2024 March 28
کیا حضرت خدیجہ (س) نے رسول خدا (ص) سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کی تھی ؟
مندرجات: ١٨٠٤ تاریخ اشاعت: ٢٣ May ٢٠١٩ - ١٣:٠١ مشاہدات: 5216
سوال و جواب » نبوت
کیا حضرت خدیجہ (س) نے رسول خدا (ص) سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کی تھی ؟

 

سوال:

کیا حضرت خدیجہ (س) نے رسول خدا (ص) سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کی تھی ؟

جواب:

خدیجہ بہترین زوجہ:

حضرت خديجہ كبری (س) رسول خدا (ص) کی بہترین زوجہ اور جنت کی چار افضل عورتوں میں سے ایک ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں کہ جو رسول خدا (ص) پر ایمان لائیں اور اپنی تمام ثروت و مال کو اسلام کی ترقی کے لیے خرچ کر دیا۔

اس عظیم ہستی کی فضیلت اور عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خداوند نے جبرائیل امین کے ذریعے انکو سلام پہنچایا اور جنت میں ایک خوبصورت محل دینے کا وعدہ بھی کیا۔

علامہ مجلسی نے اس بارے میں لکھا ہے:

عَنْ زُرَارَةَ وَحُمْرَانَ وَمُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عليه السلام) قَالَ حَدَّثَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله) قَالَ إِنَّ جَبْرَئِيلَ (عليه السلام) قَالَ لِي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي حِينَ رَجَعْتُ وَقُلْتُ يَا جَبْرَئِيلُ هَلْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ قَالَ حَاجَتِي أَنْ تَقْرَأَ عَلَي خَدِيجَةَ مِنَ اللَّهِ وَمِنِّي السَّلَامَ

وَحَدَّثَنَا عِنْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَالَتْ حِينَ لَقَّاهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَقَالَ لَهَا الَّذِي قَالَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَتْ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ وَ مِنْهُ السَّلَامُ وَ إِلَيْهِ السَّلَامُ وَعَلَي جَبْرَئِيلَ السَّلَامُ.

امام باقر (ع) نے ابو سعيد خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: شب معراج سے واپسی پر میں نے جبرائیل سے کہا: کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ اس نے جواب دیا: میری حاجت یہ ہے کہ خداوند اور میرا سلام خدیجہ تک پہنچا دیں۔ رسول خدا (ص) نے جب جبرائیل کا پیغام خدیجہ تک پہنچایا تو بی بی نے جواب میں کہا: خود خدا کی ذات سلام و سلامتی ہے اور سارے سلام اسی کی طرف سے ہیں اور سارے سلام اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں اور جبرائیل پر بھی سلام ہو۔

المجلسي، محمد باقر (متوفي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 16، ص 7، باب 5 - تزوجه ص بخديجة رضي الله عنها، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983 م.

محمد ابن اسماعيل بخاری نے لکھا ہے:

حدثنا قُتَيْبَةُ بن سَعِيدٍ حدثنا محمد بن فُضَيْلٍ عن عُمَارَةَ عن أبي زُرْعَةَ عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال أتي جِبْرِيلُ النبي صلي الله عليه وسلم فقال يا رَسُولَ اللَّهِ هذه خَدِيجَةُ قد أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فيه إِدَامٌ أو طَعَامٌ أو شَرَابٌ فإذا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عليها السَّلَامَ من رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ في الْجَنَّةِ من قَصَبٍ لَا صَخَبَ فيه ولا نَصَبَ.

جبرائيل خدمت رسول خدا میں آئے اور عرض کیا: اے رسول خدا ! یہ خدیجہ آئی ہے اور اسکے پاس ایک برتن ہے کہ جس میں گوشت، کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے، پس جب وہ آپکے پاس آئیں تو خداوند اور میری طرف سے انکو سلام دینا اور انکو جنت میں جواہر، یاقوت اور سونے سے بنے ایسے گھر کی بشارت دیں کہ جس گھر میں شور شرابا اور کوئی غم نہیں ہو گا۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل ابوعبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3 ص 1389 و ج 6 ص 2723، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

خدیجہ بہترین خاتون جنت:

محمد ابن اسماعيل بخاری نے دوسری روايت میں نقل کیا ہے کہ حضرت خديجہ (س) اور حضرت مريم (س) جنت کی بہترین عورتیں ہیں:

حدثني أَحْمَدُ بن أبي رَجَاءٍ حدثنا النَّضْرُ عن هِشَامٍ قال أخبرني أبي قال سمعت عَبْدَ اللَّهِ بن جَعْفَرٍ قال سمعت عَلِيًّا رضي الله عنه يقول سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ.

عبد الله ابن جعفر نے مولا علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ خدیجہ اور مریم بنت عمران جنت کی بہترین عورتوں میں سے ہیں۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل ابوعبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3 ص 3248، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

جی ہاں، رسول خدا (ص) کی زوجات میں سے وفا، فضیلت اور ایثار گری میں کوئی بھی حضرت خدیجہ (س) کے برابر نہیں تھی کیونکہ رسول خدا اپنی زندگی کی آخری سانس تک ہر جگہ حضرت خدیجہ کو یاد کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان حضرت کی بعض زوجات جیسے عائشہ بری طرح سے احساس کمتری اور حسادت کا شکار تھیں اور وہ رسول خدا پر ہمشیہ اعتراض بھی کرتی تھی کہ آپ کیوں ہمیشہ خدیجہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

عائشہ کا حضرت خدیجہ کی فضیلت و برتری کا اعتراف کرنا:

بخاری نے عائشہ سے نقل کیا ہے:

حدثنا سَعِيدُ بن عُفَيْرٍ حدثنا اللَّيْثُ قال كَتَبَ إلي هِشَامٌ عن أبيه عن عَائِشَةَ رضي الله عنها قالت ما غِرْتُ علي امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم ما غِرْتُ علي خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قبل أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كنت أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ الله أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ من قَصَبٍ وَإِنْ كان لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي في خَلَائِلِهَا منها ما يَسَعُهُنَّ.

عائشہ کہتی ہے میں نے خدیجہ کے علاوہ کسی بھی عورت پر اتنا حسد نہیں کیا، میں نے اسکو نہیں دیکھا تھا اور رسول خدا سے میری شادی سے پہلے ہی وہ دنیا سے چلی گئی تھی، لیکن میں اس لیے اس سے حسد کرتی تھی کہ رسول خدا اسکو بہت زیادہ یاد کرتے تھے اور خداوند نے اسے جنت میں جواہر، یاقوت اور سونے سے بنے گھر کی بشارت بھی دی تھی اور وہ حضرت جب بھی بھیڑ کو ذبح کرتے تھے تو اس گوشت میں سے خدیجہ کی سہیلیوں کے لیے بھی حصہ بھیجا کرتے تھے۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل ابوعبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3 ص 1388، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت،

دوسری روایت میں نقل ہوا ہے:

وقال إِسْمَاعِيلُ بن خَلِيلٍ أخبرنا عَلِيُّ بن مُسْهِرٍ عن هِشَامٍ عن أبيه عن عَائِشَةَ رضي الله عنها قالت اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ علي رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاعَ لِذَلِكَ فقال اللهم هَالَةَ قالت فَغِرْتُ فقلت ما تَذْكُرُ من عَجُوزٍ من عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ في الدَّهْرِ قد أَبْدَلَكَ الله خَيْرًا منها،

عائشہ کہتی ہے خدیجہ کی بہن ہالہ نے رسول خدا سے ملنے کی اجازت لی، رسول خدا اسکو دیکھتے ہی غمگین ہو گئے اور خدیجہ کو یاد کرنے لگے، ان حضرت نے فرمایا: خدایا ہالہ آئی ہے، مجھ (عائشہ) کو غصہ آ گیا اور میں نے کہا: قریش کی عورتوں میں سے وہ کس قدر اس ٹوٹے ہوئے دانتوں والی بوڑھی عورت کو یاد کرتا ہے، وہ تو مر گئی ہے اور خدا نے اس سے بہتر اسکو عورت دی ہے۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل ابوعبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3 ص 1389، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

احمد ابن حنبل نے عائشہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا علي بن إِسْحَاقَ انا عبد اللَّهِ قال انا مُجَالِدٌ عَنِ الشعبي عن مَسْرُوقٍ عن عَائِشَةَ قالت كان النبي صلي الله عليه وسلم إذا ذَكَرَ خَدِيجَةَ أَثْنَي عليها فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ قالت فَغِرْتُ يَوْماً فقلت ما أَكْثَرَ ما تَذْكُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ قد أَبْدَلَكَ الله عز وجل بها خَيْراً منها قال ما أبدلني الله عز وجل خَيْراً منها قد آمَنَتْ بي إِذْ كَفَرَ بي الناس وصدقتني إِذْ كذبني الناس وواستني بما لها إذا حرمني الناس ورزقني الله عز وجل وَلَدَهَا إِذْ حرمني أَوْلاَدَ النِّسَاءِ،

رسول خدا جب بھی خدیجہ کو یاد کرتے تو بہت ہی اچھے الفاظ سے اسکی تعریف کیا کرتے تھے، ایک دن میں نے غصے سے کہا:

آپ کس قدر اس بغیر دانتوں والی بوڑھی عورت کو یاد کرتے ہیں حالانکہ خدا نے آپکو اس سے بہتر  دی ہے ؟ یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا: خداوند نے اس سے بہتر مجھے کوئی عورت نہیں دی، جب سب لوگ مجھ سے بیزار تھے، اس نے مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق اور حمایت کی، جب سب لوگ مجھے جھٹلانے میں لگے ہوئے تھے، اس نے اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، جبکہ لوگ مجھے مال دینے سے انکار کرتے تھے، خداوند نے مجھے اس سے اولاد دی ہے جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد نصیب نہیں ہوئی۔

الشيباني، أحمد بن حنبل ابوعبدالله (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6 ص 117، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 1 ص 238، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت،

ہيثمی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے:

رواه أحمد وإسناده حسن.

الهيثمي، ابوالحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 9 ص 224، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت

لہذا ام المؤمنین حضرت خدیجہ (س) کے بلند مقام ، منزلت اور فضیلت میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے، لیکن اہل سنت 1400 سال سے عائشہ کو رسول خدا (ص) کی بہترین بیوی ثابت کرنے میں مصروف عمل ہیں، لہذا اس ہدف کے لیے عائشہ کے لیے دن رات کوئی نہ کوئی فضیلت تراشی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، لیکن انکو اپنے مقصد کے لیے صرف ایک ہی فضیلت ملی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول خدا کی تمام زوجات میں سے صرف عائشہ ہی باکرہ تھی اور باقی دوسری زوجات جیسے حضرت خدیجہ، رسول خدا کے ساتھ شادی سے پہلے بھی شادی شدہ تھی، حالانکہ تاریخی لحاظ سے اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ روایات کے مطابق عائشہ بھی رسول خدا کے ساتھ شادی سے پہلے، شادی شدہ تھی۔

کیا عائشہ نے رسول خدا (ص) سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کی تھی ؟

ابن سعد نے کتاب الطبقات الكبری میں لکھا ہے:

عن عبد الله بن أبي ملكية قال خطب رسول الله صلي الله عليه وسلم عائشة بنت أبي بكر الصديق فقال إني كنت أعطيتها مطعما لابنه جبير فدعني حتي أسلها منهم فاستسلها منهم فطلقها فتزوجها رسول الله صلي الله عليه وسلم.

عبد الله ابن ابی مليكہ کہتا ہے: رسول خدا نے جب عائشہ بنت ابو بکر کا رشتہ مانگا تو ابو بکر نے کہا: میں نے عائشہ کا نکاح جبیر ابن مطعم سے کر دیا ہے، پہلے میں اس سے بات کر لوں، ابوبکر نے اس سے بات کر کے عائشہ کی پہلے اس سے طلاق لی اور پھر رسول خدا نے اس سے شادی کی۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع ابوعبدالله البصري (متوفي230هـ)، الطبقات الكبري، ج 8 ص 59، ناشر: دار صادر - بيروت؛

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8 ص 17، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت،

لہذا عائشہ، رسول خدا (ص) سے پہلے جبیر ابن مطعم کی بیوی تھی۔

کیا حضرت خدیجہ (س) ثیبہ (شادی شدہ) تھی ؟

اس بارے میں اصلی بحث یہ ہے کہ کیا حضرت خدیجہ (س) نے رسول خدا (ص) سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کی تھی یا نہیں ؟

اس سوال کا جواب شیعہ علماء کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے کہ ہم ان جوابات کو یہاں ذکر کر رہے ہیں:

بعض نے کہا ہے: رسول خدا (ص) کی عائشہ کے علاوہ کوئی زوجہ باکرہ نہیں تھی اور خدیجہ کے بارے میں کہا ہے: اس نے رسول خدا سے پہلے دو مردوں عتیق ابن عبد اللہ مخزومی اور ابو ہالہ تمیمی سے شادی کی تھی اور اسکی ان مردوں سے اولاد بھی تھی۔

یہ بات بعض بزرگ شیعہ علماء کی نظر میں صحیح و قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اسطرح کی تمام باتیں اہل بیت کے مخالفین نے حضرت خدیجہ (س) کے مقام و منزلت کو کم رنگ کرنے کے لیے گھڑی ہیں اور اسکے علاوہ حضرت زہرا (س) کی والدہ گرامی ہونے کے حوالے سے بھی 1400 سال سے حضرت خدیجہ (س) کی شخصیت اور ذات پر ایسے حملے ہوتے آ رہے ہیں، لہذا کتب تاریخ و حدیث میں دقت و غور اور اس بارے میں علمی جوابات سے اس طرح کے تمام شبہات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔

عالم اہل سنت ابو القاسم اسماعيل ابن محمد اصفہانی نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ حضرت خديجہ (س) باكره تھیں:

وكانت خديجة امرأة باكرة ذات شرف ومال كثير وتجارة تبعث بها إلي الشام فتكون عيرها كعامة عير قريش.

حضرت خديجہ باکرہ، با شرافت اور بہت مالدار تھی، ور اپنے تجارتی کاروان کو شام کی طرف راونہ کیا کرتی تھی اور اسکا ایک کاروان، قریش کے تمام کاروانوں کے برابر تھا۔

الأصبهاني، أبو القاسم اسماعيل بن محمد بن الفضل التيمي (متوفي535هـ)،دلائل النبوة، ج 1 ص 178، تحقيق: محمد محمد الحداد، ناشر: دار طيبة - الرياض،

شیعہ عالم ابو القاسم كوفی نے اپنی كتاب الإستغاثہ میں بہت قابل توجہ علمی استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:

أن الإجماع من الخاص والعام من أهل الأنال ونقلة الأخبار علي أنه لم يبق من أشراف قريش ومن ساداتهم وذوي النجدة منهم إلا من خطب خديجة ورام تزويجها فامتنعت علي جميعهم من ذلك فلما تزوجها رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم غضب عليها نساء قريش وهجرنها وقلن لها خطبك أشراف قريش وأمراؤهم فلم تتزوجي أحدا منهم وتزوجت محمدا يتيم أبي طالب فقيرا لا مال له، فكيف يجوز في نظر أهل الفهم أن تكون خديجة يتزوجها أعرابي من تميم وتمتنع من سادات قريش وأشرافها علي ما وصفناه، ألا يعلم ذو التميز والنظر أنه من أبين المحال وأفظع المقال، ولما وجب هذا عند ذوي التحصيل ثبت أن خديجة لم تتزوج غير رسول الله (ص).

شیعہ و سنی مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے کہ قریش میں سے کوئی بھی بزرگ مالدار اور سردار ایسا باقی نہیں بچا تھا کہ جس نے حضرت خدیجہ کا رشتہ نہ مانگا ہو اور اسکی اس مالدار بی بی سے شادی کرنے کی آرزو نہ ہو، لیکن حضرت خدیجہ نے ان سب سے شادی کرنے سے انکار کر دیا، اور جب رسول خدا نے اس سے شادی کی تو قریش کی تمام عورتیں حضرت خدیجہ سے ناراض ہو گئیں اور اسکے پاس آنا جانا تک ترک کر دیا اور انھوں نے کہا: تم نے بزرگان قریش کے رشتوں کو ٹھکرا دیا ہے اور ایسے مرد سے شادی کر لی ہے کہ جو فقیر اور مالدار نہیں ہے ؟!

اسکے باوجود اہل عقل و شعور کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ حضرت خدیجہ نے قبیلہ بنی تمیم کے ایک اعرابی سے شادی کر لی تھی اور قریش کے مالداروں کے رشتوں کو ٹھکرا دیا تھا ؟!

کیا صاحبان عقل و فہم نہیں جانتے کہ یہ ایسی بات واضح ترین محالات اور غلط ترین باتوں میں سے ایک بات ہے، جب اہل تحقیق کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ (س) نے اپنی زندگی میں رسول خدا (ص) کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کی تھی۔

الكوفي، أبو القاسم علي بن أحمد بن موسي ابن الإمام الجواد محمد بن علي (متوفي352هـ)، كتاب الاستغاثة، ج1، ص70، طبق برنامه مكتبة اهل البيت عليهم السلام.

اور اہل تحقیق و اہل انصاف سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر حضرت خدیجہ (س) نے رسول خدا (ص) سے پہلے قبیلہ تمیم کے کسی اعرابی سے شادی کی تھی تو پھر حضرت خدیجہ کی رسول خدا کے ساتھ شادی کے بعد عرب کی عورتیں انکی سرزنش کیوں کرتی تھیں ؟

اور کیا ایک بیوہ اور شادی شدہ عورت کی شادی اہل مکہ کے لیے اتنی اہم تھی کہ بزرگان قریش کی بیویوں نے حضرت خدیجہ سے اپنا میل جول ہی ختم کر دیا تھا ؟

اگر حضرت خدیجہ سرزنش و ملامت کے قابل تھی تو ایک کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والے اعرابی سے شادی کے بعد یہ سرزنش و ملامت کیوں نہ کی گئی تھی ؟

لہذا ہم مطمئن ہیں کہ حضرت خدیجہ (س) کا رسول خدا (ص) سے شادی کرنے سے پہلے، شادی شدہ ہونے والی بات کو مشہور کرنا، ان لوگوں کی سازش ہے کہ جو اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے لیے تو ہر ممکن اور غیر ممکن فضیلت کو بڑی آسانی سے ثابت کر دیتے ہیں، لیکن خود اہل بیت کے لیے کوئی ایسی فضیلت باقی نہیں رکھی مگر یہ کہ بالکل اسی طرح کی فضیلت کو دوسروں کے لیے بھی گھڑ لیتے ہیں تا کہ دوسروں کو انکے مقام سے اونچا کر سکیں اور رسول خدا (ص) کے اہل بیت (ع) کو اپنے مقام سے جان بوجھ کر نیچا کر سکیں !

اسی بارے میں چند سوالات کے جوابات:

سؤال اول:

اگر حضرت خديجہ (س) کا رسول خدا (ص) سے پہلے کوئی شوہر نہیں تھا تو زينب، رقيہ اور ام كلثوم کس کی بیٹیاں تھیں ؟ کیا یہ رسول خدا کی بیٹیاں تھیں ؟

جواب:

مؤرخین کے مطابق حضرت خدیجہ (س) کی ایک بہن تھی، ہالہ، اس نے ایک مخزومی شخص سے شادی کی تھی اور اسکی ایک بیٹی تھی کہ اسکا نام بھی ہالہ تھا، پھر ہالہ نے ایک تمیمی مرد ابو ہند سے شادی کی کہ اس سے بھی ایک بیٹی تھی جسکا نام ہند تھا۔ اس تمیمی مرد کی ایک دوسری بھی بیوی تھی اور اس سے اسکی دو بیٹیاں تھیں کہ جنکا نام رقیہ اور زینب تھا۔ ان دو بیٹیوں کی ماں دنیا سے چلی گئی اور پھر انہی دو کا باپ بھی دنیا سے چلا گیا۔ ہالہ کی بیٹی ہند اسکے شوہر کے گھر والوں کو دے دی گئی اور ہالہ اپنی دو بیٹیوں رقیہ اور زینب کے ساتھ حضرت خدیجہ (س) کے گھر آ گئی اور بی بی نے ان دو کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی اور رسول خدا (ص) سے شادی کے بعد یہ دونوں رقیہ اور زینب رسول خدا اور حضرت خدیجہ کے پاس تھیں اور انھوں نے اسی گھر میں تربیت پائی اور رسول خدا کی ربیبہ کہلانے لگیں اور عرب کی رسم و رواج کے مطابق ربیبہ کو بھی ایک قسم کی بیٹی شمار کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے ان دونوں کو رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی بیٹیاں کہا جاتا تھا۔

سؤال دوم:

بعض نے خدیجہ جیسی خوبصورت اور مالدار عورت کا خاندانی حسب و نسب ہونے کے باوجود شادی نہ کرنے کو ایک غیر ممکن کام شمار کیا ہے اور کہا ہے: کیا ممکن ہے کہ خدیجہ جیسی عورت کا والد یا ولی اسکو بغیر شادی کے رہنے دے اور وہ اکیلی زندگی گزارتی ہو ؟

جواب:

اولا:

حضرت خدیجہ (س) کے والد جنگ فجار میں قتل ہو گئے تھے۔

ثانيا:

اگر حضرت خدیجہ (س) کا والد کے علاوہ کوئی ولی یا سرپرست تھا تو وہ انکو شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا، لہذا ان جیسی خاتون کا ایک مناسب اور اپنی شان کے مطابق شوہر کے انتظار میں رہنا، ایک عقلی اور قابل قبول کام شمار ہوتا ہے۔

نتيجہ تحقیق:

حضرت خدیجہ (س) کے لیے رسول خدا (ص) کے علاوہ کسی دوسرے شوہر سے اولاد ہونے کو ثابت کرنا، نہ صرف یہ کہ غیر ممکن ہے بلکہ تاریخ کی روشنی میں بھی محال ہے، لہذا حضرت خدیجہ (س) کا رسول خدا (ص) سے پہلے شادی کرنے کی بات جعلی اور جھوٹی ہے، یا کم از کم حوادث تاریخی کی جہل کی بناء پر غلط تفسیر کی گئی ہے کہ ہر محقق اپنی علمی تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات