2024 March 19
امام ہادی (ع) کی زیارت غدیریہ کی سند کے بارے میں تحقیق
مندرجات: ٣٢١ تاریخ اشاعت: ٣١ March ٢٠١٧ - ١٦:١٣ مشاہدات: 3854
مضامین و مقالات » پبلک
امام ہادی (ع) کی زیارت غدیریہ کی سند کے بارے میں تحقیق

مقدمہ

حديث غدير حضرت علی(ع) کی امامت پر محکم ترين دليل ہے۔ حضرت علی (ع) کی امامت کو حدیث غدیر کی روشنی ميں بيان کرنا یہ تمام آئمہ (ع) کا وظیفہ اور فريضہ رہا ہے اور آئمہ (ع) مختلف طریقوں سے اس کام کو انجام دیتے رہے ہیں ۔ کبھی آئمہ حدیث غدیر کے ذریعے مخالفین عقیدہ امامت کے سامنے احتجاج کرتے رہے ہیں اورکبھی واقعہ غدیرکی شرح و تفصیل بیان کرتے رہے ہیں ۔حتی اپنی دعاؤں اور زیارات میں واقعہ غدیر کو ذکر و بیان کرتے رہے ہیں۔ امام ہادی(ع) کی زیارت غدیریہ ان میں سے ایک نمونہ ہے۔امام ہادی (ع) 18 ذی الحجہ کو مناسب فرصت جان کر حدیث غدیر کو دوبارہ بیان کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس دن امیر المومنین علی (ع) کی زیارت کرتے ہیں اور اسی مناسبت سے بہت سے حقائق کوواقعہ غدیر کے ضمن میں بیان کر رہے ہیں۔

اس زیارت کو سب سے پہلے محمد بن جعفر مشہدی نے اپنی کتاب المزار میں ذکر کیا ہے اور بعد میں آنے والے تمام محدثین نے اس زیارت کو اسی کتاب سے نقل کیا ہے۔

امام ہادی (ع) کی زیارت سند کے لحاظ سے بہت معتبر ہے۔ بعض محدثین نے فقط مشہدی کہ جو اس کتاب کا مؤلف اور زیارت کا ناقل ہے ، کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس زیارت کی سند پر اشکال کیا ہے۔

اسی وجہ سے پہلے اس تحریر میں اس زیارت کی سند کی تحقیق کے بارے میں اور خاص طور پر محمد بن المشہدی کی شخصیت اور کتاب المزار کے اس سے منسوب ہونے کے بارے میں تحقیق ہوئی ہے۔

 اب ہم زیارت کی سند کو تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اور پھر ایک ایک راوی کے حالات کو علم رجال کے روشنی میں بیان کرتے ہیں:

سند روايت

 (زيارة اخرى لمولانا أمير المؤمنين علي بن ابي طالب صلوات الله عليه مختصة بيوم الغدير)

 أَخْبَرَنِي الْفَقِيهُ الْأَجَلُّ أَبُو الْفَضْلِ شَاذَانُ بْنُ جَبْرَئِيلَ الْقُمِّيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ الْفَقِيهِ الْعِمَادِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ الطَّبَرِيِّ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ، عَنْ وَالِدِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ قُولَوَيْهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ بْنِ رُوحٍ وَ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْعَمْرِيِّ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا، وَ ذَكَرَ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ زَارَ بِهَا فِي يَوْمِ الْغَدِيرِ فِي السَّنَةِ الَّتِي أَشْخَصَهُالْمُعْتَصِمُ.

تَقِفُ عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ تَقُولُ: السَّلَامُ عَلَى مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ ... السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ‏ ...

المشهدي الحائري، الشيخ أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي (متوفى610هـ)، المزار، ص 263، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة : الأولى ، رمضان المبارك 1419هـ .

 بررسی سند روايت:

محمد بن جعفر المشہدی:

 

 المزار کتاب کے مؤلف کی شخصیت کے  بارے میں علما‏‏‏ء رجال کے درمیان مختلف آراء موجود ہیں:

آيت الله خوئی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:

لم يظهر إعتبار هذا الكتاب في نفسه فإن محمد ابن المشهدي لم يظهر حاله بل لم يعلم شخصه.

 اس کتاب کا معتبر ہونا واضح نہیں ہے کیونکہ محمد بن مشہدی کی حالت واضح نہیں ہے بلکہ اس کی شخصیت کو کوئی نہیں جانتا۔

الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفى1411هـ)، معجم رجال الحديث، ج 1 ص 51،الطبعة الخامسة، 1413هـ ـ 1992م

اس کتاب میں شک و تردید کی اصلی وجہ اس کتاب کے مؤلف کی شخصیت کا واضح نہ ہونا ہے اور اگر مؤلف کی شخصیت واضح ہو جائے تو کتاب کا معتبر ہونا خود بخود ثابت ہو جائے گا۔

لہذا ہم کتاب اور مؤلف دونوں کے معتبر ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

تمام مطالب کو ہم تین فصلوں میں بیان کریں گے:

فصل اول: کتاب المزار کے مؤلف کی شخصیت کے معتبر ہونے کے بارے میں تحقیق۔

فصل دوم:علماء امامیہ کے نزدیک کتاب المزار کا معتبر ہونا۔

فصل سوم: کتاب المزارکہ جو موجود ہے اس کا مقائسہ دوسرے نسخوں کے ساتھ ۔

 

فصل اول:

 کتاب المزار کے مؤلف کی شخصیت کے معتبر ہونے کے بارے میں تحقیق۔

  کتاب کا مؤلف  ابو عبد الله محمد بن جعفر بن علی ہے جو المشہدی اور ابن المشہدی کے نام سے بھی معروف ہے۔

بعض علماء امامیہ نے فقط اس کی کتاب المزار کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ بعض علماء امامیہ نے اسکو الامام السعید، محدث، صدوق کے القاب سے بھی یاد کیا ہے۔

سيد بن طاووس (رح)

علامہ مجلسی دوسری فصل کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ:

والمزار الكبير يعلم من كيفية أسناده أنه كتاب معتبر وقد أخذ منه السيدان ابنا طاوس كثيرا من الاخبار والزيارات.

 کتاب المزار کی اسناد کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب معتبر ہے۔ سید ابن طاووس اور ان کے بھائی کے بیٹے نے کافی ساری روایات کو اسی کتاب سے نقل و ذکر کیا ہے۔

المجلسي، محمد باقر (متوفى 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 1 ص 35.

علامہ مجلسی کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سید ابن طاووس کے نزدیک مشہدی معتبر ہے کیونکہ سید ابن طاووس کا اس کتاب سے روایات کو نقل کرنا اس مطلب پر دلیل ہے کہ ان کے نزدیک کتاب اور مؤلف ہر دو معتبر ہیں۔

 

شہيد اول (رح)

 علامہ مجلسی کے بیان کے مطابق شہید اول نے جو اجازت نامہ شمس الدين محمد بن الشيخ کو لکھا ہے اس میں مشہدی کو بہ عنوان:

 الشيخ الامام السعيد أبي عبد الله محمد بن جعفر المشهدي رحمه الله

 یاد کیا ہے۔

المجلسي، محمد باقر (متوفى 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 104 ص 197.

 

شہيد ثانی(رح)

شہيد ثانی نے جو اجازت نامہ شیخ بھائی کے والد کو لکھا ہے اس میں مشہدی کو «الشيخ السعيد أبي عبد الله محمد بن جعفر المشهدي» کے لقب سے یاد کیا ہے۔ 

الشهيد الثاني زين الدين بن علي العاملي، رسائل الشهيد الثاني، ج 2 ص 1125، تحقيق : رضا المختاري، چاپ : اول، 1422 - 1380 ش، ناشر : مركز النشر التابع لمكتب الإعلام الإسلامي - قم – ايران؛ بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج 105 ص 158

ميرزا حسين النوري الطبرسي، خاتمة المستدرك،‌ج 1 ص 362، تحقيق : مؤسسة آل البيت (ع) لإحياء التراث، چاپ : اول، 1415، ناشر : مؤسسة آل البيت (ع) لإحياء التراث - قم - ايران

 

صاحب  کتاب وسائل الشیعہ (رح)

شيخ حر عاملی، مشہدی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

الشيخ محمد بن جعفر المشهدي كان فاضلا محدثا صدوقا له كتب يروي عن شاذان بن جبرئيل القمي.

محمد بن جعفر مشہدی ایک فاضل، محدث اور سچے انسان تھے۔ اس کی کافی ساری کتب ہیں کہ وہ شاذان بن جبرائیل سے روایات نقل کرتے ہیں۔

الحر العاملي، الشيخ محمد بن الحسن (متوفي1104ه)، أمل الآمل، ج 2 ص 253، تحقيق: السيد احمد الحسيني،‌ ناشر: مكتبة الأندلس - بغداد، چاپخانه: الآداب - النجف الأشرف

 

آقا بزرگ طہرانی(رح)

 آقا بزرگ طہرانی جب شیخ طوسی(رح) کی کتاب الاستبصار کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں مشہدی اور اسکی کتاب المزار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

وقد طبع [الاستبصار للشيخ الطوسي] بالهند وفي إيران والنسخة المقابلة بخط الشيخ الطوسي توجد في خزانة كتب الشيخ هادي آل كاشف الغطاء لكنها ليست تامة بل الموجود من أول الكتاب إلى آخر كتاب الصلاة بخط الشيخ جعفر بن علي بن جعفر المشهدي والد الشيخ محمد ابن جعفر المشهدي مؤلف المزار المشهور بمزار محمد ابن المشهدي.

 شیخ طوسی(رح) کی کتاب الاستبصار ہند اور ایران میں چھپی ہے۔ وہ نسخہ کہ جو شیخ طوسی(رح) کی لکھی ہوئی لکھائی سے مقائسہ ہوا ہے،شیخ ہادی آل کاشف الغطاء کے کتاب خانے میں موجود ہے۔ یہ نسخہ کامل نہیں ہے بلکہ کتاب صلاۃ کی ابتداء سے لے کر آخر تک موجود ہے کہ جو کتاب المزار کے مؤلف کے والد کے ہاتھوں سے لکھا ہوا ہے۔

 آقا بزرگ الطهراني(متوفي 1389هـ)، الذريعة إلى تصانيف الشيعة، ج 2 ص 15، الطبعة الثانية، دار الأضواء بيروت.

سيد محسن امين (رح)

 اعیان الشیعہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ:

 

أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي بن جعفر المشهدي الحائري المعروف بمحمد بن المشهدي شيخ جليل متبحر محدث صدوق هو صاحب كتاب المزار المشهور بمزار محمد ابن المشهدي والمزار الكبير.

 ابوعبد الله محمد بن جعفر بن علي جعفر مشهدي حائري کہ جو محمد بن المشہدی کے نام سے بھی معروف ہیں، شیخ بزرگ، ماہر فن، محدّث راستگو ہیں۔ وہ کتاب المزار کے مصنف ہیں کہ جو مزار محمد بن المشہدی اور مزار کبیر کے نام سے مشہور ہے۔

الأمين، السيد محسن (متوفي1371هـ)، أعيان الشيعة، ج 9 ص 202، تحقيق وتخريج: حسن الأمين،  ناشر: دار التعارف للمطبوعات - بيروت – لبنان، سال چاپ : 1403 - 1983 م

 

فصل دوم:

علماء امامیہ کے نزدیک کتاب المزار کا معتبر ہونا:

علماء امامیہ کی کتب کے مطالعے اور تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ المشہدی  کی کتاب المزار ان کے نزدیک قابل اعتماد اور معتبر ہے۔ چند نمونے ذکر کیے جا رہے ہیں:

 

سيد ابن طاووس  اور انکے بھائی کا بیٹا:

سید ابن طاووس کہ جو مشہدی کے ہم عصر ہیں اور اسی طرح انکے بھائی کا بیٹا سید عبد الکریم بن طاووس نے بقول علامہ مجلسی کافی ساری روایات کو کتاب المزار سے نقل کیا ہے اور یہ بہترین دلیل ہے کہ ان دونوں کے نزدیک یہ کتاب معتبر اور قابل اعتماد ہے۔

علامہ مجلسی رحمۃ الله عليہ لکھتے ہیں کہ:

الفصل الأول: في بيان الأصول والكتب المأخوذ منها وهي ... كتاب كبير في الزيارات تأليف محمد بن المشهدي كما يظهر من تأليفات السيد ابن طاوس واعتمد عليه ومدحه وسميناه بالمزار الكبير.

فصل اول ان اصولوں اور کتب کے بارے میں ہے کہ بحار الانوار کی روایات کو ان سے لیا گیا ہے، ان کتب میں سے ایک کتاب بزرگ ہے کہ جو زیارات کے بارے میں لکھی گئی ہے،وہ محمد بن مشہدی کی کتاب المزار ہے جیسا کہ سید ابن طاووس کی تالیفات، انکے اعتماد اور انکی تعریف سے ظاہر ہوتا ہے اور ہم نے اس کتاب کا نام مزار کبیر رکھا ہے۔

المجلسي، محمد باقر (متوفى 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 1 ص 18.

علامہ مجلسی کتاب بحار کے دوسرے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ:

 والمزار الكبير يعلم من كيفية أسناده أنه كتاب معتبر وقد أخذ منه السيدان ابنا طاوس كثيرا من الاخبار والزيارات.

کتاب المزار کی اسناد کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب معتبر ہے۔ سید ابن طاووس اور ان کے بھائی کے بیٹے نے کافی ساری روایات کو اسی کتاب سے نقل و ذکر کیا ہے۔

المجلسي، محمد باقر (متوفى 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 1 ص 35.

 نمونہ اول:

سيد عبد الکريم بن طاووس نے کتاب «فرحة الغَري» میں امام ہادی(ع) کی زيارت غديريہ کو اسی سند و متن کے ساتھ ذکر کیا ہے جس سند و متن کے ساتھ مشہدی نے کتاب المزار میں ذکر کیا ہے:

وأخبرني والدي وعمي( رضي الله عنه) عن محمد بن نما عن محمد بن جعفر [المشهدي] عن شاذان بن جبرئيل القمي ( رضي الله عنه ) عن الفقيه العماد بن محمد بن القاسم الطبري عن أبي علي عن والده محمد بن الحسن الطوسي عن الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان عن أبي القاسم جعفر بن قولويه عن محمد بن يعقوب الكليني عن علي بن إبراهيم عن أبيه عن أبي القاسم بن دوخ [روح] وعثمان بن سعيد العمري عن أبي محمد الحسن بن علي العسكري عن أبيه صلوات الله عليه  وذكر انه عليه السلام زار بها في يوم الغدير في السنة التي أشخصه فيها المعتصم ...

ابن طاووس، السيد عبد الكريم، فرحة الغري، ص 136، الناشر : مركز الغدير للدراسات الإسلامية

نکتہ کہ جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ مؤلف نے اس روایت کو اپنے چچا سے نقل کیا ہے اور ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ چچا وہی ابن طاووس معروف و مشہور ہیں۔

نمونہ دوم: 

«فرحة الغری» کے مؤلف ایک جگہ ایسے ذکر کرتے ہیں کہ:

وذكر محمد المشهدي في مزاره أن الصادق عليه السلام علم محمد بن مسلم الثقفي هذه الزيارة: إذا أتيت مشهد أمير المؤمنين عليه السلام فاغتسل غسل الزيارة ...

ابن طاووس، السيد عبد الكريم، فرحة الغري، ص 120، الناشر : مركز الغدير للدراسات الإسلامية

نمونہ سوم:

 تو دوسری جگہ ایسے لکھتے ہیں:

وذكر محمد بن المشهدي في مزاره ما صورته ...

ابن طاووس، السيد عبد الكريم، فرحة الغري، ص 123، الناشر : مركز الغدير للدراسات الإسلامية

لہذا معلوم ہوا کہ:

1-کتاب المزار سید ابن طاووس اور ان کے بھائی کے بیٹے کے پاس موجود تھی۔

2- انکو کتاب کے مؤلف کے بارے میں علم تھا۔

3- ان دونوں کے نزدیک کتاب المزار قابل اعتماد تھی۔

آيت الله وحيد خراسانی کی رائے شاید مشہدی کی کتاب المزار کے بارے میں شاید انہی نکات کی روشنی میں ہو:

اعتمادنا على المزار للمشهدي نتيجة لاعتماد السيد عبد الكريم بن طاووس وولده عليه.

ہمارا مشہدی کی کتاب المزار پر اعتماد سید عبد الکریم اور اسکے بیٹے کے اعتماد کی وجہ سے ہے۔

 

صوم عاشوراء بين السنة النبوية والبدعة الأموية - الشيخ نجم الدين الطبسي - ص 48 [پاورقي]

 

شيخ حر عاملی(رح)

جیسا کہ شیخ حر عاملی رحمۃ اللہ کی کتاب وسائل الشیعہ کے خاتمے سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے پاس بعض معتبر کتب موجود نہیں تھیں لیکن بعض دوسری معتبر کتب کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ مشہدی کی کتاب المزار میرے نزدیک معتبر ہے۔

وأما الكتب المعتمدة التي نقلنا منها بالواسطة ولم تصل إلينا ولكن نقل منها الصدوق والشيخ وغيرهم فهي كثيرة جدا ونحن نذكر هنا جملة مما صرحوا باسمه عند النقل منه ونقلنا نحن عنهم عنه : فمن ذلك كتاب المزار لمحمد بن المشهدي

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفى1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج 30 ص 161، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ.

 

محدث نوری(رح)

 محدث نوری مشہدی کی کتاب کو مورد اعتماد اصحاب کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:

الشيخ الجليل السعيد المتبحر أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي بن جعفر المشهدي الحائري المعروف بمحمد بن المشهدي وابن المشهدي مؤلف المزار المشهور الذي اعتمد عليه أصحابنا الأبرار.

شیخ بزرگوار، ماہر فن ابو عبد الله محمد بن جعفر مشہدی حائری کہ محمد بن المشہدی و ابن المشہدی کے نام سے بھی مشہور ہے، جو  صاحب کتاب مشہور «المزار» ہے، مورد اعتماد اصحاب ہے۔

 الطبرسي، ميرزا الشيخ حسين النوري (متوفي1320هـ) خاتمة المستدرك، ج 3 ص 19، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - قم – ايران، الطبعة الاولي 1415

سيد محسن امين (رح)

کتاب اعیان الشیعہ کے مصنف جب مشہدی اور انکی کتاب کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ مورد اعتماد اصحاب حدیث ہے:

محمد بن جعفر بن علي بن جعفر المشهدي صاحب كتاب المزار اعتمد عليه الأصحاب.

محمد بن جعفر مشہدی صاحب کتاب «المزار» کی کتاب مورد اعتماد اصحاب حدیث ہے۔

الأمين، السيد محسن (متوفي1371هـ)، أعيان الشيعة، ج 9 ص 202، تحقيق وتخريج: حسن الأمين،  ناشر: دار التعارف للمطبوعات - بيروت – لبنان، سال چاپ : 1403 - 1983 م

 

نمازی شاہرودی(رح)

کتاب مستدرکات علم رجال حدیث کے مصنف لکھتے ہیں کہ:

 محمد بن جعفر بن علي بن جعفر المشهدي الحائري ... مؤلف المزار الكبير المشهور المعتمد عند الأصحاب.

محمد بن جعفر مشہدی حائری کہ جو کتاب المزار الکبیر کے مصنف ہیں، انکی کتاب مورد اعتماد اصحاب ہے۔

الشاهرودي، الشيخ علي النمازي (متوفي1405هـ)، مستدركات علم رجال الحديث،  ج 6 ص 499، ناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق – طهران، الأولى1412هـ

فصل سوم:

کتاب المزار کہ جو اب موجود ہے اس کا مقائسہ دوسرے نسخوں کے ساتھ :

ایران میں کتاب المزار کا فقط ایک نسخہ موجود ہے جو آیۃ اللہ مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے کتاب خانے میں موجود ہے۔  قيومی اصفہانی نے اسی نسخے پر تحقیق کی ہے اور شائع کیا ہے اور یہی کتاب نجف کے چند کتاب خانوں میں موجود ہے۔

سید عبد الکریم بن طاووس رحمۃ اللہ علیہ کہ جو ابن مشہدی کے زمانے کے نزدیک تھے اپنی کتاب الفرحۃ الغری میں جن چند مطالب کو کتاب المزار سے نقل کرتے ہیں ان میں سے ایک یہی زیارت غدیریہ امام ہادی علیہ السلام ہے کہ جو نسخہ موجود کے مطابق ہے۔

ابن طاووس، السيد عبد الكريم، فرحة الغري، ص 136، الناشر : مركز الغدير للدراسات الإسلامية

آقا بزرگ تہرانی رحمۃ اللہ علیہ جب مشہدی کی کتاب المزار کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ کتاب نجف کے کتاب خانوں میں موجود ہے۔ انکی عبارت ایسے ہے:

 

الحمد لله القديم احسانه الظاهر امتنانه ... فانى قد جمعت في كتابي هذا من فنون الزيارات للمشاهد ...

وہ خطبہ جو آقا بزرگ تھرانی نے کتاب المزار مشہدی سے نقل کیا ہے اس کتاب المزار سے کہ جو ایران میں موجود ہے، ایک ہی ہے۔

محدث نوری اپنی کتاب المستدرک ج 10 صفحہ 364 حدیث نمبر 12190 میں مشہدی کی کتاب المزار کا ذکر کرتے ہیں یہ جس سند کو ذکر کرتے ہیں اس میں اور وہ سند جو نسخہ جو اب موجود ہے، کوئی فرق نہیں ہے۔

علامہ مجلسی نے بحار الاانوار میں کافی سارے مطالب کو کتاب المزار سے نقل کیا ہے۔ مطالب ذکر شدہ کہ جو نسخے میں موجود ہیں، وہ اس نسخے کے ساتھ کہ کتاب خانہ آیۃ اللہ مرعشی میں موجود ہے کوئی فرق نہیں ہے۔

لہذا کتاب کا خطبہ، مؤلف کے اساتذہ، اور بعض روایات کی سند کہ جو نسخہ موجود میں مذکور ہیں، ان کا دوسرے نسخوں میں مذکور روایات کی سند سے کوئی فرق نہیں ہے۔

خود یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب المزار کا وہی نسخہ ہے جو گذشتہ علماء کے پاس موجود تھا۔ یہی بات اس مطلب کو بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ نسخہ جو المزار کا ابھی موجود ہے معتبر اور قابل اعتماد ہے۔

شاذان بن جبرئيل قمی

مشہدی اپنی کتاب المزار کے مقدمے میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے  ان روایات کو ثقہ راویوں سے نقل کیا ہے۔

 [ فَإِنِّي قَدْ جَمَعْتُ فِي كِتَابِي هَذَا مِنْ فُنُونِ الزِّيَارَاتِ ... مِمَّا اتَّصَلَتْ بِهِ مِنْ ثِقَاتِ الرُّوَاة].

مؤلف کی کے مطابق، اسکے استاد شاذان بن جبرئیل ثقہ ہیں۔ اس کے علاوہ شہید اول نے اپنی کتاب ذکری میں ان کو با عبارت «من أجلاء فقهائنا» یاد کیا ہے۔

العاملي الجزيني، محمد بن جمال الدين مكي، الشهيد الأول (متوفي786 ه‍ ـ) ذكرى الشيعة في أحكام الشريعة، ج 3 ص 164، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث – قم، الطبعة الأولى 1419

 

محمد بن ابی القاسم الطبری

یہ بھی مشہدی کے بلا واسطہ راویوں میں سے ہیں اور وہ ان سے امام حسین علیہ السلام کی روز عاشورا زیارت کے بارے میں روایت کو نقل کرتا ہے۔

 

المشهدي الحائري، الشيخ أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي (متوفى610هـ)، المزار، ص 473، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة : الأولى ، رمضان المبارك 1419هـ .

ابن مشہدی کے گذشتہ مذکور مقدمے کے مطابق طبری کا ثقہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ اسکے علاوہ شیخ منتجب الدین کتاب فہرست میں کہتے ہیں کہ:

الشيخ الامام عماد الدين محمد بن ابى القاسم الطبري الاملي الكجى فقيه، ثقة.

عماد الدین محمد بن ابی القاسم طبری فقیہ اور مورد اطمینان ہیں۔

 الرازي، منتجب الدين بن بابويه (متوفي585هـ)، فهرست منتجب الدين، ص 107، تحقيق: سيد جلال الدين محدث الأرموي، ناشر: مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي، توضيحات: بإهتمام: محمد سمامي حائري / إشراف: السيد محمود المرعشي، چاپخانه: مهر – قم، چاپ: 1366 ش

 

ابوعلی، حسن بن محمد (رح)

  اس کے بعد والے راوی ابوعلی حسن بن محمد طوسی، شيخ طوسی کے بیٹے ہیں. منتجب الدين انکے بارے میں کہتے ہیں کہ:

الشيخ الجليل أبو على الحسن بن الشيخ الجليل الموفق ابى جعفر محمد بن الحسن الطوسى فقيه، ثقة.

شیخ بزرگوار ابو علی فرزند ابو جعفر طوسی، فقیہ اور مورد اطمینان ہیں۔

الرازي، منتجب الدين بن بابويه (متوفي585هـ)، فهرست منتجب الدين، ص 46، تحقيق: سيد جلال الدين محدث الأرموي، ناشر: مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي، توضيحات: بإهتمام: محمد سمامي حائري / إشراف: السيد محمود المرعشي، چاپخانه: مهر – قم، چاپ: 1366 ش

سید ابن طاووس نے کتاب الیقین میں انکو «الشيخ المفيد» کے عنوان سے یاد کیا ہے۔

ابن طاووس الحلي،‌ السيد رضي الدين علي (متوفي664هـ)، اليقين باختصاص مولانا علي (عليه السلام) بإمرة المؤمنين،‌ ص 280، تحقيق: الأنصاري،‌ ناشر: مؤسسة دار الكتاب (الجزائري)، چاپ: الأولى1413

مجلسی اول  نے کتاب روضۃ المتقين میں انکو «الشيخ الجليل الفقيه النبيه» کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔

 

المجلسي، محمد تقي (متوفي1070هـ)، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، ج 1 ص 24، محقق / مصحح: موسوى كرمانى، حسين و اشتهاردى على پناه‏، ناشر: مؤسسه فرهنگى اسلامى كوشانبور، مكان چاپ: قم‏، سال چاپ: 1406 ق‏

 

شيخ طوسی (رح)

  اس کے بعد والے راوی شيخ طوسی ہیں۔ انکی شان و مرتبہ کسی عالم امامی پر مخفی نہیں ہے۔ علامہ حلی  انکی شخصیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ:

محمد بن الحسن بن علي الطوسي أبو جعفر شيخ الامامية قدس الله روحه، رئيس الطائفة، جليل القدر، عظيم المنزلة، ثقة عين، صدوق.

محمد بن حسن طوسی، ابوجعفر، مذہب امامیہ کے بزرگ عالم ایک بلند مرتبہ، قابل اعتماد اور سچے انسان تھے۔

 

الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ) خلاصة الأقوال في معرفة الرجال، ص 249، تحقيق: فضيلة الشيخ جواد القيومي، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

 

شيخ مفيد (رح)

اس کے بعد والے راوی شيخ مفيد  ہیں۔ ان کا بلند مرتبہ ہونا  علماء امامیہ کے نزدیک معروف و مشہور ہے۔ نجاشی انکے بارے میں لکھتا ہے کہ:

محمد بن محمد بن النعمان ... شيخنا واستاذنا فضله أشهر من أن يوصف في الفقه والكلام والرواية والثقة والعلم.

محمد بن محمد بن نعمان۔۔۔ ہمارے استاد ہیں۔ انکی فضیلت علم فقہ، علم کلام، علم روایت میں اور ان کا ثقہ ہونا اس سے بالا تر ہے کہ بیان کیا جا سکے۔

 

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 399 الي 401، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

ابن قولويہ (رح)

بعد والے راوی ابن قولویہ رحمۃ اللہ ہیں۔ یہ وہی کتاب کامل الزیارات کے مصنف ہیں۔ ان کا علمی مقام و مرتبہ خود ان سے ہی خاص ہے۔ نجاشی ان کی شخصیت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ:

جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه أبو القاسم ... من ثقات أصحابنا وأجلائهم في الحديث والفقه ... وكل ما يوصف به الناس من جميل وثقة وفقه فهو فوقه

جعفر بن محمد بن قولويہ ابوالقاسم، اصحاب حدیث و فقہ کے نزدیک مورد اعتماد و وثوق افراد میں سے ہیں۔ جو کوئی بھی دوسرے علماء کی وثاقت اور فقاہت کی تعریف کرتا ہے، یہ ان سب سے بالا تر ہیں۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 123، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

 شیخ کلينی (رح)

شیخ کلینی صاحب کتاب الکافی بعد والے راوی ہیں۔ ان کا علمی مرتبہ قابل بیان نہیں ہے۔ نجاشی بہترین الفاظ کے ساتھ ان کے مقام کو بیان کر رہے ہیں:

محمد بن يعقوب بن إسحاق أبو جعفر الكليني شيخ أصحابنا في وقته بالري ووجههم وكان أوثق الناس في الحديث وأثبتهم.

محمد بن یعقوب کلینی عالم بزرگ مذہب امامیہ شہر رے میں رہتے تھے۔ وہ احادیث کو حفظ کرنے کے لحاظ سے موثق ترین اور دقیق ترین محدث تھے۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 377، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

 

علی بن ابراہيم (رح)

علی بن ابراہیم بعد والے راوی ہیں۔ نجاشی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ:

 

علي بن إبراهيم بن هاشم ثقة في الحديث ثبت معتمد صحيح المذهب.

علی بن ابراہیم حدیث میں  مورد اعتماد ہیں۔ وہ ایک ثابت قدم، مورد اطمینان اور صحیح مذہب والے انسان ہیں۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 260، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

ابراہيم بن ہاشم (رح)

بعد والے راوی ابراہیم بن ہاشم ہیں۔ آیۃ اللہ خوئی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

 لا ينبغي الشك في وثاقة إبراهيم بن هاشم ويدل على ذلك عدة أمور: الاول: أنه روى عنه ابنه علي في تفسيره كثيرا وقد التزم في أول كتابه بأن ما يذكره فيه قد انتهى إليه بواسطة الثقات. الثاني:أن السيد ابن طاووس ادعى الاتفاق على وثاقته. الثالث: أنه أول من نشر حديث الكوفيين بقم والقميون قد اعتمدوا على رواياته وفيهم من هو مستصعب في أمر الحديث فلو كان فيه شائبة الغمز لم يكن يتسالم على أخذ الرواية عنه وقبول قوله.

کسی قسم کا شک ابراہیم بن ہاشم کے ثقہ ہونے میں نہیں ہے دلیل یہ ہے کہ:

اولا: انکے فرزند علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ان سے روایت کو نقل کیا ہے اور وہ پابند ہیں کہ فقط ثقہ افراد سے اپنی تفسیر میں روایت کو نقل کریں۔

ثانیا: سید بن طاووس نے دعوی کیا ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کا ثقہ ہونا اجماعی ہے۔

ثالثا: وہ سب سے پہلے راوی تھے کہ جہنوں نے احادیث اہل بیت علیہم السلام کو شہر قم میں لایا اور اہل قم کو انکی روایات پر اعتماد تھا حالانکہ اہل قم میں ایسے افراد ہی تھے جو نقل حدیث میں بہت سختی سے کام لیتے تھے اور اگر وہ لوگ ان کو مورد اعتماد نہ سمجھتے تو ہر گز انکی احادیث انکے نزدیک مورد قبول نہ ہوتیں۔

 

الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفى1411هـ)، معجم رجال الحديث ج 1 ص 291، الطبعة الخامسة، 1413هـ ـ 1992م

عثمان بن سعيد و ابوالقاسم بن روح (رح)

اس طبقے میں دو راوی موجود ہیں کہ ہر دو امام مہدی علیہ السلام کی غیبت صغری کے زمانے کے نائب ہیں۔ شيخ طوسی عثمان بن سعيد کے مقام کو ایسے بیان کر رہے ہیں:

عثمان بن سعيد العمري الزيات ... جليل القدر ثقة وكيله عليه السلام.

الطوسي أبى جعفر محمد بن الحسن، الأبواب ( رجال الطوسي ) ص 401 ،‌ تحقيق : جواد القيومي الإصفهاني، چاپ : الأولى، 1415، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة

عثمان بن سعيد عَمری، ایک بلند مرتبہ انسان، مورد اطمینان اور امام مہدی علیہ السلام کے وکیل تھے۔ آيۃ الله خوئی ابوالقاسم بن روح کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

الحسين بن روح: النوبختي أبو القاسم: هو أحد السفراء و النواب الخاصة، للإمام الثاني عشر (عجل الله تعالى فرجه) و شهرة جلالته و عظمته أغنتنا عن الإطالة في شأنه.

حسین بن روح نو بختی، امام زمان علیہ السلام کے خاص نائبوں میں سے ہیں۔ انکی شخصیت کی شہرت اور عظمت بیان کرنے سے بے نیاز ہے۔

الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفى1411هـ)، معجم رجال الحديث ج 5 ص 236، الطبعة الخامسة، 1413هـ ـ 1992م

خلاصہ کلام:

تمام گذشتہ مطالب سے استفادہ ہوتا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کی زیارت غدیریہ کی اسناد کا سلسلہ بہت قوی اور گرانبھا ہے۔ محمد بن مشہدی بھی بہت سے قرائن کی روشنی میں ایک مورد اطمینان انسان ہے اور اسکی کتاب بھی  علماء امامیہ کے نزدیک مورد اعتماد ہے۔

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی