2024 March 29
حضرت علی نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا
مندرجات: ١٩٧٦ تاریخ اشاعت: ١٨ October ٢٠٢١ - ١٦:٤١ مشاہدات: 3179
سوال و جواب » امام حسین (ع)
حضرت علی نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا

حضرت علی نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا

 

 حضرت علی علیہ السلام نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا ؟

جواب  :

حضرت علي عليه السلام سے پہلے والے خلفاء کی غلط سیاست کی وجہ سے  بہت سی بدعتوں نے سنت کی جگہ لی تھیں بہت سے حقائق تبدیل کر دئے تھے۔

خلاصہ کلام :  امام شافعی اپنی کتاب ام میں وھب بن کیسان سے نقل کرتے ہیں :

كلّ سنن رسول اللّه قد غيّرت حتي الصلاة.

كتاب الام:1/208.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام سنتیں تبدیل ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ نماز بھی۔

امام مالک نے اپنے جد مالک سے نقل کیا ہے ۔

ما أعرف شيئاً مما أدركت الناس إلا النداء بالصلاة.

الموطّأ: 1/93 وشرحه: 1/122.

لوگوں کو نماز کی دعوت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں دیکھتا ہوں۔

حسن بصري کہ جو اهل سنت کے فقہاء میں سے ہیں کہتے ہیں : لو خرج عليكم أصحاب رسول اللّه ما عَرَفوا منكم إلاّ قبلكتم.

جامع بيان العلم: 2/244.

اگر اصحاب نکل کر آئے تو تم لوگوں کے اسلام میں سے سواے قبلہ کے کوئی اور چیز پہچان نہیں پائیں گے ۔

یہی وجہ ہے کہ بخاری کی روایت کے مطابق صحابی پیغمبر عمران بن حصین نے جب بصرہ میں حضرت  علي بن ابي طالب عليه السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کہا :علی کی نماز نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی  نماز یاد دلائی  ۔

عن عمران بن حُصين قال : صلّي مع علي بالبصرة فقال: ذَكَّرنا هذا الرجل صلاة كنّا نصلّيها مع رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم.

صحيح البخاري: (161 ح784) ، 1/200ط. دار الفكر ـ بيروت الاوفست عن طبعة دار الطباعة باستانبول. باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الأذان.

اسی کی مانند ایک روایت مطرف بن عبد اللّه نے نقل کیا ہے :

صليت خلف علي بن أبي طالب أنا وعمران بن حصين فكان إذا سجد كبر وإذا رفع رأسه كبر وإذا نهض من الركعتين كبر فلما قضي الصلوات أخذ بيدي عمران بن حصين فقال : لقد ذكّرني هذا صلاة محمد صلي اللّه عليه وسلم أو قال : لقد صلّي بنا صلواة محمد صلي اللّه عليه وسلم.

صحيح البخاري: (162 ح 786) ، 1/191 ، باب إتمام التكبير في السجود.

  مُطَرِّف کہتے ہیں  : میں نے اور عمران بن حُصين نے علي بن أبي طالب کے پیچھے نماز پڑھی۔

إذا سجد كبر وإذا نهض من الركعتين كبر فلما انصرفنا من الصلاة قال : أخذ عمران بيدي ، ثم قال : لقد صلي بنا هذا صلاة محمد صلي اللّه عليه وسلم أو قال : قد ذكّرني هذا صلاة محمد صلي اللّه عليه وسلم.

صحيح مسلم: 2/8 طبعة دارالفكر ـ بيروت ، (1/ 169 ح 393) باب إثبات التكبير من كتاب الصلاة.

اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین کو چھوڑنے اور ایسے لوگوں کے حاکم بننے کی وجہ سے جو جانیشنی کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، کیا کیا بگاڑ اسلامی معاشرے میں وجود آیے تھے اور شریعت پر کیا گزری تھی  ۔

علي (ع) نے یہ دیکھا کہ جو بدعتیں اور بگاڑ پہلے والوں کے دور میں وجود میں آئے ہیں اگر ان کی اصلاح کرنا چاہئے تو لوگ اس اصلاح کو تحمل نہیں کرسکے گیں ۔

نمونے کے طور پر :  تراويح کی نماز کہ جو خليفه دوم کی ایجاد کردہ بدعت تھی جیساکہ بخاری میں ہے کہ خلیفہ دوم نے ہی کہا:

نعم البدعة اچھی بدعت ہے۔   صحيح بخاري ج 1 ص 342 .

حضرت علي عليه السلام نے اپنے دور حکومت میں امام حسن کو حکم دیا کہ وہ مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے لوگوں کو روکے ۔لیکن لوگوں نے فریاد بلند کیا :  

وا عمراه ، وا عمراه ،

اس وجہ سے حضرت امير عليه السلام نے فرمایا:

قل لهم صلوا

ان لوگوں سے کہو جس طرح پڑھنا چاہو ،پڑھ لو ۔۔۔

جساکہ ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے توسط سے منقول روایت کے مطابق امام نے اسی سلسلے میں ایک خطبہ دیا اور اپنا عذر پیش کیا ۔۔۔

 گویا امام علی علیہ السلام کو اس شبہہ اور اعتراض کا علم تھا۔۔۔ اور یہ شبہہ اور اعتراض اس دور میں بھی لوگ اٹھاتے تھے۔۔۔

امام  نے ایک خطبے کے ضمن میں اس قسم کے شبہات کے جواب دیے۔۔۔

 امام اس میں واضح طور پر فرماتے ہیں: گزشتہ حکومتوں کے دور میں  ایسی بہت ساری بدعتیں انجام پائی ہیں۔

 قَدْ عَمِلَتِ‏ الْوُلَاةُ قَبْلِي أَعْمَالًا خَالَفُوا فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، مُتَعَمِّدِينَ لِخِلَافِهِ، نَاقِضِينَ لِعَهْدِهِ، مُغَيِّرِينَ لِسُنَّتِهِ، وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَى تَرْكِهَا وَ حَوَّلْتُهَا إِلَى مَوَاضِعِهَا وَ إِلَى مَا كَانَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ۔

کہ اگر میں ان کی اصلاح کرنا چاہوں تو :

 لَتَفَرَّقَ عَنِّي جُنْدِي، حَتَّی أَبْقَی وَحْدِی أَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِی الَّذِینَ عَرَفُوا فَضْلِی وَ فَرْضَ إِمَامَتِی مِنْ کتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ »

میرے لشکر والے تتر بتر ہو جائیں گے اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا میں اپنے ان تھوڑے سے شیعوں کے ساتھ  تنہا رہ جاؤں گا کہ جو میرِی فضیلت کو جانتے ہیں اور میری امامت کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنے اوپر فرض ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔

«أَ رَأَیتُمْ لَوْ أَمَرْتُ بِمَقَامِ إِبْرَاهِیمَ ع فَرَدَدْتُهُ إِلَی الْمَوْضِعِ الَّذِی وَضَعَهُ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ »

اگر مقام ابراہیم کو  اسی جگہ قرار دوں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرار دیا تھا.

«وَ رَدَدْتُ فَدَکاً إِلَی وَرَثَةِ فَاطِمَةَ ع» 

   اگر میں فدک کو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اولاد کو واپس پلٹا دوں۔

یا متعة النساء اور متعة الحج کو حلال کردوں اور لوگوں کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے پر مجبور کروں۔ یا نماز تروایح ۔….{گزشتہ خلفاء کے دور کے دسیوں مورد بدعتوں کو ذکر کرتے ہیں} اگر میں ان کو اصل حالت کی طرف پلٹا دوں تو

 «إِذاً لَتَفَرَّقُوا عَنِّی»

تو لوگ مجھ سے دور ہوجائیں گے.

«امام ایک شاہد پیش کرتے ہیں

وَ اللَّهِ لَقَدْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ لَا یجْتَمِعُوا فِی شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا فِی فَرِین مضَة»

اللہ کی قسم! میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ مسجد میں رمضان کے مہینے میں نماز تراویح نہ پڑھیں اور صرف فریضہ نمازوں کے علاوہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جمع نہ ہوجائیں۔ «فَتَنَادَی بَعْضُ أَهْلِ عَسْکرِی مِمَّنْ یقَاتِلُ مَعِی یا أَهْلَ الْإِسْلَامِ غُیرَتْ سُنَّةُ عُمَر ینْهَانَا عَنِ الصَّلَاةِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ تَطَوُّعا»

تو میرے لشکر میں سے بعض کہنے لگے : اے مسلمانو! عمر کی سنت کو تبدیل کیا ہے اور  ہمیں  رمضان میں {تروایح کی} نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔

«وَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ یثُورُوا فِی نَاحِیةِ جَانِبِ عَسْکرِی»

مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ اب میرے ہی لشکر والے میرے خلاف اٹھ کھڑے ہو جائیں گے اور مجھ پر ہی حملہ کریں گے ۔

لہذا امام نے حکمت عملی اور تدبیر سے کام لیا ۔ معاویہ جیسے دشمن کے مقابلے میں اپنے لشکر کی صفحوں میں انتشار پھلانے سے دوری امام کے لئے فدک کی زمین واپس لینے سے زیادہ اھمیت رکھتی تھی ،دشمن کو  اپنے لشکر کا شیرازہ بکھیرنے کا موقع فراہم نہ کرنا ہی اس وقت کی ضرورت تھی ۔۔

جیساکہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی اسی چیز کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مثلا امیر المومنین علی علیہ السلام خمس کو ان آل محمد کا حق سمجھتے تھے ۔۔۔۔

جب حسنین کریمین نے خمس کا مطالعہ کیا تو آُپ نے فرمایا وہ آپ لوگوں کا حق ہے چاہئے وہ حق لے لے، چاپئے تو اس حق سے ہاتھ اٹھا دیں ۔۔ کیونکہ ہم اس وقت معاویہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ۔۔۔۔

13130 - قَالَ الشَّافِعِيُّ: أُخْبِرْنَا، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ سَأَلُوا عَلِيًّا بِقِسْمٍ مِنَ الْخُمُسِ، قَالَ: «هُوَ لَكُمْ حَقٌّ، وَلَكِنِّي مُحَارِبُ مُعَاوِيَةَ، فَإِنْ شِئْتُمْ تَرَكْتُمْ حَقَّكُمْ مِنْهُ» .

معرفة السنن والآثار (9/ 271): المؤلف: أحمد بن الحسين ، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ)المحقق: عبد المعطي أمين قلعجي۔الناشرون: جامعة الدراسات الإسلامية (كراتشي - باكستان) ، دار قتيبة (دمشق -بيروت) ، دار الوعي (حلب - دمشق) ، دار الوفاء (المنصورة - القاهرة)الطبعة: الأولى، 1412هـ - 1991م

 

التماس دعا ۔۔۔۔

  شبهات کے جواب دینے والی ٹیم 

تحقيقاتي ادارہ  حضرت ولي عصر (عج)

 

 

 

 

التماس دعا ۔۔۔۔

  شبهات کے جواب دینے والی ٹیم 

تحقيقاتي ادارہ  حضرت ولي عصر (عج)
 




Share
1 | ,aners | | ٠٧:٢٥ - ٠٦ January ٢٠٢٢ |
اچھا ھے ماشاء اللہ

جواب:
سلام علیکم  ۔۔۔
 
اس سلسلے میں تفصیلی جواب ایک اور مقالے میں ہم نے دیا ہے۔۔۔
 دیکھیں۔۔
 

فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟

www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php
 
 
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی