2024 March 28
معاویہ کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کی صلح
مندرجات: ٢٠٠٦ تاریخ اشاعت: ١٩ January ٢٠٢٣ - ٠٩:٣٥ مشاہدات: 2828
یاداشتیں » پبلک
معاویہ کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کی صلح

 اعتراض :  اگر معاویہ برا آدمی تھا تو کیوں حسن بن علی (ع) نے اس سے صلح کی ؟  انہوں نے کیوں مسلمانوں کی قیادت کو ایک برے آدمی کے سپرد کردیا ؟ کیوں امام حسن ؑ نے کثیر تعداد میں سپاہیوں کے ہوتے ہوئے معاویہ سے صلح کرلی جبکہ  امام حسینؑ   نے قلیل سپاہیوں کے باوجود یزید کے ساتھ جنگ کی ؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان دونوں راستوں(صلح و جنگ) میں سے کوئی ایک راستہ  غلط  تھا ؟

تحلیل و جائزہ :

 سلفیوں کی طرف سے  متعدد انداز میں دہرائے جانے والے اس طرح کے  اعترضات  کے صحیح تجزیہ کے لئے چند نکات کی طرف  توجہ ضروری ہے :

پہلا نکتہ :

  معاویہ  کے متعلق کہ وہ  اچھا آدمی تھا یا برا ، سلفیوں  ۔ کہ جو ہمیشہ اپنے  اسلاف کی اتباع کا دم بھرتے ہیں ۔ کو   اس بارے میں  کچھ اپنے اسلاف کے کہے کی طرف  بھی رجوع کرلینا چاہیئے   چنانچہ احمد بن حنبل کہتے ہیں :  علی ؑ کے دشمنوں  کو جب آپ کے اندر کوئ عیب نظر نہیں آیا تو انہوں نے حسد  کے مارے ، آپؑ کے دشمن  (یعنی معاویہ )  کے فضائل گھڑنے شروع کردیئے  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاویہ میں کوئی فضیلت نہیں پائی جاتی  تھی ۔([1])

جناب بخاری، اپنی کتاب  الصحیح میں جہاں معاویہ کے متعلق روایات لاتے ہیں  اس کے عنوان  میں ’’ باب فضایل معاویۃ‘‘  کی جگہ  ’’ باب ذکر معاویۃ ‘‘ تحریر کرتے ہیں  ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ جناب بخاری ،معاویہ  کی کسی فضیلت کے قائل نہیں تھے ۔([2])

اسحاق بن راہویہ  ۔ بخاری کے استاد ۔ کا بھی یہ نظریہ تھا کہ  معاویہ کی فضیلت کے سلسلہ میں ایک بھی صحیح حدیث پیغمبر اکرم سے وارد نہیں ہوئی ہے۔([3])

معاویہ  وہ ہے کہ ۔ جناب مسلم، صاحب صحیح مسلم ، کی تعبیر کے مطابق ۔ جس نے عالم ہستی کی پاک ترین فرد یعنی امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام پر  سب و شتم  کرنے جیسی بدعت کا سب سے پہلے  آغاز کیا  اور  اس نے  سعد بن ابی وقاص ۔ کہ جو علی پر سب و شتم کرنے سے پرہیز کرتا تھا ۔ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : ’’ ما منعک ان تسبّ ابا تراب‘‘ ۔([4])  تمہیں علی پر سب و شتم کرنے سے کون سی چیز روکتی  ہے ۔

معاویہ وہ ہے جس نے  خلافت کو ایک موروثی سلطنت میں تبدیل کردیا تھا  اور جس نے ایسا کرکے اسلام کی نمو اور ترقی کے دروازوں کو بند کر دیا تھا ۔

  تفسیر  المنار کے مؤلف، جرمن کے ایک   بڑے سیاست داں سے نقل کرتے ہیں کہ جس نے  استنبول  میں منعقد ایک تقریب میں  کہا تھا :’’ ہم یورپ والوں پر فرض ہے کہ وہ  سونے سے معاویہ کا ایک مجسمہ بنا کر برلن کے کسی چوراہے پر نصب کردیں ‘‘ ۔ جب اس سے دریافت کیا    گیا کہ کیوں تم ایسا کرنا فرض سمجھتے ہو ؟  تو اس نے جواب دیا :’’ چونکہ اس(معاویہ ) نے اسلام کے حکومتی سسٹم کو مورثی سلطنت کے ڈھانچے میں ڈھال  کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے اوراگر وہ ایسا نہ کرتا تو  پوری دنیا میں  آج اسلام کا ہی بول بالا ہوتا  اور جرمن اور پورے یورپ کے لوگ مسلمان ہوچکے ہوتے ‘‘ ۔([5])

ہاں ! معاویہ وہی ہے کہ جس کے متعلق رسول خدا نے عمار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’ تقتلک فئۃ باغیۃ‘‘ ۔([6]) تمہیں ایک ستمگر اور باغی گروہ قتل کرے گا ۔

عالم اسلام کے علماء ۔چاہے وہ  شیعہ ہوں یا  سنی  ۔ کی نظر میں معاویہ ایک ظالم  اور ستمگر شخص ہے  کہ جس کے ساتھ ، پیغمبر اکرم کے فرمان کے بموجب ،امیرالمؤمنین علیؑ نے جنگ لڑی ۔

مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ کیوں وہابیت کے پیروکار  فرزند رسول اللہ امام حسن ؑ کا ایسے فرد کے ساتھ صلح کرنے کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جس نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ : چونکہ معاویہ ایک قابل و لائق شخص تھا لہذا امام حسن علیہ السلام نے اسلامی معاشرے کی قیادت  کی ذمہ داری  اس کے سپرد کردی!

اگر اتنی آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہو  تو پھر  صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں کیا کہیں گے ؟ کیا حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ کا مشرکین کے ساتھ صلح کرنا ان کی لیاقت اور قابلیت کی دلیل  ہے  کہ  جس میں اللہ کے رسول نے کعبہ ، یعنی خانہ توحید کو ان کے سپرد کردیا تھا ۔

دوسرا نکتہ :

امام حسن علیہ السلام نے بغیر مزاحمت کئے  ہی معاویہ کے ساتھ صلح نہیں کر لی  تھی تاکہ آپؑ پر یہ اعتراض کیا جاسکے کہ جب معاویہ  اتنا برا تھا تو پھر  آپؑ نے کیوں مسلمانوں کی قیادت کو ایسے نا اہل  فرد کے سپرد کردیا تھا؟ بلکہ جب تک امام ؑ کے سپاہوں نے آپ کی اطاعت کی،  آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کرتے رہے  اور ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے ساتھ جنگ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے  لیکن جیسے ہی آپؑ کے سپاہیوں نے آپ کو اکیلا چھوڑ دیا اور آپ کی  حکم عدولی کرنے لگے   تو مجبور ہوکر  امامؑ کو معاویہ کی طرف سے تھونپی ہوئی صلح کو قبول کرنا پڑا ۔

تاریخی دستاویز کے مطابق ،  امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے سے پہلے مدائن میں اپنے لشکر والوں سے خطاب کرتے ہوئے  یہ فرمایا تھا  : کوئی بھی طاقت ہمیں لشکر شام کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی ۔ ہم پہلے تم لوگوں کی ثبات قدمی، اتحاد  اور فکری  ہماہنگی  کے سبب شامیوں سے لڑرہے تھے  لیکن آج کینہ  اور حسد کے سبب ،آج تمہارے اندر سے  وہ فکری  ہماہنگی اور  اتحاد ختم ہوگیا ، تم لوگوں نے اپنی استقامت کو کھودیا اور ایک دوسرے کے خلاف شکوے شکایات کرنے لگے ۔ جب تم صفین کے لئے گھروں سے نکلے تھے  تو تم اپنے دین کو اپنے دنیاوی منافع پر مقدم سمجھتے تھے  لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اب تم اپنے دنیا فوائد کو دین پر ترجیح دیتے ہو ۔ لیکن ہم   آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے  پہلے تھے، لیکن تم  اس وقت ہماری نسبت  پہلے کی طرح  وفادار نہیں رہے ہو ۔ تم میں سے  کچھ کے رشتہ دار جنگ صفین میں  اور کچھ کے جنگ نہروان میں قتل ہوئے ، پہلا گروہ  اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہا ہے اور دوسرا گروہ   اپنے رشتہ داروں کا انتقام طلب کررہا ہے ، اور باقی ماندہ لوگ بھی ہماری پیروی نہیں کررہے ہیں ! معاویہ نے ہم سے ایسی درخواست کی ہے کہ جو انصاف سے دور ، اور ہمارے بلند و بالا مقصد  اور عزت کے شایان شأن نہیں ہے ۔ پس اگر تم لوگ راہ خدا میں قتل ہونے کے لئے تیار ہو  تو بتاؤ تاکہ اس سے جنگ کریں  اور اس  کا جواب تلواروں سے دیں  لیکن اگر زندگی اور عافیت کے خواہ ہوں تو بھی بتلاؤ  تاکہ اس کی درخواست کو قبول کرلیا جائے ‘‘ ۔جیسے ہی اپنے خطاب کے دوران  امام علیہ السلام اس مرحلے پر  پہونچے  ہر طرف لشکر  میں یہ صدا گونجنے لگی : ’’ البقیۃ البقیۃ ‘‘  ہم  زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔([7])

یہی وہ مقام تھا جہاں امام کو اپنی تنہائی کا احساس ہوگیا  چونکہ آپ کے سپاہی معاویہ کے مقابل جہاد کرنے کے لئے تیار نہیں تھے  چنانچہ مؤرخین کی تعبیر کے مطابق : ’’ فلماّ افردوہ امضی الصلح ‘‘ ۔([8]) کہ جب انہوں (آپ کے لشکر والوں)نے آپ کو اکیلا چھوڑ دیا  تو آپ  کو   مجبور ہوکر صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے ۔

امام حسن علیہ السلام نے  وہی فرمایا تھا  جو امام حسین علیہ السلام کا فرمان تھا  اور وہ یہ کہ آپؑ نے ایک خطاب کے دوران فرمایا تھا : ’’ لو وجدت اعواناً ما سلمت له  الامر، لانه محرّم علی بنی امية ‘‘  ۔([9]) اگر میرے پاس ایسے جانباز سپاہی ہوتے جو  دشمنان خدا کے مقابل میری مدد کرتے تو میں ہر گز امر خلافت کو معاویہ کے  حوالے نہ کرتا  چونکہ خلافت بنی امیہ پر حرام ہے ۔

 وہ چیز جسے خود امامؑ نے اپنی زبان مبارک سے اپنے سست و بزدل سپاہیوں  کے لئے فرمایا ہو بھلا   آج کیسے  اسی کا الزام آپ پر لگایا جاسکتا ہے ؟ امام ؑ نے  فرمایا : خدا کی قسم ! تم لوگوں کی بے وفائی کے  سبب میں مجبور ہوکر مسلمانوں کی قیادت کو معاویہ کے سپرد کررہا ہوں  ۔ لیکن یہ  یقین کرلو  کہ تمہیں بنی امیہ کی حکومت کے پرچم  تلے کبھی خوشی اور چین نصیب نہیں ہوگا  اور تم ہمیشہ اذیت و آزار میں گرفتار رہو گے ۔  اور پھر اس کے بعد فرمایا : ’’ولکنی کانی انظر الی ابنائکم واقفین علی ابواب ابنائهم یستسقونهم و یستطعمونهم بما جعل اللّه لهم فلا یسقون ولا یطعمون فبعدو سحقا لما کسبته ایدیهم فسیعلم الّذین ظلموا ایّ منقلب  ینقلبون‘‘ ۔([10]) اور گویا میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کل تمہارے بچے ان(شامیوں) کے بچوں کے دروازوں  پر کھڑے ان سے روٹی اور پانی مانگ رہے ہیں ، وہ روٹی اور پانی جو خود تمہارے بچوں کا حق تھا ۔ لیکن بنی امیہ انہیں ان کے حق سے محروم کررہے ہیں ۔

ہاں ! اگر تاریخ کے اس صفحہ کا تعصب  سے دور رہ کر اور منصفانہ انداز میں مطالعہ کیا جائے تو اس  اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی  کہ کیوں امام حسن علیہ السلام نے  مسلمانوں کی قیادت کو معاویہ جیسے آدمی کے سپرد کیا تھا ؟

تیسرا  نکتہ :

صلح اور جنگ کرنے کے معاملہ میں دو معصوموں کے طریقہ کار میں اختلاف کو لیکر یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہےکہ کہ صلح  اور جنگ  دو  اہم سیاسی اور  اجتماعی مظاہر ہیں  اور ہر ایک کے  انجام دینے کے اپنے کچھ مخصوص شراط اور حالات ہوتے ہیں ۔امام حسن اور امام حسین علیہما السلام  دونوں معصوم رہبر ہیں   حالات جس عمل کا بھی تقاضہ کریں گے یہ دونوں  اسے انجام دیں گے  ۔ اور واضح سی بات ہے کہ کبھی حالات جنگ کرنے کے ہوتے  ہیں اور کبھی صلح کرنے کے جیسا کہ خود پیغمبر اکرم  نے   بدر و احد میں جنگیں لڑیں لیکن حدیبیہ کے موقع پر صلح کی ۔

پیغمبر اکرم نے ان دونوں اماموں  کے متعلق ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو ان دونوں بھائیوں کے مستقبل کی خبر دیتی  ہے  :’’ الحسن و الحسین امامان قاما  او قعدا ‘‘ ۔([11]) حسن و حسین دونوں امام ہیں چاہے جنگ کریں یا بیٹھے رہیں ۔

یہ نکتہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام  منصب امامت پر فائز ہوئے تو آپ  بھی اپنے برادر بزرگوار کی طرح دس برس تک معاویہ کے ساتھ حالت صلح میں رہے ۔ لہذا امام حسین  علیہ السلام کی جنگ، معاویہ کی موت کے بعد سن ۶۱  ہجری میں یزید کے ساتھ واقع  ہوئی ۔اور اگر حقیقت میں امام حسین ؑ کا طریقہ، امام حسنؑ  کے طریقہ سے مختلف ہوتا تو آپ  سن ۵۰ ہجری ہی میں اپنے بھائی کی شہادت کے  فوراً بعد معاویہ کے مقابل جنگ کا اعلان کردیتے۔  لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ، بلکہ مزید دس برس صبر کیا  یہاں تک کہ جنگ کرنے کے لئے حالات  فراہم  ہوگئے  اور جب یزید برسر اقتدار آیا اور اس نے آپؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا  ،  امام ؑ نے  بیعت کرنے سے انکار کردیا  اور پھر کربلا کا خونی معرکہ وجود میں آیا ۔

چوتھا نکتہ :

اور اب  اس  اعتراض ،کہ کیوں امام حسن ؑ نے کثیر سپاہیوں کے ہوتے ہوئے معاویہ سے صلح کرلی لیکن امام حسینؑ نے مختصر سے  جانثاروں کے ساتھ جنگ کی، کے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ :جس دن امام حسنؑ مدائن میں جنگ کو بند کرکے  معاویہ کی طرف سے پیش کردہ صلح کو قبول کرنے پر  مجبور  ہوگئے تھے ۔  یہ واقعہ سن ۴۱ ہجری  کی بات  ہے   اور اس کا عاشورا کی  جنگ سے  تقریباً ۲۰ برس کے عرصہ کا فاصلہ  ہے ۔

اس دن یعنی ۴۱ ہجری میں ، ابھی لوگ معاویہ کو اچھی طرح نہیں پہچانتے تھے  اور  اس زمانے میں اسے خلیفہ پیغمبر جانتے تھے اور اہل بیتؑ کے ساتھ اس کی جنگ کو  خلیفہ مقتول(عثمان ) کا انتقام سمجھتے تھے ۔ اب ان حالات میں اگر امام حسن ؑ  اس سے لڑتے اور امام حسین ؑ کی طرح شہید ہوجاتے  تو اس کے متعلق سب سے بڑی بات لوگوں کی طرف سے یہ کہی جاسکتی تھی کہ معاویہ ایک مجتہد تھا اور اس نے امام حسن ؑ کے قتل کے سلسلہ میں خطائے اجتہادی کی ہے ۔ اور فتوے  کے سلسلہ میں مجتہد کی  خطا   معاف ہوتی ہے  بلکہ وہ ایک ثواب کا مستحق بھی ہوتا ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ امام حسنؑ اور آپ کے ساتھیوں کا خون بہہ جاتا  اور اس شہادت کا کوئی  خاطر خواہ فائدہ اور اثر بھی  مترتب نہ ہوپاتا

لیکن جب امام حسینؑ نے قیام کیا اس وقت اس واقعہ کو ۲۰ سال کا عرصہ گذر چکا تھا  اور اس عرصہ میں معاویہ اور اس کے بہی خواہوں کے چہروں سے منافقت کی نقاب ہٹ چکی تھی  اور اب عالم یہ تھا کہ لوگ معاویہ کو خلیفہ اور مجتہد شمار نہیں کرتے ۔ بلکہ  عوام معاویہ کو ایک بدعہد  فرد کے طور پر جانتے تھے کہ جس نے اپنا کیا ہوا عہد توڑ کر  مسلمین کی قیادت کی اہم  اور خطیر ذمہ داری اپنے اوباش ،بندر سے کھیلنے والے اور شراب خور بیٹے کے سپرد کردی تھی ۔

یہ وہ سب حالات تھے جن کے سبب  امام حسین کے قیام اور آپؑ کی شہادت نے عالم اسلام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ اور آپ کی شہادت کے بعد تمام اسلامی حکومت کے دائرے میں بہت سی اموی مخالف تحریکیں پیدا ہوچکی تھیں   اور ہر طرف علم بغاوت بلند ہونے لگے   تھے۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اب خود سے ہی یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ ہم نے کس جگہ غلطی کی ہے ؟ ! کیوں معاویہ کی خلافت کا انجام دلبند پیغمبر   کی فجیع اور رقت بار شہادت پر تمام ہوا ؟

اس حادثہ میں امت اپنے کو رسول اللہ کے مقابلے شرمندہ اور شرمسار محسوس کررہی تھی ۔ اور وہ اپنے سے یہ بار بار  پوچھ رہی تھی  کہ اس واقعہ کا اصلی قصوروار کون ہے ؟ کن لوگوں نے ہند جگر خوار کے بیٹے کو مسلمانوں کے سروں پر سوار کیا کہ نوبت یہاں تک پہونچ گئی ؟!

امام حسنؑ کے زمانے کے حالات کے پیش نظر ، یہ سب شرائط  اس وقت  فراہم نہیں تھے جب آپؑ  کو معاویہ کے ساتھ صلح کرنی پڑی تھی ۔

نتیجہ :

امام حسن علیہ السلام نے حکومت کو معاویہ کے سپرد نہیں کیا بلکہ یہ لوگ تھے  جنہوں نے امام کو ان حالات میں تنہا چھوڑ کر  اور آپؑ کو معاویہ کی طرف سے تھونپی ہوئی صلح کو قبول کرنے  کے مقدمات فراہم کئے تھے ۔امام حسین علیہ السلام بھی منصب امامت پر فائز ہونے کے بعد دس برس تک معاویہ کے ساتھ اپنے بھائی کے کئے عہد کی پابندی کرتے رہے ۔ صلح و جنگ دو ایسے اجتماعی مظاہر ہیں جن کے اپنے کچھ مخصوص شرائط و  حالات ہوتے ہیں ۔زمان و مکان پر حاکم شرائط ہی کبھی صلح کے   مقدمات  فراہم کرتے ہیں تو کبھی جنگ کے ۔لہذا اس بنا پر ان دونوں میں سے کسی ایک طریقہ کار کو بھی غلط شمار  نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان   دونوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہے ۔

مزید مطالعہ کے لئے کتب :

صلح الحسن ؛ شیخ راضی آل یس

صلح الحسن ؛ سید شرف الدین

 


[1][1] ۔ فتح الباری، ج۷ ، ص ۸۱ ؛ تحفۃ الاحوذی ، ج۱۰ ، ص ۲۳۱ ۔ ’’ قال : ان علیاً کان کثیر الاعداء  فتفتش اعداؤہ لہ عیباً فلم یجدوا فعمدوا الی رجل قد حاربہ فأطردوہ کیداً منھم لعلی ‘‘ ۔

[2] ۔ صحیح البخاری، ج۴ ، ص ۲۱۹ ۔

[3] ۔ تاریخ مدینۃ دمشق ، ج۵۹ ، ص ۱۰۶ ؛ سیر اعلام النبلاء ، ج۳ ، ص ۱۳۲ ؛ فتح الباری ، ج۷ ، ص ۸۱ ۔ ’’ قال:  لا یصحّ عن النبی (ص) فی فضل معاویۃ شیئ ‘‘ ۔

[4] ۔ صحیح مسلم ، ج۷ ، ص ۱۲۰ ؛ سنن الترمذی، ج۵ ، ص ۳۰۱ ۔

[5] ۔ تفسیر المنار، ج۱۱ ، ص ۲۱۴ ۔

[6] ۔ مسند احمد، ج۵ ، ص ۲۰۷ ؛ صحیح مسلم ، ج۸ ، س ۱۸۶ ۔

[7] ۔ تاریخ مدینۃ دمشق ، ج۱۳ ، ص ۲۶۸ ؛ اسد الغابۃ، ج۱ ، ص ۴۱۹ ۔

[8] ۔ سابق حوالہ ؛ الکامل ، ج۳ ، ص ۴۰۶ ۔

[9] ۔ الخرائج و الجرائح، ج۲ ، ص ۵۷۶ ۔

[10] ۔ علل الشرائع ،ج ۱ ، ص ۲۲۱ ؛ سورہ شعراء : آیت ۲۲۷ ۔

[11] علل الشرائع ، ج۱ ، ص ۲۱۱ ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی