2024 March 28
اصحاب کے دوست اور دشمن تاریخ سے پوچھیں۔۔
مندرجات: ١٩٠٢ تاریخ اشاعت: ١٨ March ٢٠٢١ - ١٤:٣٢ مشاہدات: 2803
یاداشتیں » پبلک
اصحاب کے دوست اور دشمن تاریخ سے پوچھیں۔۔

 

اصحاب کے دوست اور دشمن تاریخ سے پوچھیں۔۔

 تاریخی  حقیقتوں  کے خلاف جھوٹے دعوے  کچھ کم نہیں ،  تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے  تاریخی حقیتوں سے جاہل   اور سادہ   دینی جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے احساسات سے کھیلیں  ہیں  ،ہم اس مختصر تحریر  میں   اصحاب کرام کے مقدس عنوان سے  غلط فائدہ اٹھانے والوں کے حقیقی چہرے نقاب ہٹانے کی  کوشش کرینگے    اور یہ ثابت کرینگے کہ   اس قسم کے  کے لوگ  کس قدر اصحاب کی شان میں گستاخی  اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں  اور اصحاب کے  حقیقی دشمنوں  سے دفاع اور اصحاب پر ہونے والے  مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں

 آئیں  ہماری اس تحریر کا مطالعہ کریں ، ممکن ہے، آپ بھی بعض  لوگوں کی بے بنیاد تبلیغات سے متاثر ہوں۔ لہذا جلدی  میں کوئی فیصلہ کرنے کے بجاے ذرا حوصلے سے چند منٹ  گذشتہ کی تاریخی واقعات میں سیر کرنے کے لئے ہمارے ساتھ دیں ۔ شاید آپ  کو ایسے واقعات بھی نظر آئے جو آپ کی ذہنیت اور  فکر کے خلاف ہوں  لیکن   اس وجہ سے خوف نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انسان کو  اپنی  ذہنیت اور فکر  کا حقیقتوں کے خلاف ہونے سے خوف ہونا چاہئے  نہ برعکس  ۔

ہم آپ کو خلیفہ سوم کے بعد کی تاریخی واقعات کی حقیقت بتاتے ہیں :

جناب خلیفہ سوم  کے قتل کے بعد امت اسلامی دو گروہوں میں بٹ گئ۔  یہاں تک کہ ایک دوسرے  سے جنگ  کے نتیجہ میں  ہزاروں لوگوٕں  کی جانیں ضائع ہوئیں،جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے گئے یہاں تک کہ   صرف جنگ صفین میں 70 ہزار سے زیادہ لوگ  لقمہ اجل ہوئے    ۔

  خلیفہ سوم کے قتل کے  بعد  چند ایک  صحابہ کے علاوہ  ، سارے بدری صحابہ   اور دوسرے اصحاب  کی اکثریت  نے امام علی   کی حمایت  اور آپ کی بیعت کی

[1] ۔ان کی اکثریت نے باقاعدہ طور پر  امام علی کی حمایت میں جنگوں میں شرکت کی ۔ یہاں تک کہ جنگ جمل میں چار ہزار  افراد مدینہ سے امام کی حمایت کے لیے روانہ ہویے اور ۸۰۰ انصار، ۴۰۰بیعت رضوان میں شریک اصحاب نے اس جنگ میں امام علی کا ساتھ دیا۔[2]

جنگ صفین میں بھی معاویہ کے مقابلے میں بہت سے اصحاب امام کے ساتھ تھے[3] یہاں تک کی  بیعت رضوان میں شریک  ۸۰۰  صحابہ نے امام کا ساتھ دیا ،  ان میں سے ۶۳صفین میں شہید ہوے[4] اسی  طرح بدری صحابہ میں سے پچیس جنگ صفین میں امام علی کی حمایت کرتے ہویے شہید ہوے [5]  ۔

خاص کر  جنگ صفین  کے بعد جن لوگوں نے  امام علی کا ساتھ  دیا  ،انہیں  شیعہ علی کہا جانے لگے۔  ان کی اکثریت  جہاں  حضرت علی  کو جناب عثمان کے خون کا ذمہ دار نہیں سمجھتے ،وہاں    ان میں سے اکثر  آپ سے پہلے والے خلفاء کی خلافت کو بھی قانونی جانتے  تھے اور  آپ  کو آنحضرت کا حقیقی جانشین مانتے  والے میں  اقلیت میں تھے  ۔

جبکہ ان شیعوں کے مقابل میں معاویہ  کےپیروکار معاویہ کو  خلیفہ مانتے  ، جنگوں میں  معاویہ کی  حمایت میں امام علی  سے جنگ کرتے  اور امام کو جناب عثمان کے خون کا ذمہ دار سمجھتے   تھے، آپ کو  چوتھا خلیفہ نہیں مانتے  ،  یہ لوگ تاریخ  میں   عثمانی یا شیعہ معاویہ کی اصطلاح سے جانےجاتے تھے [6]  ۔

لہذا  اہل بیت اور   اصحاب  کی اکثریت   بنو امیہ کے دشمن اور مخالف تھے  ۔ معاویہ  کےساتھ عمرو العاص جیسے  چند  افراد ہی  صحابہ میں سے تھے اور  معاویہ  صفین   میں سینکڑوں   اصحاب پیامبر   کی قتل    کا  مرتکب ہوا   اور  صفین  کے بعد  بھی معاویہ نے اپنے   بے رحم گورنروں اور کمانڈروں کے ذریعہ سے امام علی کی حمایت کرنے والے   اصحاب پر ہر طرف سے عرصہ حیات کو تنگ کیا ،  معاویہ کے بعد   یذید نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا   اور اپنے باپ کی وصیت کے مطابق مسلم بن عقبہ کی قیادت میں مکہ اور مدینہ پر چھڑائی کے لئے   لشکر  روانہ کیا تو اس ظالم   نے اصحاب، تابعین   اور ان کے اولاد  کا قتل عام کرنے کے بعد تین دن تک مدینہ رسول کو  اپنے  لشکر پر حلال کیا  اس عرصہ میں اس  لشکر نے جتنا ہوسکتا تھا  مدینہ میں   خون خرابہ، لوٹ مار اور ناموس  صحابہ کی بے حرمتی  کی ۔یہاں تک کی  صحابی پیامبر ابو سعید خذری جو اس وقت بڑھاپے کی زندگی بسر کررہے تھے  ان کے  گھر میں لوٹ مار کے بعد  جب کچھ باقی نہ رہا تو انکی دھاڑی   کے سارے بال نوچ دیے۔  اس واقعہ کے بعد کوئی بدری صحابی باقی نہ رہے[7] جبکہ رسول پاک  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاص کر   اہل مدینہ کو   ڈرانے اور ان پر ظلم کرنے والوں کے بارے فرمایا تھا : خدا اور ملائکہ اور تمام لوگوں  کی ایسے افراد پر لعنت ہوگئی اور قیامت کے دن ان کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی [8] ۔اس سرکش لشکر نے مدینہ کے بعد مکہ مکرمہ  اور خانہ خدا کی حرمت کو بھی  پامال کیا [9]۔

حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ کی حمایت اور ان سے دفاع ،  اہل بیت اور  اصحاب سے دشمنی اور  ان  کی مخالفت کے مساوی ہے  اور بنو امیہ کی حمایت کرنے والوں کا خود کو اصحاب سے دفاع کرنے والے کہنا   حقیقتوں کا مزاق اڑھانا ہے۔

 لیکن  آج عجیب  صورت حال یہ ہے  کہ یہی لوگ، جس طرح معاویہ نے جناب عثمان کا کرُتا   دمشق کی جامع مسجد میں لٹکا کر لوگوں کو امام علی کے خلاف جنگ کے لیے اکسایا [10]،   معاویہ  کے  پیرو کار آج خاص کر اصحاب کے نام لے لے کر شیعوں کے خلاف لوگوں کو بڑھکاتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ کسی  صورت میں امام علی کی حمایت میں ان کے دشمنوں سے لڑنے والے اصحاب  کے دشمن نہیں ہوسکتے ، ان سے اظہار بیزاری  نہیں کرسکتے۔اور یہی اصحاب  کی اکثریت  کو ماننے  کی دلیل ہے ۔

کیا خود کو  اصحاب کا غلام  کہنے اور اصحاب  کے نام پر بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ  خاص کر جنگ  جمل ، جنگ صفین اور  مکہ اور مدینہ پر حملہ کر کے اصحاب  اور ان کی  اولاد  کے قتل میں ملوث  لوگوں  سے  بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ؟

کیا   یہ لوگ بیعت رضوان اور جنگ  بدر میں شریک اصحاب   اور دوسرے بڑے بڑے اصحاب  کے مقابل میں  آنے والوں  سے اظہار محبت کرنے سے  دوری اختیار کرتے ہیں ؟

ہم  واضح طور پر امام علی کے ساتھ دینے والوں  سے اظہار محبت اور ہمدردی کرتے ہیں اور ان  سے جنگ کرنے والوں سے  اظہار بیزاری کرتے ہیں, انہیں حق پر  نہیں سمجھتے ۔ ہم  ان کے بارے میں دو دلی اور دوغلہ پالسی کا شکار نہیں ہوتے اور دونوں کو رضی اللہ عنھم نہیں کہتے ۔ اگر یہی اصحاب سے  دشمنی کی دلیل ہے تو  ہمیں منظور ہے۔

ہم اصحاب کے قاتلوں، انہیں ذلیل و خوار کرنے والوں  اور ان کے ناموس کی بے حرمتی کرنے والوں  کو لعنت کا مستحق سمجھتے ہیں ۔ کیا  آج  اصحاب  کے وکیل اور مدافع  ہونے کا دعوا کرنے والے  ،اس سلسلے میں  ہمارے ساتھ ہم عقیدہ ہیں ؟  یا اصحاب  سے دفاع کے  نام پر تاریخی حقیقتوں  کو چھپانے  اور اصحاب کے دشمنوں اور قاتلوں  سے دفاع  اور انہیں بری الذمہ قرار دینے  کے چکر میں ہونا اصحاب  سے محبت کی نشانی ہے ؟

 کیا یہی لوگ اگر جنگ صفین میں ہوتے تو علی مرتضی  اور ان کے حامی اصحاب کے  ساتھ دیتے یا  معاویہ   کے لشکر میں شامل ہو کر جناب عمار یاسر اور ذو الشھادتین  جیسے عظیم  المرتبت اصحاب  کے قتل کے درپے ہوتے ؟  اور جنب ایوب انصاری جیسے اصحاب کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ؟

ہمارا جواب واضح ہے ؛ ہم    امام علی اور ان کے حامی   اصحاب کے ساتھ ہم عقیدہ ہوتے اور علی مرتضی کے مقابلے میں آنے  کو باطل پر سمجھ کر  ان کے خلاف تلوار اٹھاتے  ، لیکن  کیا  آج ہمیں اصحاب کا دشمن کہنے والے بھی اگر اس دو ر میں ہوتے تو یہی عقیدہ  رکھتے  اور  ہماری طرح  کردار اپناتے؟ اگر  نہیں تو  پھر کیسے خود کو اصحاب کا  غلام اور ہمیں اصحاب کے  دشمن کہنے پر تلے ہوئے ہوں  ؟کیا  اصحاب کی اکثریت کے ساتھ ہم عقیدہ  نہ ہونا اور ان کو حق پر  نہ سمجھنا، اصحاب سے دشمنی  کی دلیل ہے ؟ یا اکثریت کے مقابلے میں ان کے جانی دشمنوں سے اظہار بیزاری  ،اصحاب  کے حامی ہونے  کی دلیل ہے ؟

کہتے ہیں کہ اصحاب کو خارجیوں اور ناصبیوں اور ابن سبا ء کے پیروکاروں نے لڑایا ۔ ۔اصحاب ایک دوسرے سے صلح کرنا چاہتے تھے ، لیکن دوسروں نے انہیں اس کام میں کامیاب ہونے نہیں دیا ۔۔۔۔اصحاب کے نام پر اصحاب کے قاتلوں سے دفاع کرنے والے صفین کے واقعے کو اس طرح پیش کرتے ہیں جس طرح پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ ہورہی تھی یا کوئی میلا سجھا ہوا تھا بھگڈر  اور افراتفری پھلانے کی وجہ سے ہزاروں لوگ اور بہت سے اصحا ب شہید ہوئے ۔۔۔۔واہ جی واہ ۔۔۔

اگر کہانی بنا بنا کر سنانے کی بجائے اس جنگ میں شریک اصحاب کے موقف کو جاننے کی کوشش کرتے تو خود بھی جھالت کا شکار نہ ہوتے اور دوسرے سادہ لوگوں کو دھوکہ نہ دیتے ۔۔۔۔ اصحاب خاص کر معاویہ سے  جنگ کو اپنا وظیفہ سمجھتے اور لوگوں کو شام کے لشکر سے لڑنے اور امیر المومنین علیہ سلام سے دفاع کرنےکی تبلیغ کرتے ۔شعور اور آگاہی کے ساتھ شام کے لشکر پر حملہ کرتے اور ایک ایک کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ۔۔۔۔ اگر یقین نہیں تو جاکر ایک دفعہ پھر تاریخی واقعات کا پھر سے مطالعہ کریں ۔۔۔۔  آپ کی آسانی کے لئے یہاں صفین میں معاویہ اور اس کے لشکر کے ہاتھں شہید ہونے والےاصحاب  میں سے بعض کے نام جاننے کے لئے اس ایڈرس

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1897

اگر آپ کو پھر بھی یقین نہیں تو معاویہ کے لشکر میں موجود کسی ایک ایسے صحابی کا نام بتائے جو امیر المومنین علیہ السلام کے حامی لشکر کے ہاتھوں مارا گیا ہو۔۔۔۔ بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔

تحریر ۔۔۔۔ جی ایم ملکوتی


[1][1] -. فلم يبق أحد إلا أتى عليا فقالوا : ما نرى أحدا أحق بها منك فمد يدك نبايعك . أول من صعد إليه فبايعه طلحة وتابعه الزبير وأصحاب النبي صلى الله عليه و سلم.۔أسد الغابة [2 /300] تاريخ دمشق [39 /419]  تاريخ الإسلام للذهبي [1 /449]تاريخ الخلفاء [ص 140] أنساب الأشراف [2 /285]

[2] ۔ كنا مع علي أربعة آلاف من أهل المدينة  ۔۔۔۔  كان مع علي يوم الجمل ثماني مائة من الأنصار وأربعة مائة ممن شهد بيعة الرضوان .  ۔۔۔۔۔تاريخ خليفة بن خياط [ص 42] تاريخ أبى الفداء [1 /267]تاريخ ابن الوردي [1 /148] تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /484]

[3] . ورأيت عمارا لا يأخذ واديا من أودية صفين إلا اتبعه من كان هناك من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم   ۔۔۔۔البداية والنهاية [7 /299] تاريخ الطبري [4 /28] قصة الفتنة [ص 185]حياة الصحابة للكاندهلوى [2 /103]الإستيعاب [1 /352]

[4] - شهدنا مع علي رضي الله عنه صفين في ثمانمائة من بايع بيعة الرضوان قتل منهم ثلاثة وستون منهم عمار بن ياسر.  ۔۔۔۔-الإستيعاب في معرفة الأصحاب [1 /351]  تاريخ ابن أبي خيثمة 2 [2 /993]  تاريخ الإسلام لذهبي [3 /545] تاريخ خليفة بن خياط [ص 46]

الإصابة في تمييز الصحابة [4 /282] السيرة الحلبية [2 /265]

[5] - قتل بصفين.. فمن أصحاب أمير المؤمنين علي خمسة وعشرون بدريا - عمدة القاري - [16 /141] نهاية الأرب   [20 /93]   البداية والنهاية [7 /304] المنتظم [2 /110] تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /543] مروج الذهب [1 /331]

[6] ۔ تاریخی اور رجالی کتابوں میں یہ اصطلاح رائج ہے اور کثرت سے استعمال ہوا ہے  مثلا

: صحابی پیغمبر۔  أبو الطفيل عامر بن واثلة ۔۔۔ وكان من شيعة علي. أسد الغابة [ص 1201] :

: عمرو بن الحمق بن الكاهن صحابی پیامبر .. صار من شيعة علي . الإستيعاب في معرفة الأصحاب [1 /363]

: صحابی پیامبر جناب عمار ۔۔ ۔وكان عمار من شيعة علي كرم الله وجهه ..  نفح الطيب [3 /61]

:أبو أيوب الأنصاري  صاحب منزل رسول الله صلى الله عليه ، ..كان من شيعة على عليه السلام - وقعة صفين [ص 366]

اسی طرح آپکے مقابل معاویہ کے حامی لوگوں کے لئے  بھی یہ اصطلاح رائج  تھی ۔ مثلا

: معاوية بن حديج الذي كان من شيعة معاوية بن أبي سفيان ... الإصابة في تمييز الصحابة [4 /362]

: بسر بن أرطاة أو بن أرطاة ...... وكان من شيعة معاوية   .... الإصابة في تمييز الصحابة [1 /289]۔۔

: ابن تیمیہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :وَأَمَّا " شِيعَةُ عَلِيٍّ " الَّذِينَ شَايَعُوهُ بَعْدَ التَّحْكِيمِ و " شِيعَةُ مُعَاوِيَةَ " الَّتِي شَايَعَتْهُ بَعْدَ التَّحْكِيمِ فَكَانَ بَيْنَهُمَا مِنْ  التَّقَابُلِ وَتَلَا عَنْ بَعْضِهِمْ وتكافر بَعْضُهُمْ مَا كَانَ وَلَمْ تَكُنْ الشِّيعَةُ الَّتِي كَانَتْ مَعَ عَلِيٍّ يَظْهَرُ مِنْهَا تَنَقُّصٌ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَلَا فِيهَا مَنْ يُقَدِّمُ عَلِيًّا عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَلَا كَانَ سَبُّ عُثْمَانَ شَائِعًا فِيهَا وَإِنَّمَا كَانَ يَتَكَلَّمُ بِهِ بَعْضُهُمْ فَيَرُدُّ عَلَيْهِ آخَرُ. مجموع الفتاوى (4/ 436)

[7] =  استباحها ثلاثة أيام فقتل في غضون هذه الأيام بشرا ...البداية والنهاية [6 /234]  السيرة لابن حبان [ص 555] دلائل النبوة ـ للبيهقى [6 /475] الإصابة في تمييز الصحابة [6 /294] البدء والتاريخ [ص 332- أنساب الأشراف [2 /196]

= وقد أخطأ يزيد خطأ فاحشا في قوله لمسلم بن عقبة أن يبيح المدينة ثلاثة أيام، وهذا خطأ كبير فاحش، مع ما انضم إلى ذلك من قتل خلق من الصحابة وأبنائهم،... وقد وقع في هذه الثلاثة أيام من المفاسد العظيمة في المدينة النبوية ما لا يحد ولا يوصف، مما لا يعلمه إلا الله عز وجل--   البداية والنهاية [8 /243]

= وقتل بها من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثمانون رجلا، ولم يبق بعد ذلك بدري.   الامامة والسياسة - [1 /293]

= قتل يوم الحرة سبعمائة رجل من حملة القرآن

دلائل النبوة ـ للبيهقى [6 /474] البداية والنهاية [6 /234]المحن [ص 200]شرح الزرقاني [3 /158]

= رأيت أبا سعيد الخدري ممعط اللحية.. فقال: هذا ما لقيت من ظلمة أهل الشام يوم الحرة- المعجم الكبير [6 /34]مجمع الزوائد ومنبع الفوائد [7 /499] تاريخ مدينة دمشق [58 /107] تاريخ الإسلام للذهبي [2 /64]: سير أعلام النبلاء [3 /325]

= وبايع من بقي على أنهم عبيد ليزيد بن معاوية   --الإصابة في معرفة الصحابة [3 /145]

= ووقعوا على النساء ..ولدت ألف امرأة من أهل المدينة بعد وقعة الحرة من غير زوج...البداية والنهاية [8 /241]

[8] - من أخاف أهل المدينة أخافه الله وعلية لعنة الله والملائكة الناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل  

المعجم الكبير [7 /143]مسند ابن أبي شيبة [3 /118]مسند أحمد بن حنبل [4 /55]سنن النسائي [2 /483] السلسلة الصحيحة 1-9 [28 /9]

[9] -=اس لشکر نے  مدینہ کو تاراج کرنے کے مکہ کا رخ کیا اور خانہ خدا کی بے حرمتی کی گئی ۔

وأحرقت الكعبة ، حتى انهدم جدارها  ...لمفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم [11 /35]   البدء والتاريخ [ص 332]  المنتظم [2 /207]

= جیساکہ مروان  بن عبد المالک کے دور میں بھی بنی امیہ نے  خانہ خدا  کو ویران کیا ۔۔۔

أخبار مكة للفاكهي [4 /310] جامع الأصول في أحاديث الرسول [9 /291] العبر [ص 12] المحن [ص 308]  تاريخ ابن الوردي [1 /167]

= سیوطی کہتا ہے  لو لم يكن من مساوىء عبد الملك إلا الحجاج ..و قد قتل من الصحابة و أكابر التابعين ما لا يحصى فضلا عن غيرهم و ختم في عنق أنس و غيره من -  تاريخ الخلفاء [ص 190]

[10] ۔معاویہ نے جناب عثمان کےقمیص کو دمشق کے جامع مسجد میں لٹکایا ہوا تھا لوگ آکر اس کے ارد گرد روتے تھے ۔  راوی کہتا ہے //۔ تركت سبعين ألف شيخ يبكون تحت قميص عثمان وهو على منبر دمشق۔۔ البداية والنهاية (7/ 230) تاريخ ابن خلدون (2/ 153) السيرة النبوية وأخبار الخلفاء لابن حبان (2/ 529)

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی