موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
ابن تیمیہ : اللہ نے بھی توحید کو نہیں سمجھا ہے
مندرجات: 1882 تاریخ اشاعت: 21 ارديبهشت 2021 - 13:08 مشاہدات: 3134
وھابی فتنہ » پبلک
ابن تیمیہ : اللہ نے بھی توحید کو نہیں سمجھا ہے

 

ابن تيميه ایسا آدمی ہے کہ جو بہت سے اہل سنت کے علماء کی نظر میں  ایک ایسا منفور شخص ہے کہ جس کے افکار قرآن و سنت اور اھل بیت کے مخالف ہیں ۔ ابن تیمیہ نے  فکری تعصب اور اندھا پنی کی وجہ سے بہت سے موقعوں پر ایسے  مطالب بیان کیے ہیں کہ جو واضح طور پر کفر آمیز اور قرآن اور سنت کے خلاف ہیں ۔

انہیں مطالب میں سے  ایک یہ ہے کہ وہ توسل کے بارے میں  واضح طور پر کہتا ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوں اور اللہ نے انہیں اپنے سے متوسل ہونے والوں کی حاجت روائی کی اجازت بھی دی ہو لیکن پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ انبیاء سے ان کے مرنے کے بعد توسل کرئے  :

فليس لنا أن نطلب ذلك منهم وكذلك الأنبياء والصالحون وإن كانوا أحياء في قبورهم وإن قدر أنهم يدعون للأحياء وإن وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك

ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم انبیاء اور صلحاء سے ان کے مرنے کے بعد کچھ طلب کریں یہاں تک کہ یہ اپنی قبروں میں زندہ بھی ہوں اور یہ بھی مقدر ہوا ہو کہ وہ زندوں کے لئے دعا کرئے ،پھر بھی کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کوئی ان سے دعا کرنے کے لئے کہے ۔

 قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة ج 1ص 136 ، اسم المؤلف:  أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728 ، دار النشر : المكتب الإسلامي - بيروت - 1390 - 1970 ، تحقيق : زهير الشاويش

مجموع الفتاوى  ج 1 ص 330 ، دار النشر : مكتبة ابن تيمية ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي

ابن تیمیہ کی اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آگر انبیاء اور اولیاء سے توسل ان کے مرنے کے بعد قرآن و سنت کی نگاہ میں جائز بھی ہو پھر بھی وہ اس کو قبول نہیں کرئے گا ۔ کیونکہ وہ خود ہی واضح طور پر کہتا ہے کہ یہ انبیاء اور اوصیاء کے حق میں ثابت بھی ہو پھر بھی وہ اس کو قبول نہیں کرئے گا

ابن تیمیہ اس مطلب کے ذریعے کچھ مطالب کو زیر سوال قرار دینا چاہتا ہے ۔

1-انبیاء کا ان کی قبروں میں زندہ ہونے کا انکار۔

  انبياء کا ان کی قبروں میں زندہ ہونا اهل سنت  کے اعتقادات میں شامل ہے ،یہاں تک کہ وھابی بھی ہو اس کا انکار نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی صحیح احادیث نقل ہوئی ہیں اور ابن تيميه مندرجہ بالا عبارت میں اس عقیدے  کو خراب کرنا چاہتا ہے حتی ابن تیمیہ نے اپنی کتابوں میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔  

وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم۔۔۔

انبیاء اور صلحاء اگرچہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔

مجموع الفتاوى  ج 1   ص 330 ، اسم المؤلف:  أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728 ، دار النشر : مكتبة ابن تيمية ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي

جیساکہ علامه سبکي کہ جو بڑے شافعي علماء میں سے ہیں ،آپ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

ومن عقائدنا أن الأنبياء عليهم السلام أحياء فى قبورهم فأين الموت 

ہم اھل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،پس انہیں موت کہاں سے آئی ؟

طبقات الشافعية الكبرى  الإمام العلامة / تاج الدين بن علي بن عبد الكافي السبكي ج 3 ص 384

یہاں تک کہ وھابی فکر رکھنے والا البانی بھی اس روایت کو صحیح مانتا ہے ۔

 621 - ( صحيح )

 [ الأنبياء صلوات الله عليهم أحياء في قبورهم يصلون ] .

انبیاء(ص) اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ۔

السلسلة الصحيحة الباني - (ج 2 / ص 187)

سيوطي: نے اس سلسلے میں موجود روایات کے متواتر ہونے کا ادعا کیا ہے ۔

 اهل سنت کے بزرگ عالم سیوطی لکھتے ہیں :.

فأقول حياة النبي صلى الله عليه وسلّم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [ به ] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءاً في حياة الأنبياء في قبورهم .

میں کہتا ہوں : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سارے انبیاء علیہم السلام کا ان کی قبروں میں زندہ ہونا ہمارے نذدیکی یقینی طور پر ثابت ہے کیونکہ اس پر ہمارے پاس دلائل موجود ہیں اور اس سلسلے میں متواتر اخبار ہیں اور امام بہیقی نے اپنی کتاب کا ایک حصہ اسی { حياة الأنبياء في قبورهم }کے ساتھ مختص کیا ہے ۔

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، الحاوي للفتاوي في الفقه وعلوم التفسير والحديث والاصول والنحو والاعراب وسائر الفنون، ج2، ص139،  تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

لیکن اس سلسلے میں دوسری بات کہ جو عقیدہ توحید کے اصولوں کے خلاف ہے اور  اس کی جسارت اور جھالت کو بیان کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر انبیاء زندہ بھی ہوں اور انبیاء متوسل ہونے والوں کی حاجت روائی بھی کرسکتا ہو پھر بھی ان سے متوسل ہونے کا حق نہیں ۔

  اب اگر ایسا ہے تو خود ابن تیمیہ دوسری جگہ پر کیوں یہ اعتراف کرتا ہے کہ نہ صرف انبیاء ایسا کام کرنے  اور اپنے سے حاجت طلب  کرنے والوں کی حاجت روائی پر قادر ہے ۔بلکہ عملی طور پر جواب بھی دیا ہے اور اس قسم کے واقعیات بہت زیادہ ہیں ۔

وكذلك ما يذكر من الكرامات وخوارق العادات التي توجد عند قبور الأنبياء والصالحين مثل نزول الأنوار والملائكة عندها وتوقي الشياطين والبهائم لها واندفاع النار عنها وعمن جاورها وشفاعة بعضهم في جيرانه من الموتى واستحباب الاندفان عند بعضهم وحصول الأنس والسكينة عندها ونزول العذاب بمن استهان بها فجنس هذا حق ليس مما نحن فيه وما في قبور الأنبياء والصالحين من كرامة الله ورحمته وما لها عند الله من الحرمة والكرامة فوق ما يتوهمه أكثر الخلق لكن ليس هذا موضع تفصيل ذلك

جیساکہ  انبیاء اور صلحاء کی قبروں کے پاس واقع ہونے والی جو کرامات اور تعجب آمیز باتیں نقل ہوئی ہیں ،مثلا نور  اور ملائکہ کا نزول ، شیاطین اور حیوانوں  کو اسیر کرنا ، بعض قبروں سے آگ کے شعلے بڑھک اٹھنا، ان میں سے بعض کا اپنے ساتھ والے کی شفاعت کرنا.  ان میں سے بعض کا بعض سے انس و محبت اور ایک دوسرے کی وجود سے آرام و سکون کا حصول  اور بعض کی وجہ سے عذاب کا نازل ہونا ، یہ باتیں حق ہیں اور یہ باتیں مورد بحث اور محل نزاع نہیں ہیں۔ جو انبیاء اور اولیاء کے قبور سے ظاہر ہوتے ہیں یہ کرامات اور اللہ کی رحمت  کا کرشمے ہیں اللہ کے نذدیک ان کا مقام لوگوں کے تصور سے بہت زیادہ ہے ۔

اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم ، اسم المؤلف:  أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728 ، دار النشر : مطبعة السنة المحمدية - القاهرة - 1369 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : محمد حامد الفقي ج 1  ص 374

جو تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء اور اولیاء کے قبور سے جو کرامات ظاہر ہوتے ہیں تو ایسا مقام اور ایسے کرامات اللہ کے اذن اور حکم سے ہے یعنی انہوں نے ایسے کام انجام دئے ہیں کہ جس پر اللہ راضی ہے اور اللہ نے اس کام کے انجام دینے کا حکم اور اذن دیا ہے .

 لہذا ہماری بحث کا نتیجہ یہ ہے : ابن تیمیہ یہ کہنا چاہتا ہے ۔

 میں جانتا بھی ہوں اور کہتا بھی ہوں : اللہ کی طرف سے یہ بات طے ہے کہا انبیاء اور اولیاء حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرسکتے ہیں اورجو  انہیں  نے جواب دیا ہے وہ لوگوں کے تصور اور گمان سے کہیں زیادہ ہے اور یہ ان قبروں سے اللہ کی رحمت کی بارشیں ہیں  ،اگرچہ یہ کرامتیں اللہ کی طرف سے اور اللہ کے اذن سے ہیں ۔

لیکن ان سب کے باوجود میں ابن تیمیہ اللہ کے اس کام کی مخالفت کرتاہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ نے توحید کے معنی کو نہیں سمجھا ہے{نعوذ باللہ } اور میں اللہ کے برخلاف کہتا ہوں : یہ کام شرک ہے اور کسی کو ایسا کام کرنے کا حق نہیں ہے ۔   

ابن تیمیہ کے پیروکاروں سے ہمارا سوال :

1-کوئی اس طرح علی الاعلان اللہ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

2-کیا نعوذ باللہ، اللہ بھی مشرک ہے ؟

3- کیا نعوذ باللہ ، اللہ نے توحید کے معنی کو نہیں سمجھا ہے  ؟

4-کیا ابن تیمیہ ، اللہ سے بہتر توحید کو سمجھتا ہے ؟

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: