةَ أَنْ يَسْمَعَ أَعْدَاؤُهُمْ بِالْمَدِينَةِ فَيُسْرِعُوا بِالشَّمَاتَةِ فَلَمْ أَزَلْ حَافِظَةً لِلْوَقْتِ وَ الْيَوْمِ حَتَّي جَاءَ النَّاعِي يَنْعَاهُ فَحُقِّقَ مَا رَأَيْتُ.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219، الفصل الثالث في ذكر بعض خصائصه و مناقبه و فضائله.

ام سلمہ(س) سے روایت ہے کہ: ایک رات کو رسول خدا(ص) ہم سے دور ہو گئے اور یہ دوری تھوڑی طولانی ہو گئی ۔ جب رسول خدا(ص) واپس آئے تو میں دیکھا کہ غبار آلود اور غمناک ہیں ۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ میں آپکو یہ کس حالت میں دیکھ رہی ہوں ؟ حضرت نے فرمایا: مجھے آج رات عراق لے جایا گیا اور زمین بنام کربلا دیکھائی گئی اور مجھے بتایا گیا کہ اس سر زمین پر میرے بیٹے حسین کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے ساتھ شھید کیا جائے گا۔ میں نے ان سب کے خون کو جمع کیا ہے اور یہ وہی خون ہے جو اب میرے پاس موجود ہے۔

یہ کہہ کر رسول خدا(ص) نے وہ خون مجھے دیا اور کہا کہ: اس کو اپنے پاس رکھو ۔ میں نے خون ان سے لے لیا کہ جو سرخ رنگ کی خاک کی طرح تھا۔ میں نے اس خون کو اک شیشی میں رکھ دیا ۔ جب حسین علیہ السلام عراق ہجرت کر کے چلے گئے تو میں ہر روز اس شیشی کو دیکھتی اور سونگھتی تھی ۔ ہر روز حسین(ع) کی مصیبت پر گریہ کیا کرتی تھی ۔ جب دس محرم کا دن آیا تو میں نے صبح کے وقت شیشی کو دیکھا تو اپنی پہلی ہی حالت میں تھی لیکن جب میں نے اسے عصر کے وقت دیکھا تو سرخ خاک خون میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ میں نے یہ دیکھ کر چیخ ماری لیکن دشمن کے ڈر سے میں نے اس بات کو کسی کو نہ بتایا۔ میں ہمیشہ انتظار کی حالت میں تھی کہ ایک دن مدینے میں اعلان ہوا کہ حسین ابن علی(ع) کو کربلاء میں اہل و عیال کے ساتھ شھید کر دیا گیا ہے۔

اور پھر لکھتے ہیں کہ:

وَ رَوَي السَّمَّاكُ عَنِ ابْنِ الْمُخَارِقِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه و آله و سلم) ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسٌ وَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) فِي حَجْرِهِ إِذْ هَمَلَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَاكَ تَبْكِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ جَاءَنِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَعَزَّانِي بِابْنِيَ الْحُسَيْنِ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّ طَائِفَةً مِنْ أُمَّتِي سَتَقْتُلُهُ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219.

ام سلمہ کہتی ہے کہ: ایک دن رسول خدا(ص) بیھٹے ہوئے تھے اور حسین(ع) بھی ان کی گود میں بیٹھے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت کی آنکھیں اچانک اشکوں سے بھر گئی ہیں ۔ میں نے عرض کیا:

یا رسول اللہ کیا ہوا ہے آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ:جبرائیل ابھی مجھ پر نازل ہوا ہے اور مجھے میرے بیٹے حسین کی شھادت کی تعزیت پیش کی ہے اور مجھے بتایا ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ حسین(ع) کو شھید کرے گا اور  خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص129، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه.

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات اهل سنت:

شمس الدین ذھبی عالم اہل سنت اپنی کتاب تایخ الاسلام میں لکھتا ہے کہ:

وقال الإمام أحمد في مسنده ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه سار مع علي وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو سائر إلي صفين فنادي اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم وعيناه تفيضان فقال قام من عندي جبريل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات وقال هل لك أن أشمك من تربته قلت نعم فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا وروي نحوه ابن سعد عن المدائني عن يحيي بن زكريا عن رجل عن الشعبي أن علياً قال وهو بشط الفرات صبراً أبا عبد الله وذكر الحديث

وقال عمارة بن زاذان ثنا ثابت عن أنس قال استأذن ملك القطر علي النبي صلي الله عليه وسلم في يوم أم سلمة فقال يا أم سلمة احفظي علينا الباب لا يدخل علينا أحد فبينا هي علي الباب إذ جاء الحسين فاقتحم الباب ودخل فجعل يتوثب علي ظهر النبي صلي الله عليه وسلم فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يلثمه فقال الملك أتحبه قال نعم قال فإن أمتك ستقتله إن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه قال نعم فجاءه بسهلة أو تراب أحمرقال ثابت فكنا نقول إنها كربلاء

عمارة صالح الحديث رواه الناس عن شيبان عنه

وقال علي بن الحسين بن واقد حدثني أبي ثنا أبو غالب عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسيناً فكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأم سلمة لا تدعي أحداً يدخل فجاء حسين فبكي فخلته أم سلمة يدخل فدخل حتي جلس في حجر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال جبريل إن أمتك ستقتله قال يقتلونه وهم مؤمنون قال نعم وأراه تربته رواه الطبراني

وقال إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق وقال خالد بن مخلد واللفظ له ثنا موسي بن يعقوب الزمعي كلاهما عن هاشم بن هاشم الزهري عن عبد الله بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم اضطجع ذات يوم فاستيقظ وهو خاثر ثم اضطجع ثم استيقظ وهو خاثر دون المرة الأولي ثم رقد ثم استيقظ وفي يده تربة حمراء وهو يقبلها فقلت ما هذه التربة قال أخبرني جبريل أن الحسين يقتل بأرض العراق وهذه تربتها

وقال وكيع ثنا عبد الله بن سعيد عن أبيه عن عائشة أو أم سلمة شك عبد الله أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لها دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها فقال لي إن ابنك هذا حسيناً مقتول وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها

رواه عبد الرزاق عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند مثله إلا أنه قال أم سلمة ولم يشك

وإسناده صحيح رواه أحمد والناس

وروي عن شهر بن حوشب وأبي وائل كلاهما عن أم سلمة نحوه

تاريخ الإسلام ذهبي ج5/ص102

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں کہا ہے کہ..... وہ علی(ع) کے ساتھ جا رہا تھا اور پانی کا ایک برتن بھی میرے پاس تھا۔ جب وہ صفین جا رہے تھے تو راستے میں جاتے ہوئے نینوا پہنچے ۔ اچانک آواز دی کہ اے ابا عبد اللہ نہر فرات پر صبر کرو ۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ علی(ع) نے فرمایا کہ: میں رسول خدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور ان کی آنکھیں چشمے کی طرح اشک بہا رہی تھیں پھر انھوں نے مجھے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ تیرا بیٹا حسین(ع) نہر فرات کے کنارے شھید کیا جائے گا اور کہا کہ کیا تم اس خاک کربلاء کی خوشبو کو سونگھنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا جی، پھر انھوں نے اس خاک کو مجھے دیا ۔ یہ دیکھ کر میں بھی اپنے اشکوں کو نہ روک سکا۔

انس سے نقل ہوا ہے کہ جس دن رسول خدا حضرت ام سلمہ کے گھر تھے بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے وضو کرنے کی اجازت مانگی۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر  بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتے رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ثابت کہتا ہے کہ ہم اسکو کربلاء کی زمین کہتے ہیں ۔

.....رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم اپنی بیویوں سے فرماتے تھے کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار و گریہ  کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور رسول خدا(ص) کی گود میں آ کر بیٹھ گئے۔ جبرائیل نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ حضرت نے کہا کہ کیا وہ اس کو شھید کریں گئے اس حالت میں کہ وہ مؤمن بھی ہوں گئے ؟ جبرائیل نے کہا ہاں ایمان کا دعوی کرنے والے ہوں گئے۔ پھر اس نے خاک کربلاء کو حضرت کو دکھایا۔

...ام سلمه نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو  عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا نے فرمایا کہ آج میرے پاس ایسا فرشتہ آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اسی فرشتے نے بتایا ہے کہ آپکے بیٹے حسین کو شھید کر دیا جائے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔

اس روایت کی سند صحیح ہے احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔

حاكم نيشاپوری اپنی كتاب المستدرك علي الصحيحين میں لکھتا ہے کہ:

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ(عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 3، ص 176 - 177 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 196 - 197 و البداية والنهاية، ابن كثير، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلي الله عليه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(عليها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاكم نيشابوري اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل(عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے:یہ حديث بخاري و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبراني نے معجم كبير، هيثمي نے مجمع الزوائد اور متقي هندي نے كنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.

المعجم الكبير، الطبراني، ج 23، ص 289 - 290 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 188 - 189 و كنز العمال، المتقي الهندي، ج 13، ص 656 - 657 و....

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسين عليه السلام نے فرمایا کہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هيثمي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هيثمي مجمع الزوائد میں ، ابن عساكر تاريخ مدينه دمشق میں، مزّي تهذيب الكمال میں  اور ابن حجر عسقلاني  تهذيب التهذيب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم.

تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 300 - 301 و تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 408 - 409 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 192 - 193 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 252 - 253 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و...

ام سلمه سے روايت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسين عليهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  گريہ کیا اور حسين عليه السلام کو سينے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلاني اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم.

اس بارے میں  روايات عايشه، زينب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هيثمي ایک دوسری روايت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و المعجم الكبير، الطبراني، ج 8، ص 285 - 286 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 190 - 191 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 245 - 246 و....

ابو امامه سے روايت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّي اللّه عليه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسين عليه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئيل نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئيل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی اور کہا کہ یہ خاك اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غم کی حالت میں حسين علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پيغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔

التماس دعا ۔۔۔۔

 

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی