2024 March 19
اہل سنت کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا
مندرجات: ١٠٤١ تاریخ اشاعت: ٢٦ September ٢٠١٧ - ١٣:٢٢ مشاہدات: 5918
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
اہل سنت کا امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرنا

اہل سنت حضرات کا امام حسین (ع) پر مرثیہ پڑھنا:

ابو الفرج ابن جوزی حنبلی کا مرثیہ پڑھنا:

لما أسر العباس يوم بدر سمع رسول الله (ص) أنينه فما نام ، فكيف لو سمع  أنين الحسين ؟ لما أسلم وحشي قال له : غيب وجهك عني . هذا والله والمسلم لا يؤاخذ بما كان في الكفر ، فكيف يقدر الرسول (ص) أن يبصر من قتل الحسين ؟ قوله تعالى)  ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا ( لقد جمعوا في ظلم الحسين ما لم يجمعه أحد ، ومنعوه أن يرد الماء فيمن ورد ، وأن يرحل عنهم إلى بلد ، وسبوا أهله وقتلوا الولد ، وما هذا حد دفع عن الولاية هذا سوء معتقد .  نبع الماء من بين أصابع جده فما سقوه منه قطرة.

جب پیغمبر اکرم (ص) کے چچا عباس جنگ بدر میں اسیر ہوئے تو پیغمبر اکرم نے ان کے رونے کی آواز سنی اور ان کے گریے کی آواز نے پیغمبر ص کی نیند اڑا دی، پس اگر پیغمبر امام حسین کے رونے کی آواز سنتے تو ان کی کیا حالت ہوتی ؟! جس وقت جناب حمزہ کا قاتل مسلمان ہوا، تو پیغمبر (ص) نے اس سے فرمایا: اپنا چہرا مجھ سے چھپا لے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری نگاہ تجھ پر پڑے۔ پیغمبر کا یہ رویہ اس وقت کا ہے کہ جب خدا کی قسم پیغمبر مسلمانوں سے زمانہ کفر میں انجام دئیے ہوئے کاموں کے بارے میں بھی مواخذہ نہیں کرتے تھے، ان تمام تر حالات کے باوجود پیغمبر (ص) کس طرح امام حسین (ع) کے قاتل کو دیکھتے۔ خداوند عالم فرماتا ہے: وہ شخص جو مظلوم قتل کیا گیا ہو اس کے وارثوں کو ہم نے حق قصاص دیا ہے۔ امام حسین پر اتنا ظلم کیا گیا جتنا کسی پر بھی نہیں کیا گیا، ان کو پانی سے روکا گیا، ان کو کسی دوسرے شہر نہیں جانے دیا گیا، ان کے خانوادہ کو اسیر کیا گیا، ان کے بچوں کو قتل کر دیا گیا، اتنا زیادہ ظلم اس شخص کے ساتھ نہیں کیا جاتا جو حکومت سے فردی مقابلہ کرے۔ بلکہ یہ یزید کے فاسد عقائد کی نشاندہی کرتا ہے۔ پانی تو ان کے جدّ کی انگلیوں سے بہتا تھا، مگر ایک قطرہ آب بھی اس کو نہیں دیا۔

كان الرسول (ص) من حب الحسين يقبل شفتيه ويحمله كثيرا على عاتقيه ، ولما مشى طفلا بين يدي المنبر نزل إليه ، فلو رآه ملقى على أحد جانبيه و السيوف تأخذه والأعداء حواليه والخيل قد وطئت صدره ومشت على يديه ودماؤه تجري بعد دموع عينيه لضج الرسول مستغيثا من ذلك ولعز عليه.

كربلاء ما زلت كربا و بلا   ما لقي عندك أهل المصطفي

ما أري حزنكم ينسي ولا   رزأكم يسلي ولو طال المدي

پیغمبر اکرم امام حسین کو اتنا چاہتے تھے کہ ہمیشہ آپ کے لبوں کو بوسے دیتے تھے اور آپ کو بہت زیادہ اپنے کاندھوں پر بٹھاتے تھے، اور جب امام حسین بچپنے میں منبر کے سامنے سے گزر رہے تھے، تو آنحضرت منبر سے نیچے آ گئے تھے اور امام حسین کو آغوش میں لے لیا تھا، اب اگر پیغمبر حسین کو اس عالم میں دیکھتے تھے کہ آپ (ع) کسی ایک پہلو پہ پڑے ہوئے ہیں، تلواروں نے اسے گھیر رکھا ہے، دشمن اس کے اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں، گھوڑوں نے اس کے سینے کو پامال کر دیا ہے اور ان کے ہاتھوں پر سے گزر گئے ہیں اور اس کی دونوں آنکھوں سے مسلسل اشک جاری ہیں ، تو یقینا پیغمبر اکرم بآواز بلند گریہ کرتے اور استغاثہ کرتے اور یہ ماجرا ان کے لیے بہت درد ناک ثابت ہوتا۔

اے کربلا تو ہمیشہ سختی اور بلا کے ہمراہ رہی ہے،

اہل بیت پیغمبر تمہاری وجہ سے کن کن سختیوں میں مبتلا ہوئے ہیں،

مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا غم و اندوہ فراموش کیا جا سکے گا،

اور مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا غم کبھی تسلی پائے گا،

چاہے جتنا عرصہ دراز ہی کیوں نہ گزر جائے۔

ابن جوزي ، التبصرة  ج 2، صص 16-17.

سبط ابن جوزی حنفی کی مرثیہ خوانی:

وقد سئل في يوم عاشوراء زمن الملك الناصر صاحب حلب أن يذكر للناس شيئا من مقتل الحسين فصعد المنبر وجلس طويلا لا يتكلم ثم وضع المنديل على وجهه و بكى شديدا ثم أنشا يقول وهو يبكي :

ويل لمن شفعاؤه خصماؤه    والصور في نشر الخلائق ينفخ

لا بد أن ترد القيامة فاطم     و قميصها بدم الحسين ملطخ

ثم نزل عن المنبر و هو يبكي و صعد الي الصالحية و هو كذلك

بادشاہ ناصر کے زمانے میں حلب کے گورنر نے سبط ابن جوزی سے درخواست کی کہ وہ لوگوں کے سامنے تھوڑا سا امام حسین کا مقتل بیان کرے، یعنی مصائب امام حسین بیان کریں۔ وہ منبر پر گئے اور کافی دیر خاموش رہے، پھر ایک رومال چہرے پر رکھا اور بہت شدت سے رونے لگے، اور یہ اشعار روتے روتے پڑھ رہے تھے:

اس شخص کے حال پر وائے ہو کہ جس کے شفیع اس کے دشمن ہو جائیں ۔

جب مخلوقات کو محشور کرنے کے لیے صور پھونکا جائے گا،

تو یقینا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا روز قیامت وارد ہوں گی، اس عالم میں کہ آپ کا لباس امام حسین کے خون سے آلودہ ہو گا۔

اسی گریے کے عالم میں ابن جوزی منبر سے نیچے آئے اور گریہ کرتے ہوئے مدرسہ صالحیہ چلے گئے۔

البداية والنهاية ، ج 17 ، ص 344- 245

بدر الدين العينى ، عقد الجمان في تاريخ أهل الزمان، ص 30

عبد القادر بن محمد النعيمي الدمشقي، الدارس في تاريخ المدارس، ج 1،  ص 367

عبد القادر بدران، منادمة الأطلال ومسامرة الخيال، منادمة الأطلال، ج 1، ص 155

ایک سنّی حنفی عالم کو جناب فاطمہ زہرا (س) کا امام حسین (ع) کے لیے نوحہ خوانی کرنے کا حکم:

حدثني أبي ، قال : خرج إلينا يوماً ، أبو الحسن الكاتب ، فقال : أتعرفون ببغداد رجلاً يقال له : ابن أصدق ؟ قال : فلم يعرفه من أهل المجلس غيري ، فقلت : نعم ، فكيف سألت عنه ؟ فقال : أي شيء يعمل ؟ قلت : ينوح على الحسين عليه السلام . قال : فبكى أبو الحسن ، وقال : إن عندي عجوزاً ربتني من أهل كرخ جدان عفطية اللسان ، الأغلب على لسانها النبطية ، لا يمكنها أن تقيم كلمة عربية صحيحة ، فضلاً عن أن تروي شعراً ، وهي من صالحات نساء المسلمين ، كثيرة الصيام والتهجد . وإنها انتبهت البارحة في جوف الليل ، ومرقدها قريب من موقعي ، فصاحت بي : يا أبا الحسن . فقلت : ما لك ؟ فقالت : الحقني . فجئتها ، فوجدتها ترعد ، فقلت : ما أصابك ؟ فقالت : إني كنت قد صليت وردي فنمت ، فرأيت الساعة في منامي ، كأني في درب من دروب الكرخ ، فإذا بحجرة نظيفة بيضاء ، مليحة الساج ، مفتوحة الباب ، ونساء وقوف عليها . فقلت لهم : من مات ؟ وما الخبر ؟ فأومأوا إلى داخل الدار . فدخلت فإذا بحجرة لطيفة ، في نهاية الحسن ، وفي صحنها امرأة شابة لم أر قط أحسن منها ، ولا أبهى ولا أجمل ، وعليها ثياب حسنة بياض مروي لين ، وهي ملتحفة فوقها بإزار أبيض جداً ، وفي حجرها رأس رجل يشخب دماً .

میرے والد مجھ سے نقل کرتے ہیں کہ: ایک روز ابو الحسن کاتب (کرخی) میرے پاس آئے اور کہا کہ کیا تم بغداد میں کسی ابن اصدق نامی شخص کو پہچانتے ہو ؟ اس محفل میں میرے علاوہ ان کو کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا، میں نے جواب دیا، ہاں میں ان کو پہچانتا ہوں، کیا ہو گیا ہے، جو تم ان کے بارے میں اتنی جستجو کر رہے ہو ؟ ابو الحسن نے کہا: ابن اصدق کیا کرتا ہے ؟ میں نے کہا: امام حسین کے لیے نوحہ خوانی کرتا ہے۔ اس وقت ابو الحسن کرخی رونے لگے اور فرمایا: میرے پاس ایک ضعیف خاتون ہے، جس کے ذمے بچپنے سے میری پرورش تھی، وہ کرخ جدان کے اطراف کی رہنے والی ہے، اور وہ گفتگو کرنے سے یا عربی بولنے سے قاصر ہے اور وہ عربی کا ایک کلمہ بھی صحیح طریقہ سے ادا نہیں کر سکتی، پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی شعر نقل کرے۔۔۔ نیم شب میں بیدار ہوئی، اس کے سونے کی جگہ میری جگہ سے نزدیک ہے، اس نے فریاد کی اے ابو الحسن میرے ہاس آئیں ! میں نے پوچھا کیا ہوا ہے ؟ جب میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ کانپ رہی ہے، میں نے پوچھا کیا ہوا تمہارے ساتھ ؟ اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کرخ کے ایک دروازے کے سامنے کھڑی ہوں، میں نے ایک صاف ستھرا کمرا دیکھا جس کی دیواریں سفید اور تھوڑی سرخ تھیں، دروازہ کھلا ہوا تھا اور خواتین دروازے پر کھڑی ہوئی تھیں، میں نے ان خواتین سے پوچھا کہ کون دنیا سے چلا گیا ہے ؟ آخر کیا بات ہے ؟ انہوں نے کمرے کی طرف اشارہ کیا، جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کمرا بہت خوبصورت ہے اور اس کے کمرے کے بیچ و بیچ ایک خاتون موجود ہیں جس سے نیک اور خوبصورت خاتون میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، ایک سفید رنگ کا لمبا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی اور اس کے اوپر ایک بہت ہی سفید چادر اوڑھے ہوئے تھی ، جس کے دامن میں ایک کٹا ہوا سر تھا، جس سے خون ابل رہا تھا۔

فقلت : من أنت ؟ فقالت : لا عليك ، أنا فاطمة بنت رسول الله ، وهذا رأس ابن الحسين ، عليه السلام ، قولي لابن أصدق عني أن ينوح : لم أمرضه فأسلو . . . لا ولا كان مريضا فانتبهت فزعة . قال : وقالت العجوز : لم أمرطه ، بالطاء ، لأنها لا تتمكن من إقامة الضاد ، فسكنت منها إلى أن نامت . ثم قال لي : يا أبا القاسم مع معرفتك الرجل ، قد حملتك الأمانة ، ولزمتك ، إلى أن تبلغها له . فقلت : سمعاً وطاعة ، لأمر سيدة نساء العالمين . قال : وكان هذا في شعبان ، والناس إذ ذاك يلقون جهداً جهيداً من الحنابلة ، إذا أرادوا الخروج إلى الحائر . فلم أزل أتلطف ، حتى خرجت ، فكنت في الحائر ، ليلة النصف من شعبان . فسألت عن ابن أصدق ، حتى رأيته . فقلت له : إن فاطمة عليها السلام ، تأمرك بأن تنوح بالقصيدة التي فيها : لم أمرضه فأسلو . . . لا ولا كان مريضا وما كنت أعرف القصيدة قبل ذلك . قال : فانزعج من ذلك ، فقصصت عليه ، وعلى من حضر ، الحديث ، فأجهشوا بالبكاء ، وما ناح تلك الليلة إلا بهذه القصيدة.

و أولها : أيها العينان فيضا . . . وامیرستهلا لا تغيضا

میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا: مجھے تم سے کوئی مطلب نہیں، میں پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی فاطمہ ہوں اور یہ میرے بیٹے حسین کا سر ہے، میری طرف سے ابن اصدق سے کہنا کہ وہ یہ نوحہ پڑھے کہ، میرا بیٹا مریض نہیں تھا یہ سوال کرو، اور اس واقعہ سے پہلے بھی بیمار نہیں تھا۔

ابو الحسن نے مجھ سے کہا: اے ابو القاسم جبکہ تم ابن اصدق کو پہچانتے ہو تو امانتداری سے کام لو اور اس خبر کو ابن اصدق تک پہنچا دو، میں نے جواب دیا کہ شہزادی کونین کے حکم کی اطاعت کروں گا۔ ابو القاسم تنوخی آگے فرماتے ہیں: یہ واقعہ ماہ شعبان کا ہے، جس زمانے میں لوگ جب امام حسین کی زیارت کے لیے جاتے تھے تو ان کو حنبلیوں کی طرف سے بہت مصیبتیں اٹھانا پڑتی تھیں، میں نے بہت جدوجہد کی اور آخر کار نیمہ ماہ شعبان میں حائر حسینی تک پہنچ گیا۔ پھر ابن اصدق کی تلاش میں لگ گیا۔ یہاں تک کہ میں نے ان سے ملاقات کی، میں نے ان سے کہا: جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے آپ کو ایک حکم دیا ہے کہ ( امام حسین ع پر ) ایک قصیدہ بعنوان نوحہ پڑھو جس میں مذکورہ شعر شامل ہو۔ میں نے ابن اصدق سے کہا اس واقعہ سے پہلے میں اس قصیدہ سے واقف نہیں تھا، ابن اصدق کی کیفیت بدلنے لگی۔ میں نے خواب کو بطور کامل ان کے لیے اور تمام حاضرین کے لیے نقل کیا، سب نے بہت گریہ کیا اور تمام رات اسی نوحہ کو دوہراتے رہے۔ اس قصیدہ کا پہلا شعر یہ ہے: اے دونوں آنکھوں اشک برساؤ اور خوب گریہ کرو، اس طرح کہ تمہارے آنسو خشک نہ ہونے پائیں۔

نشوار المحاضرة وأخبار المذاكرة ، ج1 ، صص 396-397؛ بغية الطلب في تاريخ حلب، ج 6 ، صص 2654-265

جناب فاطمہ زہرا (س) کا شیعہ اور سنی دونوں کو امام حسین (ع) پر نوحہ خوانی کرنے کا حکم:

قال ابن عبد الرحيم حدثني الخالع قال كنت مع والدي في سنة ست وأربعين وثلاثمائة وأنا صبي في مجلس الكبوذي في المسجد الذي بين الوراقين والصاغة وهو غاص بالناس وإذا رجل قد وافى وعليه مرقعة وفي يده سطيحة وركوة ومعه عكاز وهو شعث فسلم على الجماعة بصوت يرفعه ثم قال أنا رسول فاطمة الزهراء صلوات الله عليها فقالوا مرحبا بك وأهلا ورفعوه فقال أتعرفون لي أحمد المزوق النائح فقالوا ها هو جالس فقال رأيت مولاتنا عليها السلام في النوم فقالت لي امض إلى بغداد واطلبه وقل له نح على ابني بشعر الناشىء الذي يقول فيه :

بني أحمد قلبي لكم يتقطع    بمثل مصابي فيكم ليس يسمع 

وكان الناشىء حاضرا فلطم لطما عظيما على وجهه وتبعه المزوق والناس كلهم وكان أشد الناس في ذلك الناشىء ثم المزوق ثم ناحوا بهذه القصيدة في ذلك اليوم إلى أن صلى الناس الظهر وتقوض المجلس وجهدوا بالرجل أن يقبل شيئا منهم فقال والله لو أعطيت الدنيا ما أخذتها فإنني لا أرى أن أكون رسول مولاتي عليها السلام ثم آخذ عن ذلك عوضا وانصرف ولم يقبل شيئا

ابن عبد الرحیم کہتے ہیں کہ: مجھ سے خالع نے بیان کیا ہے کہ جب وہ چھوٹا تھا تو 236 ہجری میں اپنے والد کے ساتھ کبوذی (محدث) کی مجلس میں گیا، جو کتاب فروشی کے بازار اور صرافہ بازار کے بیچ میں تھی ، مجلس مجمعے سے بھری ہوئی تھی، اچانک ایک شخص داخل ہوا، ایک قبا اپنے دوش پر ڈالے ہوئے تھا، ایک ہاتھ میں پانی کی مشک اور کھانے کا تھیلا لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں عصا، بآواز بلند سلام کیا اور فرمایا: میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا فرستادہ ہوں، لوگوں نے کہا: خوش آمدید اور اس کا اکرام کیا، اس نے کہا: کیا آپ لوگ مجھے نوحہ خوان احمد مزوق سے ملا سکتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا: ہاں یہی تو ہے، جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، اس نے کہا: میں نے خواب میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ آپ (س) نے مجھ سے فرمایا: بغداد جاؤ اور احمد مزوق کو تلاش کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے بیٹے حسین پر نوحہ پڑھے۔ ناشی کے اس شعر کے ساتھ جس میں اس نے کہا ہے کہ:

اے احمد کے بیٹو ! میرا دل تمہارے ماتم سے پھٹ رہا ہے۔

اس ماتم کے سبب سے جو بھی میرے دل پر گزری ہے، وہ کسی بھی شخص کے بارے میں سنی نہیں گئی۔

ناشی بھی اس مجلس میں موجود تھا، اس نے اپنے چہرے پر بہت زور سے ہاتھ مارا، اس کو دہکھ کر احمد مزوق نے اور تمام حاضرین نے بھی اپنے چہروں پر مارنا شروع کر دیا اور ایک شور گریہ بلند ہو گیا۔ سب سے زیادہ ناشی اور اس کے بعد مزوق متاثر ہوئے، اس کے بعد اسی قصیدہ کے ساتھ نوحہ پڑھا گیا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آ گیا اور مجلس ختم ہو گئی اور لوگ منتشر ہو گئے۔ ان لوگوں نے بہت کوشش کی کہ آنے والا مسافر کوئی تحفہ قبول کر لے، مگر اس نے کسی بھی تحفہ کو قبول نہیں کیا، اور اس نے کہا: خدا کی قسم اگر تم لوگ ساری دنیا بھی مجھے دیدو گے تب بھی میں لینے والا نہیں ہوں، یہ مناسب نہیں ہے کہ میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیغام رساں بنوں اور اس کے بدلے میں تم سے پیسے لوں، آخر کار شہزادی کونین کا فرستادہ واپس چلا گیا اور کچھ بھی قبول نہیں کیا۔

معجم الأدباء ، ج 4 ، صص 149-150

رسول خدا (ص) کا امام حسین (ع) کے غم میں گریہ کرنا:

اہلِ سنت روایات:

حاكم نيشاپوری نے اپنی كتاب المستدرك علي الصحيحين میں لکھا ہے کہ:

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ (عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمہ (ع) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین (ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین (ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا (ص) کے پاس گئی۔ وہ حسین (ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:

ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شہید کر دے گی پھر اس نے مجھے شہادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاكم نيشاپوری نے اس حديث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

یہ حدیث بخاری اور مسلم کے نزدیک بھی صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 3، ص 176 – 177

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 196 – 197

البداية والنهاية، ابن كثير، ج 6، ص 258

اور اسی حاکم نیشاپوری نے ایک دوسری جگہ پر لکھا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل(عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

عبد الله ابن زمعہ کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآلہ وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہوئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی، جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو عراق میں شہید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے، جہاں پر حسین کو شہید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاكم نيشاپوری کہتا ہے کہ: یہ حديث بخاری و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 4، ص 398

طبرانی نے معجم كبير، ہيثمی نے مجمع الزوائد اور متقی ہندی نے كنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.

ام سلمہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) نے کہا کہ:

اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حسین (ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا (ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا (ص) نے حسین (ع) کے بوسے لینا شروع کر دئیے۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شہید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شہادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا (ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا (ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین (ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین (ع) کو شہید کرنا چاہتے تھے، تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلا ہے۔ امام حسين نے فرمایا کہ رسول اكرم (ص) نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

ہيثمی اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

اسی روایت کو طبرانی نے بھی نقل کیا ہے اور اسکے سارے راوی ثقہ ہیں۔

المعجم الكبير، الطبراني، ج 23، ص 289 – 290

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 188 – 189 و

كنز العمال، المتقي الهندي، ج 13، ص 656 – 657 و….

اسی طرح، ہيثمی مجمع الزوائد میں ، ابن عساكر تاريخ مدينہ دمشق میں، مزّی تهذيب الكمال میں  اور ابن حجر عسقلانی تهذيب التهذيب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم.

ام سلمہ سے روايت ہوئی ہے کہ: امام حسن و حسين عليہما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّي اللّه عليہ و آلہ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد (ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شہید کرے گی۔  رسول خدا صلّي اللّه عليہ و آلہ نے  گريہ کیا اور حسين عليہ السلام کو سينے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلّي اللّه عليہ و آلہ نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا (ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین (ع) شہید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلانی اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم.

اس بارے میں روايات عايشہ، زينب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامہ، انس ابن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301

تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 408 – 409

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 192 – 193

ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 252 – 253

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و…

اسی طرح ہيثمی نے ایک دوسری روايت نقل کی ہے کہ:

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا.

ابو امامہ سے روايت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے (حسین) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن رسول خدا (ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ رسول خدا (ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسين (ع) آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاہا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین (ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین (ع) نے رونا شروع کر دیا۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرائيل نے رسول خدا (ص) کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شہید کرے گی۔ رسول خدا (ص) نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شہید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی، لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شہید کر دے گی۔

جبرائيل نے زمین کربلا کی خاک رسول خدا (ص) کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شہید کیا جائے گا۔ رسول خدا (ص) غم کی حالت میں حسين (ع) کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین (ع) کو رسول خدا (ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے، اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین (ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین (ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پيغمبر اكرم (ص) نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا (ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین (ع) کو شہید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189

المعجم الكبير، الطبراني، ج 8، ص 285 – 286

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 190 – 191

ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 245 – 246 و….

نبی اکرم (ص) کی امام حسین (ع) سے محبت:

حضرت رسول خدا (ص) اپنے فرزند ارجمند امام حسین (ع) سے بے انتہاء محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کے نزدیک امام حسین کی شان اور منزلت بہت زیادہ تھی۔ اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے:

1- جابر ابن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول کا فرمان ہے کہ:

من اراد ان ینظر الی سید الشباب اھل الجنة فلینظر الی الحسین بن علی،

جو شخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چاہتا ہے تو، اسے حسین ابن علی کی طرف دیکھنا چاہیے۔

سیر اعلام النبلاء ، ج 3 ، ص 190

تاریخ ابن عساکر ، ج 13 ، ص 50

2- یعلی ابن مرۃ سے روایت ہے کہ:

ہم نبی اکرم کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے۔ تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین کھیل رہے ہیں ۔ آپ نے کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلا دئیے ، آپ مسکرا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے بیٹا ادھر آؤ ادھر آؤ یہاں تک کہ آپ نے امام حسین کو اپنی آغوش میں لے لیا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا سر  پر رکھ کر ان کے بوسے لیے اور فرمایا :

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، خدایا جو حسین سے محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔

3- یزید ابن ابو زیاد سے روایت ہے کہ : نبی اکرم عائشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے بیت الشرف کی طرف سے گزرے، تو آپ کے کانوں میں امام حسین کے رونے کی آواز آئی، تو آپ بے چین ہو گئے اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا :

الم تعلمی ان بکائہ یوذینی،

کیا تمہیں نہیں معلوم کہ حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہوتی ہے۔

مجمع الزواید ، ج 9 ، ص 201

سیراعلام النبلاء ، ج 3 ، ص 191

امام حسین (ع) پر گریہ اور عزاداری:

امام حسین اور آپ کے وفادار اصحاب پر عزاداری کرنا صرف شیعوں کے ساتھ مختص نہیں بلکہ اہل سنت بھی آپ کی شہادت پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اگرچہ اظہار غم کی کیفیت مختلف ہے لیکن قاتلین امام حسین سے بیزاری کا اعلان سب نے کیا ہے۔

رسول خدا (ص) کے دور میں امام حسین (ع) پر عزاداری:

رسول خدا (ص) کی سیرت سب مسلمانوں کیلئے نمونہ عمل ہے۔ اہل سنت آپ کی سیرت کو حجت اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک امام حسین پر عزاداری کرنے کی تاریخ کا آغاز حضور اکرم کی پاک زندگانی کے دور سے ہی ہے ۔ تاریخی شواہد کے مطابق حضرت آدم سب سے پہلی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے امام حسین کے غم میں گریہ کیا اور ولادت امام کے بعد پیغمبر اسلام  نے اپنے نواسے حسین ابن علی (ع) کی شہادت کی خبر دے کر آپ ؑ کی مظلومیت پر آنسو بہائے۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ امام حسین (ع) نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ ام سلمہ نے فرمایا : جبرائیل امین حضور اکرم کے پاس موجود تھے۔ آپ ( حسین ) میرے پاس تھے اور رونے لگے تو حضور نے فرمایا : میرے فرزند کو زمین پر چھوڑ دو ۔ میں نے آپ کو زمین پر چھوڑ دیا اتنے میں حضور نے آپ کو اپنی گود میں لے لیا۔ اس منظر کو دیکھ کر جبرائیل نے پوچھا ( یا رسول اللہ ) کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں ؟ حضور  نے جواب دیا جی ہاں ۔ جبرائیل نے فرمایا : بے شک آپ کی امت اس کو قتل کر دے گی ، کیا حسین کو قتل کیے جانے والی سرزمین کی مٹی دیکھنا چاہتے ہیں ؟ حضور نے فرمایا : کیوں نہیں ۔ اتنے میں جبرائیل نے اپنا پر کھول دیا اور سرزمین کربلا کو دکھایا ۔۔۔ حضور اکرم (ص) اس حالت سے نکل گئے ؟ حالانکہ آپ کے ہاتھوں میں سرخ مٹی تھی۔

تاریخ طبری ، ج 4 ، ص 304 ،

تذکرہ سبط ابن جوزی ، ص 138 ، باب 19

سبط ابن جوزی ، تذکرۃ الخواص ، تحقیق بحر العلوم ، ص 250

ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی ، الشافعی ، احمد بن عبد اللہ ، ص 146۔ 164

اہل سنت کے معروف تاریخ نگار ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ:

امام علی نے صفین کے ایک سفر میں کربلا سے عبور کیا۔ جب قریہ نینوا تک پہنچے تو ان سے پوچھا گیا کہ یہ جگہ کونسی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کربلا ، کربلا کا نام سنتے ہی امام رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے آنسو سے زمین تر ہو گئی۔ پھر آپ نے فرمایا : ایک دن میں حضور اکرم کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ اس وقت آپ رو رہے تھے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کو کیا چیز رُلا رہی ہے ؟ آپ نے فرمایا : چند لمحے پہلے جبرائیل امین میرے پاس تھے اور مجھے خبر دی کہ فرات کے کنارے میرا فرزند حسین قتل ہو جائے گا، جس کو کربلا کہا جاتا ہے پھر جبرائیل نے ایک مٹھی بھر مٹی مجھے دی جس کو سونگھ کر اپنے آنسو کو نہیں روک سکا۔

ابن حجر عسقلانی ، احمد ، تھذیب التھذیب ، بیروت ، دار صادر ، ج 2 ، ص 300

ابن جوزی ، تذکرۃ الخواص ، مقدمہ محمد صادق بحر العلوم،  ص 250  

ھیثمی ، مجمع الزواید ، ج 9 ، ص 187

عبد اللہ ابن وہب زمعہ سے روایت ہے کہ:

ام سلمہ نے مجھے خبر دی کہ رسول خدا ایک رات آرام فرما رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں اٹھے، پھر وہ دوبارہ لیٹ گئے اور آپ کو نیند آ گئی، پھر مضطرب اور پریشان ہو کر دوبارہ اٹھ گئے۔ اس دفعہ آپ کی پریشانی اور اضطراب پہلے کی نسبت زیادہ تھا۔ تیسری مرتبہ پھر لیٹے اور اچانک نیند سے اٹھ گئے جبکہ آپ  کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی تھی اور سونگھ رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول ! یہ مٹی کیا ہے ؟ حضور  نے جواب دیا : جبرائیل امین نے مجھے پیغام دیا ہے کہ اس کو امام حسین کی طرف اشارہ کیا، سرزمین عراق میں قتل کیا جائے گا ۔ میں نے جبرائیل سے کہا کہ اس سرزمین کی مٹی مجھے دکھا دو جہاں میرا حسین شہید ہو گا اور یہ مٹی اسی سرزمین کی ہے۔

الحاکم النیشابوری ، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، بیروت دارالکتاب العلمیہ ، 1411ھ ق ، ج 4 ، ص 440

الطبرانی ، ابو احمد ، المعجم الکبیر ، ج 3 ، ص 109

مندرجہ بالا اور دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کی نظر میں امام حسین (ع) کی شہادت کی پیشگوئی خود رسول اکرم (ص) سے ہوئی ہے، جبکہ آنحضرت، آپ کی زوجات اور امام علی (ع) امام حسین کی سوگواری میں آنسو بہا چکے ہیں۔

عاشورا کے بعد سب سے پہلی عزاداری:

عاشورا کے بارے میں قدیمی ترین مکتوب اسناد کے مطابق اہل سنت اور شیعوں کی عزاداری حادثہ عاشورا کے فورا بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں یوں لکھا ہے کہ:

یزید کے لشکر نے جب امام حسین کے خاندان والوں کو قتلگاہ سے عبور کرا دیا، تو آپ کی بہن زینب نے اپنے بھائی کے بے سر بدن کو خون میں نہائے ہوئے دیکھ کر فریاد کی: وامحمداہ ، یا محمداہ ، تیرے اوپر آسمان کے فرشتوں کا درود و سلام ہو یہ تیرا حسین ہے، جو اس صحراء میں اپنے خون میں نہایا ہوا پڑا ہوا ہے اور اس کے بدن کے اعضاء کٹے ہوئے ہیں، یا محمداہ تیری بیٹیاں اسیر ہوئی ہیں اور تیرے بیٹوں کے سر کاٹے گئے ہیں ۔۔۔

طبری نے لکھا ہے کہ جب زینب سلام اللہ علیہا نے ان کلمات کو ادا کیا تو وہاں پر موجود دوست اور دشمن رونے لگے۔

طبری ، ابو جعفر محمد بن جریر ، تاریخ الامم والملوک ، تحقیق : ابوالفجل ابراہیم ، ج 5 ، ص 456

اس کتاب میں امام حسین (ع) کے مشہور دشمنوں میں سے ایک دشمن کے گھر میں عزاداری قائم ہونے کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ:

جب خولی ابن یزید ازدی نے امام کے سر مبارک کو عمر سعد سے اس لیے لیا تا کہ وہ کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد کو خوشخبری دے کر انعام دریافت کرے اور وہ سب سے پہلے کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب کوفہ دار الامارہ پہنچا تو دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس لیے اپنے گھر جا کر امام کے سر مبارک کو تنور یا صندوق میں رکھ دیا ۔ رات کو جب اس کی بیوی کو معلوم ہوا کہ امام حسین کا سر مبارک تنور میں رکھا ہوا ہے، تو  آہ و نالہ کرتے ہوئے اس نے حادثہ عاشورا اور امام کی مظلومیت پر روتے ہوئے گھر چھوڑ دیا۔

 طبری ، ابو جعفر محمد بن جریر ، تاریخ الامم والملوک ، تحقیق : ابوالفجل ابراہیم ، ج 5 ، ص 456

عزاداری امام حسین (ع) اہل سنت کے شعراء کی نگاہ میں :

حادثہ عاشورا کے بعد،شعراء کی کثیر تعداد نے شعر و شاعری کی صورت میں امام حسین پر عزاداری کی ہے، البتہ بعض شعراء مشہور ہیں اور بعض نامعلوم جس کی وجہ امویوں کا علویوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا ہے۔ طبری نے اپنی کتاب تاریخ الامم والملوک میں یوں نقل کیا ہے کہ:

ایهاالقاتلون جهلاحسینا            ابشروابالعذابوالتنکیل

کل اهلالسماء یدعو علیکم       من نبی و ملائک و قبیل قد

لعنتم علی لسان ابن داؤد        موسی و حامل الانجیل

ترجمہ: اے حسین کے قاتلو ! تمہارے لیے  عذاب اور درد کی خبر ہے ، سارے آسمان والے ، پیغمبر اور فرشتے تم کو نفرین کرتے ہیں اور اس سے پہلے فرزند داؤد اور کتاب مقدس انجیل کو لانے والے موسی کی زبان سے تم پر لعنت ہوئی ہے۔

طبری ، ابو جعفر محمد بن حریر ، تاریخ الامم والملوک ، ج5 ، ص467

خالد ابن معدان ان شعراء میں سے ہے جو اہلبیت کو سرزمین شام میں لانے کے بعد امام حسین اور شہداء کربلا کی مظلومیت سے متأثر ہوا۔ وہ اہل سنت کے نزدیک بزرگ تابعی شمار ہوتا ہے۔ واقعہ عاشوراء کے بعد جب اسیروں کے آگے آگے شہداء کربلا کے مبارک سر نیزوں پر رکھ کر شام میں داخل کیے گئے، تو خالد ابن معدان انتہائی غمگین ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ایک مہینے تک لوگوں سے دور رہ کر عزاداری اور ماتم میں مشغول رہا۔ جب خالد کے دوستوں نے اس کو پایا تو یہ اشعار کہنے لگا:

جاؤهبرأسک یابن بنت محمد         مترملاً بدمائه ترمیلاً

وکانما یاابن بنت محمد            قتلوا جهاداً عامدین رسولا

قتلوک عطشانا ولمایرقبوا          فی قتلک التاویل والتنزیلا

و یکبرون بان قتلت و انما        قتلوا بک التکبیر والتهلیلا(13)

ترجمہ : اے دختر محمد کے دلبند (بنی امیہ) آپ کے سر مبارک کو لے کر ( سرزمین شام ) آئے حالانکہ ( آپ کا سر مبارک ) اپنے خون میں آغشتہ تھا ۔ اے بنت محمد کے دلبند آپ کے قتل سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر رسول اکرم کو قتل کر دیا ہے ۔ آپ کو تشنہ لب شہید کر دیا اور آپ کو قتل کرنے میں کسی آیت کی تاویل یا تنزیل کا خیال تک نہیں رکھا اور (دشمنوں نے) آپ کو قتل کرتے ہوئے تکبیر کہی ، بے شک انہوں نے آپ کے قتل سے تکبیر اور تہلیل کو قتل کیا ہے ۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکورہ اشعار جیسے بہت شعر کہے جا چکے ہیں، لیکن ہم اس مختصر تحریر میں اس سے زیادہ ذکر نہیں کر سکتے۔

الموصلی ، شرف الدین ، مناقب آل محمد ( النعیم المقیم لعترۃ النبا العظیم ، تحقیق ، العالمہ سید علی ، ص 104 ، عاشوری ، بیروت ، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات،

عزاداری کی موجیں :

جناب شرف الدین موصلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ: جب اس مصیبت (واقعہ عاشورا) کی خبر سارے شہروں اور علاقوں تک پہنچ گئی، تو وہاں پر سوگواری بھی زیادہ ہو گئی ۔۔۔ حسن بصری کا بدن زیادہ رونے کی وجہ سے لرزتا تھا اور کہتا تھا : پیغمبر اکرم کی امت کیلئے کتنی عار اور شرم ہے کہ ایک حرام زادہ ، پیغمبر  کے بیٹے کو قتل کر دے!

الموصلی ، شرف الدین ، مناقب آل محمد ( النعیم المقیم لعترۃ النبا العظیم ، تحقیق ، العالمہ سید علی ، ص 104 ، عاشوری ، بیروت ، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات،

اس کے بعد جناب موصلی صاحب نے اہلبیت کے مصائب ،  یزید کے لشکر کا شہداء کربلا کے اجساد کو بے لباس کر کے ان پر گھوڑے دوڑانے کا  تذکرہ کر کے کہتا ہے : سبق حاصل کرتے ہوئے حسن اور حسین پر رونا چاہیے۔

اہل سنت کے تاریخ نگار اور عاشورا کا تذکرہ :

تیسری صدی ہجری میں عباسیوں کی طرف سے تعلیمات اہلبیت اور امام حسین کی یاد منانا خصوصا عاشورا کی مناسبت سے عزاداری کرنے کی شدید مخالفت ہوئی، یہاں تک کہ متوکل عباسی نے 236 ہجری کو روضہ اقدس امام حسین کی تخریب کر کے اس پر پانی کھول دیا ۔ اس طرح امام کے زائرین اور عزاداروں کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا ۔

اہل سنت کے تاریخ نگاروں نے امام حسین (ع) اور آپ کے محبّوں کے مصائب کو تاریخ کی شکل میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح حادثہ کربلا سینوں سے کتابوں تک منتقل ہو کر زندہ جاوید ہو گیا ہے۔

اسلامی دانشمندوں میں سے جناب محمد ابن جریر طبری نے حادثہ عاشورا کو ، نقل کرنے میں صرف ابو مخنف پر اکتفاء نہیں کیا ہے، بلکہ اہل بیت کی اسیری ، کوفہ کے واقعات اور عبید اللہ ابن زیاد کے دربار میں لوگوں کا رونا ، اور شام میں پیش آنے والے واقعات کو بھی بیان کیا ہے، جیسے دربار شام میں یزید کا سر مبارک امام حسین کی جسارت کرنا ، دربار میں موجود لوگوں کا یزید سے نفرت کرنا ، بعض شامیوں کا  اہل بیت سے ہمدردی کر کے عزاداری اور اشک بہانے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ گویا طبری کے اس کام کو مقتل نگاری بھی کہہ سکتے ہیں۔

طبری ، محمد بن جریر ، تاریخ الامم والملوک ، ج 5 ، ص 465

خلاصہ:

تمام مذکورہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد سے اب تک شیعیان کے ساتھ ساتھ اہل سنت بھی مختلف طریقوں سے امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کرتے رہے ہیں۔ آج ہم اپنے زمانے میں بھی بعض علاقوں میں محرم کے ایام میں اہل سنت کو امام حسین (ع) پر اشک بہاتے اور انکا غم مناتے دیکھتے ہیں، لیکن فقط اور فقط بنی امیہ کی اولاد یعنی وہابی، اسلام، رسول خدا (ص) آئمہ معصومین (ع) سے بغض اور کینے کی وجہ سے، عزاداری کو ناجائز اور بدعت قرار دیتے ہوئے، طرح طرح کے فتوے دیتے ہیں۔ اسلام کے دشمنوں وہابیوں کا مقصد صرف اہل بیت سے دشمنی کرنا اور شجرہ ملعونہ بنی امیہ سے اپنی وفاداری کو ثابت کرنا ہے، لیکن اہل بیت نور خداوند ہیں اور خداوند اپنے نور کو مکمل کر کے ہی رہے گا۔ یہ خداوند کا وعدہ ہے۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ،

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔

سورہ صف آیت 8

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
1 | Syed Hadi Hussain kirmani | | ٠٧:٤٣ - ٢٦ August ٢٠٢٠ |
Masha Allah achi kosish . Jazak Allah....
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی