2024 March 28
امام کو آگر غذا میں زہر کی ملاوٹ کا علم تھا تو امام نے کیوں تناول فرمایا ؟
مندرجات: ٢٠٩٨ تاریخ اشاعت: ٠٩ October ٢٠٢١ - ١٥:١٨ مشاہدات: 1917
سوال و جواب » امام حسن (ع)
امام کو آگر غذا میں زہر کی ملاوٹ کا علم تھا تو امام نے کیوں تناول فرمایا ؟

امام کو آگر غذا میں زہر کی ملاوٹ کا علم تھا تو امام نے کیوں تناول فرمایا ؟

کیا امام حسن علیہ السلام کو برتن میں دودھ یا غذا میں زہر کی ملاوٹ کا علم تھا ؟

 سوال اور شبھہ کی وضاحت۔

عام طور پر شیعہ مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض اور شبھہ اٹھایا جاتا ہے کہ شیعہ عقیدے کے مطابق امام کو ہر چیز کا علم ہوتا ہے ۔ پس امام کو کھانے اور پینے کی چیز میں زہر کی ملاوٹ کا علم ہونا چاہئے ۔ اب آگر یہ علم ہو اور جانتے ہوئے زہر پیا  ہو  تو یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ آگر امام کو علم نہیں تھا تو یہ شیعہ نظریے کے خلاف ہے ۔

جواب  :

سيد مرتضي (کہ جو شیعہ مایہ ناز متکلم  اور مشہور کتاب الشافی کے مصنف ہیں  ) آپ علم امام کے بارے میں فرماتے ہیں :

ضروری نہیں ہے کہ امام(ع) سب غيبی علوم اور جو ہوا ہے یا ہونے والا ہے ان سب کو جانیں ۔ کیونکہ اس سے مندرجہ ذیل چیزیں لازم آتی ہے۔  

1.     امام اللہ کے ساتھ تمام علوم میں شریک ہوں ۔

2 . امام کا علم غیر منتہی اور لام محدود ہونا ۔

 3. امام کا علم ذاتی ہونا .

مندرجہ بالا کوئی بھی بات صحیح نہیں:

اوّلاً: امام تمام علوم میں اللہ کے ساتھ شریک نہیں ہے  ؛

ثانياًامام کا علم لا محدود نہیں ہے  ؛

ثالثاً : بہت سے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ امام کا علم اللہ کی طرف سے ہے اور ذاتی نہیں ہے ۔

لہذا جو علوم اور آگاہی اللہ کی طرف سے امام کو حاصل ہوئی ہو، جیسے غيبي علوم  گزشتہ اور آئندہ والوں کی خبریں وغیرہ تو یہ چیزیں قابل قبول ہیں، ورنہ امام کو سب چیزوں کو جاننے والا ہونا ضروری نہیں ہے ۔

لہذا ضروری نہیں ہے کہ ہم اس چیز کے قائل ہوں کہ امام کو اپنی وفات اور شہادت کے وقت اور شہادت کی کیفیت سب چیزوں کا تفصیلی علم  ہوتا ہے ۔

امير المؤمنين(عليه السلام) کے بارے میں بہت سی روایات کے مطابق آپ اپنی شہادت کے زمان کو جانتےتھے اور اپنے قاتل کو بھی جاننتے تھے ۔لیکن یہ قبول کرنا ضروری نہیں کہ آپ اپنی شہادت کے وقت کو بھی جاننتے ہوں ۔

اگر ایسا ہوتا تو  ضروری تھا کہ آپ قاتل کو خود سے دور کرئے اور اپنے کو ہلاکت سے بچائے ۔

شيخ مفيد نے بھی تمام واقعات کے بارے میں امام کے علم پر اجماع کے بارے میں لکھا ہے :

شیعوں کا ایسا کوئی اجماع نہیں ہے کہ امام کو تمام چیزوں اور واقعات کا علم ہونا ضروری ہو  ۔ہاں اس پر اجماع ہے کہ امام کو ہر واقعے اور مسئلے کا شرعی حکم معلوم ہونا ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ امام کو سب چیزوں اور سب واقعات کا علم ہو اور وہ سب چیزوں پر تفصیلی طور پر  تمام جزئیات کے ساتھ علم  اور آگاہی رکھتے ہوں ۔

  ؛ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ امام کلی باتوں کا علم رکھتے ہوں لیکن تفصلی طور پر علم نہ رکھتے ہوں اور یہ کلی علم بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے ۔ لہذا ہم اس نظریے کو قبول نہیں کرتے کہ امام کو ہر چیز اور ہر واقعے کا تفصیلی علم ہونا ضرری ہو ،اس قسم کے ادعا کو قبول کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔

ثانياً حضرت علي(عليه السلام) کا اپنے  قاتل اور قتل کے زمان پر علم کے بارے میں بھی ایسی روایات ہمارے پاس موجود ہیں کہ جن کے مطابق حضرت علي(عليه السلام) اپنی  شهادت پر علم رکھتے تھے اور اپنے قاتل کو بھی جانتے تھے لیکن زمان شہادت پر تفصیلی علم کے بارے میں کوئی روایت ہمارے پاس نہیں ہے .

لہذا مرحوم مفيد اور سيد مرتضي کے نظریے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے :

امام کے علم غیب کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ آپ کو تفصیل کے ساتھ زمان اور مکان شہادت کا علم ہو مثلا یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ کس ٹائم مثلا نماز کی دوسری رکعت کے سجدے میں آپ شہید ہوں گے ۔ یا مثلا سامنے موجود انگور یا دودھ میں زہر ہونے کو جاننا ۔

۔جیساکہ علم امام کے بارے موجود روایتیں بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں :

1. امام صادق(عليه السلام) سے نقل ہوا ہے : امام جس وقت کسی چیز کو جاننا چاہئے تو اللہ انہیں اس کا علم دیتا ہے  ؛

2. امام صادق(عليه السلام) سے نقل ہوا ہے  : امام جس وقت جاننا چاہئے تو جان سکتا ہے  .

بعض نقلوں میں ہے : امام جس وقت جاننا چاہئے تو امام کو اس کا علم دیتا ہے  ؛

3 . معمّر  نے  امام صادق (عليه السلام) سے سوال کیا : کیا آپ علم غیب جانتے ہیں ؟ امام نے جواب دیا : کبھی علم کے دروزے کھل جاتے ہیں لہذا ہمیں علم حاصل ہوجاتا ہے لیکن کبھی علم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں لہذا اس وقت ہمیں علم نہیں ہوتا ۔

اس قسم کی روایات کا مفھوم اور معنی یہ ہے کہ  

 : 1 امام کے پاس دائمی علم غیب نہیں ہے ،جس وقت چاہئے علم اور آگاہی حاصل کرسکتے ہیں ؛

 2. بعض غیبی خبریں کہ جن کو جاننا ضروری نہ ہو، امام نہیں جانتے، امام  کا اپنی شہادت کے وقت اور اس کی کیفیت سے آگاہی ان دو باتوں سے خارج نہیں۔۔

نتيجه:

روایات اور شیعہ بزرگان کے راے کے مطابق

 امام حسن مجتبي(عليه السلام) کا پانی یا غذا کا زہر سے ملا ہوا ہونے کو تفصیلی طور پر جاننے کا نظریہ صحیح نہیں ہے ۔

اس سلسلے میں بعض شیعہ علما کا یہ نظریہ ہے کہ امام اصولی طور پر عادی زندگی میں  اپنے غیبی علوم سے بہرہ مند ہونے پر مامور ہی نہیں ہے ۔ بلکہ اس قسم کے امور میں آپ حضرات کی زمہ داری عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنا ہے ۔

اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ آگر آپ لوگ جاننا چاہئے اور غیبی امور سے آگاہی حاصل کرنا چاہے  اور آگاہی حاصل کا ارادہ کرئے تو انہیں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے ۔

لیکن جن امور میں امام عادی اور رائج طریقے سے علم حاصل کرنے اور زندگی گزارنے پر مکلف تھے اور اپنے غیبی علوم سے بہرہ مند ہونے پر مامور ہی نہیں تھے ،ان امور میں امام علم غیب حاصل کرنے  کا ارادہ نہیں کرتے ۔

 

تحقیقاتی ادارہ حضرت ولي عصر (عج)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات