2024 April 25
روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر سعودی اتحاد کی مجرمانہ خاموشی
مندرجات: ١٠١٢ تاریخ اشاعت: ١٦ September ٢٠١٧ - ١٢:٤٣ مشاہدات: 1126
خبریں » پبلک
روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر سعودی اتحاد کی مجرمانہ خاموشی

روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور نقل مکانی پر مسلم ملکوں کی خاموشی افسوسناک ہے ۔یہ خاموشی ہماری کمزوری اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی
بقلم؛ عادل فراز
    روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور نقل مکانی پر مسلم ملکوں کی خاموشی افسوسناک ہے ۔یہ خاموشی ہماری کمزوری اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے ۔اگر عالمی سطح پر تمام مسلم ممالک متحد ہوجائیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت انہیں سرنگوںنہیں کرسکتی مگر جنکی سرشت میں غلامی ہو وہ کبھی آزادی کا نعرہ بلند نہیں کرسکتے ۔برما میں مظلوم مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا جارہاہے ۔انکی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے ۔بچوں اور جوانوں کو زندہ جلایا جارہاہے ۔حیوانیت اور درندگی کا ننگاناچ حکومت کی ناک کے نیچے جاری ہے مگر حکومت مظلوموں کی مدد کرنے کے بجائے فسادیوں اور قاتلوں کی پشت پناہی کررہی ہے ۔پولیس اور فوج کا رویہ بھی قابل مذمت ہے ۔جس ملک کی انتظامیہ عوام کے خلاف فسادیوں اور قاتلوں کا ساتھ دے رہی اس ملک کی بقا کی امید نہیں کی جاسکتی ۔وہ دن دور نہیں ہے جب برما اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہوگا اور دنیا تماشہ دیکھے گی ۔
    برما، میانمار کا قدیمی نام ہے ۔مگر سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی کے بعد اس ملک کا نام ایک قومیتی گروپ کے نام پر ۱۹۸۹ میں میانمار رکھا گیا ۔برما میں ۶ کروڑ کے قریب مختلف نسل اور مذاہب و مسالک کے افراد رہتے ہیں۔ ۸۰ فیصد آبادی سنی اور شیعہ مسلمانوں کی ہے ۔بدھ اور دیگر مذاہب کے افراد کی کل تعداد ۲۰ فیصد ہے ۔بدھشٹوں کی کل آبادی ۹ فیصد سے زیادہ نہیں ہے مگر مہاتما بدھ کے فلسفۂ امن کا بکھان کرنے والے ہی تشدد اور بربریت کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں۔چونکہ مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی صورتحال بہتر نہیں تھی اس لئے ۹ فیصد آبادی نے ۸۰ فیصد آبادی پر غلبہ حاصل کرلیا اور نسل کشی کا بھیانک کھیل جاری ہے۔کم از کم برمی مسلمانوں کی حالت زار سے دیگر علاقوں کے مسلمان سبق لیں اور اپنی اقتصادیات ،تعلیمی حالت اور سیاسی صورتحال کو بہتر کریں تاکہ انکی اکثریت پر ایک معمولی اقلیت مسلط نہ ہو جیساکہ آج تک ہوتا آیاہے ۔
    برما کی خاتون سیاستمدار آنگ سوچی کو امن کی کوششوں کے لئے نوبل ایوارڈسے بھی نوازا جا چکا ہے ۔برما کے حالات کے پیش نظر نوبل ایوارڈ کی حقیقت اور اسکی اہمیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتاہے ۔جبکہ نوبل انعام کمیٹی نے یہ واضح کردیاکہ آنگ سوچی سے نوبل ایوارڈ واپس لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی لائحۂ عمل موجود ہے جسکے تحت ان سے یہ ایوارڈ واپس لیا جاسکے ۔ظاہر ہے نوبل جیسے ایوارڈ سامراجی طاقتوں کے ذریعہ دیے جاتے ہیںاور یہ طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کی حامی رہی ہیں۔انکے نزدیک امن کا قیام دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کے خاتمہ کے ساتھ ہی ممکن ہے ۔جبکہ اس حقیقت کو بھی دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ واقعات رونما ہوتے ہیں انکا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا جاتاہے ۔اس کے جرم میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو مشکوک بنادیا گیا اور مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کی آڑ میںتباہ و برباد کردیا گیا ۔مگر برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی واضح رد عمل سامنے نہیں آیا ۔کیا غیر مسلموں کا قتل ہی دہشت گردی ہے اور مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قیام امن کے زمرہ میں آتاہے ؟۔یہ دوہرا معیار کیوں اپنایا جاتاہے ۔اگر دہشت گردی مسلمانوں کے خلاف سامراج کا ہتھیار ہے تو پھر مسلم ملک اپنی بے غیرتی کےاندھے کنویں سے باہر نکلیں اور اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں۔
    امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نظارت سعودی عرب کی قیادت میں ۳۴ مسلم ممالک کا اتحاد کن اہداف کے پیش نظر ہوا تھا ؟۔اگر یہ عظیم اتحاد مسلمانوں کے قتل عام اور ظلم و تشدد کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے کی جرآت نہیں کرسکتاہے تو پھر اس اتحاد کا فائدہ کیاہے؟ آیایہ اتحاد مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں پر غورکرنے کے بجائے فقط ایران دشمنی میں اٹھایا گیا قدم تھا ؟اگر خطہ میں ایران کی بالا دستی اور اسکے اثرات کو ختم کرنے کے لئے یہ اتحاد امریکہ کے اشارے پر وجود میں آیا تھا تو ظاہر ہے کہ اس اتحاد میں اتنی جرآت کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ سامراجی سازشوں کے خلاف اپنے مؤقف کی وضاحت کرسکے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور نقل مکانی پر فقط ایران اور ترکی نے آواز احتجاج بلند کرتے ہوئے انکی ہر مدد کا اعلان کیا ۔ترکی اور ایران نے متاثرین کے لئے غذائ رسد اور دوائیوں کی کھیپ بھیجی ہے ۔ایران اب تک سو ٹن سے زیادہ غذائ و طبی سامان بھیج چکاہے ۔عالمی سطح پرمسلم حکومتوں اور عالمی برادریوں کےخوابید ضمیر وں کوجھنجوڑ نے کی پیش رفت بھی ایران ہی کررہاہے ۔ایران اور ترکی کے احتجاج کے بعد ہی اقوام متحدہ اور دوسری حقوق انسانی کی تنظیموں نے برمی مسلمانوں کے نسل کشی اور نقل مکانی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے موجودہ حالات کی مذمت کی تھی۔مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ مسلم ممالک نیند میں نہیں ہیں بلکہ بن کے سوئے ہوئے ہیں۔سوئے ہوئے کو جگانا آسان ہے مگربن کے سوئے ہوئے کو جگانا مشکل ہوتاہے ۔
    برمی شدت پسند تنظیموں اور حکومت کے تشدد کا شکار تمام مسلمان ساحلی علاقوں میں جمع ہیں۔مگر وہاں بھی انکی جان ،مال اور عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے ۔ان پر شب خون مارے جارہے ہیں اور قتل کرکے لاشوں کو سمندر کے حوالے کردیا جاتاہے تاکہ لاشوں کا شمار بھی نہ کیا جاسکے ۔گیارہ ہزار سے بھی زیادہ مسلمان تھائ لینڈ کے کیمپوں میں مقیم ہیں ۔تھائ لینڈ دنیا میں قحبہ خانوں کےلئے مشہور ہے ۔تھائ لینڈ کے دلالوں نے مسلمان عورتوں کو انسانی سوداگروں کے ہاتھوں بیچنا شروع کردیا ہے ۔اس وقت تمام برمی مسلمان ملائیشیا، انڈونیشیا ،بنگلہ دیش اور ایران کے ساحلوں پر مدد کے منتظر ہیں۔لاکھوں مسلمانوں بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں اور پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بنگلہ دیش حکومت نےلاکھوں مہاجرین کوپناہ ضرور دی ہے مگرچار لاکھ سے بھی زیادہ افراد کو خوراک ،دوائیاں اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کرانا آسان کام نہیں ہے ۔ان مشکلات کے پیش نظر بنگلہ دیش نے اپنی سرحدی سکیورٹی کو بڑھادیاہے تاکہ مزید پناہ گزین بنگلہ دیش میں داخل نہ ہوسکیں۔وہ مسلمان جو دریائی راستوں سے بنگلہ دیش میں داخل ہونا چاہتے تھے انہیں بنگلہ دیشی فورسیز نے دریا میں ہی مار گرایا اور زبردست خون آشامی کی ۔
    ایران بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں مہاجر کیمپ اور صحرائی دواخانے بنانے کا اعلان کرچکاہے۔ترکی بھی متاثرین کی مدد کے لئے ہر ممکن مدد کررہاہے مگر سعودی عرب اور اسکے اتحاد ی ممالک اندھے بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں۔رسول اسلامؐ کی حدیث ہے کے مطابق وہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگرایک عضو کو تکلیف پہونچتی ہے تو پورا جسم درد سے بلبلا اٹھتاہے مگر اللہ جانے کیوں سعودی عرب کو روہنگیائی مسلمانوں کا درد محسوس نہیں ہورہاہے ۔اگر سعودی اتحاد روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کے لئے ٹرمپ کے اشارے کا منتظر ہے تو اسکا یہ انتظار قیامت تک باقی رہے گا ۔
    ہمارے ملک ہندوستان کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کبھی یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ظالم کا ساتھ دیں یا مظلوم کی حمایت کریں۔فلسطینی مظلوموں اور بیت المقدس کی بازیابی کے لئے اکّا دکّا مسلمان احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔عالمی یوم القدس کے موقع پر یہ کہکر احتجاج سے دامن بچاتے ہیں کہ یہ تحریک امام خمینی کی شروع کی ہوئی ہے اس لئے اس تحریک سے دوررہنا ہی بہتر ہے ۔یمن اور شام کی تباہی پر بھی وہ پنبہ در گوش و دہن رہے کیونکہ سعودی حکومت کے خلاف بولنا گویا اسلام کے خلاف بولنے کے متراد ف سمجھا گیا ۔مگر روہنگیائ مسلمانوں پر تشدد کے خلاف احتجاج کی آوازیں ضرور سنائی دیں۔مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ آج بھی سعودی عرب کی اندھی تقلید جاری ہے ۔کسی ایک مسلم تنظیم اور سیاسی ملائوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ آخر سعودی عرب جو خود کو اسلام کا ٹھیکدار سمجھتاہے اس نے مظلوم روہنگیائی مسلمانوں کی مدد میں پیش رفت کیوں نہیں کی؟ اگر مسلمان یہ سوال کرنے کی جرآت نہیں رکھتاہے تو اسے مظلوم روہنگیائی مسلمانوں کے لئے احتجاج کرنے کا بھی کوئ حق نہیں ہے ۔




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات