2024 March 29
شیعہ عقیدہ مھدویت پر ابن تیمیہ اور سلفیوں کے اعتراضات کے جوابات
مندرجات: ١٨٨٦ تاریخ اشاعت: ٠٩ March ٢٠٢٢ - ٠٧:٠٥ مشاہدات: 3939
یاداشتیں » پبلک
شیعہ عقیدہ مھدویت پر ابن تیمیہ اور سلفیوں کے اعتراضات کے جوابات

 

شیعوں کے عقیدہ مھدویت پر  ہونے  والے اعتراضتا

۔

شیعوں کا دوسروں سے بنیادی اختلاف۔

اعتراضات کی تحلیل۔ 

اشکالات  کے جوابات۔

خلافت کے بارے میں  شیعوں کا عقیدہ:

اہل سنت  کے نزدیک جانشینی کا مطلب۔

کیا آپ اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھتے ہیں ؟

خلاصہ اور نتیجہ :۔

 

 

امام زمان ؑ کی نسبت سے ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ان کی معرفت حاصل کرنا اور  معرفت کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک  ذمہ داری عقیدہ مھدویت کے  سلسلے میں اٹھائے جانے والے اشکالات اور شبھات کا جواب دینا ہے۔بعض  شیعہ مخالفین   مھدویت کے عقیدے کو شیعوں سے مخصوص کرنے اور  اس سلسلے میں  بے بنیاد  باتوں کو شیعوں کی طرف نسبت دینے کے ذریعے  شیعوں کو ایک غیر منطقی عقیدہ  رکھنے والے جاہل  اور  بے وقوف  لوگ  قرار  دیتے ہیں ۔

ہم نے اس  تحریر میں  امام زمانؑ کے خلاف  جسارت کرنے والوں کے فکری  مرجع  یعنی ابن تیمیہ اور ا س کے شاگردوں کی طرف سے شیعہ  عقیدہ مھدویت  پر اٹھائے اعتراضات اور شبھات  کا مختصر علمی جواب دینے کی کوشش کی ہیں ۔ان شخصیات کا انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ  دوسرے تقریبا  اس قسم کے مسائل میں انہیں لوگوں کے افکار سے متاثر ہیں اور انہیں کی طرف سے مطرح شدہ شبھات  کو ہی مختلف انداز میں بیان کرتے رہتے ہیں  اور جب یہ واضح ہوجائے کہ ان کے بڑے    شیخ الاسلام  کی باتیں  بے اساس اور بے بنیاد ہیں تو  ان کے پیروکاروں  کا  مسئلہ بھی خود بخود حل ہوگا ۔

  عقیدہ مہدویت اور اسلامی فرقے:۔

 ایک نجات دہندہ کی آمد کا نظریہ اسلام اور دوسرے بہت سے ادیان اور اقوام کے درمیان مشترک عقیدہ ہے اور یہ  انسانی فطرت کی آواز بھی ہے۔لیکن اسلام میں اس عقیدے   کی خاص  حیثیت ہے ۔تمام اسلامی فرقے اس  بات پر متفق ہے  کہ   اس شخصیت کا تعلق  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی نسل سے ہے اور ان کالقب مہدی  اور یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہمنام ہوگا ۔جب آپ ظہور   فرمائیں گے تو دنیا  میں عدل وانصاف کا بول بالہ ہوگا۔ ظلم و فساد  اور ،شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہوگا  ۔ دین اسلام  سب ادیان پر غالب آئے گا ۔

جیساکہ یہ عقیدہ  حق  ہے  اور سارے اسلامی  فرقے اس پر  متفق ہے۔  معتبر کتابوں میں موجود  قوی دلائل  کی بنیاد پر  کسی  بھی  کے کلمہ گو  کے لئے اس  عقیدے کے انکار کی گنجائش نہیں ۔ابن خلدون ،محمد امین مصری اور قرضاوی جیسے  چند افراد  نے اس عقیدے  کو غیر اسلامی عقیدہ بتانے کی  کوشش کی ہے۔ لیکن  در حقیقت    اس رویے کے ذریعے ایسے افراد  اپنے  ہی معتبر  علماء اور کتابوں  کی تکذیب کے  مرتکب  ہوتے  ہیں  ۔

اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض فرامین :۔

لو لم يبق من الدهر الا يوم لبعث الله رجلا من اهل بيتي، يملاها عدلا كما ملئت جورا[i]۔
’’ 
اگر زمانے کا ایک دن بھی باقی رہ گیا  تو بھی  اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو ضرور بھیجے گا جو ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دے گا۔

:   المهدي من عترتي من ولد فاطمة[ii] مہدی میرے خاندان سے، فاطمہ ؑکی اولاد سے ہوں گے ۔ جناب ام  سلمة رضی اﷲ عنها سے نقل ہوا ہےسمعتُ رسول اﷲ  يذکر المهدي، فقال : هو حق و هو من بني فاطمة ؑ۔[iii]  میں نے رسول اللہ کو (امام) مہدی کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا: مہدی حق ہے۔ (یعنی ان کا ظہور برحق اور ثابت ہے) اور وہ سیدہ فاطمۃ الزھراء ؑکی اولاد سے ہوں گے۔

جیساکہ انہیں حقائق کی  بنا پر  بہت سے علماء نے اس عقیدے کی احادیث کی سند کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے اور ان میں شک و شبہہ  سے منع کیا ہے ۔

امام ابوبکر بیہقی (۳۸۴۔ ۴۵۸ھ ) :۔ والاحاديث فى التنصيص على خروج المهدي اصح اسنادا، وفيها بيان كونه من عترة النبى صلى الله عليه وسلم[iv]۔
’’ 
امام مہدی کے خروج کے بارے میں احادیث صحیح سند والی ہیں۔ ان میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام مہدی، نبی اکرم کی نسل  سے ہوں گے۔

مشہور مفسر علامہ قرطبی  کہتے ہیں قد تواترت على ان المهدي من عترة رسول۔صحیح احادیث اس بارے میں تواتر کے درجے تک پہنچ گئی ہیں کہ مہدی، رسول اللہ کے خاندان سے ہوں گے[v]۔

 ابن تیمیہ الحرانی (المتوفی ۷۲۸ ھ):۔ ان الاحادیث التی یحتج بھا علی خروج المھدی احادیث صحیحة رواھا ابو داؤد والترمذی واحمد وغیرھم[vi]۔
’’
ان احادیثِ صحیحہ ظہور مہدی پر جس سے حجت لی جاتی ہے اس کو روایت ابو داؤد ، ترمذی اور احمد نے کیا ہے۔‘‘

ناصر الابانی اس سلسلے میں  علماء کے قول کو نقل کو یوں نقل  کرتا ہے :

  قد تواترت الأخبار ۔۔۔ عن المصطفى صلى الله عليه وسلم بمجيء المهدي و أنه من أهل بيته ، ... و عيسى يصلي خلفه [vii]۔

جناب  محمد مصطفی سے امام مہدی ؑ کے تشریف لانے ، ان کا رسول اللہ کے  اہل بیتؑ سے ہونے  اور  جناب عیسیؑ کا ان کے پیچھے  نماز  پڑھنے کے  سلسلے  میں تواتر کے ساتھ خبر  پہنچی   ہے   ۔

شیعوں کے عقیدہ مھدویت پر  ہونے  والے اعتراضات۔

شیعوں کے ہاں عقیدہ مہدویت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔شیعہ عقیدہ مہدویت کی رو سے یہ شخصیت  جناب امام حسن عسکریؑ کا فرزند امام مہدی ؑ ہی  ہیں۔آپ  امام حسین ؑ کی نسل سے نواں   اور  رسول اللہ کے بارویں جانشین ہیں  اور آپ کی ولادت ہوچکی ہے۔آپ ابھی زندہ ہیں جب اللہ کا اذن ظہور ہوگا تو  آپ ؑ  ظہور فرمائیں گے۔

شیعوں کا دوسروں سے بنیادی اختلاف۔

جیساکہ اصل عقیدہ مہدویت پر سب کا اتفاق ہونے کے باوجود  آپ ؑ کی ولادت  کے سلسلے  میں اختلاف نظر موجود ہے ۔  بہت سے شیعہ مخالف  امام مہدی ؑ کے ظہور  پر  عقیدہ تو رکھتے ہیں لیکن آخری زمانے  میں آپؑ کی ولادت کے معتقد  ہیں۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ دوسرے اپنے عقیدے  پر قرآن کی کسی آیت یا رسول اللہ کے کسی حدیث  سے دلیل پیش نہیں کرتے ۔ جبکہ عقیدے کی حقانیت پر   دلیل  کے بغیر صرف عقیدہ بنانے  کا کوئی فائدہ نہیں ۔

لیکن اس کے باجود  شیعوں کے عقیدے کو بے بنیاد ثابت کرنے اور  شیعوں کو گمراہ اور  بے منطق   بتانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔

اس کے لئے  امام  حسن عسکریؑ کی نسل  نہ ہونے  پر زور دیتے ہیں  اور امام  کی ولادت اور  ظہور کے  انتظار   کے سلسلے میں   شیعہ عقیدے کو  باطل اور بے بنیاد   اور  بیوقوفانہ  باتیں اور شیعوں کو  گمراہ ، جاہل اور   خیالاتی لوگ   کہنے  کی کوشش کرتے ہیں۔ہم ذیل میں اس قسم کی بعض کوششوں کی طرف  اشارہ کرتے ہیں۔

ابن تیمیہ   اور عقیدہ مھدویت پر اعتراض :۔  ابن تیمیہ اصل عقیدہ مھدویت  کو قبول کرتا ہے اور اس سلسلے میں موجود روایات  کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے  :ان الاحادیث التی یحتج بھا علی خروج المھدی احادیث صحیحة رواھا ابو داؤد والترمذی واحمد وغیرھم[viii]۔
 لیکن ابن تیمیہ  اس سے مراد امام  زمانؑ ہونے   کو  تسلیم نہیں کرتا اور   شیعہ عقیدہ مھدویت   کی مخالفت میں یوں لکھتا ہے:

ويقولون: انما كانو علي الحق لان فيهم الامام المعصوم، والمعصوم عند الرافضة الامامية الاثني عشرية هو الذي دخل الي سرداب سامراء بعد موت ابيه الحسن بن علي العسكري سنة ستين وماتين، وهو الي الان غائب، لم يعرف له خبر، ولا وقع له احد علي عين ولا اثر . 
’’ 
رافضی کہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں کیونکہ ان میں امام معصوم موجود ہے۔ رافضی امامی اثنا عشری شیعوں کے نزدیک امام  معصوم وہ ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد 260ھ میں سامراء کے سرداب  میں داخل ہو گیا اور اب تک غائب ہے۔ اس کی کوئی خبر معلوم نہیں ہوئی نہ کسی کو اس کا کوئی نشان ملا ہے[ix]۔

دوسری جگہ  لکھتا ہے :۔ فليس فيهم احد يعرفه لابعينه ولا صفته، لكن يقولون: ان هذا الشخص الذي لم يره احد، ولم يسمع له خبر، هو امام زمانهم، ومعلوم ان هذا ليس هو معرفة بالامام[x]۔

ان میں سے کوئی بھی اسے پہچانتا نہیں، نہ اسے کسی نے دیکھا ہے نہ اس کی کوئی صفت کسی کو معلوم ہے بلکہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جسے کسی نے دیکھا نہیں نہ اس کی کوئی خبر سنی ہے۔ وہ ان کا امام زمان ہے حالانکہ معلوم ہے کہ یہ امام کی پہچان نہیں ہے۔

ابن تیمیہ امام مھدی ؑکے طول عمر کو شیعوں کے عقیدے مھدویت کے بے بنیاد ہونے کی دلیل کے طور پر یوں پیش کرتا ہےإن عمر واحد من المسلمين هذه المدة أمر يعرف كذبه بالعادة المطردة في أمة محمد فلا يعرف أحد ولد في دين الإسلام وعاش مائة وعشرين سنة فضلا عن هذا العمر۔۔۔۔۔۔ امت اسلامی میں سے کسی فرد کی عمر کا اس قدر طولانی  ہونا  ایسا  مسئلہ کہ جس کا جھوٹ ہونا امت اسلامی کے  متعارف عمر  سے معلوم ہے۔اتنی طویل عمر تو دور کی بات ،امت میں   کوئی  ایسا  فرد   نہیں گذرا جس کی عمر ۱۲۰ سال سے تجاوز کیا ہو ۔

ابن تیمیہ حتی امام حسن العسکری ؑ کے ہاں کسی بھی اولاد کے ہونے کا انکار کرتا ہے: قد ذكر محمد بن جرير الطبري وعبد الباقي بن قانع وغيرهما من أهل العلم بالأنساب والتواريخ أن الحسن بن علي العسكري لم يكن له نسل ولا عقب والإمامية الذين يزعمون أنه كان له ولد[xi]

محمد بن جریر الطبری ، عبد الباقی اور دوسرے  علم انساب اور تاریخ کے ماہرین نے  ذکر کیا ہے کہ حسن بن عسکری کی کوئی نسل ہی نہیں تھی لیکن امامیہ والے گمان کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا تھا۔
شیعہ عقیدہ مھدویت کی رد میں عجیب و غریب باتوں کو شیعوں کی طرف نسبت دیتا ہے : ومن حماقتهم أيضا أنهم يجعلون للمنتظر عدة مشاهد ينتظرونه فيها ۔۔۔۔۔۔[xii]۔

شیعوں کے بےقوفانہ کاموں سے ایک ہے کہ وہ اپنے امام منتظر کے لئے کچھ خاص جگہے مخصوص کرتے ہیں  اور وہاں ان کے انتظار میں رہتے ہیں ان میں سے ایک سامرا میں موجود وہ سرداب ہے کہ جہاں یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ امام وہاں غائب ہوا ہے۔وہاں پر یہ لوگ گھوڑے اور خچر وغیرہ تیار کر کے رکھتے ہیں تاکہ وہ جب وہاں سے نکلے تو اس پر سوار ہوسکے ۔ یہ لوگ وہاں ان کے انتظار یہ آواز دیتے رہتے ہیں  کہ اے مولا نکلیں  اے مولا نکلیں ۔یہ لوگ وہاں  ہتھیار اٹھائے  رہتے ہیں جبکہ ان سے لڑنے والا کوئی وہاں نہیں  ہوتا ۔

  ابن کثیر دمشقی  اور عقیدہ مھدویت :۔ وہ  بھی اصل عقیدہ مھدویت اور امام مھدی کا  خلفاء  راشدین   سے ہونے پر ایمان رکھتا ہے  ۔لیکن  اپنے استاد  کی طرح شیعہ عقیدہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: المهدي الذي يكون في آخر الزمان، وهو أحد الخلفاء الراشدين والأئمة المهديين، وليس بالمنتظر الذي تزعم الروافض، وترتجي ظهوره من سرداب في سامراء، فإِن ذاك ما لا حقيقة له، ولا عين ولا أثر[xiii] ۔ اس سے مراد وہ مہدی ہیں جو آخر زمانے میں ہوں گے۔ وہ ایک خلیفہ راشد اور ہدایت یافتہ امام ہوں گے۔ ان سے مراد وہ مہدئ منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگ دعویٰ کرتے ہیں اور سامراء کے ایک سرداب  سے اس کے ظہورکا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں، نہ اس کے بارے میں کوئی روایت و اثر ہی موجود ہے۔

دوسری جگہ لکھتا ہے  :۔  فيخرج المهدي، ويكون ظهوره من بلاد المشرق، لا من سرداب سامرا، كما يزعمه جهلة الرافضة من أنه موجوده فيه الآن، …..[xiv]۔
’’ 
امام مہدی نکلیں گے۔ ان کا ظہور مشرق کے علاقے سے ہو گا، نہ  سامراء کے مورچے سے، جاہل رافضیوں کاخیال ہے کہ وہ امام مہدی اس غار میں اب موجود ہیں اور وہ آخری زمانے میں ان کے خروج کے منتظر ہیں۔ یہ ایک قسم کی بے وقوفی، بہت بڑی رسوائی اور شیطان کی طرف سے شدید ہوس ہے کیونکہ اس بات پر کوئی دلیل و برہان نہیں، نہ قرآن سے، نہ سنت رسول سے، نہ عقل سے اور نہ  استحسان و قیاس سے۔

ابن کثیر   رسول اللہ  کی  بارہ جانشین  ولی مشہور حدیث   کو قبول کرتا ہے  لیکن  ان بارہ اماموں سے مراد  شیعوں کے بارہ امام ہونے کی  رد میں  لکھتا ہے :هذا الحديث دلالة على أنه لا بد من وجود اثني عشر خليفة عادل وليسوا هم بأئمة الشيعة الاثني عشر فإن كثيرا من أولئك لم يكن لهم من الامر شئ…..،.[xv] 
’’ 
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بارہ عادل خلیفہ ضرور ہوں گے۔ ان سے مراد شیعوں کے بارہ امام نہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس کوئی حکومت تھی ہی نہیں جبکہ جن بارہ خلفاء کا حدیث میں ذکر ہے۔۔۔ان کے بارے میں پہلی کتابوں میں بھی بشارت موجود ہے۔ ان میں سے چار پے در پے آئے۔ وہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ؑہیں۔ ۔۔۔ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے جن کا نام رسول اکرم کے نام پر اور کنیت رسول کی کنیت کے مطابق ہو گی۔ وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :
ولا تقوم الساعة حتى تكون ولايتهم لا محالة، والظاهر أن منهم المهدي المبشر به فى الأحاديث، وليس هذا بالمنتظر الذى يتوهم الرافضة وجوده ثم ظهوره من سرداب سَامرّاء۔…….[xvi].
’’ 
بلاشبہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ان بارہ خلیفوں کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے ..۔ امام مہدی سے مراد وہ امام منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگوں کا خیال ہے  .. یہودیت سے توبہ کر کے اسلام لانے والے بعض جاہل لوگوں سے جب کوئی شیعہ ملتا ہے تو وہ ان کو دھوکا دیتا ہے کہ ان سے مراد بارہ امام ہیں۔ ان میں سے اکثر جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر شیعہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی رسول اللہسے ثابت احادیث کے بارے میں کم علم ہوتے ہیں اور ان کو ایسی تلقین کرنے والے بھی کم علم ہوتے ہیں۔

ابن قیم  اور عقیدہ  مھدویت :۔  ابن قیم بھی اصل مھدویت کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ بھی شیعوں کے  امام مھدی اور اہل سنت کے  امام مھدی میں جدائی ڈالنے کی  کوشش  میں اپنی کتاب ’’ المنار.‘‘ میں   لکھتا ہے     :
واما الرافضة الامامية فلهم قول رابع وهو: أن المهدي هو محمد بن الحسن العسكري المنتظر, من ولد الحسين بن علي …..[xvii]! ‘ امام مھدی کے بارے میں  چوتھا نظریہ  امامی رافضیوں ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ حسین بن علی ؑکی نسل سے ہے۔۔۔وہ چھوٹا سا بچہ تھا جب وہ سامراء کے مورچے میں داخل ہوا تھا۔ یہ پانچ سو سال (ابن قیم کے   اپنے دور کے حساب سے  ) پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ امامی شیعہ ہر روز سرداب کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل، اے ہمارے مولا تو نکل۔ پھر وہ ناکامی و نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔

احسان الہی ظہير کا عقیدہ مھدویت پر اعتراض :۔اہل بیت پر شیعوں کے جھوٹوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں اور روایات کی انکی طرف نسبت دیتے ہیں کہ جن میں ذکر ہوا ہے کہ اولاد امام حسن عسکری میں سے قائم خروج کرے گا، حالانکہ ہرگز انکا کوئی بیٹا نہیں تھا[xviii]۔

احسان الہٰی ظہیر ،ناصر القفازی   اور    احمد سالوس  وغیرہ نے   امام حسن عسکریؑ کی اولاد نہ ہونے کے عقیدے کی  نسبت شیعہ اہم شخصیات میں سے    شیخ مفید   نوبختی اور اشعری کی طرف دی ہے ۔شاہد کے طور  پر ان کی کتابوں سے  ان کی عبارت’’ لم یر لہ خلف و لم یعرف لہ ولد ظاہر‘‘ کو نقل کیا ہے[xix]۔

اعتراضات کی تحلیل۔

ان اعترضات اور اشکالات  میں موجود چند نکات۔

الف  پہلی بات تویہ ہے کہ انہوں نے اصل عقیدہ مھدویت  کو قبول کیا ہے اور  امام مھدیؑ کا رسول اللہ کے مشہور حدیث’’ اثنا عشر خلیفہ ‘‘ اور حدیث ’’علیکم بسنتی و سنة خلفاء الراشدین ‘‘  کے مصداق  ہونے  اور واجب الاطاعت ہونے کو تسلیم کیا ہے۔

ب:۔  امام زمان ؑ کو   وہی امام مھدی کہنے اور رسول اللہ کی مشہور حدیث’’ اثنا عشر خلیفہ‘‘ اور  ان احادیث کا مصداق ہونے سے  انکار کیا ہے کہ جن کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا  اور لوگوں کا ان کی اطاعت  میں رہنا  اور ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔

ج  امام زمان ؑ کے  بارے میں  شیعہ عقیدہ کو جہالت پر مبنی ،خیالاتی باتیں  اور بغیر دلیل کا عقیدہ قرار دینے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شیعہ  اپنے بارہ اماموں کو حدیث اثنا عشر کا مصداق قرار دینے کے  ذریعے اہل کتاب میں سے خاص کر یہودیوں  کو گمراہ کرتے ہیں  ۔

اس سلسلے میں  شیعہ عقیدے کی  رد میں  چند چیزوں کا خاص کر تذکرہ کیا ہے ۔

 ۱:۔   شیعہ اماموں کو  حکومت نہ ملنا  ان کے رسول اللہ کے جانشین اور ان احادیث کا مصداق نہ ہونے کی دلیل  ہے۔

۲ :۔  ان کے  عقیدے پر کوئی دلیل  نہیں ہے  ۔اس لئے شیعوں کا یہ عقیدہ  خیالاتی  اور   غیر منطقی  ہے۔

۳:۔ ان  کے  امام کو  نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کوئی خبر ہے نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔لہذا ان امام زمان  وجود ہی نہیں رکھتا۔

۴:۔  شیعہ   عقیدے کی کمزوری   یہ ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق  ان کا امام سامرا کے ایک سرداب میں غائب ہوا ہے اور  وہ  ہر ر روز اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل۔

۵:۔   امام زمان کی  اتنی طویل عمر کا شیعہ عقیدہ  خود ہی  شیعہ  عقیدہ مھدویت  کے  باطل اور بے اساس ہونے کی دلیل ہے۔

۶:۔ امام حسن العسکری ؑ کا کوئی بیٹا  نہیں تھا   اور اس پر شیعہ کتابیں بھی  گواہی دیتی ہیں۔

لہذا شیعہ مخالفین نے ان باتوں کے ذریعے ایک تو  امام زمان ؑ کے وجود  اور ولادت کا انکار کیا  ہے اور ساتھ ہی شیعہ عقیدہ مہدویت کو ایک افسانہ اور بے اساس   عقیدہ  ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

اشکالات  کے جوابات۔

ان  اعتراضات  اور اشکالات  کا مغرضانہ  ہونا اور اشکال کرنے  والوں کا   اس سلسلے میں شیعہ عقائد  اور ان  کے دلائل سے  ناواقفیت ان کلمات  میں عیاں ہے ۔ شیعوں  کا  نہ یہ  عقیدہ کہ  امام زمان ؑ اسی سرداب میں ہی   زندگی بسر کرتے ہیں اور   نہ شیعہ ہر روز وہاں جاکر اپنے امام سے اس غار کو چھوڑنے  کے لئے التجاء کرتے ہیں  اور نہ ہی اسی سرداب سے  ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں۔خاص کر  ابن تیمیہ کا یہ  کہنا کہ شیعہ  سرداب کے باہر سواری  کے لئے حیوان اور ہتھیار  اپنے امام  کو  باہر نکلنے کے لئے آوازیں دیتے رہتے ہیں ۔

ایسے الزامات سن کر شیعوں کے بچے بھی ہنستے ہیں  ۔(یضحک به الثکلی)  ایسی  جھوٹی اور بے بنیاد باتیں  ان  لوگوں کی اپنی  جہالت اور  شیعہ  دشمنی میں   عدل و انصاف کی پٹری  سے  دوری  کی دلیل ہے۔ حد یہ ہے  کہ وہ طبری کی طرح جس عبارت(قد ذكر محمد بن جرير الطبري ۔۔۔لم يكن له نسل ولا عقب۔) کی نسبت دیتا ہے وہ بھی طبری میں کہیں پر نہیں ہے ۔

جیساکہ ابن تیمیہ کے پیروکاروں نے بھی  بے بنیاد نسبتوں کا  سلسلہ جاری رکھا ۔احسان  الٰہی ظہیر اور  قفازی جیسے شیعہ  شناسی  کا ادعا کرنے والوں نے  شیعہ اہم شخصیات میں سے   نوبختی ، اشعری  قمی اور شیخ مفید  کو بھی اپنا ہم عقیدہ بتانے کے ذریعے  عقیدہ مہدویت کو خراب کرنے  کی کوشش کی اور  علمی خیانت کے مرتکب ہوئے ۔جیساکہ  ان اہم شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں سےیہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ  جو عبارت ان کی کتابوں سے شاہد کے طور پر یہ لوگ پیش کرتے ہیں اس  کا معنی ان کا  امام زمان ؑ کی ولادت کا انکار نہیں ہے بلکہ یہ  اس دور کی صورت حال  اور فضا  کے  بیان پر مبنی  عبارت  ہے۔ اس قسم کی عبارت کا مطلب سلطان اور حاکم کی طرف سے  امام زمان ؑ کی ولادت پر کڑی نظر  اور امام کی ولادت کا جناب موسیؑ اور ابراہیمؑ کی ولادت کی طرف مخفی اور   لوگوں سے پوشیدہ رہنے   اور اس سلسلے میں بعض انحرافی فرقوں  کا وجود میں  آنے  کی طرف  اشارہ کرناہے۔جیساکہ ان بزرگوں نے انہیں کتابوں میں  امام زمان ؑکی ولادت اور آپ  کی جانشین کے عقیدے کو واضح انداز میں بیان کیا ہے ۔ شیخ مفید نے  اپنی کتاب ارشاد میں   امام حسن عسکری  اور خود امام زمان کی ولادت کے ضمن میں   ہے’’ و خلف  ابنہ المنتظر لدولۃ الحق  و قد کان اخفی  مولدہ و ستر امرہ لصعوبۃ الوقت، ۔۔۔۔۔ و کان الامام  بعد ابیہ  و لم یخلف ابوہ  ولدا غیرہ‘‘

نوبخی بھی لکھتے ہیں  ’’ نحن معترفون  بان لہ  خلفا من صلبہ  وان خلفہ   ھو الامام  من بعدہ ۔۔۔  اشعری  قمی بھی لکھتے ہیں ’’  فنحن  متمسکون بامامۃ  الحسن  ،مومنون بان لہ خلف من صلبہ  و انہ ھو الامام  من بعد ابیہ‘‘

لہذا شیعہ مخالفین  کی یہ  روش  علمی خیانت  ہے  اور یہی ان لوگوں کے اپنے تخیلاتی باتوں کو شیعہ عقیدہ کہنے  کی وہ روش ہے کہ جس پر آج بھی بڑے بڑے شیعہ مخالف  عمل  کرتے ہیں  اور انہیں باتوں کے ذریعے  شیعوں کو بے منطق اور کم عقل   کہنے کے ذریعے  لوگوں کو شیعوں کے خلاف اکساتے ہیں  اور  شیعہ منطق  اور استدلال کو سننے کی راہ میں رکاوٹ بنتے  ہیں۔

امام  زمان ؑ  کے وجود، ان کی ولادت اور زندہ ہونے  پر ہمارے دلائل کا خلاصہ  ہے ۔

الف:     حضرت پیغمبر خدا  اور ان کے خاندان والوں نے خصوصی  طور پر  ان کی پیدائش اور ظہور کی  خوش  خبر دی  ہے ۔  بہت سی متواتر اور قطعی روایتوں کے ذریعے سے  یہ خبر  ہم تک پہنچی ہے۔ شیعوں کو اپنے عقیدے کی حقانیت پر دوسروں کی کتابوں سے  دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ  خاندان رسول اللہ کے  قابل اعتماد لوگوں  کی  نظر اور دی ہوئی خبر کو رد  نہیں کیا جاسکتا۔

ب:  شیعہ سنی  دونوں  کی  کتابوں میں   رسول اللہ کی بہت سی احادیث  سے ثابت ہے کہ  ہر زمانے میں امام اور حجت خدا کا ہونا ضروری ہے اور ہر زمانے میں لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بیعت اور اطاعت میں  رہیں ،یہاں تک کہ  ان کی  معرفت، اطاعت اور بیعت کے بغیر مرے تو وہ جھالت کی موت مرے گا  .  شیعوں کے علاوہ دوسرے  اس سلسلے میں  کوئی واضح  جواب  دینے اور ان احادیث کا واضح مصداق بتانے سے عاجز ہیں ،جبکہ یہ احادیث ان کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں۔(اس سلسلے میں تحریر کے آخری حصے میں  مزید   بحث ہوگی)

ج :۔  اس سلسلے میں قابل توجہ بات یہ ہے  کہ    دوسروں  کے پاس اپنے  عقیدے  { حضرت امام مہدی ؑ کا  آخری زمانے میں  متولد ہونے}کو ثابت کرنے کے لئے خاص کر احادیث  سے اس  پر کوئی دلیل نہیں ہے  اور جو احادیث آخری زمانے میں ان کے ظہور کی خبر دیتی ہیں  ان میں یہی ظہور کا ہی لفظ آیا ہے پیدائش کا لفظ نہیں آیا ہے.لہذا آخری زمانے میں پیدائش کا عقیدہ صرف ایک عقیدہ ہے   اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ جیساکہ  بغیر دلیل کے کسی چیز کے بارے  عقیدہ بنانا اس  عقیدے  کی حقانیت پر دلیل نہیں بنتا.

د:۔   یہاں قابل توجہ بات یہ بھی  ہے کہ  امام حسن عسکریؑ کے فرزند کو ہی امام مھدی ؑ سمجھنا صرف شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے  ۔بلکہ  یہ اہل سنت کے بعض ایسے  بزرگوں کا  بھی یہی عقیدہ ہے کہ جو   ائمہ اہل بیت ؑ  کے بارے میں  دوسروں  سے  متفاوت عقیدہ رکھتے ہیں[xx] ۔

لہذا   یہ  جو  اعتراض  کیا جاتا ہے کہ’’ ان کے امام ؑ کو نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کوئی انہیں پہچانتا ہے، نہ کسی سے  رابط  رکھتا ہے  اور نہ ان کی کوئی نشانی ہے ‘‘۔ تو  اس کا جواب بھی واضح ہے۔ قاعدہ ہے کہ ’’عدم الوجدان لا یدل علی عدم الوجود‘‘ یعنی کسی  چیز  کا کسی  کے  ہاں نہ پانا  اس چیز کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

 جو ائمہ  اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاوں  کے بارے میں  ان کے دشمنوں سے متاثر اور  منفی رویہ رکھتا ہو ،جن کا ھم و غم  اہل بیت ؑ کے علمی  آثار سے دوری اور  ان کے علوم کے وارثوں کو گمراہ اور بدعتی  کہنا ہو   ، جو اہل بیت ؑ پر ظلم کرنے والے اور ان کی حرمت اور عظمت کا خیال نہ رکھنے والوں سے دفاع کرتا ہو وہ  شیعوں پر  اس قسم کا  اعتراض نہیں کرسکتا کیونکہ امام  کی پہچان اور امام ؑ سے ملاقات اور ان  سے ارتباط    کا مسئلہ  شیعوں کے ہاں  کوئی  مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ ان  کے ہاں اس سلسلے میں ائمہ اہل بیت ؑ  کے توسط سے منقول  احادیث  ، شیعہ  بڑے بڑے  علماء    کی تصریحات   اور  دوسرے بہت سے  یقین  آور دلائل موجود ہیں ۔۔ اگر شیعہ مخالف لوگ   انہیں  جعلی باتیں کہنے پر تل جائے تو ان سے  اس جہت سے بات ضروری ہوسکتی ہے کہ  ائمہ اہل بیتؑ   کا   رسول اللہ کے بلاواسطہ اور بلواسطہ شاگرد ہونے اور  رسول اللہ کی طرف سے  ان کے مقام علمی اور ان کے دینی پیشوا ہونے کو بیان کرنے   کے باوجود ان  مخالفین کی  معتبر کتابیں    کیوں  ائمہ اہل بیتؑ کے توسط سے منقول  اسلامی معارف  سے تقریبا  خالی  ہیں ؟

لہذا جس کا کام   ہر حالت میں اپنے عقیدے سے دفاع  اور  شیعوں  کو  گمراہ اور  بدعتی کہنا  ہو، ایسے لوگ    شیعوں  کے  اپنے امام  زمان ؑ سے ارتباط اور ان کی ولادت اور زندہ ہونے  کے عقیدے کو  زیر سوال قرار نہیں دے سکتے۔بلکہ  ان سے  ہی سوال کیا جاسکتا ہے کہ  کیوں انہوں نے ائمہ اہل بیت ؑ  کے علوم  سے بے توجہی  کے ساتھ،  ان علوم کے وارثوں کو گمراہ اور  بدعتی کہنے  کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے؟

اس سلسلے میں امام کے زندہ ہونے  اور طول عمر   کے سلسلے کے اشکال کا جواب بھی واضح ہے :۔ یہ کام خدا کی قدرت سے خالی نہیں ہے ۔ نہ علمی طور پر   اس  کو محال ثابت کیا جاسکتا ہے اور  نہ عقلی طور پر  غیر ممکن چیز ہے  اور نہ تاریخی  اعتبار سے  اس قسم کے نادر   حقائق کا انکار کیا جاسکتا ہے ۔موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جس طرح  سے  حضرت عیسی ؑ ، حضرت خضر ؑ جیسے لوگوں کو  اللہ  اپنی حکمت سے زندہ  رکھ سکتا ہے تو  امام زمان ؑ کی جہت سے ایسا کیوں ممکن نہیں ہوسکتا ؟

خلافت کے بارے میں  شیعوں کا عقیدہ:

اصل امام  زمان ؑ کے وجود  سے متعلق  بحث  کے بعد  ،بحث کے اس حصے میں ہم  رسول اللہ  کے جانشینی کے مسئلے میں شیعہ اعتقاد  کی حقانیت   اور منطقی ہونے  اور ان کے عقیدہ مھدویت  کا رسول اللہ  کی   احادیث  کے مطابق ہونے کو بیان کریں گے ۔

جیساکہ رسول پاکؐ کے   اس سلسلے میں بیان شدہ  احادیث  اور   آپ  کے  مقام  اور ذمہ داری کی  روشنی میں   اگر خلافت  کے مسئلے سے  بحث کیجائے تو  خلافت اور جانشینی  کو   دینی پیشوائی      سے جدا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔    کیونکہ کسی  کا حقیقی جانشین اسے کہا جاتا ہے جو  اپنے سے پہلے والے کی بنیادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ پیغمبر  اسلام ہر چیز سے پہلے دین کے ہادی اور پیشوا تھے، دین کی حفاظت اور نشر و اشاعت ، سب سے زیادہ دین کی معرفت رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا آنحضرت    کی  بنیادی خصوصیات اور ذمہ داریوں میں سے تھا۔ لہذا  آپ  کی جانشینی کے مسئلے میں   ان   بنیادی خصوصیات   کا  مدنظر رکھنا  ضروری ہے ۔ ان خصوصیات کا ملاحظہ کیے  بغیر جانشینی بے معنی ہے۔ اس بنا پر پیغمبر  کا  جانشین وہی ہوسکتا ہے جو   آنحضرت کے بعد اسلامی معاشرے کی ہدایت اور  رہبری،  معارف دین کی تفسیر اور تبیین کا ذمہ دار اور  اس عہدے کی اہلیت  رکھتا ہو .اسی لئے یہاں یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے  کہ   ایک بادشاہ کے جانشین اور ایک رسول  کے جانشین میں فرق ہوتا ہے۔ نبی  کا  جانشین  وہی ہوگا  جو ان  کے بعد ان کی بنیادی ذمہ داریوں  کو انجام  دینے کا اہل ہو  اور یہ تب ممکن ہے کہ جانشین میں  اپنے منصب   اور مقام   سے مناسب ضروری خصوصیات موجود ہوں۔لہذا     دینی پیشوائی   سے مناسب  خصوصیات  کے   بغیر کسی کو آنحضرت کا جانشین کہنا  مقام نبوت کو معمولی سمجھنا اور رسول اللہ    کی شان میں گستاخی ہے۔

شیعہ عقیدے کی رو سے   مقام امامت اور خلافت  کوئی ایسا مقام نہیں ہے جسے کوئی چھین سکےیا اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی اسے دے سکے۔اس  عقیدے کے مطابق  حکومت کا ملنا یا نہ  ملنے جانشینی کے  مقام   پر فائز ہونے یا نہ ہونے  کے ساتھ مساوی نہیں ہے ۔ حکومت جانشین کا حق ضرور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ  اگر انہیں  حکومت نہ ملے تو وہ رسول اللہ کا جانشین نہ کہلایے۔ ایسا کہنا  شاید کسی اور شخصیت اور مقام  کے  اعتبار سے صحیح ہو لیکن یہ رسول اللہ کے مقام نبوت اور رسالت کے کے اعتبار  سے درست نہیں ہے کیونکہ مقام نبوت مقام  ہدایت اور دینی پیشوائی کا مقام  ہے ۔رسول اللہ مکے کی زندگی میں اور اسی طرح مدینے کی ابتدائی زندگی میں حکومت ہاتھ میں  نہ ہونے کے باوجود نبی اور اللہ کے رسول تھے ۔

شیعہ عقیدے کے مطابق چاہے حکومت  ملے یا نہ ملے ، ایسی خلافت  پر ایمان  خود نبوت پر ایمان کی  مانند  ہے ۔ یہاں    ایمان لانے والے کا   خلیفہ کے دور میں ہونا ضروری نہیں  ،کیونکہ یہ بھی  نبی کی طرح اللہ کے  حجت ہیں ۔جس طرح سے بعد کی نسلوں  پر نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے ،ان کے جانشین  کی جانشینی پر ایمان  بھی ضروری ہے۔ جس طرح نبی کی اطاعت ان کی سیرت اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونا  ہر دور کے لوگوں پر ضروری  ہے، ان کے  جانشین  میں بھی ایسا ہے۔شیعہ  اس بات کے معتقد ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب کرنا لوگوں کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ اور اللہ کے رسول کا کام ہے ۔   کیونکہ رسول اللہ  کے جانشین  بننے کے  لئے مناسب  صفات (جیسے معصوم ہونا ، تمام  مسائل  کا علم رکھنا ، سب کی نسبت سے  کمالات میں  رسول اللہ کے زیادہ  قریب ہونا  وغیرہ)  والے کی پہچان   لوگوں کے دائرے اختیار سے  خارج ہے ۔ اسی لئے   اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ  رسول اللہ اپنے جانشین کے معاملے میں  خاموش ہوکر نہیں گئے بلکہ   امت کو اپنے جانشین  کا اعلان  اور ان کی اطاعت کی  صورت میں  گمراہی سے نجات کی ضمانت دے کر اس دنیا سے چلے گئے   ۔ یہاں سے یہ  حقیقت  بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کیوں امام  علیؑ  اور  باقی ائمہ دوسروں کی  حکومت  کے دور میں بھی خود کو  حقیقی جانشین سمجھتے  تھے   اور شیعہ   بھی حکومت نہ ملنے کے باجود  انہیں   رسول اللہ کے حقیقی جانشینی  مانتے  ہیں۔

اہل سنت  کے نزدیک جانشینی کا مطلب۔

اہل سنت  کے نزدیک  رسول اللہ   کے جانشین ہونے  کا معنی  دینی پیشوا ہونا  اور دین  کے ہادی ہونا  نہیں ہے ۔ ان کے ہاں  جانشین کے لئے   مقام نبوت   اور نبی  کی جانشینی سے مناسب  خصوصیات اور صفات کا  مالک ہونا ضروری ہے۔جیساکہ  خلافت کی تاریخ   اور اہل سنت کے علماء  کی  اس سلسلے میں لکھی ہوئی عقائد کی کتابیں خود  اس بات پر بہترین گواہ  ہیں ۔ان کے نذدیک  خواہ   طاقت   کے بل بوتے پر  خلیفہ  حکومت پر   قابض ہوا   ہو  یا کسی اور  طریقے  سے  اس منصب  کا مالک بنا ہو ، و ہ  خلیفہ کہلائے  گا  ، خواہ   وہ فاسق و فاجر  ہی کیوں نہ  ہو تب بھی اس کی اطاعت  کرنا ضروری ہوگا ‏[xxi]۔ اہل سنت کے علماء نہ صرف  خلیفہ کے لئے    مناسب صفات اور  خصوصیات (عصمت ، تمام مسائل کا علم رکھنا  اور امت میں باقی سب سے زیادہ کمالات کا مالک ہونا جیسی صفات )  کے مالک  ہونے  کو   نہ صرف ضروری نہیں جانتے بلکہ  خلفاء کا ان خصوصیات  کے  مالک نہ ہونے کو اس سلسلے میں شیعوں کے نظریے کے  بطلان پر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[xxii]

لہذا  شیعہ اور اہل سنت میں  خلافت کا مفہوم اور معنی ہی  مورد اختلاف ہے ۔جانشین اور امام  کے  مصداق میں اختلاف   اصل  اس معنوی  اور مفہومی اختلاف   کا نتیجہ ہے۔

خلافت  کا کونسا تصور  منطقی ہے ؟

گزشتہ  مطالب کی روشنی میں  ہم اپنے ٕمخالفین سے  یہ سوال کرسکتے  ہیں  کہ جنہوں نے  خلیفہ کے عنوان سے اسلامی معاشرے پر حکومت کی  کیا   وہ لوگ  ان  بنیادی خصوصیات کا مالک تھے  جو حضور پاک ؐ کے جانشین کے لئے ضروری  تھی ؟

کس بنا پر  ایسی  خلافت پر ایمان اور اعتقاد کو آئندہ آنے والوں کے لئے بھی ضروری  اور اس کی مخالفت کو اسلام سے خارج ہونے کا موجب قرار دیتے ہیں  ؟ کیا آپ لوگ اپنے خلفاء کی تعلیمات پر عمل کو واجب سمجھتے ہیں ؟ اگر سمجھتے ہیں تو کس بناء  پر  واجب سجھتے  ؟

کیا رسول پاک ؐ کی طرف سے امت کو درپیش مشکلات کے پیش نظر خود آپ کی طرف سے ہی جانشین مشخص کرنے  کا عقیدہ منطقی ہے یا  یہ کہنا کہ حضور ؐ اپنے  جانشینی کے مسئلے  میں امت کی رہنمائی  کئے  بغیر انھیں  سرگرداں حالت میں چھوڑ گئے  ؟

    اور اگر  ان کے جانشین کا انتخاب امت کی ذمہ داری تھی تو کیا  حضور   کے جانشینی کے مسئلے میں آپ کی بنیادی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر آپ کے جانشین  کا انتخاب ہوا ہے  یا  جو بھی حکومت پر جس طریقے سے قابض ہوا اور  اپنے کو رسول اللہ کو خلیفہ  کہا گیا   ؟

کیا  رسول پاکؐ کے جانشین کے لئے سب سے زیادہ  دین شناس ہونے اور رسول پاک ؐ جیسی بنیادی خصوصیات میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے نزدیک ہونے کا عقیدہ رکھنا منطقی ہے یا  ظالم ،جابر اور جاہلوں کو آنحضرت کا جانشین کہنا منطقی ہے ؟

خلیفہ کے مصداق  کی بحث :

اس بحث  میں  خلیفہ کے مصداق کے اعتبار سےبھی یہ بات قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ نے خود ہی فرمایا : میرے بارہ جانشین ہونگے‘‘لا يزال الدين قائما حتى يكون اثنا عشر خليفة۔[xxiii]۔ جب تک بارہ جانشین ہوں گے، یہ دین اس وقت تک قائم رہے گا ۔  جیساکہ یہ حدیث معمولی فرق کے ساتھ صحاح ستہ میں  صحیح سند نقل ہوئی ہے۔ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ کے حقیقی جانشین بارہ ہی ہوں گے ۔ان بارہ پر اعتقاد رکھنا رسول اللہ  کی رسالت اور نبوت پر ایمان کا لازمہ  ہے۔ جیساکہ بیان ہوا اہل تشیع کا بھی بارہ جانشین ہونے پر ایمان ہے اور ان کے نذدیک یہ سب مشخص بھی ہیں اور  وہ ان  صفات اور خصوصیات کے بھی مالک تھے جو  رسول اللہ کے جانشین بننے کے لئے ضروری ہیں۔لہذا  شیعہ جنہیں  خلیفہ کہتے ہیں وہ جانشین کے حقیقی معنی اور  تعداد کے اعتبار سے مکمل ہے۔شیعوں کا بچہ بچہ ان کے نام سے واقف ہے۔

لیکن دوسرے  اس قسم کی صحیح سند احادیث کے مطابق عقیدہ رکھنے کے مسئلے میں سخت حیرت میں مبتلا ہیں اور یہ مسائل ایک لا ینحل معمی کی صورت میں  موجود ہیں۔ کیونکہ  حضور کے بعد امت اسلامی پر خلیفہ اور جانشین کے عنوان سے  حکومت کرنے والوں کی تعداد  کچھ یوں ہے :

: پہلے 4 خلفاء ) جنہیں بعد میں خلفاء راشدین کہا گیا (           ب :   14 سے زیادہ   بنی امیہ  اور بنی مروان کے حکام   ۔    ج :   37 نفر سے زیادہ  بنی عباس کے حکام   ۔ان مطالب کی رو سے چند سوال یہاں  قابل غور ہیں:

س 1  :  حضور  نے  جو تعداد بیان فرمایا ہے   وہ ان حاکموں میں سے کون کون ہیں ؟

س  2  : ان میں سے  بعض کو  خلیفہ کہہ کر  باقیوں کو  خلیفہ نہ ماننے کا کیا معیار ہے ؟

س 3 :  کیا شیعوں کے علاوہ کوئی ان احادیث کا مصداق دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ؟ اگر شیعہ مخالفین  کے ہاں یہ تعداد مشخص  ہے تو کیوں عوام اس سے جاہل ہیں؟

  س 4: کیا بارہ کا مشخص نہ ہونا  اور انھیں  نہ پہچاننا اس بات پر دلیل نہیں کہ یہ لوگ  رسول پاک ؐ کے معین شدہ جانشینوں   کی شناخت ہی نہیں رکھتے؟  جو ابھی تک رسول پاکؐ کے بارہ جانشینوں کو نہیں پہچانتے  توکیوں  یہ لوگ  دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں؟

س 5 : اگر  فرض کریں  کہ   ان میں پہلے والے چار خلفاء ضرور شامل ہیں تو  اس سلسلے میں ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا  جنہوں نے  امام علی ؑ کے خلاف جنگ اور آپ سے دشمنی اور   آپ کو   خلیفہ ماننے سے  انکار کیا اور یہ سلسلہ  جناب احمد ابن  حنبل کے دور [تقریبا ایک سو سال]  تک   جاری رہا  ؟ اسی طرح یہ لوگ ان اصحاب اور اصحاب کے فرزندوں کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے خلیفہ سوم کے خلاف قیام کیا اور انھیں قتل کر دیا ؟

س : کیا علی مرتضیؑ سے دشمنی کو سیاست اور  حکومت کی بنیاد بنا کر لوگوں پر  حکومت کرنے والوں کی خلافت پر عقیدہ رکھنا منطقی ہے یا

ایسے حاکموں کو  حضور پاکؐ کا  حقیقی جانشین کہنے کو حضورؑ کی شان میں گستاخی سمجھنا منطقی ہے ؟فما لکم کیف تحکمون؟

کیا آپ اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھتے ہیں ؟

حضور پاک  کے بہت سی احادیث  کی بنا  پر  ہر زمانے کے لوگوں  پر زمانے کے  امام کی معرفت اور ان کی بیعت اور اطاعت میں رہنا   لازمی ہے ،اس کے بغیر ان کی موت  جہالت کی موت شمار ہوگی ؛ اس سلسلے کی چند احادیث :۔ رسول اللہ  سے منقول ہے:

  من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية[xxiv]۔۔۔۔۔۔ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ في عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً[xxv]۔۔۔۔۔۔۔ مَنْ مَاتَ بغير امام ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً[xxvi].

ان احادیث  کے مطابق  امام کا  وجود  ضروری ہے  ۔کیونکہ جب امام کا وجود ہی نہ ہو تو اس کی معرفت اور اس کی اطاعت اور  بیعت میں   رہنے کا واجب ہونا اور    عدم معرفت کی صورت میں  جہالت اور گمراہی کی موت مرنا  ،تکلیف بما لایطاق اور حکمت الٰہی  کے خلاف ہے۔

جیساکہ بیان ہوا کہ   اہل تشیع  کے لئے اس جہت سے  بھی کوئی  مشکل نہیں ہے  ۔وہ اپنے  زمانے کے امام کو پہچانتے ہیں، ان کی اطاعت اور  بیعت میں رہنے کو  لازمی  سمجھتے ہیں۔

لیکن   امام زمانؑ  کے وجود  پر ایمان اور اعتقاد    کو  افسانہ  اور   عقل کی کمزوری  قرار دینے والے  ان احادیث  کی  تفسیر میں عجیب  اضطراب  اور   تضاد کا شکار  ہیں ، نہ  اپنے زمانے کے امام کو  پہچانتے ہیں،  نہ ان احادیث    کو جعلی  قرار   دے سکتے ہیں۔لیکن    جو  اپنے زمانے  کے  امام کی شناخت  کے ساتھ اس امام  کے ظہور کے انتظار میں  رہتے ہیں   انہیں   گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں۔

خلاصہ اور نتیجہ :۔

      مہدویت کا عقیدہ   تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔ لیکن بعض اس سلسلے میں من پند کی چیزوں کو شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہیں اور  امام زمان ؑ  کی شان میں جسارت  کے مرتکب  ہوتے  ہیں ۔ اس سلسلے میں  ابن تیمیہ اور اس کے شاکردوں  کا کردار  سب سے نمایاں ہے ۔ ان لوگوں نے   رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے جانشینی کے مسئلے میں  اپنی غیر منطقی باتوں  کا جواب  دینے کے بجائے شیعہ عقیدے کو  بےوقوفانہ اور بے اساس قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلافت اور  مھدویت کے  بارے میں  شیعوں کا  عقیدہ  منطقی اور رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی احادیث  کے مطابق ہے۔  شیعہ مخالفین  کو چاہئے کہ وہ  شیعوں پر اعتراض  کے بجائے  خلافت کے سلسلے  میں  موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واضح فرامین کے  مطابق  اپنے عقیدے کی اصلاح کریں۔


 


[i] ۔ مسند احمد : 90/1، سنن ابي داود 4283۔[1][2]

[ii] ۔ ناصر الدین الألباني  حدیث (المهدي من عترتي من ولد فاطمة)،کے بارے میں لکھتا ہے : وهذا سند جيد رجاله كلهم ثقات ، وله شواهد كثيرة۔ [ii]۔ یہ  بہت ہی عمدہ حدیث ہے۔ اس کے سارے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں اور اس حدیث کی صحت پر اور بھی شواہد موجود  ہیں۔سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة [1 /181]

[iii] ۔ سنن ابي داود 4284، سنن ابن ماجه : 4086]

[iv] ۔ تاريخ ابن عساكر :517/47، تهذيب التهذيب لابن حجر: 126/9

[v] ۔ تفسير القرطبي:122/8﴾

[vi] ۔ منھاج السنة، ج۴، ص۴۱۱

[vii] ۔ السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 [5 /292]

[viii] ۔ منهاج السنة، ج۴، ص۴۱۱

[ix] ۔ مجموع الفتاوي  : 452/27]

[x] ۔ منهاج السنة النبوية   114/1]

[xi] ۔ منهاج السنة النبوية، ج4، ص 87

[xii] ۔ منهاج السنة النبوية، ج1 ص44

[xiii] ۔ النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:49/1

[xiv] ۔ النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:55/1

[xv] ۔ تفسير ابن كثير :569، 568/4، تحت سورة النور : 55]

[xvi] ۔ تفسير ابن كثير : 504/3، تحت سورة المائدہ : 12]

[xvii] ۔ المنار المنيف لابن القيم : 153

[xviii] ۔ الشيعة وأهل البيت، ص244 

[xix] ۔ دیکھیں۔ احسان الاہٰی ظہیر کی کتاب ’’ شیعہ و اہل البیت ، شیعہ و التشیع‘‘ناصر القفازی کی کتاب ’’ اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی العشریۃ‘‘ ڈاکٹر احمد سالوس کی کتاب ’’مع الشیعہ الثنی العشریۃ  فی الاصول و الفروع‘ اس کے لئے شہخ مفید کی کتاب الارشاد   اور الفصول المھمہ‘‘  نوبختی کی کتاب ’’ فرق الشیعہ اور اشعری قمی کی کتاب ’’  المقالات و الفرق‘‘  کا حوالہ دیا ہے۔

[xx] ۔’’الاصاله المهدويه في الاسلام"   میں اہل سنت کے 112 ایسے علماء کا  نام درج ہے جنہوں  نے ا امام مہدی ؑ کی ولادت کو قبول کیا ہے .

[xxi][xxi] ۔ وَقَالَ جَمَاهِير أَهْل السُّنَّة مِنْ الْفُقَهَاء وَالْمُحَدِّثِينَ وَالْمُتَكَلِّمِينَ : لَا يَنْعَزِل بِالْفِسْقِ وَالظُّلْم وَتَعْطِيل الْحُقُوق ، ۔ شرح النووي على مسلم [6 /314]  

[xxii]-  شرح المواقف، ج۸، ص3۵۰. / شرح المقاصد، ج۵، ص24۹

[xxiii] ۔   مسند أبي يعلى الموصلي (13/ 456مسند أحمد - ج5 ص 89- المعجم الكبير - ج2 ص208-

[xxiv] ۔ تفتازاني ، شرح مقاصد في علم الکلام ، ج 2 ، ص 275

[xxv] . صحيح مسلم، ؛ ج3، ص 1478، ح 1851

[xxvi] . مسند احمد ، ج 4 ، ص 96 . طبراني ، معجم الکبير ، ج 19 ، ص 388.

تحریر ۔ غلام محمد ملکوتی  

 

                                                                                          

 
 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی