2024 April 25
سیدہ نساﺀ العالمین (س) کا خلیفہ سے بائیکاٹ افسانہ نہیں ہے ۔
مندرجات: ٢١٦٧ تاریخ اشاعت: ١٨ December ٢٠٢١ - ١٩:٥٥ مشاہدات: 2333
مضامین و مقالات » پبلک
سیدہ نساﺀ العالمین (س) کا خلیفہ سے بائیکاٹ افسانہ نہیں ہے ۔

سیدہ نساﺀ العالمین (سلام الله عليها ) کا خلیفہ سے بائیکاٹ افسانہ نہیں ہے

 

شیعہ مخالفین کے شبھات اور ہمارا مختصر جواب

شیعہ مخالفین کہتے ہیں :       

       :  سیدہ فاطمہ(سلام الله عليها ) نے بعد از نبی(صلى الله عليه و آله ) خلیفہ سے مال فئے کا مطالبہ کیا. لیکن جب ابوبکر نے نبی(ص) کا فرمان سنایا تو ۔۔

الف :  سیدہ خاموش ہوگئیں اور پھر اس مسئلے کے متعلق دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔

ب :   سیدنا علی علیہ السلام  اور باقی ائمہ اہل بیت  علیہم السلام کا نظریہ بھی عین صدیقی فیصلے کے مطابق ہی تھا۔

ج :  جمہور علماء کے نزدیک سیدہ ناراض نہیں ہوئیں ۔

د : حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خلیفہ سے ناراضگی کے حوالے سے جو باتیں صحیحن میں موجود ہیں,وہ  حقیقت میں ایک راوی کا اپنا گمان ہے۔ جس پر شواہد موجود ہیں۔اور راوی کا گمان حجت نہیں ہے ۔

 شیعہ مخالفین کے اپنے مدعا پر دلائل کا خلاصہ ۔

 1   : ناراضگی یا الفاظ سے ثابت ہوتی ہے یا چہرے سے ، سیدہ(س) کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور ان کی ناراضگی کو بیان کرنے والے الفاظ بھی نہیں ہیں۔

  :  نبی (ص)کا فیصلہ ابوبکر نے سنایا تو  سیدہ (س)خاموش ہوگئیں۔  جب کوئی عام بیٹی بھی اپنے  مرحوم والد کی بات سن کر  دنیا کے مال و منال کے لئے غضبناک نہیں  ہوسکتی ہے تو یقینا  یہ گمان سیدہ کی شان کے خلاف ہے۔    

  : ناراضگی کو( ابن زھری )کے علاوہ  دوسروں نے ذکر نہیں کیا ۔ ۔ لہذا یہ خود راوی کا ادراج اور گمان ہے ۔ جیساکہ دوسرے قرآئن اور شواہد سے راوی کے  گمان کا باطل ہونا ثابت ہے ۔ اس گمان کے  رد پر قرآئن کتب اہل السنت بلکہ کتب شیعہ  میں بھی موجود ہیں ۔

 

 مندرجہ بالا شبھات کے جواب

مختصر جواب۔

سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے بعد از نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنے مختلف حقوق کا مطالبہ کیا لیکن خلیفہ نے ان حقوق کو دینے سے انکار کیا تو سیدہ ناراض ہوئیں اور خلیفہ سے مکمل بائیکاٹ کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں۔

 جیساکہ جو اس سلسلے میں شیعہ کہتے ہیں وہ اہل سنت کی سب سے معتبر کتابیں  صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں ۔

صحیح  بخاری ،کتاب خمس ۔۔۔   

۔۔۔۔۔۔غضبناک ہو کر چلی گئیں اور مرتے دم تک مکمل بائیکاٹ کی حالت میں رہیں اور اسی حالت میں دنیا سے چلی گئیں۔

-فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتَهُ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ۔۔۔۔

 صحيح البخاري ۔۔   کتاب خمس ۔۔۔ 1 - باب فرض الخمس 

تفصیلی جواب 

امام زہری کا گمان  یا  جناب عائشہ کا بیان ؟  ۔۔۔۔

ہمارا ادعا یہ ہے۔

الف : جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا مطالبہ رد ہونے کی وجہ سے خلیفہ سے غضبناک ہونے کی باتیں راوی کا ادراج نہیں بلکہ جناب عائشہ کی روایت کا ہی حصہ ہے ۔

ب : بالفرض روای کا ادراج اور گمان ہو تو بھی حقیقت پر مبنی ہے ۔

اس سلسلے میں ہمارے دلائل :

 (1) امام زہری کا اھل سنت کے ہاں مقام .

امام محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہری حدیث کے ثقہ امام تھے اور شام و حجاز کے کبار محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

بے شمار ائمہ محدثین نے ان کی توثیق کی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:الفقيه الحافظ متفق على جلالته وحفظه واتقانه} التقريب 318  {مغانى الأخيار (6/ 64،) 

وہ فقیہ اور حافظ تھے ان کی جلالت اور دقت نظری پر سب کا اتفاق ہے..

وأحد أكابر الحفاظ والفقهاء. تابعي، من أهل المدينة. كان يحفظ ألفين ومئتي حديث

 { الأعلام للزركلي (7/ 97}

    وہ بزرگ حفاظ اور فقہاء میں سے ایک اور مدنی تابعی تھے ، دو لاکھ دو سو احادیث کے حافظ تھے ۔

محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري مدني تابعي ثقة {معرفة الثقات (2/ 253

  ملاحظہ کریں:    مسلک ادراجی والے امام زہری کو بے احتیاط اور  گمان کرنے والا سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت کے  مایہ ناز علماء  اس کے اتقان، دقت نظری  ، قوی حافطہ اور ان کی جلالت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔۔۔

 اس کو مدلس بھی کہا ہے لیکن مدلس کہنا اہل سنت کے ہاں کوئی بہت بڑا عیب نہیں ہے جیساکہ امام بخاری بھی مدلسین کی لیسٹ میں شامل ہے ۔یہاں تک کہ بعض نے ادعا کیا ہے کہ دو کے علاوہ  اہل سنت کے سارے راوی مدلس تھے ۔

(2)     صحاح ستہ کی ہزاروں احادیث خطرے میں۔

اتنا مرتبہ والے راوی کو گمان کرنے والا کہہ کر آرام سے نکل جانا آسان نہیں ،یہ صحاح ستہ کے معتبر راوی اور خاص کر امام بخاری کے نزدیک اتنا معتبر راوی ہے کہ ہزار کے قریب احادیث اس سے نقل کی ہیں، اب یہ اتنا غیر ذمہ دار اور بےاحتیاط  آدمی ہو تو اس کی روایتوں کا اعتبار بھی خطرے میں پڑھ جائے گا ۔

 

    یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس کو زہری کا گمان کہنے کا معنی کیا ہے ؟ کیا وہ بغیر کسی معتبر سند کے آپنی طرف سے کوئی بات روایت کا حصہ بناتا تھا ؟ یا خود ہی کوئی بات بناکر حدیث کے طور پر پیش کرتا تھا؟ کیا اس معتبر امام کے بارے ایسا کہنا صحیح ہے ؟

(3)      اہل سنت  کے علماﺀ نے ادراج کی نفی کی ہے۔

  جیساکہ بیان ہوا کہ جس بات کو زہری کا گمان کہا جاتا  ہے اس کو بڑے بڑے علماء نے قبول کیا ہے اور جناب فاطمہ سلام اللہ کی ناراضگی اور رنجش کا اعتراف کیا ہے ۔۔۔۔

لیکن یہ علماﺀ دو طرح کے ہیں  ۔

پہلا گروہ  : جس نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے  غضبناک ہونے کو قبول کیا ہے لیکن غضب اور ہجران کے معنی کو خراب کرنے کے لئے ہاتھ پاوں مارنےکی ناکام کوشش کی ہے ۔

دوسرا گروہ  : جس نے غضبناک ہونے کو قبول کرنے کے ساتھ اس کو  بہانہ بنا کر جناب سیدہ پر اعتراض اور ان کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ جیسے ابن تیمیہ اور ابن عثیمین وغیرہ ۔۔

پہلے گروہ کے علماﺀ کے چند نمونے ۔۔۔

 الف :  صحیح بخاری کے مشہور شارح ابن حجر عسقلانی کا نظریہ :

   لأنها لما غضبت من رد أبي بكر عليها فيما سألته من الميراث رأى علي أن يوافقها في الانقطاع عنه. قوله: "فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس، فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته، ولم يكن يبايع تلك الأشهر" أي في حياة فاطمة.

 

 جب ابوبکر نے مطالبے کو رد کیا تو آپ غضبناک ہوئیں اور  حضرت علی علیہ السلام نے بھی مناسب یہ دیکھا کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ہماہنگی کرتے ہوئے ابوبکر سے قطع تعلق کیا جائے ۔

فتح الباري شرح صحيح البخاري ؛ 7/ 494     

ملاحظہ کریں  :

اب دیکھے یہاں واضح طور پر ابن حجر غضبناک ہونے کو تسلیم کرتا ہے اور ضمنی طور پر یہ بھی مان لیتا ہے کہ اسی وجہ سے امیر المومنین ع نے بھی خلیفہ سے قطع تعلق کیا اور یہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی وفات تک جاری رہا  ۔۔۔۔۔۔

  ب  :  بدر الدين العينى نے عمدة القاري میں لکھا ہے :

۔۔۔۔ فوجدت أي غضبت من الموجدة وهو الغضب وكان ذلك أمرا حصل على مقتضى البشرية ثم سكن بعد ذلك والحديث كان مؤولا عندها بما فضل عن ضرورات معاش الورثة قوله فهجرته أي هجرت فاطمة أبا بكر رضي الله تعالى عنهما ومعنى هجرانها انقباضها عن لقائه وعدم الانبساط لا الهجران المحرم من ترك السلام ونحوه۔

 ملاحظہ کیجیے: بدر الدين العينى نے بھی مطالبہ رد ہونے کے بعد غضبناک ہونے کو قبول کیا ہے اور یہ نہیں کہا ہے، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ،خلیفہ کے انکار کے بعد خاموش ہوگئیں اور رضایت کا اعلان فرمایا ۔

 بدر الدين العينى اسی روایت میں موجود ھجران کے معنی کی تشریح کرتا ہے  اور اس کے معنی میں موجود قباحت اور سخت رد عمل کے معنی کو سادہ ھجران اور عام ھجران  کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ خود اس بات پر دلیل ہے کہ وہ ادراج کے قائل نہیں تھا  اور اس کو راوی کا گمان نہیں  سمجھتا تھا۔ لیکن  اس حقیقت کو چھپانے کے لئے ہجران کا ایسا معنی کرتا ہے کہ جو کسی  لغت شناس نے نہیں کیا ہے  اور اسی روایت اور اس سلسلے کی  دوسری روایات کے بلکل مخالف معنی کیا ہے ۔

یہ سب کچھ ایک حقیقت کو چھپانے کے لئے  اہل سنت کے بعض علماء کی ایک ناکام کوشش ہے ۔

ج :  ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:

أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل... ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.

اکثر علماء نے جنازہ رات کو دفنانے کو جائز قرار دیا ہے۔۔۔ اور علی بن ابی طالب نے اپنی زوجہ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفنایا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان اختلاف تھا۔

إبن بطال البكري القرطبي (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325

 ملاحظہ کیجیے  ؛ ابن بطال صاف طور پر اسی سلسلے کی  دوسری  روایت کے مضمون کو قبول کر رہا ہے  اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے جنازے کو رات میں دفنانے کی علت  ،جناب ابوبکر کو جنازے میں شرکت اور ان پر نماز پڑھنے سے روکنے اور دور رکھنے کو بتا تا ہے ۔

دوسرے گروہ کے علماﺀ

 اس کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے علماﺀ میں سے بعض نے نہ صرف اس کو ادراج نہیں کہا ہے بلکہ اسی بہانے جناب سیدہ کی شان میں توھین کرنے کی کوشش کی ہے ۔

ان میں سر فہرست ۔۔

الف  :   ابن تیمیہ

 

    وہ  شیعوں کو  جواب دینے کے بہانے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کرتا ہے یہاں تک کہ ان کے اس کام کو دنیا پرستی اور نعوذ باللہ منافقانہ کام کہتا ہے ۔۔۔۔۔ https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1935 آپ اس ایڈرس پر مراجعہ کرکے اس کے اسناد دیکھ سکتے ہو ۔

ب : ابن کثیر دمشقی ۔۔۔

وہ کہتا ہے  :  وهي امرأة من بنات آدم تأسف كما يأسفون وليست بواجبة العصمة مع وجود نص رسول الله صلى الله عليه و سلم ومخالفة أبي بكر الصديق رضي الله عنها وقد روينا عن أبي بكر رضي الله عنه أنه ترضا فاطمة وتلاينها قبل موتها فرضيت رضي الله عنها۔۔۔۔ 

البدایۃ و النھایۃ ۔۔۔ ج ۵ ص ۲۸۹۔۔۔۔

دقت کریں:    اگر فاطمہ زہرا ع ناراض ہوگئ تو کیا ہوا وہ ایک عورت ہی تو ہے اولاد آدم سے اس کی ناراضگی عام اولاد ادم کی طرح ہے  اور ساتھ ہی وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آپ ناراض ہوگئی اور آخری عمر میں خلیفہ نے  رضایت حاصل کر لی ۔لیکن شعبی اس ادعا کو ثابت کرنے کے لئے شعبی کی مرسل روایت کا سہارا لیتا ہے ۔۔   

ج :    ابن عثیمین : یہ مشہور سلفی اور سعودی عرب کے معروف رائٹر ، یہاں تک کہتا ہے کہ نعوذ باللہ  اس معاملے کے وقت جناب زہرا سلام اللہ علیہا اپنی عقل کھو چکی تھیں اور اس وجہ سے ان کی مخالفت کو گناہ سمجھ کر ان کے لئے استغفار کرتا ہے ۔

 نسأل الله أن يعفو عنها. وإلا فأبوبكر ما استند إلي رأي، وإنما استند إلي نص، وكان عليها رضي الله عنها أن تقبل قول النبي صلي الله عليه وسلم «لا نورث ما تركنا صدقه» ولكن كما قلت لكم قبل قليل: عند المخاصمه لا يبقي للإنسان عقل يدرك به ما يقول أو ما يفعل، او ما هو الصواب فيه؛ فنسأ الله أن يعفو عنها، وعن هجره خليفه رسول الله.۔۔۔۔۔ 

 

    لتعليق علىٰ صحيح مسلم، جلد ٩، صفحه ٧۸، شرح صحيح مسلم، جلد ۶، صفحه ۷۴۔۔

آپ اگر شیعہ اور اھل سنت کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اہل سنت کے علماء میں سے جن لوگوں نے اصل ناراضگی اور اختلاف کو قبول کرنے کے بعد خلیفہ اول کے موقف کو صحیح ثابت کرنے اور اس معاملے میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے موقف کو غلط اور انہیں قصوروار ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھیں اور مناظرِے کیے ہیں ،اگر اسی فہرست میں  ان علماء کو بھی شامل کریں تو ایک لمبی قطار بن جاتی ہے جس  کی ابتدا اورا نتہا کا تعین سخت ہے ۔۔۔۔ان سب نے  اصل غضباک ہونے کو قبول کیا ہے ۔ البتہ ان میں سے بعض نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی شان میں کوئی گستاخی نہیں  کی  ہے ۔ ہاں بعض نے غضبناک ہونے  کی توجیہ اور واضح روایات کے خلاف معنی کرنے کی کوشش ضرور  کی ہے ۔

لہذا اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین ، شارحین اور مایہ ناز علماء  ، سب اس نظریے میں شیعوں کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں ۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ادراج کا ادعا کرنے والے اس مسئلے میں  اہل سنت کے نظریے کا ترجمان نہیں  ہیں ۔

 

  (4):  کیا امام زہری بے احتیاط یا غیر ذمہ دار تھا ؟

 مسلک ادراجی والے یہ کہہ کر  جان  نہیں چھڑا سکتے  کہ یہ غضباک والی بات امام زہری کا گمان ہے وہ بے احتیاط  انسان تھا  ۔ اگر مقصد یہ ہو کہ امام زہری مصحت اندیشی سے کام نہیں لیتا  تھا  جو حقیقت ہو  اس کو  بیان کرتا تھا ،حقیقت چھپاتا نہیں تھا جبکہ اہل سنت کے بزرگوں کا شیوہ یہ رہا ہے کہ جو باتیں  اصحاب اور خلفاء کی تنقیص  اور ان  پر طعن اور ان کے خلاف دوسروں کی زبان درازی کا سبب بنتی ہوں تو ایسی باتوں کو  بزرگان نقل نہیں کرتے  ، احتیاط سے کام لیتے اور  ان باتوں کو چھپانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے، لیکن امام زہری نے ایسا نہیں کیا  تو  یہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے کہ انہوں نے حقائق بیان کرنے کو خلفاء پر طعن کے دروازے کھل جانے پر ترجیح دی ۔ لیکن  یہ تو   امام زہری  کا امتیاز ہے  ۔

یقینا  امام زہری نے گزرے ہوئے ایک واقعے کی خبر دی ہے۔ وہ بھی حضرت عائشہ تک صرف ایک واسطے کے ساتھ اور وہ بھی جہاں اسلام کی دو اہم  شخصیت کے بارے میں  ، امام زہری کوئی وہمی آدمی یا جناب ابو بکر کی نسبت کوئی دشمنی رکھنے والا انسان نہیں تھا  ،ابن زھری تابعین میں سے ہے ،  یعنی ابھی تک اس واقعے کے بہت سارے شاہد  اس وقت موجود تھے لہذا کیا یہ کہنا  معقول ہے کہ صحیحین کے اہم اور معتبر راوی اور تابعی حدیث میں بغیر کسی شاہد اور دلیل کے اپنے وہم اور گمان کو درج کرتے تھے ۔۔۔

اس سلسلے میں حرف آخر :   

جناب فاطمہ ع  کا رنجیدہ ہونا ،غضبناک ہوکر مکمل بائیکات کی حالت میں دنیا  سے جانے والی روایت آگر راوی کا ادراج بھی ہو تو کم از کم شیعہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اہل سنت کی معتبر روایت کے راوی، سارے علماء کے نزدیک ثقہ ، بڑے فقیہ ،حافظ  اور دقت نظرے رکھنے والے  امام زہری  اور  ان کی بات کی تائید کرنے والے اھل سنت کے بڑے بڑے علماء  کا نظریہ ہے  اور یہ سب اس میں  شیعوں کے ساتھ ہم فکر  ہیں ۔۔۔

(5)

کسی اور  کا نقل نہ کرنا  ، امام زہری کے گمان اور ادراج ہونے پر دلیل نہیں ہے 

یہ کہنا کہ امام زہری کے علاوہ کسی اور راوی نے اس کو نقل نہیں کیا ہے لہذا یہ ان کا اپنا گمان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا جواب :  

کیا حقیقت چھپانے والا مجرم ہوتا ہے حقیقت کو بیان کرنے والا مجرم نہیں ہوتا؟

     دو سروں کا  ذکر نہ کرنا مصلحت اندیشی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر کسی نے ذکر نہ کیا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذکر کرنے والے کو مجرم ٹھرائے۔

اہل سنت  کی کتابوں میں بہت سے ایسے نمونے موجود ہیں کہ اہل سنت  کےبعض نے  علماء نے مصلحت  کی وجہ سے کسی حدیث کے ایک حصہ کو بیان نہیں کیا ہے ۔جبکہ دوسروں نے امانت داری سے کام لیتے ہوئے اس حصے کو ذکر کیا ہے ۔

جیساکہ صحاح میں کتنی ایسی روایتیں ہیں جن  کے بعض حصے کو بعض نے نقل کیا ہے بعض نے نقل نہیں کیا ہے اور شارحین نے بھی جہاں نقل ہوا ہے اسی حساب سے روایت کا معنی کیا ہے ۔

دوسرا جواب :  

دوسروں نے اس مضمون کو نقل کیا  اور اس نقل میں امام زہری تنہا نہیں ہے جیساکہ سنن ترمذی کی روایت میں امام زہری نہیں ہے اور ابوھریرہ سے وہ روایت نقل ہوئی ہے ،

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَا أُورَثُ قَالَتْ وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا فَمَاتَتْ وَلَا تُكَلِّمُهُمَا۔۔۔۔۔

یعنی مطالبہ قبول نہیں ہوا تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا : پھر میں تم دونوں سے کبھی بات نہیں کروں گی اور اسی حالت میں دنیا سے چلی گئی۔

اب یہاں روایت بلکل واضح ہے ، ترمذی نے اپنی طرف سے روایت کے اس آخری حصے معنی کیا ہے اور اس سے مراد رضایت لی ہے۔ جبکہ ابن حجر وغیرہ  نے کہا ہے کہ ایسا معنی  واضح روایت مضمون سے ٹکراتا ہے۔

جناب فاطمہ کی طرف سے ابوبکر کی حدیث کی مخالفت کے سلسلے میں بیان شدہ گفتگو کے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ آپ اپنے حق سے محروم رکھنے کے سلسلے میں ابوبکر اور عمر کے اتفاق نظر پر تعجب کرتی تھی۔

ذهبي اس سلسلے میں لکھتا ہے : فانصرفت إلى عمر فذكرت له كما ذكرت لأبي بكر، فقال لها مثل الذي راجعها به أبو بكر، فعجبت وظنت أنهما قد تذاكرا ذلك واجتمعا عليه.

فاطمه زہرا( س) نے ابوبکر سے گفتگو کے بعد عمر کی طرف رخ کیا اور عمر کو بھی وہی باتیں بتائیں جو ابوبکر کو بتائیں تو عمر نے بھی وہی جواب دیا جو ابوبکر نے جواب دیا تھا ۔ تو آپ کہتی ہیں : مجھے تعجب ہوئی اور میں یہ سمجھ گئی کی ان دونوں نے پہلے سے آپس میں گفتگو کر کے معاملہ طے کیا ہوا تھا۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 3، ص 24، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

لہذا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا احتجاج  کرتی ہیں اور کہتی  ہیں کہ میں تم دونوں سے بات نہیں کروں گی اور اس واقعے کے عینی شاہد جناب عائشہ کہتی ہے : فاطمہ غضبناک ہوئی اور مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں تو بعض  حقیقت کو چھپانے کے لئے بعض  عجیب و غریب قسم کی  تاویلات  کرتے اور  دوسرے ان تاویلات کو بہانہ بنا کر کہتے ہیں اسکو ایک راوی نے بیان کیا ہے دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا ہے ۔۔۔

ہم کہتے ہیں نقل تو دوسروں نے کیا ہے لیکن آپ لوگ آپنے بعض  علماء کے غلط تاویلات اور توجیہات کو ہی روایت کا اصلی معنی سمجھتے ہیں ۔

 

تیسرا  جواب :     

جیساکہ بیان ہوا یہ ادعا اہل سنت کے ہی بڑے بڑے معتبر علماء کے نظریے کے خلاف ہے ،حتی خود امام بخاری کہ جو اہل سنت کے علماء کے نذدیک دقت نظری میں سب سے ماہر ہے ،اب کیا اتنی مہارت کے باوجود امام بخاری  اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوا ۔۔۔۔؟ کیا امام بخاری کو اس مسئلے کی اہمیت کا علم نہیں تھا ؟ انہیں نے  اپنی کسی کتاب میں اس ادراج  کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ 

36  طرق والے مغالطے کا جواب :  

 مسلک ادراجی  والے کہتے ہیں کہ  36 طریقے سے یہ واقعہ مختلف کتابوں میں نقل  ہوا ہے ،ان میں سے 25 امام  زہری سے اور امام زہری کے  25 میں سے 16 میں ناراضگی کا واقعہ نقل ہوا ہے ، باقی 20 مورد میں کسی نے  نارضگی والی بات کو نقل نہیں کیا ہے ۔

جیساکہ امام بخاری نے چار جگہوں  پر  یہ واقعہ { جناب فاطمہ سلام اللہ علیہ اور خلیفہ کے درمیان  گفتگو} نقل کیا ہے  اور  چار میں سے تین میں واضح طور پر ناراضگی ذکر ہے صرف ایک مورد میں ناراضگی کے الفاظ نہیں ہے لیکن اس ایک مورد میں  بھی یہ ذکر ہے  کہ خلیفہ کی طرف سے استدلال کے باوجود  جناب فاطمہ سلام علیہا  نے مطالبہ کا سلسلہ جاری رکھا  ۔لہذا  امام بخاری کے چار کے چار مورد میں اس معاملے میں جناب فاطمہ سلام علیہا کی عدم رضایت کا واقعہ ذکر ہے ۔ اب امام بخاری اتنی دقت نظری کے باوجود باقی روایتوں اور طرق کو چھوڑ کر کیوں انہیں روایتوں کا انتخاب کرتا ہے  جن میں ناراضگی کا کسی نے کسی طریقے سے ذکر  ہے  ؟ کیوں ان کی نظر میں وہ روایتیں نہیں آئیں کہ  جن  میں عدم رضایت کی بات ذکر نہیں  ہے ؟ کیا دوسری  روایات کا  صحیحین میں ذکر نہ ہونا  امام بخاری اور مسلم  کے نذدیک دوسری روایات کو اہمیت نہ دینے پر دلیل نہیں ہے  ؟

 لہذا یہ  جو کہا جاتا ہے کہ  36 مختلف طریق سے یہ واقعہ نقل ہوا ہے  اور امام زہری کے   25  طریق  میں  سے  16   میں یہ ذکر ہوا ہے باقیوں  20   مورد میں یہ ذکر نہیں ہوا ہے ۔یہ کہنا خود ایک مغالطہ ، سچ اور جھوٹ کا ایک مجموعہ ہے ۔جیساکہ ہم نے  صحیح بخاری  کے نقلوں میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ۔

جیساکہ بعض نقلوں میں راوی یا مصنف نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اصل مطالبہ اور خلیفہ کی طرف سے مطالبے رد ہونے کا ذکر کیا ہے لیکن جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی کسی قسم کی ردعمل کاذکر ہی نہیں کیا ہے  اور اس جہت سے روایت کو ناقص نقل کیا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ  ان لوگوں نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے رد عمل کو نقل نہ کرنے میں مصلحت دیکھی ہے اسی لئے اس کا  ذکر نہیں کیا ۔

 لہذا ناقص ذکر کرنا جہاں ذکر ہوا ہے اس کی نفی پر دلیل نہیں ہے ۔۔ بلکہ  دوسروں کا ذکر نہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا رد عمل ان لوگوں کے مذہبی مزاج اور ذہنیت کے ساتھ  سازگار نہیں تھا  اور اگر سازگار ہوتا تو ضرور اس کو نقل کرتا ۔

 لہذا   ، 36،  16  , 25  والی تحقیق انتہائی ناقص اور مغالطہ  اور سچ اور جھوٹ کا ایک مجموعہ ہے ۔اگر اس قسم کی تحقیق کرنے والے اعداد و شمار کے بجائے ان روایتوں کو جمع کر کے  دوسروں کے سامنے رکھے تو  حقیقت سب پر عیاں ہوں گی ۔

 

 

  ادراج کی نفی پر  شواہد اور قرائن  ۔۔۔۔

 

جیساکہ بیان ہوا کہ مسلک ادراجی والے اس بات پر زور لگاتے ہیں کہ یہ غضبناک ہونا راوی کا ادراج ہے اس نے اپنے گمان کو جناب عائشہ کی روایت کا حصہ بنایا ہے ۔۔۔

 اس سلسلے میں  پیش کردہ مدعا کے رد میں ہم دو قسم کے شواہد اور دلائل پیش کریں گے ،

الف :  ادراج کی نفی پر احادیث میں موجود  داخلی دلائل  اور شواہد ۔

پہلا جواب :

ادراج کا  ادعا کرنے والوں  نے بھی کوئی واضح دلیل نہیں دی ہے جو کچھ کہا ہے وہ ان کا اپنا گمان ہے ، صرف گمان کہنے سے  کسی کی بات کا گمان ہونا ثابت نہیں ہوگا، مسلک ادراجی والوں نے  ادراج پر  کوئی واضح اسناد پیش نہیں کیے ہیں ۔ لہذا  اپنے  گمان کی توجیہ کے لئے اس کو راوی کا گمان کہا ہے۔

  ایک نمونہ     ۔۔۔۔امام بدر الدین عینی کہتا ہے :

وَقَالَ الْبَيْهَقِيّ. قَوْله: (وَعَاشَتْ) إِلَى آخِره، مدرج، وَذَلِكَ أَنه وَقع عِنْد مُسلم من طَرِيق أُخْرَى عَن الزُّهْرِيّ،۔۔۔۔۔۔۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، 17/ 258 :

۔۔۔۔۔۔اب یہاں دیکھیں امام بہیقی کا یہ کہنا ہے کہ    (وَعَاشَتْ)  اور اس کے بعد کا حصہ راوی کا ادراج ہے ۔۔

ان کی اس بات کو تسلیم کیا جائے تو اس سے پہلے غضب یا وجدت کا جملہ موجود ہے لہذا یہ  راوی کا ادراج نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ  امام بہیقی کے نذدیک غضباک اور رنجش والی بات اصل حدیث کا حصہ ہے ۔۔۔   

جیساکہ یہی امام بہیقی و عاشت کو جناب عائشہ کے قول کے طور پر نقل کرتا ہے ۔۔۔۔- وَالصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِىِّ عَنْ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا فِى قِصَّةِ الْمِيرَاثِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ۔۔۔َلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ. ۔۔۔۔  سنن البيهقى (2/ 93):

ü      دقت کریں یہاں " عَاشَتْ اور بعد کے جملے کو " أَنَّ حروف مشبہ بلفعل"  کے لئے خبر کے طور پر نقل کیا ہے لہذا یہاں ادراج کاشائبہ تک نہیں ہے ۔

ü      اس میں  { َلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ} کو بھی  جناب عائشہ سے نقل کیا ہے ۔

جیساکہ دوسری بہت  ساری نقلوں میں  یہی   " قالت عائشة أن فاطمة عاشت ۔۔۔نقل ہوا ہے ۔

"عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبي قال : قالت عائشة أن فاطمة عاشت بعد رسول الله صلى الله عليه و سلم ستة أشهر ۔۔

اس سلسلے کی احادیث میں ادراج کے نفی پر بہت سے شواہد موجود ہیں ۔

ادراج کہنے والوں کا ادعا انتہائی غیر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ واضح روایات سے ٹکراتا ہے۔

  لہذا  اس سلسلے میں دوسرے نقلوں کو سامنے رکھے تو صاف ظاہر ہے کہ ادراج کا نظریہ باطل ہے  ۔ 

 دوسرا جواب : 

    ادراج کے بارے میں قابلِ غور نکتہ :

جہاں کہیں بھی روایت میں " قال "آیا ۔ اس کے بعد " غضبت " کے الفاظ صرف " معمر " کے طرق میں ہیں ۔ 

باقی ہر طرق میں "قال "سے پہلے غضبت یا وجدت  کے الفاظ ہیں ۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم میں بھی قال سے پہلے "فَوَجَدَتْ  " کا لفظ موجود ہے ۔۔فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِى بَكْرٍ فِى ذَلِكَ - قَالَ - فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ ۔۔۔

لہذا قال کے بعد ادراج بھی مان لیا جائے تو بھی غضبناک ہونا راوی کا گمان نہیں ہے بلکہ اصل روایت کا حصہ ہے ۔۔۔

جیساکہ  مسند ابوبکر للمروزی میں اسی معمر  کے  طرق میں ’’قال’’ کی جگہ " قالت " کا لفظ موجود ہے   ۔

۔۔۔ فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا نُورَثُ , مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ , إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ» وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا ادْعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ , قَالَتْ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ , فَلَمْ تُكَلِّمْهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى مَاتَتْ , فَدَفَنَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلًا , وَلَمْ يُؤْذَنَ بِهَا أَبُو بَكْرٍ , قَالَتْ: فَكَانَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجْهٌ مِنَ النَّاسِ حَيَاةَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ فَاطِمَةُ انْصَرَفَتْ وُجُوهُ النَّاسِ عَنْ عَلِيٍّ , فَمَكَثَتْ فَاطِمَةُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ تُوُفِّيَتْ۔۔

مسند أبي بكر الصديق لأحمد بن علي المروزي  ص: 87

اب دیکھیں صاف ظاہر ہے کہ اس نقل میں تو بلکل واضح انداز میں سب باتوں کو جناب عائشہ سے نقل کیا ہے ۔ لہذا معمر کے طرق میں اختلاف کے باعث اس طرق کو دوسرے  طریق کیطرف رجوع کے لیئے شاہد ہے ۔

خود صحیح بخاری سے دو شاہد :

الف  :  اسی سلسلے کا ایک اہم شاہد  صحیح بخاری  وغیرہ میں موجود  وہ روایت ہے کہ جس میں " فَهَجَرَتْهُ " سے پہلے قال ،یا قالت کے الفاظ ہی نہیں ہے بلکہ  مکمل طور پر جناب عائشہ سے حدیث نقل ہوئی ہے ۔

 ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ ۔۔۔۔۔فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ۔۔۔فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا ۔

اب دقت کریں یہاں سیاق و سباق اور اس میں موجودالفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جناب عائشہ کا نظریہ ہے ۔۔۔۔

جیساکہ ابو جعفر الطحاوي { متوفی  321هـ} نے بھی یہی نقل کیا ہے ۔

 عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عَائِشَةَ أنها أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ۔۔۔۔۔۔فَأَبَى أبو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إلَى فَاطِمَةَ منها شيئا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ على أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رسول اللهِ عليه السلام سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ لَيْلاً ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها عَلِيٌّ ۔۔۔

شرح مشكل الآثار(1/ 137)أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي ،سنة الوفاة 321هـ تحقيق شعيب الأرنؤوط   ،الناشر مؤسسة الرسالة،سنة النشر 1408هـ - 1987م، مكان النشر لبنان/ بيروت

 اسی سلسلے کی ایک اہم روایت  بخاری کی وہ روایت ہے جس میں" وجدت" کی جگہ پر" غضبت" کا لفظ آیا ہے ۔

 3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ ۔۔۔۔۔۔

صحيح البخارى  57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس  3093

دقت کریں :

الف :  ادراج کو اگر غضبت سے مانے تو حدیث ناقص رہ جاتی ہے۔۔۔

فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » لہذا اس صورت میں آگے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کوئی رد عمل ذکر نہیں ہوگا ۔

ب :  فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ۔۔۔۔۔۔۔ عربی ادبیات  اعتبار سے   ھجرت  کا " ف " جملے کے تسلسل کو بتانے کے لئے  ہے ۔

 ج    :   فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ۔۔۔۔۔۔وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم۔۔۔۔

یہاں بھی دقت کریں { وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ۔۔۔۔}  یہ حصہ ان لوگوں کے بقول ادراج کا حصہ ہے ۔۔۔۔۔ جبکہ ایک تو یہ اسی حدیث کا مربوط جملہ ہے اور سیاق کے اعتبار سے بلکل فٹ آتا ہے ۔۔۔۔۔ اور جیساکہ پہلے نقل ہوا کہ امام طبرانی اور امام بہیقی وغیرہ نے اس کو یوں نقل کیا ہے:

   7146- وَالصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِىِّ عَنْ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا فِى قِصَّةِ الْمِيرَاثِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَيْلاً وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ. ۔۔۔۔  سنن البيهقى (2/ 93):

 اب یہاں اس نقل میں  " عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ"  اور ۔۔ وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ" دونوں  کو جناب عائشہ سے ہی نقل کیا ہے ۔پس  اس نقل کے مطابق  یہ دونوں جناب عائشہ کے کلام کا ہی تسلسل ہے، یہ راوی کا گمان نہیں ،جبکہ اس کو ادراج کہنے والوں نے اس کو راوی کا گمان کہا ہے۔لہذا صاف ظاہر ہے کہ ادراجی والوں کا یہ نظریہ اس  حدیث  کے بلکل خلاف ہے ۔

ھ   :     اس حدیث کے اس حصے { قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ۔۔۔۔}  

 : دقت کریں یہاں ایک تو  "قالت "  کا لفظ موجود ہے یعنی جناب عائشہ کہہ رہی ہیں ،یہ راوی کا گمان نہیں ۔

: دوسرا قابل توجہ نکتہ  یہ ہے کہ  یہاں بھی عربی ادبیات  کے مطابق "کان " کانت " فعل مضارع سے پہلے آئے تو یہ ماضی استمراری کا معنی دیتا ہے ، یعنی مطالبہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری رہا ۔

: لہذا  یہاں جناب عائشہ خبر دے رہی ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے آئیں اور خلیفہ نے وہ حدیث سنائی لیکن اس کے باوجود  مطالبہ ختم  نہیں ہوا ۔ اب اگر معاملہ ختم ہوا تھا تو جناب عائشہ  کے اس جملے کا کیا معنی ہے ؟

اگر  جناب فاطمہ ع راضی ہوگئی تھیں  تو پھر جناب عائشہ کیوں کہہ رہی ہے کہ آپ  پھر  بھی مطالبہ کرتی رہیں ؟

 اب بلفرض حدیث سنانے کے بعد آپ غضبناک نہیں ہوئی تھیں اور معاملہ ختم ہوا تھا تو پھر پھر جناب عائشہ کو اس طرح خبر دینی چاہئے تھی کہ جس سے معاملہ ختم ہونا ثابت ہو۔۔

لہذا  حدیث  کے مختلف نقلوں میں ادراج نہ ہونے کے شواہد بہت زیادہ  ہیں ،لیکن مسلک ادراجی والے بعض نقلوں میں موجود لفظ   "قال " کو ہی اپنے مدعا پر شاہد قرار دیتے ہیں ،جبکہ اس سلسلے کی  احادیث میں موجود دوسرے ایسے شواہد  سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ  یہ  راوی کا گمان نہیں بلکہ جناب عائشہ کی ہی  دی ہوئی خبر ہے ۔

اب ان سب کے باوجود حدیث کے الفاظ میں موجود ایک قال کو ہی ملاک قرار  دینے والوں کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ باقی قرائن اور شواہد کو چھوڑ کر ایک قال  پر کیوں  تکیہ کیے ہوئے ہیں  ؟ کیوں یہ نہیں کہتے کہ  یہ "قال" ممکن ہے کسی اور راوی نے اضافہ کیا ہو یا نسخہ لکھنے والے کسی نے اضافہ کیا ہو ؟

مندرجہ بالا مطالب اس  سلسلے کے وہ شواہد ہیں کہ جو  اس واقعے کے  مختلف نقلوں میں موجود ہیں۔

ب :    ادراج  کی نفی پر موجود دوسرے شواہد :

1  :  خود صحیحین میں موجود  بعض دوسرے شواہد  ۔۔۔۔

جیساکہ امیر المومنین ع کے موقف کے سلسلے صحیحین میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے خلیفہ دوم کے دور تک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مطالبے کو جاری رکھا ،  اب  آگر  اسی {نحن معاشر الانبیاء۔۔۔۔۔] کہنے سے  سے ہی  معاملہ ختم ہوا تھا تو کیوں مطالبہ جاری رہا ۔۔۔۔۔۔؟؟ 

یہاں  خلیفہ دوم کہتا ہے: علی میرے  پاس اپنی بیوی کی ان کے باپ سے میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔

  وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا ۔

 صحيح البخارى  کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔

وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ۔ 

صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔  

 اب دیکھیں یہاں جناب عمر خود ہی اعتراف کر رہا ہے کہ امیر المومنین  علیہ السلام  خلیفہ دوم کے دور میں ان سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی میراث میں حق کا مطالبہ کرنے آئے ۔ اب اگر معاملہ اسی وقت ختم ہوا تھا تو حضرت علی علیہ السلام کو کیا اس واقعے کا علم نہیں تھا ؟ کیا آپ حق واضح ہونے کے باوجود اور  حدیث" نحن معاشر الانبیاء۔۔" کا معنی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئے نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے  وراثت کی نفی پر دلیل سمجھنے کے باوجود  ،ارث کا مطالبہ کر رہے تھے ؟۔

 واضح سی بات ہے کہ جب مطالبہ جاری رہا تو  جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خلفاء کو  اپنے حق سے محروم کرنے والے ہی سمجھتی تھیں ۔کیونکہ  آگر آپ کے لئے حق واضح ہوا تھا اور معاملہ ختم ہوا تھا تو  حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے مطالبہ جاری رکھنے کا کیا معنی ہے ؟

ایک اور اہم شاہد:

 {فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا ۔۔یعنی جناب فاطمہ سلام علیہا کو کچھ بھی نہیں دیا ۔                               

      صحيح البخاري (13/ 135):  کتاب المغازی ۔۔ بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ۔۔۔۔۔ صحیح مسلم ۔ كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي ص ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة )

 اس سلسلے میں یہ جملہ بھی شاہد ہے کہ ایک طرف سے خلیفہ کہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  فدک وغیرہ سے  آپ لوگوں کا خرچہ پانی دیتے تھے اور ساتھ ہی قسم کھا کر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے طریقے پر عمل کرنا کا ادعا کرتا ہے  اور پھر بعد میں  جناب عائشہ کے بقول کچھ بھی  حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو   نہیں دیا  ۔

 اب  اعتراف اور قسم کے باجود  بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کچھ بھی نہ دئے تو    کیا آپ راضی ہوکر انہیں دعا دیتی وہاں سے چلی گئی ہوگی  ؟ جبکہ خود خلیفہ ایک تو اعتراف کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اس میں سے اپنے آل کو  خرچہ پانی دیتے تھے اور قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے طریقے پر عمل کروں گا لیکن پھر بھی کچھ نہ دیتا ۔

 جیساکہ مسلم کی نقل کے مطابق خلیفہ دوم نے اس فیصلے کے خلاف اپنے اجتہاد کی بنا پر ،کچھ اموال  اپنے دور میں  بنی ہاشم کو واپس کئے ۔ لیکن خلیفہ اول کے دور میں کچھ بھی نہیں دیا گیا ۔

لہذا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے سامنے خود خلیفہ اقرار کرئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   انہیں خرچہ پانی کے طور پر دیتے تھے اور قسم کھائے کہ میں ان کے طریقے کو تبدیل نہیں کروں گا لیکن ان سب کے باوجود جناب سیدہ کو خالی ہاتھ واپس کرئے تو کیا جناب سیدہ اس کام پر راضی ہوگئ ۔کیونکہ چلے حدیث نحن لا نورث کے مطابق یہ چیزیں ان کو وراثت کے طور پر نہیں ملی تو خود خلیفہ کے اقرار کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کی طرف سے ان کے آل کا خرچہ پانی تو اسی سے ملتا تھا ۔۔۔اب خلیفہ نے اس سے بھی محروم کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کے طریقے پر بھی عمل نہیں کیا ۔۔۔۔۔ اب ان سب کے باوجود یہ توقع رکھے کہ جناب سیدہ رنجیدہ نہ ہوں اور خلیفہ کے کام پر خوش ہوں؟

2        :    نماز جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینا

یہ اس سلسلے کا ایک اہم شاہد ہے ۔

صحیحین کی صحیح سند روایات اور دوسری صحیح سند روایات بھی یہی کہتی ہیں اور اہل سنت کے مایہ ناز علماء نے بھی اسی کا اعتراف کیا ہے  کہ جناب فاطمہ ع کے جنازے  میں شرکت اور ان پر نماز کے بارے میں خلفاء کو خبر تک نہ دی گئی  اور خلفاء کی طرف سے اصرار کے باوجود  انہیں ان کا جنازے پڑھنے سے دور رکھنے کے لئے راتوں رات دفن کر دیا اور امیر المومنین علیہ  السلام نے جناب فاطمہ سلام علیہا کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے ایسا کیا ۔

 اگر اس سلسلے میں دوسرے شواہد کو سامنے رکھنے تو صاف ظاہر ہے کہ زہری نے جو نقل کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔  چند  نمونے :  

الف  :

 :  - وَالصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِىِّ عَنْ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا فِى قِصَّةِ الْمِيرَاثِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَيْلاً وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ. ۔۔۔ سنن البيهقى (2/ 93۔۔

 ب:

 حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ الدَّلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ دَفَنَ فَاطِمَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا لَیْلًا، وَلَمْ یُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ.

      النمیری البصری، ابوزید عمر بن شبة (المتوفی 262هـ)، تاریخ المدینة المنورة، ج1، ص110، تحقیق فهیم محمد شلتوت، ناشر: طبع على نفقة: السید حبیب محمود أحمد – جدة - 1399 هـ .

ج :

 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ عَلِیًّا، دَفَنَ فَاطِمَةَ لَیْلًا، وَلَمْ یُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ. .
   
النیسابوری، أبی بکر محمد بن إبراهیم بن المنذر (المتوفى319 هـ)، الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف، ج5، ص460، ح3215، تحقیق: د. أبو حماد صغیر أحمد بن محمد حنیف، دار النشر: دار طیبة – الریاض،‌ الطبعة: الأولى1985م.

  اب دیکھیں ۔۔۔۔۔۔

  صاف ظاہر ہے کہ ان تینوں میں سب باتیں خود جناب عائشہ سے نقل ہورہی ہیں  اور امام بہیقی اس روایت کو صحیح بھی کہہ رہا ہے آگر یہ سب باتیں راوی کا ہی گمان ہوتیں تو جناب عائشہ کے نام لینے کا کیا  معنی ہے ؟ ۔

 د  :

   عبد الرزاق نے كتاب «المصنف» میں  معتبر روایت نقل کی ہے   :

6554 عبد الرزاق عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ حَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دُفِنَتْ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَرَّ بِهَا عَلِيٌّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، كَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ.

حسن بن محمد نے نقل کیا ہے  كه فاطمه بنت رسول خدا صلي الله عليه وآله کو راتوں رات دفن کیا : علي [عليه السلام] نے اس کام کو انجام دیا تاکہ ابوبکر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا جنازہ نہ پڑھنے پائے ، کیونکہ ابو بكر  اور  فاطمه کے درمیان کچھ ہوا تھا۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص521، تحقيق : حبيب الرحمن الأعظمي، دار النشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة : الثانية 1403 

 ھ  :

     امام  ابن قتیبہ دینوری نے تاویل مختلف الحدیث میں لکھا ہے:

وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا.
فاطمہ(س) نے ابوبکر سے اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا ابوبکر نے قبول نہیں کیا تو فاطمہ(س) نے قسم کھائی کہ ابوبکر کے ساتھ بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے اور وہ (ابوبکر) ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393هـ، 1972م.

ابن بطال نے شرح صحیح بخاری  میں واضح طور پر اسی کا اعتراف کیا ہے :

أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل... ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.

اکثر علماء نے جنازہ رات میں دفن کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔۔۔ اور علی بن ابی طالب نے اپنے زوجہ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان اختلاف تھا۔

إبن بطال البكري القرطبي (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325

 دقت کریں :

 جیساکہ بہت سے شواہد کی  بنیاد پر  یہی  جناب فاطمہ سلام علیہا کی وصیت تھی ، آپ  نہیں چاہتی تھیں خلیفہ آپ کے جنازے میں شریک ہو اور امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اسی وجہ سے خلیفہ کو  جنازے میں شرکت سے دور رکھنے کے لئے راتوں رات دفنا دیا ۔۔۔ 

لہذا بخاری کے مشہور شارح ابن بطال نے یہاں ادراج اور راوی کے گمان  کی بات نہیں کی ہے بلکہ واضح اندار میں اقرار کیا ہے کہ یہ  کام خلیفہ کو جنازے سے دور رکھنے  کے  لئے انجام دیا ۔

 جیساکہ اہل سنت کے بہت سے علماء نے اسی حقیقت کو قبول  بھی  کیا ہے اور ہم نے اس کے بعض شواہد گزشتہ صفحات میں  بیان کیے ہیں ۔ اور   حضرت ولی العصر  ویپ سائٹ   کے ایک مسند مقالے کا حوالہ بھی  ہم دئے چکے ہیں  کہ جس میں اہل سنت کے  بڑے بڑے علماء کا اعتراف موجود ہے۔

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1963

 : اب کوئی عقلمند یہ تصور کرسکتا ہے  ہے کہ جس کو جنازے میں شرکت کی اجازت بھی  نہ دی ہو لیکن اس پر جناب فاطمہ راضی ہوئی ہوں  اور ان کے درمیان سب معاملات ٹھیک سے انجام پائے ہو اور آپ ان سے کسی قسم کی رنجش کے بغیر دنیا سے گئیں ہوں  ؟

    کیا پھر بھی یہ  بچوں کی طرف کوئی ایسا سوال کرسکتا ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ناراضگی چہرے سے یا  ان کے اپنے الفاظ سے ثابت کرو۔  کیا یہ  ناراضگی کا عملی ثبوت نہیں ؟

ü      یہاں یوں کہا جائے تو بات غلط نہیں ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیر المومنین علیہ السلام  کا یہ رد و عمل ناراضگی کو بتانے والے سخت ترین الفاظ سے بھی سخت ہے ۔جیساکہ ہمارے میں معاشرے میں عام قسم کی دشمنیاں اور رنجشیں، دوسرے کے موت پر جنازے میں شرکت کے ذریعے دور ہوجاتی ہیں ۔لہذا حضر فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیرا لمومنین علیہ السلام کے  اس اقدام   سے  ان کے درمیان رنجش کی نوعیت خود بخود واضح ہوجاتی ہے ۔

 جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت والے جو اسناد نماز جنازے میں شرکت کے سلسلے میں پیش کرتے ہیں وہ سب سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں ۔

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1963

 

 لہذا   جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینا بھی اگر زہری کا گمان ہو تو یہ ایسا گمان ہے کہ جو حقیقت پر مبنی ہے  اور جب یہ حقیقت ہے تو جناب سیدہ کا راضی نہ ہونا  اور معاملہ جوں کاتوں باقی رہنا  اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والا سمجھنے کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں  ۔

ایک عجیب تناقض :

جیساکہ اہل سنت کے علماﺀ شروع میں یہ ادعا کرتے ہیں کہ جناب سیدہ ناراض نہیں ہوئی تھیں، حدیث سن کر خاموش ہوئی تھیں اور معاملہ ختم ہوا تھا۔ لیکن بعد میں خود ہی اپنے پاوں میں کلہاڑی مارتے ہیں اور اپنے ہی مدعا کو خراب کر دیتے ہیں اور شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں سے ایسے دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جن کے مطابق خلیفہ اول سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر آکر ان سے معزرت خواہی کرتا ہے  اور یہ آپ کی زندگی کے آخری مراحل میں {یعنی تقریبا اس واقعے کے چھے ماہ بعد }اب اگر معاملہ ختم ہوا تھا اور جناب سیدہ ناراض نہیں ہوئی تھیں تو رضایت کے لئے کیوں ان کے دروازے پر آکر التماس کرتے رہے؟

اگرچہ یہ روایات بھی سب ضعیف ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آُپ ناراض ہوگئی تھی اور آپ کا مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے آپ رنجیدہ ہوئی تھیں۔

جناب سیدہ کی شان میں توھین نہ کرنا :

بعض لوگ خلفاﺀ سے دفاع اور حقیقت کو چھپانے کےلئے جناب سیدہ کی شان میں توھین کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ۔۔۔۔

کیونکہ حدیث کی تاویل میں آپ کو کچھ شبھہ تھا اور آپ یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ آپ کا حق تھا آپ کو روایت بتانے کے بعد آپ نے حقیقت کو تسلیم تو کیا لیکن پھر بھی آپ کچھ رنجیدہ ہوئی  تو جناب ابوبکر اس قسم کی معمولی کدورت اور رنجش کو دور کرنے کے لئےخود چلے گئے  ۔۔۔

نعوذ باللہ ۔۔۔ کیا یہ لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فرمان رسول سننے اور حقیقت ظاہر ہونے کے بعد بھی رنجیدہ ہوئیں اور ناراض رہی یعنی حقیقت واضح ہونے کے بعد حق تو یہ تھا کہ آپ ناراض نہ ہوتیں اور خلیفہ نے آپ کو آگاہی دینے کے بعد آپ کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہے تھیں لیکن پھر بھی خلیفہ کا احسان ہے کہ اس معمولی رنجش کو دور کرنے کے لئے آُپ کے گھر گئے ۔۔۔۔

    کیا ایسا اسلام کی خاتون اول اور جنت اور مومنین کی سب عورتوں کی سردار جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں قابل تصور ہے ؟

ایسا تو عام عورت کے بارے میں کہنا بھی صحیح نہیں ہے لیکن مذھبی تعصب اور ہر حالت میں اپنے موقف سے دفاع کے لئے بعض لوگ نرم اور ہمدردی کے لہجے میں جناب سیدہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی چیزکی نسبت دیتے ہیں کہ جو ایک عام خاتون کے بارے میں دینا بھی صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض غیر ذمہ دارانہ الزامی شبھات :

کہتے ہیں کہ جناب سیدہ ابوبکر سے ناراض ہوئیں تو کیا ہوا ؟ آپ خود حضرت علی علیہ سلام سے بھی غضبناک ہوئیں تھیں لہذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر جواب :

اس سلسلے میں جو حوالے پیش کیجاتے ہیں ان کی سند سے بحث سے قطع نظر ۔۔۔۔۔

ان میں کسی خاص مورد میں وقتی طور پر چند لمحے کے لئے ناراض ہونے کی بات ہے ۔۔۔۔ دائمی اور مکمل بائیکاٹ اور قطع تکلم اور قطع تعلق کی بات نہیں ہے ۔۔۔۔

اگر صرف ناراض ہونے اور غضبناک ہونے کو دکھا کر اس کےاثرات مرتب کرنا چاہتے ہیں تو  اہل سنت کی کتابوں میں  کتنے ایسے اسناد ہیں کہ جن میں آنحضرت  کئی دفعہ اصحاب اور ازواج سے سخت ناراض اور غضبناک ہوئے ؟

ناقابل انکار تاریخی حقیقت کا انکار کیوں :

حقیقت بینی سے کام لے تو جناب فاطمہ ع کا غضبناک ہونا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے جانا اظہر من الشمس اور ناقابل انکار حقیقت ہے ۔   

ایک اہم نتیجہ :  شیعہ اور اہل سنت کی الگ الگ  تاریخ ۔۔

اب اس بحث کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حقیقت میں  اہل سنت والے اس معاملے میں شیعہ موقف کو رد نہیں کرتے بلکہ اپنی کتابوں میں موجود جناب فاطمہ زہرا ع اور مولا علی کے موقف کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور خلفاء کو حق بجانب سمجھ کر ان دو عظیم ہستیوں کو جھٹلانے کی چکر میں ہے  اور  کیونکہ اصحاب اور اہل بیت کے غلامی کا ادعا اور چرچا زیادہ کرتے ہیں ۔

 لہذا یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم ان ہستیوں کو خطا کار کہتے اور سمجھتے ہیں ۔لیکن اس حقیقت کو چھپانے کے لئے شیعوں کی طرف منفی  تبلیغات کا رخ کرتے ہیں اور شیعوں کو برا بلا کہہ کر حقیقت میں جناب فاطمہ ع اور مولا علی کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

 جیساکہ اہل سنت کے  بعض علماء نے کھل کر کیا اور بعض نے  شیعوں کو خراب کرنے کے زریعے اس کام کو انجام دیا ہے ۔

اور شیعہ بھی جب اس مسئلے میں اہل سنت سے  بحث کرتے ہیں تو یہاں بھی حقیقت میں شیعہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیر المومنین علیہ السلام کے موقف کو بیان اور اس سے دفاع کررہے ہوتے ہیں ۔

لیکن اہل سنت کے مناظر حضرات کیونکہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرسکتے ۔کیونکہ اگر عوام اور عام لوگوں کو  اس حقیقت کا  پتہ چل جائے کہ  شیعہ جو کہتے ہیں وہ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیر المومنین علیہ السلام کا موقف ہے اور وہ بھی اہل سنت کی سب سے معتبر کتابوں میں موجود ہین تو وہ اپنے مذھبی تاریخ کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں گے   اس حقیقت کے روشن ہونے سے عوام  کے ذہنوں میں بہت سے  ایسےسوالات اور شبھات اٹھ سکتے ہیں کہ جن کا جواب دینا ان مناظر حضرات کے بس میں نہیں۔

   لہذا پہلے مرحلے میں ہی یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعوں کی باتیں  حقیقت پر مبنی نہیں اور سب  ایک راوی کا گمان  ہیں  اور یہ گمان غلطی سے ہماری سب سے معتبر کتابوں میں ذکر ہے ۔

 

 

نتیجہ اور خلاصہ :

اب تک کی  گفتگو سے یہ بات ثابت ہوئی  کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  اور امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے  فدک اور دوسرے  حقوق کا مطالبہ جاری رہا  اور خلیفہ دوم کے دور تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

اس کا لازمی نتیجہ  حضرت فاطمہ اور امیر المومنین علیہما السلام  کا خلفاء کو اپنے حقوق سے محروم  کرنے والے  سمجھنا اور ان سے ناراض ہوکر دنیا سے جانا ہے کیونکہ کوئی ایسے پر راضی نہیں ہوسکتا کہ جو اس کے نذدیک  اس کے حقوق سے محروم کرنے والا ہو ۔

جیساکہ جناب عائشہ کا واضح بیان ،  دوسرے  بہت سے شواہد  اور اہل سنت کے علماء کا اعتراف اس پر دلیل ہے ۔

 

 

 

 

   

 

 

 

 

 

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی