2024 April 27
سعودی وزیر دفاع کا دورہ: اب پاکستان کو کس محاذ پر لڑایا جائے گا؟؟
مندرجات: ١٩٤ تاریخ اشاعت: ٣١ August ٢٠١٦ - ١٨:٠٣ مشاہدات: 1204
خبریں » پبلک
سعودی وزیر دفاع کا دورہ: اب پاکستان کو کس محاذ پر لڑایا جائے گا؟؟

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے اتوار کو اسلام آباد میں سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گرد گروپوں بالخصوص داعش سے نمٹنے کے لیے تعاون کو دگنا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
دوسری جانب  ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنانے کے مواقع میسر آئینگے۔ تہران میں پاکستانی سفیر آصف علی خان درانی سے انکی اسناد تقرری وصول کرتے ہوئے ایرانی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی میدان میں دستخط شدہ معاہدوں پر عمل درآمد کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ان معاہدوں پر عملدرآمد سے تہران اور اسلام آباد اقتصادی تعاون کو مزید بڑھانے کے قابل ہو جائینگے۔ حسن روحانی نے سرحدوں پر اور خطے میں سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ قریبی مشترکہ تعاون پر زور دیا۔ میرا حالیہ دورہ پاکستان بہت کامیاب رہا ہے۔ اس دورے میں اہم فیصلے کئے گئے ان فیصلوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے مگر اہمیت یکساں ہے۔ عالمی سطح پر بھی دونوں ممالک کو ایک مقام حاصل ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے ناطے عالمی منظرنامے میں نمایاں ہے۔ جب مسلم ممالک کی بات ہوتی ہے تو ترکی اور انڈونیشیا سمیت دیگر کئی ممالک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ دنیا کے 58 ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں یکجائیت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ تنظیم فعال نظر نہیں آتی۔
اس میں بھی شک نہیں کہ سعودی عرب کے مطالبے پر جنگ یمن میں فوج بھجوانے کے مطالبے پر پارلیمنٹ کی طرف سے انکار کے تناظر میں نہ صرف سعودی حکمرانوں بلکہ انکے دوست عرب ممالک کے فرمانروائوں کے دل میں بھی ناراضی کا عنصر جڑ پکڑ گیا تھا۔ پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل نواز حکومت کی مجبوری تھی تاہم خود نوازشریف اپنی اور اپنے خاندان کی سالہا سال مہمان نوازی اور ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے پر سعودی حکمرانوں کے ممنون تھے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد نے ان کو مجبور محض بنا دیا جس سے پاکستان سعودی عرب تعلقات میں سردمہری آئی۔ اُدھر وزیراعظم نوازشریف کے سعودی عرب کی حمایت اور ایران کو ناصحانہ بیانات پر ایران بھی ناراض ہوا مگر ایران کی طرف سے محتاط رویہ اختیار کیا گیا حالانکہ انہی دنوں ترک صدر اردگان کے ایسے ہی بیانات پر ایران نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تو ترک صدر کو معذرت کیلئے خود ایران آنا پڑا تھا۔ یمن سعودیہ جنگ نے پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا جس کے اثرات ان ممالک کے مثبت رویے اور بیانات کے باوجود آج بھی موجود ہیں۔ اس موقع سے بھارت نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ایران‘ سعودی عرب اور یو اے ای کے دورے کئے‘ ان میں مودی کی پذیرائی حیران کن طور پر بڑھ چڑھ کر کی گئی۔ دفاعی اور تجارتی تعاون کے معاہدے تو ایک روایت اور معمول ہے۔ یواے ای میں ہندوئوں کیلئے سرکاری سطح پر مندر بنانے کا اعلان کیا گیا اور سعودی عرب نے مودی کو اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جو اب تک پاکستان کے کسی حکمران کے حصے میں نہیں آیا۔  سعودی عرب کی یہ فطرت رہی ہے کہ اس نے پاکستان سے ہمیشہ کلائنٹ سٹیٹ جیسا سلوک کیا ہے اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے یا پھر پاکستان کے حکمران ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات استوار ہیں لیکن پاکستان کی اقتصادی مجبوریوں اور پاکستانی عوام کے حرمین شریفین کے ساتھ عقیدت کے رشتہ کی وجہ سے یہ تعلقات متوازن نہیں رہے۔ سعودی عرب نہ تو پاکستان کا ہمسایہ ہے اور نہ ہی مذہبی جذباتی وابستگی اور کسی حد تک اقتصادی تعاون کی امید کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی قدر مشترک ہے۔ سعودی عرب سب ملکوں کی طرح اپنے مفادات کی روشنی میں خارجہ اور سیکورٹی پالیسی استوار کرتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، سعودی شاہ ، وزیر اعظم نریندر مودی کا فراخدلانہ استقبال کرکے یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ کس قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور عوامی تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کے بے دریغ استعمال کے خلاف بھی دوست عرب ملکوں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ نہ ہی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے پاکستان کی سفارتی کوششوں میں سعودی عرب سمیت کوئی دوسرا ملک اس کا ساتھ دینے پر تیار ہؤا ہے۔پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان میں ہم خیال مذہبی تنظیموں کے ذریعے مدارس کا جال بچھایا ہے اور اپنے لئے سفارتی اور سیاسی بنیاد فراہم کی ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ایسی بہت سی سرگرمیاں اب قومی مفاد کے خلاف قرار پارہی ہیں اور قسم کے اداروں کے ذریعے انتہا پسندی کی تبلیغ سے ملک کو متعدد مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات