2024 March 19
مسائل میں گھری خوش باش قوم
مندرجات: ١٣٩٧ تاریخ اشاعت: ١٩ March ٢٠١٨ - ٠٩:٥٠ مشاہدات: 1309
خبریں » پبلک
مسائل میں گھری خوش باش قوم

اقوام متحدہ نے اہل پاکستان کو جنوبی ایشیا کی سب سے خوش رہنے والی قوم قرار دیا ہے۔ سال رواں کے لئے جاری کی گئی فہرست اگرچہ2017 میں جمع کئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے لیکن اس میں دنیا کے مختلف ملکوں کو وہاں آباد لوگوں کی سہولتوں، امیدوں ، رویوں اور سوچ کے حوالے سے  جانچا گیا ہے۔  اس فہرست میں پاکستان کو 75 واں نمبر دیا گیا ہے جو  156 ممالک کی فہرست میں تقریباً  درمیان میں ہے۔ لیکن اس جائزے میں جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں اہل پاکستان  سر فہرست ہیں ۔  پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ اور مد مقابل ملک بھارت  پاکستان سے 58 پوائنٹ پیچھے ہے اور اسے اس فہرست میں 133 واں نمبر دیا گیا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور افغانستان بھی پاکستان سے کم تر درجے پر ہیں۔  ’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘ کے نام سے شائع ہونے والے اس جائزہ  کی خاص بات یہ ہے کہ اسے حکومت کی کارکردگی یا معیشت کی بنیاد پر تیار نہیں کیا گیا بلکہ  اپنے ملک، ماحول، حالات ، آمدنی، ہمسایوں اور دیگر لوگوں سے تعلقات اور رویوں کے بارے میں عام لوگوں کی سوچ اور امید کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ یعنی اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ملک کے عوام اپنے ملک پر کتنا اعتماد رکھتے ہیں، ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور مستقبل کے  بارے میں ان کی امیدیں  کیا اور کیسی ہیں۔  اس طرح  اس رپورٹ کے مطابق اہل پاکستان اپنے حالات  اور معاملات زندگی کے بارے میں جنوبی ایشیا کے بظاہر  تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک بھارت کے مقابلے میں کہیں مثبت اور بہتر سوچ اور رویہ رکھتے ہیں۔ یہ مزاج کسی بھی قوم کی قابل قدر صلاحیت کی حیثیت رکھتا ہے اور ترقی  کرنے اور مسائل پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی درجہ بندی میں پاکستان کی اس بہتر پوزیشن کو اگر ملک میں جاری سیاسی تنازعات، میڈیا کی  پیش کردہ منفی اور مایوس کن  سماجی تصویر اور روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والی منفی سیاسی، سفارتی اور سماجی و معاشی خبروں کی روشنی میں دیکھا جائے تو  مجموعی تصویر میں واضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ملک کے سب اداروں، جن میں خاص طور سے میڈیا ور سیاسی حلقے شامل ہیں، کے لئے سیکھنے کے بہت سے اسباق ہیں۔ اسی طرح یہ درجہ بندی یہ جاننے میں بھی مدد دے سکتی ہے کہ جب لوگ پرامید اور خوش و مطمئن ہیں تو پھر تسلسل سے منفی اور مایوس کن خبریں کیوں سامنے لائی جاتی ہیں۔  اگر ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر اس رپورٹ کی روشنی میں  صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کرے اور یہ جان سکے کہ اس ملک کے عوام میں زندگی کو بہتر بنانے اور حالات بدلنے کا کتنا حوصلہ اور امنگ ہے تو وہ بھی اس مثبت اور صحتمند پیش رفت میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ اس لئے یہ  اہم ہوگا کہ  ملک کا الیکٹرانک میڈیا اس رپورٹ میں شامل کئے گئے پہلوؤں پر غور کرے اور  خبروں اور تبصروں میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کے مثبت رویہ کو بڑھاوا دینے میں کردار ادا کرے۔ اسی طرح سیاسی لیڈر حکومت کی ناکامیوں کو اچکنے اور ان کی بنیاد پر مایوس کن تصویر بنانے کی سعی لاحاصل کو ترک کرکے اگر اصل مسائل  پر توجہ  دے سکیں اور ان کے حل کے لئے تجاویز اور منشور سامنے لائیں اور عوام سے اس مقصد کے لئے تعاون  حاصل کرنے کی کوشش کریں تو  وہ  ملک و قوم کی بہتری کے ایجنڈے کو زیادہ مؤثر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت بھی اپنی صلاحیتیں اپوزیشن پارٹیوں کی ’سازشوں اور بداعمالیوں‘ کا راگ الاپ کر اپنی  صلاحتیں  ضائع کرنے کی بجائے اگر یہ سمجھ سکے کہ ملک کے عوام  پر امید اور مثبت خوبیوں کے مالک ہیں جو کسی بھی قوم کے لئے  قابل قدر صلاحیت اور خوبی ہے اور اس کا مثبت استعمال کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، تو بہتری کی طرف قدم بڑھانا آسان ہو سکتا ہے۔

اس رپورٹ کی روشنی میں  صرف یہ جان کر خوش ہونے کی بجائے کہ مطمئن رہنے کی درجہ بندی میں پاکستان اپنے ہمسایہ اور مد مقابل بھارت سے بہتر ہے، اس صلاحیت کو بڑے قومی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف حکومت اور سیاست دانوں کے مزاج اور طریقہ کار میں تبدیلی کے ذریعے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔  کسی بھی صلاحیت کو منفی یا مثبت طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح زندگی سے پر امید ہونے کی صلاحیت کے بارے میں اگر منفی رویہ اختیار کیا جائے گا اور اسے صرف حریف ملکوں سے مقابلہ بازی کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے  اچھی صلاحیتوں کو تعمیر کے مقصد سے استعمال کرنے کی باقاعدہ کوشش نہیں ہوگی تو یہ صورت حال تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اس قسم کی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہونے کی بجائے خراب بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی حد تک مثبت درجہ بندی اور اہل پاکستان کے پرامید رویہ کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو بعض اہم اور سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

ملک میں جاری سیاسی چپقلش،  اداروں کے تصادم اور سماجی مسائل پر فوکس کرنے کی وجہ سے اکثر اوقات ان مسائل پر قومی مباحث دیکھنے کو نہیں ملتے جو  یہاں آباد عوام کی خوشی، ترقی، بہبود اور بہتری کے لئے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سر فہرست   مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کا مسئلہ ہے جو اب دہشتگردی کی صورت میں ایک مہیب سائے کی صورت ملک و قوم پر مسلط ہے۔ کل ہی رائے ونڈ میں دہشت گرد حملہ نے یہ یاد دہانی کروائی ہے کہ معمولی اختلافات پر باہم گتھم گتھا عوام اور لیڈروں کو حقیقی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ خراب منصوبہ بندی ، اورحکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے  پانی کی کمی جیسے اہم مسئلہ پر عام طور سے بات نہیں کی جاتی۔   کمزور سیاسی حکومت اور قوت پکڑتے ہوئے عسکری اداروں کی موجودگی میں وسائل کو  جنگ  اور تنازعات پر صرف کرنے کا رجحان  تقویت پکڑتا رہا ہے۔ حالانکہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کسی ملک کی اصل طاقت  معاشی ترقی، لوگوں کی خوشحالی اور سماج میں اطمینان کا چلن ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ جائزہ میں اگرچہ پاکستانی عوام کی ان صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ان مثبت اشاریوں کے باوجود ملک میں منفی  رجحان موجود ہیں اور مذہبی اور سیاسی عناصر انہیں فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں۔

رپورٹ میں زندگی سے امید، معاشی امکانات کے بارے میں  حوصلہ اور ہمسایوں اور ہم نفسوں سے تعلقات کے بارے میں  پاکستانی لوگوں کے رویہ  کو جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر پایا گیا ہے۔ لیکن  اس کے ساتھ ہی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کے عوام کی ان مثبت اور تعمیری صلاحیتوں اور رویوں کو تبدیل کرنے والی منفی قوتیں بھی تسلسل سے کام  کررہی ہیں۔ نوجونوں کو گمراہ کرنے کا کام زور شور  سے ہوتا ہے۔ تعلیمی  ادارے زوال پذیر ہیں۔ سیاسی، مذہبی اور سماجی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔  صلاحیتوں کومعاشی احیا کے لئے صرف کرنے کی بجائے باہمی تنازعات اور ادارہ  جاتی تصادم میں ضائع کیا جارہا ہے۔

قوم میں خوشی اور اطمینان کی صلاحیت کے باوجود  یہ خوبیاں قومی منصوبہ کی تکمیل، عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی، سرحدوں پر امن اور ملک میں امکانات کی فراہمی کے لئے استعمال نہیں ہو رہیں۔ یہ صورت حال تبدیل کئے بغیر خوش رہنے والے لوگوں کو بھی مایوسی  کا شکار ہوتے دیر نہیں لگے گی۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات