2024 April 26
فدک آنحضرت [ص] کی ذاتی ملکیت تھا !
مندرجات: ٢١٧٩ تاریخ اشاعت: ٢٧ December ٢٠٢١ - ١٨:٣٣ مشاہدات: 2358
مضامین و مقالات » پبلک
فدک آنحضرت [ص] کی ذاتی ملکیت تھا !

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت ۔

فدک سے باقی ورثاء  کی وراثت کہاں گئی؟

بعض کہتے ہیں کہ اگر فدک وراثت کے عنوان سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا حق ہےتو کیا آپ تنہا وارث تھیں ؟ کیا ازواج کا اس میں کوئی حق نہیں دیا ؟

اگر ھبہ کے عنوان سے آپ کا حق تھا تو کیسے ہوسکتاہے کہ آپ نے اتنے وسیع و عریض اور زرخیز  زمین صرف اپنی بیٹی کو بخش دیا ہو ؟

کیا اس میں دوسرے مسلمانوں کا حق نہیں تھا؟

مندرجہ بالا شبھات اور سوالوں کے جواب دینے کے لئے کچھ بنیادی نکات ۔

  فدک آنحضرت [ص] کی ذاتی ملکیت تھا !

جیساکہ فدک کے بارے میں مشہور نظریہ یہی ہے کہ یہ مال فئی میں سے ہے ۔فئی کے بارے میں اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : 

 (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيهِ مِنْ خَيلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ)

اور اے مسلمانو جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے جنگ کے بغیر دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اسکے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ۔۔

جو مال اللہ نے اپنے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے وہ اللہ کے اور پیغمبر کے اور پیغمبر کے قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے اور جو چیز تم کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  دیں وہ لے لو اور جس چیز منع کریں اس سے باز رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

فدک کا رسول اللہ[ص] سے ہی مخصوص ہونے پر اہل سنت کے بہت سے علماﺀ کا اعتراف۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بہت سے علماﺀ نے واضح طور پر اس چیز کا اعتراف کیا ہے کہ فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مخصوص مال تھا یہ اس عنوان سے مال فئی کا حصہ نہیں تھا کہ جس میں دوسرے مسلمانوں کا بھی حق ہو اور آپ کسی کو دیتے اور کسی کام پر اس کو خرچ کرتے تو یہ بلکل ایسا تھا جیسا آپ کا اپنا ذاتی مال ہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ جس طرح سے حاکم اسلامی بیت المال کو اپنے صلاح دید کے مطابق خرچ اور صرف کرتے۔

جیساکہ مشہور مورخ طبری نے لکھا ہے :

 «فكانت خيبر فيئا للمسلمين وكانت فدك خالصة لرسول الله لأنهم لم يجلبوا عليها بخيل ولا ركاب»

خیبر مال فئی اور مسلمانوں کا ہے لیکن فدک آپ سے مخصوص ہے کیونکہ مسلمانوں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔

 تاريخ الطبري؛ اسم المؤلف: لأبي جعفر محمد بن جرير الطبري الوفاة: 310، دار النشر: دار الكتب العلمية – بيروت، ج2، ص138

امام الذهبي نے بھی یہی کہا ہے :

«وكانت فدك خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم لأن المسلمين لم يجلبوا عليها بخيل ولا ركاب»

تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام؛ اسم المؤلف: شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ، دار النشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ج2، ص422

مشہور مفسر البغوي نے بھی لکھا ہے :

«وكانت فدك خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم لأنهم لم يجلبوا عليها بخيل ولا ركاب»

تفسير البغوي؛ اسم المؤلف: البغوي الوفاة: 516، دار النشر: دار المعرفة - بيروت، تحقيق: خالد عبد الرحمن العك، ج4، ص197 (براساس نرم افزار الجامع الکبیر)

«ماوردی نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے »

«لما سمع أهل فدك ما فعل بأهل خيبر بعثوا إلى رسول الله أن يحقن دماءهم، ويسيرهم ويخلوا له أموالهم و صارت فدك خالصة لرسول الله، لأنه أخذها بلا إيجاف خيل ولا ركاب، فكانت فيئا له، وكانت خير غنيمة للمسلمين»

الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني؛ اسم المؤلف: علي بن محمد بن حبيب الماوردي البصري الشافعي الوفاة: 450، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان - 1419 هـ -1999 م، الطبعة: الأولى،تحقيق: الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود،ج14، ص55،

«صاحب بدایع الصنایع اس سلسلے میں لکھتا ہے :

«وَلِهَذَا كانت فَدَكُ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ إذْ كانت لم يُوجِفْ عليها الصَّحَابَةُ رضي اللَّهُ عَنْهُمْ من خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ»۔۔

«وَيَحْقِنَ دِمَاءَهُمْ وَيُخَلُّوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَمْوَالِهِمْ بَعَثُوا إلَى رسول اللَّهِ وَصَالَحُوهُ على النِّصْفِ من فَدَكَ فَصَالَحَهُمْ عليه الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ على ذلك»..

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخصوص ہے کیونکہ اس کو حاصل کرنے  کے لئے اصحاب نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ۔

اہل فدک نے اپنے خون اور امول کی حفاظت کی خاطر کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاں روانہ کیا اور ان لوگوں نے فدک کے آدھے حصے کے لئے آپ سے صلح کی اور آپ نے ان کے ساتھ اسی پر صلح کر دیا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع؛ اسم المؤلف: علاء الدين الكاساني الوفاة: 587، دار النشر: دار الكتاب العربي - بيروت - 1982، الطبعة: الثانية، ج7، ص116

کتاب كتاب الأموال کے مصنف نے لکھا ہے :

وأما فدك فكانت على ما جاء فيها من الصلح فلما أخذوا قيمة بقية أرضهم خلصت كلها لرسول الله ولهذا تكلم العباس وعلى عليهما السلام فيها»

كتاب الأموال؛ اسم المؤلف: أبو عبيد القاسم بن سلام الوفاة: 224هـ. ، دار النشر: دار الفكر.  - بيروت.  - 1408هـ - 1988م. ، تحقيق: خليل محمد هراس، ج1، ص16

صاحب معجم البلدان نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

فهي مما لم يوجف عليه بخيل ولا ركاب فكانت خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم ... وهي التي قالت فاطمة رضي الله عنها إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نحلنيها»

معجم البلدان؛ اسم المؤلف: ياقوت بن عبد الله الحموي أبو عبد الله الوفاة: 626، دار النشر: دار الفكر – بيروت، ج 4، ص 238

«المختصر فی اخبار البشر» میں کہا ہے :

«وفعل ذلك أهل فدك فكانت خيبر للمسلمين، وكانت فدك خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم لأنها فتحت بغير إيجاف خيل »

الكتاب: المختصر في أخبار البشر- المؤلف: أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي بن محمود بن محمد ابن عمر بن شاهنشاه بن أيوب، الملك المؤيد، صاحب حماة (المتوفى: 732هـ)- الناشر: المطبعة الحسينيةالمصرية.ج1، ص140

جیساکہ خلیفہ دوم نے بھی اموال بنی نضیر کے بارے میں یہی نقل کیا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخصوص اموال میں سے تھے۔

   حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً۔۔

کتاب صحیح بخاری میں باب الجھاد والسیر  حدیث نمبر 4885  ۔کتاب صحیح بخاری باب تفسیر سورت الحشر حدیث نمبر 2904

 خلیفہ دوم جناب عمر سے نقل ہوا ہے :   مال بنو نضیر میں سے جو اللہ نے اپنے  رسول ص کو عنایت کیا مسلمانوں نے اونٹ گھوڑے نہ دوڑائے ہو وہ مال رسول اللہ ص کی خاص ملکیت ہے ۔

لہذا اس قسم کے مال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت ہیں۔

  آنحضرت نے فدک کو کیوں صرف اپنی بیٹی کو بخش دیا ؟

   پہلا جواب :

جیساکہ قرآن مجید نے مال فئی کے بارے میں یہی فرمایا کہ یہ اللہ کے رسول کے اختیار میں ہے وہ جس کو دینا چاہئے دئے سکتے ہیں۔ کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے ۔۔۔

 «الناس مسلطون علی أموالهم»لوگ اپنے اموال پر مسط  اور صاحب اختیار ہیں جس کو دینا چاہئے دئے سکتے ہیں . المبسوط – الشیخ الطوسی، جلد 3، صفحه 272.

دوسرا جواب : 

رسول اللہ [ص] کا ہر عمل وحی کے تابع ہے ! «اتَّبِعْ ما أُوحِی إِلَیک مِنْ رَبِّک» جو آپ پر وحی نازل ہوئی ہے اس کی اتباع کرو . سوره انعام (6): آیه 106

 وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ  [سورہ النجم آیت ۳،۴ ]

اور نہ یہ خواہش نفس سے کچھ بولتے ہیں۔

 إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۔ [سوره احقاف آیه 9]

میں اسی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ  پر وحی ہو۔۔

خود نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے :

 :«إنی لا أقول فی الغضب و الرضا إلا حقا»: میں چاہئے خوشی کی خالت میں ہو یا غم کی حالت میں ،سوائ حق کے کچھ نہیں بولتا ۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری، اسم المؤلف: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی، دار النشر: دار المعرفة - بیروت، تحقیق: محب الدین الخطیب، جلد 8، صفحه 133.

تیسرا جواب  : 

رسول اللہ [ص] کے حکم کے آگے تسلیم رہنا ایمان کی نشانی ہے ! قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے :

(وَ ما کانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَی اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ یکونَ لَهُمُ الْخِیرَةُ مِنْ أَمْرِهِم): 

اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی بات طے کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے وہ بالکل گمراہ ہو گیا۔

سوره احزاب (33): آیه 36

چوتھا جواب : 

آپ پر اعتراض منافقانہ کام ہے !

جن لوگوں نے آپ کے کسی فیصلے اور تقسیم پر اعتراض کیا یہ کام قرآن کی نگاہ میں منافقانہ کام ہے  «جیساکہ صحیح بخاری میں جنگ حنین کے سلسلے میں نقل ہوا ہے ؛

ایک منافق نے آگے آکر بے ادبی سے کام لیا اور کہا :

«والله إِنَّ هذه الْقِسْمَةَ ما عُدِلَ فيها وما أُرِيدَ بها وَجْهُ اللَّهِ فقلت والله لَأُخْبِرَنَّ النبي فَأَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ...۔۔۔۔  فَمَنْ يَعْدِلُ إذا لم يَعْدِلْ الله وَرَسُولُهُ۔

صحیح بخاری ،كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ 19. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔ حدیث نمبر: 3150

حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (غنیمت کی) تقسیم میں بعض لوگوں کو زیادہ دیا۔ جیسے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دئیے، اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصین کو دئیے اور کئی عرب کے اشراف لوگوں کو اسی طرح تقسیم میں زیادہ دیا۔ اس پر ایک شخص (معتب بن قشیر منافق) نے کہا، کہ اللہ کی قسم! اس تقسیم میں نہ تو عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نہ اللہ کی خوشنودی کا خیال ہوا۔ ۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول بھی عدل نہ کرے تو پھر کون عدل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ ان کو لوگوں کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے صبر کیا۔

پانچواں جواب :

 پیغمبر [ص] نے فدک کے علاوہ دوسرے امول کو دوسروں کی بخش دیا !

«کانت بنو النضیر خالصة لرسول الله»: اموال بنی نضیر پیغمبر [ص] کے اموال میں سے ہیں

«فقسمها بین المهاجرین»: آپ نے اس کو مہاجرین کے درمیان تقسیم کیا .

«و لم یعط أحدا من الأنصار منها شیئا، إلا سهل بن حنیف وسماک بن خرشة أبا دجانة فإنهما کانا محتاجین فأعطاهما»: انصار میں سے صرف سهل بن حنیف  اور سماک بن خرشه کو ضرورت مند ہونے کی وجہ سے دیا ،باقی کسی انصار کو کچھ نہیں دیا ۔

السير الكبير، اسم المؤلف: محمد بن الحسن الشيباني، دار النشر: معهد المخطوطات - القاهرة ، الطبعة: تحقيق: د. صلاح الدين المنجد؛ ج2، ص 608۔

 

چھٹا جواب :

فدک کے سلسلے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی  روایات میں یہ بات موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا  کے حق مہر کے عنوان سے جناب سیدہ کو بخش دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

شیعہ کتب کی ایک طولانی روایت کا حصہ ۔۔۔

... فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ علیها السلام فَقَالَ یا بُنَیةِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِیكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا فَهِی لِی خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِینَ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِیجَةَ عَلَى أَبِیكِ مَهْرٌ وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ بِذَلِكِ وَ نَحَلْتُكِهَا تَكُونُ لَكِ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ قَالَ فَدَعَا بِأَدِیمٍ عُكَاظِی وَ دَعَا عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ علیه السلام فَقَالَ اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وَ شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ وَ أُمُّ أَیمَنَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِی صلی الله علیه وآله فَقَاطَعَهُمْ عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِینَ أَلْفَ دِینَارٍ فِی كُلِّ سَنَةٍ.....،

رسول خدا (ص) جب غزوے سے واپس آئے تو حضرت زہرا کے پاس گئے اور فرمایا کہ: اے میری بیٹی ! خداوند نے فدک کو تیرے باپ کو بخشا ہے اور اس کے ساتھ خاص کیا ہے اور اس فدک میں کسی دوسرے مسلمان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تم اس فدک کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتی ہو، انجام دے سکتی ہو، کیونکہ میں تیری ماں خدیجہ کو اس کا حق مہر ادا کرنے کا مقروض تھا، اسلیے میں فدک کو تیری ماں کے مہر کے بدلے میں تجھے عطا کرتا ہوں کہ یہ فدک تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہو گا۔ اسکے بعد ایک کھال کی بنی ہوئی چیز کو لے کر علی (ع) کو دیا اور ان سے فرمایا کہ: لکھو کہ رسول خدا نے فدک کو اپنی بیٹی  فاطمہ کو عطا کر دیا ہے۔ علی (ع) نے لکھنے کے بعد رسول خدا کے غلام اور ام ایمن کو اس تحریر پر گواہ بنایا۔ رسول خدا نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ام ایمن اہل بہشت میں سے ہے۔ اہل فدک آئے اور انھوں نے رسول خدا کے ساتھ ہر سال میں 24،000 دینار دینے کے بدلے میں، اتفاق اور صلح کر لی۔

الراوندی، قطب الدین (متوفى573هـ)، الخرائج والجرائح، ج‏1، ص 113، تحقیق و نشر: مؤسسة الإمام المهدی علیه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

 

خلاصہ اور نتیجہ  :

 بہت سے دلائل کی بنیاد پر فدک آنحضرت [ص] کی ذاتی ملکیت تھا جس کو جتنا دئے آپ کی مرضی ہے ، آپ حق اور حقیقت کا پیکر ہیں، آپ کا ہر فیصلہ قرآن اور وحی الہی کے مطابق ہے ۔ لہذا کسی کو آپ کے کسی فیصلے پر اعتراض کا حق نہیں۔۔

اور جیساکہ بہت سے دلائل کی بنیاد پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فدک کو عطا الرسول کہا اور اس پر اپنی ملکیت کا دعوا کیا۔۔۔۔

لیکن خلفاﺀ نے آُپ کے اس مطالبے کو رد کیا ۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی