2024 March 29
وہابیت کا تعارف اور اس کا اصلی چہرہ
مندرجات: ١٦٩٦ تاریخ اشاعت: ٠٧ August ٢٠١٨ - ١٤:١٧ مشاہدات: 28006
مضامین و مقالات » پبلک
وہابیت کا تعارف اور اس کا اصلی چہرہ

 

وہابیت، اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد ابن عبد الوہاب کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے۔ وہابی فروع دین میں احمد ابن حنبل‌ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہے۔ اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد ابن عبد الوہاب قابل ذکر ہیں۔

وہابی قرآن اور سنت میں تأویل کی بجائے آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنے کے معتقد ہیں۔ اس بناء پر وہ بعض آیات و روایات کے ظاہر پر استناد کرتے ہوئے، خدائے متعال کے اعضا و جوارح کے قائل ہوتے ہوئے ایک طرح سے تشبیہ اور تجسیم کے معتقد ہیں۔

وہابی اعتقادات کے مطابق اہل قبور حتی پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین کی زیارت، ان کے قبور کی تعمیر، ان پر مقبرہ یا گنبد بنانا، ان ہستیوں سے متوسل ہونا اور ان قبور سے تبرک حاصل کرنا حرام ہے۔

وہابی مذکورہ تمام اعمال کو بدعت اور موجب شرک سمجھتے ہیں، اسی بناء پر سعودی عرب پر مسلط ہونے کے بعد وہابیوں نے تمام اسلامی مقدسات بطور خاص شیعہ مقدس مقامات کو منہدم کرنا شروع کیا، انہدام جنت البقیع اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس میں ائمہ بقیع کے علاوہ کئی دوسرے بزرگ صحابیوں اور صحابیات کے مزار کو سن 1344 ہجری میں وہابیوں نے منہدم کر دیا۔

نجد کے ایک قبیلے کا سردار محمد ابن سعود جو "درعیہ" کا حاکم تھا، نے محمد ابن عبد الوہاب کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے، اس کے ساتھ عہد و پیمان باندھا جس کے نتیجے میں انہوں نے سن 1157 ہجری میں نجد اور اس کے گرد و نواح پر قبضہ کرتے ہوئے ان نظریات کو پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ریاض کو فتح کرنے کے بعد اسے دار الخلافہ قرار دیا، جو ابھی بھی سعودی شاہی حکومت کا دار الخلافہ ہے۔ موجودہ دور میں سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت ہے، جہاں اس فرقے کے علماء کے فتووں پر حکومتی سربراہی میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

وہابیت  کا بانی:

اس فرقہ کا بانی محمّد ابن عبد الوہاب (متوفی 1206 ہجری) ہے۔

فقہی مذہب:

فقہ میں وہابی احمد ابن حنبل کی پیروی کرتے ہیں لیکن عقاید اور بعض فرعی مسائل میں ابن تیمیہ کے طریقت پر خود کو "سَلَفِیہ" کہتے ہیں اور سَلَف صالح (یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب) کی پیروی کرنے کے مدعی ہیں۔

وہابی قرآن و سنت کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں اور جو بھی قرآن و سنت میں مذکور نہ ہو اسے بدعت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہابی صرف اپنے آپ کو موحّد قرار دیتے ہوئے باقی تمام مسلمانوں کو عبادت میں مشرک اور اہل بدعت سمجھتے ہیں۔

امین، کشف الارتیاب، ص 7 ، 12

ربانی، فرق و مذاہب کلامی، ص 181

وہابیت کی تاریخ:

وہابیت کے اعتقادات اور نظریات، اِبن تِیمیّہ کے مبانی پر مبتنی ہیں۔ مذہب جنبلی کے پیروکار ابن تیمیہ نے آٹھویں صدی میں ایسے اعتقادات اور نظریات کا اظہار کیا، جو اس سے پہلے کسی بھی اسلامی فرقے نے ذکر و بیان نہیں کیے تھے۔

سبحانی، بحوث فی الملل و النّحل، ج 4 ص 331

اس وقت کے نامور اہل سنت علماء نے ان کے نظریات کو ٹھکرایا اور اسلامی ممالک میں بہت سے مذہبی علماء نے ان کی مخالفت کی۔ بعض نے انہیں کافر قرار دیا جبکہ بعض نے انہیں جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

رضوانی، وہابیت از دیدگاہ مذاہب اہل سنّت، ص 43 ، 57

ان علماء کی مخالفت کی وجہ سے ابن تیمیہ کے اعتقادات کو بارہویں صدی ہجری تک خاطر خواہ رونق نہیں ملی۔ بارہویں صدی ہجری میں محمّد ابن عبد الوہاب نجدی نے ان کے اعتقادات اور نظریات کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابتداء میں ان کا کوئی پیروکار نہیں تھا یہاں تک کہ سن 1160 ہجری میں وہ نجد کے مشہور شہر دِرعیہ چلا گیا۔

امین، کشف الارتیاب، ص 9

وہاں کے حاکم محمّد ابن مسعود نے عبد الوہاب کے اعتقادات کو اپنی حکومت کی تقویت کیلئے مناسب سمجھتے ہوئے، محمّد ابن عبد الوہاب کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا جس کے تحت اس نے حکومتی سربراہی میں محمد ابن عبد الوہاب کے اعتقادات اور نظریات کا پرچار شروع کیا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عبد الوہاب بھی دینی اور مذہبی پیشوا ہونے کے عنوان سے ان کی حکومت کی حمایت اور تائید کرے۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف شہروں پر لشکر کشی کی اور ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہوئے قتل کر دیتے تھے کہ جو ان کے اعتقادات اور نظریات کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔

اس طرح آل سعود کی حاکمیت اور قدرت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا جس کے سائے میں وہابیت کے اعتقادات اور نظریات پھیلنے لگے۔ جب نو آبادیاتی نظام کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو سعودی عرب کو آل سعود کے لیے چھوڑ دیا گیا چونکہ ایک طرف ان کی حکومت کافی مستحکم ہو چکی تھی تو دوسری طرف سے ان کے اعتقادات اور نظریات نو آبادیاتی نظام کے اہداف میں رکاوٹ بھی نہیں بن رہے تھے۔

تاریخ و نقد وہابیت، علی اکبر فائزی پور، ص 41 ، 102

اس وقت سے لے کر اب تک سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت قرار پایا اور اس پورے عرصے میں اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔

عقائد وہابیت:

اصلی ‌ترین عقائد: 

وہابیت کی بنیادی خصوصیت اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے عقائد کی کلی طور پر نفی کرنا ہے۔ یہ لوگ بعض مسلمانوں خاص کر شیعوں کے بعض اعمال کو توحید عبادی کے منافی سمجھتے ہیں۔

ابن تیمیہ، مجموعہ الوسائل و المسائل، ص 20 ،21 ، 42 ، 43

ان کے گذشتہ پیشواؤں کی کتابوں میں موجود نظریات کی بنیاد پر صرف اس شخص کو مسلمان کہا جا سکتا ہے جو درج ذیل کاموں کو ترک کرے:

  • خدا کے کسی بھی انبیاء اور اولیاء سے متوسل نہ ہو، مثلا یہ نہ کہے:

یا الله اتوسل الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ،

  • نہ پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کیلئے جائے اور نہ وہاں دعا مانگی جائے۔ انبیاء اور اولیاء خدا کی قبور پر ہاتھ نہ پھیرے اور نہ ان مزارات کے نزدیک نماز پڑھی جائے۔
  • پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مطہر پر مقبرہ یا مسجد وغیرہ تعمیر نہ کی جائے۔
  • کسی بھی مردہ شخص حتی انبیاء اور اولیاء الہی کیلئے نذر نہ کی جائے۔
  • انبیاء سمیت کسی بھی انسان کی قسم نہ کھائے۔
  • کسی بھی مردہ شخص کو مخاطب قرار نہ دے حتی وہ پیغمبر اکرم (ص) ہی کیوں نہ ہوں۔
  • پیغمبر اکرم (ص) کیلئے سیدنا وغیرہ نہ کہے مثلا یا محمد (ص) ! یا سیدنا محمد (ص) نہ کہے۔
  • خدا کو کسی بھی انسان کا واسطہ نہ دے یعنی یہ نہ کہا جائے کہ خدایا حضرت محمد (ص) کے طفیل میری فلان حاجت پوری فرما۔
  • خدا کے علاوہ کسی سے استغاثہ یا مدد مانگنا شرک ہے۔
  • اچھے اور برے شگون کا قائل نہ ہو، مثلا یہ نہ کہے: اگر ان شاء اللہ خدا نے چاہا تو ایسا ہو گا وغیرہ  وغیرہ۔
  • زیارت قبر، مقبرہ سازی، تزیین قبور اور ان پر شمع جلانا وغیرہ شرک ہے۔
  • کسی بھی انسان سے شفاعت طلب نہ کرے یہاں تک کہ وہ پیغمبر اکرم (ص) ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگرچہ وہ خدا کی طرف سے اس مقام پر فائز ہیں لیکن دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ ان سے ایسی چیز کی درخواست کرے، ورنہ بت پرستوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔

مغنیہ، محمد جواد، ھذہ ھی الوھابیہ، ص 74

مبانی اعتقادی: 

وہابیت کے اعتقادات، صدر اسلام سے مرسوم بعض اعمال اور سنتوں کی ممنوعیت پر استوار ہیں:

  • زیارت قبور
  • پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کیلئے سفر کرنا
  • مقبرہ سازی
  • قبور پر مسجد بنانا اور وہاں نماز پڑھنا
  • انبیاء، اولیاء اور نیک اور صالح بندوں سے متوسل ہونا
  • مردوں کیلئے زندوں کی طرف سے نذر وغیرہ کے ذریعے نفع پہنچانا
  • انبیاء اور اولیاء الہی سے متعلق چیزوں سے متبرک ہونا
  • میلاد پیغمبر اکرم (ص) پر جشن منانا
  • اموات اور مردوں پر گریہ کرنا
  • خدا کو انبیاء اور اولیاء کا واسطہ دینا
  • غیر خدا کی قسم کھانا
  • خدا کے علاوہ کسی اور نام کے ساتھ "عبد" کے مرکب کے ذریعے بچوں کا نام رکھنا مثلا عبد الحسین وغیرہ۔

سبحانی، جعفر، بحوث قرآنیہ فی التوحید و الشرک، ص 54

وہابیوں کا خدا:

وہابیت جو اپنے آپ کو توحید اور بطور خاص توحید عبادی کا مدافع ظاہر کرتی رہتی ہے، خدا کو ایک جسمانی موجود قرار دیتی ہے۔ وہابیت کی نگاہ میں خدا کی اہم ترین خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • خدا جسم رکھتا ہے پس جسمانی امور سے منزہ نہیں ہے۔

ابن تیمیہ حرانی، التاسیس فی رد اسس التقدیس، ج 1 ص 101

  • خدا ہر رات آسمان سے زمین پر آتا ہے۔

ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج 5 ص 61

  • خدا تمام انسانی اعضاء کا حامل ہے، سوائے داڑھی اور شرمگاہ کے۔

ابن تیمیہ، العواصم من القواصم، ص 210

  • خدا ہرولہ کرتا ہے۔

فتاوی اللجنہ الدایمہ للبحوث و الافتاء، ج 3، ص 196، فتوی نمبر 9632

مشترکہ اعتقادات: 

وہابیوں کے بعض دیگر اعتقادات درج ذیل ہیں:

  • حضرت نوح (ع) پہلے نبی ہیں،

فرہنگ فرق اسلامی، ص 459

  • خدا کو آخرت میں دیکھا جا سکتا ہے،

منہاج السّنّہ النبویہ، ج 1 ، ص 215 ، 216

  • انبیاء صرف مقام تبلیغ میں معصوم ہیں لہذا جس وقت تبلیغ میں مشغول نہیں، ان کا گناہ کے مرتکب ہونے اور اپنی شریعت کے برخلاف قدم اٹھانے کا بھی امکان ہے۔

منہاج السنہ، ج 1 ص 226

ادیان الہی و فرق اسلامی، ص 194

وہابیت کی اہم شخصیات:

ابن تیمیہ:

ابو العباس احمد ابن عبد الحلیم حرّانی جو ابن تیمیہ کے نام سے معروف تھا، مذہب حنابلہ کے ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھا۔ چونکہ ان کے نظریات اپنے ہم عصر علماء کے نظریات سے مخالف تھے، اسی بناء پر دوسرے علماء نے اسکے کافر ہونے کا فتوا لگایا، یوں اسے جیل بھیج دیا گیا۔ شام پر مغلوں کے حملے کے وقت شام سے قاہرہ فرار کر گیا، سن 712 ہجری کو دوبارہ دمشق واپس آیا اور سن 728 ہجری کو قلعہ دمشق میں وفاتی پائی۔

ابن تیمیہ باوجود اس کے کہ وہ اور اس کا والد مذہب حنابلہ کے پیروکار تھے، لیکن فقہی مسائل میں احمد ابن حنبل کی پیروی کرنے کا پابند نہیں تھا۔ اسی طرح کلامی مسائل میں مسئلہ توحید پر زیادہ تاکید کی خاطر شہرت اور اجماع کے مخالف بہت زیادہ نظریات کا حامل تھا۔

ابن قیم:

شمس الدین ابو عبد اللّہ محمد جو ابن قیم جوزی کے نام سے معروف ہے، یہ ابن تیمیہ کا شاگرد تھا اور اپنے استاد کی طرح اس کے مذکورہ نظریات کا دفاع کرتا تھا، اسی بناء پر دین اسلام میں بدعت گذاری کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔

محمد ابن عبد الوہاب:

نجد کے شہر عینیہ میں پیدا ہوا اور اپنے والد کے یہاں سے فقہ حنابلہ کی تعلیم حاصل کی۔ توحید کے مسئلے میں افراطی نظریات خاص کر توسل، تبرک اور زیارت قبور جیسے مسائل میں مشہور کی مخالفت کی وجہ سے سن 1106 ہجری میں درعیہ سے باہر نکال دیا  گیا لیکن یہاں کے حاکم، محمد ابن سعود نے اپنی حکومت کی بقاء کی خاطر اس کی مدد اور حمایت کا اعلان کیا۔ یوں اس نے تھوڑی مدت میں اپنی رعایا کو "نجد" کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا اور محمد ابن سعود کی مدد سے "نجد" پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد میں اس نے حکومت کو محمد ابن سعود کے بیٹے عبد العزیز کے حوالے کر دیا اور وہ خود سن 1206 ہجری میں اپنی وفات تک اپنے نظریات کی تدریس اور ترویج میں مشغول رہا۔

وہابیوں کے بعض خلاف شرع اقدامات:

سعودی عرب میں حکومت پر قابض ہونے کے بعد وہابیوں نے اپنے اعتقادات کے مطابق بہت سارے کام انجام دیئے، ان کے بعض اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

  • انہدام جنت البقیع سن 1221 ہجری،

امین. کشف الارتیاب، ص 33

  • سن 1216 ہجری میں حرم امام حسین (ع) کی تخریب، ضریح سمیت قیمتی اشیاء کی چوری، زائرین کا قتل عام اور عورتوں کو اسیر بنانا،

امین. کشف الارتیاب، ص 15 ، 33

  • سن 1221 ہجری میں حرم امام علی (ع) کو منہدم کرنے کی قصد سے نجف پر حملہ کرنا،

امین. کشف الارتیاب ص 16

وہابیت کا تبلیغ کرنا:

  • اس فرقے کے علماء نے شروع سے اپنے اعتقادات اور نظریات کی ترویج اور نشر و اشاعت کیلئے سخت کوششیں کیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔
  • افریقہ: موجودہ دور میں ایک کثیر رقم مختص کر کے افریقہ اور برصغیر میں وہابیت کی ترویج کیلئے بہت کوشیش کی جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ اس مذہب میں داخل ہو رہے ہیں۔
  • برصغیر: میں پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم سے پہلے سر سید احمد خان کو وہابیت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے سن 1822 میں اپنے سفر حج کے دوران مذہب وہابیت اختیار کیا اور واپسی پر پنجاب میں اس مذہب کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کیا۔ انہوں نے اس منطقہ میں سعودی عرب میں وہابی حکومت کی طرز پر ایک ریاست بنائی اور یہاں تک پیشرفت کی کہ شمالی ہند کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ وہ اس منطقہ میں موجود علماء اور دینی رہنماؤوں کو وہابیت کی طرف دعوت دیتے اور جو بھی ان کے نظریات کو قبول نہ کرتے، ان کے ساتھ اعلان جہاد کرتا تھا۔
  • الجزایر: میں امام سنّوسی حج کیلئے مکہ چلا گیا اور وہاں پر انہوں نے اس مذہب کو اختیار کیا، پھر وطن واپسی پر اس مذہب کی ترویج شروع کی۔
  • یمن: میں مقبل ابن ہادی وادعی نے وہابیت کی ترویج کی۔
  • ان اواخر میں اپنے اعتقادات کی ترویج اور تبلیغ کیلئے بروئے کار لائے جانے والے وہابیوں کے بعض اقدامات درج ذیل ہیں:
  • سن 1417 ہجری موسم حج میں 500 مبلغین کی فعالیت۔
  • سن 1417 ہجری میں 1000 چیچنیایی باشندوں کو مہمان کے طور پر دعوت۔
  • سن 1418 ہجری میں مشرق وسطی سے 1400 حجاج کو مہمان کے طور پر دعوت۔
  • چین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائبریریوں کا قیام۔
  • بین الاقوامین کانفرنسوں میں وہابیت کی تبلیغ۔
  • ایک سال کے اندر 2000 مبلغین کا 290000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • سعودی عرب میں سن 1418 ہجری میں 5200000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • بحرین کے مساجد میں سن 1418 ہجری صفر کے مہینے میں 300 نشتوں، 3650 دینی دروس اور 41176 مذہبی لٹریچرز کی اشاعت۔
  • دبئی میں 3789 تبلیغی فعالیتوں اور 11698 لٹریچرز کی اشاعت۔
  • قطر میں 1418 دینی دروس اور 3715 مذہبی لٹریچرز کی اشاعت۔
  • سن 1417 ہجری کی ماہ رمضان میں فجیرہ امارات میں 6000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • پاکستان میں سن 1417 ہجری میں 165296 تبلیغی فعالتیں۔
  • افغانستان ایران، ہندوستان، نیپال، موریتانیہ، برطانیہ، پیرس اور ہالینڈ وغیرہ میں مبلغین کا بھیجنا۔
  • برطانیہ کے مدرسوں، جیل خانوں، اور ہسپتالوں میں سن 1417 ہجری میں انجام دی جانے والی تبلیغی فعالیتوں میں 10800 علمی دروس شامل ہیں۔
  • انڈونیشیا کے مبلغین کیلئے تعلیمی کورس۔
  • تاتارستان کے طالب علموں کیلئے تعلیمی کورس۔
  • وینیزوئیلا کے اسلامی مراکز اور قبائلی سرداروں کیلئے عربی زبان کا مختصر کورس۔
  • ارجنٹینہ میں لاطینی امریکہ کے مبلغین کے لیے مختصر کورس۔
  • قزاقستان کے مبلغین کیلئے کورس۔
  • کینیا میں مبلغین کیلئے کورس۔
  • تھایلینڈ میں مبلغین کیلئے کانفرنس۔
  • سینیگال میں مبلغین کیلئے کانفرنس۔
  • مغربی افریقہ میں ائمہ جماعات کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • کرغستان میں ائمہ جماعات اور مبلغین کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • امریکہ میں ائمہ جماعات اور مبلغین کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • یوکرائن میں تربیت مبلغ کورس کا انعقاد۔
  • چیچنیا میں مبلغین کی تربیت کیلئے ایک کالج کا قیام۔
  • بین الاقوامی رابطہ کمیٹی کے چرمین کا مختلف اسلامی ممالک کے سربراہوں سے ملاقات۔
  • بوسنیا کے مساجد کی تعمیر و ترقی۔
  • فیلپین میں 104 مساجد کی تعمیر۔
  • بوسینیا میں 90 مساجد کی تعمیر یا مرمت۔
  • دنیا میں 1359 مساجد کی تعمیر میں حصہ۔
  • بیلجئیم میں 300 مساجد کی مالی تعاون۔
  • روس میں تربیت مبلغ کورس کا انعقاد۔
  • ماسکو یونیورسٹی میں فعالیت۔
  • 34 ممالک کو تعلیمی سکالر شپ۔
  • ٹوکیو میں اسلامی اور عربی علوم کیلئے ٹریننگ کالج کا قیام.
  • انڈونیشیا کے اسلامی اور عربی ٹریننگ کالج سے 3891 طلباء کی گریجویشن۔
  • کردستان عراق میں تبلغی قافلوں کا قیام۔
  • جمہوری آذربایجان کے 100000 پناہ گزینوں کی مالی تعاون۔
  • بوسینیا کیلئے 321000 کتابوں کی اشاعت۔

رضوانی، علی اصغر، سلفی گری (وہابیت) و پاسخ بہ شبہات، ص 204

علمی تنقیدات اور علمی اعتراضات:

شیعہ اور سنّی علماء نے وہابیت کی ردّ میں بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔

فرقہ وہابی و پاسخ شبہات آنہا، ص 15 ، 21

ان میں سے بعض آثار درج ذیل ہیں:

  • الصواعق الالہیہ فی الرد علی الوہابیہ(کتاب) الصواعق الالہیہ فی الرد علی الوہابیہ تالیف سلیمان بن عبدالوہاب (محمّد ابن عبد الوہاب کا بھائی).
  • منہج الارشاد لمن اراد السداد تالیف شیخ جعفر کاشف الغطاء،

فرہنگ شیعہ، ص 468

  • کشف الارتیاب فی اتباع محمد بن عبد الوہاب تالیف سید محسن امین۔
  • آیین وہابیت تالیف جعفر سبحانی۔
  • الوہابيۃ المتطرفۃ: موسوعۃ نقدیہ (وہابیت پر تنقیدی انسائکلوپیڈیا) یہ کتاب 5 جلدوں پر مشتمل ہے جسے اہل سنت مصنفین نے وہابیت کے خلاف تحریر کی ہیں۔
  • فتنہ وہابیت تالیف احمد سید زینی دحلان۔
  • وہابیت، مبانی فکری و کارنامہ عملی تالیف جعفر سبحانی

مجلة تراثنا ، سال چہارم ، شوال 1409، شمارہ 17

تاریخ وہابیت کا مختصر جائزہ:

محمد ابن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ اور ابن قیم جوزی کے نظریات سے استفادہ کر کے وہابی تفکر کی بنیاد رکھی۔ ایک منحرف اور سطحی مکتب جو اسلام کی اعلی تعلیمات کی روح سے خالی ہے اور اس نے اپنی ولادت سے لے کر اب تک تفرقہ اندازی اور اختلاف افکنی، قتل و غارت، تخریب کاری، فرقہ واریت، فساد انگیزی اور فتنہ افگنی کے سوا امت مسلمہ کو کچھ بھی نہیں دیا۔

اس تفکر کی اعتقادی بنیادیں بالکل سست اور ابتدائی ہیں اور قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول اللہ (ص) سے اس، کے لیے ہوئے مفاہیم اور تاثرات و تصورات نہایت سطحی اور مضحکہ خیز ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے خدائے متعال کو مجسم کر دیا ہے اور مکتب کے راہنما خدا کے لیے ہاتھ پاؤں اور بلند سنہری زلفوں کے قائل ہوئے ہیں۔

استعمار اور استکبار اپنی سیاہ اور شیطانی حاکمیت کی خاطر مختلف ہتھکنڈے بروئے کار لاتا رہا ہے۔ " اختلاف ڈالو اور حکومت کرو " اس کا پرانا نعرہ ہے اور اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ ہمیشہ معاشروں کے ماحول کو غیر صحتمند بنانے اور تکفیر و تفسیق کا سہارا لیتا رہا ہے۔ استعماری طاقتوں نے جو اسلامی تعلیمات سے معرض وجود میں آنے والے دین اسلام کے شکست ناپذیر حصار کو ہمیشہ اپنے سامنے ڈٹا ہوا دیکھتی آئی ہیں ـ اس سدّ کو توڑنے کے لیے مختلف قسم کی سازشوں کا سہارا لیا ہے، جیسا کہ:

براہ راست عسکری مقابلہ جس کی عملی شکل صلیبی جنگوں، مسلم ممالک کو نو آبادیات میں تبدیل کرنے اور لیبیا، عراق، افغانستان، ایران، الجزائر اور عراق جیسے ممالک پر قبضہ کرنے کی صورت میں نظر آئی۔ اسلامی تعلیمات میں تحریف اور اسلامی احکامات کو الٹ پلٹ کر کے پیش کرنا اور اسلامی مقدسات پر بہتان تراشی کر کے براہ راست ثقافتی یلغار کرنا، مسلمانوں کو دین کی نسبت لاپرواہ اور بے اعتناء بنانے کی نیت سے کے ان کے درمیان فساد، فحشاء اور برائیوں کی ترویج کر کے، بالواسطہ طور پر ثقافتی جنگ لڑنا۔ قوم پرستانہ جذبات کو ابھار کر مسلمانوں کو نسلی اور قومی گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنا اور اسلامی سرزمیں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور مذہب و مکتب بنانا اور فرقے تشکیل دینا۔

وہابیت کو اہل سنت کے قلب میں اختراع کیا گیا جو اہل سنت کے بہت سے اصولوں کو رد کرتی ہے اور اپنے پیروکاروں کے سوا کسی کو بھی مسلمان نہیں سمجھتی تاہم بوڑھے برطانوی استعمار نے اس مکتب کو ایجاد کیا اور اس کو " انتہا پسند سنی فرقے " کا نام دیا گیا۔

مسٹر ہمفر ایک برطانوی جاسوس تھا جس نے اپنی کتاب "ہمفر کی یادیں " میں محمد ابن عبد الوہاب کا سراغ لگانے، اس کو منحرف کرنے اور اس کو اپنی راہ پر لگانے کی کیفیت بیان کی ہے۔ وہ اس شخص کی جاہ پرستی، اخلاقی کمزوریوں اور انتہا پسندانہ تفکرات کو بھانپ کر مسلمانوں کے درمیان نیا فرقہ بنانے کے لیے مناسب قرار دیتا اور اسی رو سے اس کو قدم بقدم اپنے مقصد کی طرف لے جاتا اور اس کا ساتھ دیتا ہے، حتی کہ حالات اور ماحول کو مناسب پا کر نئے مذہب کا اعلان کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور پھر وہ برطانیہ کے حکم پر بوڑھے سامراج کے ایک ایجنٹ سعود ابن عبد العزیز کے ساتھ اتحاد کر لیتا ہے اور فراہم کردہ وسائل کو بروئے کار لا کر مرید بھرتی کرنے کے لیے اقدام کرتا ہے۔

جب محمد ابن عبد الوہاب (شیخ محمد) نے "درعیہ" کو اپنا موطن قرار دیا، اس شہر کے لوگ نادانی اور جہالت میں گھرے ہوئے تھے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں سستی کر رہے تھے اور دینی تعلیمات سے ناواقف تھے اور شیخ محمد نے انہیں اسی دین کی تعلیم دی جو وہ خود برطانویوں کی مشاورت سے اختراع کر چکا تھا۔

شیخ محمد نے اس کے بعد نجد کے عما‏ئدین اور قاضیوں کو خط لکھا اور ان سے اپنی اطاعت کا تقاضا کیا، بعض نے اطاعت کی اور بعض نے انکار کیا اور شیخ کی دعوت کا مذاق اڑایا اور اس کو جہالت اور دین سے عدم واقفیت اور عدم معرفت کا ملزم ٹہرایا۔ بعض نے اس کو جادوگر کہا اور بعض دوسروں نے بعض غیر شائستہ الزامات کا نشانہ بنایا۔ شیخ نے درعیہ کے عوام کو قتال اور جنگ کا حکم دیا۔ درعیہ کے وہابیوں نے نجد کے خلاف مسلسل جنگیں لڑیں حتی کہ نجد کے عوام بھی شیخ کے مطیع ہوئے اور یوں شیخ محمد کی برکت سے آل سعود نے نجد اور اس میں سکونت پذیر قبائل پر غلبہ پایا۔ اس گروہ کی روش ابتداء ہی سے تشدد، مسلمانوں کو زخمی اور قتل کرنے اور تمام مسلمانوں کی تکفیر پر مشتمل تھی۔

وہابی وسیع و عریض جنگ اور خونریزیوں کے بعد سعودی عرب کہلانے والی سرزمین میں وسیع جنگوں اور خون کی ندیاں بہانے کے بعد اس سرزمین پر قابض ہوئے اور انھوں نے شیخ احمد احسائی کی کتاب "شرح الزیارہ" سے استناد کر کے شیعیان اہل بیت (ع) کا قتل جائز قرار دیا۔ احسائی نے مذکورہ کتاب میں ائمہ (علیہم السلام) کا رتبہ بڑھا کر پیش کیا ہے اور خلفاء ثلاث کو لعن و شتم کا نشانہ بنایا تھا، چنانچہ وہابیوں نے اہل سنت کے بعض علماء سے بھی اہل تشیع کے قتل کا فتوی لیا اور جزیرہ نمائے عرب سے عراق کے مقدس شہروں نجف اور کربلا پر حملہ آور ہوئے اور حرم ہائے شریفہ کو لوٹنے کے ضمن میں خوفناک درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے عوام اور زائرین کا قتل عام کیا اور بعض خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جس سے ان کی درندگی کے علاوہ ان کی اخلاقی پستی کا ثبوت بھی ملتا ہے اور انہیں ایسا کرنے کی دستاویز فراہم کرنے والوں کا کردار بھی بجائے خود مشکوک اور متنازعہ ہے۔

وہابیوں نے ان لوگوں کے موقف کو بہت سے زائرین اور علمائے کرام کے قتل کی دستاویز بنایا۔ ابتداء میں ان کی تبلیغی روش قبائل کے زعماء کے نام خطوط و مراسلات بھجوانے سے عبارت تھی اور جب وہ ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے تو وہابی لشکر کشی اور جنگ اور کشت و خون کے ذریعے انہیں اپنی بات ماننے پر مجبور کرتے تھے۔

برطانوی سامراج نے آل الشیخ اور آل سعود خاندانوں کے درمیان اتحاد قائم کیا اور جب انھوں نے پوری سرزمین عرب پر قبضہ کیا اور سعودی مملکت کی تاسیس ہوئی تو دینی امور محمد ابن عبد الوہاب کے پسماندگان کے سپرد کیے گئے، جنہیں آل الشیخ کہا جاتا ہے اور سیاسی اور ملکی انتظام سعود ابن عبد العزیز کی اولاد کو سونپ دیا گیا، جنہیں آل سعود کہا جاتا ہے۔

گذشتہ صدی عیسوی میں جزیرہ نمائے عرب میں تیل کے عظیم ذخائر دریافت اور آل سعود کو عظیم دولت ملنے کے بعد، وہابیوں نے عالم اسلام کی سطح پر اپنے افکار و عقائد کی ترویج کا فیصلہ کیا۔ گذشتہ صدی عیسوی میں جزیرہ نمائے عرب میں تیل کے عظیم ذخائر دریافت اور آل سعود کو عظیم دولت ملنے کے بعد، وہابیوں نے عالم اسلام کی سطح پر اپنے افکار و عقائد کی ترویج کا کام شروع کیا۔ نئی مملکت میں وہابیت کو استحکام ملا اور علاقے میں نئی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو وہابیوں نے تیل کی عظیم دولت کے بدولت اپنی پالیسی تبدیل کر دی اور وقتی طور پر قتل و غارت کا سلسلہ بند کیا اور دولت کی طاقت سے ان ملکوں اور ریاستوں میں ثقافتی اور مذہبی اثر و رسوخ بڑھایا اور البتہ دوسرے ملکوں کے حجاج کرام کے ساتھ ان کی بدسلوکی میں کوئی فرق نہیں آیا اور نہ ہی اسلام کے آثار قدیمہ کے انہدام کے سلسلے میں وہابی تفکر اور رویے میں کوئی فرق آیا ہے۔

ہر سال پورے جزیرہ نمائے عرب میں رسول اللہ (ص) کے زمانے کے آثار کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں اور وہابی مولوی سعودی گماشتوں کی مدد سے زائرین کو زیارت نہیں کرنے دیتے، ان پر شرک اور کفر کا الزام لگاتے ہیں اور یہ مسائل مدینہ منورہ میں زیادہ ہی نظر آتے ہیں کیونکہ وہاں رسول اللہ (ص) کا حرم شریف ہے جس کی زیارت دنیا بھر کے مسلمانوں کی دلی آرزو ہوتی ہے اور جب وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں وہابی نظر آتے ہیں جو ان پر رسول اللہ (ص) کی زیارت اور آپ (ص) سے توسل کی بناء پر کفر و شرک کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا رویہ تمام غیر وہابی اہل اسلام ، بالخصوص شیعیان محمد و آل محمد (ص) کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور غیر اسلامی ہوتا ہے۔

گویا ان کی منطق ہی تشدد اور تکفیر ہے چنانچہ انہیں کفر و شرک کے فتووں اور مسلح سعودی فوجیوں اور پولیس والوں بالخصوص بدنام زمانہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی یونٹوں کے افراد کے تشدد کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور مزاحمت کی صورت میں تفتیش، تھانے اور قاضی عدالت کا چکر لگانا پڑتا ہے۔

وہابیوں نے اپنے دین کی ترویج کے لیے غریب ملکوں کو اپنا ہدف بنایا اور مختلف افریقی ممالک کے علاوہ برصغیر کے ممالک پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارتی مسلم معاشرے کے درمیان رقم خرچ کرنا شروع کی، جہاں کے لوگوں کی آمدنی بہت کم ہے اور ان ممالک کے مسلمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے بہت سے علماء کو خرید لیا اور کثیر تعداد میں مدارس، مساجد اور نام نہاد اسلامی مراکز تعمیر کیے اور نہایت منظم انداز میں بہت طاقتور تنظیمی روش پر ہمآہنگ نیٹ ورکس تشکیل دیئے اور وہابیت کی ترویج کا اہتمام کیا اور برصغیر کے حنفی مسلمانوں کی دیوبندی شاخ کو جو وہابی عقائد قبول کرنے کی زیادہ استعداد رکھتے ہیں، دینی وہابیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ گو کہ مسلمانوں کی اکثریت حتی کہ دیوبندیوں کے درمیان ایسے حلقے بھی ہیں جو ان عقائد کو مسترد کرتے ہیں اور وہابیوں کو غیر اہل مذہب کے عنوان سے جانتے ہیں۔

برصغیر میں سعودی وہابی مفتیوں اور مبلغین کا مسلسل آنا جانا رہتا ہے اور بہت سے سعودی خیراتی ادارے بھی جو خیراتی کاموں کی آڑ میں وہابیت کی ترویج میں مصروف ہیں، ان ممالک میں موجود ہیں، نیز بعض مقامی خیراتی اداروں کو بھی سعودی فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، جبکہ سعودی عرب میں برصغیر کے ہزاروں افراد مختلف حوالوں سے کام کاج میں مصروف ہیں، جن میں ڈاکٹر، انجنیئر، ٹیکنیشن اور مزدور شامل ہیں، جن میں سے کئی اپنے ملکوں میں آ کر وہابیت کی ترویج کرتے ہیں اور یہ ان طلبہ کے علاوہ ہیں جو ان ملکوں میں سعودی فنڈ سے چلنے والے اداروں اور مراکز و مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں یا سعودی عرب کی وہابی جامعات میں جا کر تعلیم حاصل کر کے اپنے ملکوں میں اس مکتب کی تبلیغ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے محروم ترین قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کے نہایت پسماندہ علاقوں میں وہابیوں نے سینکڑوں اور ایک قول کے مطابق ہزاروں مدارس اور مساجد اور دینی تعلیمی مراکز قائم کیے ہیں، جہاں وہ بے تحاشا دولت خرچ کر کے گویا وہابی فوج کے لیے جوان بھرتی کر رہے ہیں اور ایران کے صوبہ بلوچستان اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی سعودی تیل کے ریالوں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

وہابیت کے اس وسیع و عریض اور فعّال نیٹ ورک نے پوری دنیا میں اثر و رسوخ پیدا کیا ہے اور برصغیر، افریقہ، مشرق بعید، وسطی ایشیا اور سابق سوویت روس کی شکست کے بعد معرض وجود میں آنے والی ریاستوں نیز یورپ اور امریکہ میں وہابیت فعالانہ طور پر تبلیغ میں مصرف ہے اور چیچنیا جیسی ریاستوں کی حریت پسندانہ تحریکیں بھی وہابیوں کی دولت سے بہرہ مند ہو رہی ہیں یا پھر ان تحریکوں کے بعض انتہا پسند اور شدت پسند دھڑوں کو وہابیوں کی مالی حمایت حاصل ہے۔ فلپائن میں ابوسیاف دہشت گرد دھڑا، پاکستان میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد نیز پاکستانی تحریک طالبان کے بھیس میں حکومت اور عوام کے خلاف برسر پیکار دہشت گرد ٹولے، بن لادن کی مشکوک موت کے بعد ایمن الظواہری کی سرکردگی میں پاکستان اور افغانستان نیز شام سمیت کئی عرب ملکوں میں سرگرم دہشت گردی دہشت گرد تکفیری ٹولے، سب کے سب ایک منظم وہابی نیٹ ورک میں منظم انداز سے امریکی سامراج اور فلسطین و قبلہ اول پر قابض، اسرائیل کہلوانے والی غاصب صہیونی ریاست کی فعالانہ خدمت کر رہے ہیں اور ان کے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کر رہے ہیں اور اس نیٹ ورک نے وہابیوں کی ذیلی تنظیموں میں گہرے اختلافات کے باوجود انہیں بعض مشترکہ نکات پر متحد کر کے رکھا ہوا ہے، جن میں سے ایک آل سعود اور امریکہ و اسرائیل کے مفادات کا تحفہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اہل تشیع اور وحدت مسلمین کے داعیوں کو دشمن نمبر ایک سمجھ کر ان کے خلاف بزدلانہ کاروائیاں کرنا، ان کے مشترکہ مقاصد ہیں۔

بلاد الحرمین میں وہابی دینی مدارس و جامعات مسلم ممالک کے نمایاں طلبہ کو چن چن کر انہیں اپنے وظیفے پر اپنے ہاں بلاتی ہیں اور انہیں تعلیم دے کر وہابیت کے مبلغین میں تبدیل کر دیتی ہیں اور انہیں اچھی خاصی مالی امداد فراہم کر کے اپنے اپنے ملکوں میں روانہ کیا جاتا ہے تا کہ وہاں وہ وہابیت کی تبلیغ و ترویج کریں۔

وہابی دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنے علماء کو تعلیم دیتے ہیں اور انہیں مختلف ممالک میں وہابی اسلامی کی تبلیغ کے لیے روانہ کرتے ہیں، جہاں وہ اپنے افکار کو فروغ دیتے ہیں اور غریب و محتاج نیز اسلامی تعلیمات سے نا آشنا افراد کو اپنی جانب جذب کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ حج کے موقع پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، وہابی علماء مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص) میں لاکھوں حجاج و زائرین سے اردو سمیت دوسری زبانوں میں خطاب کرتے ہیں اور برصغیر اور دوسرے ملکوں کے حجاج کو اپنے جرگے میں شامل کر لیتے ہیں اور ان اقدامات کے علاوہ وہ اردو سمیت مختلف زبانوں میں وہابی لیٹریچر خاص طور پر عرفات اور منیٰ میں ہر سال مفت تقسیم کرتے ہیں۔ حج اور عمرہ کے ایام اور زیارت کے مہینوں میں، سعودی دینی مدارس اور جامعات میں وہابی تعلیمات کے حصول میں مصروف طلبہ جو اپنے ملکوں سے بھرتی ہو کر سعودی عرب کے وظیفے پر یہاں لائے جاتے ہیں، خاص طور پر مکہ اور مدینہ کے حرمین شریفین میں موجود مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں اور وہابی افکار کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چونکہ یہ طلبہ مذکورہ حاجیوں کے ہم وطن ہوتے ہیں اور ان کی مادری زبان میں بات کرتے ہیں چنانچہ ان کی تبلیغ خانہ خدا کے زائرین پر اثر انداز ہوتی ہے۔

وہ بعض شیعہ متون کو چھاپ کر وسیع سطح پر حجاج کے درمیان تقسیم کرتے ہیں، حالانکہ وہ متون شیعہ علماء اور دانشوروں کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں۔ وہ یہ کتابیں نیز وہابی افکار کی حامل کتابیں حجاج کے درمیان مفت تقسیم کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں خدا کی تجسیم و تشبیہ کی ترویج کرتے ہیں، لیکن اہل تشیع پر تحریف قرآن کے اعتقاد کا الزام لگاتے ہیں اور جھوٹ و افتراء کی انتہا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیعہ (معاذ اللہ) جبرائیل امین (ع) کو خائن سمجھتے ہیں اور علی (ع) کو رسول اللہ (ص) سے بالاتر سمجھتے ہیں، (نعوذ باللہ من ذالک)

وہابی حجاج اور زائرین حرمین شریفین کے ساتھ رابطہ برقرار کر کے ان کو وہابیت کی تبلیغ کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کا ایڈریس بھی لیتے ہیں اور انہیں رابطے میں رہنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں مختلف رسائل اور جرائد نیز کتب مفت ارسال کرتے ہیں، جو نہایت قیمتی کاغذ اور عمدہ چھپائی کے بموجب قارئین کو اپنی جانب جذب کر لیتے ہیں۔ وہ انہیں ان کے ملکوں میں سرگرم وہابی نیٹ ورکس سے متعارف کراتے ہیں، تا کہ وہ ان افراد پر کام کریں اور انہیں وہابی نیٹ ورک میں فعال کر دیں۔

وہابیوں نے دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کروا رکھے ہیں، جنہیں ہر سال نئے سرے سے طبع کیا جاتا ہے اور یوں وہابی نیٹ ورک دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ رابطے کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور انہیں دینی تعلیمات وہابی نیٹ ورک سے حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے وہابی اپنے اسلاف سے مختلف ہیں، قدیم وہابی ہر قسم کی جدت کو بدعت سمجھتے تھے جبکہ موجودہ زمانے کے وہابی اسلاف ہی کے پرانے اور گھسے پھٹے افکار کو دنیا کے جدید ترین آلات اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔ وہ انٹرنیٹ میں بہت وسیع سطح پر سرگرم ہیں اور کئی بڑے سماجی نیٹ ورکس اور یاہو سمیت مختلف نیٹ انجنز کے حصص بھی خرید چکے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں معلوماتی ویب سائٹس بنا کر اپنے خشک و جامد وہابی افکار کے ابلاغ و تبلیغ میں مصروف ہیں۔

سعودی عرب کے کئی ریڈیو چینل، سیٹلائٹ ٹی وی چینل بیرونی ممالک کے لیے مختلف زبانوں میں مختلف پروگرام نشر کرتے ہیں، جن میں وہابیت کی ترویج کی جاتی ہے اور ایم بی سی فارسی سے غیر اخلاقی فلمیں فارسی تحریر کے ساتھ نشر کی جاتی ہیں اور یوں وہ مغربی ثقافتی یلغار میں مغربی ایجنسیوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہابیت کا اصل مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کو انحراف سے دوچار کرنا ہے، ورنہ اسلام کی ترویج کا دعوی کرنے والے غیر اخلاقی فلمیں کیونکر نشر کر سکتے ہیں ؟!

وہابی کئی ملکوں کے اخبارات و جرائد میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور بڑی بڑی رقوم خرچ کر کے مختلف ممالک میں مختلف اخبارات پر مسلط ہیں، جو اپنی مقامی زبانوں میں وہابی افکار کی ترویج کرنے پر مامور و مجبور ہیں۔ تیل کی دولت کے بدولت سعودی حکام اکثر اسلامی ملکوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ان ملکوں میں بہت سی تبدیلیوں اور اندرونی مسائل کا سرچشمہ آل سعود کی حکومت ہے، جس کو وہابی اسلام کی دینی پشت پناہی حاصل ہے۔

حتی مغربی ممالک میں بے شمار اخبارات و جرائد آل سعود کے توسط سے شائع ہوتے ہیں اور وہاں بھی وہابیت کی ترویج کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ اخبارات بہت پرانے اور جانے پہچانے ہیں اور پوری دنیا میں ان کے قارئین پائے جاتے ہیں، جن میں " الشرق الاوسط " اور " الحیاة " نامی رسالے خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور یہ دونوں رسالے برطانوی دار الحکومت لندن سے شائع ہوتے ہیں۔

آخر میں ایک مغربی مورخ کا بیان:

رابرٹ لیسی اپنی کتاب "سرزمین سلاطین" میں لکھتا ہے: وہ باپ بیٹا اپنے آپ کو عنیزہ نامی قبیلے کی اولاد سمجھتے تھے اور وہ درعیہ کے نواح میں زراعت کی نیت سے صحرا کو چھوڑ گئے تھے۔ دس نسلیں بعد ان ہی کے اخلاف میں سے ایک، جس کا نام سعود تھا، اس کا بیٹا محمد تھا، جس نے سن 1744 ہجری میں محمد ابن عبد الوہاب کو پناہ دی۔ سعود کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں لیکن اس کا بیٹا وہابیت سے متصل ہوا اور ابن سعود کے نام سے مشہور ہوا اور یہی اس خاندان کا خاندانی نام ہوا۔ کیونکہ ابن سعود کے زمانے میں اس خاندان کو سن 1902 میں ریاض کی فتح کے بعد وہابیت کے سائے میں نام و نمود ملا۔

رابرت لیسی، سرزمین سلاطین، ترجمه فیروزه خلعت بری ، ج1، ص 86

نجد میں ابن سعود کی تلوار نے وہابی نظریات کو نافذ کیا اور محمد ابن عبد الوہاب کی قوت میں اضافہ ہوا۔ اور حالت یہ تھی کہ وہ جس شہر اور قریے پر حملہ کرتے، وہاں کے اموال کو لوٹ لیتے تھے۔

رابرت لیسی، سرزمین سلاطین، ترجمه فیروزه خلعت بری ، ج1، ص 86

محمد ابن عبد الوہاب ابتداء میں عیینہ میں آیا، جہاں کی رئیس کی بہن سے اس کا نکاح کرایا گیا اور اس نے اپنے عقائد ظاہر کیے لیکن عوام نے امیر کے داماد کو وہاں سے نکال باہر کیا اور وہ درعیہ پہنچا اور امیر محمد ابن سعود سے ملاقات کی اور کچھ لوگوں کی وساطت سے دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کی حمایت کریں گے اور دونوں نے ایک دوسرے کو نجد میں فتوحات کی خوشخبری سنائی، کیونکہ پس پردہ عیار انگریزوں کی پشت پناہی سے دونوں مطمئن تھے۔

قزوینی ، سید محمد حسن ، فرقه وهابی، ص30.

وہابیت کی پیدائش، اس کے اہداف و مقاصد اور نظریات:

دنیا کے تمام مسلمان اور غیر مسلمان اس بات کے گواہ ہیں کہ کچھ سالوں سے امریکہ اور صہیونیت کے زیر سایہ تربیت یافتہ وہابی نامی فرقہ مسلمانوں  خاص طور پر شیعوں کا قتل عام کر رہا ہے اور مظلوم اور نہتے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں مصروف عمل ہے جبکہ انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والی عالمی تنظیموں کے کانوں میں جوں تک بھی نہیں رینگ رہی ہے اور وہ خاموشی سے تماشائی بنی ہوئی ہیں اور عالمی استکبار جو ان ظالموں کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے کے سامنے ان کی بولتی بند ہے !

یہ فرقہ جو محمد ابن عبد الوہاب کے ذریعے معرض وجود میں آیا کیسے پیدا ہوا ؟ اس کو وجود میں لانے کے اہداف و مقاصد کیا تھے؟ اور ان کے نظریات اور افکار کیا ہیں ؟

درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

1- فرقہ وہابیت جو جزیرۃ العرب میں محمد ابن عبد الوہاب تمیمی نجدی کے ذریعے بارہویں صدی ہجری میں معرض وجود میں آیا ایک گمراہ، منحرف اور اسلامی تعلیمات سے دور فرقہ تھا کہ جس نے اب تک عالم اسلام کے اندر سوائے فتنہ پروری اور قتل و غارت کے کچھ نہیں کیا۔

2- خالص توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی کرنے والا یہ فرقہ ضالہ عالمی استکبار اور استعمار کے ساتھ ساز باز کر کے اسلامی عقائد میں تحریف اور اسلامی آثار کو مٹا کر، دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنا چاہتا ہے۔

3- امریکہ اور برطانیہ نے مسلمانوں کے اندر یہ فرقہ وجود میں لا کر مسلمانوں کو پاش پاش کرنے کے لیے اپنا آلہ کار بنایا اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو گہرا صدمہ پہنچایا۔

4- اس فرقہ نے سر زمین وحی پر اپنا قبضہ جما کر ایک طرف تو خالص توحید کا دعوی کیا اور دوسری طرف کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کر کے اسلامی سرمایے کو ان تک منتقل کر دیا ہے۔

5- فرقہ وہابیت نے وجود میں آتے ہی مذہب تشیع کے ساتھ دشمنی کا قد علم کر دیا تھا بلکہ یہ فرقہ در حقیقت مذہب تشیع کے ہی خلاف وجود میں لایا گیا تھا لیکن چودہویں صدی ہجری کے بعد شیعوں کی نسبت اس فرقے کی تشدد آمیز کاروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور شیعت کے خلاف تبلیغ زور پکڑ گئی یہاں تک کہ دقیق رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں جو وہابیت کا مرکز ہے، اس وقت ایک شب و روز کے اندر سینکڑوں مقالے، کتابیں اور میگزین شیعوں کے خلاف چھپتے ہیں، بڑے پیمانے پر کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، جن میں مختلف طرح کے مغالطوں سے شیعوں کو کافر ٹھہرایا جاتا ہے اور کئی ایسے تبلیغی سنٹر اور ایجنسیاں قائم کی گئی ہیں، جن کا مقصد صرف شیعوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنا اور سازشیں رچانا ہے۔

محمد ابن عبد الوہاب کون تھا ؟

جزیرۃ العرب (سعودی عرب) میں بارہویں صدی ہجری میں وہابی نامی ایک فرقے نے ظہور کیا، جس کا بانی شیخ محمد ابن عبد الوہاب ابن سلیمان تھا کہ جو 1115 ہجری میں شہر عُیَینہ میں پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپنے سے ہی تفسیری، حدیثی اور کلامی کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتا تھا۔

الأمين العاملى؛ كشف الإرتياب عن [فی] أتباع محمد بن عبد الوهاب: ص 100

دحلان، احمد بن زينى؛ الدرر السنيّة فى الرد على الوهابية: ص 42

الآلوسى، محمود شكرى؛ تاريخ نجد: ص 111

الزركلى، خير الدين؛ الأعلام، ج 6 ص 257

ابن غنام؛ روضة الأفكار و الافهام لمُرتاد حال الإمام و تعداد غزوات الإسلام، ج 1 ص 25

ابن بِشر، عثمان؛ عنوان المجد فى تاريخ نجد ج 1 ص 138 بنقل از عقيدة الشيخ محمد بن عبد الوهاب السلفية: ص 76

اس نے فقہ حنبلی کو اپنے باپ کے پاس پڑھا جو اس وقت علمائے حنبل میں سے تھا اور اس شہر کا قاضی تھا۔ شیخ محمد ابن عبد الوہاب نے مزید علم حاصل کرنے اور علمی معلومات اکٹھا کرنے نیز لوگوں کے عقائد و افکار سے آشنا ہونے کے لیے مخلتف شہروں جیسے حریملا، مکہ، مدینہ، بصرہ اور احساء کا سفر کیا۔ اس کے ان تمام شہروں کے سفر 1139 ہجری قمری کے بعد ہی شروع ہوئے۔ ان شہروں کے سفر کے دوران محمد ابن عبد الوہاب نے لوگوں کے بعض عقائد و افکار کو مورد تردید قرار دیا اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران مسلمانوں کے عبادتی اعمال، قبور کی زیارت، اولیاء سے توسل، شفاعت وغیرہ جیسے مسائل پر نکتہ چینی شروع کی کہ جو خود اس کے والد عبد الوہاب اور مکہ اور مدینہ کے دیگر سنی علماء کے غصے کا باعث بنی۔

اس نے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ مسلمانوں مخصوصا شیعوں پر کفر کے فتوے لگانا شروع کیے اور اعلان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کی زیارت اور آنحضرت سمیت تمام انبیاء اور اولیائے الہی سے توسل کرنا شرک اور حرام ہے!

اس کے باپ نے اس سے کہا کہ اس طرح کی انحرافی باتیں نہ کرے۔

دحلان، احمد بن زينى؛ الفتوحات الإسلامية، ج 2 ص 357

العقّاد، عباس محمود؛ الإسلام فى القرن العشرين، ص 126

اس کا باپ اور بھائی، محمد ابن عبد الوہاب کے تفکر کے ساتھ علمی مبارزے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، اس کے بھائی نے دو کتابیں اس کے افکار کی رد میں لکھیں ایک  " الصواعق الإلهية فى الرّد على الوهابية " اور دوسری " فَصل الخطاب فى الرّد على محمد ابن عبد الوهاب "،

محمد ابن عبد الوہاب اور اس کے بھائی اور باپ کے درمیان نظریاتی اختلاف صرف کتابوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کی عملی زندگی اور عبادی امور جیسے مناسک حج، قبور کی زیارت، توسل اور شفاعت وغیرہ میں بھی سرایت کر گیا اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے درمیان بھی پھیل گیا۔ لوگ ابن عبد الوہاب کی باتوں سے سخت ناراض ہوتے تھے اور علماء اور بزرگان مخصوصا ان کے شاگردوں کے والدین عبد الوہاب کے پاس اس کی شکایت کرتے تھے۔ عبد الوہاب اپنے بیٹے کو منع کیا کرتے تھے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ آخر کار اس کا باپ سن 1153 ہجری میں فوت ہو گیا۔

الآلوسى، محمود شكرى؛ تاريخ نجد، ص 111

العُثيمين، عبد الله؛ الشيخ محمد بن عبد الوهاب حياته و فكره ص 46

باپ کے انتقال کے بعد شیخ محمد ابن عبد الوہاب کو اپنے افکار پھیلانے اور اس کی ترویج کرنے کا بہترین موقع مل گیا، اس نے اپنے کچھ مرید تیار کر لیے جو اس کی انحرافی باتوں کی تبلیغ کرتے جبکہ کچھ لوگ اس کی مخالفت میں احتجاج بھی کرتے اور اس کے قتل کا منصوبہ بھی بناتے تھے، یہاں تک کہ 1145 ہجری میں اس نے رسمی طور پر علی الاعلان اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا اور ایک نئے فرقے ‘ وہابیت ’ کی بنیاد ڈال دی۔

أمين، احمد؛ زعماء الإصلاح فى العصر الحديث، ص 10

کہتے ہیں کہ محمد ابن عبد الوہاب نے اپنے حامیوں کو ’ اھل توحید ‘، ’ سلفیت ‘ اور ’ موحدین ‘ ناموں کے ذریعے دعوت دینا شروع کی اور وہابیت نام کے سلسلے میں کہ یہ نام کب وجود میں آیا اور اس کی وجہ کیا تھی کوئی معقول دلیل نظر نہیں آئی۔

صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب کے افکار پھیلنے اور خاص طور پر حاکم نجد محمد ابن سعود کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے نیز مکہ و مدینہ میں ان افکار کی حاکمیت کے بعد مخالفین نے اس گروہ کو اس نام سے پکارنا شروع کر دیا۔

فرید وجدی لکھتے ہیں کہ اس بات کی وجہ کہ اس فرقہ کو خود محمد ابن عبد الوہاب کی طرف نسبت نہیں دی یعنی اسے محمدیہ نہ کہا، یہ ہے کہ کہیں بعد میں اس انحرافی فرقے اور دین محمد (ص) میں اشتباہ نہ ہو جائے اور اس نام سے سوء استفادہ نہ ہونے لگے۔

دايرة المعارف القرن العشرين ج 10  ص871

آيين وهابيت، ص 25

شناخت عربستان، ص 118

قابل ذکر ہے کہ  نجد اور حجاز کے بعض ان علاقوں کا بھی محمد ابن عبد الوہاب نے دورہ کیا جن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کئی افراد گزرے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب ان جھوٹے نبیوں کی داستانوں کا مطالعہ کرنے کا بڑا شوقین تھا۔ بنوت کے جھوٹے دعویداروں میں سے بعض لوگ یہ تھے:

1- مسیلمہ وائلی یا مسیلمہ کذّاب عُیینہ کے علاقے میں پیدا ہوا۔ اسلام کے ظہور کے بعد یہ علاقہ مسلمانوں کے اختیار میں آ گیا مسیلمہ کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر کیا گیا لیکن وہ پیغمبر کے آگے تسلیم نہیں ہوا اور پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں ایک خط لکھ کر نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔

اس نے خط میں یوں لکھا: مسیلمہ سے پیغمبر خدا، محمد رسول اللہ کی طرف سلام علیکم، میں بھی نبوت میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ لہذا آدھی زمین میری ہے اور آدھی قریش کی ہے اگرچہ قریش ظالم لوگ ہیں۔

رسول خدا (ص) نے اس کے جواب میں لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ سے مسیلمہ کذاب کی طرف سلام اس پر جو ہدایت کا پیرو ہے اما بعد، زمین خدا کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور عاقبت صاحبان تقویٰ کی ہے۔

ابن هشام؛ السيرة النبوية 3: 74

ابوبکر کے دور میں لشکر اسلام نے بنی حنیفہ، جہاں مسیلمہ کذاب رہتا تھا، کے علاقے پر حملہ کیا اور سَن 12 ہجری کو اسے ہلاک کر دیا۔

2- سحاح بنت حارث تمیمی نامی خاتون نے بھی رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اس کے قبیلہ والوں میں سے بعض لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اور مسیلمہ کذاب اور سحاح کے درمیان ہونے والی ایک جنگ کے دوران سحاح نے مسیلمہ کذاب سے شادی کر لی۔ مسیلمہ کی ہلاکت کے بعد وہ مصر بھاگ گئی اور معاویہ کے دور حکومت میں مر گئی۔

كحالة، عمر؛ أعلام النساء، ج 2 ص 177

3- اسعد ذو الحنار تاریخ اسلام کا پہلا مرتد ہے جس نے مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور رسول اسلام (ص) کے حکم سے سن 11 ہجری کو اس کا قتل کر دیا گیا۔

ابن الأثير، عز الدين؛ الكامل فى التاريخ، ج 2 ص 336

الزركلى، خير الدين؛ الأعلام، ج 5 ص 234

4- طلیحہ ابن خویلد جو عرب کے بہادر لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا، ہجرت کے نویں سال کئی افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن کچھ عرصے کے بعد مرتد ہو گیا اور خود نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور اس کے بعد اس نے اپنے بہت سارے مرید جمع کر لیے اور مدینہ پر چڑھائی کر ماری، لیکن مسلمانوں نے ان کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور آخر کار طلیحہ، نہاوند میں قتل ہو گیا۔

الدينورى، ابو حنيفه؛ الأخبار الطِوال، ص 119

محمد ابن عبد الوہاب شہر حریملا کے لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے عُیینہ کوچ کر گیا۔ اس شہر کے حاکم عثمان ابن حمد معمر نے اسے اپنے ساتھ حکومت میں شراکت کے لیے ابھارا، اس نے عثمان ابن حمد معمر کی دعوت قبول کر کے حکومت میں قدم جما لیے اور حکومت میں داخل ہونے کے بعد پہلا قدم یہ اٹھایا کہ عمر کے بھائی شہید زید ابن الخطاب کی قبر کو مسمار کیا۔

احساء اور قطیف کے حاکم سلیمان ابن محمد ابن عزیز کو خبر ملی انہوں نے شہر عیینہ کے حاکم کی طرف خط لکھ کر محمد ابن عبد الوہاب کے قتل کا حکم دے دیا، لیکن عثمان اس کو قتل نہیں کر سکتا تھا چونکہ اس نے خود اس کو حکومت میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی، اس وجہ سے اس نے ابن عبد الوہاب کو شہر سے نکال دیا۔ آخر کار محمد ابن عبد الوہاب سن 1160 ہجری میں شہر درعیہ میں اس جگہ منتقل ہوا، جہاں مسیلمہ کذّاب رہتا تھا، وہاں اس نے محمد ابن سعود کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیے اور آپس میں عہد و پیمان باندھے۔ ان دو افراد کا اتحاد اس بات کا باعث بنا کہ محمد ابن عبد الوہاب کے انحرافی نظریات اسلامی ممالک میں پھیلیں اور ایک نئے فرقے ’’وہابیت‘‘ کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنیں۔

محمد ابن عبد الوہاب نے 1143 ہجری میں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اپنے فرقے کی ترویج کی اور لوگوں کو خالص توحید کے نام پر، اپنے انحرافی افکار کی طرف دعوت دینا شروع کی اور اس نے اعلان کیا کہ وہ حقیقی اسلام کی تعلیم دینا چاہتا ہے، جو اسلام کے اسلاف و اکابر شخصیات کا آئین ہے۔

سَلَف کے لغت میں معنی ’ پہلے ‘ کے ہیں اور اس کے مقابلے میں خلف آتا ہے، جس کے معنی ’ بعد ‘ اور جانشین کے ہیں۔ اصطلاح میں سلف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے صدر اسلام میں اسلامی احکام پر عمل کیا اور قرآن کریم کو سمجھا۔ اسی وجہ سے انہیں ’ سلف صالح ‘ کہا جاتا ہے اور صدر اسلام اور قرآن کریم کی طرف پلٹنے والی تحریک کو تحریک سلفیت کہتے ہیں۔

نهضت بيداری گرى در جهان اسلام، ص 268

محمد ابن عبد الوہاب کے اساتذہ:

محمد ابن عبد الوہاب نجد میں تقریبا 1120 ہجری سے 1139 ہجری تک اپنے باپ کے پاس رہا اور احمد بن حنبل کے مذہب کے مطابق تاریخ، حدیث اور فقہ کے مختلف دروس ان سے حاصل کیے اور کہا جاتا ہے کہ 1135 ہجری سے 1149 ہجری تک سفر حج کے دوران وہاں کے بعض علماء جیسے شیخ عبد اللہ ابن ابراہیم اور ابراہیم ابن عبد اللہ وغیرہ سے بھی علم حاصل کیا جیسا کہ اس کے بعض مکتوبات سے یہ چیز معلوم ہوتی ہے۔ شہر بصرہ میں بھی اس نے شیخ محمد المجموعی سے کچھ مسائل کے متعلق آگاہی حاصل کی تھی۔

ابن بشر، عثمان؛ عنوان المجد فى تاريخ نجد، ج 1 ص 7 بنقل از عقيدة الشيخ محمد بن عبد الوهاب السلفيه، ص 105

سفر:

محمد ابن عبد الوہاب نے جو سفر کیے ان کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے جیسا کہ اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کیا اس نے مکہ مدینہ اور بصرہ کے علاوہ دوسروں شہروں کے سفر بھی کیے یا نہیں ؟

چنانچہ بعض مورخین کے مطابق محمد ابن عبد الوہاب نے جزیرہ عرب سے باہر بھی سفر کیا ہے۔ ذیل مورخین کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دو گروہوں کے نظریات بیان کرتے ہیں کہ جو اس کے بیرون ملک سفر کے قائل ہیں اور جو منکر ہیں:

الف: قائلین:

محمد تقی سپہر لکھتے ہیں: محمد ابن عبد الوہاب نے عراق سے ایران کا سفر کیا اور اصفہان میں وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا۔ وہ بہت ساری چیزوں کو بدعت جانتا تھا، منجملہ ائمہ اور انبیاء علیہم السلام کی قبور پر مقبرے تعمیر کرنا اور ان مقبروں کو سونے چاندی سے آراستہ کرنا اور متبرک مقامات پر قیمتی چیزیں رکھنا، روضوں کا طواف کرنا اور اس طرح کے اعمال انجام دینے والوں کو بت پرست سمجھتا تھا۔

سپهر، محمد تقى؛ ناسخ التواريخ، جلد قاجاريه (1)، ص 118

فقيهى، على اصغر؛ وهابيان، ص 76

احمد امین مصری لکھتے ہیں: شیخ محمد ابن عبد الوہاب نے بہت سارے اسلامی ممالک کا سفر کیا تقریبا چار سال بصرہ میں رہا، پانچ سال بغداد میں، ایک سال کردستان میں، دو سال ہمدان اور اس کے بعد اصفہان میں چلا گیا۔ اصفہان میں اس نے فلسفہ اشراق اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اصفہان سے قم گیا اور وہاں سے اپنے شہر میں واپس چلا گیا۔ اس نے اپنے شہر میں واپسی کے بعد آٹھ مہینے تک گوشہ نشینی اختیار کی، اس کے بعد لوگوں کو ایک نئے دین کی طرف دعوت دینا شروع کی۔

امين، احمد؛ زعماء الاصلاح فى العصر الحديث، ص 10، بنقل از وهابیان، ص 120

مسٹر ہمفری کا کہنا ہے: بصرہ میں، میں ایک آدمی سے آشنا ہوا کہ جو ترکی، فارسی اور عربی زبان جانتا تھا اور دینی طالبعلموں کا لباس پہنے ہوئے تھا۔ اس کا نام محمد ابن عبد الوہاب تھا، وہ لمبے قد والا جوان اور تند خو تھا اور عثمانی حکومت پر تنقید کیا کرتا تھا۔ محمد ابن عبد الوہاب نے ایران کے شہر اصفہان کا سفر کیا تھا۔

دست هاى ناپيدا (مسٹر ہمفری کی کتاب کا فارسی ترجمہ)، ترجمه احسان قرنى، ص 32

ايران و جهان اسلام، پژوهش هايى تاريخى پيرامون چهره ها، انديشه ها و جنبش ها، عبدالهادى حائرى،

ایرانی اور اسلامی دانشنامے میں آیا ہے کہ: محمد ابن عبد الوہاب نے بہت سارے اسلامی ممالک جیسے بصرہ، بغداد، کردستان، ہمدان، دمشق اور قاہرہ کا سفر کیا تھا۔

احسان يار شاطر، دانش نامه ايران و اسلام شماره 5

ایک دوسرے رائٹر مرجلیو کا کہنا ہے کہ: محمد ابن عبد الوہاب نادر شاہ کی تاج پوشی کے سال اصفہان گیا اور چار سال تک اس شہر میں اس نے فلسفہ مشاء، اشراق اور تصوف کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اس نے قم کا سفر بھی کیا، جہاں اس نے مذہب حنبلی کے حامی ہونے کا اعلان کیا۔

عبد اللطیف شوشتری نے کہا ہے کہ: اس کے بعد اس نے اپنے وطن میں کچھ عربی علوم اور فقہ حنبلی کا علم حاصل کیا پھر اصفہان کا سفر کیا او وہاں بزرگ علماء اور حکماء سے حکمت اور فلسفہ کے مسائل سیکھے، اس کے بعد اپنے وطن واپس پلٹ گیا۔ ایک دو سال کے بعد یعنی سن 1153 ہجری میں اس نے ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی۔

شوشترى، عبد اللطيف؛ تُحفة العالم و ذِيل التحفة(سفر نامه و خاطرات)، ص 477

دنبلى، عبد الرزاق؛ مآثر سلطانيّة، ص 82

ابو طالب اصفہانی (محمد ابن عبد الوہاب کا ہمعصر) کہتا ہے کہ: محمد ابن عبد الوہاب نے اصفہان اور عراق کے اکثر شہروں، ایران اور حتی افغانستان کے شہر غزنین کا سفر بھی کیا تھا۔

اصفهانى، ميرزا ابو طالب، مسير طالبى، ص 409

مدرسی طباطبائی کا بھی کہنا ہے کہ شیخ محمد ابن عبد الوہاب نے اپنے وطن سے بصرہ، اس کے بعد بغداد اور پھر عراق کے شہر کردستان کا سفر کیا، کردستان سے ہمدان گیا اور دو سال وہاں مقیم رہا اور وہاں پر اس نے شرح تجرید، شرح مواقف میر سید شریف اور حکمۃ العین کو میرزا خان اصفہانی کے پاس پڑھا۔ اس کے بعد اصفہان سے شہر رے اور وہاں سے قم گیا، قم میں ایک مہینہ رہنے کے بعد بلاد عثمانی، شام اور مصر کا سفر کیا اور مصر سے دوبارہ جزیرۃ العرب واپس لوٹ گیا۔

فقيهى، على اصغر؛ وهابيان، ص 120

ب: مخالفین:

مذکورہ اقوال کے مقابلے میں خود وہابی مورخین کے اقوال بھی پائے جاتے ہیں کہ جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ محمد ابن عبد الوہاب نے جزیرۃ العرب سے دوسرے ملکوں منجملہ ایران کا سفر کیا اور اس سفر کے دوران اس نے بہت ساری معلومات کا ذخیرہ جمع کیا اور اہم مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔

مثال کے طور پر ایک مورخ نے لکھا ہے کہ :

«امّا ما تجاوز الحدّ من أنه سافر الى الشام كما ذكره خير الدين الزركلى فى «الأعلام» و الى فارس و ايران و قم و اصفهان كما يذكره بعض المستشرقين و نحوهم فى مؤلفاتهم المعروفة بالأخطاء و مجانبة الحقيقة كمرجليوث فى دايرة المعارف الاسلامية و بِرائجس و هيوجز و زُويمر و بالغريف و كتاب لُمعَ الشهاب فى سيرة محمد بن عبد الوهاب و من تأثر به فهو امرٌ غير مقبول لانّ حفيد الشيخ ابن حسن و ابنه عبد اللطيف و ابن بِشر نصّوا على َانّ الشيخ محمد بن عبد الوهاب لم يتمّكن من السفر الى الشام كما قدمنا. و اما ما زُعم ان الشيخ رحل الى فارس و ايران و قم و اصفهان فاِنّ عبد الحليم الجُندى يذكر فى كتابه الإمام محمد بن عبد الوهاب او انتصار المنهج السلفى انه ناقش فى هذه الواقعة الشيخ عبد العزيز بن باز فى الرياض فانكر ما أورده المؤلّفون من رحلة الشيخ الى كردستان و ايران و قرّر انه تلقى هذا عن أشياخه و منهم حفدة الشيخ و بخاصّة شيخه محمد بن ابراهيم،

جو یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ شیخ نے شام، ایران، قم، اصفہان کا سفر کیا، جیسے خیر الدین زرکلی نے کتاب اعلام اور بعض مستشرقین نے اپنی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کی اس بات کا غلط ہونا معروف ہے چونکہ یہ حقیقت سے دور ہے، جیسے مرجلیوث نے کتاب دائرۃ المعارف الاسلامیہ اور برائجس، ہیوجز، زویمر اور بالغریف نیز کتاب لمع الشھاب فی سیرۃ محمد ابن عبد الوہاب نے واضح طور پر اس بات کو قبول نہیں کیا ہے، اس لیے کہ شیخ عبد الوہاب کے پوتے ابن حسن اور اس کے بیٹے عبد اللطیف اور ابن بشر نے صراحت سے لکھا ہے کہ شیخ محمد ابن عبد الوہاب نے شام کا سفر نہیں کیا چنانچہ عبد الحلیم الجندی نے کتاب الامام محمد ابن عبد الوہاب او انتصار المنھج السلفی میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے،

نیز شیخ عبد العزیز ابن باز نے بھی کتاب ریاض میں اس بات کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ شیخ نے کردستان اور ایران کا سفر نہیں کیا اور انہوں نے یہ بات اپنے اساتید کے عقیدے کے مطابق اور شیخ کے پوتوں کی تائید سے لکھی ہے، خاص طور پر ان کے استاد محمد ابن ابراہیم کا یہی عقیدہ تھا کہ عبد الوہاب نے کسی ملک کا سفر نہیں کیا۔

صالح بن عبداللّه، عقيدة الشيخ محمد بن عبد الوهاب السلفية، ص 108 و 109 به نقل از محمد بن عبد الوهاب او انتصار المنهج السلفى، ص 92

رويشد، عبد الله؛ الإمام الشيخ محمد بن عبد الوهاب فى التاريخ، ج 1 ص 38 به نقل از مقدمه كتاب «المسائل الجاهلية...» ج 1 ص 25

وہابی مورخین کے نزدیک محمد ابن عبد الوہاب کے کہیں سفر نہ کرنے پر اہم ترین دلیل کتاب المع الشہاب فی سیرۃ محمد عبد الوہاب ہے جبکہ دوسروں نے بھی شیخ کے سفر کی تائید میں اپنی دلیلوں کو اسی کتاب سے لیا ہے، جیسے احمد امین مصری شیخ خزعل اور منیر العجلانی نے اسی کتاب سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شیخ محمد عبد الوہاب نے ایران اور دوسرے ممالک کا سفر کیا ہے۔ واللہ اعلم

أمين، احمد؛ زعماء الاصلاح فى العصر الحديث، ص 10

خزعل، حسين؛ تاريخ الجزيرة العربية فى عصر الشيخ محمد بن عبد الوهاب، ج 1 ص 56

العِجلانى، منير؛ تاريخ البلاد العربية السعوديه، ص 195

صالح بن عبد الله؛ عقيدة الشيخ محمد بن عبد الوهاب السلفية، ص 109

کیا سلفیت اور وہابیت کی حقیقت ایک ہے ؟

بعض وہمی روش کی بناء پر کہتے ہیں کہ سلفيت در اصل وہابيت ہی ہے اور ہم اس مطلب کو چينلوں ، تقريروں اور تحريروں ميں مشاہدہ کر رہے ہيں کہ وہ لوگ سلفيت اور وہابيت کو ايک ہی چيز سمجھتے ہيں، ايک جملہ میں کہا جا سکتا ہے کہ سلفيت قرآن و سنت کو سمجھنے کی ايک روش ہے، جیسے اخباریت اور اصولیت ، اسی طرح یہ بھی قرآن و سنت کو سمجھنے کا ايک طريقہ ہے،

ليکن وہابيت منہج نہيں ہے بلکہ ايک غلط طرز فکر ہے جس کی بنياد ابن تيميہ نے رکھی اور محمد ابن عبد الوہاب نے اس کی ترويج کی ہے۔ بسا اوقات وہابيت ہر اس شخص پر کفر و گمراہی کا فتویٰ لگاتی ہے کہ جو اس مکتب کو قبول نہیں کرتا،

اگر وہابيت وہی سلفيت ہوتی اور سلفيت بھی يہی وہابيت ہوتی تو ان سب کو ايک اصول پر متفق ہونا چاہیے تھا، درحالیکہ وہابيت بہت سارے سلفيوں پر کفر اور گمراہی و ضلالت کا حکم لگاتی ہے اور اس مطلب پر شاہد يہ ہے کہ اشاعرہ معتزلہ کے مقابلے ميں ہيں اور اہل سنت و الجماعت کے سلَف ميں سے ہيں ليکن وہابی کہتے ہيں کہ يہ گمراہ ہيں اور ان کا اہل سنت کے ساتھ کوئی واسطہ نہيں ہے، جبکہ اشاعرہ کہتے ہيں کہ ہم اہل سنت و الجماعت ہيں اور سلف (گزشتہ افراد) کی روش پر يقين رکھتے ہيں۔

یہاں بعض منابع کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے :

پہلا مورد: علامہ البانی اپنی کتاب الفتاوی المنھجيۃ اسئلۃ حول السلفيۃ صفحہ 41 ميں کہتا ہے کہ:

ضروری ہے کہ قرآن و سنّت کو سلف صالح يعنی تابعی اور تبع تابعی، کی روش کے مطابق سمجھا جائے، یعنی قرآن و سنت کا وہ فہم جو پہلی تين صديوں سے ہم تک پہنچا ، ہم پر حجت ہے، یہ وہی فکر ہے کہ جو مکتبِ اہل بيت (ع) کے پيروکاروں ميں پائی جاتی ہے کہ پہلی تين يا چار صديوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ (ع) کے اصحاب ، پيروکاروں ، علماء اور مجتہدين کا فہم ہم پر حجت ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ہاں اجماع حجّت قرار پايا، شہيد صدر کے نزدیک بھی چوتھی صدی کے اواخر تک کا اجماع معتبر ہے اور اس کے بعد کے اجماع اور شہرت کی کوئی علمی حيثيت نہيں ہے۔

اس کے بعد وہ تکفيريوں کے بارے ميں گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس دور کے خوارج پر سخت حملہ کرتا ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں پر کفر کا حکم لگايا اور ان کو قتل کيا۔ اسی وجہ سے البانی کو سعودی عرب سے نکال ديا گيا اور اسے کہا گيا کہ تمہارا وہابيت سے کوئی تعلق نہيں ہے اور واقعا وہ وہابی نہيں تھا ، وہ محمد ابن عبد الوھاب کا معتقد نہيں ہے در حالانکہ اس کی رگ رگ سلفی ہے ليکن جيسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ اہل علم سلفی ہے اور حتی اس وقت سعودی عرب ميں بھی وہابيوں کی ايک بہت بڑی تعداد علمی سلفيت کی دعويدار ہے نہ کہ تکفيری سلفيت کی جس کا بانی ابن تيميہ تھا۔

وہ مزید کہتا ہے کہ وہ آيت کی تفسير کو کوئی اہميت نہيں ديتا خواہ وہ دسيوں صحابہ سے نقل ہوئی ہو، يعنی سلف کی روش کو قبول کرتا ہے يا نہيں ؟ نہيں ! اس کے بقول قرآن و سنت محور ہے ! اب صحابہ نے قرآن و سنت سے کيا سمجھا، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہيں، ان کا فہم اور اجتہاد ہمارے ليے حجت نہيں ہے۔

دوسرا مورد: عبد اللہ ابن يوسف الجديع اپنی کتاب العقيدۃ السلفيۃ في كلام رب البريۃ، کے صفحہ 36 پر کہتا ہے:

عقائد اور احکام ميں سلف صحابہ کا طريقہ، سب سے بہترين طريقہ ہے اور بلاشبہہ يہی درميانی راستہ، زيادہ عالمانہ و حکيمانہ اور زيادہ صحيح ہے اور اسی اساس پر يہ نظريہ وجود ميں آيا کہ جو بھی اس روش سے خارج ہو گا اس کا لازمہ ايک نئی فقہ اور نيا عقيدہ ايجاد کرنا ہے۔

وہابی کون ہيں ؟

وہابيت منہج نہيں ہے بلکہ ايک فکر ہے کہ جس کا ايک خاص اعتقادی اور فقہی نظام ہے، منہج اور فکری مکتب کے درميان بہت زيادہ فرق ہے۔ وہابيت بلاشبہہ ابن تيميہ کا فکری مکتب ہے نہ کہ محمد ابن عبد الوہاب کا، وہ تو صرف ابن تيميہ کے مبانی کا احياء کرنے والا تھا۔

علامہ عبد اللہ ابن محمد الغنيمان کہ جو سعودی عرب کے بڑے علماء ميں سے ہے ، اپنی کتاب السبائك الذہبيۃ بشرح العقيدۃ الواسطيۃ، میں کہتا ہے :

محمد ابن عبد الوہاب کو اس کام کی وجہ سے شيخ الاسلام کہا جاتا ہے، جو اس نے انجام دیا ہے (يعنی توحيد کی دعوت) حقيقت يہ ہے کہ شيخ محمد کی دعوت شيخ ابن تيميہ کی دعوت کا تسلسل تھا، چونکہ اس نے ابن تيميہ کی کتابوں سے استفادہ کيا تھا اور ان لوگوں نے اس (عبد الوہاب) کی کتابوں سے استفادہ کيا اور ابھی تک کر رہے ہيں یہاں تک کہ محمد حامد الفقی اور مصر کے ديگر علماء نے کہا:

ابھی تک ہم اہل توحيد اور اہل سنت کو ابن تيميہ سے محبت کے ذريعے پہچانتے ہيں اور انہيں دوسروں سے الگ کرتے ہيں ، پس جو بھی اس کے ساتھ بغض رکھتا تھا ، ہم نے جان ليا کہ وہ اہل توحيد اور اہل سنت ميں سے نہيں ہے اور جو بھی اس سے محبت کرتا تھا ، ہم نے جان ليا کہ وہ اہل توحيد اور اہل سنت ميں سے ہے۔

دوسرے لفظوں میں جس نے بھی ابن تيميہ سے محبت کی، بے شک اس نے رسول خدا (ص) سے محبت کی اور جس نے بھی آپ (ص) سے محبت کی بے شک اس نے خدا سے محبت کی ! وہی صحيح روايات جو امير المومنين علی (ع) کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں کہ:

مومن کے سوا کوئی آپ (ع) سے محبت نہيں کرتا اور منافق کے سوا کوئی آپ (ع) سے دشمنی نہيں کرتا،

آج وہ کہہ رہے ہيں کہ محور ابن تيميہ ہے اور اس سے محبت نہيں کرتا مگر موحد اور اس سے دشمنی نہيں کرتا مگر مشرک ! اس کا سلفی روش کے ساتھ کوئی تعلق نہيں ہے۔

عبد الكريم محمد التوجری اپنی کتاب غربۃ الاسلام جلد 1 ، صفحہ نمبر 216 پر کہتا ہے کہ: روئے زمين پر حقيقی اسلام کے پيروکار (يعنی ابن تيميہ کے پيروکار) کم اور مستضعف ہيں ، اکثر اسلامی ممالک ميں اہل شر و فساد کے درميان اجنبيوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہيں۔ اکثر اسلامی ممالک ايسے سمندر ميں زندگی بسر کر رہے ہيں کہ جو خدا کے ساتھ انواع و اقسام کے شرک سے بھرا پڑا ہے مثلا شام ، مصر ، مراکش ، عجمی ممالک ، ہند، بحرين ، قطيف اور ديگر دور دراز کی سرزمينوں پر نگاہ کریں۔

کتاب نقض عقائد الاشاعرۃ والماتريديۃ ميں خالد علی المرضی الغامدی صحفہ 7 پر کہتا ہے کہ : اس مذہب (اشاعرہ) کی اشاعت نے اکثر اسلامی ممالک کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا ہے بلکہ نوبت يہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اہل سنت کو سلفی ، اشاعرہ اور ماتريديہ ميں تقسيم کر ديا گيا ہے۔

پھر اسی کتاب کے صفحہ 12 پر کہتا ہے کہ: اور واضح ہے کہ اشاعرہ اور ماتريديہ گمراہ فرقوں ميں سے ہيں۔ ماتريديہ، اشاعرہ کی ايک شاخ ہے جو اشاعرہ کی نسبت معتزلہ سے زيادہ نزديک ہے، ورنہ ماتريديہ اشاعرہ سے ہٹ کر کوئی نئی چيز نہيں ہے ، مکتب اہل بيت (ع) کے اصولی علماء کی طرح جو اخباريوں کی نسبت عقلی بحث سے زيادہ نزديک ہيں۔

پس مختصر طور پر يہ کہا جا سکتا ہے کہ سلفی روش اور سلفيت ايک چيز ہے اور وہابيت جو ابن تيميہ کے پيروکار ہيں، ايک الگ چيز ہے۔

وہابیت کی پیدائش، اس کے اہداف و مقاصد اور نظریات:

تفسیر قرآن، اجتہاد، فلسفہ، عرفان اور نئی انسانی ایجادات کی مخالفت محمد ابن عبد الوہاب توحید خالص اور سلف صالح کے اسلام کی طرف بازگشت کے حوالے سے  اپنے افکار و نظریات میں عقل، فلسفے، اجتہاد، عرفانی مسائل سے تمسک کرنے اور قرآن اور سنت کی تفسیر بیان کرنے کے مخالف ہیں اور اس حدیث کا سہارا لیتے ہوئے کہ:

کلَّ بِدْعةٍ ضَلالةٌ و کلُّ ضَلالة فى النّارِ،

اس طرح کے تمام کاموں کو بدعت جانتے ہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کو جہاد اور واجب سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کے باعث وہابی، خشک اور بے وزن قسم کے افکار کے حامل ہو گئے ہیں اور دین کی بنیادی مباحث جیسے توحید، ایمان، اسلامی حکومت، توسل، شفاعت، خیرات و صدقات، اعیاد و عزاداری وغیرہ میں انحراف کا شکار ہو گئے ہیں۔

ان کی صحیح اور درست وضاحت بیان نہ کر سکے اور نتیجۃ انسان کی نئی ایجادات اور اختراعات جیسے ٹیلیفون، گاڑی، لائٹ، کیمرہ اور دیگر بے شمار نئے ابزار و آلات کی صحیح تفسیر بیان کرنے کی بجائے پہلی فرصت میں ان کا استعمال حرام قرار دے دیا اور ان کے ساتھ جنگ کرنے اٹھ کھڑے ہو گئے۔

جبکہ اسلام اور قرآن انسانی اختراعات کے مخالف نہیں بلکہ تمام انسانوں کو علم حاصل کرنے اور خدادادی ذخائر سے جائز استفادہ کرنے کی تشویق دلاتے ہیں، عقلی علوم فلسفہ و منطق، اور فقہ و اصول، عرفان اور تفسیر قرآن تمام انسانی افکار کی رشد و نمو کے لیے اور معنوی کمالات کے ارتقاء کے لیے اسلام کی نظر میں جائز بلکہ بسا اوقات لازمی ہیں۔

محمد ابن عبد الوہاب کہتا ہے کہ: ہم کسی بھی کتاب کو نابود نہیں کرتے لیکن وہ کتابیں جو لوگوں  کے عقائد میں شک و تردید پیدا کرنے کا باعث بنیں، جیسے علم منطق وغیرہ انہیں نابود کر دیتے ہیں۔

حافظ وہبہ نے لکھا ہے کہ:

وہابی تصویر بنانے کو حرام سمجھتے ہیں۔ علم فلسفہ و منطق کو حرام جانتے ہیں،

علمائے نجد کے درمیان جو لوگ ان علوم سے آشنائی رکھتے ہوں، بہت کم تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی معلومات زیادہ سے زیادہ پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت اور خلفائے راشدین کے حالات کی تک محدود ہوتی ہیں، انہیں اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر واقعات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے جزیرۃ العرب میں کسی نئی چیز کا انکشاف دکھائی نہیں دیتا۔

وہابیوں نے تمام نئی ایجادات کو جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں موجود نہیں تھیں، کو بدعت اور حرام سمجھتے تھے ! جیسے علم منطق، علم فلسفہ، علم سائنس، تمباکو کا استعمال، سائیکل سواری، (اس لیے کہ وہ سائیکل کو شیطان کا گھوڑا سمجھتے تھے کہ یہ شیطان کے پیروں اور جادو کی قوت سے چلتی ہے) اور دیگر نئی ایجادات جیسے ٹیلیفون، ٹیلیگراف، کیمرہ وغیرہ وغیرہ۔

ابن تيميہ کے بارے ميں اہل سنت علماء کی آراء اور اقوال:

بے شک وہابيت کا روحانی باپ ابن تيميہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے اسلامی تعليمات کا حليہ بگڑ گيا اور اس کی تعليمات کی وجہ سے عالم اسلام کو آج بھی خفت اٹھانا پڑ رہی ہے اور خونخواری اور درندگی کی نت نئی داستانيں رقم ہو رہی ہيں جو عالمی سطح پر اسلام اور امت کی بدنامی اور مقدسات اسلام کی اعلانيہ بےحرمتی کے اسباب فراہم ہو رہے ہيں۔

اہل سنت کے بزرگ علماء اس شخص (ابن تیمیہ) کے بارے ميں کيا کہتے ہيں ؟

ابن حجر ہيتمی ابن تيميہ کو ايسا بندہ سمجھتا ہے کہ جس کو خدا نے خوار ، ذليل ، گمراہ ، اندھا اور بہرا کر ديا ہے۔

الفتاوي الحديثة، ص 144

علامہ تقی الدين الحصنی ابن تيميہ کو ايسا انسان سمجھتے ہيں جس کے قلب ميں بيماری، انحراف اور فتنہ بسا ہوا ہے۔

دفع شبهة عن الرسول و الرسالة، ص 83

قاضی القضاۃ تاج الدين السُبکی ابن تيمیہ کو علماء کی نسبت ڈستی ہوئی زبان سمجھتے ہيں اور کہتے ہيں:

ابن تيميہ اپنے شاگردوں اور پيروکاروں کو جہنم کے گڑھے کے کنارے لے گيا ہے۔

طبقات الشافعية، ج 4 ص76 رقم759

مشہور مفسر آلوسی ابن تيميہ کو گمراہ و منحرف سمجھتا ہے اور اس کی انتہا پسنديوں اور شدت پسنديوں اور دوسروں کے خلاف دشنام طرازی کے حوالے سے ابن حجر ہيتمی کی رائے کو اختيار کرتے ہيں۔

روح المعاني، ج 1 ص 18 ، 19

حصنی الدمشقی نے کہا ہے کہ:

ابن تيميہ نے کہا ہے کہ جو شخص کسی مردہ يا نظروں سے اوجھل شخص سے استغاثہ کرے اور اس سے مدد مانگے وہ ظالم، گمراہ اور مشرک ہے !! اس کی اس بات سے انسان کا بدن کانپ جاتا ہے، يہ بات اس زنديق سے قبل کسی کی زبان سے بھی جاری نہيں ہوئی ہے۔

دفع الشبه عن رسول، ص 131

شيعہ اکابرين ميں سے علامہ يوسف ابن مطہر حلی نے ابن تيميہ کے بارے ميں کہا ہے کہ:

ابن حجر لسان الميزان ميں لکھتے ہيں:

ابن تيميہ نے علامہ حلی کی ايک کتاب کو رد کرنے کی نيت سے ايک کتاب لکھی اور جب علامہ نے اس کتاب کا مطالعہ کيا تو فرمايا:

اگر مجھے يقين ہوتا کہ ابن تيميہ ميری بات سمجھنے کی صلاحيت رکھتا ہے تو ميں اس کو جواب ديتا ليکن مجھے يقين ہے کہ وہ ميری بات نہيں سمجھ پائے گا۔

جو بھی ابن تيميہ کی کتاب "منہاج السنہ" کا مطالعہ کرے اور پھر اہل سنت کے علماء سے رجوع کرے تو وہ يقين حاصل کرتا ہے کہ ابن تيميہ کے کلام کا 80 تا 90 فيصد ايسا ہی ہے۔ اس نے بغير کسی علمی تحقیق و تجزيئے کے، بڑی تعداد ميں احاديث کو اہل علم کے اتفاق سے ضعيف قرار ديا ہے يا کہا ہے: بے شک کہ راوی نے جھوٹا بولا ہے۔

جب ہم سنی علماء کی کتابوں سے رجوع کرتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ انھوں نے ان ہی حديثوں کی بہت عمدہ انداز سے توثيق کی ہے اور ان کی توثيق ابن تيميہ کے قول سے متصادم ہے۔

صفات خدا کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ:

خداوند کی صفات کے بارے میں وہابی بالکل مجسِّمہ (جو لوگ خدا کے لیے جسم کے قائل ہیں) جیسا عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خداوند کے لیے اعضاء و جوارح کے قائل ہیں، جیسے ہاتھ، پیر، آنکھ یا چہرہ وغیرہ.... اس کے علاوہ اس کے لیے اٹھنے بیٹھنے، حرکت کرنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے، نیچے یا اوپر آنے، جانے کے بالکل اسی طرح قائل ہیں کہ جو ان الفاظ کے ظاہری معنی سے سمجھ میں آتا ہے !!

ھٰذہ السنیة، رسالۂ چہارم :عبد اللطیف،

اس بارے میں وہابی فرقہ ابن تیمیہ کا پیرو ہے اور یہ در حقیقت ' ' حشویہ  ' ' کا عقیدہ ہے کہ جو اہل حدیث ہیں اور ان کے پاس اسلامی عقائد اور فقہ و اصول کا کوئی خاص علم نہیں، اسی لیے ان لوگوں کو حدیث کے الفاظ سے جو کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے، یہ اسی کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں۔

واضح رہے کہ حشویہ کا یہ عقیدہ ، یہودیوں کے مجسِّمہ فرقہ کے عقائد سے ماخوذ ہے۔

اس سے یہ بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ وہابی ایسے عقائد رکھتے ہیں کہ جن کی تائید کے لیے وہ صحابہ یا تابعین (کے پہلے طبقہ) کے اقوال سے بطور دلیل ایک حرف بھی پیش نہیں کر سکتے، پھر بھی ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے تمام اسلاف کا یہی عقیدہ تھا، مگر اس کے ثبوت میں کوئی مستحکم اور متقن دلیل پیش کرنے کی بجائے اسے بے سر پیر کی لمبی چوڑی باتوں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے بڑھ کر، وہابیت کو اپنے اس عقیدہ کی دلیل کے لیے اس ایک بات کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا جو ابن تیمیہ کے منہ سے نکلی تھی اور وہ بھی ایسا جھوٹ ہے جو ان کے متعصب اور سادہ لوح پیرؤوں کے علاوہ کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

ابن تیمیہ نے وہابیت کے اس عقیدہ کی سب سے اہم دلیل اور سند کے بارے میں یہ کہا ہے:  

صحابہ کے درمیان قرآن کی کسی آیتِ صفات کی تاویل کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اس کے بعد تحریر کیا ہے کہ: میں نے ان تفسیروں اور حدیثوں کا مطالعہ کیا ہے کہ جو صحابہ سے منقول ہیں اور چھوٹی، بڑی سو سے زائد کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں جن کی صحیح تعداد خدا جانتا ہے لیکن اب تک مجھے کوئی ایسا صحابی نہیں ملا کہ جس نے صفات (خدا) سے متعلق آیات و روایات کی تاویل، اس کے ظاہری معنی کے برخلاف بیان کی ہو۔

تفسیر سورۂ نور، ابن تیمیہ، ص 178 ، 179

ان تمام تفسیروں میں صحابہ سے آیات ِصفات کی تاویل ان کے ظاہری معنی کے برخلاف نقل ہوئی ہے اور تفسیر کا یہ انداز تمام آیات ِصفات میں یکساں طور پر نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر طبری ،ابن عطیہ اور بغوی کے نظریہ کے مطابق آیة الکرسی کی تفسیر ملاحظہ فرمایئے: ان تمام حضرات نے اس سلسلہ میںابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ' 'کُرسِیُّہ ' ' سے علم خدا مراد ہے۔

ابن عطیہ نے اسی تفسیر پر اکتفا کی ہے اور اس بارے میں ابن عباس کے علاوہ بقیہ لوگوں سے جو کچھ بھی نقل ہوا ہے اسے اسرائیلیات اور حشویہ کی روایات قرار دیا ہے جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

شوکانی نے فتح القدیر، ج 1، ص 272، پر اسے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے۔

اسی طرح وہ تمام روایتیں جن میں کلمۂ ' 'وجہ ' ' آیا ہے جیسے 'وجہ ربک ' اور 'وجہہ ' یا 'وجہ اللّٰہ ' کے بارے میں صحابہ سے جو سب سے پہلی چیز نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر جگہ سیاق و سباق کے مطابق اس سے ارادہ یا ثواب وغیرہ مراد لیا ہے۔

لہٰذا خدا کے لیے جسم قرار دینے کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کی صرف ایک دلیل ، وہی تہمت ہے جسے وہ صحابہ کے سر تھوپتے ہیں اور سراسر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، مشہور کتب تفسیر کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں جب کہ اس بارے میں تحقیق کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ ہر صاحب علم ان کتابوں کا مطالعہ کر کے صحیح صورتحال کا خود اندازہ کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر تفسیر بغوی ملاحظہ فرمایئے:

جس کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے یہ کہا ہے کہ: اس میں جعلی اور گڑھی ہوئی احادیث نقل نہیں ہوئی ہیں،

اب اس تفسیر میں صفات خدا سے متعلق ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کیجئے:

سورۂ بقرہ، آیت 115 و 225 (آیة الکرسی) و آیت 272، سورۂ رعد آیت 22 ، سورۂ قصص آیت 88، سورۂ روم، آیت 38 و 39، سورۂ دہر ، آیت 9

تفسیر بغوی کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو یہ بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ وہابیوں نے بزرگانِ دین اور اسلاف صالح پر کتنا بڑا بہتان لگایا ہے۔

صحابہ کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ:

الف: پہلے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ وہابی عقائد کے مطابق اکثر صحابہ یا کافر ہیں یا مشرک ! اور اس میں وہ تمام صحابہ شامل ہیں جو پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) سے شفاعت طلب کرتے تھے اور آپ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے جاتے تھے یا اسے جائز سمجھتے تھے، یا دوسروں کو یہ اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھتے، مگر بیزاری کا اظہار نہیں کرتے تھے، حتی کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل تھے اور وہ انہیں کافر یا مشرک اور ان کی جان و مال وغیرہ کو حلال نہیں قرار دیتے تھے، وہ بھی اسی حکم میں ہیں !!

یہ بات وہابی عقائد کا لازمہ ہے اور ان کا موجودہ نظریہ بھی یہی ہے۔

لیکن یہ لوگ اپنی باتوں کے دوران صحابہ کا جو احترام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،در حقیقت ان باتوں کے ذریعہ یہ لوگ سادہ لوح عوام کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ اپنا اصل عقیدہ بیان کرنے سے ڈرتے ہیں لہذا ان کے خوف کی وجہ سے صحابہ کی تکفیر کے مسئلے کو صحیح انداز سے بیان نہیں کرتے۔

ب: وہابیوں نے پیغمبر (ص) کے بعد زندہ رہ جانے والے صحابہ کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ آنحضرت کی حیات طیبہ میں آپ کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام بھی ان کی گستاخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ بانی وہابیت محمد ابن عبد الوہاب کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمایئے:

' 'اگرچہ بعض صحابہ آنحضرت (ص) کی رکاب میں جہاد کرتے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور حج کرتے تھے پھر بھی وہ کافر اور اسلام سے دور تھے ' '!!

الرسائل العملیۃ التسع، مؤلفہ محمد بن عبد الوہاب، رسالہ کشف الشبہات، ص 120

ج: صحابہ کے بارے میں وہابیوں کے اس عقیدہ کی تائید ان چیزوں سے بھی ہوتی ہے جو ان کے علماء اور قلم کاروں نے یزید کی تعریف اور حمایت میں تحریر کیاہے۔ جب کہ تاریخ میں یزید جیسا ،صحابہ کا اور کوئی دشمن نہیں دکھائی دیتا جس نے صحابہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بالکل حلال کر دیا تھا نیز یزید جیسا اور کوئی ایسا شقی نہیں ہے جس نے تین دن تک اپنے لشکر کے لیے (واقعہ حرّہ میں) مدینہ کے مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو ،سب کچھ حلال کر دی ہو۔

چنانچہ تین دنوں کے اندر مدینہ میں جو لوگ بھی مارے گئے وہ صحابہ یا ان کے گھر والے ہی تھے اور جن عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تاراج کی گئی ان سب کا تعلق بھی صحابہ کے گھرانوں سے ہی تھا. یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال مدینہ کی ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے یہاں ایسے بچوں کی ولادت ہوئی جن کے باپ کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔

واقعہ حرّہ سے پہلے یزید کی سب سے بڑی بربریت کربلا میں سامنے آئی جب اس نے خاندان رسالت و نبوت کی اٹھارہ (18) ہستیوں کو تہ تیغ کر ڈالا جن کے درمیان آنحضرت (ص) کے پیارے نواسے اور آپ کے دل کے چین حضرت امام حسین(ع) نیز ان کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے اعزاء و اقرباء حتی کہ۶ مہینے کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔

یزید کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے خانہ کعبہ میں آگ لگوائی۔

جی ہاں!

وہابی حضرات اسی یزید کے قصیدہ خواں ہیں! اب اس کا راز کیا ہے ؟ یہ کون بتائے !

ہو سکتا ہے (شاید) صحابہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے اوپر ظلم و تشدد اور ان کے ساتھ اس ناروا سلوک کی بناء پر ہی یہ لوگ یزید کی تعریف کرتے ہوں!! ...

مزید تعجب یہ کہ ! یزید نماز نہیں پڑھتا تھا ، شراب پیتا تھا اور زنا کرنا تو اسکا ہر روز کا کام تھا ۔۔۔۔۔۔ اور فقہ امام ابو حنیفہ کے مطابق (وہابی حضرات جس پر عمل پیرا ہونے کے مدعی ہیں) انہیں اُس کی صرف اِسی حرکت کی بناء پر اسے کافر قرار دے دینا چاہیے مگر وہ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے معذور قرار دیتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے؟ کہ یزید کی ان تمام حرکتوں کو جاننے کے باوجود یہ لوگ اسے کچھ نہیں کہتے ؟ بلکہ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے قبر پیغمبر (ص) سے شفاعت طلب کر لی یا وہ آپ کی زیارت کی نیت سے آپ (ص) کی قبر مبارک پر چلے گئے ان کو کافر قرار دیدیا، چاہے وہ بڑے بڑے صحابہ، تابعین یا مجتہدین کرام ہی کیوں نہ ہوں ؟

کیا یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یزید نے اصحاب پیغمبر (ص) کا خون بہایا، ان کی عزت و آبرو کو تاراج کیا اور ان کی ناموس کو ظالموں کے لیے مباح کر دیا تھا ؟!

فرقہ ضالّہ وہابیت کا مختصر تعارف!

اگر فرقہ ضالہ وہابی کے بارے میں دقت سے تحقیق کی جائے، اگر ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب کے اصلی ہدف کو اس فرقے کی بنیاد رکھنے کے بارے میں غور سے جانا جائے، اگر ان آیات اور روایات کی کہ جنکی اس گمراہ فرقے نے اپنی کتابوں میں شرح اور تفسیر کی ہے اور اگر اس گمراہ فرقے کے علماء کے اقوال کی چھان بین کی جائے اور اگر ان کے اقوال کو کفار و قریش مکہ، کہ جہنوں نے مکے میں 13 سال اور مدینہ میں 10 سال، رسول خدا (ص) سے مقابلہ اور جنگ کی تھی، کے ساتھ موازنہ کیا جائے اور کفار قریش اور وہابیوں کی تاریخ کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا جائے، تو واضح ہو جائے گا کہ رسول خدا (ص) کے خلاف وہابیوں کے مقابلے اور 23 سال قریش کے رسول خدا کے خلاف مقابلے میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بعض چیزوں میں تو یہ وہابی، رسول خدا سے دشمنی ظاہر کرنے میں، قریش سے بھی شدید تر اور بد تر ہیں۔

 آیت الله العظمی فاضل لنکرانی (ره) نے اس بارے میں کہا ہے کہ:

وہابیت کفر اور یہود کی ناجائز اولاد ہے اور وہ اسلام سے خارج ہیں اور انکے وجود میں آنے کا ہدف اسلام اور قرآن کی مخالفت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

پیام آیت اللہ فاضل بہ مناسبت تخریب مجدد حرمین شریف عسکریین،

لہذا اگر وہابیت کا ایک جملے میں تعارف کرایا جائے، تو کہنا چاہیے کہ وہابیت یعنی بنی امیہ کی حکومت اور فرہنگ کو دوبارہ زندہ کرنا اور اسے جاری رکھنا ہے۔

کیونکہ یہ گمراہ فرقہ اپنے خاص عقیدے کے ساتھ جو کچھ آیات اور روایات سے سمجھتا ہے، بس یہ اسی کو صحیح اور حق قرار دیتے ہیں، اور دوسروں کی عقل اور سمجھ کو باطل اور بدعت قرار دیتے ہیں۔

محمد ابن عبد الوہاب نے کتنی مرتبہ اپنے شاگردوں کہ جو عام عوام تھے، سے کہا تھا کہ جو کچھ تم خود اسلام سے اپنی عقل کے مطابق سمجھتے ہو، وہی حقیقی اور واقعی دین ہے، اسی پر عمل کرو اور اسی کو لے آگے بڑھو، اور دین اسلام کے بارے میں دوسرے جو بھی کہتے رہیں، اسکی طرف توجہ نہ کرو !!!

فرقہ ضالّہ وہابیت کے وجود میں لانے کا اصلی ہدف !

اہل سنت کے معروف علماء نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ: وہابیت کے گمراہ فرقے کے وجود میں آنے اور لانے کا اصلی ہدف، مسلمانوں کو تکفیر اور قتل کرنا ہے، اور اس وسیلے سے مسلمانوں کے اموال اور انکی ناموس پر حملہ کرنا ہے۔

دانشگاہ الازہر کے عالم جناب کوثری نے اس بارے میں کہا ہے کہ:

و ليس قصد أول من آثار هذه الفتنة، سوى استباحة أموال المسلمين ليؤسس حكمه بأموالهم على دمائهم باسم أنهم مشركون.

وہابیوں کا وہابیت کا فتنہ ایجاد کرنے سے پہلا ہدف، مسلمانوں کے اموال کو لوٹنا تھا تا کہ ان اموال سے اپنی حکومت کو محکم اور مضبوط کر سکیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر انکے خون بہانے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔

مقالات کوثری، ج1، ص 326

وہابیت کی نگاہ میں مسئلہ بدعت!

وہابیوں کی ایک کتاب ہے، الدُرَرُ السنیَّة فِی الأَجوِبَةِ النَّجدیّة، مَجموعَةُ رَسائِلَ و مَسائِلَ عُلماء نَجد الأعلام مِن عَصر الشَیخ مُحمد بن عَبد الوهّاب إلی عَصرنا هَذا،

یعنی محمد ابن عبد الوہاب اور اسکے بیٹوں کی تمام کتب، اسکے لکھے ہوئے خطوط، اس کے خطابات، سب کو 16 جلدوں کی شکل میں جمع کیا گیا ہے،

وہابیوں نے بدعت کی تعریف میں کہا ہے کہ:

أن البدعة – و هی ما حدثت بعد القرون الثلاثة - مذمومة مطلقاً خلافاً لمن قال حسنةُ، و قبيحةُ، و لمن قسمها خمسة أقسام. فمن البدع المذمومة التي ننهى عنها: رفع الصوت في مواضع الأذان بغير الأذان سواء كان آيات، أو صلاة على النبي صلى الله عليه و سلم أو ذكرا غير ذلك بعد أذان، أو في ليلة الجمعة، أو رمضان، أو العيدين، فكل ذلك بدعة مذمومة. و قد أبطلنا ما كان مألوفا بمكة، من التذكير، و الترحيم، و نحوه، و اعترف علماء المذاهب أنه بدعة،

بدعت، ہر وہ چیز ہے کہ جو پہلی تین صدیوں، یعنی صحابہ کی صدی، تابعین کی صدی اور تبع تابعین کی صدی، کے بعد وجود میں آئی ہو،

ایسی چیز بالکل قابل مذمت ہے۔ یہ قول انکے خلاف ہے کہ جہنوں نے بدعت کی دو قسمیں ذکر کی ہیں، یعنی بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ، یا ان کے خلاف ہے کہ جہنوں نے بدعت کی پانچ قسمیں ذکر کی ہیں، بدعت سیئہ میں سے ایک یہ کہ جس سے ہم منع کرتے ہیں، وہ اذان کے وقت، اذان کے علاوہ کسی دوسری آواز کو اونچا کرنا ہے، چاہے وہ قرآن کی تلاوت کی آواز ہو، یا رسول خدا پر صلوات پڑھنے کی آواز ہو، رسول خدا پر شب جمعہ، ماہ رمضان، عید فطر اور عید قربان کے مواقع پر صلوات پڑھنا، بدعت اور قابل مذمت ہے۔ اب اس وقت شہر مکہ میں لوگ خدا کا ذکر کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، ایک دوسرے پر سلام کرتے ہیں۔ تمام مذاہب کے علماء نے کہا ہے کہ یہ سارے کام بدعت ہیں۔

الدرر السنیه فی الأجوبة النجدیه، ج1، ص 237

وہابیوں نے اس کلام کے بعد فتوی دیا ہے کہ:

ليس في أهل البدع غيبة...نصّ العلماء على جواز غيبة أهل البدع.

جو اہل بدعت ہیں، انکی غیبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے..... علماء نے اہل بدعت کی غیبت کرنے کے جائز ہونے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔

الدرر السنیه فی الأجوبة النجدیه، ج 7، ص 558

مسلمانوں کہ بعض افعال کہ جن کو وہابیت نے بدعت شمار کیا ہے:

1- رسول خدا (ص) پر اذان سے پہلے اور اسکے بعد صلوات پڑھنا:

ذکر الصلاة و السلام علی الرسول قبل الاذان و هکذا الجهر بها بعد الأذان، مع الأذان من البدع المحدثة فی الدین۔

رسول خدا پر اذان سے پہلے سلام و صلوات پڑھنا اور اسی طرح اذان کے بعد رسول خدا پر اونچی آواز میں صلوات پڑھنا، اور اذان کے دوران، یہ سب بدعت ہیں کہ جو دین میں ایجاد کی گئی ہیں۔

فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیه و الإفتاء، ج2، ص357، فتوای نمبر9696

یہاں پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ، رسول خدا (ص) پر صلوات پڑھنا، اس وجہ سے بدعت اور حرام نہیں ہے کہ دین اسلام میں اس چیز کا وجود نہیں ہے، بلکہ رسول خدا پر صلوات پڑھنا، فقط اس وجہ سے بدعت اور حرام ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب کو رسول خدا پر صلوات پڑھنے کی آواز سے تکلیف ہوتی تھی !!!

و کان محمد بن عبد الوهاب ینهی عن الصلاه علی النبی و يتأذى من سماعها و ینهی عن الاتیان بها لیلة الجمعه و عن الجهر بها علی المنابر و يؤذي من یفعل ذلک و یعاقبه اشد العقاب و ربما قتله.

محمد ابن عبد الوہاب رسول خدا پر صلوات پڑھنے کی آواز سے تکلیف کی وجہ سے اس کام سے منع کرتا تھا اور شب جمعہ بھی یہ کام کرنے سے منع کرتا تھا، اسی طرح منبر پر بیٹھ کر رسول خدا پر اونچی آواز سے صلوات پڑھنے سے بھی منع کرتا تھا اور اگر کوئی بھی رسول خدا پر صلوات پڑھتا تھا، تو محمد ابن عبد الوہاب اسکو اذیت و آزار دیتا تھا اور کبھی کبھی تو یہ اس بندے کو قتل کر دیتا تھا۔

الدر السنیه فی الرد علی الوهابیه، زینی دحلان، ص40

2- رسول خدا پر صلوات پڑھنے کا گناہ، ایک فاحشہ عورت سے زنا کرنے سے بھی بد تر ہے!!!

محمد ابن عبد الوہاب نہ فقط یہ رسول خدا پر صلوات پڑھنے کی آواز سننے سے اس کو تکلیف ہوتی تھی، بلکہ اس سے بھی بالا تر یہ کہ وہ صلوات پڑھنے والے کو قتل کر دیتا تھا اور صلوات پڑھنے کے گناہ کو ایک فاحشہ عورت کے گھر میں زنا کرنے کے لیے، آنے جانے سے بھی زیادہ برا شمار کرتا تھا!!!

حتى أنه قتل رجلا أعمى كان مؤذنا صالحا ذا صوت حسن نهاه عن الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم في المنارة بعد الأذان فلم ينته و أتى بالصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم فأمر بقتله فقتل. إن الريابة في بيت الخاطئة يعني الزانية أقل إثما ممن ينادي بالصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم في المنائر.

محمد بن عبد الوہاب نے ایک اندھے بندے کو کہ جو خوش آواز مؤذن اور نیک انسان تھا، کو قتل کر دیا، کیونکہ جب اسکو منارے پر رسول خدا پر صلوات پڑھنے سے منع کیا گیا تو وہ اس کام کے کرنے سے منع نہ ہوا اور پھر بھی منارے پر کھڑا ہو کر رسول خدا پر صلوات پڑھتا تھا، اس پر جب محمد ابن عبد الوہاب نے اس مؤذن کے قتل کرنے کا حکم دیا، تو اسکو قتل بھی کر دیا گیا۔ پھر محمد ابن عبد الوہاب نے کہا کہ بے شک ایک زنا کروانے والی عورت کے گھر زنا کرنے کے لیے آنے جانے کا گناہ، رسول خدا پر منارے پر کھڑے ہو کر صلوات پڑھنے کے گناہ سے کم تر ہے، !!!

الدر السنیه فی الرد علی الوهابیه، زینی دحلان، ص40

البتہ رسول خدا پر صلوات پڑھنے کی آواز سن کر محمد ابن عبد الوہاب کو تکلیف ہونا، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ اسی کے ہمفکر باپ یعنی معاویہ ابن ابی سفیان کو بھی اذان میں رسول خدا (ص) کا نام سن کر بہت ہی زیادہ تکلیف ہوتی تھی:

مطرف بن المغيرة بن شعبة قال: قال ابی : قلت له (للمعاویه) و قد خلوت به: إنك قد بلغت منا يا أمير المؤمنين، فلو أظهرت عَدْلاً و بسطت خيراً فإنك قد كبرت، و لو نظرت إلى إخوتك من بني هاشم فوصَلْتَ أرحامهم فو الله ما عندهم اليوم شيء تخافه، فقال لي: هيهات هيهات!! مَلَكَ أخوتَيْمٍ فعدل و فعل ما فعل، فو اللّه ما عدا أن هلك فهلك ذكره،... و إن أخا هاشم يُصْرَخُ به في كل يوم خمس مرات: أشهد أن محمداً رسول الله، فأي عمل يبقى مع هذا ؟ لا أمَ لك؛ و الله ألا دفناً دفناً۔

مطرف نے نقل کیا ہے کہ میرے باپ مغیرہ ابن شعبہ نے کہا تھا کہ میں نے ایک دن ایک ملاقات میں معاویہ سے کہا کہ بنی ہاشم کی حکومت اور قدرت اب ختم ہو چکی ہے اور اب تم کو انکی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے، لھذا اب تم ان پر سختی نہ کرو اور ان سے اچھا سلوک کرو۔ اس پر معاویہ نے اسکو غصے سے جواب دیا کہ ابوبکر اور عمر کا مرنے کے بعد کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا اور کوئی بھی انکا ذکر نہیں کرتا، لیکن اذان میں ہر روز پانچ مرتبہ اشہد انّ محمد رسول اللہ کی آواز میرے کانوں تک پہنچتی ہے، اس حالت میں ہم بنی امیہ کے لیے کیا باقی بچتا ہے، نہ خدا کی قسم، میں جب تک محمد کے نام کو دفن نہ کر لوں، اس وقت تک میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔

مروج الذهب مسعودی، ج2، ص54

شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج2، ص187

اس بارے میں کہنا چاہیے: إِنَّا لِلّهِ وَ إِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ،

2- صدق الله العظیم کا کہنا:

قول صدق الله العظیم بعد الإنتهاء من قراءة القرآن بدعة،

قرآن کی تلاوت ختم ہونے کے بعد، صدق الله العظیم کہنا، بدعت ہے۔

فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميّة و الإفتاء ج 4 ص 149 فتوای نمبر3303

4- سالگرہ اور شادی کا جشن منانا:

و أعيادُ الموالد نوعٌ من العبادات المُحْدَثَةِ في دين اللّه فلا يجوز عملُها لأيٍّ من الناس مهما كان مقامُه أو دَوْرُه في الحياة،

سالگرہ کا جشن منانا، ایک قسم کی عبادت ہے کہ جس کا دین میں اضافہ کیا گیا ہے، ایسا جشن منانا، کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے، حتی وہ معاشرے کا بہت مشہور و معروف انسان ہی کیوں نہ ہو۔

فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميّة و الإفتاء، ج 3، ص 83، فتواى نمبر 2008

5- چھوٹے پتھروں کی بنی تسبیح سے تسبیح پڑھنا:

و روى ابن وضاح: أن عبد الله بن مسعود حُدث: أن أناساً يسبحون بالحصى في المسجد و أتاهم و قد كوّم كل رجل منهم كومة من حصى بين يديه إنكم لأهدى من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أضل؟ بل هذه، يعني: أضل.....،

ابن وضاح نے نقل کیا ہے کہ: ابن مسعود نے حدیث نقل کی ہے کہ: یہ لوگ جب بھی تسبیح پڑھنا چاہتے تھے تو چھوٹے چھوٹے پتھروں سے تسبیح پڑھا کرتے تھے، میں نے مسجد میں دیکھا کہ ہر ایک نے تھوڑے تھوڑے سے پتھر اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ یہ چھوٹے پتھر ہیں کہ ہم تسبیح پڑھتے وقت انکو اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ تا کہ تسبیح کی تعداد کو ہم بھول نہ جائیں، میں نے کہا۔ کیا تم رسول خدا کے ہدایت یافتہ اصحاب ہو یا، گمراہ اصحاب ہو ؟ بلکہ تم رسول خدا کے گمراہ اصحاب میں سے ہو۔

الدررالسنیه فی الأجوبة النجدیه، ج8، ص104

حرمین شریفین کو باطل اور غلط اعتقادات نے احاطہ کیا ہوا ہے:

وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ حرمین شریفین مکہ اور مدینہ اور بہت سے دوسرے اسلامی شہروں کو جیسے طائف، عراق وغیرہ کو باطل اور غلط اعتقادات اور بدعتوں نے گھیرا ہوا ہے۔

و من العجب أن هذه الاعتقادات الباطلة، و المذاهب الضالة، و العوائد الجائرة، و الطرائق الخاسرة قد فشت و ظهرت، و عمت و طمت، حتى بلاد الحرمين الشريفين!

عجیب یہ ہے کہ یہ باطل اعتقادات، گمراہ مذاہب، جاری و ساری عادتیں اور نقصان پہنچانے والے راستے، ظاہر ہوئے اور زیادہ و عام ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ یہ حرمین شریفین مکہ اور مدینہ میں بھی پہنچ گئے ہیں۔

و في الطائف، قبر ابن عباس، رضي الله عنهما، يفعل عنده من الأمور الشركية التي تشمئز منها نفوس الموحدين و تنكرها قلوب عباد الله المخلصين كذلك ما يفعل بالمدينة المشرفة،

طائف میں ابن عباس کی قبر کے پاس، ایسے شرک آلود کام انجام دیتے ہیں کہ جن سے اہل توحید لوگ نفرت کرتے ہیں، اور خدا کے خالص بندوں کے دل ان کاموں کو قبول نہیں کرتے۔ مدینہ مشرفہ میں بھی اس طرح کی بدعتیں انجام دی جاتی ہیں۔

و بالغوا في مخالفة ما جاء به محمد عليه أفضل الصلاة و السلام، من النهي عن تعظيم القبور،

رسول خدا کے قبروں کی تعظیم اور احترام سے منع کرنے کے باوجود، وہ لوگ قبروں کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔

كذلك مشهد العلوي، بالغوا في تعظيمه و توقيره، و خوفه و رجائه،

اسی طرح نجف میں حرم علوی کے احترام اور تعظیم میں خوف اور امید کی وجہ بہت مبالغے سے کام لیتے تھے۔

و أما بلاد مصر... فقد جمعت من الأمور الشركية...، لا سيما عند مشهد أحمد البدوي و أمثاله من المعتقدين المعبودين، فقد جاوزوا بهم ما ادعته الجاهلية لآلهتهم.

مصر کے شہروں میں لوگ کس قدر شرک میں مبتلا ہیں، خاص طور پر اہل سنت کے عالم احمد بدوی کے حرم میں کس قدر عبادت کرتے ہیں، یہ احترام اور تعظیم میں جاہلیت کے دور میں بنائے ہوئے خداؤں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔

كذلك ما يفعل فی بلدان اليمن...و ففی صنعاء،

یمن اور صنعاء کے شہروں میں لوگ کس قدر کثرت سے غلط کام انجام دیتے ہیں۔

و فی أرض نجران من تلاعب الشيطان، و خلع ربقة الإيمان...

اور اسی طرح نجران کے علاقے میں تو شیطان لوگوں سے کھیلتا ہے، وہ ایمان کی رسی کو لوگوں کی گردن سے دور کرتا ہے، حلب و دمشق اور شام کے دوسرے شہروں میں، اسی طرح موصل اور کرد نشین لوگوں کے شہروں میں بھی شرک و فسق اور فجور موجود ہے۔

و عندهم المشهد الحسيني، قد اتخذه الرافضة وثنا، بل رباً مدبراً و خالقاً ميسراً، و أعادوا به المجوسية، و أحيوا به معاهد اللات و العزى،

عراق میں تو لوگوں نے امام حسین کے حرم کو بت بنا لیا ہے، بلکہ اس سے بالا تر کہ لوگوں نے انکو اپنا خدا اور خالق بنا لیا ہے۔ وہ مجوسیوں والی عادات کو انجام دیتے ہیں اور لات و عزی والے عہد و پیمان کو امام حسین کے حرم میں زندہ کرتے ہیں۔

الدرر السنیه، ج1، ص380 و ص381

صراط مستقیم، آل شیخ اور محمد بن عبد الوہاب کا راستہ ہے:

و لا ينبغی لأحد من الناس العدول عن طريقتهم و مخالفة ما استمروا عليه فی أصول الدين فإنه الصراط المستقيم الذی من حاد عنه فقد سلك طريق أصحاب الجحيم،

کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آل شیخ کے راستے سے دور ہٹے اور منہ پھیرے، اور دین کے جن اصولوں پر آل شیخ باقی ہے، انکی بھی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، آل شیخ اور محمد ابن عبد الوہاب کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے، جو بھی اس صراط مستقیم سے منہ پھیرے گا، وہ جہنم جانے والے راستے پر گامزن ہو جائے گا۔

الدرر السنیه فی الأجوبة النجدیه، ج14، ص 375

6- جشن عید میلاد النبی منانا:

سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم نے کہا ہے کہ:

لا يجوز الاحتفال بمولد الرسول صلى الله عليه و سلم و لا غيره؛ لأن ذلك من البدع المحدثة في الدين لأن الرسول صلى الله عليه و سلم لم يفعله، و لا خلفاؤه الراشدون، و لا غيرهم من الصحابة،

رسول خدا کا اور کسی دوسرے کا بھی میلاد کا جشن منانا، جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ایسی بدعت ہے کہ جو دین میں ایجاد کی گئی ہے، اس لیے کہ رسول خدا، خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ نے اس کام کو انجام نہیں دیا۔

فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ج3 ص 18 فتوای شماره 2747

علم فقہ کا ایک فقہی قاعدہ اصالۃ الإباحہ ہے:

شریعت اسلام میں معیار اور میزان رسول خدا (ص) کی کہی ہوئی بات اور کیا ہوا عمل ہے، نہ کہ نہ کہی ہوئی بات اور نہ کیا ہوا عمل، کیا قرآن میں کسی جگہ پر کہا گیا ہے کہ ایھا الناس ہر وہ عمل کہ جو رسول خدا نے انجام نہیں دیا، وہ بدعت ہے ؟

مثلا رسول خدا نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی، تو کیا اب کسی کا اپنی بیوی کو طلاق دینا بدعت ہے ؟! جب رسول خدا نے اصالۃ الاباحۃ کے قاعدے کی بنیاد رکھی ہے تو اسکا معنی یہ ہے کہ تم پر تمام چیزیں حلال ہیں، لیکن جن چیزوں کو میں حرام قرار دوں گا، صرف وہ تم پر حرام ہوں گی۔

اصالۃ الاباحۃ ایک ایسا فقہی قاعدہ ہے کہ جسکو تمام اسلامی فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن حجر عسقلانی عالم اہل سنت نے کہا ہے کہ:

 أَنَّ الْأَصْلَ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ حَتَّى يَرِدَ الشَّرْعُ بِخِلَافِ ذَلِكَ،

اصل میں تمام چیزیں مباح اور جائز ہیں، مگر یہ کہ شریعت میں ایک چیز سے منع کیا گیا ہو۔

فتح الباری، ج13، ص 227

آج ترقی کے دور میں وہابیوں کی فکر و عقل جمود اور ٹھہراؤ کا شکار ہے، جمود یہ ہے کہ آئیں اور کہیں کہ:

کلّما لم یفعله النبی و الخلفاء، فهو بدعه.

کہ جو بھی رسول خدا اور صحابہ نے انجام نہیں دیا، اسکو انجام دینا، بدعت ہے۔

کیونکہ رسول خدا مدینہ کی اپنی 11 سالہ زندگی میں اس قدر مشکلات اور مسائل کا شکار تھے کہ ان امور کی طرف انکی بالکل توجہ ہی نہیں تھی۔

ابن اثیر اس بارے میں لکھا ہے کہ:

و َمَا لَمْ يَكُنْ لَهُ مِثَالٌ مَوْجُودٌ كنَوْع مِنَ الجُود وَ السَّخَاءِ و فعْل الْمَعْرُوفِ فَهُوَ مِنَ الْأَفْعَالِ الْمَحْمُودَةِ، وَ لَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ فِي خِلَافِ مَا وَردَ الشَّرْعُ بِهِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ قَدْ جَعل لَهُ فِي ذَلِكَ ثَوَابًا فَقَالَ «مَنْ سَنّ سُنة حسَنة كَانَ لَهُ أجْرها و أجرُ مَنْ عَمِل بِهَا» وَ قَالَ فِي ضِدّه «وَ مَنْ سَنَّ سُنة سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وزْرُها وَ وِزْرُ مَنْ عَمِل بِهَا» وَ ذَلِكَ إِذَا كَانَ فِي خِلَافِ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ وَ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ»

بعض افعال کہ جنکی مثال پہلے موجود نہیں ہے، جیسے بخشش و سخاوت کرنا، نیک اور پسندیدہ افعال وغیرہ، یہ تمام افعال بھی نیک اور پسندیدہ افعال میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ رسول خدا نے اسطرح کے افعال کے بارے میں ثواب کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ: جو بھی ایک نیک سنت (کار خیر) کی بنیاد رکھے، تو اس سنت کا ثواب اور اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا ثواب، اس بنیاد رکھنے والے کو ملے گا، البتہ وہ انجام پانے والے افعال شریعت اسلام کے خلاف نہ ہوں،

کیونکہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: جو بھی ایک بد سنت (بدعت) کی بنیاد رکھے، تو اس بری سنت کا گناہ اور اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا گناہ، اس بنیاد رکھنے والے کو ملے گا، اور یہ برے اعمال وہ اعمال ہیں کہ جو خدا اور رسول کے حکم کے خلاف ہیں۔

النهایه فی غریب الحدیث و الأثر، ج1، ص 106

آل سعود کا خاندانی پس منظر،  یہودیت سے سعودیت تک کا سفر:

مرد خائی کے لا تعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا، جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مرد خائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی۔

سعودی عرب دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نام کسی خاندان کے نام پر ہے، سعودی عرب پر فرمانروا خاندان آل سعود کا پس منظر کیا ہے ؟ اس خاندان کے آباء و اجداد کون ہیں ؟ اس خاندان کا تعلق کیا واقعی عرب کے مشہور خاندان عنزہ سے ہے، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے ؟ کیا آل سعود حقیقت میں عربی النسل ہیں ؟ یا یہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا ؟

یہ وہ تمام سوالات تھے جو تحقیق طلب تھے !!!

سن 851 ہجری میں قبیلہ عنزہ کی ایک شاخ آل مسالیخ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک تجارتی کارواں تشکیل دیا، جس کا مقصد عراق سے غذائی اجناس خرید کر انہیں نجد لانا تھا، اس قافلے کا سالار سامی ابن مثلول تھا، اس قافلے کا گزر جب بصرہ کے بازار سے ہوا تو قافلے کے کچھ لوگوں نے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے بصرہ کے بازار کا رخ کیا، وہاں وہ ایک تاجر کے پاس پہنچے، یہ تاجر یہودی تھا، اس کا نام مرد خائی ابن ابراہیم ابن موسیٰ تھا، خرید و فروخت کے دوران اس تاجر نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق عنزہ قبیلے کی ایک شاخ المسالیخ سے ہے، یہ نام سننا تھا کہ یہودی کھڑا ہوا اور وہ ان میں سے ہر فرد سے بڑے تپاک کے ساتھ گلے ملا، اس نے بتایا کہ وہ خود اس قبیلے کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اپنے والد کے عنزہ قبیلے کے بعض افراد سے ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے بصرہ میں آ کر رہائش اختیار کر لی، اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ قافلے والوں کے تمام اونٹوں پر گندم، کھجور اور چاول کی بوریاں لاد دی جائیں، یہودی تاجر کے اس رویے نے قافلے والوں کو حیران کر دیا، وہ انتہائی خوش ہوئے کہ عراق میں ان کے ایک خاندان کا فرد مل گیا ہے، جو ان کے رزق کا وسیلہ ہے، انہوں نے اس کی ہر بات پر من و عن یقین کر لیا، اگرچہ وہ تاجر یہودی تھا لیکن چونکہ المسالیخ قبیلے کے لوگوں کو اناج کی شدید ضرورت تھی، لہٰذا انہوں نے اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیے غنیمت جانا۔

جب قافلہ اپنا واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس نے اہل قافلہ سے درخواست کی کہ وہ اگر اسے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں تو یہ اس کے لیے بڑی خوش بختی ہو گی، کیونکہ اس کی عرصہ دراز سے خواہش ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے وطن کو دیکھے، نجد پہنچ کر اس نے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیئے اور کئی افراد کو اپنی چرب زبانی کی بناء پر، اپنے حلقہ اثر میں لانے میں کامیاب ہو گیا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے وہاں القسیم سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما شیخ صالح السلمان عبد اللہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اس مذہبی عالم کی تبلیغ کا دائرہ نجد، یمن اور حجاز تک پھیلا ہوا تھا۔ یہودی کو اس شخص کی مخالفت کی وجہ سے مجبوراً یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور وہ القسیم سے الاحصاء آ گیا، یہاں آ کر اس نے اپنا نام تبدیل کر دیا اور «مردجائی» سے مرخان ابن ابراہیم موسیٰ بن گیا، پھر وہ یہاں سے القطیف کے قریب ایک علاقہ دراعیہ میں قیام پذیر ہو گیا، یہاں اس نے مقامی باشندوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لیا، کہانی یہ تھی کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑی جانے والی جنگ احد میں ایک کافر کے ہاتھ رسول پاک (ص) کی ڈھال لگ گئی، اس کافر نے یہ ڈھال بنو قنیقہ کے ہاتھ فروخت کر دی، بنو قنیقہ نے اسے ایک بیش بہا خزانہ سمجھتے ہوئے اپنے پاس محفوظ رکھا، یہودی تاجر نے اس علاقے کے بدؤوں کے درمیان اس طرح کی کہانیاں پھیلانا شروع کر دیں، ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عربوں میں یہودی قبائل کا کتنا اثر ہے اور وہ کس قدر لائق احترام ہیں، اس نے اس طریقے سے عرب دیہاتیوں، خانہ بدوشوں، بدو قبائل اور سادہ لوح افراد میں اپنا ایک مقام و مرتبہ بنا لیا، آخر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ مستقل طور پر القطیف کے قریب درعیہ قصبے میں قیام کرے گا اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے گا۔ اس کے خیال میں یہ علاقہ عرب میں بڑی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرے گا، اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے عرب کے صحرائی بدؤوں سے روابط شروع کر دیے، اس نے اپنے آپ کو ان لوگوں کا «ملک» یعنی بادشاہ کہلوانا شروع کر دیا۔

اس موقع پر دو قبائل قبیلہ عجمان اور قبیلہ بنو خالد اس یہودی کی اصلیت کو جان گئے اور فیصلہ کیا کہ اس فتنے کو یہیں ختم کر دیا جائے۔ دونوں قبائل نے باہم اس کے مرکز درعیہ پر حملہ کر دیا اور اس قصبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جبکہ مردخائی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور العارض کے نزدیک المالی بید غثیبہ کے نام سے ایک فارم میں پناہ لی۔ یہی العارض آج ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سعودی عرب کا دار الخلافہ ہے۔ مرد خائی نے اس فارم کے مالک کہ جو بہت بڑا زمیندار تھا، سے درخواست کی کہ وہ اسے پناہ دے، فارم کا مالک اتنا مہمان نواز تھا کہ اس نے مرد خائی کی درخواست قبول کر لی اور اسے اپنے یہاں پناہ دے دی لیکن مردخائی کو اپنے میزبان کے پاس ٹھہرے ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اپنے محسن اور اس کے اہل خانہ کو قتل کر دیا اور بہانہ یہ کیا کہ ان تمام کو چوروں کے ایک گروہ نے قتل کیا ہے، اس کے ساتھ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس افسوس ناک واقعہ سے قبل اس نے اس زمیندار سے اس کی تمام جائیداد خرید لی تھی، لہٰذا اب اس کا حق بنتا ہے کہ اب وہ یہاں ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے رہے، مرد خائی نے اس جگہ پر قبضہ جما لینے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے کے نام پر آل درعیہ رکھا اور اس غصب شدہ زمین پر فوراً ہی ایک بڑا مہمان خانہ تعمیر کروایا، جس کا نام اس نے مضافہ رکھا، یہاں رہتے ہوئے اس نے آہستہ آہستہ اپنے مریدین کا ایک حلقہ بنا لیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان یہ غلط طور پر مشہور کرنا شروع کر دیا کہ مرد خائی ایک مشہور عرب شیخ ہے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنے اصل دشمن شیخ صالح سلمان عبد اللہ التمیمی کو ایک منصوبے کے تحت قصبہ آل زلافی کی مسجد میں قتل کروا دیا۔ اس اقدام کے بعد وہ ہر طرف سے مطئمن ہو گیا اور درعیہ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا، درعیہ میں اس نے کئی شادیاں کیں، جن کے نتیجے میں وہ درجنوں بچوں کا باپ بنا، اس نے اپنے ان تمام بیٹے بیٹوں کے نام خالص عرب ناموں پر رکھے، یہودی مرد خائی کی یہ اولاد ایک بڑے عرب خاندان کی شکل اختیار کر گئی، اس خاندان کے لوگوں نے مرد خائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کر دیں اور ان کے فارموں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، اب یہ اس قدر طاقتور ہو گئے کہ جو کوئی بھی ان کی شر انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا، وہ اسے قتل کروا دیتے، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کے لیے انہوں نے رابعہ عنزہ اور المسالیخ جیسے مشہور عرب قبائل کو اپنی بیٹیاں دیں، مرد خائی کے لا تعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی۔

سعود کی اولاد نے اس کے بعد عرب قبائل کے چیدہ چیدہ افراد کو قتل کرنا شروع کر دیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ یہ لوگ قرآنی تعلیمات سے رو گرداں ہو گئے ہیں، لہٰذا اسلامی قوانین کے تحت یہ مرتد ہیں اور مرتد کی سزا موت ہے۔

سعودی خاندان یا آل سعود کے اپنے درباریوں کے مطابق اور سعودیوں کے نزدیک اس وقت کے نجد کے تمام لوگ گستاخان اسلام تھے، لہٰذا ان سب کو قتل کر دینا چاہیے، ان کی جائیدادوں کو ضبط کر لینا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لینا جائز ہے، ان کے نزدیک وہ شخص جو محمد ابن عبد الوہاب (اس کے آباء و اجداد بھی ترکی کے یہودی تھے) کے عقیدے سے متفق نہیں ہیں، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

محمد ابن عبد الوہاب کی تعلیمات کے مطابق سعودی خاندان کو اس امر کی اجازت تھی کہ وہ اپنے مخالفین کے دیہاتوں کو مسمار کریں، ان کی عورتوں اور بچوں کا قتل عام کریں، ان کی خواتین کی عصمت دری کریں، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے ان کے بچوں کے ہاتھ کاٹ دیں اور پھر انہیں زندہ جلا دیں، اس وحشی خاندان نے عملاً اس مذہب (وہابیت) کے نام پر یہ تمام جرائم بھی کیے ہیں اور ابھی تک کر بھی رہے ہیں۔

عقیدہ وہابیت جو حقیقت میں ایک یہودی کی تخلیق تھا اور جس کا مقصد مسلمانوں کے اندر انتہا پسندی اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کے بیج بونا تھا، اس کے پیروکاروں نے سن 1163 ہجری سے آج تک قتل و غارت کا ایک بازار گرم کیا ہوا ہے۔

آل سعود کا اسلامی تاریخ کے ساتھ ایک اور ظلم یہ کہ اس نے حجاز کا نام بھی تبدیل کر کے اپنے خاندانی نام پر سعودی عرب رکھ دیا، گویا یہ تمام خطہ ان کی ذاتی ملکیت ہے اور اس کے باشندے ان کے ذاتی غلام ہیں، اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں، سعودی خاندان اس ملک کے تمام قدرتی وسائل کو اپنی ذاتی جائیداد سمجھتے ہیں، اگر کوئی عام شخص اس خاندان کے کسی فرد کے خلاف آواز اٹھائے تو سر عام اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔

ایک دفعہ ایک سعودی شہزادی نے اپنے مصاحبوں کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا، جہاں فلوریڈا کے ایک ہوٹل میں اس نے 90 کمرے بک کرائے جن کا ایک رات کا کرایہ ایک ملین ڈالر تھا، کیا کوئی سعودی شہری دولت کے اس اصراف پر زبان سے ایک لفظ بھی کہہ سکتا ہے ؟ اگر کہے گا تو اس کا انجام ہر کوئی جانتا ہے، یعنی کسی چوراہے پر سب کے سامنے جلاد کے ہاتھوں اس کے سر کو تن سے جدا کر دیا جائےگا۔

آل سعود کے یہودی النسل ہونے پر گواہ اور دلیل:

1960 میں مصر کے دار الحکومت قاہرہ کے ریڈیو اسٹیشن «صوت العرب» اور یمن کے دار الحکومت صنعا کے ریڈیو اسٹیشن نے اس بات کی تصدیق کی کہ آل سعود کے آباء و اجداد یہودی تھے جبکہ خود سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے بھی 17 ستمبر 1969 کو واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ اس کے آباء و اجداد یہودی تھے۔

وہابی فرقہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آیا ؟

سب سے پہلے وہابی فرقے کو بنانے والا اور اس کو نشر کرنے کے لیے انتھک کوشش کرنے والا شخص، محمد ابن عبد الوہاب ہے کہ جو بارہویں صدی ہجری کے نجدی علماء میں سے تھا، لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہابیت کے عقائد کو وجود بخشنے والا یہ پہلا شخص نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے یہ عقیدے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں، لیکن یہ ایک نئے فرقہ کی صورت میں نہیں تھے اور نہ ہی ان کے زیادہ طرفدار تھے۔

رسالہ شرح حال جدّ وآغاز دعوت وہابیت

تاریخ ابن بشر ج 2 ص 23

سلفیّہ کسے کہتے ہیں ؟

سلفیہ حنبلی مذہب کے پیروکاروں کا ایک گروہ تھا جو چوتھی صدی ہجری میں وجود میں آیا، یہ لوگ اپنے اعتقادات کو احمد حنبل کی طرف نسبت دیتے تھے، لیکن بعض حنبلی علماء نے اس نسبت کے سلسلے میں اعتراضات کیے ہیں۔

مجموعة الرسائل الکبریٰ،

اور سلفیہ یہ چاہتے تھے کہ اسلامی عقائد اسی طریقہ سے بیان ہوں کہ جو اصحاب اور تابعین کے زمانہ میں تھا، یعنی جو مسئلہ بھی اسلامی اعتقاد کے متعلق ہو، اس کو قرآن و حدیث کے ذریعہ حل کیا جائے، اور علماء کو قرآن مجید کی دلیلوں کے علاوہ دوسری دلیلوں میں غور و فکر سے منع کیا جائے۔

سلفیہ چونکہ اسلام میں عقلی اور منطقی طریقوں کو جدید مسائل میں شمار کرتے تھے، جو صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں نہیں تھے لہٰذا ان پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، اور صرف قرآن و حدیث کی نصوص اور ان نصوص سے سمجھی جانے والی دلیلوں کو قبول کرتے تھے، ان کا ماننا یہ تھا کہ ہمیں اسلامی اعتقادات اور دینی احکام میں چاہے وہ اجمالی ہوں یا تفصیلی، چاہے وہ بعنوان اعتقادات ہوں یا بعنوان استدلال، قرآن کریم اور اس سنت نبوی کہ جو قرآنی ہو اور وہ سیرت جو قرآن و سنت کی روشنی میں ہو، کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

سلفیہ دوسرے فرقوں کی طرح توحید کو اسلام کی پہلی اصل مانتے تھے، لیکن بعض امور کو توحید کے منافی جانتے تھے، جن کو دوسرے اسلامی فرقے قبول کرتے تھے، مثلاً کسی مخلوق کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں توسل کرنا یا اس کو وسیلہ قرار دینا، حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے روضہ مبارک کی طرف منہ کر کے زیارت کرنا، اور روضہ اقدس کے قرب و جوار میں شعائر (دینی امور) کو انجام دینا، یا کسی نبی اللہ یا اولیاء اللہ کی قبر پر خدا کو پکارنا وغیرہ جیسے امور کو توحید کے مخالف سمجھتے تھے، اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ امور (مذکورہ امور کو توحید کے مخالف سمجھنا) سلف صالح کا مذہب ہے اور اس کے علاوہ تمام چیزیں بدعت ہیں کہ جو توحید کے مخالف اور منافی ہیں۔

ابن تیمیہ:

اس کا نام ابو العباس احمد ابن عبد الحلیم حرّانی تھا اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور تھا، وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف حنبلی علماء میں سے تھا، لیکن چونکہ اس کے نظریات اور عقائد دوسرے تمام مسلمانوں کے بر خلاف تھے جن کو وہ ظاہر کرتا رہتا تھا کہ جس کی بناء پر دوسرے علماء اس کی سخت مخالفت کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے وہ مدتوں تک زندان میں رہا اور سختیاں برداشت کرتا رہا، چنانچہ اسی شخص کے نظریات اور عقائد بعد میں وہابیوں کی اصل اور بنیاد قرار پائے ہیں۔

ابن تیمیہ کے حالات زندگی دوستوں اور دشمنوں دونوں نے لکھے ہیں اور ہر ایک نے اپنی نظر کے مطابق اس کا تعارف کرایا ہے، اسی طرح بعض مشہور علماء نے اس کے عقائد اور نظریات کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں، جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں، اس سلسلہ میں جو سب سے قدیم اور پرانی کتاب لکھی گئی ہے اور جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اس کی بہت زیادہ عظمت و اہمیت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہیں، وہ ابن کثیر کی کتاب البدایہ والنھایہ ہے۔

اسی طرح عمر ابن الوَردی نے اپنی تاریخی کتاب میں ، صلاح الدین صفدی نے اپنی کتاب الوافی بالوفَیات میں ، ابن شاکر نے فوات الوفَیات میں اور ذہبی نے اپنی کتاب تذکرة الحفاظ میں ابن تیمیہ کی بہت زیادہ تعریف و تمجید کی ہے۔

ذہبی نے ایک خط کے ضمن میں (جس کو مرحوم علامہ امینی صاحب نے بھی اپنی کتاب الغدیر ج 5 ص 87 میں ذکر کیا ہے، ابن تیمیہ کے عقائد کے سلسلہ میں جو مسلمانوں میں شدید اختلاف کا سبب ہوئے) اس کو نصیحت کی ہے اور جیسا کہ ذہبی کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ذہبی ابن تیمیہ کے عقائد اور نظریات سے زیادہ متفق نہیں تھا، چنانچہ اس نے اپنی کتاب العِبَر میں ابن تیمیہ کے عقائد وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے (جو علماء کرام کی مخالفت کا سبب بنے) ابن تیمیہ کی باتوں کو فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔

لیکن دوسری طرف بہت سے لوگوں نے اس کے عقائد و نظریات کی سخت مذمت اور مخالفت کی ہے، مثلاً ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ تحفة النُظّار میں ، عبد اللہ ابن اسعد یافعی نے کتاب مرآة الجنان میں ، تقی الدین سبکی نے کتاب شفاء السِقام فی زیارة خیر الانام میں اور کتاب درّة المفیدہ فی الردّ علی ابن تیمیہ میں ، ابن حجر مکی نے کتاب جوھر المنظم فی زیارة قبر النبی المکرم میں اور کتاب الدُّرَرُ الکامنہ فی اعیان الماة الثامنہ میں ، عز الدین ابن جماعہ اور ابو حیان ظاہری اندلسی، کمال الدین زَملکانی نے کتاب الدّرَةُ المضیئة فی الرد علی ابن تیمیہ حاج خلیفہ کی کتاب کشف الظنون کی تحریر کے مطابق، ان تمام لوگوں نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کو ناقابل قبول کہا ہے۔

سبکی کی تحریر اس طرح ہے: زملکانی نے ابن تیمیہ کی ردّ میں دو مسئلوں (طلاق اور زیارت) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔

طبقات الشافعیہ ج 9 ص 191

قاضی اِخنائی ابن تیمیہ کے ہم عصر نے المقالة المرضیة میں اور دوسرے چند حضرات نے بھی ابن تیمیہ کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کی سخت مذمت کرتے ہوئے ان کو مردود اور ناقابل قبول جانا ہے۔

رسالة العقیدة الواسطیہ،

ابن تیمیہ پر اس کے چند ہم عصر علماء نے اعتراضات کیے ہیں، خود اس نے رسالہ المناظرہ فی العقیدة الواسطیہ میں اس کے مفصل جوابات تحریر کیے ہیں۔

مجموعة الرسائل ج 1 ص 415

اسی زمانہ میں ابن تیمیہ نے نبی اکرم (ص) سے استغاثہ کا انکار کیا، اس پر اس کے ہم عصر عالم علی ابن یعقوب بکری نے آنحضرت (ص) سے استغاثہ کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی، جس میں اس بات کو ثابت کیا کہ جن موارد میں خداوند سے استغاثہ کیا جا سکتا ہے، ان میں آنحضرت (ص) سے بھی استغاثہ کرنا جائز ہے۔ ابن تیمیہ نے اس کتاب کی ردّ میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جو اس وقت بھی موجود ہے۔

فتح المجید ص 230

ابن تیمیہ کے ایک اور ہم عصر بنام شیخ شہاب الدین ابن جُھبُل شافعی نے ایک رسالہ لکھا، جس میں خداوند کے لیے جہت و سمت کو مضبوط و محکم دلیلوں کے ذریعہ مردود اور باطل قرار دیا ہے۔

مذکورہ رسالہ کی عبارت کو سبکی نے طبقات الشافعیہ ج 9 ص 35 میں بھی نقل کیا ہے۔

ابن تیمیہ کے طرفدار لوگ کہتے ہیں: چونکہ ابن تیمیہ بہت سے علوم اور قرآن و حدیث میں مہارت رکھتا تھا جس کی بناء پر اس وقت کے حکمراں اور بادشاہ نیز دیگر علماء اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اس کی اہمیت کے قائل تھے، اسی وجہ سے دوسرے علماء کو اس سے حسد ہونے لگا، جس کی وجہ سے اس کے عقائد کو فاسد اور کفر آور کہنے لگے۔

ابن تیمیہ کے مخالف افراد کہتے ہیں: اس نے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف اپنی آواز اٹھائی اور وہ خداوند کے دیدار اور اس کے لیے جھت و سمت کا قائل ہوا، نیز اولیاء اللہ کی قبور کی زیارت سے ممانعت کی، وغیرہ وغیرہ۔

متاخرین میں بھی ابن تیمیہ کے طرفدار اور مخالفوں نے ابن تیمیہ کے حالات زندگی میں کتابیں لکھی ہیں۔

عصر حاضر میں عرب کے ایک مشہور مولف محمد ابو زَھرہ نے ابن تیمیہ حیاتہ و عصرہ و آرائہ و فقہہ نامی کتاب لکھی جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اور اس کے احوال زندگی کے تفصیلی اور دقیق گوشوں کے علاوہ اس کے عقائد اور نظریات کا تجزیہ و تحلیل بھی کیا گیا ہے۔

ہندوستانی دانشوروں میں ابو الحسن علی الحسنی ندوی نے بھی اردو زبان میں خاصٌ بحیاةِ شیخ الاسلام الحافظ احمد ابن تیمیہ نامی کتاب لکھی ہے، جس کا سعید الاعظمی ندوی نے عربی میں ترجمہ کیا ہے کہ جو کویت سے چھپ چکی ہے، یہ کتاب ابن تیمیہ کے حالات زندگی اور عقائد و نظریات پر مشتمل ہے۔

وہابیوں کے عقائد:

اس مقالے میں ہمارا مقصد وہابیوں کے تمام عقائد کو بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ ہم صرف ان عقائد کو بیان کریں گے کہ جنکی وجہ سے یہ لوگ مشہور ہوئے اور جن کی بناء پر دوسروں سے جدا ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے دوسرے فرقوں کے علماء نے ان کے جوابات لکھنے شروع کیے ہیں۔

1- توحید کے معنی اور کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کا مفہوم:

شیخ محمد ابن عبد الوہاب اور اس کے پیرو کاروں نے توحید اور کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں کوئی دوسرا شخص موحّد (خدا کو ایک ماننے والا) موجود ہی نہیں ہے، چنانچہ محمد ابن عبد الوہاب اس طرح کہتا ہے:

لا الہ الا اللّٰہ میں ایک نفی ہے اور ایک اثبات، اس کا پہلا حصہ (لا الہ) تمام معبود کی نفی کرتا ہے اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ہے۔

رسالہ ہدیہ طیبہ ص 82

رسالہ عقیدة الفرقة الناجیہ ص 19

کتاب العبودیہ، لابن تیمیہ ص 155

اسی طرح محمد ابن عبد الوہاب کا کہنا ہے کہ توحید وہ مسئلہ ہے کہ جس پر خداوند نے بہت زیادہ تاکید کی ہے، اور اس کا مقصد، عبادت کو صرف خداوند کریم سے مخصوص کرنا ہے۔ سب سے بڑی چیز جس سے خداوند نے منع کیا ہے، وہ شرک ہے جس کا مقصد غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دینا ہے

تفسیر روح المعانی ، آلوسی ص 45

اس سلسلہ میں مرحوم علامہ حاج سید محسن امین فرماتے ہیں کہ:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مطلق طور پر غیر خدا سے طلب حاجت کرنا یا ان کو پکارنا، ان کی عبادت نہیں ہے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے، اس بناء پر اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو پکارتا ہے تا کہ اس کے پاس جائے یا اس کی مدد کرے یا کوئی چیز اس کو دے یا اس کی کوئی ضرورت پوری کرے، اس طرح کے کام غیر خدا کی عبادت حساب نہیں ہوتے، اور کسی طرح کا کوئی گناہ بھی نہیں ہے، اور آیہ شریفہ فَلاٰ تَدْعُوا مَعَ اللّٰه اَحَداً،

(جو وہابیوں کی دلیل ہے) کا مقصد مطلق دعا نہیں ہے بلکہ جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس سے کوئی چیز طلب کر رہے ہو یا جس کو پکار رہے ہو اس کو خدا کی طرح قادر اور مختار نہ مانو۔

کشف الارتیاب ص 282

شیخ عبد الرحمن آل شیخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی خدا کی محبت میں کسی دوسرے کو خدا کا شریک قرار دے، (یعنی کسی دوسرے سے بھی محبت کرے) تو گویا اس نے دوسرے کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ہے اور اس کو خدا کی طرح مانا ہے، اور یہ وہ شرک ہے جس کو خدا معاف نہیں کرے گا، اگر کوئی شخص صرف خدا کو چاہتا ہے یا کسی دوسرے کو خدا کے لیے چاہتا ہے تو ایسا شخص موحد ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو خدا کے ساتھ دوست رکھتا ہے تو ایسا شخص مشرک ہے۔

فتح المجید ص 114

اسی طرح وہ خداوند کی صفات کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خداوند کسی بھی ایسے شخص کا محتاج نہیں ہے کہ جو بندوں کی حاجتوں کو اس سے بتائے یا اس کی مدد کرے یا بندوں کی نسبت خدا کے لطف و مہربانی کو حرکت میں لائے یا جوش دلائے۔

ثلاث رسائل ص 6

اس بناء پر وہابیوں نے قبور کی زیارتوں اور غیر خدا کے پکارنے کو ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً کوئی یہ کہے یا محمد،

اسی طرح غیر خدا کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور کے پاس نمازیں پڑھنا یا اس طرح کی دوسری چیزیں جن کو ہم بعد میں بیان کریں گے، ان سب کو شرک قرار دیا ہے، اس سلسلہ میں وہ سنی اور شیعہ کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔

محمد ابن عبد الوہاب کا نظریہ یہ تھا کہ جو لوگ عبد القادر، عروف كَرخی، زید ابن الخطاب اور زُبیر کی قبروں سے متوسل ہوتے ہیں، وہ مشرک ہیں، اسی طرح جو اہل سنت شیخ عبد القادر کو شفیع قرار دیتے ہیں، ان پر بھی بہت سے اعتراضات کیے ہیں۔

کشف الشبھات ص 40

آلوسی کا کہنا ہے کہ جو شخص حضرات علی، حسین، موسیٰ کاظم، اور محمد جواد (علیہم السلام) کے روضوں پر اور اہل سنت عبد القادر، حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ کی قبروں پر زیارت کرتے ہوئے اور قبور کے نزدیک نماز پڑھتے ہوئے اور ان سے حاجت طلب کرتے ہوئے دیکھے تو اس کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ہیں اور کفر و شرک کے سب سے بلند درجے پر ہیں۔

تاریخ نجد ص 80

اس بات کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ شیعہ اور سنی قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور وہاں پر نمازیں پڑھتے ہیں اور صاحب قبر کو وسیلہ قرار دیتے ہیں لہٰذا کافر ہیں، اسی عقیدہ کے تحت دوسرے وہابی تمام ممالک کو دار الکفر (کافر کے ممالک) کہتے ہیں اور اس ملک کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے۔

سن 1218 ہجری میں سعود ابن عبد العزیز امیر نجد اہل مکہ کے لیے ایک امان نامہ لکھتا ہے کہ جس کے آخر میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے، اس آیت کو لکھتا ہے:

قُلْ یَا اَهْلَ الْكِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰه وَلاٰ نُشْرِكَ بِهِ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْهِدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ،

اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب آؤ اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، اور اگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ہیں۔

سورہ آل عمران آیت 75

اسی طرح وہابی علماء میں سے شیخ حَمَد ابن عتیق نے اہل مکہ کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے کہ جس میں بعض استدلال کے بناء پر ان کو کافر شمار کیا ہے۔

حافظ وھبہ ص 346

شوکانی کی تحریر کے مطابق اہل مکہ بھی وہابیوں کو کافر کہتے تھے۔

البدر الطالع ج 2  ص 7

جن شہروں یا علاقوں کے لوگوں میں جو نجدی حاکموں کے سامنے تسلیم ہو جاتے تھے، ان سے قبول توحید کے عنوان سے بیعت لی جاتی تھی۔

تاریخ المملکة العربیة السعودیة، ج 1 ص 43

کلّی طور پر وہابیوں اکثر مسلمانوں کے عقائد اور ان کے درمیان رائج معاملات کو دین اسلام کے مطابق نہیں جانتے تھے۔ گویا اسی طرح کے امور باعث بنے کہ بعض مستشرقین منجملہ نیبہر اہل ڈانمارک نے گمان کیا کہ شیخ محمد ابن عبد الوہاب پیغمبر تھا۔

جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 339

نجدی مورخ شیخ عثمان ابن بشر اکثر مقامات پر وہابیوں کو مسلمانوں سے تعبیر کرتا ہے گویا فقط وہی لوگ مسلمان ہیں اور دوسرے مسلمان کافر یا مشرک ہیں۔

اسی طرح وہ کہتا ہے کہ سن 1267 ہجری میں قطر کے لوگوں کی فیصل ابن ترکی کے ہاتھوں پر بیعت، اسلام اور جماعت میں داخل ہونے کی بیعت تھی۔

عنوان المجد،  ج 2 ص 132

خلاصہ یہ ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب توحید کی طرف دعوت دیتا تھا اور جو ( اس کی بتائی ہوئی توحید کو ) قبول کر لیتا تھا، اس کی جان اور مال محفوظ ہو جاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی ہوئی توحید کو قبول نہیں کرتا تھا تو، اس کی جان و مال مباح ہو جاتے تھے۔

وہابیوں کی مختلف جنگیں، چاہے وہ حجاز کی ہوں یا حجاز کے باہر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں، اسی بنیاد پر ہوتی تھیں اور جنگ میں جس شہر پر غلبہ ہو جاتا تھا، وہ پورا شہر ان کے لیے حلال ہو جاتا تھا، ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن ہوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے، ورنہ جو مال و دولت اور غنائم جنگی ان کے ہاتھ  آتا اسی پر اکتفا کر لیتے تھے۔

جزیرة العرب ص 341

اور جو لوگ اس کی اطاعت کو قبول کر لیتے تھے، ان کے لیے ضروری تھا کہ دین خدا و رسول کو (جس طرح محمد ابن عبد الوہاب کہتا تھا) قبول کرنے میں اس کی بیعت کریں، اور اگر کچھ لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوتے تھے تو ان کو قتل کر دیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کر لیا جاتا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت مشرقی احساء کے علاقہ میں ایک دیہات بنام فَصول کے تین سو لوگوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے مال کو غنیمت میں لے لیا گیا۔ اسی طرح احساء کے قریب غُرَیْمِیْل میں بھی یہی کارنامے انجام دیئے۔

تاریخ المملکة العربیہ، ج 1 ص 51

اس سلسلہ میں اہل سنت عالم شوکانی نے لکھا ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب کے پیروکار ہر اس شخص کو کافر جانتے تھے، جو حکومت نجد میں نہ ہو یا اس حکومت کے حکام کی اطاعت نہ کرتا ہو۔

اس کے بعد شوکانی کہتا ہے کہ سید محمد ابن حسین المُراجل نے مجھ سے کہا کہ وہابیوں کے کچھ گروہ مجھے اور یمن کے حجاج کو کافر کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے مگر یہ کہ امیر نجد کی خدمت میں حاضر ہو تا کہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کے مسلمان ہو۔

البدر الطالع، ج 2 ص 5 ، 6

وہابیوں کی نظر میں وہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان، مشرک یا کافر ہو جاتا ہے:

وہابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نہیں بچتا، وہ بہت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج اور مشرک یا کافر ہو جاتا ہے، یہاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے:

1- اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور ہونے یا اپنے فائدے کے لیے تعویذ باندھے یا بخار کے لیے اپنے گلے میں دھاگا باندھے، تو اس طرح کے کام شرک کا سبب بنتے ہیں اور توحید کے بر خلاف ہیں۔

کتاب التوحید ص 121

2- محمد ابن عبد الوہاب نے عمر سے ایک حدیث نقل کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی غیر خدا کی قسم کھائے تو اس نے شرک کیا ہے،

اور ایک دوسری حدیث کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم، غیر خدا کی سچّی قسم سے بہتر ہے۔

لیکن صاحب فتح المجید اس بات کی تاویل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے، جبکہ غیر خدا کی سچی قسم شرک ہے جو گناہ کبیرہ سے زیادہ سنگین ہے۔

کتاب التوحید ص 425

3- اگر کسی شخص کو کوئی خیر یا شر پہنچا ہے، وہ اگر اسے اپنی قسمت کا نتیجہ جانے اور اس کو گالی وغیرہ دے تو گویا اس نے خدا کو گالی دی ہے کیونکہ خدا ہی تمام چیزوں کا حقیقی فاعل ہے۔

فتح المجید ص 436

4- ابو ہریرہ کی ایک حدیث کے مطابق یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اے خدا اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے یا تو چاہے تو مجھ پر رحم کر دے، کیونکہ خداوند اس بندے کی حاجت کو پورا کرنے کے سلسلہ میں کوئی مجبوری نہیں رکھتا۔

فتح المجید ص 464

یہ حدیث مسند احمد، مسند ابو ہریرہ ج 2 ص 243 میں اس طرح ذکر ہوئی ہے:

اِذَا دَعَا اَحَدُكُمْ فَلاٰ یَقُلْ: اللهم اِغْفِرْ لِی اِنْ شِئْتَ وَلٰكِنْ لِیَعْزَمْ بِالْمَسْئَالَةِ فَاِنَّهُ لاٰ مُكْرِه لَهُ،

جب تم میں سے کوئی بھی خدا سے دعا کرے تو ایسے نہ کہے: خدایا اگر تم چاہتا ہے تو مجھے بخش دے، بلکہ دعا کے بارے میں یقین و عزم رکھتا ہو، اس لیے کہ خدا کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔۔۔۔۔

5- کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے غلام اور کنیز کو عبد اور امہ کہے اور یہ کہے عبدی یا اَمَتی، کیونکہ خداوند تمام لوگوں کا پروردگار ہے اور سب اسی کے بندے ہیں اور اگر کوئی اپنے کو غلام یا کنیز کا مالک جانے، اگرچہ اس کا ارادہ خدا کے ساتھ شریک نہ بھی ہو، لیکن یہی ظاہری اور اسمی طور پر شریک ہونا، ایک قسم کا شرک ہے، بلکہ اسے چاہیے کہ عبد اور امہ کے بدلے فتیٰ (جوان لڑکا) اور فتاة (جوان لڑکی) کہہ کر پکارے۔

فتح المجید ص 466

6- جب انسان کو کوئی مشکل پیش آ جائے تو اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، کیونکہ لفظ اگر کے کہنے میں ایک قسم کا افسوس ہے اور لفظ اگر میں شیطان کے لیے ایک راستہ كُھل جاتا ہے اور یہ افسوس و حسرت اس صبر کے مخالف ہے جس کو خدا چاہتا ہے، جبکہ صبر کرنا واجب ہے اور قضا و قدر پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے۔(

فتح المجید ص 475

تو پھر موحّد کون ہے ؟

جناب مغنیہ، محمد ابن عبد الوہاب کی کتابوں اور دوسرے وہابیوں کی کتابوں سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ وہابیوں کے لحاظ سے کوئی بھی انسان نہ موحد ہے اور نہ مسلمان ! مگر یہ کہ چند چیزوں کو ترک کرے، ان میں سے چند چیزیں یہ ہیں:

ھٰذی ھی الوہابیہ ص 74

1- انبیاء اور اولیاء اللہ کے ذریعہ خدا سے توسل نہ کرے اور جب ایسا کام کرے مثلاً یہ کہے کہ اے خدا تجھ سے تیرے پیغمبر (ص) کے وسیلہ سے توسل کرتا ہوں، مجھ پر رحمت نازل فرما، تو ایسے شخص نے مشرکوں کا راستہ اپنایا ہے، اور اس کا عقیدہ مشرکوں کے عقیدہ کی طرح ہے۔

کتاب تطھیر الاعتقاد، شیخ محمد بن عبد الوہاب، ص 36

رسائل تسعۃ، ص 45

2- پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کی غرض سے سفر نہ کرے اور آنحضرت (ص) کی قبر پر ہاتھ نہ رکھے اور آپ کی قبر کے پاس دعا نہ مانگے نماز نہ پڑھے، اسی طرح آنحضرت کی قبر کے اوپر عمارت وغیرہ تعمیر نہ کرے، اور اس کے لیے کچھ نذر وغیرہ نہ کرے۔

نقل از کتاب تطھیر الاعتقاد ص 30 ، 41

3- پیغمبر اکرم (ص) سے شفاعت طلب نہ کرے، اگرچہ خداوند نے آنحضرت اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو شفاعت کا حق عطا کیا ہے لیکن ہمیں ان سے شفاعت طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

چنانچہ ایک مسلمان کے لیے یہ کہنا جائز ہے: یَا اَللّٰهُ، شَفِّعْ لی مُحَمَّداً، (اے خدا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میرا شفیع قرار دے، لیکن یہ کہنا جائز نہیں ہے یَا مُحَمَّد اِشْفَعْ لی عِنْدَ اللّٰہ، (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں۔

منشور سلطان عبد العزیز نے نقل کیا ہے کہ شیخ محمد ابن عبد الوہاب کہتا ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کو خدا سے طلب کرے، مثلاً اس طرح کہے:

اَللّٰهم لاٰ تَحْرِمْنِی شَفَاعَتَهُ، اَللّٰهم شَّفِعهُ لِی،

کشف الشبھات ص 44

اور اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتا ہے تو ایسا شخص بالکل ان بت پرستوں کی طرح ہے جو بتوں سے شفاعت طلب کرتے تھے۔

رسائل تسعۃ عملیہ ص 110 ، 114

4- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم نہ کھائے اور آپ کو نہ پکارے، آپ کو لفظ سیدنا کہہ کر نہ پکارے، اپنی زبان پر اس طرح کے کلمات جاری نہ کرے کہ یا محمد و سیدنا محمد، کیونکہ آنحضرت اور دیگر مخلوق کی قسم کھانا شرک اکبر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث ہے۔

نقل از فتح المجید ص 414

اسی طرح شیخ محمد ابن عبد الوہاب کا کہنا ہے کہ غیر خدا کے لیے نذر کرنا اور غیر خدا سے پناہ مانگنا یا استغاثہ کرنا، شرک ہے۔

کتاب التوحید ص 141

عبد العزیز کے مختصر حالات زندگی:

عبد العزیز اپنے قبیلہ کا سردار تھا، اس کے مختصر حالات اس طرح ہیں کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اور اس کا استاد محمد ابن عبد الوہاب اسی قبیلہ سے تھا، جس نے شیخ محمد بصری سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اصفہان گیا، وہاں رہ کر اس نے فقہ و اصول، نحو و صرف میں چند سال اپنی عمر گزاری اور اپنے خیال خام میں یہ سوچ لیا کہ میں تمام مذاہب کے عقائد سے آگاہ ہو گیا ہوں۔

اس کا اعتقاد یہ تھا کہ واجب تعالیٰ ایک ہے کہ جس نے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا ہے، کتابیں نازل کیں اور ان میں کوئی شک نہیں ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد صرف قرآن مجید کافی ہے اور ہر زمانے میں مذہب و ملت کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے مجتہدین موجود تھے، مثلاً ابو بکر، عمر اور عثمان اور ان کے بعد امیر المومنین حیدر کرار، اور جب شافعی، ابوحنیفہ اور حضرت امام صادق جیسی شخصیات مجتہد ہوں تو یہ حضرات کتاب خدا سے مسائل کو استنباط کرتے ہیں تا کہ عوام الناس ان پر عمل کر سکیں۔

اسی طرح اس کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ قبور پر گنبد بنانا اور ان کے لیے ہدیہ لانا اور نذر کرنا اور ان کی ضریحوں کو سونے چاندی سے زینت کرنا اور اسی طرح ان کی زیارت کرنا ان کو بوسہ دینا، یا ان کی تربت سے سجدہ گاہ بنانا اور ان پر نماز پڑھنا، یہ سب شریعت اسلام میں بدعت اور شرک ہے اور ان کاموں کا کرنے والا شخص کفار کی طرح ہے، اور ایسے لوگ اس گروہ کی طرح ہیں جن کو خداوند نے قرآن مجید میں مشرک کہا ہے جو کہ اپنے ہی ہاتھوں سے بت بناتے تھے اور ان کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ مانتے تھے اور ان کی عبادت و پرستش کیا کرتے تھے، اگرچہ وہ لوگ خدا کی وحدانیت کو قبول کرتے تھے، لیکن ان بتوں کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع اور وسیلہ قرار دیتے تھے، ان بتوں کو مستقل طور پر خدا تصور نہیں کرتے تھے، اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں اپنا اجتہاد دکھانا شروع کیا، اصفھان سے وہ اپنے قبیلہ میں چلا گیا، اور اپنے شیخ سے اسی طرح کی باتیں کہہ ڈالیں۔

اُدھر عبد العزیز چونکہ اس کے ذہن میں ریاست بسی ہوئی تھی اور یہ طے ہے کہ جس کے ذہن میں ریاست اور برتری سما جائے تو اس کے لیے یہ چیز نئے دین اور نئے مذہب کے ذریعہ جلد سے جلد حاصل ہو سکتی ہے، چنانچہ اس کی باتیں قبول ہونے لگی اور اس نے مذہب اور سنت کو ترک کر دیا اور عربوں کو اپنے اس نئے دین کی طرف دعوت دینا شروع کر دی۔

ہم نے پہلے یہ ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے محمد ابن عبد الوہاب اور محمد ابن سعود (جو کہ عبد العزیز کا باپ تھا) میں بہت زیادہ رابطہ پیدا ہوا، نہ کہ عبد العزیز اور محمد ابن عبد الوہاب میں۔

اور وہ چونکہ ائمہ علیہم السلام کے روضوں کی زیارت کو بد ترین بدعت شمار کرتا تھا، اس وجہ سے اس نے تمام روضوں کو مسمار کرا دیا اور چونکہ زائرین کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا، اس لیے ان کو قتل کرا دیتا تھا، اس نے کئی مرتبہ نجف اشرف پر بھی حملہ کا ارادہ کیا اور خیال کیا کہ نور حق (حضرت علی) کو خاموش کر دیگا لیکن خدا کی قدرت اور قبیلہ خزاعہ (خزاعل) کے لوگوں کو اطلاع ملنے نیز قلعہ کے سنگین ہونے کی بناء پر وہ حملہ ناکام رہ گیا، کیونکہ نادر شاہ افشار کے دور سے اس شہنشاہ ذی وقار (مراد فتح علی شاہ ہے) کے زمانہ تک ایرانیوں کو راحت ملی اور جن لوگوں کو شہر بدر کر دیا گیا تھا، وہ واپس لوٹ آئے اور انھوں نے بھی شہر کا دفاع کیا۔

عبد العزیز نجف اشرف پر حملہ کرنے سے ناکام رہا تو اس نے کربلائے معلی میں قتل و غارت کا پروگرام بنا لیا، اور چونکہ کربلا میں کوئی قلعہ نہیں تھا چنانچہ اس نے سعود کو 12 ہزار کا لشکر دیکر کربلا کے لیے روانہ کیا، سعود نے سن 1216 ہجری میں عید غدیر کی صبح کربلا پر حملہ کر دیا، اور تمام پیر و جوان کو تہہ تیغ کر دیا، کثیر تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے اور تمام عورتوں کو بہت ستایا البتہ ان کی آبرو ریزی نہیں کی، حضرت امام حسین کی ضریح مطہر اور صندوق منور کو توڑ ڈالا، اور وہاں کی ساری قیمتی قندیلوں، اور گرانبھا فرش نیز دیگر تمام اسباب کو غارت کر دیا، روضوں کے آئینوں کو توڑ ڈالا، یہاں تک کہ در و دیوار کو بھی ویران کر دیا، زر و جواہرات جو خزانہ خانہ میں موجود تھے، سب کو لوٹ لیا، گلی کوچوں سے خون کی ندی بہہ رہی تھی، اور ایک بار پھر وہاں روز عاشور کا سا واقعہ رونما ہو گیا، اس حادثے میں قتل ہونے والوں کی تعداد معتبر ذرائع کے مطابق 5 ہزار اور کس قدر مال و اسباب غارت کیا گیا، خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

قتل وغارت کے سات آٹھ گھنٹے بعد تمام لوٹا ہوا سامان اونٹوں پر لاد کر درعیہ شہر کی طرف لوٹ گئے۔

مآثر سلطانیہ، ص 82 تا 85

میرزا ابو طالب خان اصفہانی بھی اسی زمانے میں موجود تھا اور کربلا پر حملے کے گیارہ مہینے بعد وہ کربلائے معلی پہنچا، اس نے اس حادثہ کی روداد ان لوگوں سے سنی ہے کہ جو اس حادثہ کے عینی شاہد تھے، چنانچہ موصوف نے اس واقعہ کی تفصیل اپنے سفر نامہ میں لکھی ہے نیز مختصر طور پر وہابیوں کی تاریخ بھی ذکر کی ہے، موصوف نے لکھا ہے کہ:

اس فرقہ کا بانی محمد ابن عبد الوہاب جو نجد کا رہنے والا تھا، ابراہیم نامی شخص کے پاس جو کہ درعیہ کے ایک دیہات میں بنی حرب سے تھا، منہ بولے بیٹے کی طرح پرورش پائی، اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں ذہین اور عقلمندی میں معروف اور بہت زیادہ سخی تھا، اس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آتا تھا، اس کو اپنے ساتھیوں کو دیدیتا تھا، اس نے اپنے وطن میں عربی اور فقہ حنبلی کو پڑھا، اور اس کے بعد اصفہان کا سفر کیا اور وہاں کے مشہور و معروف حکمت کے اساتید سے کچھ تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عراق، خراسان اور غزنین کی سرحد تک سیر کی اور اپنے وطن واپس چلا گیا۔

سن 1153 ہجری سے اس نے اپنے عقائد لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کیے، شروع میں وہ اصول میں امام اعظم احمد ابن حنبل کا مقلد تھا اور فروع میں اپنے نظریہ کے مطابق عمل کرتا تھا لیکن بعد میں اس نے اصول میں بھی تقلید کرنا چھوڑ دی اور اپنی من پسند چیز پر عمل کرتا تھا اور اسی کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا تھا، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کو مشرک اور بت پرستوں کے دائرے میں مانتا تھا، بلکہ انھیں وہ عزّیٰ اور ہبل کی عبادت کرنے والے کفار سے بھی بدتر کہتا تھا، کیونکہ کفار پر جب مصیبت اور بلا نازل ہوتی ہے، تو وہ بے اختیار خالق کی طرف رجو ع کرتے ہیں، اور مسلمان مشکلات کے وقت صرف حضرت محمد مصطفی اور حضرت علی اور دیگر ائمہ (ع) اور صحابہ کو پکارتے ہیں اور عام مسلمان جو تعظیم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ کی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں ان حضرات سے توسل کو بت پرستی کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے:

ان کا یہ کام بتوں کی عبادت سے کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ بت پرست بھی مثلاً چین اور ہندوستان میں بتوں کے مجسمہ کو خالق نہیں کہتے بلکہ ان کو اپنا قبلہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے نزدیک ہمارے شفیع ہیں۔

یہی حال یہود و نصاریٰ کا بھی ہے کہ جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی تصویروں کی پرستش کرتے ہیں، خدا پرستی تو یہ ہے کہ کسی کی شرکت کے بغیر خداوند کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ نجد کے بعض قبیلے اس کے مرید ہو گئے اور آہستہ آہستہ اس کا مذہب دوسرے علاقوں میں شہرت پانے لگا۔

اس کا نظریہ تھا کہ روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبروں کو گرا دیا جائے اور جب بھی موقع ملے اس کام کو ضرور انجام دیا جائے لیکن موت نے اس کو فرصت نہ دی اور وہ یہ حسرت لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

عبد العزیز سلسلہ وہابیت کا پہلا خلیفہ اور اس کا بیٹا سعود عبد العزیز ابن سعود بھی مذکورہ ابراہیم کا پرورش کردہ تھا۔

خلاصہ یہ کہ عبد العزیز ہفتہ میں دو دفعہ محمد ابن عبد الوہاب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور اس سے دینی مسائل معلوم کرتا تھا اور اس کے فتووں کی بدولت اس نے دیگر ممالک پر چڑھائی کی اور نماز اور دوسرے احکام میں اس کی اقتدا کرتا تھا، اور اس طریقہ میں وہ ابن عبد الوہاب سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوا ہے لہٰذا اس نے بھی نجد پر اکتفاء نہ کیا بلکہ دور دراز کے علاقوں میں بھی اس فرقہ کو پھیلانے کی کوشش کی اور اس راستہ میں اپنے پیروکاروں کے لیے دوسرے فرقوں کی جان و مال اور ناموس کو بھی حلال اور مباح کر دیا،

اور ان سے یہ قول و قرار کیا کہ اگر وہ اس راستہ میں قتل ہو جائیں تو وہ خود ان کی بیوی بچوں کا کفیل ہو گا اور جنت میں جانے کی ضمانت بھی لیتا تھا، اسی لیے جب مجاہدین کو رخصت کرتا تھا تو خازن جنت کے نام ایک رقعہ لکھ کر دیتا تھا، جو اس مجاہد کے گلے میں ڈال دیا جاتا تھا، تا کہ مرنے کے فوراً بعد بغیر سوال و جواب کے جنت الفردوس میں بھیج دیا جائے، اس کے احکام اس طرح سے نافذ ہوتے تھے کہ واقعاً تعجب ہوتا ہے، وہ زمین پر بیٹھ کر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا تھا، تمام ملک کی درآمد کو صرف فوجی ضروریات پر خرچ کرتا تھا، اس کے پاس صدر اسلام کی طرح عرب کے مختلف قبیلوں پر مشتمل ایک عظیم لشکر تھا، جب بھی وہ فرمان جاری کرتا تھا سارا لشکر ثواب اور مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے فوراً تیار ہو جاتا تھا۔

خمس اس کا حصہ ہوتا تھا اور باقی تمام مال، مال غنیمت شمار کیا جاتا تھا، سبھی کم کھانے والے اور ہلکے جسم والے زحمت کش لوگ ہیں، صرف چند خرموں پر اپنا پورا دن گزار دیتے ہیں اور ایک عبا میں سالوں گزار دیتے ہیں، ان کے سب کے سب گھوڑے نجدی اور معروف و مشہور نسل کے ہوتے ہیں بلکہ نجدی گھوڑوں کو کہیں باہر نہیں جانے دیتے، وہ اب تک مکہ و مدینہ اور مسقط کے علاوہ جزیرة العرب کے تمام شہروں کو فتح کر چکا ہے، حرمین (مکہ و مدینہ) کو چھوڑنے کا سبب یہ ہے کہ چونکہ وہ خانہ کعبہ کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے۔

اسی وجہ سے ان علاقوں پر بھی عبد العزیز نے فتح حاصل کرنے کی ٹھان لی اور اپنے بیٹے سعود کو بے شمار لشکر کے ساتھ وہاں بھیجا، اس نے پہلے تو طائف کے لوگوں کا قتل عام کیا اور ان کے گھروں میں آگ لگا دی اور ایک کثیر تعداد کو اسیر کر لیا، اور چونکہ اس وقت حج کا زمانہ تھا وہاں رکا، لیکن ایک ناگہانی بلا کی طرح مکہ کو بھی فتح کرلیا، اور وہاں کے بعض متبرکہ چیزوں کو نابود کر ڈالا، اور اس کے بعد جدّہ پہنچا، وہاں پہنچتے ہی اس کا محاصرہ کر لیا، لیکن شریف ِ مکہ مخفی طریقہ سے ایک جہاز پر سوار ہو کر بحر قلزم بھاگ گیا۔

چنانچہ وہاں کے لوگوں نے کچھ مال دیکر اس سے صلح کر لی ، اور چونکہ سعود عُمّان کا ارادہ رکھتا تھا، اسی وجہ سے اس نے اسی کو غنیمت جانا اور پھر وہاں سے عمان کی طرف چلا گیا، اسی دوران شریف دوبارہ جدّہ اور مكّہ واپس چلا آیا، تھوڑے لوگ جو اس کی ولایت میں تھے، انھوں نے اس کو قتل کر دیا اور بھاگ نکلے، اس وقت سعود مسقط کی طرف بڑھا، اور وہاں کے بادشاہ سے جنگ کی، چنانچہ وہاں کی عوام الناس نے بھی اس کے مذہب کو قبول کر لیا اور اپنے بادشاہ سے بغاوت کی اور وہاں کے سلطان کا بھائی بھی وہابی ہو گیا اور اس کو امام المسلمین کا لقب دیا گیا، اور جب بادشاہ کے پاس اپنے قلعہ اور شہر کے اطراف کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا، یہ دیکھ کر سعود نے یقین کر لیا کہ یہ بادشاہ اب خود بخود تسلیم ہو جائے گا لہٰذا مزید کوئی حملہ نہ کیا، اسی طرح بصرہ اور حلّہ کے لوگوں میں وہابیوں کے خوف و وحشت کی وجہ سے رات کی نیند حرام ہو گئی، اسی طرح کربلا اور نجف میں راتوں کو لوگ پھرہ دینے لگے، اور نجف کے روضہ کی قیمتی چیزوں کو کاظمین میں لے جا کر محفوظ کر دیا گیا۔

سفر نامہ میرزا ابو طالب (مسیر طالبی) ص 409

ایک اور قدیم ایرانی کتاب کہ جس میں وہابیوں کے عقائد کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے، کتاب بستان السیاحہ تالیف حاج زین العابدین شیروانی ہے کہ جو فتح علی شاہ کے زمانہ کے مشہور و معروف صوفی تھے، موصوف نے امیر سعود ابن عبد العزیز سے نجد میں ملاقات بھی کی ہے، موصوف نے اپنی ملاقات میں اس سے وہابی مذہب کے بارے میں سوالات کیے اور سعود نے اس کے سوالوں کا جواب دیا، ہم یہاں پر بستان السیاحہ کی اصل عبارت نقل کرتے ہیں:

راقم (زین العابدین شیروانی) نے امیر سے سوال کیا کہ وہابی مذہب کی حقیقت کیا ہے اور اس فرقہ کا مُحدِّث (ایجاد کرنے والا) کون ہے ؟

امیر نے جواب میں کہا کہ وہابی مذہب کوئی نئی ایجاد نہیں ہے لیکن چونکہ محمد ابن عبد الوہاب نے اس مذہب کو رائج کیا ہے اس وجہ سے لوگوں کی زبان پر یہ بات ہے (کہ اس مذہب کا بانی محمد ابن عبد الوہاب ہے) ورنہ یہ کوئی نئا مذہب نہیں ہے بلکہ وہی سلف کا مذہب ہے، اس کا اعتقاد یہ ہے کہ خداوند کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے، اور انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی شفاعت کا عقیدہ، بے معنی ہے اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی قبروں پر گنبد بنانا بدعت ہے اور وہ چیزیں جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھیں، سب وہ بدعت اور گمراہی ہیں۔

اسی طرح انبیاء، ملائکہ اور اولیاء اللہ سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے اور جو چیز حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھی، وہ بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے مثلاً حقّہ پینا یا مردوں کو عورتوں کا لباس پہننا اور مساجد اور معابد کی زینت کرنا، اسی طرح قرآن اور دوسری کتابوں کو (سونے کے پانی سے) تذہیب کرنا، انبیاء اور اولیاء اللہ علیہم السلام کی قبروں کو مزین کرنا، لمبی داڑھی رکھنا اور کپڑوں میں عورتوں کی شبیہ بنانا، اور کسی کے سامنے اپنے سر کو جھکانا یا روضوں کو بوسہ دینا، اسی طرح ٹیکس وغیرہ لینا، بہت زیادہ لمبے یا چھوٹے کپڑے پہننا اور اسی طرح عورتوں کو زیندار گھوڑے پر سوار کرنا، یہ تمام کی تمام چیزیں بدعت ہیں۔

حقیر (زین العابدین شیروانی) نے ایک کتاب دیکھی ہے کہ جس میں وہابیوں نے اپنے مذہب کو قرآن اور احادیث کے ذریعہ سے ثابت کیا ہے۔

بستان السیاحہ ص 602

شیروانی حدائق السیاحہ ص 545

ناسخ التواریخ،

روضة الصفا،

منتظم ناصری

تاریخ آل سعود:

اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ نجد و حجاز میں وہابیت کے پھیلنے کی اصل وجہ خاندان آل سعود ہے، یہاں تک کہ آل سعود نے وہابیت کو اپنے ملک کا رسمی (سرکاری) مذہب قرار دیدیا ہے اور اسی کی مدد سے محمد ابن عبد الوہاب نے اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج شروع کی اور نجد کے دوسرے قبیلوں کو اپنا مطیع بنایا، یہ آل سعود ہی تھے کہ جس نے محمد ابن عبد الوہاب کے مرنے کے بعد اس کے عقائد اور نظریات کو پھیلانے میں اپنی پوری طاقت و دولت صرف کر دی، اور کسی بھی مشکل کے مقابلہ میں ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔

اسی وجہ سے وہابیوں کی تاریخ میں، آل سعود کی تاریخ اہم کردار رکھتی ہے، خاندان آل سعود کا تعلق ایک یہودی قبیلے، قبیلہ عَنَزَہْ سے ہے، جن کی نجد کے علاقہ میں چھوٹی سی حکومت تھی، جن کی جزیرہ نما عربستان میں کوئی حیثیت نہیں تھی، لیکن جب محمد ابن عبد الوہاب، محمد ابن سعود کے پاس گیا اور دونوں نے آپس میں ایک دوسرے کی مدد اور نصرت کرنے کا وعدہ کیا تو محمد ابن سعود کے ساتھ سعودی عرب کے دوسرے امیروں اور قبیلوں کے سرداروں میں جنگ اور لڑائیاں ہونے لگیں، عوام کی اکثریت سعودی امیر کی اطاعت کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ آل سعود کی حکومت بڑھتی چلی گئی اور نجد اور دوسرے علاقوں میں اس کا مکمل طور پر قبضہ ہو گیا اور وہابیت کے پھیلنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی۔

آل سعود کی حکومت کا آغاز:

خاندان آل سعود کا تعلق عشیرہ مقرن کے قبیلہ (عَنَزَہ یا عُنَیْزَہ) سے تھا، جو نجد اور اس کے اطراف مثلاً قطیف اور احساء میں رہتے تھے۔

سب سے پہلے ان میں سے جو شخص ایک چھوٹی سے حکومت کا مالک بنا، اس کا نام مانع تھا کیونکہ وہ یمامہ کے امیر کا رشتہ دار تھا، جس نے اس کو درعیہ کے دو علاقوں پر حاکم بنا دیا، مانع کی موت کے بعد اس کی ریاست اس کے بیٹوں کو مل گئی، چنانچہ مانع کے بعد اس کے بیٹے ربیعہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھا لی، اس نے آہستہ آہستہ اپنی حکومت کو وسیع کیا، اس کے بھی موسیٰ نام کا ایک بیٹا تھا، جو بہت ہوشیار اور بہادر تھا، چنانچہ موسیٰ نے اپنے باپ کے ہاتھوں سے حکومت چھین لی اور قریب تھا کہ اس کو قتل کر دیتا، یہاں تک کہ اس کی طاقت روز بروز بڑھتی گئی وہ اسی علاقہ کے اطراف میں موجود آل یزید کی حکومت کو گرا کر اس پر بھی قابض ہو گیا۔

دائرة المعارف اسلامی نے درعیہ میں وہابیوں (یا آل سعود) کی حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

1- وہابیت کے آغاز سے مصریوں کے حملہ تک، اس وقت درعیہ شہر دار السلطنت تھا۔

2- ترکی اور فیصل آل سعود نے دوبارہ حکومت حاصل کی، اس زمانے میں ابن رشید حائل کا حاکم تھا اور اس وقت حکومت کا مرکز ریاض تھا۔

3- سن 1902 میں جب ابن سعود نے آل رشید سے حکومت کو چھین کر اپنے قبضہ میں لے لی، چنانچہ اس وقت سے سعودی حکومت نے بہت تیزی کے ساتھ پیشرفت اور ترقی کی ہے۔

دائرة المعارف اسلامی ج 1 ص 191، عربی ترجمہ۔

محمد ابن سعود کون تھا ؟

محمد ابن سعود نے وہابیت کو پھیلانے میں بہت کوشش کی، اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ محمد ابن عبد الوہاب نے اس کو دوسرے علاقوں پر غلبہ پانے کے سنہرے خواب دکھائے تھے۔

محمد ابن سعود نے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے، حسن انتخاب اور اس راستے میں مستحکم پائیداری کا ثبوت دیا، جس کی وجہ سے وہ کبھی مشکلات کے سامنے مایوس نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کو مشکلات کا احساس ہوا، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جو لوگ ایک طولانی عرصے سے اپنے عقائد پر عمل کرتے آئے ہوں اور دوسروں کے عقائد کو باطل سمجھتے رہے ہوں، ان کے سامنے نئے عقائد کو پیش کرنا اور ان کو قبول کرانا، کوئی آسان کام نہیں تھا، اسی وجہ سے شیخ محمد ابن عبد الوہاب اور محمد ابن سعود کو شروع شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

سب سے پہلا شخص جس نے درعیہ شہر پر حملہ کیا اور محمد ابن سعود کے دو بیٹوں فیصل اور سعود کو قتل کر ڈالا، وہ دہام ابن دواس تھا۔

رسالہ شیخ عبد الرحمن آل شیخ، ج 2 ص 24

جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص 244

دائرة المعارف اسلامی، نامی کتاب نے اس بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

سن 1159 ہجری میں محمد ابن سعود نے محمد ابن عبد الوہاب سے مل کر قرب و جوار کے علاقوں پر حملہ کر دیا اور ان کے تمام مال و دولت کو غارت کرایا، ان سب چیزوں کو دیکھ ان کے دوسرے قرب و جوار کے امراء مثلاً بنی خالد (حاکم احساء) یا آل مکرّمی (حاکم نجران) نے ان سے چھیڑ خوانی شروع کی لیکن وہ پھر بھی وہابیت کی پیشرفت کو نہ روک سکے، اور اشراف مکہ بھی وہابیوں کو دین سے خارج سمجھتے تھے، لہٰذا ان کو اماکن متبرکہ کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

زینی دحلان کہتے ہیں کہ وہابیوں نے کچھ لوگوں کو شریف مسعود کے پاس بھیجا تا کہ ان کو حج کی اجازت مل جائے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے عقائد کو حرمین شریفین کے افراد کے سامنے پیش کریں، البتہ انھوں نے اس سے پہلے بھی 30 علماء پر مشتمل ایک وفد ان کے پاس بھیجا تھا تا کہ مکہ و مدینہ کے لوگوں کے عقائد کو فاسد اور باطل ثابت کیا جا سکے۔

یہاں تک کہ وہابیوں کو حج کی اجازت کے بدلے معین مقدار میں سالانہ ٹیکس دینا بھی منظور تھا، مکہ اور مدینہ کے لوگوں نے وہابیت کے بارے میں سنا تھا، لیکن ان کی حقیقت کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے تھے اور جب نجدی علماء (وہابی گروپ) مکہ پہنچے تو شریف مسعود نے حرمین کے علماء کو ان لوگوں سے مناظرہ کرنے کا حکم دیدیا، مناظرے کے بعد شریف مکہ نے اپنے قاضی شریح کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے کفر پر ایک تحریر لکھ دے، چنانچہ ان سب لوگوں کے گلے میں طوق اور پیروں میں زنجیریں ڈال کر زندان بھیج دیا گیا۔

الدرر السنیہ ص 43 ، 44

سن 1162 ہجری میں اشراف مکہ نے وہابیوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ، عثمانی بادشاہ کے سامنے پیش کی، اور یہ سب سے پہلا موقع تھا کہ عثمانی بادشاہ وہابیت سے آگاہ ہوا تھا، آخر کار محمد ابن سعود سن 1179 ہجری میں 30 سال حکومت کرنے کے بعد اس دنیا سے چل بسا۔

دائرة المعارف اسلامی ج 1 ص 191

مدینہ منورہ پر قبضہ:

سن 1220 ہجری میں سعود نے مدینہ پر بھی قبضہ کر لیا، اور روضہ رسول اکرم (ص) کی قیمتی چیزوں کو اپنے قبضے میں لے لیا، اس نے عثمانی بادشاہوں کی طرف سے مکہ اور مدینہ میں معین کیے گئے قاضیوں کو بھی شہر سے باہر نکال دیا۔

تاریخ المملکة العربیة السعودیہ، ج 1 ص 91

صلاح الدین مختار کی تحریر کے مطابق جس وقت مدینہ کی اہم شخصیات نے یہ دیکھ لیا کہ شریف غالب، سعود سے بیعت کرنے کے خیال میں ہے تو انھوں نے سعود کو پیشکش کی کہ اہل مدینہ دین خدا و رسول اکرم (ص) اور سعود کی اطاعت کو قبول کر لیں، یعنی ان کی بیعت کو قبول کر لیں، انھوں نے یہ پیش کش کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں موجود گنبدوں اور مقبروں کو گرانا شروع کر دیا۔

تاریخ المملکة العربیة السعودیہ، ج 1 ص 92

جبرتی نے سن 1220 ہجری کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: تقریباً ڈیڑھ سال تک وہابیوں نے مدینہ کو گھیرے رکھا تھا اور شہر میں کھانے پینے کی چیزوں کو نہیں جانے دیا، چنانچہ مدینہ کے افراد مجبوراً ان کے سامنے تسلیم ہو گئے۔ مدینہ پر وہابیوں کا قبضہ ہو گیا، تمباکو نوشی کو شہر میں ممنوع قرار دیدیا، پیغمبر اکرم (ص) کے گنبد کے علاوہ تمام گنبدوں اور مقبروں کو مسمار کر دیا۔

تاریخ جبرتی ج 3 ص 91

کربلا اور نجف اشرف پر وہابیوں کا حملہ:

ابتدا سے ہی آل سعود اور عراقیوں میں جو اس زمانے میں عثمانی بادشاہ کے تحت تھے، لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور وہابی عراق کے مختلف شہروں پر حملہ کرتے رہتے تھے، لیکن عراق کے دو مشہور شہر نجف اور کربلا پر حملہ کوئی عام اور سادہ نہیں تھا کہ جیسے مختلف شہروں پر ہوتا رہتا تھا، بلکہ اس حملہ کا انداز کچھ اور ہی تھا اور اس حملہ میں مسلمانوں کا قتل عام اور حضرت امام حسین (ع) کے روضہ مبارک کی توہین کے طریقہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذکورہ کاموں کا بنیادی مقصد ان کے مذہبی عقائد تھے اور وہ بھی شدت اور تعصب کے ساتھ، کیونکہ انھوں نے تقریباً دس سال کی مدت میں کئی مرتبہ ان دونوں شہروں پر متعدد حملے کیے تھے۔

ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ابن تیمیہ اور اس کے مرید اس وجہ سے شیعوں سے مخالفت اور دشمنی رکھتے تھے کہ ان کو قبروں پر حج کرنے والے یا قبروں کی عبادت کرنے والے کہا کرتے تھے اور بغیر کسی تحقیق کے ان کا گمان یہ تھا کہ شیعہ حضرات اپنے بزرگوں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا حج کرنے کی بجائے قبور کا حج کرتے ہیں، اور اسی طرح کے دوسرے امور جن کی تفصیل ہم نے پہلے بیان کی ہے۔

بہر حال چونکہ یہ دو شہر،(کربلا اور نجف اشرف) شیعوں کے نزدیک خاص اہمیت کے حامل تھے اور اب بھی ہیں، اس بناء پر ان دونوں زیارتگاہوں پر بہت بہترین، اور عمدہ گنبد بنائے گئے ہیں اور بہت سا نذر کا سامان اور بہت سی چیزیں ان روضوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں دور اور نزدیک پوری دنیا سے مومنین کرام زیارت کے لیے جاتے ہیں۔

دائرة المعارف اسلامی کی تحریر کے مطابق خزائل نامی شیعہ قبیلے کی طرف سے نجدی قبیلے پر ہوئی مار پیٹ کو انھوں نے کربلا اور نجف پر حملہ کرنے کا ایک بہانہ بنا لیا تھا۔

کربلا اور نجف پر وہابیوں کے حملے سن 1216 ہجری میں عبد العزیز کے زمانے سے شروع ہوئے اور جو 1225 ہجری تک سعود ابن عبد العزیز کی حکومت تک جاری رہے۔

ان حملوں کی تفصیل وہابی اور غیر وہابی مولفوں نے لکھی ہے ہم یہاں پر ان کی کتابوں سے بعض چیزوں کو نقل کرتے ہیں:

کربلا پر حملہ:

وہابی مولف صلاح الدین مختار نے اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ:

سن 1216 ہجری میں امیر سعود (ابن عبد العزیز) نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ نجد اور عشایر کے لوگوں کے ساتھ اور اسی طرح جنوب ،حجاز اور تہامہ وغیرہ کے لوگوں کی ہمراہی میں عراق کا رخ کیا اور ماہ ذیقعدہ کو شہر کربلا پہنچ کر اس شہر کو گھیر لیا، اور اس لشکر نے شہر کی دیوار کو گرا دیا، اور زبردستی شہر میں داخل ہو گئے، کافی لوگوں کو گلی کوچوں میں قتل کر ڈالا اور ان کا تمام مال و دولت لوٹ لیا، اور ظہر کے وقت تک شہر سے باہر نکل آئےاور ماء الابیض نامی جگہ پر جمع ہو کر غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی اور مال کا پانجواں حصہ (یعنی خمس) سعود نے لے لیا اور باقی مال کو اس طرح اپنے لشکر والوں میں تقسیم کیا کہ پیدل کو ایک اور سوار کو دو حصّے ملے۔ اس حملے میں وہابیوں نے تقریباً دو ہزار لوگوں کو قتل کیا۔

تاریخ المملکة العربیة السعودیہ، ج 1 ص 73

عنوان المجد فی تاریخ نجد، ج 1 ص 121

پھر چند صفحے بعد لکھا ہے کہ امیر عبد العزیز ابن محمد ابن سعود نے ایک عظیم لشکر کو اپنے بیٹے سعود کی سالاری میں عراق بھیجا کہ جس نے ماہ ذیقعدہ 1216 ہجری میں کربلا پر حملہ کیا تھا۔

صلاح الدین مختار نے ابن بشر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امیر سعود نے اس شہر پر حملہ کیا کہ جس شہر کا شیعوں کی نظر میں احترام کرنا بہت ضروری ہے۔

تاریخ المملکہ العربیة السعودیہ، ج 1 ص 77 ، 78

شیعوں کے عظیم عالم دین مرحوم علامہ سید جواد عاملی، نجف اشرف پر وہابیوں کے حملہ کے چشم دید گواہ ہیں، وہ وہابی مذہب کی پیدائش کے ضمن میں اس طرح فرماتے ہیں کہ:

میں نے حضرت امام حسین (ع) کے روضہ مبارک کو غارت ہوتے دیکھا تھا کہ اس وقت چھوٹے بڑوں کو قتل کر دیا گیا اور لوگوں کے مال و دولت کو لوٹ لیا گیا، خصوصاً حضرت امام حسین (ع) کے روضہ کی بہت زیادہ توہین کی گئی اور اس کو گرا دیا گیا۔

مفتاح الکرامة، خاتمہ ج 5 ص 512

روضات الجنات ج 4 ص 198

یہاں تک کہ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک ہی دن میں انھوں نے 20 ہزار لوگوں کا قتل عام کیا۔

کتاب نزہة الغری کے مولف شیخ خضر ثانی سے نقل ہوا ہے کہ وہابیوں نے حبیب ابن مظاہر کی قبر کی ضریح جو لکڑی سے بنی ہوئی تھی، کو توڑ کر اس میں آگ لگا دی اور اس سے حرم مطہر کے قبلہ کی طرف دالان میں قہوہ (چائے) بنایا، اس کے بعد حضرت امام حسین (ع) کی قبر کی ضریح کو بھی توڑنا چاہتے تھے لیکن چونکہ اس میں لوہا لگا ہوا تھا جس کی بناء پر اس کو نہ توڑ سکے۔

کتاب نزہة الغری مولف شیخ خضر ثانی، ص 52

اور جب امیر سعود کا جنگی کام ختم ہو گیا تو وہ حرم مطہر کے خزانہ کی طرف متوجہ ہوا، یہ خزانہ بہت سی نفیس اور قیمتی چیزوں سے بھرا ہوا تھا، وہ سب اس نے لوٹ لیا۔

کہا یہ جاتا ہے کہ جب ایک خزانے کے دروازے کو کھولا تو وہاں پر کثیر تعداد میں سكّے دکھائی دیئے اور ایک گوہر درخشان جس میں بیس تلواریں جو سونے سے مزین تھیں اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے اسی طرح سونے چاندی کے برتن اور فیروزہ اور الماس کے گرانبہا پتھر تھے، ان سب کو لوٹ لیا، اسی طرح چار ہزار کشمیری شال، دو ہزار سونے کی تلواریں اور بہت سی بندوقیں اور دیگر اسلحے کو غارت کر لیا۔

سید عبد الرزاق حسنی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

میں وہابیوں کے لشکر نے کہ جس میں 600 اونٹ سوار اور 400  گھوڑے سوار تھے، کربلا پر حملہ کر دیا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب اکثر لوگ نجف اشرف کی زیارت کے لیے گئے ہوئے تھے۔

حملہ آوروں نے حضرت امام حسین (ع) اور جناب عباسں (ع) کے روضوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، اور ان دونوں روضوں میں جو کچھ بھی تھا، وہ سب غارت کر دیا، اور ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ساج کی لکڑی، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں کو ایران کے وزیروں اور بادشاہوں نے بھیجا تھا، ان سب کو لوٹ لیا، اور در و دیوار میں لگے قیمتی پتھروں کو ویران کر دیا اور چھت میں لگے سونے کو بھی لے گئے اور وہاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں، قندیلوں اور شمعدانوں کو بھی غارت کر لیا۔

تاریخ کربلا وحائر حسین ص 172

العراق قدیماً وحدیثاً ص 127

حدائق السیاحہ ص 427

نزہة الغریٰ ص 52

قبروں اور روضوں کی ویرانی:

ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ وہابیوں کے قدم جہاں بھی جاتے تھے، وہاں پر موجود تمام روضوں اور مقبروں کو مسمار کر دیتے تھے، اور انھوں نے جب بھی حجاز کے شہروں پر قبضہ کیا تو وہ یہی کام انجام دیتے تھے۔

مکہ کے بعض روضوں اور مقابر کو پہلی ہی دفعہ میں قبضہ ہونے کے بعد مسمار کر چکے تھے، یہاں تک کہ حجاز کے جس علاقہ میں بھی مقبرے تھے، سب کو گرا کر خاک کر دیا، سب سے پہلے طائف میں موجود عبد اللہ ابن عباس کے گنبد کو گرا دیا،

اور اس کے بعد مکہ میں موجود حضرت عبد المطلب، پیغمبر اکرم (ص) کے دادا،

جناب ابو طالب، پیغمبر اکرم (ص) کے چچا،

جناب خدیجہ، پیغمبر اکرم (ص) کی زوجہ کے روضہ کو مسمار کیا،

اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) اور جناب فاطمہ زہرا (س) کی جائے ولادت پر بنی عمارتوں کو بھی مسمار کر دیا۔

اسی طرح شہر جدّہ میں جناب حوّا (یا جناب حوّا سے منسوب) قبر کو مسمار کر دیا۔

خلاصہ یہ کہ مکہ اور جدہ کے علاقے میں موجود تمام مزاروں کو گرا دیا، اسی طرح جب مدینہ پر ان کا قبضہ تھا تو جناب حمزہ کی مسجد اور ان کے مزار کو اور اسی طرح شہر سے باہر شہداء جنگ احد کے مقبروں کو بھی مسمار کر دیا۔

قبرستان بقیع کی تخریب:

جس وقت مدینہ منورہ پر وہابیوں کا قبضہ ہو گیا، تو مکہ معظمہ کا شیخ عبد اللّٰہ ابِن بُلْیَہِدْ وہابیوں کا قاضی القضاة، ماہ رمضان میں مدینہ منورہ آیا اور اہل مدینہ سے وہاں موجود قبروں کو منہدم کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ تمہارا اس سلسلہ میں کیا نظریہ ہے ؟

کچھ لوگوں نے تو ڈر کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا، لیکن بعض لوگوں نے ان کے گرانے کو ضروری قرار دے دیا۔

اس سلسلہ میں مرحوم علامہ سید محسن امین کہتے ہیں کہ شیخ عبد اللہ کا سوال کرنے کا مقصد، حقیقت میں سوال کرنا نہیں تھا کیونکہ وہابیوں کی نظر میں تمام روضوں کو یہاں تک پیغمبر اکرم (ص) کے روضہ مبارک کو مسمار کرنے میں کوئی شک و تردید نہیں تھی اور یہ کام تو ان کے مذہب کی اصل بنیاد تھی، اس کا سوال اہل مدینہ کی تسکین کے لیے تھا۔

سوال کا جواب ملنے پر مدینہ اور قرب و جوار کے تمام روضوں، مزارات اور ضریحوں کو ویران کر دیا گیا یہاں تک کہ بقیع میں دفن ائمہ علیہم السلام کے گنبد کو بھی ویران کر دیا گیا، جس میں جناب عباس عموئے پیغمبر اکرم بھی دفن تھے اور دیوار اور قبروں پر بنی ضریحوں کو بھی گرا دیا گیا، اسی طرح پیغمبر اکرم کے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ (ع) اور مادر گرامی جناب آمنہ (س) کے گنبدوں کو بھی توڑ ڈالا گیا، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کے گنبد، اور عثمان ابن عفان اور اسماعیل ابن جعفر الصادق (ع) کے گنبدوں، نیز امام مالک کے گنبد کو بھی منہدم اور مسمار کر دیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ مدینہ اور اس کے قرب و جوار اور ینبع میں کوئی بھی قبر باقی نہیں چھوڑی گئی۔

کشف الارتیاب ص 59 تا 61

بقیع کا قبرستان ایک وسیع قبرستان ہے، جو مدینہ کی مشرقی دیوار سے متصل ہے اور اس کے چاروں طرف پتھر سے تین گز اونچی دیوار بنی ہوئی ہے، جس کے چار دروازے ہیں، اس کے دو دروازے مغرب کی طرف ہیں اور ایک دروازہ جنوب کی طرف اور چوتھا دروازہ مشرق کی طرف ہے، جو شہر کے باہر باغ کی گلی میں ہے، اور اس قبرستان میں اتنے لوگوں کو دفن کیا گیا ہے کہ یہ قبرستان زمین سے ایک گز اونچا ہو گیا ہے، اور جس وقت حجاج آتے ہیں اس زمانہ میں قبرستان کے دروازے مغرب کے وقت تک کھلے رہتے ہیں، جو بھی جانا چاہے جا سکتا ہے، لیکن حج کے دنوں کے علاوہ جمعرات کے ظہر کے وقت کھلتا ہے اور جمعہ کے دن غروب تک کھلا رہتا ہے، اور اس کے علاوہ بند رہتا ہے، مگر یہ کہ کوئی مرجائے اور اس کو وہاں دفن کرنا ہو۔

اس قبرستان میں شیعہ اثنا عشری کے چار ائمہ علیہم السلام کی قبریں ہیں کہ جو 8 گوشوں کے ایک بڑی گنبد کے نیچے دفن ہیں، اور یہ گنبد اندر سے سفید ہے۔

اس بقعہ کے بیچ میں ایک بڑی ضریح ہے جو بہترین لکڑی سے بنی ہے اور اس بڑی ضریح کے وسط میں لکڑی کی دو دوسری ضریح بھی ہیں کہ ان دونوں ضریحوں میں پانچ حضرات دفن ہیں :

حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)

حضرت امام سجاد (ع)

حضرت امام محمد باقر (ع)

حضرت امام جعفر صادق (ع)

پیغمبر اکرم (ص) کے چچا جناب عباس، (بنی عباس انھیں کی اولاد ہیں)

اس بقعہ مبارک کے وسط میں دیوار کی طرف ایک اور قبر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جناب فاطمہ زہرا (س) کی قبر ہے۔

بقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبروں کے انہدام کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان قبروں پر قدیم زمانہ (پہلی صدی) سے گنبد، بارگاہ اور سنگ قبر موجود تھے۔

ہم نے پہلے بھی قبور پر عمارتوں کے سلسلہ میں مسعودی صاحب مروج الذھب اور سمہودی صاحب وفاء الوفاء کی عبارتوں کو ذکر کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) اور بقیع میں دفن ائمہ علیہم السلام کی قبور پر تحریر موجود تھی، اور اس بات کی تائید کہ پہلی صدیوں میں ائمہ علیهم السلام کی قبروں پر گنبد تھے۔

ابن اثیر کی وہ تفصیل ہے کہ جو اس نے سن 495 ہجری کے واقعات میں ذکر کی ہے کہ اس سال قم سے ایک معمار مجد الملک براوستانی نامی کو حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) اور عباس ابن عبد المطلب کے قبہ کی مرمت کے لیے بھیجا گیا، اور یہ شخص منظور ابن عمارہ والی مدینہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔

الکامل ج 8 ص 214

اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی سے ائمہ بقیع اور جناب عباس عموئے پیغمبر اکرم کی قبروں پر گنبد تھے، اور ان کی مرمّت کرانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طویل زمانہ سے یہ عمارتیں موجود تھیں اور خراب ہونے کی وجہ سے ان کی مرمت کی ضرورت پیدا ہوئی تھی۔

سمہودی نے بھی بقیع کی قبور کے بارے میں پہلی صدی سے دسویں صدی تک کی تفصیل بیان کی ہے:

وہ کہتے ہیں کہ جناب عباس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسن ابن علی (ع) اور بقیع میں دیگر دفن شدہ حضرات کی قبروں پر بہت اونچا گنبد ہے۔

مرحوم علامہ عاملی کے نظریہ کے مطابق وہابیوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ عالم اسلام ان کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا اور اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مطہر کو بھی مسمار کرنے میں بھی کوئی کمی اور دیر نہ کرتے۔

جابری انصاری نے اپنی کتاب تاریخ اصفھان ص 392 میں 1343 ہجری کے واقعات کے ضمن میں وہابیوں کے حجاز میں قبور کے ویران کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ حاج امین السلطنہ نے 1312 ہجری میں ائمہ بقیع علیہم السلام کی لوہے کی ضریح کو اصفہان میں بنوایا، یہ ضریح دو سال میں تیار ہوئی، اور جب وہابی لوگ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کو منہدم کرنے کے لیے آگے بڑھے تو ان میں سے کسی نے یہ آیت پڑھی:

یَا اَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاٰ تَدْخُلُوا بُیُوْتَ النَّبِی،

اے ایمان لانے والو خبر دار پیغمبر کے گھروں میں بغیر اجازت داخل نہ ہو،

سورہ احزاب آیت 53

 یہ آیت سن کر انھوں نے اس جسارت سے صرف نظر کر لی۔

کشف الارتیاب ص 60

وہابیت کے فکری سر چشمے:

وہابی فرقے کے عقائد دو طرح کے ہیں:

وہ عقائد جن کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص (دلیل) موجود ہے، اس سلسلہ میں وہابیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے عقائد کو براہ راست کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیں اور اس بارے میں کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرتے چاہے وہ مجتہد صحابی ہو یا تابعی، یا کوئی دوسرا امام ہو۔

دوسرے وہ عقائد جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے، اس کے لیے وہ اپنے خیال کے مطابق امام احمد ابن حنبل اور ابن تیمیہ کے فقہی فتووں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

لیکن ان دونوں ہی مقامات پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ تضاد گوئی کے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں، اسی وجہ سے وہ عجیب و غریب حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر چند نمونے ملاحظہ فرمایئے:

الف: وہابیوں نے بعض آیات و روایات کے جو معنی خود سمجھے ہیں، وہ اسی پر اصرار کرتے ہیں چاہے وہ اجماع امت کے سراسر خلاف ہی کیوں نہ ہوں، اسی لیے شیخ محمد عبدہ نے ان کی یہ پہچان بیان کی ہے کہ:

وہابی ہر تقلید کرنے والے سے زیادہ تنگ نظر اور غصہ ور ہیں، اسی لیے جن قواعد و ضوابط پر دین کا دار و مدار ہے، یہ ان سے تمسک کیے بغیر جس لفظ سے انہیں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے، اسی پر عمل کرنے کو واجب سمجھتے ہیں۔

الاسلام والنصرانیہ، مؤلف محمد عبدہ،ص 97

ب: وہابی اگرچہ امام احمد ابن حنبل کی پیروی کے مدعی ہیں مگر وہ اپنے ہی امام کے نظریات کے مخالف ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے مخالف کو کافر سمجھتے ہیں، جبکہ امام احمد ابن حنبل کے فتووں میں وہابیوں کو اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ملی ہے بلکہ اس کے برعکس، امام احمد ابن حنبل کے تمام نظریات ان کے دعووں کے برخلاف نظر آتے ہیں یعنی امام حنبل کسی اہل قبلہ (مسلمان) کو گناہ کبیرہ یا صغیرہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں سمجھتے مگر یہ کہ وہ بے نمازی ہو۔

العقیدة لاحمد بن حنبل، ص 120

اسی طرح ابن تیمیہ کے یہاں بھی وہابیوں کے اس عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ ابن تیمیہ سے منقول چیزوں میں تو ان کے بالکل مخالف بات نظر آتی ہے۔

اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ یہ ہیں:

جو شخص اپنے موافقین سے دوستی رکھے اور اپنے مخالفین کا دشمن ہو اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرے اور جو لوگ فکری یا اجتہادی اعتبار سے اس کے مخالف ہیں (موافق نہیں ہیں) انہیں کافر و فاسق قرار دے اور ان سے جنگ کرنے کو مباح کہے تو وہ خود اہل تفرقہ و اختلاف میں سے ہے۔

 مجموع الفتاوی، ابن تیمیہ، ج 3 ص 349

ج: قبروں اور مزاروں کی زیارت کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہے کہ خود امام احمد ابن حنبل یا ان کے ہم خیال گذشتہ اور موجودہ تمام علماء بلا استثناء، سب ایسے مشرک ہیں جن سے دور رہنا اور انہیں قتل کرنا اور ان کے اموال کو تاراج کرنا واجب ہے،

جبکہ خود ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ امام احمد ابن حنبل نے امام حسین کی قبر کی زیارت اور زائرین کے لیے کچھ ضروری آداب پر مبنی ایک رسالہ لکھا ہے۔

مزید یہ کہ ابن تیمیہ نے ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ:

امام احمد ابن حنبل کے زمانے میں لوگ امام حسین کی زیارت کے لیے کربلا جاتے تھے۔

کتاب راس الحسین، ابن تیمیہ (جو کتاب استشھاد الحسین، طبری کے ساتھ طبع ہوئی ہے) ص 209

ایک طرف وہابیوں کے عقیدے کے مطابق قبروں کی زیارت کرنا اور مزارات پر حاضری دینا، ایک ایسا شرک ہے کہ جسکے مرتکب ہونے والے کی جان و مال مباح ہے، تو دوسری طرف ابن تیمیہ اور احمد ابن حنبل کے نزدیک کچھ آداب کے ساتھ زیارت کی جا سکتی ہے۔

اب ہر عاقل شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ ان وہابیوں نے اپنے اس عقیدے میں خود امام احمد ابن حنبل اور ان کے دور کے علماء کے علاوہ ایسے تمام علماء کو مشرک، نیز ان کے خون (جان) اور مال کو مباح قرار دیا ہے کہ جو قبروں کی زیارت کے لیے جاتے تھے اور ان کی نظر میں زیارت قبور ایک مستحب عمل تھا۔

بلکہ وہابیوں کے اس عقیدے کا لازمہ تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک پوری امت مسلمہ ہی کافر ہے کہ جس میں صحابہ اور تابعین بھی شامل ہیں۔

اگر حق یہی ہے تو پھر یہ وہابی کس دلیل کی وجہ سے اپنے آپکو امام احمد ابن حنبل یا گذشتہ مسلمانوں سے وابستہ سمجھتے ہیں ؟

د: اسی طرح شفاعت پیغمبر اکرم (ص) سے متعلق وہابیت کا دوسرا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

جو شخص پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت طلب کرے، تو وہ ایک عظیم شرک کا مرتکب ہوا ہے، کیونکہ ایسے شخص نے پیغمبر اکرم کو بت بنا دیا ہے اور اس نے غیر خدا کی عبادت کی ہے، لہذا یہ وہابی ایسے شخص کے خون اور مال کو مباح جانتے ہیں۔

تطہیر الاعتقاد، صنعانی ص 7

جب کہ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین اس عمل کو انجام دیتے تھے اور ان کی دعا بھی بہت جلد مستجاب ہوتی تھی اور وہ اپنی حاجت حاصل کر لیتے تھے۔

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الزیارة پر اس بات کو صحیح قرار دیا ہے اور چند اسناد کے ساتھ اسے بالتفصیل بیہقی، طبرانی، ابن ابی دنیا، احمد ابن حنبل اور ابن سنی سے نقل کرنے کے علاوہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس بات کی دلیل اور برہان موجود ہے اگرچہ وہ اپنے نظریہ کے مطابق اس کی مخالفت پر بھی اصرار کرتا ہے لیکن پھر بھی ابن تیمیہ نے مسئلہ شفاعت کو وہابیوں کی طرح شرک اکبر نہیں قرار دیا۔

ابن تیمیہ کتاب الزیارة، ج 7، ص 6 ، 101

وہابیت اپنے اس غلط عقیدے اور مذہب کے بعد، امت مسلمہ میں کس کو مسلمان سمجھتی ہے اور اپنے اسلاف میں کس کی پیروکار باقی رہ جاتی ہے ! ؟

صحابہ کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ:

الف: پہلے یہ ذکر ہوا کہ وہابی عقائد کے مطابق اکثر صحابہ یا کافر ہیں یا مشرک ! اور اس میں وہ تمام صحابہ شامل ہیں کہ جو پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) سے شفاعت طلب کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے جاتے تھے یا اسے جائز سمجھتے تھے، یا دوسروں کو یہ اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھتے، مگر بیزاری کا اظہار نہیں کرتے تھے، حتی کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل تھے اور وہ انہیں کافر یا مشرک اور ان کی جان و مال وغیرہ کو حلال نہیں قرار دیتے تھے وہ بھی اسی حکم میں آتے ہیں !!!

لیکن یہی وہابی اپنی زبان سے صحابہ کا جو احترام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،در حقیقت اپنی ان باتوں کے ذریعہ یہ لوگ سادہ لوح عوام کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ اپنا اصل عقیدہ بیان کرنے سے ڈرتے ہیں لہذا ان کے خوف کی وجہ سے صحابہ کی تکفیر کے مسئلے کو صحیح انداز سے بیان نہیں کرتے۔

ب: وہابیوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد زندہ رہ جانے والے صحابہ کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ آنحضرت کی حیات طیبہ میں آپ کے ساتھ رہنے والے صحابہ بھی ان کی گستاخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس لیے کہ بانی وہابیت محمد ابن عبد الوہاب کے یہ الفاظ ہی‍ں کہ:

اگرچہ بعض صحابہ آنحضرت کی رکاب میں جہاد کرتے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، زکوٰة دیتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور حج کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ کافر اور اسلام سے دور تھے !!!

الرسائل العملیة التسع، مؤلف محمد ابن عبد الوہاب، رسالہ کشف الشبھات، ص 120

ج: صحابہ کے بارے میں وہابیوں کے اس عقیدہ کی تائید ان چیزوں سے بھی ہوتی ہے کہ جو ان کے علماء اور قلم کاروں نے یزید کی تعریف اور حمایت میں تحریر کیا ہے۔ جبکہ تاریخ میں یزید جیسا صحابہ کا اور کوئی دشمن نہیں دکھائی دیتا کہ جس نے صحابہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بالکل حلال کر دیا تھا، نیز یزید جیسا اور کوئی ایسا شقی نہیں ہے کہ جس نے تین دن تک اپنے لشکر کے لیے (واقعہ حرّہ میں) مدینہ کے مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو ،سب کچھ حلال کر دی تھی !!!

چنانچہ تین دنوں کے اندر مدینہ میں جو لوگ بھی مارے گئے، وہ صحابہ یا ان کے گھر والے ہی تھے اور جن عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تاراج کی گئی، ان سب کا تعلق بھی صحابہ کے گھرانوں سے ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال مدینہ کی ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے یہاں ایسے بچوں کی ولادت ہوئی جن کے باپ کا کچھ پتا ہی نہیں تھا۔

واقعہ حرّہ سے پہلے یزید کی سب سے بڑی بربریت کربلا میں سامنے آئی جب اس نے خاندان رسالت و نبوت کی اٹھارہ ہستیوں کو تہ تیغ کر ڈالا کہ جن کے درمیان آنحضرت (ص) کے پیارے نواسے اور آپ کے دل کے چین حضرت امام حسین (ع) نیز ان کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے اعزاء و اقرباء حتی چھ مہینے کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔

یزید کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مکۂ مکرمہ پر حملہ کر کے خانہ کعبہ میں آگ لگوائی تھی۔

جی ہاں!

وہابی اسی پلید یزید کے قصیدہ خواں ہیں ! اب اس کا راز کیا ہے یہ کون بتائے گا ؟

مزید تعجب یہ کہ ! یزید نماز نہیں پڑھتا تھا اور شراب پیتا تھا اور فقہ امام ابو حنیفہ کے مطابق اسے اُسکی صرف اِسی حرکت کی بناء پر اسے کافر قرار دے دینا چاہیے مگر یہ وہابی پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے ان تمام حرام کاموں سے بری قرار دیتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ یزید کی ان تمام حرکتوں کو جاننے کے باوجود یہ لوگ اسے کچھ نہیں کہتے ؟ بلکہ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے قبر پیغمبر سے شفاعت طلب کر لی یا وہ آپ کی زیارت کی نیت سے آپ (ص) کی قبر مبارک پر چلے گئے، ان کو کافر قرار دیدیا، چاہے وہ بڑے بڑے صحابہ، تابعین یا مجتہدین ہی کیوں نہ ہوں ؟

کیا یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یزید نے اصحاب پیغمبر کا خون بہایا، ان کی عزت و آبرو کو تاراج کیا اور ان کی ناموس کو ظالموں کے لیے مباح کر دیا تھا ؟!

وہابی اور مسلمان، وہابیوں کی سب سے بڑی بدعت:

وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف وہابی ہی اصل موحّد ہیں اور ان کے علاوہ بقیہ تمام مسلمان مشرک ہیں، لہٰذا انہیں یا ان کی اولاد کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا جائز ہے اور ان کے علاقے (ممالک) کفر و شرک کے علاقوں (ممالک) میں شامل ہیں۔

اس گمراہ فرقے کا عقیدہ ہے کہ جب تک کوئی مسلمان بھی رسول خدا کی مسجد یا قبر اور ان کی زیارت کی نیت سے مدینہ جائے گا یا آپ سے شفاعت طلب کرے گا، اس کے لیے ' ' لا الٰه الا اللّٰه ' ' اور ' ' محمّد رسول اللّٰه ' ' کی گواہی دینا بے فائدہ ہے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان بھی مذکورہ باتوں کا عقیدہ رکھتا ہے، وہ مشرک ہے اور اس کا شرک دور جاہلیت کے مشرکوں، بت پرستوں اور ستارہ پرستوں سے بھی بدتر ہے۔

الرسائل العلمیہ التسع، مؤلفہ: محمد ابن عبد الوہاب ، ص 79

صنعانی، تطہیر الاعتقاد ص 12، 35

فتح المجید، ص 40 ، 41

رسالہ اربع قواعد

رسالہ کشف الشبھات ،مؤلفہ محمد ابن عبد الوھاب

محمد ابن عبد الوہاب نے کتاب کشف الشبھات نامی رسالہ میں تقریباً 24 مرتبہ اپنے پیرو کاروں کے علاوہ، دوسرے تمام مسلمانوں کے لیے شرک اور مشرک جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں اور 20 مرتبہ انہیں کفار، بت پرست، مرتد، منکر توحید، دشمن توحید، دشمن خدا اور اسلام کا مدعی کہا ہے اور عبد الوہاب کے پیرو کاروں نے بھی اپنی کتابوں میں یہی سب کچھ تحریر کیا ہے۔

اس سلسلہ میں ابن حزم نے یہ بنیادی قاعدہ و قانون بیان کیا ہے کہ:

کبھی بھی کوئی مسلمان عقائد سے متعلق کسی مسئلہ میں اپنا نظریہ بیان کرنے سے نہ کافر ہوتا ہے اور نہ فاسق۔

اس کے بعد ابن حزم نے ان بزرگوں کے نام ذکر کیے ہیں کہ جو اس نظریہ کے قائل تھے، یہاں تک کہ اس نے کہا ہے کہ:

جہاں تک ہمارے علم میں ہے یہ تمام صحابہ کا قول ہے اور ہمیں اس بارے میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔

الفصل، ابن حزم، ج 2 ص 247

کتاب الیواقیت و الجواہر، شعرانی بحث نمبر 58

ابن تیمیہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ خوارج کے علاوہ کسی شخص نے کسی مسلمان کو کسی گناہ یا اپنی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا۔

ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج 13 ص 20

وہابی اور خوارج:

عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو راہ حق سے منحرف کرنے کے بارے میں وہابیوں اور خوارج کے درمیان اس درجہ شباہت پائی جاتی ہے کہ ایک محقق اور صاحب علم یہی سمجھتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں اگرچہ زمانے کے لحاظ سے ان کے درمیان کافی فاصلہ پایا جاتا ہے۔

اب آپ ان دونوں فرقوں کی شباہت کی وجہیں ملاحظہ فرمایئے:

الف : تمام مسلمانوں کے برخلاف خوارج نے یہ کہا ہے کہ: گناہ کبیرہ کرنے والا کافر ہے۔

اسی طرح وہابیوں نے بعض کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے۔

محمد ابن عبد الوہاب، کشف الشبھات

صنعانی، تطہیر الاعتقاد

ب : جس اسلامی ملک اور علاقہ میں کسی گناہ کبیرہ کا رواج ہو جائے، خوارج اس کو دار کفر اور دار حرب قرار دیتے ہیں اور رسول خدا (ص) نے کفار کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، یہ بھی ان کے ساتھ اسی سلوک کو جائز سمجھتے ہیں، یعنی ان کی جان و مال کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی علاقہ کے مسلمان پیغمبر اکرم یا دوسرے اولیائے الہٰی کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھیں اور ان سے شفاعت طلب کریں، تو وہابی بھی ان کو کافر کہتے ہیں، چاہے وہ اپنے زمانے کے سب سے صالح اور عابد انسان ہی کیوں نہ ہوں۔

گذشتہ دونوں صورتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہابیوں کا عقیدہ، خوارج کے عقیدے سے بھی بدتر ہے کیونکہ خوارج اس گناہ کو معیار قرار دیتے ہیں کہ جو تمام مسلمانوں کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے، لیکن وہابی ان باتوں کی بناء پر دوسروں کو کافر اور ایسے اعمال کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں کہ جو اصلاً گناہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور گذشتہ صالحین جیسے صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والے لوگوں کا بھی یہی عمل رہا ہے۔

ج : وہابیوں اور خوارج میں ایک شباہت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہی دینی مسائل میں بیحد شدت پسند، ہٹ دہرم، متعصب مزاج اور عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔

جب خوارج نے قرآن مجید کی اس آیت

اِنِ الحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ،

حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔

سورہ انعام آیت 57

کو دیکھا تو انہوں نے کہہ دیا: جو شخص غیر خدا کو حکومت اور فیصلے کا اختیار دے تو وہ مشرک ہے۔

مذکورہ آیت کو انہوں نے اپنا نعرہ ہی بنا ڈالا اور اس حق کلمے کا ناحق استعمال کرنے لگے۔ ان کی یہ حرکت ایک سراسر جہالت و نادانی یا ہٹ دہرمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی، کیونکہ اختلافات پیدا ہو جانے کی صورت میں فیصلہ کرنا یا کرانا قرآن و عقل اور سنت پیغمبر سے ثابت ہے اور اس بارے میں رسول اسلام اور آپ کے اہل بیت کی واضح سیرت موجود ہے۔

وہابیوں نے بھی جب ان آیتوں کو دیکھا:

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نستعین،

ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،

سورہ فاتحہ آیت 4

مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَهُ اِلَّا بِاِذنِهِ،

کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ؟

سورہ بقرہ آیت 255

و َلا یَشفَعُونَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ،

اور فرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسکو پسند کرے،

سورہ انبیاء آیت 28

تو وہابیوں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ جو شخص پیغمبر اکرم یا اولیائے الہٰی سے شفاعت طلب کرے، وہ مشرک ہے اور جو شخص پیغمبر اکرم کی زیارت کرے اور آپ سے شفاعت طلب کرے، تو اس نے آپ کی عبادت کی ہے اور آپ کو خدا قرار دے دیا ہے۔

مختصر یہ کہ وہابیوں کا نعرہ یہ ہو گیا کہ:

لا معبود اِلا اللّٰه، و لا شفاعة الا لِلّٰه،

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور شفاعت کا حق صرف خدا کو ہے۔

یہ وہ حق کلمہ ہے جس سے وہ غلط معنیٰ مراد لیتے ہیں، جو عجیب و غریب جہالت اور ہٹ دہرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جب کہ خود صحابہ اور تابعین کی سیرت سے ان چیزوں کا جواز ثابت ہے۔

د : ابن تیمیہ کا بیان ہے: خوارج کا عقیدہ وہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی، اس عقیدہ کے پیرو مسلمانوں کو کافر اور ان کا خون بہانا حلال سمجھتے تھے۔

ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج 13 ص 20

وہابیوں کی بدعت کی بھی بالکل یہی حالت ہے اور شاید یہ وہ آخری بدعت ہو کہ جو اسلام میں ظاہر ہوئی ہے۔

ھ : وہ صحیح احادیث جن میں خوارج اور ان کے خروج کا تذکرہ ہے، ان میں سے بعض وہابیت پر بھی صادق آتی ہیں، جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں پیغمبر اکرم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ:

یخرج اناس من قبل المشرق یقرأون القرآن لا یجاوز تراقیھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیة سیماھم التحلیق،

کچھ لوگ مشرق کی طرف سے خروج کریں گے جو قرآن پڑھتے ہونگے مگر وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے اس طرح باہر نکل جائیں گے کہ جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان کی پہچان سر منڈانا ہے۔

صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب 57 حدیث 7123

قسطلانی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ:

مشرق سے مراد مدینہ کا مشرقی علاقہ ہے، جیسے نجد اور اس کے بعد کا علاقہ۔

ارشاد الساری، ج 15، ص 676

نجد وہی علاقہ ہے کہ جہاں سب سے پہلے وہابیت وجود میں آئی اور یہیں سے اس نے سر ابھارا ہے، نیز سر منڈانا وہابیوں کی پہچان تھی اور یہ لوگ اپنے پیرو کاروں کو اس کا حکم دیتے تھے، حتی کہ عورتوں کو بھی یہی حکم دیتے تھے۔

ان سے پہلے کسی بھی بدعتی فرقہ کی یہ پہچان نہیں رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہابیت کی ابتدا ہوتے ہی بعض علماء نے یہ کہا تھا کہ وہابیت کے ابطال کے لیے کتاب لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کے ابطال کے لیے یہ قول پیغمبر اکرم (ص) کہ انکی پہچان سر منڈانا ہے، ہی کافی ہے، کیونکہ ان کے علاوہ دین میں بدعت پیدا کرنے والے کسی بھی فرقہ کے یہاں یہ پہچان نہیں دکھائی دیتی۔

فتنة الوہابیہ، زینی دحلان، ص 19

و : خوارج کے بارے میں پیغمبر اکرم کی یہ حدیث ہے کہ:

... یقتلون اھل الاسلام و یدعون اھل الاوثان،

مسلمانوں کو قتل کریں گے اور کافروں کو چھوڑ دیں گے،

ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج 13، ص 32

بالکل یہی حال وہابیوں کا بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اہل قبلہ پر ہی حملے کیے ہیں اور کبھی بھی کفار یا مشرکین سے کوئی جنگ نہیں کی بلکہ ان کی کتابیں جہاں اہل قبلہ سے جنگ و جدال کے ضروری ہونے کے بارے میں بھری پڑی ہیں وہاں کفار سے جہاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے !

ز : بخاری نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے خوارج کے بارے میں یہ کہا ہے کہ:

جو آیات کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، خوارج نے انہیں مومنین سے متعلق قرار دے دیا۔

صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدین باب 5

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ: خوارج کی طرح نہ ہو جانا کہ جنہوں نے اہل کتاب اور مشرکین (کفار) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تاویل، اہل قبلہ کے بارے میں کی ہے اور وہ ان آیتوں کی معرفت سے بالکل بے بہرہ رہ گئے ہیں، جس کے نتیجہ میں انہوں نے لوگوں کا مال لوٹا اور ان کا خون خرابہ کیا ہے۔

یہی وہابیوں کا بھی حال ہے کہ وہ بت پرستوں کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کا مصداق مومنین کرام کو قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی اور نرمی نہیں آئی۔

وہابیت کس کی خدمتگار ہے ؟

کیا وہابیوں نے اتنے عظیم اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے واقعاً کبھی غور و فکر سے کام لیا ہے ؟

کیا انھوں نے اسلامی ممالک کو استعماری طاقتوں سے محفوظ رکھنے کے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہے ؟

کیا اسلامی ممالک پر مغربی ملکوں کے تسلط کا وہابیوں کے اوپر کوئی اثر پڑا ہے ؟

اسلامی ممالک میں عیسائیوں اور صہیونیوں کے نفوذ اور قبضوں کے مقابلہ میں آج تک وہابیوں نے کیا کیا ہے ؟

واقعاً ! ان کی طرفداری کرنے اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر ان کا استقبال کرنے، اور مسلمانوں کی دولت کو ان کے قدموں پر نثار کرنے، نیز ان کی عزت افزائی کے علاوہ ان وہابیوں نے ابھی تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے ؟

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو انسان بھی اپنی چشم بصیرت کھول کر دیکھے گا، اسے بخوبی یہ حقیقت نظر آ جائے گی کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کے اندر وہابی حضرات استعماری طاقتوں کے سب سے پہلے خدمتگار ہیں۔

صرف یہی نہیں ! بلکہ اگر محمد ابن عبد الوہاب اور ان کے بعد پیدا ہونے والے وہابیوں کے دوسرے لیڈروں کے باقیماندہ آثار کا جائزہ لیا جائے تو ان کے یہاں قوم کی تعمیر و ترقی، معاشرے میں عدل و انصاف کے نفاذ، مظلوم کی اعانت اور جہالت سے مقابلے کا کوئی وجود نہیں ملتا۔

حتی کہ اپنی روزہ مرہ کی زندگی کی فلاح و بہبود، علمی، اقتصادی اور معاشرتی پیشرفت کے لیے ان کا کوئی مثبت اقدام نظر نہیں آتا بلکہ صرف مسلمانوں کی تکفیر، انہیں واجب القتل قرار دینے یا انہیں قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے علاوہ آپ کو ان کے یہاں کسی قسم کی بھی صلح و آشتی کا کوئی پہلو بالکل نظر نہیں آئے گا !

وہابیوں کو اگر کسی چیز سے ضد ہے تو وہ قبر اور مسجد ہے یا وہ شخص جو انہیں یہ کہتا دکھائی دے : اے رسول خدا آپ خدا کی بارگاہ میں میری شفاعت فرما دیجئے گا !!

وہابیوں کا صرف یہی ایک کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہیں ہے، یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، اسی کی بناء پر وہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، محرمات کو حلال قرار دیتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیدا کرتے رہتے ہیں اور اگر مسلمانوں کے کسی نئے علاقے پر عیسائیوں یا صہیونیوں کا قبضہ ہو جائے تو انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

صحابہ نے جناب حمزہ ابن عبد المطلب کی جو زیارت کی تھی یا انھوں نے وہاں نماز ادا کی تھی اور دوسرے مسلمان بھی آج ان کی پیروی میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ اسے دیکھ کر وہابیوں کا جتنا خون کھولتا ہے، کیا بیت المقدس، کشمیر، بوسنیا، لبنان، میانمار اور یمن کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم دیکھ کر بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے ؟

یا جس طرح سبط رسول خدا (ص) حضرت امام حسین (ع) کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے صحابہ، تابعین اور حتی امام احمد ابن حنبل کے دور میں بھی سینکڑوں میل کا سفر کر کے لوگ جاتے تھے،  اس کا نام سن کر جس طرح ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں۔ کیا اسلامی ممالک کی تیل کی دولت پر امریکی تسلط کو دیکھنے کے بعد بھی انہیں اسی طرح غصہ آتا ہے یا یہ وہابی خوشحال ہوتے ہیں ؟

جس طرح قبر پیغمبر اور انکے اہل بیت کے مزاروں پر پیش کیے جانے والے ہدایا و نذورات کو دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں، تو کیا بعض مسلم ممالک پر زبردستی لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے یا یہ وہابی خوشحال ہوتے ہیں ؟

واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ قوت و طاقت نیز فکری اور جسمانی توانائیوں کا اتنا بڑا سرمایہ ان فضول کاموں میں صرف ہو جاتا ہے اور چند جاہلوں، نادانوں اور سیدھے سادے یا پست طینت لوگوں کے علاوہ کوئی ان کی طرف دھیان بھی نہیں دیتا ہے۔

آخر وہابی ان مواقع پر اتنے جذباتی اور متعصب کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

1- سب سے پہلے ان کی محدود فکری اور تنگ نظری، کیونکہ انہیں اس کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں ہے اور ان کے ذہن میں اس کے علاوہ اور کوئی فکر پیدا ہی نہیں ہو پاتی۔

2- یہ لوگ رسم زندگی اور زمانہ کے ساتھ پیشرفت کرنے کے صحیح معنی سمجھنے سے قاصر ہیں لہذا جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے دینی، علمی اور سماجی مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے یہ اپنی انہیں قدیم روایتوں پر اڑے رہتے ہیں اور ان کی تعظیم یا انہیں تقدس کا لبادہ اوڑھانے میں افراط کا شکار ہیں، تا کہ اس طرح اپنے آپکو کو اس ترقی یافتہ دنیا سے بالاتر سمجھ سکیں۔

3- یہ تمام مسلمانوں کے بارے میں تنگ نظری اور کینہ پروری کے لیے اپنی مثال آپ ہیں یعنی یہ لوگ ان کی کوئی بھلائی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ان کے دل ، مسلمانوں کی بدخواہی سے بھرے ہوئے ہیں۔

جو شخص بھی ان کے کھوکھلے نعروں، جھوٹ اور افتراء سے مملو تہمتوں کو دیکھتا ہے تو وہ ان کی کوتاہ فکری، تنگ نظری، دشمنی اور نادانی نیز کم عقلی کا بخوبی احساس کر لیتا ہے۔

4- یہ لوگ دشمنان اسلام کے علی الاعلان دوست ہیں، جس کے لیے کسی دلیل اور ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی مغربی ممالک سے اتنی دوستی نہیں ہے جتنی گہری دوستی وہابیوں اور مغربی ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے وہابیوں نے عملی جامہ پہنایا ہے اور آج بھی وہ اس پر اڑے ہوئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی ان کا یہی پروگرام ہے۔ وہابی، مسلمانوں کی بیداری سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح اسرائیل ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ ان دونوں کا انجام انہیں کے خاتمہ سے جڑا ہوا ہے۔

وہابیت کے جواب میں لکھی جانے والی کتابوں کی فہرست:

اکثر اسلامی فرقوں کے علماء نے وہابیت کی بدعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو اس بارے میں معرفت و بصیرت دینے کے لیے، ہر دور میں مناظرے کیے ہیں اور کتاب و سنت نیز اپنے اسلاف کی سیرت اور اجتہاد کی روشنی میں ان کے عقائد کے ابطال میں متعدد کتابیں اور رسالے تالیف کیے ہیں۔

ہم اس مقام پر بعض اہم کتابوں کی فہرست اور ان کے مصنفین اور مؤلفین کے نام ذکر کر رہے ہیں:

1- الاصول الاربعة فی تردید الوہابیة، مؤلف خواجہ سرہندی۔

2- اظہار العقوق ممن منع التوسل بالنبیّ و الولیّ الصدوق، مؤلف شیخ مشرفی مالکی جزایری۔

3- الاقوال المرضیة فی الردّ علی الوہابیة، مؤلف محمد عطاء اللّٰہ۔

4- الانتصار للاولیاء الابرار، مؤلف شیخ طاہر سنبل حنفی،

5- الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة، مؤلف شیخ ابراہیم راوی۔

6- البراہین الساطعة، مؤلف شیخ سلامہ عزامی۔

7- البصائر لمنکری التوسل، مؤلف شیخ حمد اللّٰہ داجوی۔

8- تاریخ آل سعود، مؤلف ناصر السعید ،

9- تجرید سیف الجہاد لمدعی الاجتہاد، مؤلف شیخ عبد اللّٰہ بن عبد اللطیف شافعی،

10- تحریض الأغبیاء علی الاستغاثة بالأنبیاء و الأولیائ، مؤلف شیخ عبد اللّٰہ، بن ابراہیم، میر غینی،

11- تھکم المقلدین بمن ادعی تجدید الدین، مؤلف شیخ محقق، محمد، بن عبد الرحمان حنبلی،

12- التوسل بالنبیّ و بالصالحین، مؤلف ابو حامد بن مرزوق۔

13- جلال الحق فی کشف احوال شرار الخلق، مؤلف شیخ ابراہیم حلمی۔

14- الحقایق الاسلامیة فی الردّ علی المزاعم الوہابیة بأدلة الکتاب و السنة النبویة، مؤلف مالک داوود۔

15- خلاصة الکلام فی امراء البلد الحرام، مؤلف سید احمد بن زینی دحلان ،مفتی مکہ۔

16- الدرر السنیة فی الردّ علی الوہابیة، مؤلف سید احمد بن زینی دحلان مفتی مکہ۔

17- ردّ علی محمّد بن عبد الوہاب، مؤلف شیخ اسماعیل تمیمی مالکی تونسی۔

18- الردّ علی الوہابیة، مؤلف فقیہ حنبلی عبد المحسن الأشیقری۔

19- الردّ علی الوہابیة، مؤلف شیخ ابراہیم، بن عبد القادر ریاحی تونسی مالکی۔

20- رسائل فی الردّ علی الوہابیة۔

21- سعادة الدارین فی الردّ علی الفرقتین الوہابیة و مقلدة الظاہریة: شیخ ابراہیم، بن عثمان سمنودی مصری۔

22- السیف الباتر لعنق المنکر علی الأکابر، مؤلف ابو حامد مرزوق۔

23- سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار، مؤلف شاہ فضل رسول قادری۔

24- صلح الاخوان فی الردّ علی من قال بالشرک و الکفران ،مؤلف شیخ داؤود بن سلیمان بغدادی۔

25- الصواعق الالٰہیہ فی الرد علی الوہابیة، مؤلف شیخ سلیمان بن عبد الوہاب، (محمد ابن عبد الوہاب کا بھائی)

26- فتنة الوہابیة، احمد بن زینی دحلان۔

27- الفجر الصادق، شیخ جمیل صدقی زہاوی۔

28- فصل الخطاب فی الردّ علی محمّد بن عبد الوہاب، مؤلف شیخ سلیمان بن عبد الوہاب (محمد ابن عبد الوہاب کا بھائی)

29- کشف الارتیاب فی اتباع محمّد بن عبد الوہاب، مؤلف سید محسن امین۔

30- ھذہ ھی الوہابیة، مؤلف شیخ محمد جواد مَغنیہ۔

ان کے علاوہ بھی متعدد کتابیں مختلف زبانوں میں موجود ہیں کہ جن میں سے بعض کے نام ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا ہم نے اختصار کی بناء پر ان کو ہی یہاں پر ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
1 | Monarchy kasbati | | ٠٨:٢٤ - ١٢ May ٢٠٢١ |
اس میں ا٘دہ سچ اور ا٘دھ جھوٹ ہے تو جھوٹ کا گناہ ا٘پکو ہو گا

جواب:
 سلام علیکم۔۔۔
چلو جی ادھا سچ ہونے کو تو آپ مان گئے ۔۔۔۔ 
اب کیا اپ سچی باتوں میں سے بعض کی نشاندھی اور جھوٹی باتوں میں سے بعد کی نشاندھی فرمائیں گے ۔۔۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی